Pages

Wednesday 29 June 2016

واحد سہارا


درد کی شدت میں وه شفاء کی امید بن کر اترا
بے بسی میں، میں نے اسے اختیار کی صورت پہچانا
جب دل کی وحشت نے ھر رگِ جاں سے دشمنی مول لینا چاھی.....جب دوا اور دعا کے معنی و مفھوم بھی ایک ھو گے تو....قبولیت کی گھڑی کا اکلوتا مالک
میرے درد کو جاننے والا
وه میرا رب مہربان ھوگیا....اس نے مشکل کو آسانی میں بدلا

سحرش

سوال اٹھائیے


گو کہ خاتون کہ ساتھ اختلافات کی یا اتفاقات کی کوئی صورت ہی نہیں. مجرم چاہے کتنا ہی حسین ہو اس کو سزا دینے کہ قائل ہیں ہم.

لیکن کیا کیا جائے، عادت سے مجبور بھی ہیں ۔
خاتون مجرم ہی سہی لیکن بات انہوں نے سولہ آنے سچ کہی ہے جو ہماری پولیٹیکل ایلیٹ کہ منہ پر چپیڑ تو ہے ہی ساتھ ہی ساتھ "شیر پٹواریوں" کو اوقات بھی یاد دلاتی ہے.

خاتون کہتی ہیں "لڑکی کو روکنے سے کوئی ہیرو نہیں بن جاتا چوہدری نثار میں اگر ہمت ہے  یاتھی تو مشرف کو روک کہ دکھاتے" 
تو صاحب آپ لوگوں کے ازلی دشمن کی گڈ بکس والی ذلیل کر گئی ہے، اس کو جواب دیجیے.
اور جہاں آپ لوگوں کے پر جلتے ہیں وہاں سوال اٹھائیے.
ایان کے ساتھ ساتھ مشرف کو بھی سزا دیجیے
نہیں تو نکالتے رہیے فوج کو گالیاں گو کہ اس سے بھی کوئی ہیرو نہیں بن جاتا

