Pages

Friday 30 December 2016

بندھن کی الجھنیں



شادی سیریز پر ہمارے دوستوں کی دلچسپی نے ہمیں یہ لکھنے پر مجبور کر دیا۔وگرنہ اس جاتے سال کی ان آخری چند ساعتوں میں کم از کم سوشل ایشوز پر اپنے نادر خیالات کے اظہار کا ہمارا ایسا کوئی خاص ارادہ نہیں تھا
لیکن شادی جوکسی بھی سوسائٹی کا  بنیادی انسٹیٹیوٹ ہے  اس پر ہماری رائے اور ہمارے نکتے کو ہمارے دوست جسقدر غیر سنجیدگی عدم دلچسپی بلکہ قدرے استہزائیہ  انداز میں سنتے اور ناک پر سے مکھی کی طرح یہ کہہ کر اڑا دیتے ہیں کہ ہم ناتجربہ کار ہیں لہذا ہماری بات کسی اہمیت کی حامل نہیں۔ان کی یہ ادائیں ہمیں یہ لکھنے پر مجبور کرتی ہیں ہماری اماں ہمارے بارے میں یونہی نہیں کہتیں کہ جس کام سے ہمیں روکا جائے پھر وہ ہم کر کے چھوڑتے ہیں
سو پہلے تو یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ تجربے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں لیکن اگر تجربے کی آپکی تعریف مان لی جائے تو دنیا بہت سارے علم کی منکر ہوجائے۔ہمارے ہی سبجیکٹ کی مثال لیجیے سترہ یا انیس سال کی عمر میں سقراط نے  زہر پی لیا تھا ۔پچیس سالہ کیٹس دنیا سے جانے کی نظمیں لکھنے لگا تھااور تھری ڈیز ٹو سی لکھتے ہوئے شائدہیلن کیلر پچیس کی بھی نہیں تھیں ۔یاد رہے یہاں پر تقابل نہیں کیا جا رہا بس بتانا یہ مقصود ہے کہ صرف زندگی کے زیادہ سال جینا تجربہ نہیں کہلاتا۔ تجربہ تو وہ بھی ہے جب آپ کسی بات کے مشاہدے میں اسقدر محو ہوں یا وہ مشاہدہ اتنے تسلسل سے کریں کے اس بات کے سقم آپکو نظر آنے لگیں اور اس سے پیدا ہونے والے مسئلوں سے آپکے دل کا کوئی حصہ مسلسل اداس رہنے لگے یا پھر آپ اسے بہتر کرنا چاہیں تو سمجھ لیں آپکا مشاہدہ تجربے کی آنچ پا گیا ہے
اب آتے ہیں شادی کے متعلق ہمارے نکتے پر۔تو وہ دو ٹوک ہے کہ شادی سوشل کانٹریکٹ ہے اور  جب کوئی دو فریق اپنی کچھ آزادیاں اور اپنے کچھ حقوق اپنی رضا مندی سے سرنڈر کرنے پر تیار ہو جائیں تو سوشل کانٹریکٹ ہوتا ہےاور دنیا میں جتنے بھی کانٹریکٹ ہوتے ہیں، وہ سارے زمین پر طے ہوتے ہیں اور رب زمین پر اتر کے اپنے احکامات کا نفاذ نہیں کرتا وہ اپنا قانون بتاتا ہے انسان کو عقل و بصیرت دیتا ہے اور پھر اسے اس کے استعمال کے مشورے دیتا ہے.
تو کانٹریکٹس مادی شئے نہ ہونے کے باوجود مادی ہی ہوتے ہیں۔ زمینی اور حقیقی۔ اسی طرح شادی بھی ایک زمینی حقیقت ہے..اور جملہ معترضہ ہے کہ اس سے فرار ممکن نہیں۔تو جب فرار ممکن نہیں تو پھر کیوں نا، یہ ایک باشعور مہذب انسان کی طرح کی جائے.؟نا کہ دو ٹانگوں والے انسان نما کی طرح۔اور مہذب انسانوں میں جب بھی معاہدے طے پاتے ہیں تو اصول و ضوابط رکھے جاتے ہیں۔ شرائط طے کی جاتی ہیں۔ جو دونوں فریقوں کو منظور ہوں تو معاہدہ ہوجاتا ہے
لیکن ہمارے لوگوں کو چونکہ ہر شئے الٹی نظر آتی ہے لیلی نظر آتا ہے اور مجنوں نظر آتی ہے۔لہذا یہ شادی بھی معاہدے سے کہیں زیادہ فیسٹول ہے چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات ۔دو چار دن وعدے، قسمیں، دعوے، چھ دن کی تقریبات اور عمر بھر کا رونا..(معذرت کے ساتھ) اور اس پورے فیسٹول میں سب سے زیادہ ہونق وہ دو افراد ہوتے ہیں جنہوں نے آگے چل کے آپ لوگوں کے انسٹیٹیوٹ خاندان کی آبیاری کرنا ہوتی ہے۔اب انہی دو لوگوں کے کپڑوں اور جوتوں سے لے کر پسند نا پسند تک ہر شئے کے متعلق پورا خاندان جانتا ہے سوائے ان دو افراد کے کہ جنہیں جاننا چاہیے۔ایک عجیب شرمندگی نما شرم ہوتی ہے جس کا دونوں شکار ہوتے ہیں۔مائے ڈئیر گرلز اور بوائز بھی گو کہ ڈئیر ذرا نہیں. خیر!! گرو اپ پلیز، یہ شرمندہ ہونے والی بات نہیں جب آپ اپنے پارٹنر کے متعلق سوال کرتے ہیں.بلکہ یہ شرمندہ ہونے والی بات ہے جب آپ نہیں کرتے۔اس پر شرمندہ ہونا نہیں بنتا، جب آپ اپنی شادی کو سیریس لیتے ہیں بلکہ اس پر ہونا بنتا ہے، جب آپ نہیں لیتے
اور پیارے والدین! آپکا بیٹا یا بیٹی جب پسند کی شادی کرنے کے متعلق اظہار خیال کرتے ہیں تو وہ پسند کی بیوی یا پسند کے شوہر سے کہیں زیادہ پسند کے انسان کے متعلق بات کر رہے ہوتے ہیں اور جب آپ سر جھٹک کے کہہ دیتے ہیں کہ یہ ڈریس ،برگر یا چاکلیٹ نہیں، جس کی ضد کریں گے ۔تو یقین کیجیے آپکے بچے بھی یہ ہی کہنا چاہتے ہیں آپکو کہ یہ برگر یا چاکلیٹ نہیں جس پر کمپرومائز کر لیا جائے۔اور جب آپ نے برگر چاکلیٹ پر کمپرومائز کرنا نہیں سیکھایا تو اس پر کیونکہ توقع رکھ رہے ہیں آپ؟ 
رب کے حبیب نے کہا تھا نکاح کو مشکل بناتے جاؤ گے تو زنا آسان ہوتا جائے گا۔تطبیق تو کر ہی لیتے ہیں نا ہم سب؟؟ تو اس بات کے تناظر میں اپنا معاشرہ دیکھ لیں اور یوں بھی آزادی اور شعور کا ریورس گئیر نہیں ہوتا۔آپ آزادیاں دے کر واپس نہیں لے سکتے
خیر
ہم حرفوں کے دیپ جلانے پر معمور ہیں سو جلاتے رہیں گے.باقی آپ لوگوں کی مرضی۔ راہیں، راہیوں کی مرضی، منشاء اور انتخاب ہوا کرتی ہیں 
لیکن.
ایسا بھی ہوا ہے تاریخ کے اوراق میں
لمحوں نے خطا کی اور صدیوں نے سزا پائی


Thursday 29 December 2016

جوابی خط



تمہارا خط میرے سامنے پڑا ہے.میز پر خط اور کافی کا مگ رکھے میں چئیر پر تقریبا جھول رہی ہوں.جیسے تمہیں خط لکھنے کی ایمپلس آتی ہے نا.ویسے ہی تمہارا خط ملنے پر خوشی کا سرشاری کا احساس جاگتا ہے.
وہ کیا کہا تھا فیض نے جیسے بیمار کو بے وجہ قرارا آجائے.
سنو! یہ قرار کبھی بے وجہ نہیں آتا اس کے لیے وجہ ڈھونڈنی پڑتی ہے چھوٹی بڑی وجہ.یہ تو منحوس ماری اداسی ہوتی ہے جو بے وجہ آتی ہے.کبھی کسی کو کہتے سنا ہے میں بے وجہ سکون میں ہوں؟؟ نہیں نا قرار کے لیے سکون کے لیے وجوہات ڈھونڈنا پڑتی ہیں ان کو ممکن کیا جانا پڑتا ہے.جیسے میرا قرار تمہارے لفظوں میں تمہارے خطوں میں چھپا ہوا ہے سو تمہارا خط ملا اور میں سرشار سی مسکرا رہی ہوں.صبح میری کولیگ نے بھی یہ بات نوٹ کی کہ خوش ہوں میں.
اب اس فرنگن کو کیا بتاتی کہ یہ ہم مشرقی عورتیں رج کے بے وقوف اور جذباتی ہوتی ہیں.اول تو محبت کرتی نہیں کر بیٹھیں تو حشر کی صبح تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں...مجھے پتا ہے تم اس جملے کو دہرا دہرا کر پڑھو گے محبت کا جو ذکر ہے اسمیں.اب یہ مت کہہ دینا کہ مان گئی میں بلآخر اس محبت کو..ہک ہاہ کبھی نہ سمجھو گے.یہ خط میں تمہیں پیار محبت میں ہی لکھتی ہوں اور تم میرے پھپی زاد تو نہیں ہوتے بھی تو نہ لکھتی.
خیر میرے لفظوں میں رنگ رنگوں میں خوشبو اور اس خوشبو کو محسوس کرنے کا احساس اسی محبت کا اعجاز ہے.
شاعر کہتا ہے نا.
بہت مخصوص دلوں کو عشق کے الہام ہوتے ہیں.
محبت معجزہ معجزے کب عام ہوتے ہیں.
اور اسی معجزے کا نتیجہ ہے کہ میں آج بھی تمہارے خطوں کو اسی بے تابی سے پڑھتی ہوں اسی بے چینی سے کھولتی ہوں.
اور یہ کیا تم بالوں میں اترتی چاندی کو زیادہ سیریس نہیں لے گئے؟ ارے بھئی اب ہم تم ایک بینچ کے دو کونوں پر ٹہر گئے تھے تو یہ کہاں لکھا تھا کہ وقت بھی ٹہر ہی جاتا؟ وقت نے تو بہر صورت چلنا ہی ہوتا ہے.اور چاندی اتر بھی آئی تو کیا؟؟ اچھا سا ڈائی لگاؤں گی نا. تم کہیں یہ تو نہیں سوچ رہے کہ میں آنٹی لگنے لگی ہوں؟؟؟ خبردار یہ سوچا بھی تو.ویسے بھی جتنی بھی بڑی ہوجاؤں رہوں گی تو تم سے چھوٹی ہی نا.
تم لکھتے ہو میں آسمان کی ریشمی چادر سے پرے جھانکنے پر اصرار نہ کروں تمہیں خدشہ ہے کہ میں اپنی بسی بسائی جنت تحلیل کر بیٹھوں گی.سنو! اب میں عمر کے اس حصے میں نہیں رہی جب تصور میں صرف جنتیں بسا کرتی ہیں اب میرے تصور کی دنیا کا کینوس بہت وسیع ہو چکا ہے.اب اسمیں اگر جنتیں ہیں تو ساتھ ہی کچھ سٹروک ایسے بھی ہیں جو تصوراتی اس تصویر میں دنیا کا سا مزا دیتے ہیں حقیقی دنیا.
دیکھو میں امید پرست ہوں مجھے پتا ہے راہیں راہیوں کی مرضی منشاء اور انتخاب ہوتی ہیں پر میں اپنی سوچ کے جگنو سے راہوں میں زرا سی روشنی کرنا چاہتی ہوں.تاکہ کوئی بھولا بھٹکا مسافر میری خواب نگری کی طرف آ نکلے تو ٹھوکر کھا کر گرے نہیں.یہ جگنو میری ملکیت ہیں میں انہیں جلاتی رہوں گی.
صحیح کہا صفحے بہرحال پلٹنے پڑتے ہیں لیکن اگلے صفحے پر کسی خوشگوار یاد کا تسلسل بھی قائم رکھا جا سکتا ہے.
اب چلتی ہوں.
تم بس شعر سمجھ کر پڑھو تو ایک شعر لکھتی ہوں.
تمہارا اور ہمارا ساتھ ممکن ہے.
یہ دنیا ہے یہاں ہر بات ممکن ہے.
خدا خافظ.
تمہاری_

