Pages

Saturday 19 August 2017

پاکستانیوں کو مبارک




آج کا دن ہر اس شخص کو بہت مبارک جو اس ملک کو غلطی سمجھ کہ اسی میں رہ کہ "غلطی کو سدھارنا چاہتے ہیں-یقین مانیے یہ دن آپ ہی جیسوں کے سینوں پہ مونگ دلنے کو آتا ہے- سو مبارک باد لیجیے- آزادی کی مبارک باد- ارے وہی بولنے کی کہنے کی آزادی بیف کھانے کی تنقید کرنے کی آزادی- شادیوں طلاقوں کی آزادی-
 آج کا دن ہر اس شخص کو بھی بہت مبارک جس کو اس ملک نے دیا ہی کچھ نہیں ہے- یہ دن ہر کرپٹ سیاستدان کے حامی کو بہت مبارک- جرنیلوں کے خم ابرو پر جان دینے والوں کو بھی یہ دن مبارک- ڈی ایچ کیوز میں پلاٹ بنانے بنا کر بیچنے والوں کو بھی یہ دن بہت مبارک-سڑکوں ٹرینوں بسوں میں کمیشن کھانے والوں کو مبارکباد- تعلیم کی صحت کی پرائیویٹ لیمیٹڈ کمپنیز کھول کے اس ملک کے حالات پر بے لاگ تبصروں والوں کو خصوصی مبارکباد-
 سیسلین مافیا کہلوانے اس پر مٹھائیاں کھانے والوں اس پر تڑفنے والوں دونوں کو یہ دن دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک- سارے "نیوٹرلز کو آج کا دن مبارک- عصبیت کے نام پر اپنی اپنی دوکانیں کھولنے والوں کو مبارک نسل رنگ زبان آہنگ علاقائیت بیچ کر پاکستان کھانے والوں کوآزادی مبارک- اپنے بچوں کو "باہر سیٹ کرنے کے لیے گدھوں کی طرح کام کرتے گدھوں یہ ملک اس کی آزادی مبارک- ماؤں بہنوں بیٹیوں کو اپنی جھوٹی انا بے غیرتی والی غیرت کی بھینٹ چڑھا کر مشرقی روایات قرار دینے والوں کو آج کا دن اس ملک میں گزارنے پر مبارکباد- لفظوں کی حرمت قلم کی عزت بیچ کھانے والوں کو آج کے دن کی بہت مبارکباد
 خدا پر قبضہ جمانے کی کوشش کرنے والوں کو، اس کے احکامات اپنی مرضی سے بتانے والوں کو اس مملکت خداداد میں اپنی شتر بے مہار آزادی کی بدولت آج کا دن مبارک- ظلم کے بدلے ظلم کا انصاف کرنے والے سارے پنچائیتیوں کو مبارک- کھیل میں جوا ڈیوٹی میں ڈنڈی امتحان میں پرچی پر بھروسے والوں کو اس دن کی ڈھیروں مبارکباد- ڈیوٹی سے چھٹی کر کے ٹیوشن سینٹر چلانے والے استادوں کو- دودھ میں نہر کا شفاف پانی ملانے والے گوالے کو- مرچوں میں اینٹ کا برادا ڈالنے والے کو- کمٹمنٹس کر کے بھاگ جانے والوں کو- اوروں کی تخقیر کرنے والوں اور مجھ سمیت ہر طنزیہ "دانشور کو یہ دن مبارک- کیوں بھلا؟ کیوں کہ یہ دن ہے تو ہم سب کی دوکانیں چل رہی ہیں-
یہ آزادی ہے تو ہم سب اپنا اپنا چورن بیچ رہے ہیں- اور یہ پاکستان ہے تو ہمارے حرفوں کو پڑھنے والے ہیں اور اس لیے کیونکہ یہ ہم سب کا پاکستان ہے- اچھا برا بھلا ہم نے ہی سوچنا ہے اس کے متعلق- اور اسے ہم ہی نے اون کرنا ہے.
