Pages

Monday 31 October 2016

کتاب کا مکالمہ


دوستوں کے درمیاں کتاب دوستی اور کتاب پڑھنے پر بات چل رہی تھی۔ مکالمہ ہو رہا تھا اور چونکہ اپنے دوستوں کی ہر بات سے اختلاف کرنا ہم اپنے فرائض منصبی میں شمار کرتے ہیں۔ سو اس سے بھی بالاآخر اختلاف ہی کیا۔ کیونکہ دوستوں کا خیال تھا کہ کتاب نہیں انسان پڑھنے چاہیں اور یہ کہنے والے ہمارے دوست تھے۔ سو ان کی باتوں سے ہمیں شدید اختلاف تھا۔جیسا کہ کسی سیانے کا قول ہے کہ بات کو دیکھنا چاہیے کہنے والے کو نہیں اور ہر کلاسک پاکستانی کی طرح ہمیں بھی عقل کی ہر بات سے کم و بیش اختلاف ہی ہوتا ہے۔لیکن یہاں مسئلہ یہ تھا کہ مکالمے کے اگلے فریق بھی ہمارے ہی دوست تھے جیسے کہا جاتا ہے جنس بہ جنس پرواز۔۔ تو آسانی سے مان جانا ان کی بھی فطرت میں شامل نہیں۔
 لہذا جب سوال جواب شروع ہوئے تو پوچھا انسان کیسے پڑھے جائیں؟ تو جواب آتا ہے جیسے ہم پڑھتے ہیں۔ جس پر تین کو منٹ ہنسنے کے بعد کہا گویا آپ اتھارٹی ہیں

دنیا کے سارے علوم ایک طرف اور آپکا طریقہ ایک طرف۔ مانا دوست ہیں آپ ہمارے پر ایسا بھی کیا لیوریج لینا
سو ان سب دوستوں کے لیے ہمارا نکتہ نظر جو یہ سمجھتے ہیں کہ کتابیں پڑھنا حقیقت پسندی سے دور لے جاتا ہے
تو دوستو سب سے پہلے تو یہ بتائیے کہ کونسی حقیقت؟ وہ جو آپ نے کتابوں میں پڑھی ہے۔ کتابوں سے سیکھی ہے یا زندگی میں گزارے آپ کے ماہ و سال کے روز شب سے کشید کی ہے آپ نے؟
اگر تو کتابوں والی حقیقت ہے تو پھر مسکرانے کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے
لیکن اگر زندگی سے کشید کی ہوئی حقیقتیں ہیں تو پھر آئیے اسی پر بات کر لیتے ہیں۔ہو سکتا ہے میں نے سالوں میں عمر آپ سے کچھ کم گزاری ہو۔لیکن میں نے صدیاں ایسے ہی گزاری ہیں،جس میں زندگی اپنی پوری سفاکی، تلخی کے ساتھ موجود تھی اور جن میں کئی ان کہے درد آنکھوں کے راستے دل میں پیوست ہوتے ہیں
میں نے جنگ کی سفاکی سے متاثر ایک افغانی بچے کی آنکھ کی نفرت کو کتاب کے ذریعے بدلتے دیکھا ہے۔گلی میں پاپ کارن بیچنے والے بچے کو شوز پالش کرنے والے کو میں نے کہانی کی کتاب مل جانے پر مسکراتے دیکھا ہے
پتا ہے افغانی بچے کی آنکھ کی نفرت کو جن دنوں مہربانی میں بدلا تھا تو اس نے پہلا جملہ کیا بولا تھا؟؟ ہم کو پڑھنا سیکھاؤ
اور پاپ کارن والا بچہ جب کتاب واپس کرنے آیا تھا تو یہ پوچھنا نہیں بھولا تھا اور کتابیں ہیں۔ اور میں اس بچے کو عمران سیریز پہ لگانے کے متعلق سوچتے خود ہی مسکراتی رہتی ہوں
یہ تو تھیں وہ مثالیں جن کو سن کے آپ لوگ ہنستےہیں اور ہمیں خواب پرست سمجھتے ہیں۔یوں تو ہمیں خواب پرست کہلوانے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے.لیکن چونکہ آپ لوگوں کے خیال میں خواب پرست "پریکٹیکل" نہیں ہوتا. اور آپکا یہ بھی خیال ہے کتابیں پڑھنے سے ترقی "میٹریل اور فنانشل" ترقی کا سفر رک جاتا ہے.
تو کیوں نا اس غلط فہمی کا بھی ازالہ کر ہی دیا جائے.؟
آپ کو پتا ہے آپ لوگوں کے معیار والی مہذب دنیا میں سالانہ کتنی کتابیں چھپتی ہیں؟
چائنہ سالانہ چار لاکھ چالیس ہزار کتابیں چھاپتا ہے
یو ایس میں یہ تعداد تین لاکھ پچاس ہزار جبکہ یونائیٹڈ کنگڈم میں دو لاکھ کے قریب ہے
جبکہ ہم چونکہ زیادہ پریکٹیکل ہیں لہذا ہم سالانہ صرف چار ہزار کتابیں چھاپتے ہیں
اب آتے ہیں بک ریڈنگ کے ٹرینڈز پر یا ریڈرز کی تعداد پر
تو جناب چائنہ میں ہر شخص سالانہ اوسطا پانچ جبکہ امریکہ برطانیہ میں بلترتیب آٹھ اور دس کتابیں پڑھتا ہے
یہ تو تھا حساب کتاب
چلیے ایک اور بات سنیے آپ کو پتا ہے
مشہور سائیکولوجسٹ ڈاکڑ پال ایکومن مائیکرو ایکسپریشنز کے کو فاؤنڈر  لکھتے ہیں۔ جن بچوں کو بچپن سے کتابیں پڑھنے کی عادت ہو ان کا مشاہدہ دوسرے بچوں کی نسبت دو گنا زیادہ ہوتا ہے۔ مزید لکھتے ہیں کتاب پڑھنے والے ٹین ایجرز میں ڈپریشن فرسٹریشن اور ایگریشن کم ہوتا ہے اور مجرمانہ رجحان نہ ہونے کے برابر۔ آپ کو پتا ہے پچھلے دنوں جب ورلڈ مینٹل ہیلتھ ڈے منایا گیا تو کس چیز پر فوکس تھا بھلا؟؟ پاکستان میں یوتھ میں بڑھتا ہوا ایگریشن
اور یوتھ کے مجرمانہ رجحان پر کیا کہیں اور کیا نہیں تیرہ چودہ سال کے بچے اغوا برائے تاوان میں ملوث اور سترہ سترہ سال کے بچے قتل کے جرم میں جیلوں میں قید ہیں
خیر یہ تو تھی ضمنی سی حسابی باتیں
اصل بات بتاتی ہوں دنیا کے کامیاب ترین انسانوں کی مشترکہ عادات پر جب تحقیق کی گئی تو پتا ہے سب میں ٹاپ فائیو کامن عادتوں میں ایک کونسی تھی؟؟ ارے یہ ہی موئی کتاب، کتاب دوستی اس سے محبت
تو مختصر کہوں تو اپنے بچپن کی ایک نظم یاد آرہی ہے کہ
کتابیں باتیں کرتی ہیں، ہمیں انساں بنانے کی
کبھی اگلے زمانے کبھی پچھلے زمانے کی
مجھے اس بات کو ختم کرنا نہیں آرہا۔یعنی کتاب پڑھنے پر بھی دلیلں منطقیں اور فلسفے بگھارنا پڑیں گے..اففف کیسے کیسے دوست پائے ہیں ہم نے

