Pages

Monday 4 June 2018

تخیل سے حقیقت تک



لے بنا مرضی کے زمیں پر بھیجا۔ پھر زمیں والوں نے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی زندگانی کا پیٹرن ترتیب دے لیا۔
یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔
ہم سے پوچھا تو جانا چاہیے تھا نا کہ سکول جانا ہے ہم نے یا نہیں؟
آج آئینے میں خود کو دیکھا تو خود پر رونا آیا یہ ہم ہیں؟
ہاتھ میں او ہنری آنکھوں پر ریڈنگ گلاسسز سائڈ پر گلاس میں شفاف پانی پیر میز کے نیچے گھسائے نیم دراز یہ ہم تھے۔۔
فیس واش سے دھلا منہ آنکھوں میں کاجل ہاتھوں کے نیلز پر فرنچ مینی کیور۔۔ حتی کہ بالوں سا گھونسلہ بھی تقریبا سلیقے سے بندھا۔
آپ سب شائد یقین نہ کریں۔ لیکن یہ سچ ہے خود کو بہت سالوں بعد دیکھا۔

منیر نیازی یاد آئے

ہن جے ملیں تے روک کے پُچھاں
ویکھیا ای اپنا حال!
کتھے گئی اوہ رنگت تیری سپاں ورگی چال
گلاں کردیاں گُنڈیاں اکھاں وا نال اُڈدے وال
کتھے گیا اوہ ٹھاٹھاں ماردے لہو دا انہاں زور

آئینے میں کھڑا یہ کوئی اجنبی تھا ہم تو نہ تھے۔ اتنی تہذیب چھلکاتا چہرہ کوئی اور تھا۔
فراق کے عشق نے،اور ہمارے زندگی نے سارے کس بل نکال دیئے۔
ہم نے نیازی کی نظم زیر لب گنگناتے عہد رفتہ کو آواز دی۔ہم خود کو روک کر پوچھنے کا فیصلہ کیا کہ۔۔۔۔ویکھیا ای اپنا حال۔
مصرعے کی تکرار سے گھبرا کر یا اکتا کر اندر کے جنگلی نے لٹھ مار انداز میں پوچھا کیا ہے۔

ہم نے پوچھا ویکھیا ای اپنا حال؟
جواب آیا ہمارا حال ویسا ہی ہے یہ تم ہو جو بدلی ہو۔
جواب نے گھڑوں پانی ڈال دیا۔ یعنی ہمارے اندر وہ جو مستقل ناراض روٹھی روٹھی سی روح ہے وہ ہم ہی ہیں۔
گویا
یہ مجلسی تبسم میرا رازداں نہیں ہے۔
آپ سب بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ایسا کیا کر دیا زمانے نے ہمارے ساتھ جو ہم پہلیاں بجھوا رہے۔
ہوا کچھ یوں کہ آئینے میں خود کو دیکھ کر شدید دھچکا لگا۔
خود کو پہچان نہ پانا کیسا جانگسل ہوتا ہے یہ اس پر دیسی سے پوچھے کوئی جو جیسا دیس ویسا بھیس اپناتے اپناتے خود سے اجنبی کی طرح ملنے لگتا ہے۔ خود کو اوروں کی آنکھ سے دیکھنے لگتا ہے۔
کیسا کرب ہوتا ہوگا نا۔
ویسا ہی کرب تھا،اداسی تھی۔
یہ تخیل نہیں۔ حقیقت ہے۔

اگر سکول نہ بھیجتے تو بہت سی کرئیر اوپرچیونیٹیز ہوتیں ہمارے پاس۔ گینکسٹر بن جانا کیسا رہتا۔ جنگل میں ایک ٹری ہاؤس بناتے دو درختوں کے درمیان جھولے پر بیٹھے ہم رابن ہڈ سا ایک کردار ہوتے۔زور آور کے لئیے جھانسی سی نخوت لیے ہوئے۔ کمزور کے لیے نظام اور اپنے جیسے کے لیے گاڈ فادر۔۔
ناقابل فہم ناقابل اصلاح۔ جو کہ ہم اب بھی ہیں۔
لیکن اس زندگی میں ہم سے کہیں زیادہ ہمارے اردگرد کی خوشی ان کا اطمینان ہے۔
ہم ہوتے تو گینکسٹر ہوتے پائریٹ ہوتے۔ ہمارا نام بیک وقت خوف کی اور امید کی علامت ہوتا۔
ہم ہر بے جاں تکلف سے بغاوت کردیتے۔

