Pages

Tuesday 30 August 2016

تصویر کہانی


تصویر دیکھی ہے کبھی؟؟
حسرت وغم
یاس خوف کی زندہ تصویر؟
کبھی قصور پوچھتی آنکھوں میں
جھانکا ہے تم نے؟؟
تم تو صاحب اختیار ہو.
بلا کا ضبط بھی رکھتے ہو.
"بغاوتیں روند ڈالتے ہو"
آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے.
یہ عزم بھی دہراتے ہو.
سنو!!
مجھے ان دہرے عذابوں سے نکالو اب.
میں اپنے گھر کے بچوں کو
نظر بھر کے دیکھوں تو__
خود ہی پریشاں رہتی ہوں.
وہ چلتے ہوئے ٹھوکر 
کھاتے ہوئے ہچکی
پیتے ہوئے غوطہ لگا بیٹھیں
تو میری سانسیں اٹکتی ہیں.
میں خود کو خود ہی ٹوکتی رہتی ہوں
کہ بچوں کو یوں نظر بھر کے نہیں تکتے.
میرے اندر کا "بدعتی" بھی
کہیں انگڑائی لیتا ہے.
"نظر کے بد نماء قصے
اندر ہی اندر دہراتی،دہلتی رہتی ہوں
میں چپکے سے سورتیں پڑھتی.
تصور کو ہی پھونکتی رہتی ہوں.
کہ یہ بچے.
خدائے لم یزل کے ننھے سفیر بچے.
سراپا محبت زرا سے شیریر بچے.
وہ جن کے خوشنماء قہقہے
مجھے پہروں مسرور رکھتے ہیں.
وہ جن کا پہلا آنسو "فرسٹ" مسکراہٹ.
وہ پہلا "سالڈ"
وہ پہلا لمس
وہ پہلی بات.
وہ ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں
بابا اور ماما کہہ جانا.
کہنا پھپھو وہ خالہ.
ان کی چیزوں کا حوالہ
میں سوشل میڈیا پر پوسٹتی
داد لیتی ہوں.
سنو!!
میں اب ِان بچوں کو دیکھ کر
خوف کے احساس کو جھٹلا نہیں پاتی.
میں ڈر کے عفریت کے پنجے میں.
صبح سے شام شام سے رات کے.
اس آتے جاتے چرخے میں.
بچے تو بچے ہیں
معصوم سے ننھے فرشتے.
کسی کی آنکھ کا تارہ.
کسی کی صبح کی خواہش.
کسی کی رات کے آخری
پہروں میں مانگی ہوئی دعا کوئی.
وہ رب کی رحمتوں
نعمتوں کی انتہا کوئی.
وہ بچہ شامی ہو
فلسطینی،کشمیری
افغانی یا لبنانی.
سنو جب وہ بچہ کبھی
پانی نگل جائے.
یا بمباری میں ڈوبے تو.
میرا دل ڈوبنے لگتا ہے.
میں پہروں اپنے بچوں کو بھینچے.
ان سے بچپن چھنتی رہتی ہوں.
میں اُن بچوں کی آنکھوں کے
چہرے کے، سرد تاثر دیکھ کر..
اُس کے خوف سے سرتاپا جلتی ہوں.
وہ جو کہتا ہے ظلم پر خاموشی بھی ظلمت ہے.
ظلم برداشت کرنے والا بھی مجرم ہے.
وہ جو کہتا ہے میں منصف ہوں.
سنو میں عدل سے ڈرتی ہوں.
ترازو کی زد میں آنے سے ڈرتی ہوں.
بہت مدت سے میں ان دہرے عذابوں کی شب غم میں ڈھلتی ہوں.
مجھے ان سے رہائی دو.
میرے بچے میرے جگنو.
مجھے دے دو
میں ان کے لیے خوشیاں تراشوں گی..
تم ایسا کرو
اپنے اختیار کی سولی پر
میرے بچے نہ چڑھاؤ.
سحرش.