Saturday 29 October 2016

کیمیائی تبدیلی


سنا ہوگا یہ اکثر
کوئلے کی کانوں میں
ہیرے بنتے رہتے ہیں.
صدیوں سے دفن مادے کی.
کوئی کیمیائی تبدیلی
قسمت بدل دیتی ہے.
پڑے پڑے "کوئلہ"
"قیمتی" کہلاتا ہے.
زندگی کا ہر قصہ.
جگ سے نرالا ہے.
جیسے غم نے اسے
آغوش میں ہی پالا ہے.
زندگی کی کانوں میں 
ہیرے سے موتی لوگ
کوئلہ ہی بنتے ہیں.
صورتیں ان ہیروں کی
روز روز ڈھلتی ہیں
نئے نئے نقش اور
نئی نئی لکیریں بھی.
چہرے بناتی ہیں.
لکیریں آہستہ آہستہ
نقش کھا جاتی ہیں.
جب قسمت کی لکیریں
ہتھیلی سے گرتی ہے.
تو چہرے پہ انمٹ لکیروں
انگنت نشانوں کا جال بنا جاتی ہے.

Tuesday 25 October 2016

محبت بھی ڈوب کر روپ بدلتی ہے




یاد ہے تمہیں
اکتوبر کا سورج ڈوبتے دیکھا تھا.
اپنی ہتھیلی پر تمہاری لکیریں چرا کر
میں نے حرفِ وصل لکھا تھا.
سنہری کرنوں سے مٹھی بھر کے.
میں نے جدائی رخصت کرڈالی تھی.
سورج ڈوبا تو چندا ابھرا تھا.
تم نے بھی یہ ہی کہا تھا
محبت بھی ڈوب کر روپ بدلتی ہے
کبھی سورج تو کبھی چندا کے سانچے میں ڈھلتی ہے.
اور میں ہنس دی تھی
تمہاری تشریحوں پر
شاعرانہ تفسیروں پر
ہاتھوں کی لکیروں پر.
محبت والوں کی تقدیروں پر.
تم بھی ہنسے ہوگے
ٹھوکر سے ساحل کی ریت بھی اڑائی ہوگی
اور دور کہیں آسمانوں پر
تقدیر بھی ہنسی ہوگی.
میری خوش گمانی پر.
محبت کی کہانی پر
میری مٹھی میں بند سنہری کرنوں
کے ہونے پر .
کیونکہ!
تم اور تقدیر
دونوں
"عقل"والے تھے.
اور میں عشق کے کلمے کی مجرم تھی
محبت کے گیت گا بیٹھی 
مجھے معلوم ہی نہ تھا
عشق تو جدائیوں سے تعبیر ہوتا ہے.
محبت کا وصل تو ہجر کی تفسیر ہوتا ہے.
مجھے معلوم ہی نہ تھا کہ تم
میری مٹھی میں بند ریت کی مانند
زرہ زرہ سرک جاؤ گے.
میں بیٹھی دیکھتی ہی رہی
اور کرنوں کا رنگ سنہری.
کوئلے سا کالا ہو گیا.
سنو میں اب بھی اپنی ہتھیلی سے 
جدائی کھرچتی رہتی ہوں.
سنو!
اب کے لوٹو تو
میری ہتھیلی لوٹا دینا
یا اپنی لکیریں لے جانا.