خاموشی ہمارے ہاں ایمانداری کہلاتی ہے۔
اپنے حق کے لیے ڈٹ جانا بے شرمی۔
کیسا خوبصورت معاشرتی نظام ترتیب دے رکھا ہے ہم نے۔
اور ہر دوسرا شخص مستقل ناخوش ہے۔
جنگل میں نشانہ بازی کرتے دشمنوں سے لڑتے ایک جنگجو۔ جس کے ماورا عقل قصے مقامی آبادیاں خود گھڑ لیتیں۔
اور جو سمندر کی آنکھ میں موجزن طوفانوں کے آنے سے پیشتر اپنی سپاہ کو جزیروں کے سکون میں اتار لیا کرتے۔
دشمنوں اور دوستوں دونوں کو اغوا کرلیا کرتے۔
دشمنی میں حد سے گزرنے کے لیے۔
اور دوستی حد سے گزارنے کے لیے۔
بلا کے شدت پسند تو ہم اب بھی ہیں۔
تب ہمارے شدت پسندوں انتہاپسندوں گویا حکومتوں سے رابطے رہا کرتے۔
ہمارے جنگلوں جزیروں پر پولیس نہ ہوتی۔ کیونکہ استحصال کی کسی صورت اجازت نہ ہوتی۔ وہاں جرم ہی نہ ہوتا تو پولیس کی کیا ضرورت۔اب آپ سب سوچ رہے ہوں گے کہ کیسی مجرمانہ ذہنیت پائی ہے ہم نے کیسا انتہا پسند رویہ ہے۔ اور کیسی ایروگینس ہے۔
ارے بھائی رکھئے چیف جسٹس صاحب اتنے ججمنٹل مت ہوئیے آپ کو اس کی ہرگز تنخواہ نہیں ملتی۔
گویا آپکو بھی لگتا ہے یہ سب نہیں ہوتا ہمارے خاندانی روایات والے معاشرے میں؟
آپ بھی یہ سمجھتے ہیں مشرقی روایات والے معاشرے کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہآں خواتین مجرمانہ نہیں سوچتیں۔
ہماری بچیاں بڑی نیک ہوتی ہیں ایسے سوچ ہی نہیں سکتیں کرنا تو درکنار۔ وہ تو کاکروچ اور چھپکلی سے ڈر جاتی ہیں کہاں جنگلوں میں رہ سکتی ہیں۔
وہ تو کچن نائف بمشکل ہینڈل کرتی ہیں۔ اسلحہ کہاں چلا پائیں گی۔

سوال۔۔آپ نے پوچھا اپنی بچیوں سے؟
الجواب
پوچھنے کی کیا ضرورت۔۔ ہمیں سب معلوم ہے۔
گویا آپ غیب کے علم جانتے ہیں؟
توبہ استغفار یہ کیسی بات ہے۔
بھئی ہمیں معلوم ہے تو معلوم ہے۔
منطق کو ناک آؤٹ کرنے والے اس استدلال پر ہم سبحان اللہ کہہ سکتے ہیں کہہ دیا۔

ہم بھی عجیب ہیں۔
اتنے عجیب کہ بس!!
جہالت کا نام معصومیت رکھ چھوڑا ہے۔
شعور کا چالاکی
آزادی اظہار پر قدغن لگا کر 147تربیت148 کرتے ہیں
اور منافقت معاشرتی اقدار کہلاتی۔
چوں چوں کا مربہ ترتیب پانے کے بعد خاندانی نظام کہلاتا ہے۔
اور استحصال کا نام ہے محبت۔
ہم بھی عجیب ہیں۔

منیر نیازی کہتا ہے۔

اس شہر سنگدل کو جلا دینا چاہیے
پھر اس کی راکھ کو بھی اڑا دینا چاہیے

خاموشی ہمارے ہاں ایمانداری کہلاتی ہے۔
اپنے حق کے لیے ڈٹ جانا بے شرمی۔
کیسا خوبصورت معاشرتی نظام ترتیب دے رکھا ہے ہم نے۔
اور ہر دوسرا شخص مستقل ناخوش ہے۔
ہر گھر میں یہ کہانی ہے مائیں بچوں کو ددھیال سے ملنے نہیں دیتیں۔
ایک صاحب کو کہتے سنا میرے بچے مجھے ولن سمجھتے ہیں۔ بچے سمجھتے ہیں سارا ددھیال ان کے خلاف سازش میں شریک ہے۔
بظاہر یہ کتنی عام کتنی سطحی باتیں ہیں۔ ذرا ویژن براڈ کر کے دیکھیں تو سارا معاشرہ اسی گھن۔چکر کا شکار ہیں۔
ہر شخص کو لگتا ہے دوسرا اس سے حسد کرتا ہے اس کے خلاف سازش میں شریک ہے۔
اور اس پر ہمارا یہ دعوی کہ کل عالم ہمارے اسی استحصالی خاندانی نظام کو تباہ کرنے پر تلا ہے کہ اس کے سوا چارہ نہیں۔