ایک خط



 مجھے نہیں پتا میں کس جذبے کے مجبور کرنے پر یہ خط لکھ رہی ہوں تمہیں.خط کی بھی خوب کہی خط کہاں بھئی بس دوچار الٹی سیدھی سطریں ہیں کاغذ ہ گھسیٹنا چاہتی ہوں__ ہاں تو کیا کہہ رہی تھی یہ کہ خدا جانے ایسا کونسا دورہ پڑتا ہے کونسی ایمپلس آتی ہے جو تمہیں چھٹیاں لکھنے بیٹھ جاتی ہوں.شائد میرا کاغذ قلم سے عشق ابھی بھی جوان ہے___ ہسو مت معلوم ہے مجھے تم بھی مجھے مادی دنیا کی باسی سمجھنے لگے ہو.
میں سوچ رہی تھی یہ تحریر اس ٹپے سے شروع کروں.
"میں ایتھے تے ڈھولا پربت پر لکھتے لکھتے" رک گئی کیوں کہ پربت تو میں ہوں نا___ یہاں ہڈیوں میں گودا جمانے والی ٹھنڈ ہے اور پربت بھی ایسے ویسے..
تمہیں پتا ہے میری کھڑکی سے باہر چوٹی کے اوپر آسمان ایسے لگتا ہے جیسے ریشمی چادر ہے جو چوٹی کی نوک سے کسی دن پھٹ جائے گی..اپنا وجود کھو دے گی.میں ً روز اس آس میں کھڑکی سے چوٹی اس کے اوپر اس ریشمی چادر کو تکتی ہوں کہ جب یہ پھٹے تو کیا تماشا ہو؟؟
اب تم کہتے ہو گے میرا تماشا دیکھنے کا شوق بھی ویسا ہے...چچ__ نہیں نا!! یہ ویسا شوق نہیں ہے نا..یہ تو ویسا شوق ہے کہ ریشمی چادر پھٹے اس کے پیچھے سے اک نئی دنیا ہو پیاری دنیا تمہارے ساتھ والی دنیا. یا پھر کچھ بھی نہیں بس خالی سلیٹ ہو میرے ذہن جیسی.تم سوچتے ہو گے اب کیوں لکھ رہی ہوں یہ ساری باتیں.
اس لیے کہ میں تسلیم کرنا چاہتی ہوں وہ ساری باتںیں میری وہ ساری باتیں جو ہمارے تعلق کے درمیان آ گئی تھیں یا ہیں.ہاں مجھے پتا ہے یہ جدائیوں کا فیصلہ بھی میرا تھا..تمہاری محبت کا نظریہ ساتھ میں تھا میرا آسانی میں سہولت میں تعیش میں.
دیکھو ہم دونوں غلط نہیں تھے. پر ہم دونوں ہی اپنے اپنے نظریات کے غلام تھے.اپنی اپنی انا کے قیدی.
تمہیں پتا ہے ہم دونوں کے درمیان کیا ہوا تھا؟؟ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ ہم دونوں خود کو صحیح سمجھتے تھے.مسئلہ یہ تھا کہ ہم دونوں دوسرے کو غلط سمجھتے تھے.اور اسے صحیح کرنے پر تلے تھے.
زندگی کی اتنی بہاریں___ ہاہاہا بہاریں لکھ کت بے ساختہ ہنسی ہوں میں پر کیا کروں اب ایسے تو نہیں لکھ سکتی نا کہ زندگی کی اتنی خزائیں دیکھنے کے بعد..سو بہاریں ہی لکھتی ہوں..زندگی کی اتنی بہاریں دیکھنے کے بعد عمر کے اس حصے میں جب بالوں میں چاندی اور رنگت میں تانبا اترنے لگا ہے تو ایک بات سمجھ میں آئی ہے.کہ خود کو صحیح سمجھنا اتنا خطرناک نہیں ہوتا..جتنا دوسرے کو غلط سمجھنا ہوتا ہے.اور اس سے بھی خطرناک اسے "صحیح" کرنے کی کوشش کرنا.اور سب سے خطرناک دوسروں کو اپنے بنائے ہوئے سانچوں میں ڈھالنے کی کوشش کرنا انہیں اپنے مطابق چلانا ہے.لیکن یہ بات بہت دیر سے سمجھ آئی.
اب لوٹنا بھی چاہیں تو نہیں لوٹ سکتے نا؟؟ مجھے معلوم ہے تم اب بھی آنگن کے بینچ پر بیٹھ کر ستارے ڈھونڈتے ہوگے. پر اب میں چاہوں بھی تو اس بینچ کے دوسرے سرے پر بیٹھ کر تمہاری اٹینشن ڈائیورٹ نہیں کر سکتی.
خیر یہ کیا فضول ناسٹیلجیا لے کر بیٹھ گئی میں بھی.میں تمہیں کسی توقع کے بوجھ تلے نہیں دبانا چاہتی اس لیے نہیں تم توقعات پر پورا نہیں اترو گے.اس لیے کہ مجھے معلوم ہے کہ تم پورا اترو گے. اب ہم کیسے بھی بے ضمیر سہی بے حس نہیں.
چلو خیر چلتی ہوں اب میں ایک تو یہ صفحہ ختم ہو رہا ہے دوسرا میں ہوسپٹل جا رہی ہوں. آج نائٹ ڈیوٹی ہے..وہ جس سے ہم سخت چڑتے تھے.
چلتی ہوں..
تمہاری_____
#سحرش.

اے سالِ کہن، تیرا شکریہ



ویسے اسے خود کلامی کہا جاسکتا ہے؛ یوں بھی جب سے ہمیں انٹر پرسنل کمیونیکشن کے بارے میں معلوم پڑا ہے، اپنا آپ ہیمنگوے کا کوئی کردار سا لگنے لگا ہے، جو دریا کی لہروں پر ڈولتی کشتی میں بیٹھا یا کسی پہاڑ پر چڑھتا خود سے باتیں کرتا ہو؛ روز شب کے قصے ماہ و سال کی باتیں.

لکھنے کو تو یہ خط ہم خود کو بھی لکھ سکتے تھے. نہ صرف لکھ، بل کہ اپنے ہی نام پوسٹ بھی کرا سکتے تھے، لیکن اب آپ ہی کہیں کیا اچھا لگتا ڈور بیل بجنے پر ہم دروازہ کھول آنے والے کو گھورنے کا شغل فرما رہے ہوتے؟ اور وہ کہتا، 148سحرش عثمان صاحبہ کا خط آیا ہے۔147 پوچھتے کس نے بھیجا ہے، تو جواب ہوتا، سحرش عثمان صاحبہ نے۔ ایسے بندہ تھوڑا سا شوخا لگتا ہے نہیں؟
لہذا ہم نے فیصلہ کیا، یہ دل کی کتھا؛ جانے والے سال کے نام خط لکھ کر بیان کی جائے۔ ایسے بندہ سیریس قسم کا کنسرنڈ رائٹر بھی تو لگتا ہے. سیریس تو خیر ہم یوں بھی بہت ہیں، جیسا کہ آپ سب لوگوں کو اندازہ ہے.

سو! پیارے دو ہزار سولہ، اچھا برا ساتھ رہا ہمارا؛ اب جا ہی رہے ہو، تو کچھ سنتے جاو. دیکھو! جیسے زرداری نے کہا تھا کہ تین سال والے ہمیشہ والوں کو تنگ نہ کیا کریں، تو ٹھیک ہے، بالکل ویسے ہی تم، جو ہم سے اتنی بد سلوکیاں روا نہ رکھتے، تو ہم آج یہ خامہ فرسائی کرتے؟ دیکھو بھئی سالو! خود بھی سمجھو، زندگی کو بھی سمجھاو؛ بھئی تم لوگ دوبارہ نہیں آنے کے؛ جب کہ ہم ایک زمینی حقیقت ہیں .. ارے! ہم نہ ہوں گے، کوئی ہم سا ہوگا. لہذا تم زرا اپنی اداوں پر غور کرو.
اب ان باتوں سے یہ مت سمجھ لینا، کہ بہت ہی کوئی اخیر ٹف ٹائم دیا ہے، تم نے ہمیں؛ اب ایسی بھی کوئی لٹ نہیں مچی، نہ تم ہی پٹواری تھے، نہ ہم پاکستانی قوم خزانہ؛ بچت ممکن تھی سو رہی.
وہ ہم سا ہی ایک کردار خود کلامی کرتا ہے نا، کہ انسان کو مارا جا سکتا ہے، ہرایا نہیں جا سکتا. سو تم بھی ہمیں شکست دینے میں ناکام رہے ہو۔
البتہ تمھاری موجودگی میں بہت سے رویوں کی خاک چھانی، ہم نے؛ بہت سے لہجوں کے دشت دیکھے، بہت سے تعلق مٹھی میں سے ریت کی طرح پھسلتے محسوس کیے؛ بہت سی آنکھوں میں اپنا عکس دھندلاتے دیکھا؛ کئی لفظوں میں لپٹے تیر اور لہجوں میں بچھے زہر بھی برداشت کیے. بے حسی کے مختصر زمانی اور صدیوں پر محیط ذہنی لمحے گزار کر ہم نے ناگوار چیزوں باتوں اور تلخ رویوں سے اوپر اٹھنا سیکھا. اور ہارے نہیں ہم. ہم نے اسی بکھری ہوئی خاک میں نئے منظر تراش لیے۔ انھی ٹھیرے ہوئے پانیوں میں امید کے پتھر پھینک کے زندگی کی ہلچل پیدا کی، اور پھر اس ہلچل میں خوابوں کی کشتیاں بھی چلائیں.