 سو ہیپی انڈیپینڈنس ڈے دوستوں-
 کیونکہ تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے.

Thursday 10 August 2017

غیرت


ہر نئی بات/ٹرینڈ کی خبر ہمیں تب ہوتی ہے جب وہ پرانی ہونے کے بلکل قریب ہوتی ہے۔ حتی کے سوشل میڈیا کے وائرلز بھی ہمیں اینٹی
ڈوٹ کے آجانے کے بعد پتا چلتے ہیں عموما۔

وہ بھی ایسا ہی ایک ٹرینڈ تھا۔
یونہی ہم نے ایک دن کورس کی کتابوں سے گھبرا کہ نیوز چینلز سے اکتا کہ اور خود سے بیزار ہو کہ اینٹرنیمنٹ چینل لگایا تو وہاں خبریں چل رہی تھیں۔
کسی سوشل میڈیائی خاتون کی۔ جو اپنی سیلفی وڈیوز پوسٹ کیا کرتی ہے اور پھر اس پر داد پاتی ہے۔
اریٹیٹ ہونا تھا سو ہوئے لیکن اگنور کرنا ہی مناسب تھا سو کیا۔ یوں بھی بہت سے معاملات پر ہم لب نہیں کھولتے وجہ یہ کہ ہم نہیں سمجھتے ہماری رائے اسقدر اہم ہے کہ اس کا لازمی اظہار کیا جائے۔
خیر یہ تو تھی ایک ضمنی بات ہم نے خاتون کو دیکھا تو نہیں لیکن نام سنا اور پھر اگلے کئی ہفتے خاتون کی خبروں سے ہمارے سوشل میڈیا کے نیوز فیڈز بھرنے لگے۔ بہت سے دوست ان کی پوسٹس شئیر کرنے لگے۔وڈیوز فوٹوز ان کے خیالات۔
اس پر ویسی ہی کوفت ہوئی جیسی ایک لیڈی کو ہونی چاہیے۔ جو یہ سمجھتی ہے کہ نیوڈٹی کسی جبر زیادتی ظلم کا جواب نہیں ہوسکتی۔ اور جو یہ سمجھتی ہے ری ایکشن کی نفسیات کبھی مسائل حل نہیں کرتی۔
ذہن میں کوفت دل میں چڑ بھرتی گئی اور نیوز فیڈ میں #قندیل_بلوچ۔ وہ جو فوزیہ تھی میاں والی میں اپنے ابا کی فوزیہ۔
وہ شہروں میں آئی تو خبر ٹہری جلتی ہوئی خبر۔
کبھی مبشر لقمان کے پروگرام میں ان کا کندھوں سے گرتا شرگ تو کبھی کمرے میں موبائل کا ان کے ہاتھوں سے دانستہ پھسلتا کیمرہ۔ تو کبھی گاڑی کے بونٹ پہ بیٹھی دو پونیاں بنائے ٹریک سوٹ پہنے چلا چلا کر اظہار محبت کرتی کیمروں کے ذریعے ٹی وی پر آتی ہوئی۔
ہر روز خاتون ایک نئے کرب میں مبتلا کرتی جاتی تھیں۔ کسی بھی انسان کے لیے باشعور انسان کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ یہ نارمل حرکتیں نہیں ہیں۔ کوئی ڈور کہیں الجھی ضرور ہے ورنہ گھر کا سکھ کون روندتا ہے؟ اگر سکھ ہو تو__
یہ بھی دل چاہا کہ کاش کوئی ایسا ہو جو پکڑ کے بیٹھا لے پاس اور نرمی سے الجھے ہوئے ریشم کو سلجھا دے۔
ایک انسان جیتا جاگتا وجود اپنے تماشے کے اسباب کرتا پھرے اس پر مستزاد تماشائیوں کو سہولت مہیا کرے۔ تو یقینًا کہیں اندر ہی اندر بارش تو ہوتی ہوگی جو وہ اتنی دھند جمع کر بیٹھی تھی اپنے اردگرد۔
کوئی بھی شر کی فطرت لے کہ پیدا تو نہیں ہوتا نا۔
