Pages

Sunday 24 April 2016

بیٹیاں


میرے اپنوں کے حصے میں آئیں رحمتیں جو زمیں پر اتاری گئیں تو خالق نے چپکے سے کان میں کہا آج سے زمین پر تیرے باپ کا بازو میں ہوں۔۔تکرار کی خو رکھنے والے کلیم نے جب دہرا کر پوچھا تھا نا؟...نہیں۔۔ جب زیادہ خوش ہو جاتا ہے  مالک تو بتا پھر؟پھر کیا کرتا ہے
خالق مسکرایا ہوگا
 وہ بولا میرے کلیم جب زیادہ خوش ہو جاتا ہوں تو جب میں اپنے بندے سے راضی ہو جاتا ہوں تو پھر میں بیٹی پیدا کرتا ہوں ۔

اور جب ممدوح یزداں بیٹی کے باپ کی مدح کرے تو کون سنگدل بیٹی کا باپ نہ بننا چاہے گا
جب وہ کہہ دیں حشر میں ساتھ کھڑا کروں گا جوتم دو بیٹیوں کے باپ بن گئے۔کیا مرتبہ ہے
فاطمہ( رضی اللہ عنھا) کہ لیے محفل برخواست کرنے والا باپ۔۔بیٹی کہ لیے حیدر قرار کو نصیحت کرنے والا باپ....اس کے لیےبیٹی فخر تھی
یہ سب بیٹیاں بھی فخر ہیں۔ اپنے اپنے باپ کا مان ہیں
یہ سب جب ہنستی ہیں تو ان کہ ہونٹوں کی مسکراہٹ اور باپ کی آنکھوں کے تاثرات کا رشتہ سمجھ میں آتا ہے۔ جب ماؤں کی ڈانٹ پر سراپا شکائت باپ کو اپروچ کرتی ہیں۔ تو اکثر کائنات کو مسلسل طواف سمجھ میں آتا ہے۔ ہر دم، ہر پل، زندگی ہر آن، امید نو، یہ بیٹیاں
وہ کسی عربی فلاسفر نے کہا تھا شائد کہ
ہر مرد کی دو مائیں ہوتی ہیں ایک اس کی ماں اور دوسری اس کی بیٹی۔باپ کے ماتھے کی شکنوں کو سمجھ کر اس کی پریشانی بانٹنے والی اپنے اپنے باپ کا فخر بیٹی ۔ہاں نا فخر۔۔وہ جو انسانیت جس پر فخر کرتی ہے۔۔رب کہ حبیب کہہ دیں تو "میں بیٹیوں کا باپ ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے" تو پھر کون ہے جو ان پر فخر نہ کرئے.
اور مجھے، مجھے اس پر فخر ہے کہ میں اپنےابا کہ لیے جنت کی ضمانت لے کر زمین پر اتری
اور بیٹی ہوتے ہوئے یہ بات مجھے پتا ہے کہ بیٹیوں کو مضبوط ہمیشہ باپ بناتے ہیں۔ انہیں دنیا سے لڑنا باپ سیکھاتے ہیں۔ اگر بیٹی کی پشت پر باپ کھڑا ہو تو پھر وہ دنیا کو ہینڈل کرنا سیکھ لیتی ہے
یہ میری خواہش ہے کہ میرے اردگرد یہ رحمت کے حصے سدا مسکرائیں اور ان کے باپ دامادوں کی معاشی حالت مضبوط کرنے کے متعلق سوچنے کی بجائےاپنی بیٹیوں کی ذہنی و تعلیمی حالت مضبوط بنائیں تا کہ کل کوئی ٹام ڈک ہیری خود کو شہزادہ عالم نہ سمجھ سکے...اور تاکہ کل آپ کی بیٹی آپ پر فخر کرے۔ یہ کہتے ہوئے...ابا آپ کی بیٹی ہوں