دیکھو تو! ہم آج بھی اتنے ہی خواب پرست ہیں؛ جتنے تمھارے آنے پر تھے. ہم نے کئی تعلقات کی امید نو پر مسکرانا سیکھا اور کئی رشتوں کی بے غرضی محسوس کی.
نئے خواب دیکھے نئے سپنوں کی کاشت کاری کی.
سو مختصر یہ کہ تمھارا شکریہ
تم نے ہمیں نئے خواب دیکھنا، ان پر یقین رکھنا سکھایا.
تمھارا شکریہ تم نے تلخیوں کو گوارا کرنا سکھایا.
خود غرضیوں سے اوپر اٹھنا سکھایا.
تمھارا شکریہ، کہ تم نے مجھے، میرے تعصبات کے دائروں سے باہر کی دنیا دیکھنا سکھائی.
اور تمھارا شکریہ، تم نے بہت سے غلط توقعات کو جلد توڑ دیا؛ تاکہ زندگی اپنے own پر جینا سیکھی جائے.
اور تمھارا شکریہ، کہ تم نے ہارنے نہیں دیا۔

Saturday 24 December 2016

Happy BirthDay Dear Father



اصولا تو یہ پوسٹ وہیں سے شروع ہونی چاہیے تھی.
 لیکن چونکہ ہر اک بے جاں تکلف سے بغاوت کا ہمارا پکا ارادہ ہے.اب لوگوں نے اصول بنا لیا ہے تو کیا کیا جائے بھئی....بلکل ویسے جیسے آپ کہتے ہیں نا کہ لوگوں نے کہہ دیا تو اب کیا حدیث ہوگیا.ایسے ہی لوگوں نے باقاعدہ ابتدائیہ اختتامیہ نفس مضمون ایجاد کر لیے تو حدیث تو نہیں ہوگیا نا. لہذا اس کے شروع میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ یو آر بیسٹ فادر__ (جو آپ ہیں)
 بتانا صرف یہ تھا کہ غور کرنے پر معلوم ہوا ہے ہم سب میں تھوڑے تھوڑے آپ جیتے ہیں.
کسی کے فیچرز میں،کسی کی ایٹنگ ہیبٹس میں کسی کے دوست بنانے میں_____اور میرے بلڈ گروپ سے __ سر جھٹک کے ہونہہ کہنے میں وہ جو کہہ کے میں اپنا آفیشل رسپانس دیتی ہوں ہر اس بات پر جہاں ناگواری آنکھوں سے چھلکنے لگے.
 آپ کو پتا ہے ہم سب نے فل آف ایکسپریشنز آنکھیں آپ سے لی ہیں.جیسے میرے دوست کہتے ہیں تمہاری آنکھوں سے موڈ پتا چل جاتا ہے ویسی آنکھیں..ہم سب نے لیننٹ ہونا آپ سے سیکھا ہے. آپ ہمارے رویوں میں تھوڑا تھوڑا جیتے ہیں.اور جب آپ کہتے ہیں تم سب میرے جگر کے ٹکرے ہو تو مجھے اپنے بلکی ہونے پر فخر ہوتا ہے کیونکہ پھر میں زیادہ سپیس گھیروں گی جگر میں.اور جب آپ چھوٹی سی اچیومنٹ پہ زیادہ خوش ہوتے ہیں تو ہم میں پورا جینے لگتے ہیں.
 آپ کو پتا ہے میرے ذہن کا کوئی گوشہ اسی لمحے میں ساکت ہے اور میرے دل پر وہ بات نقش___ جب آپ نے بتایا تھا میں نے تمہارے پیدا ہونے پر حطیم میں نفل پڑھے تھے...اور میرا دل چند ثانیے کے لیے ٹہر گیا تھا. جس معاشرے میں بیٹی کی پیدائش ناقابل معافی جرم ہو وہاں آپ بیٹی کو بھروسہ اور یقین بخش کر فیصلے کی آزادی دے کر معتبر کر دیں تو آپ کو ولی ہی کہا جا سکتا ہے..رب کا دوست، لیننٹ، سافٹ اور محبت کرنے والا.
 لکھنا چاہوں بھی تو نہی لکھ سکتی..بتانا چاہوں بھی تو نہی بتا سکتی..آپ سے جتنی بھی محبت کرلیں پھر بھی اس سے کم ہوگی وہ جو آپ کرتے ہیں ہم سے..
بس یہ کہ ہیپی والا برڈے ابا.
آپ کو حشر کی صبح بھی دائم دیکھنا چاہتے ہیں آپ کے بچے.:-* 💝

فیس بکی ناقدین کے نام کھلا خط یعنی کے پبلک پوسٹ.


تو مائے ڈئیر سو کالڈ "معیار کانشئس" لوگو!!
امید ہے آپ سب ٹھیک ٹھاک پنجے تیز کیے اس تحریر پر تنقید کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہوں گے. یوں تو ہمیں اس بات کی فکر نہیں کرنی چاہیے کہ کیا کہتے کیا سوچتے ہیں آپ لیکن کیا کریں آپ ہی کی طرح عادت سے مجبور ہم بھی جب تک آپ لوگوں نے کیڑے نکالتے رہنا ہے تب تک ہم نے آپ کی اصلاح کا بیڑا اٹھائے رکھنا.
وہ کیا کہتا ہے شاعر
وہ اپنی خو نہ بدلیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں.
سُبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو؟
تو مستقل آزار میں رہنے والے میرے پیارے تنقید نگارو یہ فیس بک ہے یہاں پر لوگ اپنی والز یا گروپس میں لکھتے ہیں یہ کوئی اعلی ادبی معیار کا حامل رسالہ تو نہیں ت
ج-وسب ہی اعلی ترین ادبی تحریریں آپ کی نظر کریں.
ارے بھئی جو پروفیشنل رائٹر ہوگا وہ آپ کے لیے چیزیں لکھ لکھ کے فیس بک پر لگائے گا کیا؟؟ یہاں تو لوگ وہ لکھیں گے جو جی میں آئے گا.سیدھی سی بات ہے بھیا جتنے پیسے آپ زخر برگ کو دیتے ہیں اتنے ہی وہ تو پھر وہ آپ کے بنائے ہوئے معیار پر پورا کیوں اتریں؟
آپ چاہیں تو انہیں پڑھ لیں نہ چاہیں تو نہ پڑھیں.کسی کی کوئی مجبوری تو نہیں کہ لازمی ہی پڑھنا ہے اور پھر یہ بتانا کہ آپ کی تحریر افسانے کی خط کی نثر کی مروجہ تعریف پر پوری نہیں اترتی لہذا مت لکھا کریں؟
ارے بھئی آپ بتائیں ضرور بتائیں علم ضرور بانٹیے.لیکن دوسروں کو ڈی گریڈ کیے بغیر.تنقید اور تضحیک کے درمیان فرق سمجھیے.اور اپنے ناک کے آگے بھی دنیا دیکھنے کی کوشش کیجیے.
اپنے اندر کے سیڈسٹ کو دو منٹ کے لیے ہولڈ کرائیے اور سوچیے یہ جو لوگ اپنا وقت دے کر لکھتے ہیں نا یہ انسان ہونے کی حثیت سے بہت اہم ہیں ان کی رائے ان کا نکتہ بھی اتناہی اہم ہے جتنا آپکا.سو اگر یہ اپنی رائے کو حرف آخر نہیں سمجھتے تو آپ بھی بار بار اپنے افکار ان پر مسلط کرنا چھوڑ دیجیے..
لوگوں کو سانس لینے کی آزادی دیجیے.آپکو نہیں پسند ان کا طرز تحریر مت پڑھیے پڑھ لیں تو تہذیب سے بتانے کی کوشش کیجیے کہ کہاں کہاں کیا کیا سدھار ممکن ہے.خود کو عقل کل سمجھ کر بتائیں گے تو کوئی خاک سمجھے گا؟
بلکہ الٹا آپ ہی کے کہے ہوئے لفظوں کی وقعت کم ہوگی.
خیر میرا کام تھا بتانا بتادیا اب تمہاری مرضی باز آؤ یا نہیں.
امیدہے ان باتوں کا شدید برا منایا جائے گا.
باقی تنقید نگاروں کو پیار تمہیں صرف سلام..
تم سب کو بہت پیاری :-P 
#سحرش_عثمان

Monday 19 December 2016

سانحہ اے پی ایس، ابھی انجام باقی ہے



ہم نفرت کے قائل نہیں، نہ نفرت کوئی ایسا قابل تحسین و تعریف جذبہ ہے کہ اسے اپنایا جائے.نہ تم اتنے محترم و معتبر کے تم سے نفرت کا ہی رشتہ یا تعلق رکھا جائے.
پچھلے سال بھی لکھا تھا آج پھر لکھتی ہوں، تمہیں اپنی نفرت سے بھی آزاد کیا، تم ہماری نفرت کے بھی قابل نہیں ہو تم اس قدر غیر انسانی ہو کہ تم ہماری نفرت کے درجے سے بھی گر چکے ہو.
لیکن خوف کے سوداگرو!! آؤ دیکھو میری قوم کی مائیں میرے بچے میری قوم کے باپ بھائی سب زندہ ہیں صرف زندہ نہیں اپنی اپنی زندگیوں کو جیتے ہوئے، گزارتے یا کاٹتے ہوئے نہیں.

اور تم!! تم کہاں ہو؟؟کیا ابھی بھی تم میری زمیں پر سانس لیتے ہو؟؟ اگر ہاں تو آؤ پھر دیکھو تم خوف کی علامت تھے نا؟؟ پھر تم نے اس قدر خوف بیچا کہ ہم بے خوف ہو گئے.
تم ہمارے مزار جلاتے رہے، ہم پھر سے بناتے رہے۔ مسجدیں گرائیں تم نے، ہم تعمیر کے خو سے جت گئے.. تم کالجز یونیورسٹیز مدرسے گراتے رہے، ہم علم کی شمع کی لو بڑھانے کے جتن کرتے رہے. لیکن ہم تم سے مایوس نہیں ہوئے کہیں نا کہیں میرے لوگ تمہیں مسلمان اور انسان کا درجہ دیتے رہے بہت سے تمہارے لوٹ آنے کی آس لگائے بیٹھے رہے.
پر تم پر تو خون سوار تھا. خود کو ثابت کرنے کے چکروں میں تم نے میرے بچوں پر حملہ کیا، بھیانک حملہ۔۔ جس کی تفصیل لکھنے سے میرا قلم انکاری ہے. مجھے معلوم ہے وہ سارے گوشے جو ان آنکھوں نے یاداشت کی سکرین پر دیکھے، مخفوظ کیے ہیں۔ ان کو اگر کبھی میں نے لکھنے کی جرات کی تو میرا قلم روٹھ جائے گا. میرے اندر کا خواب پرست مر جائے گا، جو بعض اوقات حقیقت سے صرف اس لیے آنکھیں پھیر لیتا ہے کہ پھر اتنا درد وہ حرفوں میں کیسے سموئے گا. اور اگر لکھے گا نہیں تو ان کہی کی وحشت اسے مار ڈالے گی. جبکہ ابھی اسے زندہ رہنا ہے، اس خواب پرست کو زندہ رہنا ہے اس نے ان خوابوں کی تعبیر کی راہیں ہموار کرنی ہے جو تم نے، ہاں تم نے میرے ایک سو بتیس بچوں کی آنکھوں سے چھینا تھا..ابھی اس خواب پرست کو ان امنگوں کی آبیاری کرنی ہے جس کا خون تم نے کیا تھا میرے اور اپنے رب کے نام پر.معاف تو تمہیں یوں بھی نہیں کرنا تھا پر یہ جو تم نے رب کے نام پر جبر کا عہد برپا کیا ہے نا اس پر تو رب کی عدالت میں ہم فریق بنیں گے انشاءاللہ.
تمہیں پتا ہے نفرت کی انتہاء پر کیا ہوتا ہے؟ انسان ہر جذبے سے عاری ہوجاتاہے.بلکل ویسے جیسے تمہارے معاملے میں ہم ہیں.سخت نفرت کے بعد کا سکوت ہے.
پچھلے سال بھی لکھا تھا آج میں پھر اپنا عہد دہراتی ہوں، میرے بچوں کے اندھے قاتلو۔۔ میں چاہتی ہوں دنیا کی ساری زبانوں میں سے نفرت کے سارے لفظ اکھٹے کروں اور ان لفظوں سے تمہارے اور تمہارے حمائیتیوں کے لیے ایک مضمون لکھوں، اور روز حشر عادل کے عدل قائم کرنے والے دن میں اس مضمون کو تمہارے اور تمہارے حمائیتیوں کے خلاف درخواست کی صورت جمع کراؤں، پھر میں رب کا عدل ہوتا ہوا دیکھوں.المناک کربناک انجام سے دوچار ہوتا ہوا دیکھوں، ویسا کرب جیسا تین جوان بیٹوں کو دفناتے ہوئے ان کے باپ کی آنکھوں میں تھا.
تمہارے حامی اس بچے کی ماں کی آنکھوں میں ٹہری ہوئی آہ کا شکار ہوں، وہ جس نے کہا تھا دنیا کے کسی قانون سے انصاف کی امید نہیں سوائے رب سے.. اس وقت جب وہ کن کے مالک کو فیکون کہنے کی بھی ضرورت پیش نہ آئے گی، اسوقت تم اور تمہارے حمایتی دینا دلیلیں، منطقیں حوالے، بیان کرنا فلسفے رب کے سامنے.اور یہ صرف متشدد لہجے کی گفتگو ہی نہیں، اب یہ میرے اندر ایمان کی طرح اتر چکا ہے ظلم کی عمر بھی تھوڑی ہے اور اس کے حمایت کی بھی، جبر کا عہد تمام ہونے کو ہے، میرے بچے ایک اجلی اور روشن صبح دیکھنے کو ہیں، جس میں تمہارے دییے ہوئے زخموں سے ہم محبت کے علم کے چراغ جلائیں گے اور اس روشنی میں ہم مبنی بر عدل فیصلہ کریں گے، تمہارے اور تمہارے حمایتیوں کے المناک انجام کا فیصلہ..
کیا کہا؟ علم کی روشنی سے انتقام نہیں پھوٹتا اور کیا کہا میرے لفظوں سے شدت ٹپک رہی ہے۔۔؟؟
تو سنو یہ آخری فیصلہ ہے، قطعی اور اٹل بھی۔ میرے بچوں کے قاتلوں کے لیے لغت سے بھی معافی کا لفظ نکالنا پڑا تو نکالیں گے..
اور سنو تم سے لا تعلقی اور تمہارے حمائیتیوں سے بے زاری برات میں میرے لفظوں سے شدت نہ ٹپکے گی تو یہ توہین ہوگی میرے قلم کی جس کی پاسداری مجھے بہرحال کرنی ہے.