لیکن ہمیں یہ سمجھ آنا تھا نہ آیا۔ ہمیں شعور آگہی سمجھ عقل کچھ نہیں آتی۔ قومی حثیت میں اگر کچھ آتا ہے تو وہ نام نہاد غیرت ہی ہوتی ہے۔
دل چاہتا ہے غیرت مندوں کے چہروں سے نقاب نوچ ڈالوں سو گدھوں کے چہرے یہ قوم دیکھ بھی لے جان بھی لے پہچان بجی۔
لیکن پھر اپنے اصل چہرے سے ڈر لگتا ہے سو ارادہ بدل کے مجموعی منافقت کا حصہ بن کر مچھیروں کی بستی کی رکنیت پہ فخر کرنے لگتی ہوں۔
مجھے نہیں پتا کونسی قوت مجھ سے یہ لکھوا رہی ہے۔ لیکن بہر کیف مجھے لکھنا ہے سو لکھ رہی ہوں۔ جیسے کوئی چراغ جلا کہ سر راہ رکھنے کی ڈیوٹی پہ مامور ہو۔ پھر چراغ جانے ہوا جانے اور راہی جانے۔
جب تک وہ زندہ تھی میرا اس سے صرف ہدایت کی دعا کرنے کا تعلق تھا جس کی مجھ سمیت سب کو ضرورت ہے۔
نہ کبھی وال پہ گئی نہ پیج پہ نہ کوئی وڈیو دیکھی۔ بہت سے لوگوں کو البتہ ان فالو ضرور کیا جو ان کی وڈیوز پہ گدھوں کی طرح منڈلاتے اس کو اسکی اوقات یاد کرایا کرتے تھے۔
لیکن خاتون سے اتفاق کی کوئی صورت کبھی بھی نہ رہی۔ پھر ایک دن چینلز نے چینختے چنگاڑتے خبر دی کہ فقیہ شہر 147طوائف148 کے کوٹھے پہ جا پہنچا ہے۔ اب تو اسےمسلمان کر کے ہی چھوڑا جائے گا/ حواریوں نے جام محبت لٹائے۔ کل تک اس کے جہنم کے ٹکٹ بانٹتے آج اسے حلقہ ارادت میں شمار کرنے لگے۔
لیکن کیا ہونا تھا کیچڑ میں صرف کنول ہی دامن داغدار ہونے سے بچا سکتا ہے۔ پتا ہے کیوں؟ کنول میں  کے بوجھ تلے دبا ہوا نہیں ہوتا۔ 
اب کی بار طوائف کی بن آئی کلاہ و دستار اچھلنے لگے کوٹھے کی نائیکاؤں سے چہروں والے بہت سے جام عشرت لٹانے لگے۔فقیہ شہر کی دستار اچھلتے دیکھ کر حواریوں کی زبانیں زہر اگلنے لگیں۔ فاحشہ ہے بدکردار مارڈالو۔
زانی ہے جہنمی مارڈالو
پردہ نہیں کرتی جسم دکھاتی ہے مار ڈالو
غیر مرد کو دیکھ کے مسکراتی ہے مار ڈالو
بھائی عزت دار ہے غیرت والا
اسے مار ڈالے۔
اور مار دی گئی۔
ایک جیتا جاگتا وجود لاش بن گیا۔
یہاں اس لے لیے ہمدردیاں نہیں سمیٹنی مجھے نہ اسے فینٹسائز ہی کرنا ہے۔
لیکن یہ ضرور کہنا ہے جس نے مارا ہے جو وجہ بنے جس کسی نے فوزیہ کو قندیل بنایا وہ سب مجرم ہیں سب قاتل۔
ایک انسان لاش بنا دیا گیا۔ غیرت کا پرچم سر بلند ہوا بے غیرت مر گئی۔
فقیہ شہر نے کہا عورتوں کو اس کے انجام سے ڈرنا چاہیے۔ سب نے آمین کہا۔
ہم نے منافقت اوڑھی اور ریاست نے خاموشی۔
خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا۔
لفظ تھم نہیں رہے جملے رک نہیں رہے۔ لیکن کوئی کب تک الجھی ہوئی زلفوں کو سنوار سکتا ہے؟