Saturday 16 April 2016

غیرت بریگیڈ بمقابلہ ڈاؤن سینڈرومز


ڈیئر سو کالڈ لبرلز اور اپنی طرف سے پوری قوم کےایمان کےمحافظ پیارے مولوی حضرات
آپ دونوں کو اکھٹے اس لیے مخاطب کر رہی ہوں کہ آپ دونوں کو ہی نہیں پتا کہ آپ ایک دوسرے کی ضد میں۔۔۔ مخالف انتہاؤں پر پہنچ چکے ہیں
گھٹیا حرکت کی مذمت کرنے کےلیے گھٹیا ترین حرکت کرکےجب آپ اپنے مخالف کو نیچا دکھاتے ہیں اور جب غلیظ گفتگو اور اس کے جواب میں غلیظ ترین زبان استعمال کرتے ہیں تو یقین کیجیے قوم کا بھلا ہوتا ہے۔وہ جاننے لگتی ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔آپ لوگوں کی مہربانی جو آپ دنوں نے مل کرپوری قوم کی روشن خیالی اور غیرت کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی ہے
آپ حضرات کےمزاجوں پہ گراں تو گزرے گا لیکن مجھے سوال اٹھانے دیں۔ چاہے تو"ناقص العقل" سمجھ کےسوالوں کو در خور اعتنا ہی نہ سمجھیے گا۔پر ذوق سخن آزما لیجیے
!ہاں تو غیرت برگیڈ پہلے یہ سنیے !جس نے حیا چھوڑ دی پھر وہ جو جی چاہے کرے
ان الفاظ میں کہیں ری ایکشنری بے حیا ہونے کی اجازت ملی ہو تو دکھا دیں؟
اور ایک واقعہ پر لبرلزم کی آڑ میں اپنے مخالفین پر اندر کا گند نکالنے والے انتہائی محترم لوگو! یہ غیرت اس وقت کہاں جاکر سوجاتی ہے؟ جب پرائم ٹائم میں ایسی تمام چیزوں کےاشتہار ٹی وی پر چلتے ہیں.جب پردادا سے لے کر پڑپوتی تک ایک ہی کوگنک آئل اور سرف صابن لا کےسڑک پہ ناچتے پھرتے ہیں۔ جب کافی کا سپ لگاتے ہی لوگوں کو سول میٹ مل جاتا ہے۔جب روز ملک میں ریپ کیس رجسٹر ہوتے ہیں۔ جب روز کسی نا کسی عدالت میں ماں چار چار ماہ کے بچے کی حوالگی کےکیس لڑتی ہوئی احاطہ عدالت میں ممتا کا خون ہوتے دیکھتی ہے۔ جب پورے ملک کی آدھی دیواریں اور سارے حکیم آپ کی جنس کی ایک ہی بیماری کا علاج کرتے پائے جاتے ہیں۔ تب کہاں جا سوتی ہے غیرت؟ تب کیوں احتجاج نہیں کرتے آپ؟ تب کیوں زبانیں سل جاتی ہیں؟ کیوں اس لیے کہ معاملے میں رگیدنے کو عورت انوالو نہیں ہوتی اور آپ حضرات کا تو موضوع گفتگو ہی عورت ہوتی ہے۔سوشل میڈیا پر مذہب کی چمپئن شپ بلا مقابلہ جیتنے والو! اپنی اپنی فرینڈ لسٹ پر اور انباکس کےاودر فولڈر پر نظر دوڑاؤ۔اگر شرم آ جائے تو سمجھو واقعتا غیرت ابھی ہے تم میں
اور دوسری طرف لبرلزم کےخمار میں مبتلا پیارے ڈاؤن سینڈرومز۔ لبرلزم میں قطعی ضروری نہیں ہوتا کہ مذہب کی لازمی تو ہین کی جائے، ہر بے حیائی کو سپورٹ کیا جائے۔ جو بات مہذب انداز میں کہی جا سکتی ہے اس کےلیے بے شرمی کی حدیں پار کی جائیں۔
اور اگر اتنا ہی شوق ہے نا ہمیں "مہذب" کرنے کا تو پھر جاؤ پہلے خود خالص تہذیب سیکھ کےآؤ
آپ دونوں نے مل کےمیرے لوگوں کو سینسٹائز کر دیا ہے۔ اب لوگ بڑی سے بڑی بات کہہ دیتے ہیں اور انہیں شرم نہیں آتی
غضب خداکا جس بات کو رب نے بھی کہا یہ ذاتی معاملہ ہے۔ ہر دو فریق کو اس میں رازداری برتنا پڑے گی اور یہ تعلق کی بنیادی شرط ہو گی۔ آپ لوگ اسے کیسے دھڑلے سےسوشل میڈیا پر لکھ دیتے ہیں۔ بے شرم کہیں کے..۔