Wednesday 19 October 2016

ڈائری لیکس ۔ اہم شخصیات کی خفیہ ڈائریاں


یہ خبر دیتے ہوئے انتہائی مسرت محسوس کر رہی ہوں کہ میرے ہاتھ کچھ غیر سرکاری راز آئے ہیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، صحافی اپنے ذرائع خفیہ رکھتا ہے، تو میں یہ نہیں بتانے والی کہ اہم شخصیات کی ذاتی ڈائریوں کے یہ صفحات میرے ہاتھ کیسے لگے۔ آپ کو بھی آم کھانے سے مطلب ہونا چاہیے نہ کہ پیڑ گننے سے۔ بس انتہائی رازداری سے پڑھیے گا اور کسی کو مت بتائیے گا کہ ڈائری لیکس کے پیچھے میرا ہاتھ ہے، کیوں کہ اس ہفتے مجھے دبئی بھی جانا ہے۔ میں نہیں چاہتی میرا نام ایگزٹ‌ کنٹرول لِسٹ میں آ جائے۔


ایک شیر کی ڈائری کا صفحہ



اللہ کے فضل و کرم سے یہ اکتوبر تو اس دفعہ جان کو ہی آ گیا ہے۔ سوچ رہا ہوں اسمبلی میں ایک بِل پاس کروا کر 146اکتوبر145 کے مہینے کو کیلنڈر سے باہر نکلوا دوں اور اس کی جگہ ایک اور 6مئی   ڈال دوں۔ یکم مئی آنے سے عوام بھی خوش ہو جائیں گے کہ ایک چھٹی اور آئی۔ داخلہ وزیر مجھے حکومت سے خارجہ کر کے رہے گا۔ اندر کی خبر دینی تھی تو اردو اخبار میں لگوا دیتا۔ ایسے اخبار لفافے بنانے کے کام آتے ہیں۔ لفافے بھی بہت ہو گئے، ان کے منہ کو خون لگا ہے۔ ظلم یہ کہ انگریزی اخبار میں‌ لگوا دی۔ اب وہ نہ ہماری مانتے ہیں نہ 146اُن145 کی مان رہے ہیں۔ ڈٹے ہوئے ہیں شیر کے بچے کہ ہم اپنی خبر پر قائم ہیں۔ کوئی سمجھائے کہ اللہ کے فضل و کرم سے ہمیشہ کون قائم رہا ہے؟ پھر یہ بھی اللہ ہی کا فضل و کرم ہے کہ نکا شریف تے وڈا چودھری میری ہی قسمت میں لکھے ہیں۔ ہائے! ابھی تو 1999 کے بائی پاس کے اثرات نہیں گئے، کہیں اگلا آپریشن نہ ہو جائے۔عوام بھی تو ہر وقت عنران خان کے جلسوں میں نچنے پہ تلی رہتی ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے یہ اکتوبر خیر خیریت سے گزر جائے، بس۔



ایک کپتان کی ڈائری کا صفحہ



میں نے ورلڈ کپ جتایا۔ قوم سے چندا مانگ مانگ اسپتال بنایا۔ لیکن سارا مسئلہ کرپشن کا ہے۔ کرپشن ہوگی تو کرکٹ کبھی ترقی نہیں کرے گی۔ کرکٹ ترقی نہ کرے گی، تو قوم ترقی نہ کرے گی۔ یہ عمر اکمل کو ٹیم میں کیوں نہیں کھلایا؟ میں بتاتا ہوں۔ یہ کرپشن سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ یہ۔۔ یہ۔۔ یہ سمجھتے ہیں میں رک جاوں گا؟ اوئے میں بھی بڑا ضدی ہوں۔ نواز شریف کو اب کوئی نہیں بچا سکتا۔ نکلے ذرا باہر، باہر نکل کر دیکھے عوام ان سے اکتا چکی ہے۔ اب اس کی دھاندلی نہیں چلے گی۔ یہ پٹواری کہتے ہیں میں اسمبلی میں کیوں نہیں بولتا، سڑکوں پہ کیوں بولتا ہوں۔ کوئی انھیں بتائے، اس لیے کہ سڑک پہ میں اپنا اسپیکر لے کر آتا ہوں۔ یہاں میرا مائک بند کرنے والا کوئی نہیں۔ یہ جانب دار امپائرنگ ہے، ہوم گراونڈ پہ ہوم اپمائر نہیں ہونا چاہیے، امپائر نیوٹرل ہو تو ہم کھیلیں گے، نہیں تو تب تک بائیکاٹ ہے ہمارا۔



ایک جیالے کی ڈائری کا صفحہ



سائیں ڈیڈی نے کیدر سٹک کرادیا ہے مجھے۔ ابھی تو میں نے آپنی گریجوائشن بھی کمپلیٹ کرنی ہے، بٹ ڈیڈی بھی ٹرو کہتے ہیں، جب گورنمنٹ کا بزنس کرنا ہے، تو اِدر پاکستان میں کرنا ہے، تو بزنس دیکھنے سال میں ایک دو بار تو آنا پڑے گا۔ اب میں چالاک ہوگیا ہوں۔ ڈیڈی کی ٹوٹلی نہیں مانتا۔ ای سی ایل والا ٹویٹ میں نے ایان کے لیے تھوڑی کیا تھا، وہ تو بس یونہی میرا موڈ ہو را تھا۔ ڈیڈی کہتے ہیں، میں میچور ہوں، بڑوں جیسا بی ہیو کروں، لیکن جب آنٹی حنا کو ایک بیگ لے کر دیا، تو ڈیڈی ناراض‌ ہو گئے۔ آنٹی سے یاد آیا ڈو یو گائز ریمیمبر آنٹی ہیلری کے فنڈز کم ہو گئے تھے۔ پھر فرح آنٹی کے ہبی کو فون کیا ڈیڈی نے، بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی جب ہمیں ضرورت پڑتی ہے، تو ہم بھی تو انہی سے لیتے ہیں نا، تو ڈیڈی نے کہا بس ایز ٹوکن آف لو آئی مین ایفیکشن اپیریسیشن ہیلری آنٹی کو لٹل بکس بھجوائے۔ آنٹی بڑی سویٹ ہیں اگلی پبلک میٹنگ میں کہنے لگیں بیل آول ہی سب سے میچور پالیٹیشن ہے۔ مجھے ڈر ہے اور آنٹیاں بھی سچ مچ نہ بتا دیں کہ میں میچور ہو گیا ہوں۔