Monday 27 June 2016

‏ساڈے جنگل بن گئے شہر‬


وہ جولائی کا ایک لمبا دن تھا۔ حبس زدہ دوپہر کے بعد قدرے پرسکون سبز سی سپہر تھی۔ ہوا میں نمی کا بھلا سا تاثر تھا۔اپنے اندر کی بے چینی و حبس سے گھبرا کر اس نے جوگرز پہنے اور واک کرنے نکل پڑی۔پارک میں حسب معول چہل پہل تھی۔ باسکٹ بال کھیلتے بچے، وزن کم کرنے کی خاطر پارک میں آئی ٹھیلے والے سے پاپڑی چاٹ کھاتی خواتین اور اکا دکا مرد حضرات سب پر ایک اچٹتی نظر ڈالے قدرے پرسکون گوشے میں چلی آئی۔ پچھلے کچھ دنوں میں پیش آنے والے واقعات، رشتےداروں، دوستوں کی باتیں، دعوے، بے حسی اور ساری ناپسندیدہ باتیں سوچتی ہوئی وہ اسقدر محو تھی کہ اسے کسی کی موجودگی کا احساس بھی نہ ہوا۔جب سنہری فریم والی عینک والے سوبر سے مرد نے کھنکار کر پوچھا آر یو اوکے لٹل گرل؟؟ اور جواب سننے سے پہلے ہی بینچ کے دوسرے سرے پر بیٹھ گیا۔لڑکی نے ناگوار سی نگاہ اس پر ڈالی اور دوبارہ اپنے شغل میں مبتلا ہو گئی
آج ڈاگ کو ساتھ نہیں لائیں کیا نام ہے اس کا؟؟ کونسی بریڈ ہےبھلا؟ 
شٹزو لڑکی نے یک لفظی جواب دیا۔ہاں شٹزو میرے بیٹے کو بھی پسند تھا! 
تھا کیوں؟ ؟ اب نہیں ہے کیا؟ لڑکی نے بے ساختہ پوچھا؟
نہیں! یک لفظی جواب
اچھا تو آپ آج اداس لگ رہی ہیں کوئی خاص وجہ
امیں اداس نہیں، پریشان ہوں۔ لڑکی نے ناراض تاثرات سے سے دیکھتے ہوئے بتایا
وہ کیوں بھلا؟ اس نے مسکراہٹ چھپاتے ہوئے پوچھا؟؟
اور لڑکی شائد اسی کی منتطر تھی گویا پھٹ پڑی کیوں کہ میری زندگی میں بہت سے مسئلے ہیں۔ میرے اردگرد  لوگ بےحس ہیں 
اور خود غرض لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے میرا۔ اس لیے
بس؟؟؟ اس نے پر سکون لہجے میں استفسار کیا..؟؟
جی لڑکی کا ناراض لہجے میں آئے ہوئے جواب نے اسے مسکرانے پر مجبور کر دیا
پھر یک لخت اس کی مسکراہٹ ساکت ہوگئی۔جیسے جولائی کی بارش ہوتی ہے۔ بارش زوروں سے برس رہی ہوتی ہے اور اگلے پل سورج نکل آتا ہے۔ چلچلاتی دھوپ والا سورج۔ اس کے چہرے پر بھی دوپہروں کا سورج اگ آیا تھا سخت، اور جلا دینے والا
لڑکی درد کے اس کی آنکھ سے، لہجے تک کہ سفر کو حیرت سے دیکھتی رہی
بظاہر پرسکون، رواں گفتگو کرتا، وہ زندگی گزارتا ہوا دیکھائی دیتا تھا۔ مگر اس کی الجھی ہوئی آنکھوں میں تہذیب و شائستگی سے آشناء کوئی سلجھا ہوا درد ٹہرا تھا۔ جو اس کی آنکھ اور پانی کے درمیان حد فاضل قائم کیے ہوئے تھا۔اس کو ایک نظر دیکھنے سے معلوم پڑتا تھا جیسے کوہ گراں ہو۔یہ شخص کبھی نہ رویا ہوگا ۔ اس نے کبھی آنسوؤں کو پاس پھٹکنے نہیں دیا ہوگا۔لیکن جب وہ بولا تو لہجے میں نمی نے بتایا کہ یہ روز ذائقہ چکھتا ہوگا آنسوؤں کا___ روز کسی درد کے دوزخ میں جلتا ہوگا
میں بتاؤں تکلیف کسے کہتے ہیں؟ درد کیا ہوتا ہے؟ اس نے ٹراؤزرز کی جیب میں سے والٹ نکالا اور تصویر دیکھاتے ہوئے بتایا یہ میری فیملی ہے
تین سال کی بیٹی، ایک سالہ بیٹا اور یہ میری وائف..آئی بی اے کی گریجوائٹ اکھٹے پڑھتے تھے وہاں ہم.محبت کی شادی کی تھی۔بہت سے خواب ساتھ دیکھے تھے جنہیں تعبیر دینےکی خاطر دن رات کام کرتے تھے ہم__ پھر؟
پھر پتا ہے کیا ہوا؟؟ 
شہر کہ حالات خراب ہوگئے میری بیوی بچوں کو ڈے کئیر سینٹر سے لیتے ہوئے سڑک پر گولیوں سے بھون دا گیا۔پتا ہے تمہیں میرے بیٹے کو بھی گولی لگی تھی۔ایک سال کا دہشت گرد دنیا کا سب سے چھوٹا دہشت گرد۔ میری بیوی کے منہ پر گولیاں ماری تھیں ظالموں نے۔ نہیں ظالم چھوٹا لفظ ہے بربر ٹھیک رہے گا شائد
اور جب تک مجھے خبر ملی میری دنیا لٹ چکی تھی
تمہیں پتا ہے جب میں وہاں پہنچا تو میں نے کیا دیکھا؟؟
میری بیٹی کے دل پر گولی کا سوراخ تھا...وہ دل جہاں میں رہتا تھا۔اور میں اس دن مر گیا،زندہ رہنے کے لیے
بتاؤ چھوٹی لڑکی کس کو الزام دوں؟ نامعلوم افراد کو؟ سیاست کو؟ حکومت کو؟ ریاست کو یا پھر ان سب کو جنہوں نے سوشل میڈیا پر قاتلوں کو غازی لکھا تھا۔ان کی شان میں قصیدے کہے تھے۔جن کے فکری دیوالیہ پن نے مجھے زندہ لاش بنا دیا تھا۔بتاؤ کون ہے میرا مجرم؟
بےحسی یا خود غرضی؟؟ مذہب کے ٹھیکدار یا سیاست کے؟
وہ سوال نہیں کر رہا تھا۔ لڑکی کی ذات کے خول میں نیزے کی انی چبھو رہا تھا۔ وہ درد بتا رہا تھاکہ تم سب ایک پوسٹ لگا کہ چار کامنٹ کر کے فارغ ہو جاتے ہیں اور کسی کے سینے پہ تین قبریں بن جاتی ہیں۔ جنہیں وہ اٹھائے اٹھائے پھرتا ہے۔ روز حشر ہمارا امتحان بننے کو
وہ درد کی یہ داستاں سنا کر بینچ سے اٹھ کر گیٹ پار کر گیا تھا۔
اور لڑکی بیٹھی سوچ رہی تھی کہ کبھی کبھی کوئی درد کوئی تکلیف انسان کہ اندر ایسے سرایت کر جاتی ہے۔ جیسے موم میں پرویا ہوا دھاگہ۔ انسان جل مرے تو سکون پائے رہائی کی اور کوئی صورت ممکن نہیں رہتی۔بس دھیرے دھیرے قطرہ قطرہ جلنا ہی مقدر ہوتا ہے۔ جلنا ہستی کھونا ۔مٹھی میں سے زرہ زرہ گرتی ہوئی ریت کی مانند اپنی ہستی کھوتے ہوئے اپنا وجود دیکھنا۔ یہ ہی مقصد حیات رہ جاتا ہے
لڑکی نے گیٹ سے نکلتے ہوئے اس کی پشت دیکھی اور سوچنے لگی کاش میں اس سے اس کا فرقہ بھی پوچھ لیتی۔ کیا پتا قاتلوں کو مجھے بھی غازی لکھنا پڑ جاتا
سحرش