دیکھو!!! بولنا مت چھوڑو


ایک سال اور نو دن کی ایمل کہ متعلق میرا یہ خیال تھا کہ اس کے لیے فلحال جملے کوئی مفہوم نہیں رکھتے۔ کیونکہ وہ کبھی بھی۔ نو۔ کہنے پرکسی بھی کام سے رکتی نہیں ہے۔ 

آج دن میں اس کے ساتھ کھیلتے ہوئے جب میں نے کسی شرارت کے جواب میں آنکھوں پر ہاتھ رکھ کہ کہا کہ میں آپ کہ ساتھ نہیں بولتی۔ تو اچانک  شرارت چھوڑ کہ کرال کرتی ہوئی میرے پاس آئی۔ آنکھوں سے ہاتھ ہٹائےاور اپنے انداز میں محبت کا اظہار کرنے لگی
پتا نہیں وہ اس کو بھی شرارت سمجھی تھی یا نہ بولنا واقعتا اس کیلئے اہمیت رکھتا تھا
لیکن اس کہ اس عمل میں مجھے لگا کسی نے میرے سامنے ذرے میں صحرا سمیٹ دیا ہو
مجھےایمی کی صورت میں کائنات کا ایک ابدی اصول سمجھ آیا
کہ انسان بھی تو پاؤں پاؤں کرال کرتا اس دنیامیں یس کی کمانڈ کو اگنور کرتااور نو کی وائلینشن کرتا رہتا ہے نا کہ اچانک کسی آزمائش کی صورت کوئی اس کہ دل میں سرگوشی کرتا ہے کہ
"وہ۔ اس کہ ساتھ نہیں بولتا
اور انسان بھی سب کام دھندے چھوڑ سب شرارتیں پس پشت ڈال لوٹ آتا ہے کہ
دیکھو!!! تم بس بولنا مت چھوڑنا
وگرنہ بڑا نقصان ہو جائے گا
اور ہم اس نقصان کہ متحمل نہیں ہو سکتے
دیکھو!!! بولنا مت چھوڑو

Monday 11 April 2016

راشد حمزہ کے نام سالگرہ کی دعا



راشد حمزہ کو سالگرہ کا انعام دیا جائے(وش کیا جاے)
اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے
خیر اب چونکہ رسم دنیا بھی ہے موقع بھی دستور بھی تو لو میاں راشد حمزہ تمہیں اپنی پیدائش کا یہ عظیم سانحہ مبارک ہو..پاک.رب ہمارے حالوں پہ رحم فرمائے 
سنو! ویسے تو عمر میں تم سے کوئی دس ایک سال چھوٹی ہی ہوں گی لیکن! سعدی کہتا ہے کہ عمر ماہ وسال سے نہیں عقل و شعور سے ماپی جاتی ہے تو میاں اس حساب سے تم ہوئے ایام طفولیت میں
اور ہم ٹہرے شیبہ( پیدائشی بزرگ) تو پھر نصیحت کرنے کا جو صوابدیدی اختیار ہے اسے استمال کرتے ہوئے تمہیں گر سکھاتے ہیں
پہلی بات تو یہ سیکھو کہ ہر فیک آئیڈی لڑکی نہیں ہوتی
دوسری یہ سیکھو کہ سوشل میڈیا پر بھی وااہ وااہ کرنے والے کسی اور گروپ میں اسی شدو مد سے کام.سے لے کر ذات تک ہر شے کہ بخیے ادھیڑ رہے ہوتے ہیں لہذا ایسی واہ واہ جو معیار سے گر کہ ملے اس سے اجتناب ہی برتو تو اچھا
اور یہ سمجھو...کہ کسی بھی جگہ پر جائیں تو وہاں کہ معیار نہیں اپناتے اپنا مزاج اور معیار برقرار رکھتے ہیں مزاح میں بھی جیسے ملٹن کہتا ہے نا غلامی جنت میں بھی نہ کروں تو ایسے ہی کہیں پر بھی اپنا میرٹ برقرار رکھو
اور ہاں اسے تو لاسٹ وارننگ ہی سمجھو! اپنی تحریر کے رنگ مت پھیکے پڑنے دو یہ سوچ کر کچھ بھی مت لکھو کہ لوگ ایسا پڑھنا چاہتے ہیں لکھتے ہوئے یہ یاد رکھو کہ تم.کیا لکھنا چاہتے ہو آئیڈینس کی فکر مت کرو...کیونکہ جو ہواؤں سے لڑنا جانتے ہیں نا وہ بادباں کشتیوں کو ڈوبنے نہیں دیتے
ہاں خوش رہو اپنی طبیعت کی نیکی پر قائم رہو ترقیاں پاؤ
نوٹ:امید ہے آئیندہ پیدا ہو کہ.مزید شرمندہ کرنے کا موقع نہیں دو گے

