Pages

Wednesday 13 January 2016

خود اذیتی کے چند حروف


ایک سڑک کے دونوں اطراف دو متضاد دنیائیں بسا رکھی ھیں لوگوں نے....دونوں دنیائیوں کے تضادات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ھیں....جس رفتار سے ایک طرف سکولز بڑھتے جاتے ھیں اسی رفتار سے دوسری طرف جہالت بڑھتی جاتی ھے....ایک طرف ھوٹل کھلتے ھیں تو دوسری طرف بھوک برھنہ ناچتی ھے....ایک طرف مسجد کے مینار بلند ھوتے جاتے ھیں اور دوسری طرف مذہب مرتا جاتا ھے....ایک طرف بینک کھلتے جاتے ھیں دوسری طرف بھکاری پیدا ھوتے رھتے ھیں....سڑک کے اس طرف ہسپتال کھلتے ھیں...تو دوسری جانب بیماریاں جان لیوا ھوتی جاتی ھیں...
درمیان میں تارکول کی سیاه سڑک جو دونو ںطراف کی مشترکہ ملکیت ھے...وه خاموش چپ چاپ محو تماشا ھے کہ یہ اس کے دونوں اطراف میں شب وروز کیا تماشا برپا ھے....ایک ھسپتال میں کوئی زیاده کھا لینے سے جان بلب ھے تو دوسری طرف بچہ کوئی بھوک سے مر گیا.....

سڑک برسوں سے دونوں اطراف کی بستیوں میں کم اور مکینوں میں بڑھتے ھوئے فاصلے چپ چاپ دیکھ رھی تھی
پر آج سہ پہر مجھے لگا سڑک چلا اٹھی جب ایک بچہ اور ایک کتا نھیں کتے کا بچہ شائد ایک ھی کوڑے دان سے رزق تلاش کر رھے تھے....یا پھر کھلونا کوئی ٹوٹا ھوا......
آج سڑک نے بے ساختہ کہہ اٹھی........میری دونوں طرف قائم بستیوں کے مالک یہ کیسی دنیا بسا دی جہاں کھیں انسان نھیں بستے....جہاں لوگ انسانی تو کیا حیوانی سطح سے بھی نیچے زندگی گزار رھے ھیں جہان دونوں طرف ھی آگ ھے کہیں بھوک کی تو کہیں نہ ختم ھونے والی اشتہاء کی....کہیں جھالت کا ننگا ناچ ھے تو کھیں علم کی بے فائده بہتات.....سڑک کی خاموش گفتگو جاری تھی....مجھے حق نہ تھا پر ایک شکوہ میرا بھی.......
سڑک کے شکوؤں میں ایک سرگوشی میری بھی تھی......
میں تیری دنیا کے معیارات سے مطمئن نھیں ھوں
سحرش

No comments:

Post a Comment