لوگو!جس خدا کہ ان دیکھے احکامات کی آڑ میں آپ زمینی خدا کا عہدہ پا چکے ہیں اس کا خوف کھائیے۔ استحصال کو محبت کہنا ہی چھوڑ دیجئے۔
وگرنہ جس تیزی سے آپ کا فیملی سسٹم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے مستقبل اس کی توڑ پھوڑ میں سپیڈ لمٹ بڑھانے ہی آئے گا۔ جس قدر گھٹن بڑھے گی اتنی تیزی سے مصنوعی لحاظ کے پردے چاک ہوں گے۔
کسی دن ججمنٹل ہوئے بغیر صرف مشاہدے کی غرض سے اپنے معاشرے کا مشاہدہ کیجئے۔ اندازہ ہوگا کہ بھس کے ڈھیر پر دیا سلائی لیے ہم بیٹھے ہیں۔ اب دیکھیئے کب یہ بھس آگ پکڑ لے اور کب یہ اعلی روایت کا حامل معاشرہ اپنی ہی آگ میں جل کر خاک ہوجائے۔
اس سے پہلے اگر کچھ سو خالص تقاضوں کی قربانی دے کر کچھ بچا سکتے ہیں تو بچا لیں۔ کیونکہ جب دریا چڑھ جاتے ہیں تو بندھ توڑنے پڑتے ہیں اسباب بچانے کے لیے طوفان کو راستے دینا پڑتے ہیں۔
وگرنہ مکمل تباہی زیادہ دور کا قصہ نہیں۔ دیوانے کی بڑ سمجھ کر خواب غفلت جاری رکھ سکتے ہیں۔

جاتے ہوئے آئینے والے اجنبی کو سنائی ہوئی نظم سنیے

ﮐﺒﮭﯽ ﮨﻢ بھی ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺗﮭﮯ !
ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺴﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ
ﺳﺎﻧﺲ ﺳﺎﮐﻦ ﺗﮭﯽ !۔۔۔
ﺑُﮩﺖ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﮩﮯ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﺳﮯ
ﺗﺼﻮﯾﺮﯾﮟ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ
ﭘﺮﻧﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﭘﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﻧﻈﻢ ﻟﮑﮫ ﮐﮯ
ﺩﻭﺭ ﮐﯽ ﺟﮭﯿﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺴﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ
ﮐﻮ ﺳُﻨﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ
ﺟﻮ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺗﮭﮯ
ﻟﯿﮑﻦ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ
ﻧﺌﮯ ﺩﻥ ﮐﯽ ﻣُﺴﺎﻓﺖ، ﺟﺐ ﮐﺮﻥ ﮐﮯ
ﺳﺎﺗﮫ آﻧﮕﻦ ﻣﯿﻦ ﺍُﺗﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ
ﺗﻮ ﮨﻢ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﮭﮯ
ﺍﻣﯽ ﺗﺘﻠﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺮ ﮐﺘﻨﮯ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮨﯿﮟ
ہمیں ماﺗﮭﮯ ﭘﮧ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﻭ ﮐﮧ
ﮨﻢ ﮐﻮ ﺗﺘﻠﯿﻮﮞ ﮐﮯ
ﺟﮕﻨﻮؤﮞ ﮐﮯ ﺩﯾﺲ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯ۔۔
ﮨﻤﯿﮟ ﺭﻧﮕﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﮕﻨﻮ، ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﯽ
ﺗﺘﻠﯿﺎﮞ آﻭﺍﺯ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﻧﺌﮯ ﺩﻥ ﮐﯽ ﻣُﺴﺎﻓﺖ ﺭﻧﮓ ﻣﯿﮟ ﮈﻭﺑﯽ ﮨﻮﺍ
ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﮐﮭﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﺑُﻼﺗﯽ ﮨﮯ
ﮨﻤﯿﮟ ﻣﺎﺗﮭﮯ ﭘﮧ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﻭ

شادی: مناسب وقت، ذاتی آزادی اور Out Of The Box بولڈ فیصلے



عمر کے اس حصے سے گزر رہے ہیں جہاں ہر دوسرے دن کسی دوست کا پیغام موصول ہوتا کہ اسے 147عمر قید148 ہو رہی۔ مبارک باد دیتے ہوئے دل خوشی اور عجیب اداسی کا آماجگاہ بنا ہوتا ہے۔
خوشی اس بات کی کہ میرے دوست ٹھکانے لگ رہے ہیں زندگی کے نئے پڑاؤ کی طرف گامزن ہو رہے ہیں۔ عرف عام میں یوں کہ سیٹل ہورہے ہیں۔ اور اداسی یہ کہ دوستوں کی نمک کی کان میں نمک ہوتا دیکھنا پڑتا ہے۔
ویسے تو اللہ کا ہر ہر بات پر بے پناہ شکر بنتا ہے۔
لیکن اس بات پر یقینا ہمارا مشکور ہونا ناگزیر ہے کہ زیادہ تر دوست 147نارمل148 ہی ہیں۔ خوشی کی بات پر خوش ہی ہوتے ہیں۔
لیکن جنس با جنس پرواز کا مظاہرہ بھی تو ہونا ہی تھا نا۔
لہذا کچھ دوست ہم سے بھی ہیں۔ تھوڑے پاگل تھوڑے فسادی بہت عجیب اور مستقل اداس پلس ناراض۔
ایسی ہی ایک دوست سے مفصل گفتگو کے بعد یہ تحریر لکھنے کی تحریک ملی۔
تو ہم سی ہی اس دوست کا مسئلہ یہ ہے انہیں سپیس چاہیے پرسنل فریڈم کی گارنٹی چاہیے ہر رشتے میں۔ اور پورا ہیومن سٹیٹس چاہیے ہر تعلق سے۔
آسان زبان میں کہا جائے تو خاتون کو شادی سسٹم میں موجود مسائل نئی زندگی شروع کرنے سے ڈراتے ہیں۔
دو دن دو راتیں ہم نے بستر پر چت لیٹ آسمان ہمارا مطلب ہے چھت کو گھور گھور کر غور کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس موضوع پر اب اگر نہ لکھا تو بہت بڑا اپ شگن ہوجائے گا۔اور ٹیپکل پاکستانی کی طرح ہم بھی اپ شگن سے بہت ڈرتے ہیں۔
خیر۔۔۔پیاری سہیلی۔ اور سہیلیو! سیانے کہتے ہیں کہ شادی کے لیے پرفیکٹ ٹائم اور پرفیکٹ جوڑ کبھی میسر نہیں ہوتا۔ خود ہی کمپرومائز کر ٹھوک بجا کر صحیح کرنا پڑتا ہے میسر وقت بھی اور سپاؤز بھی۔
یاد رہے یہ سپاؤز ہے سپوز نہیں۔ ایک ہی نکتے سے محرم مجرم بھی بن جایا کرتے۔
بالکل ایسے ہی ہم نے بہت ساری چھوٹی چھوٹی باتیں اکھٹی کر کے اپنی زندگیاں اتنی مشکل کر لی ہیں کہ اب آسانی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔
گلزار کے الفاظ میں کہا جائے تو یوں کہ۔۔

ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں

اب سمجھ نہیں آتا کہاں سے شروع کیا جائے کونسا دھاگہ کھینچا جائے کہ یہ ریشم سلجھ جائے ٹوٹنے سے پہلے۔ کیونکہ دھاگہ توڑ دینا تو کوئی حل نہ ہوا۔ ٹوٹے ہوئے سرے کہاں کہاں۔سے جوڑیں گے ہم؟
ہم سی بہت سی لڑکیاں جو یہ سمجھتی اور برملا کہتی ہیں کہ شادی ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ اور وہ 147آؤٹ آف دی باکس148 سوچتے ہوئے اکیلے رہنے کا فیصلہ کرنا چاہتی ہیں۔ تو ان سب کی خدمت میں عرض کرنا چاہتی ہوں کہ آؤٹ آف دی باکس سوچنے کا مطلب فطرت انسٹنکٹ سے فرار نہیں ہوتا۔
اکیلے رہنے کا فیصلہ نئے تعلقات بنانے سے خوفزدہ ہونا اور اپنی پرسنل فریڈم کے کھو جانے کا خوف بولڈ فیصلہ نہیں کہلاتا۔
مضبوط اور بولڈ فیصلے وہ ہوتے ہیں جب آپ اپنی ذات کے ساتھ وابستہ دوسرے لوگوں کہ آسانی خوشی کے لیے کچھ آزادیاں خوشی سے سرنڈر کرتے ہیں۔
بڑا ہی روایتی سا جملہ ہوگیا ہے۔ پر کیا کریں یہ ہی سوسائٹی کو چلانے کے اصول ہیں کو ایگزسٹنس۔۔ امداد باہمی۔

اب آتے ہیں پرسنل فریڈم پر۔ تو ایسا ہے پرسنل فریڈم سا شعور ہمارے معاشرے میں ابھی خواب ہے خواب نا تمام جس کی تعبیر تراشنے کے لیے ہمیں نسلوں کی تربیت کرنا پڑے گی۔ ہمیں اپنی بیٹیوں کو سکھانا پڑے گا سپیس دینے سے شوہر کسی اور کا نہیں ہوجاتا۔ ہمیں اپنے بیٹوں کو عورت کو پورے فرد کا سٹیٹس دینا سکھانا پڑے گا۔
ہمیں اپنے بچوں کو حق اختیار فرائض لینے دینے کے ساتھ آزادیوں کا احترام سکھانا پڑے گا۔ اس کے بغیر تو یہ ممکن نہیں کہ صدیوں سے رواجوں کے عفریتوں کے چنگل میں پھنسا یہ سماج پرسنل فریڈم کو تسلیم کرلے۔
سماج میں کوئی بھی تبدیلی اچانک تو رونما نہیں ہوجاتی۔ سالوں دھیمی آنچ پر سلگتے مسائل کا لاوا پھٹ پڑتا ہے تو راہ ملتی ہے۔ پر اس پھٹنے والے لاوا کا بہاؤ کبھی کبھار سماج کو بھی بہا لے جاتا ہے ساتھ۔ اور سماج کا ٹوٹنا تو ہمارے تمہارے کسی کے فائدے میں نہیں ہے نا۔چاہے ہم مانیں یا نہیں لیکن میں اور تم بھی اسی سماج کے سٹیک ہولڈرز ہیں باقی سب کی طرح۔ تو اگر اس سماج کو مزید ٹوٹ پھوٹ سے بچانا ہے اسے نئے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے تو ایفرٹ کرنا پڑے گی۔ بہاؤ کے خلاف تیرنا پڑے گا۔ یہ ہی ہیروک فگر کی نشانی ہے۔
دریا سے باہر چلے جانا تو کوئی ہیرو شپ نہ ہوئی۔
فراز کہتا ہے نا۔