Sunday 10 April 2016

پرندے ڈر کے اڑ جائیں تو۔۔۔


کھڑکی کے باہر چڑیوں نے گھونسلہ بنا لیا ہے۔اب روز صبح چار بجے جب نیند پلکوں پہ مہربان ہونے ہی لگتی ہے۔ میرے ننھے ہمسائے جاگ جاتے ہیں اور چار بجے سے جو داستان امیر حمزہ شروع کرتے ہیں تو دن ڈھلنے بعد مغرب کے بعد ہی چپ ہوتے ہیں

کافی دنوں سے ان کی "مصروف" آوازوں سے میں اندازے کے گھوڑے دوڑ دوڑا کے تھک جاتی ہوں لیکن مجال ہے جو مصروفیت کا عقدہ کھل کے دیا ہو۔آج صبح جب پانچ بجے چوں چوں کی دو مختلف آوازوں میں تین یا چار نئی اور قدرے نخیف آوازیں بھی سنائی دیں تو مصرفیت کا راز افشا ہوا۔ لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ آ گئی۔ اچھا تو اس بات کا اضطراب بھرا جوش تھا

ان ننھی آوازوں کے بدلے آج بی اماں چڑیا قدرے محتاط تھیں جیسے اپنے ننھے بچوں کی نیند ٹوٹنے کے ڈر سے مائیں ایڑیاں اٹھا اٹھا کے چلتی ہیں۔ آج اس کی چوں چوں میں بھی ویسی احتیاط تھی..جیسے ماں فیڈر بھی بنائے تو بنا آواز کے ٹھہر ٹھہر کے ہلاتی ہے کہ گود میں سویا وہ ننھا فرشتہ  اٹھ نہ جائے۔ آوازوں میں ویسی احتیاط بول رہی تھی اور سہ پہر ڈھلتے ہی میرے ہمسائے چپ ہو گئے تھے۔ شاید ننھے فرشتوں کی نیند کا شیڈول  سیٹ نہ ہو پایا ہو۔

ابھی سنی جا سکنے والی آوازوں میں گو چڑیا کی اپنی آواز سب سے نخیف اور کمزور معلوم پڑتی ہے لیکن ان چھوٹی آوازوں کے سامنے وہ تھنڈر کلیپ معلوم ہوئی۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ مضبوط ہو گئی تھی یا بدل گئی تھی آواز کی پچ اس کا ساؤنڈ ویسا ہی تھا۔ لیکن لہجہ بدل گیا تھا۔ مجھے لگا معصوم چڑیا سے "ماں" کا سفر طے کیا ہے۔ اس آواز نے جو حفاظت کرنا بھی جانتی ہے اور محفوظ رکھنا بھی اور لہجے کی یہ مضبوطی اسے اسم محبت نے بخشی تھی