عورت اور عزت


مجھے کسی مکالمے کا فریق یا کسی بحث کا حصہ نھیں بننا....نا ھی مجھے کسی کی وکالت کرنی ھے

ھاں ایک جملے کی وضاحت درکار ھے....مجھے
وه کہتے ھیں عورت کو پیدائشی عزت ملی ھے اور وه اس کی قدر نہیں کرتی
جی بجا فرمایا......پیدا تو رحمت ھی ھوتی ھے یہ عورت... پر آسمان سے زمیں تک کا درمیانی فاصلہ پاٹتے.....یہ کہیں اپنی خصوصیت پر "نکتہ" ڈالوا لیتی ھے.....پھر تمام عمر اسی ایک نکتے کے گرد گھوم گھوم کے سانس لینے کے جرم کی سزا بھگتتی رھتی ھے
آپ کہتے ھیں تو پھر ٹھیک ھی کہتے ھوں گے.....میری جنس کو عزت نہ سنبھالنی آئی ھو گی ابھی.....پر مجھے بھی تو بتایے کو نسی عزت
یہ وه معاشره ھے جہان لڑکی کی پیدائش پر ......لوگ خدا کا عرش ہلا دیتے ھیں....دو عورتوں کے سر سے سائبان چھین لیتے ھیں... جہاں ذھین لڑکی کے مقابلے میں نالائق لڑکے کو پڑھانا زیاده افضل عمل گردانا جاتا.....جہاں....یا تو پیدا ھونے کا حق ھی نھیں دیا جاتا یا پھر پیدائش کے بعد ھر حق سے محروم کر دیا جاتا ھے.....کونسے حق کی بات کروں؟؟؟ کونسا دکھڑا رھنے دوں؟؟؟؟
تعلیم کا حق
اپنی آزادی رائے کا حق 
ووٹ کا حق...پسند نا پسند کا حق
زندگی کا ساتھی چننے کا حق
حق مہر کا قصہ چھیڑوں یا جائیداد میں حصہ کا.....)کہنے کو مسلمان ہیں ھم سب)
خیر صاحب یہ وه معاشره ھے جہاں ھر سال ٣٠٠٠٠ تیس ہزار بچیوں سے پیدا ھونے کا  حق چھین لیا جاتا ھے....٩٠٠٠٠ نوے ھزار کو پیدا ھوتے یا تو مار دیا جاتا ھے یہ وه دوا نہ دلانے کے قابل سمجھے جانے والے رویے کی بھینٹ چڑھ جاتی ھیں
پھر آتا ھے سکول جس کا ذکر اوپر ھے....٥٢٪ میں سے ٩٪ نو فیصد جا پا تی ھیں کالج اور دو فیصد یونیورسٹی
کام کرنے والی ٨٠ فیصد خواتین...اس "عزت" کا شکار ھوتی ھیں جو یه معاشره انھیں دیتا ھے
ھر سال پندره سے بیس ھزار کا چولھا پھٹ جاتا ھے....تیزاب گرا دیا جاتا ھے...یا "صاف" کرتے ہوئے پستول چل جاتا ہے
٣،٣ سال کی بچی باپ کے چوتھے یا پانچھوے بیاه یا بھائی کے عشق کی خاطر ونی کر دی جاتی ھے.....کاری ھوتی ھے تو یہ ھی بےچاری
مرد مومن مرد حق کی رجم کی سزا کی مستحق بھی یہ ھی ھوتی ھے جیل خانہجات کے اعدادوشمار دیکھے
کوئی جہیز نہ لانے کے جرم میں ماری جاتی ھے تو کوئی بیٹی پیدا کرنے کی پاداش میں....کسی کو خاوند کا پھلا عشق لے ڈوبتا ھے تو کسی کی گرفت "رنگ" پر کی جاتی ھے
پھر بھی الزام ھے "عزت" کا
واه......ہائے رے تیری عزت .....تو میری جنس کے کسی کام نہ آئی
سحرش