Wednesday 14 December 2016

جب ہم منظر کا حصہ تھے



سرما کی اس شام کا
ڈھلتا ڈوبتا سورج
سرد ہوا اور چلتی گاڑی
تم اور میں___
منظر یاد ہے؟؟
ٹھہرا ٹھہرا مہکا مہکا
بالکل جیسے رات کی رانی
سیڑھی چڑھتے
تھام کے دامن
رستہ روکے
پوچھ رہی ہو
جا سکتے ہو؟؟
یوں خوشبو کا ہاتھ جھٹک کر
اگلی سیڑھی چڑھ سکتے ہو؟
اور تم!!!
رک کر،
لمحے بھر کو،
ٹھہر کے دیکھو
رات کی رانی کی خوشبو کا ہاتھ پکڑ کر
خواب نگر کی سیر کو نکلو
ہولے ہولے ،مدھم مدھم
دھیمے دھیمے سے لہجے میں
خوشبو جیسا قصہ چھیڑ کے
ہمدم کو وہ گیت سناو
جو پروا نے
دور افق کی گود میں
ڈھلتے، ڈوبتے سورج کی کرنوں پر
رقم کیا تھا
جس سورج کو دیکھ کے تم
گاڑی سے نکلے
کیسی مہکی شام تھی وہ
جب
ہم منظر کا حصہ تھے

Monday 12 December 2016

ہیپی برتھ ڈے اماں.


آپ اپنے پیرنٹس کا تعارف ہوتے ہیں آپ کے لہجے میں اطوار میں گفتگو میں ان کی محنت محبت ان کا ڈسپلن اور آپ کے متعلق کنسرن نظر آتا ہے.گو کہ ہم اپنے اطوار میں وہ سیلف لیس تاثر نہیں لا پائے شائد کبھی ایسا بے غرضی آ بھی نہ سکے.
پر اگر کوئی کہے نا کہ اپنی اماں کو ایک لفظ میں بیان کرو تو ذہن میں آنے والا پہلا لفظ شائد سیلف لیس ہونا آئے یا پھر پہلا لفظ محبت آئے.
وہ بے غرض محبت جس نے زندگی میں ان کڈیشنل محبت کرنا سیکھایا.
جس نے بہادری سیکھائی جس نے اعتماد بخشا حساسیت دی.محسوسات دییے..میرے تخیل میں رنگ بھرے.
اور یہ اسی محبت کا کرشمہ ہے کہ کسی بھی موضوع پر خامہ فرسائیوں کے ڈھیر لگانے والی سحرش لفظ لکھتی ہے مٹاتی ہے. کیونکہ ہر لفظ چھوٹا اور بے معنی لگتا ہے جب آپ کا نام لکھتی ہوں.
ہر استعارہ ہر تشبیہ چھوٹی لگتی ہے جب آپ کی شبیہ نظروں میں لہراتی ہے.سارے رنگ کچے اور سارے کینوس چھوٹے لگتے ہیں جب آپ کا سراپا ذہن کے پردے پر ابھرتا ہے.ساری دعائیں سارے جملے سارے اظہار بودے لگتے ہیں جب آپ کے دعا کے لے اٹھے ہوئے ہاتھ یاد آتے ہیں. آپ کے لیے کیا لکھا یا کہا جا سکتا پے سوائے اس کے کہ
آپ کے بچے آپکو حشر کی صبح بھی دائم دیکھنا چاہتےہیں.
ہیپی برتھ ڈے اماں.:-*

ہمیشہ دیرکر دیتا ہوں میں


میں منیر نیازی نہیں ہوں ایسا کوئی دعوی بھی نہیں ہے پر معلوم نہیں کیوں گمان گذرتا ہے کہ یہ جو ہمیشہ دیرکر دیتا ہوں میں ہے نا تو دراصل یہ الفاظ میرے تھے بیان منیر نیازی کے قلم سے ہوئے یا پھر یوں کہ میرا احساس انہیں الہام ہوا۔
خدا جانے یہ میری سستی، کم علمی ہے یاغیر انسانی حساسیت کے کسی بھی حادثے کو تسلیم کرنے اور اس پر رائے دینے پر جی آمادہ ہی نہیں ہوتا۔ رائے دینا بھی چاہوں تو تب تک اتنی دیر ہو چکی ہوتی ہے کہ حادثہ ہماری روایتی مٹی پاؤ پالیسی کا شکار ہو چکا ہوتا ہے۔
پھر لکھنا بھی چاہوں تو لکھ نہیں پاتی کہ حشک ہوتے زحم کریدنا بھی تو غلط ہی ہے نا، دادو کہا کرتی تھیں کہ باری ورسی تیان آئی تے ہسدیاں نو روان آئی ۔ کہ بہت دیر سے تعزیت کرنے آنے والے دراصل ہستے ہوؤں کو رلانے آتے ہیں۔ تو ہنستے ہوؤں کو کوئی کیسے رلا سکتا ہے۔ پر اب کہ درد دل میں سوا تھا۔
گو کہ ہمیشہ ہی دیر کر دیتی ہوں پر اس بار دیر کے بعد بھی میں کہنا چاہتی ہوں کہ میرے لفظ بہت چھوٹے ہیں اور نقصان بہت بڑا ہر جان قیمتی ہر زندگی اہم ہے۔ یر شخص کا جانا ایک خلا ہے ڈی سی چترال بھی جن کا تعلق بھی میرے شہر سے تھا۔ وہ ائیر ہوسٹس جن کی چھ ماہ کی بچی فون کان سے لگائے ماں کو بلاتی ہے۔ ساری عمر وہ بچی محبت کے عظیم لمس سے محروم رہنے والی ہے۔ اور اس کا تین سالہ بھائی جو موت کے ہجے بھی نہیں جانتا ہوگا لیکن پچھلے پانچ دن سے اس نے موت کے پرچھائیوں میں زندگی گزارنا سیکھی ہوگی۔ ہم آپ میں سے کوئی شخص اس بچے سے زیادہ موت کا مفہوم بیان کر سکتا ہے کیا؟
وہ پائلٹ جو فضاؤں میں رستے بنانا جانتا تھا، وہ جب زمین پر آرہا تو کیا بیتی ہوگی اس کی فیملی پر؟
اور ہاں!جنید جمشید وہ جس کا سانولی سلونی پہروں آپ گنگناتے ہوں اور اسی گنگناہٹ پہلی دفعہ آپ کو پتا چلا ہو کہ چوڑیاں چھن نہیں کرتیں شڑنگ کر کے کسی کے ہونے نہ ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔
اور جب آپ نے ہوش سنبھالنے سے بھی پہلے دل دل پاکستان کی دھن سن لی ہو۔ وہ اڑتا سفید کبوتر اور پیچھے کوئی گاتا تیرا کرم مولا! اور یکایک کرم ہو بھی گیا۔
ایک دن خوبصورت سی آواز کان میں پڑے اور کہے بھکاری بن کے آیا ہوں اور آپ سٹنڈ ہوجائیں۔ کہ یہ تو ہمارا قصہ ہے
بھکاری وہ کہ جس کے پاس جھولی ہے نہ پیالہ ہے۔
بھکاری وہ کہ جس کو حرص و ہوس نے مار ڈالا ہے
واقعی وہ صرف اس کی آواز تو نہ تھی۔ وہ اسمیں چھپی التجا تھی تاثیر تھی جس نے رکنے پر سننے پر مجبور کیا۔ اور پھر سنتے ہی رہنے پر۔
جے ڈاٹ کی شرٹس کے رنگ بھی بھانے لگے ایک دن سنا اس نے کوئی بیان دیا ہے۔ رک کے سوچاکہ اس سے نفرت کی جائے پر اس کے دشمنوں کی زبانوں کے گند نے اس سے تعلق دوبارہ جوڑ دیا۔ مخالفین کی بھی کیا کہیے ہر ابن الوقت نے اپنا بغض نکالاایسا نہیں کے میرا اس کی کسی بات سے اختلاف نہیں تھا بہت سی باتوں پہ بہت سے اختلافات بہت سی ریزرویشنز تھیں پر وہ اس کی زندگی کے ساتھ تھیں وہ جب تک زندہ تھا ہمارا اختلاف زندہ رہا۔ لیکن بدھ کی شام طیارہ گمشدہ ہونے کی خبر سن کر اور یہ سن کر کہ جنید جمشید صاحب بھی موجود ہیں اس طیارے میں،
سارے اختلافات ختم ہو گئے
باقی رہا تو افسوس دکھ اور ملال ایک انسان کے کھونے کا ملال ایک بہترین شخص کے چلے جانے کا دکھ۔ پورا دن سوشل میڈیا سے دور رہنے کے بعد جب لاگ ان ہوئی تو معلوم پڑا ہم گدھوں کے معاشرے میں رہتے ہیں گدھ بھی وہ جو خالق کے نام پہ مذہب کے نام پہ اختیات بانٹتے جنت جہنم کی پلاٹنگ کرتے ہیں۔ جو موت کے بعد بھی نہیں بخشتے کسی کو۔
ہم بعد از مرگ بھی پورا حساب کتاب رکھتے ہیں کہ کون کہاں کہاں پہ کیا کیا کرتا کہتا رہا ہے۔ ہم کسی کی غلطی نہیں بھولتے کہ کہیں فرشتوں کے رجسٹر میں کچھ نوٹ کرنے سے رہ نہ گیا ہو اور کہیں مرنے والا بخشا ہی نہ جائے۔
کیسا دردناک ہے کہ ہم اب ہم آپ احساس کی دولت سے محروم ہو چکے ہیں۔ یقین کریں انسان کی موت پر ہمارا دل دکھ سے نہیں بھر جاتا یہ سراسر نقصان ہمارا نقصان ہے۔ مرنے والے کو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اس کے پیچھے کون کیا کہتا یا کرتا ہے اس کے سارے حساب کتاب سارے معاملات اس کے پیدا کرنے والے کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔
لیکن پیچھے بچ جانے والوں کو ضرور پڑتا ہے فرق نفرتوں کے زہر میں ڈوبی فضاؤں میں سانس لینا زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔

کیوں نا اب سے ہم گدھوں کی طرح لاشوں پہ منڈلانا چھوڑ ددیں۔


Saturday 26 November 2016

بچپن




اچھا تھا بچپن پیارا سا. ٹیکنالوجی نے ابھی دن رات یوں نہیں کھائے تھے کہ ہاتھ میں ٹیبلٹ, آنکھ گیم پر  اور ماں منہ میں نوالہ ٹھونستی ہو کہ جوں جوں گیم چلتی ہے توں توں کھانا ہضم ہوتا ہے۔ دن میں صرف ایک گھنٹہ ویڈیو گیم کھیلنے کی اجازت تھی یا پھر بے بی لونی ٹونز دیکھنے کی۔گو کہ زیادہ پرانی بات نہیں پر جانے کیوں مجھے گمان گزرتا ہے تب وقت بھی یوں پر لگا کر اڑا نہیں کرتا تھا۔سکول سے واپسی پر کام کرکے قاری صاحب سے سیپارہ پڑھنے کے بعد کی ٹوٹل اینٹرٹیمنٹ سارے کزنز کی تخریب کاریاں ہوا کرتی تھیں

کزنز کے معاملے میں بھی ہم خود کفیل تھے ۔ بلکہ دس بارہ چودہ ایکسپورٹ کر دینے کی پوزیشن میں بھی تھے۔ دادا کا بڑا گھر جس کے پیچھے والا زیر تعمیر حصہ جو ہمارا پورا بچپن زیر تعمیر ہی رہا۔سی ایم کا شوق ٹھرک، آئی مین سڑک ہو جیسے. خیر تب نہ تو یہ بکھیڑے نہیں تھے کہ پوچھا کرتے کہ اس کا ٹھیکہ کسی پرائیوٹ کمپنی کو ہی دے ڈالیں۔ پی ایم ڈی سی کے بس کی بات نہیں بابو۔نہ ہی شعور کی یہ خود اذیتی کا دور شروع ہی ہوا تھا۔بلکہ الٹا یہ زیر تعمیر حصہ ہماری جنت تھا۔

تائی امی (رب ان کے درجات بلند کرئے آمین) کو گارڈننگ کا شوق تھا ۔ایک بلی بھی پال رکھی تھی ۔ تو جب اپریل کے شروع میں تائی امی لہسن کے دو تین جوئے زمین میں دبا کر لہسن اگاتی تو ان کے ساتھ ساتھ قطار میں دس پودے مزید لگائے جاتے ۔ہر بچے کا اپنا پودا اور ساتھ میں عہد بھی لیا جاتا کہ اپنی  جان پر کھیل کے ان کی حفاظت  کریں گے۔ اور چار دن بعد جب  پچاسویں بار زمین کھود کے دیکھی جاتی کہ پودا اب کہاں پر ہے تو ہیڈ مالی کزن خبر دیتا کہ یہ پودا نہیں اگنے والا۔ دراصل ہمارے گھر کی زمین لہسن کے لیے موزوں نہیں یوں بھی لہسن کے کچھ خاص فوائد نہیں ہوتے ۔لہذا ہمیں کچھ اور اگانا چاہیے اور یوں قرعہ فال پیاز کے نام نکلتا ۔

پیازوں والی ٹوکری سے دس پیاز چرائے جاتے جو سارے بچوں کی امیوں کی ٹوکریوں سے برابر برابر چرائے جاتے ۔ زمین کھود کر اندر پانی بہایا جاتا ۔ زمین برابر کی جاتی کھاد کے نام پر روٹیوں کے خشک ٹکرے دبائے جاتے اور پیازوں کے دس پودوں کے لیے دس پیاز بو دیے جاتے. بعد میں ہیڈ مالی کزن سے دعا کرائی جاتی ۔یہ وہ کزن تھا جس کے شر سے شیطان بھی پناہ مانگتا تھا لیکن ہم اسے اپنے مدرسے کا امام بنانے پر مجبور تھے کیونکہ پیچھے کھڑا کرنے سے جوتے چوری ہونے کا خدشہ تھ

امام ساب دعا کرانے سے پہلے شرائط طے کر لیتے کہ جو دعا وہ مانگیں گے سب اس پر آمین کہیں گے مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق شرائط تسلیم کر لی جاتیں۔ امام ساب دعا کراتے، اے اللہ میرا پودا سب سے لمبا ہو۔اور سارے مقتدی ایسی دعا پر انگشت بدنداں رہ جاتے ۔امام ساب لہجے میں تنبیہ بھر کہ نسبتا بلند آواز میں دعا دہراتے ۔ساتھ ہی کھنکھار کے گویا یہ بھی واضح کرتے کہ وہ ہاٹ لائن پر ون آن ون گفتگو فرما رہے ہیں.لہذا مری مری سی آمین بلند ہوتی

امام ساب ترپ کا پتا پھینکتے کہ یا رب اونچی آمین کہنے والے کا پودا دوسرے نمبر پر ہو اور ساری جنتا آوے ای آوے کے مصداق دیوانہ وار پکارتی آمین۔آمین۔ دعا کا سرا وہیں سے جڑتا۔ اللہ میرے پودے پر سب سے زیادہ لہسن لگے۔مجبوری میں کہا گیا آمین اور اس کے ساتھ ہی مولوی ساب کا آمین کہہ کے منہ پر ہاتھ پھر کر چلتا بننا۔ پیچھے بچی عوام اپنے اپنے پودے کے لیے دعا کرنا بھی چاہتی تو نہ کر پاتی۔   مولانا کزن ساب کا فتوی تھا، اجتماعی دعا کے بعد اکیلے بندے کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ اور دس دن بعد جب تائی امی اپنے لہسن بارے تشویش کا شکار ہو کہ کھیت کا چکر لگاتیں تو پھر بلا امتیاز، رنگ و نسل، عمر ،جنس و ولدیت سب کی حسب توفیق لتریشن فرماتیں۔ اس عظیم الشان عزت افزائی کے بعد فورا کیبنٹ میٹنگ بلا لی جاتی ۔جو نیم سے لٹکے دو جھولوں تین عدد کرسیوں اور پیڑھیوں پر بیٹھ کر منعقد کی جاتی۔ جس میں کابینہ کے سارے اراکین اسٹیبلشمنٹ کے غیر جمہوری اقدامات کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتے اور دادا کی سپریم کورٹ میں ہمارے خلاف مقدمے کو جمہوریت پر حملہ قرار دے کے اس کے خلاف قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کر لیتے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی طے پا جاتا کی اب ہم چڑیاں طوطے پکڑ لائیو سٹاک کا بزنس کریں گے

اگلی دوپہر ماؤں کے سوجانے کے بعد ساری کابینہ ٹوکری کے نیچے دانہ ڈال کے ٹوکری سے دھاگا باندھ کے دم سادھ بیٹھ جاتی۔ کتنا معصوم شکار تھا۔ شاعر کے بقول چھوٹے تھے تو مکرو فریب بھی چھوٹے تھے۔ دانہ ڈال کے چڑیاں پکڑا کرتے تھے اور جب ساری دن دھوپ میں گزار کر شام کو ہم ویسٹ انڈیز کے نیشنلٹی کیلئے کوالیفائی کرنے والے ہوتے تو ماؤں کو خبر ہوجاتی۔اگلی دوپہر میں ملیں گے، کی مجسم تصویر بن کر سب چل پڑتے۔اگلے دن جیسے ہی کوئی معصوم پرندہ ہاتھ لگ جاتا تو ہیجڑوں کے گھر پیدا ہونے والے کاکے سا سلوک فرمانا شروع کر دیتے ۔ ہاتھ میں پکڑ پکڑ کے اس کی حالت غیر کر دیتے۔شام تک اس کی حفاظت کرتے اور رات ہونے سے پہلے سیکیورٹی لیکس ہوجاتی کوئی سرل المیڈا سٹوری فائل کرکے چلتا بنتا۔

دادا جان بنفس نفیس آتے سب کی گوشمالی کرتے ہوئے پرندہ اڑاتے اور چل پڑتے۔ ایک دن کے وقفے سے دو خوابوں کے روندے جانے پر ہم سب غم سے رنجور چپ چاپ بیری کو اور انگور کی بیل کو پتھر مارا کرتے۔اور یہشغل تب تک  فرماتے  جب تک نیا کٹا نہ کھول لیتے.اور یوں سارا بچپن کزنز کے چڑیا گھر میں چوں چوں کرتے گزرا.
یہ سب لکھنے کا خیال ایک خبر پڑھ کے آیا کہ ہمارے چالیس فیصد بچوں کو کمیونکیشن ایشوز ہیں۔اور اسکول گوئنگ بچوں کی بڑی تعداد سیریس اٹیٹیوڈ پرابلمز کا شکار ہے۔ پتا نہیں کیوں مجھے ان مسائل کے پیچھے آجکل کی ماؤں کا خود ساختہ سوشل بائیکاٹ بھی ہے جس میں مائیں بچوں کو لے کر شدید آئسولیشن کا شکار ہیں

بھئی سیدھی سی بات ہے جنس با جنس پرواز پانچ پانچ، چھ چھ ،سات سات سال کے بچے جب اپنے ہی جیسے بچوں سے کمیونکیٹ نہیں کریں گے تو لازمی ہے ان کا سکول انہیں کمیونیکیشن سکلز  کے کورسز ہی کرائیں گے اور جب مائیں سارا وقت یہ بتاتی رہیں گی کہ چاچو کے، پھپھو کے، تایا کہ بچے گندے ہیں تو پھر اٹیٹوڈ ایشوز تو ہوں گے ہی۔
 تو میری قوم کی کافی پیاری ماؤں ، سوچیں ذرا بچوں کے نفسیاتی سیشنز کرانے سے کہیں بہتر ہوگا اگر وہ اپنے ہی جیسے بچوں کے ساتھ فیزیکل ایکٹیوٹیز مصروف ہو جائیں۔ مائے ڈئیر لیڈیز کزنز بڑا پیارا رشتہ ہوتا ہے، اسے کم از کم اپنی سیاست کی نظر  نہ کریں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر صرف ایک تعلق باقی رہ جائے سائیکولوجسٹ اور مریض کا.

Wednesday 23 November 2016

نتھنگ مچ




جب بھی کوئی انکل آنٹی پوچھتی ہیں کے اور کیا کرتی ہیں یا کر لیتی ہیں. تو بے ساختہ جی چاہتا ہے کہ بتاؤں کہ صوفے پہ لیٹ کے میز پر پڑے ریموٹ کو پیروں کے ساتھ چلاسکتی ہوں. دونوں ہاتھوں کی ساری انگلیوں اور دونوں انگوٹھوں سے یکساں سپیڈ سے فون یوز کر لیتی ہوں. دو دن کامب نہ کر کے زلف تابدار( کرلی ہیئرز) کو اور بھی تابدار کر لیتی ہوں. دن میں چھ کپ چائے کافی پی سکتی ہوں کزنز کے الٹے سیدھے نام رکھ لیتی ہوں.کسی بھی دوست کو تین منٹ میں اوفینڈ کر سکتی ہوں.صوفے کی بیک پر ٹانگیں ٹکا کر سر نیچے لٹکا کر "چلتے"پنکھے کے پر گن لیتی ہوں. ساکس کے "کپل" کو ایک دن میں سنگل کر لینے کی صلاحیت رکھتی ہوں.
لیکن!!! عجب دستور زبان بندی ہے تیری محفل میں..
جوابا کہتی ہوں تو صرف یہ کہ
نتھنگ مچ._____ اور اس نتھنگ مچ پر میرے اندر کا آرٹسٹ دہائیاں دیتا ہے.
ہے کوئی جو اس نتھنگ مچ کے پیچھے چھپے کرب جو پہچانے اس درد کا درماں بنے اور اس دکھ کا چارہ گر بنے..