ایک کمانڈو کی ڈائری کا صفحہ



یہ بات لکھنا ضروری ہے، سبھوں کو پتا ہونا چاہیے کہ ڈرتے ورتے ہم کسی سے نہیں، اور ان سے۔۔ ان سے جو مجھ سے معافی مانگ کر بھاگ گئے تھے؟ میں معافی مانگ کر نہیں بھاگا۔ مانگی بھی ہے تو ادارے سے مانگی ہے کیوں کہ مجھے پورے ادارے کی اسپورٹ حاصل ہے۔ ادھر عدالت میری جائداد ضبط کرنے کے آرڈر دیتی رہے، اقتدار میں آتے ہی ان عدالتوں کو اتنی آزادی دے دوں گا، جتنی اپنے دور میں دی۔ پھر سبھوں کو دیکھ لوں گا۔ اس الیکشن میں میری کمر میں چُک نہ پڑی ہوتی تو کھڑا ہو جاتا، لیکن اگلی بار کھڑا ہو کر دکھاؤں گا، ناچ کر دکھاوں گا، گا کر سناؤں گا۔ یہ قوم مداری کا تماشا شوق سے دیکھتی ہے۔ جب تک اگلے الیکشن نہیں ہوتے، میں یہاں طبلہ بجا کر، فنکشن کر کے ٹائم پاس کروں گا۔ یہی کر کے تو لندن فلیٹ‌ خریدا۔



ایک بیورو کریٹ کی ڈائری کا صفحہ



دس ہزار میں سے دو سو لوگ پاس کیے جاتے ہیں۔ کے ای کے گولڈ میڈلسٹ۔ ایسے میں لمز، آئی بی اے گریجویٹ گرائمر میں فیل کردیتے ہیں ہم اور انٹرنیشنل افیرز میں ماسٹرز والا کرنٹ افئیر میں رہ جاتا ہے۔ اس پر کمال یہ کہ ہر طرف سے داد و تحسین کے ڈونگرے بھی برسائے جاتے ہیں۔ میرٹ کا سر بلند ہوتا ہے۔ معیار تعلیم کی برتری تسلیم اور ہمارا شملہ اونچا ہوتا ہے۔۔ شکر ہے کوئی آ کر یہ سوال نہیں کرتا کہ یہ جو بہترین اداروں کے ٹاپرز فیل کر دیئے ہیں، تو غلطی کہاں ہے؟ اگر قوم یہ سوال کرنے لگی تو ہماری دکان تو بند سمجھو۔ وگرنہ آزادی کے دعوے دار بھلا غلاموں کے لیے بنایا جانے والا سول سروسز سٹرکچر اور ایکٹ قبول کرتے؟ پچھلے سال تو عدالت نے بھی کہا کہ اردو میں پرچے لیے جائیں، پر ہم نے تو آج تک منتخب وزیراعظم کی نہ مانی، ایسی عدالت کی کیا مانیں گے۔ اردو میں آ گیا نظام تو کیا ایرا، کیا غیرا، کیا نتھو خیرا ہر ایک اٹھ کے پرچے نہ دینا شروع ہو جائے گا! سب سمجھتے ہیں بھئی ہم۔ پر کیا کریں گندا ہے، پر دھندا ہے۔ اپنی دکان کون بند کرتا ہے۔



اب آخر میں آپ کو بتاتی چلوں کہ مجھے تھر کے سفر میں ایک ایسی ڈائری بھی ملی جس کے صفحے خشک اور کھردرے تھے۔ بجھے بجھے سے، مٹے مٹے سے۔ کلائیوں سے کندھے کے جوڑ تک سفید چوڑیاں‌ پہنے ایک راہ جاتی ناری کو روک کر پوچھا، یہ کس کی ڈائری ہے؟ وہ کہنے لگی، ایک تھر والی کی۔ پوچھا، تحریر کہاں گئی؟ تو کہنے لگی پیاس کھا گئی۔ میں نے پھر پوچھا کہ پیاس کیسے کھا سکتی ہے؟ کہنے لگی جس قوم کو کربلا تو یاد ہو اور تھر بھول جائے، وہاں پیاس کا کرب و بلا، کچھ بھی کھا سکتا ہے۔ جب ہمارے لیے لکھے ہوئے لفظ بے معنی ہو گئے اور یہاں سے بھیجی تحریروں کا جواب نہ آیا تو یہ سوکھ کر مٹی ہوگئے۔ یہاں بھوک کا ڈیرا ہے۔ ہم تھر کی مٹتی ہوئی تحریریں ہیں۔ مٹی ہوتی تحریر کا ماتم کون کرے۔