محبت بھی کیا عجب شے ہے نا! انسانی رشتوں سے سہم جانے والے سوہنی کو شوریدہ سر چناب سے لڑوا دیتی ہے۔ صحرا میں گلستاں تلاش کرتی سسی کو سراپا صحرا بنا دیتی ہے اور لوگوں سے اسباب چھینتے ان پر زندگی اجیرن کرتے خیام کو شاعر بنا دیتی ہے۔ خوف اور دہشت کی علامت خیام، رباعیاں لکھتے لکھتے ماروی کا سنگ در بننے کی سراپا تمنا ہو جاتا ہے۔ محبت اتنی ہی طاقتور ہوتی ہے

سراپا قہر و غضب عمر(رض) کو فاروق بنا دیتی ہے۔حبشی سید کہلانے لگتے ہیں۔ اسی لیے شاید محبت کرنے والے بے ریا، خالص اور بے غرض محبت کرنے والے لوگ بہادر اور غنی ہوتے ہیں۔ اجلے اور اور خالص ہوتے ہیں کیوں!! کیونکہ محبت ان کے اندر کی کجی مار دتی ہے۔ پھر کھونے کا خوف بھی جاتا رہتا ہے

صرف پانا ہی تو محبت نہیں نا۔۔۔ چڑیا کی آواز میں بولتا مان اور غرور بھی اسی محبت کی عطا تھا۔ جو خالق اپنی تخلیق کے بعد ماں کے دل میں القا کرتا ہے۔ جو لہجے میں نغمیت کا استعارہ بن جاتا ہے اور ہر دم لفظوں میں گنگناتا ہے۔ جیسے ماں کی سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے اسی ایکنغمے کی دھن ہوتی ہو۔ویسے ہی جیسے ہیر کے من میں ہر دم رانجھے کی ونجلی بجتی تھی اور جیسے صاحباں کو مرزا کے گھوڑے کی ٹاپ پیاری تھی۔
ویسے ہی جیسے خالق کو پکار پیاری ہے۔

روز سوچتی ہوں کہ پردے ہٹا کر ننھا سا نازک سا گھر دیکھوں۔ روز یہ سوچ کر ارادہ بدل دیتی ہوں کہ ۔۔۔