یوں بھی اب صرف یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ قندیل رب تمہاری منزلیں آسان کرے اور تمہارے حق میں دعائیں قبول فرمائے
آمین۔

بھیڑیوں کا انصاف



آج تو ابا کو گھر آ لینے دو، اماں کی ضرور شکائیت لگاؤں گی۔ پتا نہیں کیوں مجھے باہر کھیلنے سے منع کرتی ہے۔ ساری ہی تو میری سہیلیاں کھیلتی ہیں- اور پھر کہتی ہے چھٹیوں کے بعد تمہیں سکول بھیجوں گی پانچ سال کی ہوگئی ہو تم- اب بڑی ہوگئی ہو
 پانچ سالہ عورت نے سر جھٹکا اور گلی کی نکڑ پر سہیلی کے گھر کی طرف چل دی۔ ساری گلی میں اتنی خاموشی تھی جیسے قبرستان میں ہوتی ہے-قبر کا خیال آتے ہی خوف زدہ ہو کر نظر چاروں طرف دوڑائی۔ گلی میں کسی کو نہ پا کر گھر کی طرف دوڑ لگا دی
لیکن گھر دور تھا- بہت دور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور درمیان میں کئی بھڑییے بیٹھے تھے۔ گھات لگائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمر کے سترہویں سال میں لگ چکی تھی- اب تو اکثر آتے جاتے کمرے سے باہر برآمدے کی دیوار پر ٹنگے ہوئے چھوٹے گول آئینہ میں اپنا عکس دیکھ کر چوری سے مسکرا بھی دیتی تھی- اور پھر اپنی ہی مسکراہٹ سے خوف زدہ ہو کر پکا سا منہ بنا کرخود کو کاموں میں مصروف کر لیتی۔  مگر کمبخت عمر کا یہ حصہ ہی ایسا تھا مسکراہٹ چھپائے نہیں چھپتی تھی- ہونٹوں پر پہرے بٹھاتی تو آنکھ مسکرانے لگتیں- آنکھ کو روکتی تو کلائیاں کھلکھلا اٹھتیں اور محلے کی دوکان سے لی چوڑیاں اس کھلکھلاہٹ کا راز فاش کر دیتیں اور تین کمروں کے اس گھر میں کسی کونے سے اماں کی   غصے سے بھری آواز آتی- خدا جانے یہ سارے جسم نے مسکرانے کا فن کہاں سے سیکھا تھا -اور یہ بھی اتفاق تھا یا کچھ اور جب  اس نے مسکرانا سیکھا تھا اس کی اماں نے دہلنا شروع کر دیا تھا
اماں گاہے بگاہے بھائی کا ڈراوہ بھی دیتی تھی۔ یہ بھی معمہ تھا کہ وہ تین سال بڑے بیس سالہ کڑیل بھائی کی جوانی سے ڈرتی تھی یا میرے ہنسنے سے۔ ان دونوں میں سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرور تھا۔
جبھی تو اماں بھائی کی موجودگی میں مجھے منظر سے ہٹائے رکھتی تھی-میری سہیلیوں کی مائیں بھی ایسے ہی کرتی ہوں گی
اماں کہتی ہیں بیٹیوں کے نصیب ایک سے ہوتے ہیں
ابا بھی کہتا ہے دھی رانی ہوتی ہے۔ بس اس کے نصیب ڈراتے ہیں- پتا نہیں یہ کونسے نصیب ہوتے ہیں
ابا تو یہ بھی کہتا ہے بیٹی کسی کو بری نہیں لگتی یہ معاشرہ جینے نہیں دیتا