Friday 14 October 2016

خیال کی موت




اے نظم نگارو!
نظم کہو نا اچھی سی
شاعر__ لوگو
لفظوں کے تم ماہر ہو
جادوگر سے،ساحر ہو
قلم سے صحرا
ہاتھ سے سورج
حرف سے دریا
روشنائی سے اندھیرا.
تراشتے رہتے ہو.
آؤ دیکھو!
میرے حرف ہیں بکھرے بکھرے.
تخیل کے سارے گلستاں
اجڑے اجڑے.
سوچ کے سارے پنچھی.
خواب کے سارے جگنو.
تنہا تنہا بجھتے بجھتے.
خیال کا ساگر
رخ موڑ رہا ہے.
جیسے بچہ آنکھ پہ ہاتھ دھرے
ناراض ہو،اور چپکے چپکے
دیکھتا ہو
کوئی اسے منانے آئے.
کھلونا اس کو لوٹانے آئے.
لفظوں کے ماہر لوگو!
پھر سے کہوں تو ساحر لوگو!
میرے خیال کو واپس لا دو.
حرف تسلی دے کر تم
پھر سے میرا تخیل بہلا دو.
سنو رگوں میں تلخی دوڑ رہی ہے.
سوچ میں زہر یہ گھول رہی ہے.
لفظ رعنائی چھوڑ رہے ہیں.
تلخی کو تم روک سکتے ہو.
زہر کا تریاق ہو بھی سکتے ہو.
تم چاہو تو کر سکتے ہو.
میرے خیال کے نازک رخ کو
ذرہ زرہ بکھرنے سے.
قطرہ قطرہ پگھلنے سے.
روک لو تو اچھا ہے.
خیال کی موت تو مات ہوگی__
تم سب کی شاعر لوگو!
سحرش

یزید کا نام گم جائے گا، حسین زندہ رہے گا


وہ شعر یاد نہیں آرہا تھا کچھ کچھ یوں ہے کہ جو اہل ہوں وہ منتخب نہیں ہوتے۔ پہلا مصرع کربلا کی حکایت سے سبق ملنے سے متعلق تھا۔ سارا دن شعر کو دہراتے الفاظ کا ہیر پھیر کرتےگزرا۔ شعر یاد نہیں آنا تھا سو نہ آیا۔


شام ڈھلے جب موسم میں گھلی غیر معمولی اداسی اور خاموشی محسوس کی تو چپکے سے کوئی سوال جاگا کہ ذرا بتاؤ تو کربلاکی حکایت سے تم نے کیا سیکھا ہے کیا سبق دیتی ہے ہمیں کربلا کی خون آشام شام؟



آج تک کبھی اس سوال پر غور ہی نہیں کیا نا ہم نے؟ شاعروں نے جو کچھ بتایا بس ہم نے وہ ہی سیکھا۔ غور کیا تو کربلا کی ظلمت میں بہت سے سبق پوشیدہ ملے۔ ایک تو یہ یقین ہو گیا کہ ظلم پر زیادتی پر نا انصافی پر خاموش رہنا یا اس کا ساتھ دینا کچھ اور ہو تو ہو حسینیت نہیں ہو سکتی۔ یہ دریچہ بھی کھلا کہ اگر حسین (رض) سچ پر حق پر جان نہ وارتے تو شائد اس کے بعد سچ بانجھ ہو جاتا اور آنے والے ہر دور کا یزید اپنی مرضی منشاء ضرورت اور پسند کی سچائی لکھواتا منواتا۔



اور تاریخ کا بیک وقت بدترین اور بہترین سبق بھی کربلا نے سیکھایا کہ ضروری نہیں تم اپنے حال میں جس حیثیت یا سٹیٹس میں زندگی گزار رہے ہو تاریخ اسے قائم بھی رکھے۔ تاریخ کے صفحات پر وقت کے سارے یزید بے یارومددگار پڑے نظر آتے ہیں۔ کبھی بھی ہمدردی کے محبت کے حق دار نہیں سمجھے جاتے۔ تاریخ کی وہ کتاب یاد آئی کہ جب اسے پڑھا تو عہد یزید،کربلا کے برپا کرنے والے یزید کا دور ٹوٹل ڈیڑھ صفحے پر مکمل تھا۔ اور اگلے دو چیپٹر کربلا کی اہمیت اسباب واقعات اثرات پر تھے۔ وہ جس 147قصے148 کو ختم کرنا تھا اس کی بجائے خود ایک قصہ بن گیا۔



بہت عام سا نام تھا عرب میں جیسے امر تھا یا عمر تھا ویسے ہی یزید تھا عام سا نام ناں جیسے ہمارے ہاں ہر تیسرے بچے کا نام عبداللہ ہوتا ہے ناں ویسے۔



بہت سے بچوں کا نام ہوگا لوگ رکھتے بھی ہوں گے___ پر آج کیا ہے؟ وہ نام نام نہیں رہا مثال بن چکا ہے ظلم کی، شدت پسندی کی اور زیادتی کی۔ مثال دینا ہو یا وقت کے کسی جابر شقی القلب کا قصہ سنانا ہو بس یہ کہہ دینا کافی سمجھا جاتاہے کہ یزید ہے پورا وہ



اور دنیا کے کسی خطے کی کوئی ماں اپنے بچے کا نام یزید نہیں رکھنا چاہتی نہ اس سے نسبت ہی ملانا چاہتی ہے۔



اور دوسری طرف حسین تھے بلکہ حسین ہیں۔ کیا یہ جملہ واقعہ کربلا کو سمیٹ نہیں دیتا کہ یزید کے ساتھ ماضی بعید کا صیغہ لگے اور حسین کے ساتھ حال کا؟