Monday 21 November 2016

لفظوں کا دکھ




اور ان لفظوں کا کیا ہوتا ہے جو جملوں میں نہیں ڈھل پاتے.وہ خیال جو اندر طوفان برپا کر کے چپکے بیٹھ جاتے ہیں.وہ احساس جو حرفوں میں نہیں سماتے.
اس وحشت کا قصہ کون سنائے اور کیسے؟ جسے کوئی روزون نہیں ملتا کھڑکی نہیں ملتی رستہ نہیں ملتا وہ جو اندر ہی اندر لاوا بنتی رہتی ہے..جو اندر ہی بہہ کر من خاکستر کر دیتی ہے.کہنے والوں کے دکھ بھی عجیب ہوتے ہیں انہی کی طرح. احساس کو گویائی نہ دے پا سکنے کا دکھ.لفظ کے تنہا رہ جانے کا دکھ ان کہی نظموں کا دکھ نہ سنی جا سکنے والی کہانیوں کا دکھ.اور آواز کے گویائی نہ پانے کا دکھ.

Tuesday 15 November 2016

Can I lay by your side?



نیندسے لڑتے جھگڑتے جب کھڑکی کےپاس جاکر ٹھکانہ بنایا تو باہر اکتوبر کی اولین راتوں کا سحر پھونکتا آسماں منتظر تھا۔گہرا نیلا خاموش آسمان اور چپکے چپکے، چمکتےتارے جیسے ان کے زور سے چمکنے سے منظر ٹوٹ جانے کا خوف لاحق ہو۔  کھڑکی کی گرل کھولنے سے پہلے دیور پہ لگے اے سی کی طرف دھیان گیا جو ہر صورت کمرے کو "رہنے"کے قابل بنائے رکھتا تھا۔ کولنگ خراب ہونے کے خدشے کے پیش نظر بند کھڑکی پر پردے گرا کر خود باہر چلی آئی۔ ٹیرس کی دیوار کے ساتھ ساتھ پھیلتی بوگن ویلیا، 
دیوار کے ساتھ گملوں میں پرپل زینیا جس کے درمیان میں گہرا سبز رنگ تھا۔ جو اس کے پرپپل اور ایمرلڈ گرین ڈریس کا ڈیزائنر بھی تھا۔ گیٹ کے پول پر لگی دودھیا لائٹ کا ہلکا تاثر جو منظر واضح تو نہیں کر پارہی تھی مگر اس کی موجودگی چیزوں کو ان کی ساخت پر قائم رکھے ہوئے تھی۔
لائٹ کو دیکھتے ہی اسے اسکا کا کہا ہوا وہ جملہ بھی یاد آیا کہ تم لان میں لگی لائٹ  جیسی ہو، جسے بجھا دیا جائے تو ہر شئے بے معنی ہو جاتی ہے۔ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ تمہیں تو اداس ہونے کی اجازت ہی نہیں ہونی چاہیے۔ تمہارے ساتھ اداسی بالکل نہیں جچتی۔ جیسے چھم چھم برستی بارش میں اچانک سورج نکل آئے اور ہاتھ میں پکڑا چائے کا مگ تک اپنی اہمیت کھو دے
کین کی کرسی پر بیٹھ کر یہ جملے یاد آئے تو مدھم سی مسکراہٹ لمحہ بھر کوچہرے پہ آئی اور پھر معدوم ہو گئی۔ گویا مسکرانا بھی کوشش سے پڑنا ہو۔ اور اب وہ اکثر اداس رہتی ہے۔گویا منظر پگھلاتی رہتی ہے. موم کی صورت جس میں دھاگا جلتا رہتا ہے اور وہ پگھل پگھل کے ہستی کھوتی رہتی ہے۔ناآسودہ خواہشات ان کہے لفظوں کی کوئی نظم اس کے اندر بھی تڑپ تڑپ کے ہستی کھوتی رہتی ہے اور وہ کاغذ قلم پکڑے یہ سوچتی رہتی ہے۔ لکھ دئے وہ سارے احساس جو اسے مسلسل تخلیق کے کرب میں مبتلا رکھتے ہیں۔لیکن لفظ بھی کہاں تک ترجمانی کرتے اس بے انت درد کی۔اور بظاہرکسقدر نارمل زندگی تھی اس کی بلکہ بہت سے لوگوں کے لیے قابل رشک،
وہاں بیٹھے اس منظر کا حصہ بنے، نہیں معلوم کتنا وقت گزرا تھا۔ بس اتنا معلوم تھا کہ آسما ن پر دمکنے والے ستارے اس کی چشم حیراں میں آن بسے تھے۔وہ سارے ستارے ایک ایک کر کے ٹوٹنے کو تھے۔ وہ جن کو آنکھوں میں بسا کر آغاز سفر کیا تھا۔اس سے پہلے کہ یہ متاع شہاب ثاقب میں بدل کر زمیں کی گہرائیوں میں روح سے عاری جسم کی طرح بسیرا کرتے اس نے بات کرنے کا،سمجھانے کا اور اپنا نکتہ بتانے کا فیصلہ کرلیا
ارادے کے بعد کا اطمینان لیے آسمان کے ستاروں کو چاندنی کے اور زینیا کے سبز اور کاسنی رنگ کو پول پر لگی لائٹ کے حوالے کر کے کمرے میں چلی آئی
اگلی صبح کا سورج ارادے اور عزم کی روشنی لیے ہوئے تھا۔ اسی زینیا   جیسا سوٹ پہنے نفاست سے میک اپ کیے جب وہ گھر سے نکلی تو مصمم ارادے کے ساتھ فتح کی امید سے دل معمور تھا۔ویسے امید بھی کیا بری شئے ہے انسان کو جیتے رہنے پر مجبور کرتی رہتی ہے
شہر کی مصروف سڑک پر موجود اس کے آفس میں بڑی سی میز کہ سرے پر دھری کرسی پر بیٹھی وہ اس مصروف ترین شخص کو دیکھ رہی تھی اور جملے ترتیب دے رہی تھی۔ اس شخص کے لیے جو اس کہ لیے رفتہ رفتہ اے ٹی ایم مشین میں بدلتا جا رہا تھا۔ جس میں سے وہ حسب ضرورت روپے نکال کر " زندگی" خریدتی تھی___ وہ جس کے خواب الگ الگ تھے۔ وہ جسے بسی بسائی دنیا میں اپنا مستقبل "روشن" رکھنا تھا۔ وہ جو چھٹیوں پر بھی جاتا تھا تو دبئی یا لندن۔ کہ چھٹیاں توآسائش سے گزرنی چاہییں ارلی گرے ہوجانے والے بالوں کو سلیقے سے جمائے۔ ارلی گرے بھی خوب اصطلاح ہے...جب دن رات آٹھوں پہر مقابلہ جیت جانے کی دھن سوار ہو تو گرے چھوڑ سلور بھی بچ جائیں تو غنیمت سمجھنا چاہیے__ عینک کہ پیچھے اس کی کسی فائل میں ڈوبی آنکھوں میں خود کو تلاش کی سعی لا حاصل میں وہ کہیں دوور نکل گئی تھی...فائل سے نظریں ہٹا اس نے آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی تو حال میں واپس آتے ہوئے بے ساختہ خیال آیا
آہ! تمہیں یہ سمجھانا کسقدر دشوار ہے  کہ مجھے ان بسے بسائے سجے سجائے سیٹلڈ شہروں سے وحشت ہوتی ہے.مجھے لگتا ہے یہ "آسان" زندگی میرے اندر کا خواب پرست مار ڈالے گی...کیا میرے لہجے کی تھکن یہ بتانے کہ لیے ناکافی ہے کہ یہ سہولتوں کا انبار مجھے جینے نہیں دیتا.۔۔ تم نہیں سمجھ پاؤ گئے شائد
مجھے لگتا ہے مجھے سسی ہونا تھا۔پنوں کہ پیچھے تھل کی ریت چھاننا تھی...روحی کے کسی سرد ٹیلے پر زندگی کی شام بتانی تھی
کبھی یہ بھی گمان گزرتا ہے کہ کسی پہاڑی دریا کہ کنارے کسی ٹری ہاؤس کہ نیچے کرسی ڈالے اکتارہ بجاتے ہوئے سپہریں کاٹنا تھیں..یہ تو نہ چاہا تھا کہ آدمیوں کہ ہجوم میں عمر بسر ہو..پر تم نہیں سمجھ پاؤ گے تمہیں لگتا ہے زندگی آسائش کا دوسرا نام ہے تمہیں یہ بھی لگتا ہے کہ سیٹلٹڈ شہروں کی رونقیں جاگتی راتیں مصروف دن زندگی کی علامت ہیں....
سنو! کسی دن صحرامیں رات گزارو ٹہرے ہوئے آسماں پر فسوں جگاتے ستارے ریت پر منعکس ہوتی چاندنی اور دوور کہیں بجتی بانسری تم۔ سحر کا مفہوم نہ جان جاؤ تو تو جادو کا لفظ ہی لغت سے نکال باہر کرنا۔
سنو تم جاگتی راتوں میں چمکتی، آنکھوں کو خیرہ کرتی مصنوعی روشنیوں کو ہی خوبصورتی سمجھ بیٹھے ہو....خوبصورتی دیکھنا چاہو گے؟؟؟ تو پھر کسی معصوم بچے کی شفاف آنکھوں میں ڈوبتا سورج دیکھو۔ اگر حیرت استعجاب ، خوشی، امید باہم یکساں مجسم خوبصورتی نظر نہ آئیں تو میں خوبصورتی کی تمہاری تعریف کو مان لوں گی
تم ایک دفعہ کسی دوست کا ہاتھ تھام کہ ان شہروں سے نکل کر کسی ویرانے میں جا بسرام تو کرو۔ زندگی کاٹنے اور جینے کہ درمیان فرق سمجھ جاؤ گے..دیکھو!! بڑا گھر بڑی گاڑی، بڑا بینک بیلنس یہ ہی تو زندگی نہیں۔ کسی دن چوٹی پر چھوٹا سا کیمپ اس میں راڈ سے پانی گرم کر کے کافی اور اس کافی میں ڈبوئے سخت بسکٹ کھا کر دیکھو تم زندگی محسوس کرو گے
تم ایک بار ایک بار میرے ساتھ چلو ہم دریا کہ ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ریت پر بیٹھ کہ پانی میں بنتے بگڑتے.بھنور دیکھیں گے۔ اگر یہ سب مایا اس بھنور جیسا نہ لگا تو میں تمہاری دنیا میں پلٹ آؤں گی۔ پر آسائش آسان زندگی والی دنیا میں۔۔ لیکن ایک بار چلو تو سہی۔اس کے اندر کی دیوانی  لڑکی منظروں کی دلیلوں کے انبار لگا رہی تھی اور وہ ہونٹوں پر چپ کی دبیز تہہ لگائے بیٹھی تھی۔اندر کی شوریدہ سری نے سرپٹخا اور اس نے کہنے کے لیے لب کھولے اور تو بس یہ کہا ، دیر ہو گئی ہے۔کیونکہ دیر تو واقعی ہو چکی تھی وہ زندگی کی ان منزلوں کی مسافر ہو چکی تھی جن راہوں کا سب سے بڑا خوف اظہار کے بعد کی بے توقیری ہوتا ہے۔ وہ کہہ کہ لفظوں کا مان نہیں گنوانا چاہتی تھی
اگر اس نے حسب معمول میرے محبتوں کے سارے فلسفے چٹکی میں اڑادیے تو__ کیا اس کے بعد جینا ممکن ہوگا؟ 
چلیں، کی آواز نے اس کے خیال کو بریک لگائی اور وہ دیوانی اس کہ ساتھ گاڑی میں آ بیٹھی__ کیونکہ سمجھداروں کو دیوانگی سمجھانا کسقدر مشکل ہوتا ہے یہ کوئی "دیوانہ" ہی سمجھ سکتا ہے.