پرندے ڈر کے اڑ جائیں تو پھر لوٹا نہیں کرتے

Friday 8 April 2016

پیاری دوست سدرہ کے نام


یوں تو وہ بہت خوبصورت بلندی کہ کسی استعارے کہ پہلے کلمے(حصے) جیسے نام کی مالک ہیں لیکن ہم.انہیں "دیدہ" دل فرش راہ کیے بس دیکھتے ہی ہیں اس کی وجوہات میں قابل ذکر ان کا سیلفی کریز ہے دن میں چار سیلفیز پوسٹ کیے بغیر ان کا دن نہیں گزرتا کھانا ڈائجسٹ نہیں ہوتا نییند پلکوں سے روٹھی روٹھی رہتی ہے اور دل میں برے برے خیال آتے ہیں اب آپ سوچیں گے کہ دل میں خیال تو جی جناب انہیں پہلے دل میں ہی خیال آتے ہیں ذہن میں قریب دو دن بعد گھستے ہیں اسی ضمن میں ان کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ کسی کی شادی پہ تشریف لے گئیں مہندی پہ.ہنسی مذاق ہوتا رہا خاتون نہایت سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی رہیں لیکن عین رخصتی کہ نازک موقع پر دلہن کہ گلے لگ کہ جو ہنسنا شروع ہوئیں تو چپ کرانا محال ہو گیا سب سمجھے افسردگی میں دماغ چل گیا ہو گا لیکن معلوم کرنے پر پتا چلا کہ مہندی پر دلہن نے جو جوک سنایا تھا وہ خاتون کو سمجھ آگیا ہےالغرض انتہائی ہنس مکھ طبیعت پائی ہے
طبیعت سے یاد آیا پکی لہورن ہیں لہذا تین گھنٹے کی ملاقات میں دو گھنٹے چالیس منٹ آپ سے یہ ہی پوچھتی رہیں گی کہ کیا کھاؤ گے کیا منگوا دوں آخری بیس منٹ میں آپ کو اپنے تازہ ٹور کی تصویریں دیکھا کر ہنسی خوشی رخصت کر دیں گی..
ہر نئی فلم دیکھنا فرض منصبی سمجھتی ہیں اور جو نئی فلم دیکھتی ہیں اس کہ ہیرو کی فوٹوز پوسٹ کرنے لگتی ہیں ابھی ہیرو کہ ساتھ "تعلقات" سنجیدہ نوعیت اختیار کرنے ہی لگتے ہیں کہ کوئی نئی فلم ریلیز ہو جاتی ہے
پیشے سے استاد ہیں لیکن ڈاکٹر ہیں وہ بھی فارسی کی
اس کہ باوجود ہمیں ‍ رومی نہیں پڑھاتی کہتی ہیں رومی کو ڈاکٹروں نے جوا ب دے دیا تھا جاؤ اس کہ لیے کوئی حکیم ڈھونڈو
خیر یہ تو ایک ضمنی بات تھی 
ان کہ متعلق یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ تمام خاندان میں شادیوں پیدائشوں دعوتوں کھانوں ریزلٹس اور پارٹیز کہ سٹیٹس بمعہ تصاویر کہ لگانا ان کی ڈیوٹی ہے جس کہ انہیں.پیسے ملتے ہیں اگر ایسا ہے تو وہ ایک کامیاب بزنس وومن ہیں
کلاسک خاتون ہے لمبی چوٹی ناک می‍ں کوکا ہاتھ میں چوڑی ____اور پاؤں میں گلیڈیٹر والے شوز...جی بلکل گلیڈی ایٹر والے کہ کسی بھی وقت کہیں بھی جانا ُپڑ سکتا ہے
شاپنگ بلکل نہیں کرتیں بس دن میں ‍ تین چار گھنٹے ہوا خوری کو بازار ہو آتی ہیں کہ گھر میں پڑے پڑے بندا اکتا جاتا ہے اور یوں بھی دوکاندار بھی کیا سوچیں گے کہ اتنی بے مروتی بس اسی خیال سے ہفتے میں چھ ایک دن مارکیٹ پائی جاتی ہیں
اس سب کہ باوجود وہ کبھی کبھار ایلس لگتی ہیں جو ونڈر لینڈ میں حیران نظروں سے ارد گرد دیکھتی ہی‍ں اور پھر حساسیت چھپا ہنس کہ گزر جاتی ہیں شائد اسی اچھائی کی بدولت ہم بھی ہیں ان کی فرینڈز لسٹ میں..
سحرش