Thursday 25 August 2016

حقیقت میں کوئی افسانہ


گلزار کی اک نظم جیسا

پورا منظر دیکھا ہے.
دھیمے دھیمے لہجے میں
خوشبو خوشبو باتیں تھیں.
دور کسی پگڈنڈی پر 
بھولی بھالی لڑکی تھی.
ان دیکھا سا منظر تھا.
دھوپ بارشوں جیسی تھی.
بھیگے بھیگے وعدے تھے.
کاغذ میں لپٹی تحریر کوئی.
تحریر حسین اک سپنا تھی
خوشبو جیسی زنجیر کوئی.
ٹہرے ٹہرے __وہ دونوں.
جیسےکسی شام پر کوئی
سونا پگھلا کر ڈال جائے.
سورج ڈوبتے ڈوبتے
گوری کے گالوں میں شفق
آنکھ میں تارے بھر جائے
بوند بوند گرتی محبت.
سر شار کسی کو کر جائے.
ویسا ہی اک منظر تھا.
پورا پورا ادھورا سا.
کہانی میں بھی حقیقت جیسا.
حقیقت میں کوئی افسانہ
سحرش

Wednesday 17 August 2016

گھر تو آخر اپنا ہے


 یہ ایسے نہیں تھا کہ صبح اٹھے اور کہہ دیا نہیں ساتھ رہنا۔کل سے اپنا اپنا کام کریں گے۔ علیحدہ رہیں گے