Thursday 23 June 2016

تھر کا درد


کاش کسی صدیق( رضی اللہ عنہ) کے عہد میں جی رھے ھوتے آج مزدور کے ساتھ کھڑے ھوتے۔۔۔

کوئی فاروق ھوتا.....سزائیں معطل کردیتا وه.....اور آزمائش کو اپنے لوگوں تک آنے سے پہلے ختم کردیتا۔۔۔
کوئی غنی ھوتا اونٹ کی مہار پکڑتا اور کہتا سب سے بڑے تاجر سے تجارت کروں گا۔۔۔۔
حیدر کرار ھوتا.....آزمائش ختم کرنے کی مقبول۔۔۔ دعاکرتا.......کوئی ابن عزیز.....ھوتا......اپنے چراغ کی لو مدھم کر دیتا که بستی میں اندھیرا ھے۔۔۔۔۔
کوئی قاسم کا پسر ھوتا.....میں بے ساختہ پکار اٹھتی اسے
کوئی طارق میری قوم کے لیے بھی کشتیاں جلاتا........یہ سب نہیں تو



وارث شاه ھی ھوتا .....درد کا کوئی نیا قصہ لکھتا۔۔۔۔
امرتا پریتم ھوتی آج لاشوں کا پرسا دیتی۔۔۔۔

Sunday 19 June 2016

Fathers Day


ہمارا شمار ان بیٹیوں میں ہوتا ہے جن کے متعلق مائیں صبح شام گفتگو کرتی ہیں کہ "پّیو نے وگاڑیا اے میرے وس ہوئے تے دو منٹ ایچ سیدھا کر دیواں" 