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا۔
اپنے حصے کی کوئی شمع جلانے جاتے۔

اور ایک اور نکتہ سن لو!
آپ یا کوئی بھی شخص ایک خاص حد تک اکیلا رہ سکتا ہے۔
خواتین کے معاملے میں اگر زیادہ متعین طور پہ ہو جایا جائے تو پیاری خواتین ایک خاص عمر تک ہی اکیلے رہ سکتی ہیں آپ۔ اب اس خاص عمر سے کوئی طبعی عمر مراد لے تو اس کی اپنی مرضی۔ ہمارا اشارہ طبعی عمر کی طرف ہے۔
آپ صوفی کے درجے پر بھی فائز ہیں تو بھی فزیکل نیڈز سے انکار نہیں کرسکتے۔
چاہے آپ کا تعلق کسی بھی جنس سے ہو۔
رب کا کہہ لو یا فزیکل سائنس کا کہہ لو لیکن نظام بہرحال یہ ہی ہے۔
ہر ذی روح ہمدم کا محتاج ہے۔ جو نہیں ہے وہ نارمل نہیں۔

مرے جہاں میں سمن زار ڈھونڈنے والے
یہاں بہار نہیں آتشیں بگولے میں

آپ جنت کے حقدار بن جائیں لائبریری وہ بنا دے گا




سکیچ بک والی شہرزاد جیسی ہی ایک دوست ہے۔ بہت پیاری میری۔ سحرو افطار کی دعاؤں میں شامل۔ سوشل میڈیا پر بہت سے اچھے لوگوں میں سے ایک۔ اس سے تعلق آج تک سمجھ نہیں آیا۔ ہم زندگی میں کبھی ملے نہیں، شائد آئندہ بھی کبھی مل نہ پائیں۔ لیکن ہم ایک دوسرے کی خوشیوں، کوششوں، دوستوں، دشمنوں سے واقف ہیں۔ ایک دوسرے کے مزاج آشنا ہیں اور درد آشنا بھی۔ مجھے اس پر غصہ بھی آجاتا ہے جب وہ اوروں کے لیے اپنی زندگی تیاگ دیتی ہے۔ اور جب وہ اوروں سے توقع رکھتی ہے کہ اس کے مسائل حل کریں۔چاہے وہ اور قریبی ہی کیوں نہ ہوں۔ کبھی ڈانٹ دینے کو، غصے میں بول دینے کا بھی جی چاہتا ہے۔ لیکن دل اس سے ناراض ہونے پر مائل نہیں ہوتا۔ اس کے لیے دل کے کسی گوشے میں محبت موجود ہے۔ ایسی محبت جو کسی غرض سے، جزا اور صلے سے اوپر اٹھ کر، کی جاتی ہے۔

ایسی ہی ہے۔ وہ اپنی زندگی کے ایک گوشے پر جب اداس ہوتی ہے تو مجھے یاد کرلیتی ہے۔ میں چپ چاپ سن لیتی ہوں۔ حیرت ہے نا! مجھ سی فسادی طبیعت بھی اسے کوئی الٹا سیدھا مشورہ نہیں دیتی۔ ایسی ہی ہے وہ معصوم سادہ دل۔
ایک دن جب کسی کے آزار، خالق سے شکوے لے بیٹھی تو ناراض ہوگئی  تو کہنے لگی جنت میں بھی اسی ساتھ کو بھگتنا ہوگا کیا۔
پوچھا کس نے کہہ دیا۔
جواب گلیشئر سے سرد لہجے میں کہا اسی زمینی خدا نے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ مذہب پر زور آور کی اجارہ داری ہے۔ اور المیہ یہ کہ اس معاشرے میں زور آور جنس مخالف۔ لہذا مذہب کی مردانہ تشریحات ہی رائج ہیں۔ انہی کو پذیرائی حاصل ہے۔
اس سے پیشتر کہ بلاسفمی کا ٹھپہ لگوا بیٹھوں۔ بہتر ہے خاموش رہوں۔