اس "ساتھ نہیں رہ سکتے "کے پیچھے ایک لمبی داستان ہے۔ جدوجہد کی مخالفت کی کوشش کی، عزم کی حوصلے کی، سفرنگز، کی قربانیوں کی ہمت کی، خوابوں کی اور ان کی تعبیروں کی۔اس کے پیچھے اے او ہیوم کی کانگرس سے لے کر دارالعلوم دیو بند تک ہر شخص، ہر گروہ چھپا ہے
کبھی پیپرز کو طاق پہ دھر کے نمبرز،گریڈز کو بھول کر پاکستان افئیرز کی بک کھول کر دیکھیں توایک ایک صفحہ ایک ایک سطر ایک ایک حرف داستانیں سناتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔جیسےمسجد کے مینار نے جھک کے صدیوں کے گم ہونے کے راز کی سرگوشی کی تھی۔ بلکل ویسے ہی کتاب کے صفحات نے سرگوشیوں میں داستان عزم سنائی تھی
امیدوں کی بارآوری کی داستاں۔ کسی خواب کی تعبیر کا قصہ
تقسیم بنگال کا صفحہ تھا اور وائسرائے کے الفاظ کے "نو باڈی کین فورس ایس" ہاں یہ ہی کہا تھا وائسرائے نے کہ انتظامی فیصلہ ہے۔ بدلا نہیں جائے گا ۔لیکن پانچ سال کے قلیل عرصے میں واپس ہوگیا۔ ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہو گیا کہ نہیں رہ پائیں گے ساتھ۔
معاشرے میں ہر طبقہ فکر کا علیحدہ گروہ ہوتا ہے ۔ جنہیں سوشیالوجسٹس کمیونٹی پیٹرن کے نام سے ڈیل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ہر گروہ کے اپنے مفادات،، اپنے اصول، اپنی رائے
جب بھی کسی بڑے فیصلے کا وقت ہوتا ہے تو اس کے محرکات میں معاشرے کا کوئی نا کوئی گروہ ایکٹو ہوتاہے۔ وہ اپنے حق کے لیے کھڑا ہوجاتا ہے۔جیسے مزدوروں کے حقوق کے لیےوہ مزدور جس نے خود کو آگ لگا لی تھی.جیسے میگنا کارٹا سے پہلے وکلاء کی تحریک جیسے اقوام ۔متحدہ سے پہلے سیاستدانوں کا اکٹھ
رب کی کوئی مصلحت تھی جو اس تقسیم سے پہلے معاشرے کے ہر گروہ، ہر فرد،ہر سلیم الفطرت ہر، دور اندیش، فرد پر تمام حجت کردی ۔   ہر کسی کو یقین ہو گیا کہ ساتھ رہنا ممکن نہیں رہا
چاہے وہ اردو ہندی تنازعہ کے زریعے سر سید جیسے فرد کے ہاتھوں لکھوایا جانا ہو کہ شقی القلب مذہبی گروہ اکھٹے رہنے کے قابل نہیں رہا
یا پھر سائمن کمشن کے بعد ہندوستان کی چھوٹی سیاسی جماعتوں سے کہلوانا 
وہ گول میز کانفرنسز کا بے نتیجہ ہونا اور سر شفیع کے ساتھیوں کا کہہ دینا کے "یہ زندہ جلا ڈالیں گے یا زمین میں گاڑ دیں گے یا ہندو بنا دیں گے" یونہی بے سبب تو نہیں تھا
اور پھر نہرو رپورٹ اور چودہ نکات کو یکسر مسترد کر دینا...ارون دھتی رائے کہتی ہے  کہ چودہ نکات کا مسترد ہونا تاریخ کی سب سے فاش غلطی ہے
نہیں! یہ بلیسنگ ان ڈس گائز تھی
یہ اس ناتواں شخص کو یہ بتانا مقصود تھا
کہ اس خوابیدہ قوم کے مستقبل کے لیے تمہیں چنا گیا ہے اور وقت کم ہے، بہت کم
جب پہلی دفعہ کہا کہ ہم کسی طور الگ رہنے سے  کم پر راضی نہیں ۔ تو کیا ہوا؟؟
سارا ہندو میڈیا کہہ اٹھا "پاکستان" بنائیں گے
اور لہجے کے طنز نے بیک فائر کیا۔ بہت سے مسلمان صحافی نا محسوس طریقے سے تحریک کا حصہ بن گئے۔بھلا کسی غیرت کو کب گوارا تھا مثال میں ہی مدینہ آئے اور کوئی پھبتی کسے
تحریک کی حمائیت کرنے پر جب بہت سے کانگرسی مرد حضرات نے چھوڑ دینے کی دھمکی دی۔ تو بہت سی خواتین خود ہی چھوڑکر چلی آئیں بیگم رعنا لکھتیں ہیں ۔ لیگی خواتین کے حوصلے تو قابل دید تھے۔ پر جو دو طرفہ قیامت کانگرس سے ایفیلیشن والی فیملیز کی خواتین پر جاری تھی وہ بیان سے باہر ہے۔دن میں تحریک کی سرگرمیاں ہوتیں تو اکثر شامیں گھریلو ذمہ داریوں کی صورت کانگرس کی میٹنگز کو چائے ناشتے کا پوچھتیں۔ اب سوچتی ہوں تو حیرت سے انگلی دانتوں تلے داب لیتی ہوں۔ اتنی جرات کہاں سے آگئی تھی اس دور کی خواتین میں ۔یہ کس کی آواز ان اندھیروں میں حوصلےکا مینار نور بنتی تھی۔خدا جانے وہ ایسا کونسا جذبہ تھا جو ہر خوف ہر سراسمیگی پر بھاری تھا۔خود کو ان کی جگہ پر رکھتی ہوں، تو جھرجھری آجاتی ہے۔ یہ سوچ کر ہی کہ بغیر کسی واضح مضبوط سہارے کے خواب دیکھنے والے ایک پریکٹیکل شخص کی سدا پر لبیک کہنا تھا..میں ہوتی تو شائد نہ کر پاتی یوں نہ ہوتا تو یوں ہوتا کے گرداب میں الجھی تو جانے کس سٹیشن پر ہوش آئی.کسی شہر کا کوئی مصروف سا ریلوے سٹیشن تھا اکثریت آ جا رہی تھی زندگی رواں تھی۔بھلا دس لاکھ جانیں کیوں قربان کی جائیں؟ اس جملے کی گردان ذہنی کشمکش کا پتا دے رہی تھی۔ جانے کب تک اسی سوال کا جواب تلاشتی رہتی کے۔ ایک آواز فیصلے کا صحرا بن کر کانوں میں پڑی کہ "ہندو پانی مسلم پانی" اور میں سبز ہلالی ٹرین میں آ بیٹھی
کیونکہ گھر تو آخر اپنا ہے

ایک دن سوچو گے


جو کہا ہے تم سے وہ کر جائیں گے تو سوچو گے؟

کسی دن اچانک مر جائیں گے تو سوچو گے.
زندگی میں دم نہیں بھرتے ہو.
زندگ کو طاق پہ دھر جائیں گے تو سوچو گے؟
احساس سے نفرت کراؤ گے کیا؟
بے غرضی پہ تف کر دیں اب؟
جاؤ تم بھی کیا یاد کرو گے.
بے حس جو ہو جائیں گے تو سوچو گے.
جب ہم بے وجہ رلائیں گے تو سوچو گے.
تم بلاؤ گے اور ہم نہ آئیں گے تو سوچو گے.
ہم بھی ہر بار بھول جاتے ہیں.
نئے سرے سے گیت گاتے ہیں.
جس روز زندگی کا 
ہم ُسر بھول جائیں گے تو سوچو گے.
تم ہم سے دوور بیٹھے ہو.
جب ہم دور چلے جائیں گے تو سوچو گے.
ہمارا کوئی بھی فیصلہ تسلیم نہیں کرتے ہو.
جب فاصلہ ہی فیصلہ ہوگا
اس گھڑی میں آئیں گے تو سوچو گے.
سحرش