وہ الگ بات کہ ابا کہ ہوتے ہوئے وہ دو منٹ کبھی نہ آ پائیں گے.اماں جب کبھی سول گورنمنٹ کی طرح ہماری کسی شرارت کی یا تخریب کاری کی شکائیت ابا کو لگاتیں تو ابا ایجنسیوں ہی کی مانند نہایت اطمنان سے ریڈنگ گلاسسز کہ اوپر سے جھانکتے ہوئے کہتے ٹھیک ہو جائے گی.
اور اماں کہتی اے نہیں جے ہوندی فیر.
اور ہمارا سارا بچپن اسی کشمکش میں گزرا کہ اماں کو صحیح ثابت کیا جائے یا ابا کو___ پھر یہ سوچتے ہوئے کہ ابا تو اپنے جگر ہیں اماں کو صحیح ثابت کر دیتے ہیں برا نہ لگ جائے انہیں. اور یوں اب ہم بگاڑ کی ناقابل اصلاح سٹیج تک ابا کہ خصوصی تعاون سے بخیرو عافیت پہنچ گئے.
تعاون کی نوعیت کچھ یوں رہی کہ ہماری پیدائش سے پہلے ابا خاندان کے سارے بچوں کی ڈسپلن و امور بستی کہ ماہر سمجھے جاتے تھے.
خاندان کہ سارے بچے ابا سے ڈرنے کا فریضہ نہائت جانفشانی سے سر انجام دیا کرتے تھے جس سے گو کہ ماؤں میں اضطراب پایا جاتا تھا لیکن اندروں اندر وہ خوش بھی تھیں.
خوشی کے اس موسم میں پیلا کنکر چودہ فروری کی صبح صبح ہم نے گرایا..
بڑی بڑی سے تھوڑی چھوٹی آنکھیں کھولیں اور معصومیت سے پٹ پٹا کر اپنی آمد کا ثبوت دیا اور ڈر والےکہ آگے جیت ہے کوـاپبا ماٹو بتا دیا 
گو کہ ڈاکٹر نے ہمیں انکیوبیٹر میں رکھنے کا مشورہ دے کر گھر والوں کو ڈرانے کی حتی الاامکان کوشش کی لیکن وہ ہم ہی کیا جو ڈر جائیں کسی سازش سے ہم نے بھی جب اگلے دن گلا پھاڑ پھاڑ رو کہ پورا کلینک سر پہ اٹھا لیا تو ڈاکٹر نرسیں ہاتھ جوڑ سراپا التجا ہو گئے کہ اپنی کڑی نو کار لے جاؤ..
اور وہ دن اور آج کا دن کوئی ہمیں انڈر ایسٹیمٹ نہ کر سکا.
جب بچے ماؤں کی گود میں دبک کر کل دنیا مافہیا سے بے پرواہ ہو کے سوتے تھے ہم ابا کے بازو پہ سر رکھ کے سوتے تھے.
جب امیاں اپنے ہاتھوں پہ نوالے ٹھنڈے کر کر کہ بچوں کہ منہ میں ڈالتی ہیں ہم اس عمر میں ابا کی پلیٹ سے کھانا کھاتے تھے.
جب سکول سے واپسی پر دن بھر کی کہانیاں امی کو سنانا روٹین ہوتی ہے ہم ابا کہ منتظر ہوتے کہ کب میسر ہوں اور ہم بتائیں آج اس کو مارا اس کو پھینٹا.
ایک کزن کی خطرناک پھینٹی کے بعد جب اماں نے ہمارا سوشل بائیکاٹ کرانے کی کوشش کی تو وہ ابا ہی تھے جنہوں نے ان ساری پابندیوں کو چیلنج کردیا.
الغرض پورا بچپن اور آدھا لڑکپن( آدھا ابھی باقی ہے) 
ابا امی کہ سامنے اور پورے خاندان کے سامنے ہماری ڈھال بنے رہے ہماری پھپھو تائی چاچی بس دانت کچکچا کہ رہ جاتیں جب ہم ان کہ لعل کو لال کرتے اور خودابا کی گود میں سیاسی پناہ لے لیتے..
سائیکل چلانے سے کیرم کھیلنے تک اور بیڈ منٹن سے لڈو میں روند بولنے تک ہر شئے ابا سے سیکھی.
ابا کے بعد فیملی میں ہم وہ واحد ہیں جو لڈو اور کیرم میں کبھی نہیں ہارے..کیونکہ یہ گر بھی ابا نے سیکھایا کہ جب بھی ہارنے لگو رٹا ڈال لو
جوں جوں بڑے ہوتے گئے ابا کہ ساتھ تعلق مزیدار ہوتا گیا پہلے سائیکل لڈو کیرم کھیلا کرتے تھے پھر ابا نے میری اور میں نے ان کی کتابیں بھی پڑھنا شروع کر دئیں تاریخ، مذہب اور سیاست اباسے میں نے اور ادب شاعری اور فلسفہ ابا نے مجھ سے لے لیں. یوں اماں نے ہم پر بلکل ہی فاتح پڑھ لی.
ابا کہ ساتھ تعلقات میں ہماری شرطوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے.میں اور ابا اماں کہ فتوے شرط حرام ہے کہ باوجود روزانہ کی بنیاد پر ایک آدھی شرط لگاتے ہیں اب اپنے منہ یہ بتاتی کہ کیا خاک اچھی لگوں گی کہ میرا جیتنے کا ریشو نائنٹی ایٹ پرسنٹ ہے.. اور ابا کا ہر بار کا چیلنج کہ "آنے" اس بار تو پکا ہارا..
اور آنا ہمیشہ جیت کہ کہتی نہ ابو جی آپ کو شرطوں پر مزید محنت درکار ہے.اور اماں اس جملے پر ہمیشہ انگشت بدنداں کہ باپ ہے وہ تمہارا...
اور میں بھی ہمیشہ کہتی ہوں امی ابا ہیں اسی لیے تو اور دیکھا ہے کبھی کسی کہ ساتھ ایسا فرینک رویہ؟؟
کیونکہ جب باپ بیٹیوں کو کانفیڈینس دیتے ہیں تو پھر باہر انہیں کسی خاص تعلق کی حاجت نہیں رہتی. 
ابا آپکی بیٹی آپکی آنے آپکو حشر کی صبح بھی دائم دیکھنا چاہتی ہے..
سحرش