خیر۔ دوست سے کہا جنت تو چاہتوں کے پورے ہونے کا نام ہے۔
ہر کسی کی ہر خواہش۔
جیسے میری خواہش ہے رب مجھے جنت میں دور جھیل کے کنارے ایک چھوٹا سا ٹری ہاؤس دے دے۔
جس کی کھڑکیوں پر جگنو روشنی کرتے ہوں اور گلاب خوشبو پھیلاتے ہوں۔
میں جب ٹری ہاؤس کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر سامنے دیکھا کروں تو بہت سے ستارے سامنے والی جھیل سے پانی پینے آتے ہوں۔
وہ جس جھیل پر سایہ فگن دھنک سے لٹکتا میرا جھولا ہو۔ جس پر بیٹھ کر جب ہوا کے سنگ اڑوں تو پیروں سے جھیل کے چھینٹیں اڑاتی جاؤں۔
صبح تتلیاں میرے ٹیرس پر اپنے پروں کے رنگ جھاڑ جایا کریں۔ دوپہروں میں مور اپنے پنکھ پھیلائے سورج کو ڈھانپ لیا کریں۔ سپہر ڈھلتے ہی سارے پرندے میری منڈھیر پر بیٹھے دن بھر کے قصے سنائیں۔ گلہریاں آتے جاتے میرے کافی ٹرے سے نٹس اٹھایا کریں۔ میں کافی میکر میں کافی ڈال کر کوئل کی مدھر کوک سنوں۔
شام ہوتے ہی کافی کا کپ پکڑے ٹرانسپرنٹ فرش والے ٹیرس پر جوتوں سے بے نیاز آجاوں۔ فرش کے نیچے ایکوریم سا سماں ہو۔ بہت سی گولڈ فش شیشے سے فرش کو کھٹکھٹا کر ہنس پڑیں۔
نیچے درخت کی کھوہ میں گلہریوں کے جوڑے کا گھر ہو۔ جو نٹس چھپاتے، بھاگتے، دوڑتے میرے گھر کی روٹین کا حصہ ہوں۔
میرا جب اکیلے کافی پینے کا جی نہ چاہے تو ہاتھ بڑھا کر بادل کے قالین پر بیٹھ کر کسی دوست کے گھر چلی جاؤں۔
یا پھر اپنے جنت والے ٹی ہاؤس میں، ایک کونے میں بیٹھ کر اقبال و فیض کا کلام سنوں۔
جناح کے دلائل سنوں آزاد کو سوال پوچھتے جوابدہ ہوتے دیکھوں۔ اور اس ٹی ہاوس کی آٹو لائبریری کو کہوں مجھے کسی قدیم زمانے کی کوئی لوک داستان سنائے۔
اپنے اس دوست کے ساتھ جھیل کے ساتھ ساتھ لمبی واک کروں۔ ہاتھ سینے پہ باندھے خاموشی سے جھیل کنارے درخت کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی رہوں۔ کوئی نظم گنگناؤں۔
ملنے کی درخواست منظور ہوجائے تو رب کے حبیب (صلی علیہ وسلم) سے ملوں۔ کچھ نہ کہوں بس خاموشی کی زباں میں بہت سی باتیں کروں۔
ملنے کا وقت پورا ہوجائے تو پھر ملنے کی درخواست کے ساتھ رخصت ہو جاؤں۔
اسی محفل میں عمر فاروق رضی اللہ سے کہوں۔ آپ نہیں تھے تو ہم نے چار چار سال کے دریدہ بدن بے گورو کفن دفنائے تھے۔ آپ ہوتے تو زندگی ہم سے اس لہجے میں بات کیوں کرتی۔
صدیق اکبر رضی اللہ سے کہوں۔ دور ابتلا سے آئی ہوں۔ روز اک فتنہ پروان چڑھتا تھا۔ اور کوئی محمد (صلی علیہ وسلم) کے رب کی قسم کھا کہ فتنوں کی سرکوبی کو لشکر نہیں بھیجتا تھا۔
عثمان غنی سے ملوں اور کہوں آپ کا نام میرے نام کا حصہ ہے۔ ان سے کہوں آپ کے بعد امت نے ایک ساتھ نماز نہیں پڑھی۔ نہ ایک ساتھ جہاد کیا۔ نہ روزہ رکھا۔ ان سے کہوں آپ کے بعد کوئی جان دے کر مدینہ کی حفاظت کرنے والا نہ رہا۔ ان سے کہوں مجھے جنت والے بییر روما کے پاس بیٹھنے دیں کچھ دیر۔ میں دل سے کینہ نکالنا چاہتی ہوں۔
شیر خدا حیدر کرار کے محل کے سامنے سے گزروں۔ ان سے معافی طلب کروں۔ ہم نے آپ کی اولاد کو پیاسا مار دیا۔ زینب کی دریدہ چادر کے لیے حیدر کرار سے معافی مانگوں۔ ان سے کہوں آپ ہوتے تو حسنین کو، ٹیڑھی آنکھ سے کون دیکھتا۔ اور حسنین ہوتے تو امت کی زینبوں کی چادریں کھینچنے کی جرات کون رزیل کرتا۔ ان سے کہوں غیرت اور بہادری دے دیں۔ میں نے ایسے دور میں عمر کاٹی ہے جہاں غیرت کے معیار الٹ تھے۔ جہاں بہادری کمزور کے استحصال کا نام تھا۔
زینب رضی اللہ سے ملوں ان سے کہوں ایک زینب کھوئی تھی میں اس دن تمام شب آپکی چادر کے چھید پر روتی رہی تھی۔ ان سے کہوں آپ کے پہاڑ جتنے دکھ کا زرہ مجھ پر بھی بیتا تو تڑپ معلوم ہوئی تھی، آپ کا درد جانا تھا۔ میں ایسے دور سے آئی ہوں۔ جہاں ہر روز زینب کی چادر کھینچی جاتی تھی۔ مجھے کچھ دیر اپنے محل میں سستانے دیں۔ یہ داغ دل بھرنے تک یہیں رہنے دیں۔