اور کہنے دیجیے وہ نواسا رسولؐ ہی تھے جو کربلا کا ظلم سہہ کے بھی حق پر ڈٹے رہے ہم آپ ہوتے تو یزید کے ساتھ 147این آر او148 کر چکے ہوتے۔ سچائی ہار دیتے پر  جمہوریت نظام  بچا لیتے۔



کہنے دیجیے وہ حسین تھے جنہوں نے فرات کے کنارے پیاسا شہید ہونا پسند فرمایا ظلم کو نہ قسمت کا لکھا سمجھا نہ زیادتی کو یہ کہہ کر ٹالا کہ وقت اچھا بھی آئے گا۔



وہ حسین ہی تھے جنہوں نے سر کٹانا پسند فرمایا جھکانا نہیں۔



وہ بالیقین حسین تھے حفیظ جالندھری کے الفاظ میں یوں کہ۔



لباس ہے پھٹا ہوا، غُبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں، چھدا ہوا کٹا ہوا
یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہ سوار ہے
کہ ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے
یہ کون حق پرست ہے، مئے رضائے مست ہے
کہ جس کے سامنے کوئی بلند ہے نہ پست ہے
اُدھر ہزار گھات ہے، مگر عجیب بات ہے
کہ ایک سے ہزار کا بھی حوصلہ شکست ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے
یہ جسکی ایک ضرب سے، کمالِ فنّ ِ حرب سے
کئی شقی گرئے ہوئے تڑپ رہے ہیں کرب سے
غضب ہے تیغِ دوسرا کہ ایک ایک وار پر
اُٹھی صدائے الاماں زبانِ شرق وغرب سے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے
عبا بھی تار تار ہے، تو جسم بھی فگار ہے
زمین بھی تپی ہوئی فلک بھی شعلہ بار ہے
مگر یہ مردِ تیغ زن، یہ صف شکن فلک فگن
کمالِ صبر و تن دہی سے محوِ کارزار ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

Tuesday 4 October 2016

علم کی شاپنگ


خاتون پورے جوش خروش سے تعلیم کی اہمیت پر "تقریر" فرما رہی تھیں۔ جب حاضرین کو پوری طرح قائل کرچکیں تو کہنے لگیں،بہت کمپیٹیشن ہے۔ ابھی سے زیادہ پڑھائی کی عادت ہوگی تو مقابلہ کر پائیں گے۔ میں تو اپنے بچوں کی پڑھائی کے معاملے میں لاڈ نہیں رکھنے  والی۔بے ساختہ ان کے بچوں کی تلاش میں نظر دوڑائی تو چھوٹی سی بچی پنک فراک میں ملبوس دنیا کے سب سے قیمتی تاثرات، تجسس اور لگن آنکھوں میں بسائےحیرت سے دنیا دیکھتی ہوئی ملی۔معصوم چہرےپر بےساختہ مسکراہٹ۔اس ننھی پری کی کمپیٹیشن لوور ماں جی سے عمر پوچھی۔تین سال پر میں ابھی سے اس کی "ایجوکیشن" بارے بڑی کنسرنڈ ہوں۔خاتون نے انگریزی بول چال کے معاملے کی سنگینی سمجھانے کی کوشش کی کہ تعیلیمی میدان میں بہت 'کمپیٹیشن'ہے