Saturday 18 June 2016

خیال اور سوال


وہ ایک لمحہ سوال کا

سوال میرے خیال کا
خیال اس کے جمال کا
جمال بھی، "لازوال" کا
میں پوچھ بیٹھی 
دعا بھی قبول کرتے ہو کبھی کسی کی؟
کبھی جو تم نے ملائے ہوں؟
ٹوٹے دل اور شکستہ روحیں
ناراض چہرے اداس لہجے
ہوں لوگ میرے ناکام جیسے
غم کی گہری ہوں شام جیسے
لہجے بھیگے آنکھ نم ہے 
بچے بستیوں میں ہنستے کم ہیں
مائیں بھی لوریاں سناتی نہیں ہیں
باپ کندھے جھکائے گم ہیں
کسی الجھن کی تال میں
کسی گہرے ملال میں
زندگی کے اس جال میں
سوال پوچھا__ یہ بندا تیرا
کیوں ہے ایسے ہی حال میں
تو تو منصف ہے تو کریم
تو تو رب ہے تو رحیم
معاف کرتا ہے فرعونوں کو بھی
پھر یہ میرے لوگ،یہ تیرے بندے
یہ میری بستی، اور تیری ہستی
تخیلوں کہ سوال سارے
جواب پا گئے جو پڑھ کہ دیکھا
"لا تقنطو" کا پہلا کلمہ
مالک ہے وہ یوم الدین کا
یہ دیکھا اور قرار پایا
کسی نے چپکے سے جی میں ڈالا
کہ دعا جو قبول کرتا نہیں ہے
حشر میں میزان میں رکھ دے گا
جیسے ماں ڈانٹے چیز چھینے
بعد میں وہ تکیے میں رکھے
جو دل ہیں ٹوٹے عزیز اس کو
شکستہ روحیں قریب اس کے
منصف بھی بلا کا تاجر بھی
ان مع العسر یسرا___ یہ کہہ کہ راحت جو دل کو بخشی
ذرا سا صبر، اور میری رفاقت
یہ سب جو دیکھا
بھول بیٹھی سوال اپنے خیال جیسا
رہا خیال تو بس__ اس کے جمال
جمالِ لا زوال جیسا
سحرش

دعا


تم
تم کیا مانگو گی

میں.....ھاں میں
چشم تر مانگوں گی....درد دل مانگوں گی....میں اپنے لوگوں کے لیے سوزجگر مانگوں گی....حسن نظر مانگوں گی..... روح مضطر کے لیے گوشہ عافیت مانگوں گی...... دل بیمار کی پیوند کاری کو عشق کا مرھم مانگوں گی
میں مانگوں گی کہ کسی کا دست دعا مایوس نہ لوٹے
اور مانگوں گی کہ جب تم دعا کیے لیے ھاتھ اٹھاؤ تو قبولیت کا پل ھو...میں کہوں گی اسے اب کے زمیں پر آگ نہ برسے
اور
میں.....نفع ونقصان سے ماورا....سود و زیاں سے بلند وه ایک خالص لمحہ مانگوں گی وه جو ادراک کا لمحہ ھو....وه جو حاصل ھو اس لا حاصل کا
ھاں آخر میں کھیں....ایک خود غرض سا جملہ....."جتانا" ھے میں نے اسے
ھاں گستاخی کے دو لفظ......وه یہ کے
می دانم.....ھاں می دانم

تشدد یہ بھی ہے


بھائی پاؤڈر پنک کلر میں پلین لان دکھانا
نہیں بھائی، یہ تو کینڈی پنک ھے.....پاؤڈر پنک دکھائیں۔ پاؤڈر وه جو جانسن بے بی پاؤڈر کے ڈبے کا رنگ نہیں ھوتا وه
اچھا پنک کے صرف یہ شیڈز ھیں....بس یہ ھی، ٹی پنک، شاکنگ پنک وغیره