وہاں سے رخصت لے کر واپس اپنی جنت، اپنے اس خاموش گھر میں چلی آؤں۔ جہاں ہر اس شخص کی آمد ممکن ہوگی جس سے چاہت کا، الفت کا رشتہ ہے۔

سات سالہ عدن دعا کرتی ہے اللہ جنت میں ایک گھر دے، الگ الگ نہ دے کہ کہیں ہم دور نہ ہوجائیں۔
ایسی ہی دعا میری ہے۔۔ اللہ بس جنت کا ایک خاموش ٹکرا دے دے۔
چاہتوں کو پورا کرنے کا وعدہ تو اس کا پہلے سے ہے۔

آپ کو لعنت ملامت نہیں کرنی۔ نہ نصیحت___ بس یہ کہنا ہے آپ جنت کے حقدار بن جائیں لائبریری وہ بنا دے گا۔۔ کہ جنت چاہتوں کی تکمیل کا نام ہے۔

کہانی یہ ہے



کہانی یہ ہے کہ بہت سے دنوں سے کچھ لکھا نہیں جا رہا تھا۔ چلتے پھرتے، کام کرتے، لفظ ذہن و دل میں غدر مچائے رکھتے۔ لکھنے بیٹھتی تو
 جملے ترتیب نہ پاتے۔ میری خامہ فرسائیاں چھاپنے والے پوچھتے کہ لکھتی کیوں نہیں۔ ہمیشہ کی طرح جواب ہوتا، لکھ رہی ہوں۔بھلے لوگ ہیں میرے بہانے سن کر یقین کرلیتے ہیں ہر بار۔

کئی بار کہا، لکھا نہیں جاتا کیا کروں۔

تین  مختلف تحریریں شروع کیں۔کسی موضوع پر نہیں لکھا گیا ۔ تھک کر اسی سے کہا۔

ربا تو میرا محرم راز ہے۔ تجھے معلوم ہے اندر شور مچاتے یہ لفظ لکھ نہ پائی تو وحشت مار دے گی۔

ربا کوئی راستہ نکال ، بڑا مسئلہ ہوگیا ہے۔ اور تجھے پتا ہے تیرے بندوں کے مسائل کا حل تیرے سوا کسی کے پاس نہیں۔ چاہے مسئلہ ذاتی ہو یا مذہبی۔ چاہے درزی میرا سوٹ سینے سے انکاری ہوجائے، چاہے کسی گنجلک بات کو ذہن تسلیم کرنے سے انکار کردے۔

چاہے میری شہرزادوں سی دوست اجارہ داروں کی بستی میں گھٹن کا شکار ہوجائیں۔ چاہے اجارہ دار کا تیرے نام پر کیا گیا استحصال ہو۔ تجھے معلوم ہے یہ سارے مسئلے تونے ہی حل کرنا ہوتے ہیں۔ تو میرا یہ مسئلہ بھی۔حل کردے ربا

اندر کرلاتے لفظوں کا اذن رہائی دے ربا۔

کیسا مہربان ہے۔ وہ دعائیں سننے والا ہمیشہ کی طرح یہ دعا بھی۔سن لی اس نے۔

لکھنے کا نہ ارادہ تھا، نہ وقت، نہ جگہ، نہ موضوع۔

کوشش کرتی ہوں کہ سوشل میڈیائی مزہبی مباحث میں فریق نہ بنوں کہ اپنی جہالت میں کہیں کسی مذہبی معاملے پر غلطی میں کچھ ایسا غلط نہ کہہ بیٹھوں۔

خیر واک کرتے ہوئے اچانک بینچ پر بیٹھ گئی۔ موبائل ہاتھ میں پکڑا اور لکھ دیا۔ دوست سے ہوا مکالمہ یاد آیا لکھ دیا۔ یہ میرا اس کے لیے خراج تحسین ہے، جو سماج کے منہ پر تھپڑ جیسے رویوں میں بھی جینے کا ڈھنگ نکال رہی ہے۔ جو اپنے راستے کے کنکر خود چننا سیکھ چکی ہے۔

یاد آیا اسے اس گفتگو میں کہا تھا میں لکھوں گی مجھے جنت میں کیا چاہیے۔

لکھ دیا۔ یقین کریں ایسی ہی چاہیے۔ کچھ اضافے کے ساتھ۔ اور یقین کریں میرا ایمان ہے وہ مجھے ایسی ہی دے گا۔ رتی ماشہ کم نہ رتی ماشہ زیادہ۔

اور آخری حصہ لکھتے ہوئے ہچکی بندھ گئی۔

اگر مجھے کسی عہد میں زندگی گزارنے کا آپشن دیا جائے تو رب کے حبیب صلی علیہ وسلم کے دور کو چن لوں۔ پر مجھے لگتا ہے میری اوقات نہیں یہ۔ تو عمر فاروق رضی اللہ کے دور کا انتخاب کرلوں۔