Monday 4 April 2016

ایمی کے نام



جب پہلی دفع انکیوبیٹر می‍ میں نے ڈرتے ڈرتے تمہیں ہاتھ سے چھوا تھا اور تم.نے اپنی چھوٹی سے ناک سکور کہ مجھے دیکھا تو زندگی میں پہلی دفعہ اپنے علاوہ کسی کا ناک سکورنا بے طرح بھایا تھا.اور جب گھر آنے پر پنک کمبل میں لپٹی چھوٹی سی ڈال کو اٹھایا تھا اور جب میں نے فیلنگ پھپھو لگائی تھی اور جب تمہارے نام میں الف کہ بعد ی لگایا تھا(امل سے ایمل) تب مجھے اپنا آپ بڑا بڑا فیل ہوا تھا.
پچھلے سال پانچ اپریل کی سپہر سے پہلے مجھے معلوم.نہ تھا نصیب اچھا ہونے کی دعا بھی دیتے ہیں بےبی گرل کہ پنک کلر میں جو محبت کا احساس ہوتا ہے یہ اس سے پہلے معلوم نہی تھا مجھے لگتا تھا میں کسی بہت چھوٹے بچے کو کبھی اٹھا نہہیں پاؤں گی لیکن میرا یہ خیال بھی تم نے غلط ثابت کر دیا
اور وہ دن جب آپ بارہ دن کی تھیں اور آپ نے وامٹ ائیر پائپ میں پھنسا لی تھی گھر سے ہوسپٹل تک کہ چھ منٹس میں تم نے مجھے خوف کا مفہوم سمجھایا تھا....میں نےجتنی شدت سے اس دن اس کو پکارا تھا__اگر کوئی پیمانہ ہو اور وہ اس پکار کی شدت ماپے توشائد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ایسے سوال نامراد نہیں لوٹائے جاتے
اور پھر اس پورے سال کہ مختلف فیز رات کو ایک سے تین بلاوجہ رونے والا فیز
فیڈر لیٹ ملنے پر ضد والا فیز فیڈر نہ پینے والا فیز سارا دن سونے اور رات بھر جاگنے والا فیز
سالڈ فوڈ والا فیز چینخوں والا فیز ٹب میں بیٹھ کہ چھینٹے اڑانے والا فیز
اور چھوٹے چھوٹے لفظ بولنے والا فیز
برڈز ،بلی ،سولو کو پاس بلانے والا فیز
اس پورے سال میں میں زندگی ہر رنگ میں محسوس کی ہے میں پی کا پو کھیلتے ہوئے دوپٹہ اوڑھے یہ سوچ کر جلدی سے دوپٹہ پیچھے کر دیتی ہوں 
کہ کہیں تم پریشان نہ ہو جاؤ..
اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ خوبصورتی کی محبت کی شرارت کی مجسم تصویر بتاؤ تو میں بے ساختہ کہہ اٹھوں ایمی
میں جب تمہیں اٹھاتی ہوں اور جب تم میری گود میں سوتی ہو تمہاری سانس کہ ساتھ مجھے نئ انرجی ملتی ہے جیسے کسی پتھر میں کوئی چپکے چپکے ریزہ ریزہ زندگی پھونکتا ہو
جیسے کوئی رفتہ رفتہ حیات بخشتا ہو
مجھے لگتا ہے تم نے مجھے احساس کہ نئے پن سے روشناس کرایا ہے میں جب بھی کسی بات پر تمہارے ایکسپریشنز دیکھتی ہوں تو وہ مجھے بلکل نئے خالص اور اپنے لگتے ہیں میں بارہا تمہارے چہرے کہ تاثرات دیکھنے کہ لیے ایک ہی شرارت کئی بار دہرا دیتی ہوں تمہاری مسکراہٹ دیکھنے کہ لیے میں گھنٹوں چھم چھم کھیل سکتی ہوں اور قہقہ سننے کہ لیے ٹکل کر سکتی ہوں
افففف بس یہ کہ
اگر میں دنیا میں بولی جانے والی ساری زبانیں لوں اور ان زبانوں میں سے محبت کہ سارے لفظ چنوں ان لفظوں سے اپنے لیے محبت کا ایک جملہ تراشوں تو وک ‫#‏آنا_آدا‬ (آجا) سے زیادہ میٹھا زیادہ سریلا نہیں ہوگا...
اور یہ کہ ہمیشہ مسکراؤ آنا کے چھوٹے جگو( جگنو) تم جیو ہزارو سال
آمین