آپ کے پاس نہ ہی پاؤڈر پنک۔ ھے نہ ہی روز پنک۔یہ ہی پانچ چھ پرانے شیڈز رکھے ہوئے ہیں
بھائی میں نے تمھیں کہا تھا۔ ملٹی ڈائی کرنا میرا دوپٹہ۔ تم نے تو میرے دوپٹے پہ متنجن کی دیگ ہی پکا دی ھے
 حد ہوتی ھے۔۔اتنا برے کلرز۔۔یہ اورنج کلر دیکھو۔۔کہا بھی تھا رسٹ اورنج کرنا۔ تم نے تو پکڑ کر مالٹا رنگ ہی کر دیا ہے۔۔سارا میرا پیور کا دوپٹہ خراب کردیا ھے۔۔اب میں کھڈی کی شرٹ کے ساتھ یہ دوپٹہ لیتی اچھی لگوں گی
یہ لو نیا دوپٹہ۔ سنگل ڈائی کر دینا فیروزه میرون کلر میں۔اور پلؤؤں پر چار انچ کا بارڈر بنانا ایمریلڈ گرین کلر کا۔۔اور اب میرا دوپٹہ خراب نہیں ہونا چاہیئے
وه والا سوٹ دکھائیں۔۔ رائل بلیو والا۔۔ وه جو زنک کے اوپر پڑا ھوا ھے۔۔ارے بھائی نیوی بلیو کے نیچے۔۔۔چچ۔۔وه جو الیکٹرک بلیو کہ ساتھ پڑا ھوا ھے۔۔۔۔آئےہائے بھائی۔۔سکائی بلیو کے ساتھ والا ۔۔جی یہ۔۔کوئی اور بلیو میں نہیں ہے ان کے علاوه؟؟؟
اچھا۔۔تو پھر گرین کلر میں دکھا دیں۔۔نئیں باٹل گرین میں۔۔سی گرین نہیں ھے؟؟؟ وه جو کدو سا رنگ ھوتا وه؟؟؟
اچھا بھائی۔۔ وه سپرے گرین اور فالسہ کامبینیشن والا ڈریس دکھانا۔۔ہاں یہی
انکل میں نے سپیشل فون پر آپ سے کھا بھی تھا کہ جو اورنجش پیچ ہے۔ اس کا چوڑی پائجامہ سینا ہے اور جو برائٹ پیچ ھے اس کی سیگرٹ پینٹ بنانی ہے۔ یہ کیا؟۔۔آپ نے الٹ کردیا ہے۔۔۔اب کیا میں لانگ شرٹ کے ساتھ سیگرئٹ پینٹ اور شارٹ شرٹ کے ساتھ چوڑی پاجامہ پہنوں گی۔۔حد ہوتی ھے۔۔ دو میرے سوٹ خراب کر دیے ہیں۔۔سپیشل فون بھی میں نے اسی لیے کیا تھا ۔ آپ کو۔۔پر آپ۔۔اچھا۔۔ اب سلور گرے مت خراب کیجئے گا.....اور نہ ہی اوف وائٹ اور بیج کو منگل کرئیے گا۔۔



عورتوں کی مردوں پر روا رکھی جانے والی رنگین زیادتیاں


Tuesday 14 June 2016

وہ ایک لفظ


کوئی لفظ ہو__جو کہا کروں

جو کہوں تو حق پھر ادا ہو.
جو مالکِ عرش کی عطا ہو
جو نہ زندگی سے جدا ہو.
جو درد عشق کا صلہ ہو.
فسوں میں اپنے،جال سا.
وارفتگی میں کمال سا
نہ ہو جو زندگی کہ وبال سا.
تاثیر میں جلال ہو
جسے نہ کہوں تو ملال ہو.
سرمئی ہو کسی شام سا
لب پہ دلربا سے نام سا.
وہ جو میں کہوں تو قبول ہو
اس کہ پاس پہنچے،مقبول ہو.
مجھے فخر اس پہ ہوا کرئے
میں ٹہر ٹہر کے پڑھؤں اسے
میری تشنگی میں کمی نہ ہو
میرا جی کبھی نہ بھرا کرے.
وہ لفظ عاشق کے"حال"سا
وہ لفظ شکاری کے جال سا
وہ لفظ گہرےملال سا
وہ لفظ رب کہ جلال سا.
وہ لفظ بے بس کی آہ سا
وہ لفظ عاجز، دعا سا.
بس ایسا کوئی لفظ ہو..
اور میرے قلم سے ادا ہو.
وہ لفظ عاجز صدا سا
وہ لفظ مفلس ندا سا
وہ لفظ،صحرا میں ٹہری ہوا سا
وہ لفظ لفظوں میں "ماں" سا.
محبت کی اِتراتی ادا سا
محب کے دل کی ردا سا
وارث کے شعروں میں آہ سا
سوہنی کی بہکی ادا سا.
وہ لفظ اک نیا سا
جسے میں کہوں
اور وہ سنا کرے.
سحرش