فرات کے کنارے جھونپڑی میں رہتی رہوں اس گڈریے کے تیقن کا چھوٹا سا حصہ لئے ہوئے، جو کہتا تھا فاروق زندہ تھا تو بھیڑییے میری بھیڑوں کی طرف آنکھ نہیں اٹھاتے تھے۔ جو دیوانہ وار اعلان کرتا تھا۔ لوگو!!!فاروق نہ رہا۔

آج جب انصاف کا خون ہوتے دیکھتی ہوں تو بے ساختہ کہہ اٹھتی ہوں لوگو ہم میں کوئی فاروق نہ رہا۔

جب جرم ضیفی کی سزا پاتے، اپنے دو دو سال کے شیر خوار نو نہالوں کو دیکھتی ہوں تو مجھے حیدر کرار کی ہی یاد آتی ہے۔ جب قوموں سے حیدر کرار اٹھ جاتے ہیں تو نہتے لوگ یونہی کٹتے مرگ مفاجات پاتے ہیں۔

تحریر لکھی دانش والوں کو بھیج دی۔

انہوں نے چھاپ دی۔

اور میرے سارے دوستوں نے، آپ سب احباب نے، کچھ ہی گھنٹوں میں عزتوں محبتوں کے ڈھیر لگا دیے۔

میرے لیے آپ سب کا شکریہ ادا کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ اسلئے یہ سطریں گھسیٹ رہی ہوں کہ اس پذیرائی کا شکریہ دوستو۔

یہ رب کی جنت کا اعجاز ہے کہ ہم گداز دلوں کے ساتھ اس کے سامنے پیش ہیں۔

اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی برکت ہے یہ۔

میں ایسا کیا لکھوں کہ ان محبتوں کا حق ادا ہو؟

میری کیا اوقات کہ حق ادا کر سکوں۔

بس یہ کہہ سکتی ہوں کہہ دیتی ہوں کہ شکریہ دوستو۔

آپ سب کی محبتوں کی مقروض رہوں گی۔

اللہ مجھے آپ سب کے گمان جتنی نیک باطن بنا دے آمین۔




حریت کا نشاں



گلابی سکارف میں لپٹی
حرف تازہ کی مانند 
خوشگوار تاثر لئے
اے نہتی مسیحا سن۔ 
تیرے ہونٹوں کی مسکراہٹ سے کہیں اوپر
تیری آنکھوں کی حریت پسندی معتبر ہے۔
تیرے چہرے پہ پھیلی معصومیت سے۔
تیرے اندر کی بغاوت کہیں پر اثر ہے۔
سن اے حریت پسند 
ممکن ہے تاریخ تجھے 
ہسپانوی حسیناؤں سے ملاتی رہے
وہ جو رخ پر نقاب اوڑھے 
تنگ گلیوں سے گزرتی ہوئی
کئی تہذیبوں کے جلترنگ بجاتی رہیں۔
وہ جن کے خال و خد میں الجھ کر
کئی عامی پکاسو ڈوانچی بنے۔
ممکن ہے تاریخ تمہیں یونانی دیوی بناتی رہے۔
جن کے ہونے نہ ہونے سے
وقت کی رفتار ماپی گئی
وہ جن کے وجود سے 
روشنی کی مقدار ماپی گئی۔
ممکن ہے تم تاریخ کے صفحے پر 
حریت کا نشاں بن کر اپنی قوم
کے ماتھے کا جھومر بنو۔
کسی فوجی کی ودری کے پھولوں کی طرح۔
مہکتی رہو چمکتی رہو۔
یہ بھی ممکن ہے۔
غلاموں کی تاریخ تبرا کرے
تجھ کو بے وقوف 
سر پھرا کہے۔
یہ بھی ممکن ہے مورخ
ڈر کی چادر میں لپٹا ہوا
خوف کی ردا اوڑھے ہوئے
مرعوب ذہن و قلم سے
تیرے کردار کو بونا کرے۔
تجھے مقام بلند دے نہ سکے۔
مگر!
سن اے پیاری مسیحا
تو حسیناؤں کے جھرمٹ میں
حسن و خوبی سے ترشی ہوئی
حریت کی دیوی سی
مغرور ناک اٹھائے کھڑی ہے۔
تیری قامت کو مورخ نہ لکھ پائے گا۔
کہ غلاموں کی تاریخ 
حکمرانوں کے اللے تللے
شاہ کے وفاداروں کے 
لکھے قصیدیں ہوں تو ہوں
آزادی کی حریت کی داستاں ہو نہیں سکتے۔
سن اے نہتی مسیحا
تو مرتی ہوئی امت کی سوئی ہوئی غیرت 
پر طمانچہ ہے
تو مردہ ضمیروں کے معدوم ہوتے کتبوں 
پر لکھی صدا بے نوا ہے۔
تو کھوئی ہوئی حمیت ہے
سن!اے نہتی مسیحا
تو دہشت ہے
بے ضمیروں کے لیے
دیں فروشوں کے لیے
غلام ذہنوں کے لیے
خود غرضی میں لپٹے
زندہ لاشوں کے لیے۔