Friday 1 April 2016

دیکھ میں تیری دنیا کے معیارات سے مطمئن نہیں ہوں


تیرے بندوں کے ہاتھوں آزار میں ہوں۔ تو نے تو ایک تقوے کی بنیاد رکھ کے زمیں پر اتار دیا اور ادھر زمین پر تیرے بندوں نے اپنے اپنے معیارات کا ایسا گھڑمس مچایا ہے کہ الامان و الحفیظ۔ دیکھ یہ مجھے تجھے اون نہیں کرنے دیتے "برہمن" کہتے ہیں ان کی بات مانے بغیر تونے میری بات سننینہیں ہے ۔ کیوں جی کیوں نہیں سننی؟ کیا میں برابر کی تخلیق نہیں ہوں؟
دیکھ یہاں نیچے بڑا پھڈا ہو گیا ہے۔ یہ برہمنوں نے تجھے آپس میں بانٹ لیا ہے۔ دونوں نے تجھے آدھا آدھا تقسیم کر رکھا ہے۔ ایک نے تیری رحیمی کریمی پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہ اس میں سے بخشش کے پلاٹ کاٹ کاٹ کر اقربا پروری کرتا رہتا ہے۔ تو دوسرا تیری بے نیازی کیش کراتا ہے۔ اب ایسی صورت میں تو ہی بتا میں کدھر جاؤں۔
یہ جو دم درود والے ہیں نا یہ مجھے کافر انتہا پسند کہتے ہیں۔ بم بارود والوں کو میں مشرک بدعتی لگتی ہوں۔
ایک اور سمسیا بھی ہے نیچے۔ وہ تو نے زندگی موت کا اختیار اپنے پاس رکھا تھا نا؟ وہ تھوڑی غلط فہمی ہو گئی ہے برہمن کو لگتا ہے وہ بھی اس کا اختیار ہے۔ اسی اختیار کے کوٹے میں انہوں نے  اتنے سارے لوگ تیرے پاس  بجھوا دیے ۔ ویسے ان لوگوں نے شکایت تو لگائی ہو گی پوچھا بھی ہوگا کہاں تھا تو۔
 یہ بھی سوال کیا ہوگا کہ "کیا دیکھ رہا ہے" نہیں پوچھا؟
 ہاں وہ دراصل ان سب کو برہمن نے ڈرا ہی اتنا دیا تھا کہ بیچارے قوت گفتار نہ سلامت رکھ پائے۔ مجھے بھی ڈراتے ہیں روز حشر تیرے سامنے کھڑے ہونے سے۔ پر میں اکثر سوچتی ہوں۔ وہاں تو برہمن سسٹم ہی نہیں ہوگا تو پھر ڈر کیسا؟ تو تو ویسے بھی اپنے بندے سے محبت کے اعلی ترین جذبے کے عمدہ مظہر کا قائل ہے۔ خیر یہ تو ایک ضمنی بات تھی بھلا تیری محبت پر کیا شبہات۔
مجھے پتا ہے تو بہت مصروف ہے۔ مجھے یہ بھی پتہ ہے یہ کائنات کہ مسلسل کن کی بازگزشت میں ہے۔ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔
پر دیکھ! یہ معاملہ بھی کم گھمبیر نہیں ہے یہ بھی فوری حل طلب ہے دیکھ اب گزارا نہیں ہے اب تو زمین پہ اتر اور تصفیہ کرا۔
میں تجھے زمین پر بلا تو رہی ہوں پر میں کسی قسم کی ذمہ داری نہیں لیتی۔
یہ جو برہمن ہے نا مجھے ڈر ہے کہیں یہ تیرے خلاف ہی صف آرا نہ ہو جائیں۔ کیونکہ یہ زمین پر کسی کو بھی اپنے آپ سے افضل نہیں سمجھتے۔ یہ زمین پر تیرے نائب تو ضرور ہیں لیکن اپنی دانست میں یہ اس کی ہر حد سے مبرا و ماورا سمجھتے ہیں خود کو۔ مجھے خطرہ ہے یہ زمین پر اپنے سوا کسی کا حق تسلیم نہیں کرتے۔ اور ہاں اگر تو نے ان کہ مسلک کو ٹوٹل دین ماننے سے انکار کر دیا تو پھر! ہاں یہ سوچ مجھے دہلائے دے رہی ہے۔ اففف یہ تجھ پر کوئی بھی مدعا ڈالیں گے۔
دیکھ ساری صورتحال تیرے سامنے ہے۔ پر اب کہ کوئی پیمبر، کوئی امام زماں جو نہیں تو پھر تو ہی آ۔ اسیر ذہنوں میں ذرا سی سوچ بھر جا۔ سفید لمحوں میں ذرا سے رنگ ڈال جا۔ اداس لوگوں کو مسکراہٹ دے اور  تجھ میں جو میرا حصہ ہے وہ دلا دے۔
دیکھ مجھے اپنی اوقات پتا ہے۔ میں اس سے زیادہ کی طلب گار بھی نہیں مجھے صرف اس بدو کے جتنا  تو  چاہیے ہے جس نے یہ کہتے ہوئے تجھے پا لیا تھا کہ
اگر تو کریم ہے تو پھر پریشانی کی کوئی بات نہیں، کیونکہ کریم جب غلبہ پاتا ہے تو رحم کرتا ہے معاف کر دیتا ہے۔
تو کریم ہے اب کے بے نیازی دیکھا اور برہمنوں کہ ہاتھوں یرغمالی کیمپ میں قید اس ڈیڑھ ارب کو بچا۔