Tuesday 9 August 2016

میرے شہروں پہ آج کربلاکا موسم ہے


یہ فیس بک کی میموری بھی نا!
پتا ہے آج مجھ کو کیا دیکھاتی ہے؟
کہ بی بی تم نے پچھلے سال
اسی تاریخ کو
قصور" کا نوحہ لکھا تھا.
"قصور کی تقصیر پوچھی تھی.
گناہ کی تفسیر پوچھی تھی.
جرم کی زنجیر پوچھی تھی.
حاکم کی تدبیر پوچھی تھی.
پوچھتی ہے، اپنی یادیں
اوروں کودیکھاؤ گی.
اور میں چپ.
ایسی گہری چپ
ایسی بھیانک خاموشی
کہ بس!!
کہ جیسے تاریخ خود کو دہراتی ہو
مجھے یہ بھی بتاتی ہو
نوحے لکھنے کا موسم ابھی ٹلا تو نہیں
کوفی ابھی بھی خطرہ ہیں
حسین ابھی بھی نرغے میں.
کوئی اندر ہی سسکا ہے
کہ کرب و بلا کا موسم ہے
آنسوؤں کی رت آئی ہے
آہ و بکا کا موسم ہے.
فصلیں اجاڑ ڈالو سب
یہ ابتلاء کا موسم ہے.
باغوں میں بارود کی بو ہے
شہروں پہ وحشی قضا کا موسم ہے.
بچوں کی آنکھ سے جگنو چرانے کا__
تتلی کے پر نوچ ڈالو،یہ اس طرح کا موسم ہے.
میری نظموں ذرا ٹہرو
یہ موسم گزرنے دو
میں تم کو تحریر کر لوں گی.
میں ساکت سے کئی لمحے زنجیر کر لوں گی.
محبت،امن لکھوں گی
اور کہانی تسخیر کر لوں گی.
لیکن ابھی تو زخموں کی رت آئی ہے
موت کی "جلا" کا موسم ہے.
میرے شہروں پہ آج کربلاکا موسم ہے.
سحرش

Monday 8 August 2016

بے حسی دینا ذرا


بے حسی دینا ذرا.

مجھے تم پر بات کرنی ہے.
خود غرضی کو بیچ ڈالو.
رکو میں خریدار لاتی ہوں.
میرے کمرے کے آئنے میں کھڑا شخص
طلب گار لگتا ہے.
کہو تو اس کو لے آؤں.
منہ مانگے مول دے گا وہ.
تمہاری بے حسی انمول ہے نا؟
تمہیں یہ بھی تو لگتا ہے
کہ تم پرواہ نہیں کرتے.
صحیح ہوں "میں"
تمہاری ہی خوش گمانی ہے.
لوگ تمہارے "لیول" پر نہیں آتے
یہ بھی تو لگتا ہے
کہ تم برتر ہو اوروں سے.
تو سنو ہمدم!
نہ تم برتر نہ "ہم" کم تر
دراصل پرواہ ایک سچا جذبہ ہے
اناء کے ماروں کے لیے
یہ کب اترا ہے.
ہاں صحیح ہو تم!!
در حقیقت مبتلاِزعم ِصحیح ہو.
جانتے ہو لوگوں کا "لیول"
تم سے کیوں نہیں ملتا؟؟
تو سنو سوچ جب گر جائے.
تو لوگ اپروچ نہیں کرتے.
تم!!!
تم بے حسی کیا بیچو گے.
میرے آئنے میں کھڑا شخص
تم پر ترس کھاتا ہے.
تم نے ہی کہا تھانا.
مجھے اب دوست نہیں رہنا.
تو سنو!
محبت تو محبت ہے
وہ تو نفرت سے بھی آزاد کرتا ہے.
میرے آئنے میں کھڑا شخص
تم پر تم جیسی ہی عنایات کرتاہے.
تم اس کی بے حسی کے بھی مستحق نہیں لگتے...
"مجھے دوست بنا لو"
ہونہہ بات کرتا ہے.
سحرش