کسی دن پوچھوں گی ابا سے یہ معاشرہ کیا ہوتا ہے کون بناتا ہے اسے اور یہ کیوں جینے نہیں دیتا
ابا سے یہ بھی کہوں گی میری سہیلی دسویں کے پرچے دے گی اس بار، پھر ابا سے کہہ کے اگلی بار میں بھی دوں گی
اور آنے والی عید پر چوڑیوں اور مہندی کے ساتھ کاجل بھی لوں گی- میری سہیلیاں کہتی ہیں، میری آنکھیں کالی ہیں کالی آنکھوں میں کاجل بڑا پیارا لگتا ہے
صبح سے ہی اماں چارپائی سنبھالے پڑی ہے- ویسے تو اکثر بیمار رہتی اماں- پر آج تو صبح سے عجیب بے چینی ہے اسے بار بار شربت پانی پی رہی ہے- کہتی ہے دل گھبرا رہا ہے میرا
ابا سے کہہ کے اماں کو بڑے اسپتال لے جاؤں گی- ڈاکٹرنی سے چیک کروانے
آج گرمی بھی تو بہت ہے۔ سورج جیسے ہمارے ہی آنگن میں اتر آیا ہو۔ اماں تین بار دروازے سے ہو آئی ہے، بھائی کو دیکھنے- خدا جانے اتنی دوپہر میں کہاں گیا ہوگا
اماں کی چارپائی کے کونے پہ ٹکی وہ نہ جانے کیا کیا سوچ چکی تھی- اور جانے کتنی دیر ایسے ہی بیٹھی رہتی جو دروازہ دھڑ دھڑانے سے ڈر نہ جاتی- خوف زدہ نظروں سے اماں کی طرف دیکھا جو دل پہ ہاتھ رکھے دروازے کو دیکھ رہی تھی- ہمت جمع کر کے دروازہ کھولا تو بھائی__بھائی کی آنکھوں میں بسی حیوانیت۔ دروازے کو دھکا دیتے ہوئے اندر آیا
نلکے پہ جا کہ منہ پر پانی کے چھینٹے مار کمرے میں جا گھسا
وہ سہم کے اماں کے ساتھ جا لگی
جانے کتنے پل وہ بھائی کی آنکھ میں بسی حیوانیت کو سمجھنے  یا نہ سمجھنے کے درمیان معلق رہی۔ جب اماں نے اسے ایک جھٹکے سے پیچھے کیا اور اندر کمرے میں چلی گئیاور جب باہر آئی تو شکستہ قدم چلتی چارپائی پہ ڈھے گئی۔سہ پہر ڈھلے کچھ لوگ ابا کو بلانے آئے۔ اماں کے جواب پر ڈیرے پہ چلے گئے
سورج اپنے تمام تر غرور اور انا کے ساتھ مغرب میں ڈھلنے لگا تو سارے دن کی بے چینی پلکوں پہ آ ٹہری
پنچائیت کے آدمی بھائی کو بلانے آئے- اماں دھاڑیں مار کے رونے لگی
میں نے آٹا گوندھتے، کئی نمکین آنسو پونچھے- بھائی کا جرم نہیں پتا تھا مجھے
لیکن خود کو سزا کے لیے ضرور تیار کر چکی تھی
اس بستی کی ریت ہے ۔ بیٹوں کی کڑیل جوانیاں بچانے کے لیے بیٹیوں کے جوبن سولی چڑھائے جاتے ہیں
اب گلی میں ہونے والی ہر آہٹ پر دل بلیوں اچھلنے لگتا- جانے کب کون موت کا پروانہ تھامے آ نکلے
دل کے کسی کونے میں موہوم امید بھی تھی کہ  ابا مجھے سزا نہیں ہونے دے گا
اماں میری بلی نہیں چڑھنے دے گی۔رات سے پہلے جھکے کندھے لیے ابا گھر میں داخل ہوا-بھائی اس کے پیچھے تھا نہ آنکھوں میں حیوانیت نہ چہرے پر شرمندگی نہ جھکا سر