خاتون سے پوچھا دنیا سے مقابلے کیلئے تعلیم دلوائیں گی؟ انتہائی فخر سے بولیں جی بالکل
اور خدا جانے ان کے لہجے کا وہ "فخر" تھا یا الفاظ میں موجود قطیعت۔کہ میرے اندر کا وہ "انقلابی فلسفی" جو تین منٹ پہلے ایک عدد تقریر کا متن ترتیب دے چکا تھا، خاموشی سے اندر ہی کہیں دبک گیا.
کسی  ملال کے ہالے میں دل مضطر نے خزن کی چادر اوڑھی لی۔جیسے مجھ سے بھی روٹھ گیا ہو کہ سب تمہاری غلطی ہے جو منہ اٹھا کر یہاں چلی آئی۔ خود تو آئی آئی، ہمیں بھی ساتھ لے آئی
کسی نے شکستگی سے اندر ہی سرگوشی کی کہ جس قوم میں تعلیم بچوں کو گدھوں کی دوڑ کا گھوڑا بنانے کے لیے مختص کردی جائے وہاں اجتماعی شعور بھاڑ میں نہ جائے تو کہاں جا بسرام کرئے؟
یہاں ناخوب ہی خوب ہے بی بی!! باہر کی چپ نے اندر کہیں گویائی پا لی۔سنو جیسے غلامی میں اقدار بدل جاتی ہیں ۔ جیسے کمزور جبر کو صبر سے تعبیر کرنے لگتا ہے اور طاقتور اختیار کو جواب دہی سے بالاتر تصور کرنے لگتا ہے۔ویسے ہی انسان مقابلے کی دوڑ میں یہ بھی بھول جاتا ہے کہ رب نے اسے الگ تدبیر پر الگ تقدیر دے کے پیدا کیا ہے۔جیسے مختار مسعود لکھتے ہیں کہ غلامی میں صدیاں کھو جایا کرتی ہیں بالکل ایسے ہی خود ساختہ معیار بناتے، ان کا پیچھا کرتے  نسلیں گم ہوجایا کرتی ہیں۔ہم بھی تو کئی نسلوں سے یہ ہی کر رہے ہیں۔ہیں نا؟؟
ہم بھی تو بغیر مقصد کے ہی جیے چلے جاتے ہیں؟؟ بلکہ مقابلہ کیے چلے جاتے ہیں؟
ہم ڈاکٹرز ،انجینئر، وکیل، پروفیسر بناتے بناتے، کامرس پڑھاتے پڑھاتے انسان بنانا ہی بھول بیٹھے ہیں۔اب ہمارےارد گرد پیسے بنانے والی مشینیں تو ہیں۔پر انسان نہیں
پھر ہم شکوہ کرتے ہیں کہ ڈاکٹر ڈاکو بن چکے ہیں، وکلافراڈ کرتے ہیں، صحافی جھوٹ بولتے ہیں، منصف انصاف نہیں کرتے، ادیب سچ نہیں لکھتے، شاعر حسن نہیں بوتے اور دانشور دانش کشید نہیں کرتے اورمولوی مذہب بیچتا ہے
بھلا یہ سب کیسے ممکن ہو؟ منصف کیسے انصاف کرے؟ انصاف بہادر لوگوں کا وصف ہوتا ہے جو ہم اپنے بچوں کو سکھاتےہی نہیں ہیں.صحافی سچ کیسے بولے؟؟ سچ اور اعلی ظرفی لازم ملزوم ہیں اور ہم قومی حیثیت میں اس وصف سے محروم ہیں اور مولوی مذہب کیوں نہ بیچے؟ جس جنس کی مانگ ہوگی وہ تو منڈی میں آئے ہی گی نا۔ہم نے سیکھاہی نہیں آج تک۔ کہ جہاں سر تسلیم خم کرنا ہو وہاں سودے نہیں کرتے
ڈاکٹر کیوں نہ ڈاکو بنے؟؟ انسانی رویے اس کی ڈگری نے نہیں سکھانے تھے۔اورشاعر کہاں سے حسن بِیجے؟؟
حسن خوبی گھر کی کھیتیاں تو نہیں ہوتیں۔ان کے لیے تو نرسریاں لگانا پڑتی ہے۔ محنت کرنا پڑتی ہے
یہ سب افرادبھی تو اسی کل کا جزو ہیں ۔ تو ان کی خود غرضی پر پھر شکوہ کیسا؟؟ ہم بھی تو تین تین سال کہ بچوں سے ان کا بچپن چھین کے مقابلے کا پکاپن انسٹال کرتے ہیں۔ ہم بھی عجیب ہیں اور ہمارے معیار بھی..پورے معاشرے کو ہی ہم نے کھیوڑہ بنا دیا ہے۔ جسے دیکھو نمک ہوا پھرتا ہے
تعلیم جسے مینار نور بننا تھا صرف ڈگری بن کر رہ گئی ہے۔وہ جس "اقرا" کے اجالے سے ہم نے دلوں کے حکمراں بننا تھا، وہ اجالا کسی "مقابلے" کی تیرگی کی نظر ہوا۔وہ علم جس کی روشنی سے ہم نے اپنے لوگوں کے ذہنوں سے تعصب نکالنا تھا۔وہ تو خود تعصب کا شکار ہوگیا
ہمیں سکول کالج یونیورسٹی بھیج کر اپنے بچوں کوباشعور، ویل مینرڈ، مہذب، کلچرڈ اور باکردار نہیں بنانا..ہمیں تو بس ڈاکٹرز انجینئرز،وکلا اور پروفیشنل ڈگری ہولڈر گدھے درکار ہیں۔ جو اپنی زندگی میں زیادہ سے زیادہ "ڈالرز" کما سکیں.ہمارانام "روشن" کر سکیں.اور چاہے اس چکر میں زندگی انہیں گزار کر چلتی بنے
سحرش.

اپنی_اپنی_جنت


یوں تو دو بلکل الگ دنیاؤں الگ الگ معاشرتی زندگیوں کا تقابل اپنی ذات میں احمقانہ پن ہے.اور یوں بھی زیادتی سی محسوس ہو رہی ہے کہ کسی کی غیر موجودگی میں اسکی کسی بات یا تحریر کا جواب دیا جائے.