Thursday 4 August 2016

Search for a smile


ٹرمنل سے نکلتے ہی جب ڈیئوو لنک روڈ سے ٹرن لے کے جی ٹی روڈ پہ آئی تو میرے بائیں ہاتھ ساتھ ساتھ پنجاب کی تیسری بڑی نہر بھی چلنے لگی موسم اپنے جوبن پر تھا آسماں کا رنگ بھی محبت کے اولیں دنوں سا سرمئی تھا جس میں کہہ دینے کی سرشاری بھی تھی اور کہے جانے کی جھجک بھی بادل بھی ٹہر ٹہر کے برسنا شروع ہو گیا اور بارش میری کھڑکی کے شیشے پر دستک دینے لگی.گہرا سرمئی آسماں بہتی ہوئی نہر، شفاف، تار کول کی بھیگتی ہوئی سڑک پہ ہولے ہولے چلتی ہوئی گاڑی میرے کانوں میں بجتا رم جھم گرے ساون__
ایسے میں جب شیشے پہ چہرہ ٹکائے میں مگن باہر دیکھا کرتی ہوں تو بس ہوسٹس اعلان کرے کہ موسم کی "خرابی" کی وجہ سے ہم مقررہ وقت سے لیٹ ہو سکتے ہیں.ابھی موسم کے اس شادی شدہ حال پہ ماتم کرنے کو ہی تھی کہ بہت سے کوفت زدہ چہرے ان پر بیزاری دیکھ کے مجھے بے ساختہ ہیلن کیلر یاد آئی جو "پوچھا" کرتی ہے کہ "اتنی خاص دنیا میں لوگ عام زندگی کیسے گزار لیتے ہیں"
اسی ایک نکتے پہ سوچتی رہتی میں جو بارش خود کو نظرانداز کیے جانے پر کسی نک چڑھی حسینہ کی مانند پاؤں پٹخنے لگی اور کھڑکی کا شیشہ پھر سارے منظر دھندلے کر گیا. بارش جوں جوں زمین پہ گرتی ہے مجھے لگتا ہے زندگی کی نوید دیتی ہے پنجاب کے بیلوں میں یہ سیلیبریشن کا موسم ہوتا ہے.جب آسماں مہرباں ہو کہ دنیا کے بہترین چاول اگانے کا ساماں کر جاتا ہے چاول وہ جو کئی تہذیبوں،ثقافتوں میں خوش بختی کی علامت سمجھے جاتے ہیں.اور اس خوش بختی کو میرے لوگ زمیں سینچ کر اگاتے ہیں.
اس پیشتر کے خیال کا پنچھی ڈال ڈال اڑتا بیلوں جنگلوں سے ہوتا کسی صاحباں کے ترکش کو جا چنتا یا کسی سسی کے ساتھ روحی کے سرد ٹیلے پر جا بیٹھتا.خیال کو حال میں واپس کھینچا اور نہر پہ گرتی بارش کی بوندوں سے بجتا آرکسٹرا سننے لگی__
بہتے ہوئے پانی کو دیکھ کردل کے ایقان والے حصے کی دعائیں بھی گویائی پا گئیں__موسم گل کے آنے کی بہار رت لانے کی__مہندیوں کے رچنے کی چوڑیاں کھنکنے کی محبت کے مان رکھنے کی
تعلق نبھانے کی دعائیں.
تعلق نبھا جانے کی خواہش بھی کتنی عجیب ہوتی ہے نا__ جہاں آپ وہ باتیں بھی نظرانداز کر جاتے ہیں جو عام زندگی میں کوئی کہہ دے تو آپ مرنے مارنے پہ تل جائیں.لیکن کسی تعلق کے مان میں وہ بھی سہہ جاتے ہیں.اور بڑی بات یہ کہ یہ کمزوری نہیں بہادری ہوتی ہے.جب جھگڑوں سے اوپر اٹھ جاتے ہیں.جھگڑے کی بھی خوب کہی واصف علی واصف کہتے ہیں ناکہ "اگر تعلق رکھنا ہے تو پھر جھگڑا کیسا اور اگر تعلق نہیں رکھنا تو پھر جھگڑا کیسا؟؟
تعلق کی کیسی اعلی تعریف کر دی بلکہ روڈ میپ ہی دے ڈالا.دیر ہی سے سہی اب سمجھ لیا ہے یہ نکتہ.