پانی کا گلاس  ابا کی طرف بڑھایا تو کپکپا تے ہاتھ سر پہ رکھ کے کمرے میں چل دیئے۔ اماں نے چیل کی طرح جھپٹ کے ابا کا دامن پکڑا اور ابا کی آنکھ میں چھپی تقدیر پڑھ کے سینے پہ دو ہتڑ مار کے بین ڈالنے لگی
تین تھے، نہیں شائد چار یا پھر پانچ- حیوان تھے جو لینے آئے۔ایک بھیڑییے نے پانچ سالہ عورت کو نوچ ڈالا تھا
منصفوں نے فیصلہ سنایا بھیڑییے کے گھر کی بھیڑ کو نوچا جائے
ابا کا جھکا سر، اماں کے بین، کچھ کام نہ آیا انصاف کا سر بلند ہوا
اذیت کی وحشت کی جانے کتنی صدیاں تھیں جو بدن اور روح چیرتی رہیں
جانے درد کے کتنے زمانے تھے جو گزرے تو وقت ٹہر گیا
جیسے چلتے چلتے زمیں رکی ہو- میں جو ابا سے معاشرے کے مطلب پوچھنے والی تھی اب اسی کے رحم و کرم پہ اس اندھیرے کمرے میں پڑی درد کے بے انت سمندر میں بے حس وحرکت پڑی تھی
ظالم، مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنا میری بستی میں انصاف کا بول بالا ہوا- منصفوں کے شملے اونچے ہوئے اور میری جنس کی تذلیل کا نیا باب رقم ہوا
ایک لڑکی سورج کے ڈوبنے سے چاند کے نکلنے تک کے درمیانی عرصہ میں زندگی کے سارے فلسفے سمجھ گئی
اماں کے ہر وقت کے کوسنے کا مفہوم اب کھلا مجھ پر
اپنے کندھوں پہ اپنی لاش لادے خود ہی چلتی گھر، نہیں اجنبیوں کے مکان تک آئی تھی یا کوئی چھوڑ گیا تھا، نہیں معلوم-احساس کی شدت احساس مار دیتی ہوگی- درد کی کسی بلند فصیل کو پیدل طے کیا تھا ۔ اب دکھ کی کسی کیفیت کا شائبہ نہ رہا تھا- میں اپنی بستی کے منصفوں سی ہوگئی__ بے حس
کاش میری جنس بھی صافہ باندھا کرتی تو میں صافہ گلے میں ڈالے منصفوں سے سراپا التجا ہوجاتی۔کیونکہ یہاں  ریت ہے  کہ جب کوئی صافہ گلے میں لٹکائے چلا آئے تو اس کے کردہ نا کردہ قصور معاف کر دییے جاتے ہیں
افسوس کہ نوچی جانے والی دونوں عورتیں صافہ نہ لیتی تھیں
سنا ہے ایسے منصفوں کی بستیاں جلد الٹا دی جاتی ہیں- سنا ہے ایک منصف اور بھی ہے- جو عادل ہے منصف ہے-میں اس کی عدالت میں مقدمہ نہیں لے جاؤں گی- سنا ہے آہ پر سوؤموٹو لیتا ہے وہ- حاکموں کا حاکم سب سے بڑا منصف
سحرش عثمان

سوشل میڈیا اور حقیقی زندگی


مارک زخر برگ نے ہماری زندگیاں کتنی مشکل کر دی ہیں ۔عجیب سی صورتحال کا سامنا رہتا ہے۔ رات دن اپنی آنکھیں، اپنے ہی ہاتھوں کی لکیروں میں کچھ تراشتی رہتی ہیں۔
جیسے قسمت کے ٹوٹے کسی تارے کی روشن لکیر کی تلاش ہوں یہاں۔
سامنے صوفے پہ لیٹی بہن کے احوال پوچھنے کی فرصت نہیں اور کیلی فورنیا بیٹھی سہیلی کی نند کے بچے کے لیے دعائے صحت فرمائی جا رہی ہوتی ہے۔ آپ سب ایسی ہی گفتگو کی توقع کر رہے ہوں گے؟ لیکن ٹہرییے! ایسے بھی نادان نہیں ہم