لیکن چونکہ ہماری بھی زبان کے آگے خندق اور کی بورڈ کے سامنے کھائی واقع ہوئی ہے.
دوسرا ابھی بہت وقت باقی ہے نیند کے مہرباں ہونے میں اور گروپ ہماری خامہ فرسائیاں سننے مطلب پڑھنے پر تقریبا مجبور بھی ہے..ویسے بھی گروپ کے انکلز نے پوسٹ پر بے انتہا دلچسپی دکھا اور جذباتی کامنٹس کر کےہمیں یہ لکھنے پر مجبور کیا ہے لہذا یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ شروع آپ نے کیا تھا ختم ہم کریں گے وہ بھی اپنی ٹرمز پہ.:-P 
تو پہلی بات وہ جو بی بی کینڈا سے آ کر یہاں کی جھلی عوام کو تقریر تحریر کے ذریعے سے عقل مت دے رہی تھیں ان سے پوچھنایہ ہے کہ یہ کینڈا والوں کو ہر سال ہماری کم مائیگی کا احساس کیوں ہوتا ہے وہ بھی اتنی شدت سے؟
بھئی ہم نے تو جسٹن ٹروڈو کے آپ لوگوں کے وزیر اعظم بنتے ہی آپ لوگوں کی برتری تسلیم کر لی تھی اب پھر سے گو نواز گو تحریک چلوائیں گی کیا؟؟ پہلے ہی ہمارے بڑے شدید تخفظات ہیں ان کے بارے میں.
خیر بی بی ذرا اس ڈرامے باز قوم کی ڈرامے باز خواتین کے ڈراموں پر ہم بھی روشنی ڈالے دیتے ہیں.
آپ لکھتی ہیں ناشتہ آپ بناتی ہیں بچوں کو شوہر تیار کر دیتے ہیں.یہاں کی ڈرامے باز بیبیاں صبح صبح والی ایپسوڈ میں اپنا بچوں شوہر سسرال کے ناشتے کے ساتھ ہر کام پہ جانے والے شخص کی تیاری کی بھی ذمہ دار ہوتی ہیں.
اور یہ ڈرامہ رات گئے تک چلتا رہتا ہے. آپ کہتی ہیں رات کو بیٹی کو کبھی میں کبھی شوہر سنبھالتے ہیں ہماری نیندپوری نہیں ہوتی..محترم خاتون یہاں پاکستانی ڈرامے باز خواتین بیمار بچے کو لیے ساری ساری رات لاونج کے صوفےپہ اونگھتی رہتی ہیں کہ کمرے میں میاں صاحب کی نیند اور مزاج اکھڑتے ہیں بچے کے رونے سے.
یہ پاکستان ہے یہاں میاں کچن میں کام کرےتو سب سے پہلے ماں کی "مردانگی" پہ چوٹ پڑتی ہے اور پھر سات نسلوں پہ بات ختم ہوتی ہے.
جسے معصومیت سے آپ ڈش واشنگ کہہ کہ ہسبنڈ کو سنک کے سامنے جا کھڑا کرتی ہیں نا یہاں وہ ناک کا مسئلہ ہوتاہے گلاس گندے ہوں تو میاں صاحب کافی مگ میں پانی پینا پسند کرتے ہیں گلاس دھو کہ پینا کسر شان ہوتا ہے.
آج جس بیٹی کے لیے آپ رات کو جاگتی ہیں نا کل کو وہ کسی ٹام ڈک ہیری کو لاکھڑا کرے گی نا کہ بیاہ دو اس سے نہیں تو جاتی ہوں میں.تو آپ کے ہبی "غیرت" میں نہیں آئیں گے شام کی چائے پہ بلا لیں گے اور آپ کیک بیک کریں گی ان کے لیے.اور محترمہ یہاں لمز آئی بی اے کی گریجوائٹ)(اکثریت) کسی کوماں باپ کے سامنے کھڑاکرنے سے پہلے پندرہ ہزار مرتبہ سوچتی ہے بالاہی بالا اسے بتاتی ہے وقت پر آنا ابا وقت کے پابند ہیں اپنی فیملی سے کہنا فارمل رہیں. اور پھر اس پر "غیرت" کے سوئے رہنے کی دعائیں کرتی ہے.
محترمہ آج آپ آتے جاتے کسی کافی شاپ کسی بس سٹاپ پہ اپنے ہبی کو کسی سے مسکراتے بات کرتے دیکھ لیں تو شام کو کٹہرے میں کھڑا کر لیں گی اسے یہاں سگی ماں بھی کہہ دیتی ہے نظر انداز کرو صبر کرو...میرج لاء تو ڈئیر لیڈی ہم نے بھی پڑھ رکھا اب اتنی بھی نہ بڑھائیں پاکی داماں کی حکایت.
خدانخواستہ آپ کے ملک میں ساتھ رہنا ممکن نہ رہے تو خاتون آدھے مال وـاسباب لے لے چلتی بنتی ہیں اور اگر بچوں کی کسٹڈی فائل کر کے لے لے تو بچوں کے نام پہ مزید آدھا حصہ یا کچھ ملکوں میں اٹھارہ سال تک کفالت...
اور___ یہاں پتا ہے کیا ہوتا ہے؟؟ بتیس روپے بتول کا حق مہر ہتھیلی پہ رکھ کے ہماری نسل ہمارے پاس رہے گی کہہ کے چلتا کیا جاتا ہے بری کا زیور اتروا کے..
اور عدالتیں سوائے انصاف فراہم کرنے کہ ہر کام کرتیں ہیں.
فارغ خواتین کی بھی خوب کہی آہ کو پتا ہے ہماری ساٹھ فیصد خواتین دیہاتوں میں رہتی ہیں..اور اندازہ ہے وہاں ورکنگ کسے کہتے ہیں؟؟ 
بی بی پتا ہے آپکو یہاں جنوبی پنجاب اندرون سندھ بلوچستان اور کے پی کی خاتون روز کیا کرتی کیا نہیں کرتی؟؟
فالسےچننے والی خواتین فالسے کی ٹہینیاں بطور اجرت قبول کریں اور آپ "خزاں" سے اکتا جائیں تو اپنی ڈپریشن نکالنے ہم پر آجائیں اور آ کر "یک بہ جنبش قلم" سب کو ڈرامے باز کہہ کہ چلتی بنیں..اور ہم کچھ نہ بولیں.
ہمنوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں.
کہنا یہ ہے کہ.مسائل ہر جگہ ہوتے ہیں اپنی اپنی نوعیت کے اس جہاں خراب میں پرفیکٹ کچھ نہیں بس
اپنی اپنی جنت کے کچھ خواب لیے
اپنی اپنی دوزخ میں سب جیتے ہیں.
پھر بھی آپکو لگتا ہے یہاں جنت ہے تو آئیے نا کسی دن یہاں رہنے.
#سحرش