Pages

Wednesday 13 January 2016

پاسپورٹ




سڑک کے ایک طرف پاسپورٹ کا دفتر ہے۔ تو دوسری طرف قبرستان۔پاسپورٹ کے دفتر کی عمارت نئی تعمیر ہوئی ہے۔تین منزلہ عمارت میں شیشے کی کھڑکیاں اور ساؤنڈ پروف دروازے بھی ہیں شائد۔قبرستان کی چار دیواری اکثر جگہوں سے ٹوٹ چکی ہے۔
روز ان دو انتہاؤں کے درمیان سے گزرتے ہوئے پاسپورٹ آفس زندگی سے بھرپور نظر آتا تھا۔کل سے پہلے مجھے بھی لگتا تھا پاسپورٹ پر ویزا لگوانا بہت بڑی اچیومنٹ ہوتی ہے۔۔شائد
لیکن کل۔۔ہاں کل کے بعد سے مجھے لگنے لگا ہے۔ ویزا تو ہمارا روز ازل کا لگ چکا ہے۔ہم تو بس درمیانی مہلت طے کر رہے ہیں۔جیسے باری کے انتظار والا کرتا ہے۔کل سے ایسا لگ رہاا جیسے پاسپورٹ آفس کا کوئی بغلی دروازه ہو۔جو قبرستان میں جا کرکھلتا ہے۔زمینی طور پر شائد یہ ممکن نہیں لیکن یہ خیال آرھا ہے کہ پاسپورٹ کے دفتر کا ایگزٹ ڈور یہاں کھلتا ھوگا۔پاسپورٹ آفس میں داخل ہونے والا ھر شخص ایونچلی اس دروازے پر پہنچ جاتا ھوگا.
وه ایک روزمره کی روٹین والا عام منظر تھا۔قبرستان کے دروازے پر لوگ، لوگوں کے چہروں پر جلدی کرو کا اشتہار۔موت سے وابستہ کچھ روزگاراور "روزگار" کو آتا دیکھ کر مطمئن چہرے.
اس پر شور منظر میں دو خاموش آنکھیں سب کو زندگی کی اوقات سمجھانا چاه رہی تھیں۔وه زندگی جس کے بل پر ہم اپنی ذات میں فرعون بنے پھرتے ہیں۔ان آنکھوں میں صاف لکھا تھا ہر فرعون مٹی میں جا سوتا ہے۔وه زندگی جس میں ہم لمبے لمبے ناموں کے ساتھ ذاتیں ڈگریاں قبیلے لکھتے نہیں تھکتے۔وه زندگی جب انجام کو پہنچتی ہے تو دو سطروں کا ایک کتبہ ہوتا ہے اور "آخری" جی آخری آرام گاه ہوتی ہے۔آنکھوں  سے سمجھاتے اس شخص کاشائد مہلت ختم ہو جانے والے سےتعلق اور اس کے تعلق کی گہرائی اسے اس پرشورمنظر کا حصہ نہیں بننے دے رہی تھی۔زندگی کی اوقات سمجھاتے ہوئے تاثرات والی آنکھوں والے اس وجود نے تھکے تھکے قدم اٹھائےاور سڑک پار کی اور پاسپورٹ آفس کی سیڑھیوں پر جا بیٹھا....جیسے اسے آج کسی کام کی جلدی نہ ہو
سحرش

No comments:

Post a Comment