اجی ہم کوئی سیاست دان تھوڑی ہیں کہ جس تھالی میں کھائیں اسی میں چھید کریں- نہ ہم جرنیلوں کی طرح کسی عہدے پر فائز ہیں  جو کام اپنے لیے اچھا سمجھیں دوسروں پر اسی کی وجہ سے تنقید کریں- نہ ہم ڈاکٹر جو ایمرجنسی بائیکاٹ کر کے بیٹھے رہیں- انجینئر بھی نہیں جو ٹائم ویسٹ کرنے والے اور دوسرے سوشل میڈیا یوزرز کو الگ الگ کر سکیں۔
رکیے نا! جو آپ سمجھ رہے ہیں ہم وہ بھی نہیں- ایک تو 
ہم لوگججمنٹل بڑی جلدی ہوجاتے ہیں - ارے بھئی نہیں ہم موٹیویشنل سپیکر بھی نہیں ہیں
ہم تو سیدھی سادھی معصوم کم گو (اہم اہم) سی گھریلو لڑکی ہیں
اور کسی شاعرہ ہی کی طرح عام سی لڑکی ہیں ہم
بڑی عام سی سوچیں
گھر ہو، دریچہ ہو، چوبیس گھنٹے انٹرنیٹ اور موبائل کا بچہ.
خیر یہ تو تھی ضمنی سی بات اب کیا کروں لاکھ انکار کروں۔لیکن ہوں تو خاتون ہی  نا۔ کہیں کی بات کہیں تو جوڑوں گی۔
اس پر یہ شکوہ بھی کروں گی کہ ہماری بات سننے کا تو اس گھر میں کسی کے پاس ٹائم ہی نہیں- ہم تو چلے ہی جائیں گے کسی دن یہاں سے روتے ہوئے
تو ہوا کچھ یوں کہ ایک عدد کزن کی شادی فکس ہوئی اور ہم نے فیس بک پر اپلوڈ ہوئے اس کے میرٹل سٹیٹس کا اماں کو بتا دیا۔
اماں نے پہلے تو ہمارے سابقہ ریکارڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں ایک عدد گھوری سے نوازا۔ وہ کیا ہے کہ ماں سب جانتی ہے۔پھر جب پورے تین منٹ تک ہم اپنے بیان پر قائم رہے تو انہوں نے گھورنا موقف کر کے ہمارے سورس آف انفارمیشن کا پوچھا ہم نے جھٹ کہا فیس بک۔ اور یقین کیجیے اسوقت لگا مارک زخر برگ نے زندگی مشکل کردی ہے جب میریٹل سٹیٹس بدلنے کی سائنس بتائی ہم نے
یہ موا سوشل میڈیا دن بہ دن مشکلیں بڑھائے  جا رہا ہے- اس دن ابا کو اس بات پہ قائل کرنے میں پورے پندرہ منٹ لگے کہ ان کے جگری یاروں کے بچے اپنی اپنی سیاسی وابستگی کے باوجود آپ کے دوستوں کی گھریلو زندگی بخوبی ڈسکس کرتے ہیں فیس بک پر- ہم تو کنسرنڈ ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے ٹو ہوم اٹ مئے کنسرن کے ٹائٹل کے ساتھ ابا کے دوستوں کی ذاتی زندگی کے اسرار روموز از دئیر کڈز بھی بذریعہ سکرین شاٹس بھجوا دیتے جس پر ہمیں یہ شبہ نہ ہوتا کہ اماں ہمیں غلط غلط میسجز کرنے پر جوتوں سے ماریں گی
اس دن تو حد ہوگئی جب ایک عدد خاتون نے اماں کو بتایا کہ ان کا فون ایک ہفتے سے خراب ہے اور ہم نے اماں کو ان کا واٹس ایپ لاسٹ سین نکال کر دکھایا جو عین پانچ منٹ پہلے کا تھا
