Pages

Wednesday 13 January 2016

I carry your heart with me


آؤ۔۔دوست چلتے ہیں کسی دن منڈین میڈیاکر لائف کو ٹھوکر مار کر اپنی مرضی کا دن گزارتے ہیں

فرصت کے اس دن میں سیپووں سے موتی چنیں گے۔ساحل کی نمی والی دھوپ میں پہروں چلا کریں گے
چلو نا کسی دن چپوؤں والی کشتی پر دریا پار کرتے ہیں اور دریا کے وسط میں کشتی روک کے دھڑکن کی تال پر سانسوں کے بجتے ھوئے اک تارے کی دھن سنتے ھیں۔چلو ایک دن رنگ نسل جنس سے اوپر اٹھ کے گزارتے ہیں۔
کسی پہاڑی کی چوٹی پر نکلتے ہوئے سورج کو یہ جتاتے ھیں کہ میاں ہم بھی کسی سے کم نہیں۔
آؤ۔۔کسی رات چاند کو چاندنی سے فلرٹ کرتاہوا دیکھتے ہیں۔میں جان بوجھ کے تمھارے مگ میں کافی زیاده ڈال دوں گی تاکہ تم غلام علی کی غزلیں سنتے ہوئے سو مت جاؤ۔
آؤ کسی دن پہاڑی چشمے میں پاؤں ڈالے، رگوں میں اترتی ہوئی ٹھنڈ محسوس کرتے ہیں
تم چلو تو کسی صحرا کی ریت چھانتے ہیں۔کسی دشت میں مجنوں کے ہونے کے نشان کھوجتے ہیں۔تم آؤ تو کسی دن چائے کے مگ ھاتھوں میں لیے پھروں۔ سٹڈی میں بیٹھتے ہیں
تم اپنی سوچ کی دھنک لے آنا ،میں اپنے خیال کا سورج لاؤں گی۔پھر کسی نظم پر، کسی شاعر پر، کسی منطق پر، کسی فلسفے پر گھنٹوں لا یعنی بحث کرتے ہیں۔تم اپنا نکتہ مت چھوڑنا۔میں اپنی منوانے کا عزم لیے رکھوں گی۔آؤ وه جو کونے میں دھرا گملہ ہے، اس میں اگنے والی پہلی کونپل کا نام رکھتے ہیں۔ اسے کلی،کلی سے پھول بنتا ہوئے دیکھتے ہیں۔کسی دن لان کی پلاسٹک کی کرسیوں پہ بیٹھے، گل دوپہری کو کھلتے، جوبن پہ آتے، مرجھاتے اور بند ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔پھر اس کی مختصر زندگی پر بلا وجہ اداس ہوتے ہیں۔اداسی زائل کرنے واک پر چلتے ہیں۔آؤ نومبر کی گلابی شاموں میں سردی کی آھٹ سننے چھت پر چلتے ہیں۔تم آؤ تو کسی دن اس روزمره گزرتی ہوئی زندگی میں سے ایک دن نو سے پانچ جیتے ہیں
یہ منڈین لائف ھے! اسے ٹھوکر پر رکھتے ہیں۔  کیوں کہ یہ مجھ سے مجھے اور تم سے تمھیں چھین رہی ہے دوست
تمھیں پتا ہے، یہ روٹین میری تمھارے اندر موجزن پانیوں پر کائی بن کر جمی ہے.....آؤ کسی دن اس روٹین کے اس تالاب میں آوارگی کا کنکر اتنے زور سے مارتے ہیں کہ کنکر بھنور در بھنور بناتا کائی کو تحلیل کر دے اور ہمارے اندر موجزن زندگی پھر سے چلنے لگے

No comments:

Post a Comment