Sunday 13 November 2016

ورچوئل دھشت گردی


جیسے شہباز شریف نے لاہور میں سڑکوں اور پلوں کااور جیسے کیبل نیٹ ورکس نے ملک میں "فحاشی"کا جال بچھا رکھا ہے.

بلکل ایسے ہی دو جڑواں شہروں میں ہمارے کزنز کا جال بچھا ہوا ہے.
شہر کےکسی بھی کونے میں چلے جائیں کوئی نا کوئی کزن دانت نکالتا ہوا برآمد ہوتا ہے اور امی ابا سمیت پورے خاندان کی خیریت معلوم کرنے لگتا ہے.جیسے ہم سارے خاندان کے جملہ امور صحت و تعلیم کے سپوکس پرسن ہیں .وہ تو بھلا ہو گاگلز ایجاد کرنے والے کا۔۔. رب اس کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے آمین.
جن کو لگائے ہم کینہ توز نظروں سے انہیں گھورنےکے با وجود چہرے پہ جیسے جانتے نہیں پہچانتے نہیں کے تاثرات سجائے بے مروت سے پھرنے کی کوشش کرتے ہیں.وگرنہ تو ہمہ وقت واٹس ایپ کی آنکھیں اوپر کی وی سمائیلی جیسا فیس بنا کہ پھرنا پڑتا۔۔.
کبھی کبھی ذہن میں خیال آتا ہے، دل میں اس لیے نہیں آتا کہ جب ذہن میں خیال آ سکتا ہے تو کیوں خوامخواہ دل کو زحمت دی جائے؟ ویسے بھی بیچارہ دن رات صبح شام آٹھوں پہر خون پمپ کر کر کے تھک جاتا ہوگا اوپر سے ہم اس سے ایکسٹرا ڈیوٹیز کراتے پھریں. بھئی ہمارا دل کوئی ڈاکٹر یا ٹیچر نہیں نہ ہم سی ایم، جو اس سے اتنا برا سلوک کریں.لہذا ہم خیال ویال ذہن میں ہی لاتے ہیں.کہ وہاں یوں بھی سارا دن فسادی منصوبے بنتے رہتے ہیں سو کافی وقت مل جاتا ہے وہاں خیال لانے کا.
ہاں تو ہم بتا رہے تھے کہ ذہن میں خیال آتا ہے کہ جانے کون لوگ ہوتے ہیں جن کے دو دو چار چار پانچ پانچ کزنز ہوتے ہیں یہاں تو برائی کی طرح ہر سو پھیلی ہوئی عوام ہمارے کزن کے عہدے پر فائز ہے. اگر ہم صرف آج تک کی، ان کی ہمیں کی گئی سلامیاں ہی گنیں تو شمار مشکل ہو جائے۔۔ اس سے حساب لگائیں اگر سلام دعا کی کوئی فیس رکھ لیتے تو آج چھوٹے سےبل گیٹس ہم بھی ہوتے اور اگر یہ سلامیاں توپوں کی صورت میں ہوتی تو آج اپنے اسلحہ ڈیپو کے مالک ہوتے ہم۔۔.ارے بھئی توپ لے کہ رکھ ہی لیتے نا ہم؟ اب اتنے آتشیں "اسلحے" کے سامنے کون جرات کرتا توپ چلانے کی؟
یادش بخیر جب فیس بک پر اکاؤنٹ بنایا تو تقریبا ہر شام صدماتی کیفیت ہوتی. وہ کزن جن کے آنے پر ہم جوس بھی اماں کی شدید گھوریوں خاموش دھمکیوں کے بعد طوعا کرہا سرو کرتے تھے وہ بھی فرینڈز ریکوسٹ بھجوا رہے تھے اور انباکس میں آ کر تعارف بھی.اس سے پہلے کہ ہم ایک خط بنام مارک زخربرگ لکھتے اور اپنے تخفظات سے اسے آگاہ کرتے کہ بھیا یہ ان سب نمونوں کو کاہے اپنی ویب سائٹ پر دندناتے پھرنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کوئی لگام وگام ڈالو انہیں کم از کم ان لوگوں سے انباکس ہی چھین لو کہ کسی نے چپکے سے سرگوشی کی کہ بی بی اگنور کیوں نہیں کرتی ہو سب کو. 
اور بلاک کس نے کری ممنوع
کردو اچھی لگتی ہو.
سو ایک کرائیٹیریا سیٹ کیا ہر انباکس کرنے والے کزن/فیلو کو بلاک کرنا شروع کردیا جس کے بعد سے فیس بک ایسی پرسکون لگنا شروع ہو گئی کہ بس.اس سے پہلے کہ کل عالم کو بلاک کر کے ہم گلیاں سنجیاں کر لیتے۔۔۔ بلاک شدگان و دیگر کو ہم فیس بک پر ویسے ہی لگنے لگے جیسے وہ ہمیں اصل زندگی میں لگتے ہیں یعنی کے زہر.:-P یوں فیس بک پر ہمارا سیلکیٹو سوشل ہونا قائم ہی رہا.
آج یہ سب اس لیے یاد آیا کہ فیس بک کے گزرے ماہ و سال میں بہت اچھے لوگوں سے واسطہ پڑا اچھے لوگ ملے ہمیں اپنی خامہ فرسائیاں لکھنے کا ان پر داد پانے کا موقع ملا ہم بھی تھوڑے کم "فلیم ایبل" ہوگئے.سوشل میڈیا یا فیس بک کا کہہ لیں جو سب سے بڑافائدہ ہوا وہ یہ ہوا کہ پیارے لوگوں سے تعلق بنا سیکھنے کو ملا.
ان سب کے باوجود دو چار دن بعد کہیں نا کہیں سے صدااحتجاج بلند ہوتی ہے ہمارے ریکوسٹس اگنور کرنے کی...تو پیارے دوستو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم کوئی توپ شئے تو ہیں نہیں جن سے کچھ سیکھنے ویکھنے کو ملے بھئی بد تمیز سی لڑکی ہیں سو اس لیے چاہتے ہیں کہ آپ لوگوں کا وقت توقعات اور رائے کھوٹی نہ کی جائے.
بلکہ آپ سب کو اپنے فسادی منصوبوں سے بھی محفوظ رکھا جائے..کیونکہ یہ بتانا بھول ہی گئی ہمارے دوست ہماری ٹوٹل سوشل سائینسز کی تجربہ گاہ کے عہدے پر بھی فائز ہوتے ہیں۔۔ مین وائل ہم اپنی وال پہ ان کے کامنٹس کو خوش آمدید بروزن تیا پانچہ کرتے رہتے ہیں دوستوں کے خاکے)(الٹے سیدھے) لکھنے اور پھر ان پر قائم.رہنے میں بھی ہمیں خاص قسم کا سکون ملتا ہے.اور وہ دن تو ہم ناکام ناکام محسوس کرتے ہیں انٹرنیٹ استمال کرنے کا مقصد ہی فوت ہوا لگتا ہے جس دن ہم اپنی گوناں گو صلاحیتوں سے کسی نا کسی دوست کو اوفینڈ نہ کر لیں. اور جب کچھ نہیں بن پڑتا تو ہم شاعری کرنے لگتے ہیں الٹی سیدھی نظمیں لکھتے پوسٹ کرتے ہیں اور نہ صرف پوسٹ بلکہ خاموشی کی زبان میں باقاعدہ دھمکیاں بھی دیتے ہیں کہ اس شاعری نما کو نہ صرف شاعری سمجھا بولا مانا جائے بلکہ اس کی تعریف بھی کی جائے. مختصرا کہیں تو یوں کہ ہمارے ساتھ ایڈ سب معزز لوگ "سواریوں کی طرح اپنے سامان" کی حفاظت کی ذمہ دار خود ہے۔ انتظامیہ کسی قسم کے نقصان کی ذمہ داری قبول کرنے سے صاف انکاری ہے.

پیلے پتوں والا پل


سردیوں کی بارش میں دھندلے بادلوں میں جب پیلے پتوں والے اورنج پل پر ہاتھ تھامے میں اور تم واک کیا کرتے تھے۔ تو کیسا ٹہرا ٹہرا پورا منظر ہوا کرتا تھا۔ہر چیز ہمارے ساتھ سست قدم ہو جاتی تھی۔ بارش کی قطرہ قطرہ مدہم مدہم گرتی پھوار، آہستہ آہستہ محو سفر بادل، بھیگے بھیگے گیلے پتے اور وہ میری سرخ چھتری

تم پوچھتے تھے نا؟ یہ تم سرخ چھتری کیوں لے آتی ہو..تو سنو! مجھے رنگوں سے عشق تھا۔مجھے ہر منظر ہر سو رنگ دکھائی دیتے تھے۔ خوشبو سنائی دیتی تھی۔ اب تم کہو گے پاگل پن ہے یہ۔پر تم نہیں سمجھو گے
عشق وہ ساتویں حس ہےکہ عطا ہو جس کو
رنگ سن جاویں اسے خوشبو دیکھائی دیوے
اور وہ بھی تو عشق کا دیوانہ پن تھا نا روز سر شام اسی پل پر ہاتھ تھام کے چپ چاپ چلتے رہنا۔ خاموشی کی زباں میں سارے جہاں کی باتیں کرنا۔ تم خود ہی سمجھ جاتے تھے کہ موڈ آف ہے میرا۔ تو کبھی میں اچانک پوچھ لیتی، لو  ساؤنڈ کیوں کر رہے ہو؟ تم پوچھتےتھے کیسے اندازہ ہورھا؟؟ میں مسکراتی کہ بولے۔۔۔ اور تم اداسی بھول کر ہنسنے لگتے۔کتنے پیارے دن تھے۔۔۔۔
سنو تم پھر سے اسی ہل سٹیشن پہ پوسٹنگ لے لو۔ اسی ریسٹ ہاؤس کو دوبارہ سے گھر بناتے ہیں۔اور اسی پل پہ چل کر ایک ساتھ نئے خواب بنتے ہیں۔ یہ بڑے شہر ان کے تقاضوں، سہولتوں کی فراہمی نے تو تم سے تمہاری نرمی اور مجھ سے میری دیوانگی ہی چھین لی ہے۔
سنو ہمیں اس دنیا کے معیار فالو نہیں کرنے۔ میں اور تم خواب پرست ہی اچھے۔ کم از کم وہاں سانس لینے کی تو آزادی ہے، سر خوشی توہے اور سب سے بڑھ کر میں اور تم اک دوجے کو میسر تو ہیں.
سحرش

Tuesday 8 November 2016


شکایت_نامہ


سوچتی ہوں کیا مجھے واقعی شکایت نہیں کیا.ایسا نہیں ہے مجھے شکایت نہیں.پر جان من شکایت تب کروں جب تم شکایت سننے پر آمادہ ہو.تم تو یہ طے کر چکے ہو کہ تم صحیح اور کل عالم غلط ہے.درحقیقت تم صحیح ہونے کے زعم میں مبتلا ہو.تمہیں یہ بھی لگتا ہے کہ تمہارے سوا سب جھوٹے منافق ہیں.