یعنی حد ہوگئی ہماری معصوم اماں کے ساتھ فراڈ
عجیب صورتحال اس دن ہوئی جب ایک فوٹو پر لگے کیپشن۔ ٹو باڈیز ون سول۔ پڑھ کے ہمیں پانی کا ایسا اچھو لگا کہ الاحفیظ الامان
غضب خدا کا جن کی ماؤں کی ساری عمر کی  سیاست  اس ایک نکتے پر چلی تھی کہ کہ اس نگوڑی نے میرا جینا حرام کر رکھا ہے- انہی کے بچوں کی روح ایک دوجے میں حلول کر گئی- ہائے کیسی مشکل ہے- بس سوشل میڈیا کے پیٹ کے جہنم کو بھرنے واسطے ان شادیوں پر جا کہ بھی ڈی پیز کھینچنا پڑتی ہیں جن کا وجود ہی کھٹکتا ہے کانٹے کی طرح
ایسا بھی دیکھا ہے ان گناہ گار آنکھوں نے کہ اسی فیس بک پر وہ بھی لولز روفل کرتے پائے جاتے ہیں جن پر گھر والوں نے بچوں کے سامنے ہنسنے پر پابندی لگا رکھی ہوتی ہے
اور وہ مائیں بھی مائے لو کا کیپشن لگاتی ہیں بچوں کی تصویروں پر جو پورے خاندان میں ببانگ دہل فرماتی ہیں
سارے دے سارے کوجے دادکیاں تے ٹر گئے نے- اک وی میرے تے نئیں گیا
اور وہ بیویاں بھی مائے ہبی مائے لو اور وہ شوہر بھی مائے وائف مائے لائف کرتے پائے جاتے ہیں جن کو عمر بھر سچا پیار نہیں ملا کرتا
کیسی مشکل گھڑی ہوتی ہے وہ جب اس کا سٹیٹس بھی لائک کرنا پڑتا ہے جن کے متعلق ایک بار گھریلو ڈسکشن میں ہماری بہن نے پوچھا تھا کہ یہ مکھی کو پیدا کرنے میں بھی تو رب کی حکمت ہے نا کوئی؟ اور ہم نے ان صاحب کی مثال دے کر واضح کیا تھا نہیں کچھ برا قدرت کے کارحانے میں
آجکل ہم عجیب مشکل کا شکار ہوجاتے ہیں جب کبھی فیس بک ٹویٹر لاگ ان کرتے ہی کسی کا میریٹل سٹیٹس بدلا ہوا پاتے ہیں- اب اپنے منہ سے بتاتے خاک اچھے لگیں گے ہم کہ ہماری عمر کے لوگ آجکل دھڑا دھڑ منگنیاں شادیاں فرما کر صابرین میں شامل ہو ثواب دارین حاصل کر رہے ہیں- تو ہم کہہ رہے تھے جب بھی ایسی کوئی خبر ہم تک بذریعہ سوشل میڈیا پہنچتی ہے تو ہم ایک منٹ کے لیے مخمصے کا شکار ہوجاتے ہیں کہ مبارک باد دی جائے یا۔۔۔۔۔
کیسی مشکل گھڑی میں لا چھوڑا ہے ہمیں اس موئے سوشل میڈیا نے سمجھ ہی نہیں آتا یہ جس بابا کی پرنسسز کا سٹیٹس دوپہر میں لائک کیا تھا شام تک وہ پرنسسز آف سم ونز ہارٹ بن چکی ہوتی ہے
اور جس کارنیٹو پر ہم آئسکریم سمجھ  کرندیدوں کی طرح دل بنا رہے ہوتے ہیں، وہ دراصل لو فرام سم ون ہوتی ہے
بھئی ہم سے تو ان ساری مشکلات کا کوئی حل نکالا نہیں جاتا آپ ہی سب کچھ کر سکیں تو ہمیں اس مشکل سے نکالیں ہم سے تو کوئی راہ نکالی نہیں جاتی

نوٹ اکاؤنٹ ڈی ایکٹویٹ کرنے کا مشورہ دینے والے کو بلاک فرما دیا جائے گا