"بھیگیں آج اس موسم میں"کے کانوں میں بجتے ہی وہ سارے بچے بھی نظرمیں آ گئے جوبارش میں چہروں پہ خوشی شادمانی بے فکری سجائے سڑک کو ہی گھرکیے بلکہ سڑک پر ہی گھرکیے ہوئےتھے__
کتنا خوبصورت تعلق ہوتا ہے نا بارش اور بچپن کا دونوں ہی اونچے سروں کا گیت ہوتے ہیں جن کو گاتے ہوئے کون کب بڑا ہوجاتا ہے.احساس ہی نہیں ہوتا..محسوس تب ہوتا ہے جب آپ گدھوں کی ریس کے گھوڑے بن کر مقابلے پر اتر آتے ہیں پھر وہی زندگی__ جس کے دن پریشان اور راتیں بھاری گزرتی ہیں.
اس خیال نے اپنے اردگرد بیٹھے چہرے کھوجنے پر مجبور کر دیا...بہت سے چہرے آنکھوں میں منزل کے خواب اور خوابوں کی تعبیر والی کتابیں میڈیکل،انجینرنگ،قانون بزنس کی آئی ٹی کی کتابیں کتابوں میں چھپے سپنے..
ایسے میں میری گود میں بھی دھری کسی نا کسی کتاب سے کبھی ارسطو، افلاطون، سقراط،مارکس میکاولی کوتلیہ چانکیہ تو کبھی کبھی اپنے آئیڈیلزم کے ساتھ ٹی ایچ گرین..گود میں دھری کتاب سے باہر نکل ساتھ والی خالی سیٹ پہ آ بیٹھتے ہیں_ میری ہی طرح محویت سے بارش کو تکتے ہوئے جیسے کہتے ہوں سارے فلسفوں منطقوں دلیلوں کے باوجود ہیں تو ہم بھی انسان ہی نا.
خوبصورتی محسوس کرنے والے رنگ دیکھنے والے خوشبو سانس کرنے والے.
اور میری حیرت پہ مسکراتے ہوں اور کہتے ہوں..پگلی تعلقات میں سیاستیں نہیں محبتیں چلتی ہیں..جیسے مارکس چپکے سے سرگوشی کر دے کہ انسانی تعلق کی اکنامکس محبت ہے خلوص ہے..جیسے روسو کہہ جائے کہ محبت، انسیت دنیا کا پہلا سوشل کانٹریکٹ تھی..یا چانکیہ کہتا ہو دلوں پر حکمرانی کرنی ہے تو محبت آئین کر لو..صلے جزا بدلے کی امید کے بغیر والی محبت.مشکل ہے ایسی محبت نا ممکن تو نہیں.میکاؤلی سرگوشی کرتا ہو اگر دی پرنس نصاب کا حصہ ہو سکتی ہے تو یقین مانو یہ بھی ممکن ہے..نہیں یقین تو آزما دیکھو.
لبوں پہ آنے والی بے ساختہ مسکراہٹ چھپانے کو پھر سے باہر دیکھنے لگی. سوچ کے سفر میں نہر کب کونسا موڑ مڑ گئی تھی اندازہ نہیں ہوا اب سڑک کے ایک طرف مضافاتی بستیاں تھیں. ٹہری ہوئی اور قدرے خاموش بستیاں.جیسے کسی نے ششش چپ! کہا ہو اور بستیاں شریر بچوں کی طرح آہستہ آہستہ باتیں کرتی ہوں.
مکانوں کے ساتھ ہی بارش کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا بادل اپنے رنگ سمیت ساتھ چل رہے تھے.مکانوں کے سلسلے کےاچانک ختم ہو جانے کی وجہ بھی سمجھ آگئی میرے ساتھ ساتھ ٹرین چلنے لگی ایک اور خوبصورت تعلق!!ٹرین کا سبز رنگ اپنے خون کے سرخ سے زیادہ اچھا لگنے لگا.جیسے کسی نے انرجی پھونکی ہو نئے اور بڑے خواب دیکھنے کی پھر ان کو تعبیر کرنے کی..قدرے ساؤنڈ پروف شیشوں کی بدولت ٹرین کی آواز نہ ہونے کے برابر تھی اور مجھے لگا جیسے وہ بھی ٹہر ٹہر کے خاموش چلتی ہو کہ کہیں یہ منظر نہ ٹوٹ جائے..میں نے بھی آنکھیں بند کر کے سیٹ سے سر ٹکا لیا اس منظر کو آنکھوں میں محفوظ کر کے.
سحرش