سنو ایسا نہیں ہوتا..اکثر لوگوں کی مجبوریاں ہوتی ہیں جو وہ چاہ کر بھی اظہارِ تمنا نہیں کر پاتے.اور مجبوریاں نہ بھی ہوں تو بھی ہم آپ کون ہیں بھلا ان پر اپنی مرضی تھوپنے والے انہیں یہ بتانے کہ ہمارے طے کیے ہوئے معیارات پر پورا اترو تو تمہیں "مومن" مانیں.
سنو ایسا نہیں کرتے یہ دنیا ہے جان من میرا تمہارا خواب نہیں جہاں ہر شئے ہماری مرضی کے مطابق ہو...سو لوگوں کو قبول کرنا اور خوبیوں خامیوں سمیت قبول کرنا سیکھ لو تا کہ شکایتیں کم کم ہوں مجھے تمہیں ہم سب کو.

Monday 31 October 2016

کتاب کا مکالمہ


دوستوں کے درمیاں کتاب دوستی اور کتاب پڑھنے پر بات چل رہی تھی۔ مکالمہ ہو رہا تھا اور چونکہ اپنے دوستوں کی ہر بات سے اختلاف کرنا ہم اپنے فرائض منصبی میں شمار کرتے ہیں۔ سو اس سے بھی بالاآخر اختلاف ہی کیا۔ کیونکہ دوستوں کا خیال تھا کہ کتاب نہیں انسان پڑھنے چاہیں اور یہ کہنے والے ہمارے دوست تھے۔ سو ان کی باتوں سے ہمیں شدید اختلاف تھا۔جیسا کہ کسی سیانے کا قول ہے کہ بات کو دیکھنا چاہیے کہنے والے کو نہیں اور ہر کلاسک پاکستانی کی طرح ہمیں بھی عقل کی ہر بات سے کم و بیش اختلاف ہی ہوتا ہے۔لیکن یہاں مسئلہ یہ تھا کہ مکالمے کے اگلے فریق بھی ہمارے ہی دوست تھے جیسے کہا جاتا ہے جنس بہ جنس پرواز۔۔ تو آسانی سے مان جانا ان کی بھی فطرت میں شامل نہیں۔
 لہذا جب سوال جواب شروع ہوئے تو پوچھا انسان کیسے پڑھے جائیں؟ تو جواب آتا ہے جیسے ہم پڑھتے ہیں۔ جس پر تین کو منٹ ہنسنے کے بعد کہا گویا آپ اتھارٹی ہیں

دنیا کے سارے علوم ایک طرف اور آپکا طریقہ ایک طرف۔ مانا دوست ہیں آپ ہمارے پر ایسا بھی کیا لیوریج لینا
سو ان سب دوستوں کے لیے ہمارا نکتہ نظر جو یہ سمجھتے ہیں کہ کتابیں پڑھنا حقیقت پسندی سے دور لے جاتا ہے
تو دوستو سب سے پہلے تو یہ بتائیے کہ کونسی حقیقت؟ وہ جو آپ نے کتابوں میں پڑھی ہے۔ کتابوں سے سیکھی ہے یا زندگی میں گزارے آپ کے ماہ و سال کے روز شب سے کشید کی ہے آپ نے؟
اگر تو کتابوں والی حقیقت ہے تو پھر مسکرانے کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے
لیکن اگر زندگی سے کشید کی ہوئی حقیقتیں ہیں تو پھر آئیے اسی پر بات کر لیتے ہیں۔ہو سکتا ہے میں نے سالوں میں عمر آپ سے کچھ کم گزاری ہو۔لیکن میں نے صدیاں ایسے ہی گزاری ہیں،جس میں زندگی اپنی پوری سفاکی، تلخی کے ساتھ موجود تھی اور جن میں کئی ان کہے درد آنکھوں کے راستے دل میں پیوست ہوتے ہیں
میں نے جنگ کی سفاکی سے متاثر ایک افغانی بچے کی آنکھ کی نفرت کو کتاب کے ذریعے بدلتے دیکھا ہے۔گلی میں پاپ کارن بیچنے والے بچے کو شوز پالش کرنے والے کو میں نے کہانی کی کتاب مل جانے پر مسکراتے دیکھا ہے
پتا ہے افغانی بچے کی آنکھ کی نفرت کو جن دنوں مہربانی میں بدلا تھا تو اس نے پہلا جملہ کیا بولا تھا؟؟ ہم کو پڑھنا سیکھاؤ
اور پاپ کارن والا بچہ جب کتاب واپس کرنے آیا تھا تو یہ پوچھنا نہیں بھولا تھا اور کتابیں ہیں۔ اور میں اس بچے کو عمران سیریز پہ لگانے کے متعلق سوچتے خود ہی مسکراتی رہتی ہوں
یہ تو تھیں وہ مثالیں جن کو سن کے آپ لوگ ہنستےہیں اور ہمیں خواب پرست سمجھتے ہیں۔یوں تو ہمیں خواب پرست کہلوانے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے.لیکن چونکہ آپ لوگوں کے خیال میں خواب پرست "پریکٹیکل" نہیں ہوتا. اور آپکا یہ بھی خیال ہے کتابیں پڑھنے سے ترقی "میٹریل اور فنانشل" ترقی کا سفر رک جاتا ہے.
تو کیوں نا اس غلط فہمی کا بھی ازالہ کر ہی دیا جائے.؟
آپ کو پتا ہے آپ لوگوں کے معیار والی مہذب دنیا میں سالانہ کتنی کتابیں چھپتی ہیں؟
چائنہ سالانہ چار لاکھ چالیس ہزار کتابیں چھاپتا ہے
یو ایس میں یہ تعداد تین لاکھ پچاس ہزار جبکہ یونائیٹڈ کنگڈم میں دو لاکھ کے قریب ہے
جبکہ ہم چونکہ زیادہ پریکٹیکل ہیں لہذا ہم سالانہ صرف چار ہزار کتابیں چھاپتے ہیں
اب آتے ہیں بک ریڈنگ کے ٹرینڈز پر یا ریڈرز کی تعداد پر
تو جناب چائنہ میں ہر شخص سالانہ اوسطا پانچ جبکہ امریکہ برطانیہ میں بلترتیب آٹھ اور دس کتابیں پڑھتا ہے
یہ تو تھا حساب کتاب
چلیے ایک اور بات سنیے آپ کو پتا ہے
مشہور سائیکولوجسٹ ڈاکڑ پال ایکومن مائیکرو ایکسپریشنز کے کو فاؤنڈر  لکھتے ہیں۔ جن بچوں کو بچپن سے کتابیں پڑھنے کی عادت ہو ان کا مشاہدہ دوسرے بچوں کی نسبت دو گنا زیادہ ہوتا ہے۔ مزید لکھتے ہیں کتاب پڑھنے والے ٹین ایجرز میں ڈپریشن فرسٹریشن اور ایگریشن کم ہوتا ہے اور مجرمانہ رجحان نہ ہونے کے برابر۔ آپ کو پتا ہے پچھلے دنوں جب ورلڈ مینٹل ہیلتھ ڈے منایا گیا تو کس چیز پر فوکس تھا بھلا؟؟ پاکستان میں یوتھ میں بڑھتا ہوا ایگریشن
اور یوتھ کے مجرمانہ رجحان پر کیا کہیں اور کیا نہیں تیرہ چودہ سال کے بچے اغوا برائے تاوان میں ملوث اور سترہ سترہ سال کے بچے قتل کے جرم میں جیلوں میں قید ہیں
خیر یہ تو تھی ضمنی سی حسابی باتیں
اصل بات بتاتی ہوں دنیا کے کامیاب ترین انسانوں کی مشترکہ عادات پر جب تحقیق کی گئی تو پتا ہے سب میں ٹاپ فائیو کامن عادتوں میں ایک کونسی تھی؟؟ ارے یہ ہی موئی کتاب، کتاب دوستی اس سے محبت
تو مختصر کہوں تو اپنے بچپن کی ایک نظم یاد آرہی ہے کہ
کتابیں باتیں کرتی ہیں، ہمیں انساں بنانے کی
کبھی اگلے زمانے کبھی پچھلے زمانے کی
مجھے اس بات کو ختم کرنا نہیں آرہا۔یعنی کتاب پڑھنے پر بھی دلیلں منطقیں اور فلسفے بگھارنا پڑیں گے..اففف کیسے کیسے دوست پائے ہیں ہم نے

Saturday 29 October 2016

کیمیائی تبدیلی


سنا ہوگا یہ اکثر
کوئلے کی کانوں میں
ہیرے بنتے رہتے ہیں.
صدیوں سے دفن مادے کی.
کوئی کیمیائی تبدیلی
قسمت بدل دیتی ہے.
پڑے پڑے "کوئلہ"
"قیمتی" کہلاتا ہے.
زندگی کا ہر قصہ.
جگ سے نرالا ہے.
جیسے غم نے اسے
آغوش میں ہی پالا ہے.
زندگی کی کانوں میں 
ہیرے سے موتی لوگ
کوئلہ ہی بنتے ہیں.
صورتیں ان ہیروں کی
روز روز ڈھلتی ہیں
نئے نئے نقش اور
نئی نئی لکیریں بھی.
چہرے بناتی ہیں.
لکیریں آہستہ آہستہ
نقش کھا جاتی ہیں.
جب قسمت کی لکیریں
ہتھیلی سے گرتی ہے.
تو چہرے پہ انمٹ لکیروں
انگنت نشانوں کا جال بنا جاتی ہے.

Tuesday 25 October 2016

محبت بھی ڈوب کر روپ بدلتی ہے




یاد ہے تمہیں
اکتوبر کا سورج ڈوبتے دیکھا تھا.
اپنی ہتھیلی پر تمہاری لکیریں چرا کر
میں نے حرفِ وصل لکھا تھا.
سنہری کرنوں سے مٹھی بھر کے.
میں نے جدائی رخصت کرڈالی تھی.
سورج ڈوبا تو چندا ابھرا تھا.
تم نے بھی یہ ہی کہا تھا
محبت بھی ڈوب کر روپ بدلتی ہے
کبھی سورج تو کبھی چندا کے سانچے میں ڈھلتی ہے.
اور میں ہنس دی تھی
تمہاری تشریحوں پر
شاعرانہ تفسیروں پر
ہاتھوں کی لکیروں پر.
محبت والوں کی تقدیروں پر.
تم بھی ہنسے ہوگے
ٹھوکر سے ساحل کی ریت بھی اڑائی ہوگی
اور دور کہیں آسمانوں پر
تقدیر بھی ہنسی ہوگی.
میری خوش گمانی پر.
محبت کی کہانی پر
میری مٹھی میں بند سنہری کرنوں
کے ہونے پر .
کیونکہ!
تم اور تقدیر
دونوں
"عقل"والے تھے.
اور میں عشق کے کلمے کی مجرم تھی
محبت کے گیت گا بیٹھی 
مجھے معلوم ہی نہ تھا
عشق تو جدائیوں سے تعبیر ہوتا ہے.
محبت کا وصل تو ہجر کی تفسیر ہوتا ہے.
مجھے معلوم ہی نہ تھا کہ تم
میری مٹھی میں بند ریت کی مانند
زرہ زرہ سرک جاؤ گے.
میں بیٹھی دیکھتی ہی رہی
اور کرنوں کا رنگ سنہری.
کوئلے سا کالا ہو گیا.
سنو میں اب بھی اپنی ہتھیلی سے 
جدائی کھرچتی رہتی ہوں.
سنو!
اب کے لوٹو تو
میری ہتھیلی لوٹا دینا
یا اپنی لکیریں لے جانا.