Sunday 12 June 2016

تاوان


پتا ہے جاگتے رہنے کہ عذابوں میں سب سے بڑاعذاب کیا ہے_____خواب

جو بلا اجازت نتائج سے یکسر بے پرواہ یکطرفہ محبت کی طرح آنکھوں میں آ گھستے ہیں...سونا تو پہلے ہی بس میں نہیں ہوتا اب جاگتے رہنے کا بھی تاوان بھرنا پڑتا ہے

ہم بھی گویا کسی ساز کہ تار ہیں
سحرش

خوبصورتی


جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ زیادہ سی ہڈیوں پر تھوڑا سا گوشت اور چھلکے جیسی ایپی ڈرمس خوبصورتی کی علامت ہوتی ہے 

تو
یقین کیجیے اس حساب سے
ملوک اور لوکاٹ آپ سے کہیں زیادہ خوبصورت ہیں

سہارا


درد کی شدت میں وه شفاء کی امید بن کر اترا ...بے بسی میں میں نے اسے اختیار کی سورت پهچانا....جب دل کی وحشت نے ھر رگے جاں سے دشمنی مول لینا چاھی.....جب دوا اور دعا کے معنی و مفھوم بھی ایک ھو گے تو....قبولیت کی گھڑی کا اکلوتا مالک.....میرے درد کو جاننے والا....وه میرا رب مھربان ھوگیا....اس نے مشکل کو آسانی میں بدلا....

سحرش..

تیری یاد


دل کے سونے آنگن میں

تیرے نام کا جو پیڑ تھا
اب وہ سوکھتا جاتا ہے
اب گھنگھور گھٹائیں جھوم کی آئیں 
یا ساون بھادوں ٹوٹ کہ برسیں
اس پر ہرا سا آخری پتا لرز لرز سا جاتا ہے
جیسے کوئی موم کا شعلہ 
سرد ہوا سے لڑتے لڑتے
آخری سانسیِں گنتا ہو
جیسے راہ کا پتھر
ٹھوکر کھائے 
اور گہری کسی ان دیکھی 
کھائی میں گر جائے
جیسے کسی صحرا کا مسافر
اپنی ہی آواز کہ سائے
ڈھونڈتا ڈھونڈتا مر جائے
لیکن
شعلہ بجھتے بجھتے
پتھر گرتے گرتے
اور "وہ" مرتے مرتے
تیری ذات کو کھوجے 
تیری بات کو سوچے
تیری خوشبو ڈھونڈے
تیری یاد پروسے
اور
مرجائے
سحرش

تعلق


دن میں مرکری اڑتالیس درجے پررہا تھا شام گو دوپہر سے جان لیوا نہ تھی مگر گرمی حبس اور گھٹن میں بدل چکی تھی.

پانی کا جگ میرے سامنے پڑا تھا سولہ گھنٹوں کی آزمائش ہونٹوں پر صدیوں کی پیاس بن کر جم چکی تھی. حاصل میسر موجود ہر نعمت کہ باوجود ہاتھ کسی ان دیکھے ازن کہ انتظار میں ٹہرے ہوئے تھے جیسے صبح صادق سے پہلے آسمان ہوتا ہے سورج کی کرنیں پھیل چکی ہوتی ہیں لیکن اسے نکلنے کا ازن ملنا ابھی باقی ہوتا ہے.
بلکل ایسے ہی اجازت کہ منتظر نگاہیں جب پھیلی ہوئی ہتھیلیوں پر مرکوز ہوئیں تو دل نے صرف ایک ہی صدا لگائی آزمائش کہ مقبول ہوجانے کی پورا اتر پانے کی.
مجھے ہمیشہ سے لگتا ہے کہ ہم تعلق کہ کمزور ترین درجے پر فائز ہیں سوال بھی بہت کرتے ہیں بعض اوقات الجھ بھی جاتے ہیں لیکن پچھلے دو دنوں کے مغرب کی اذان سے پہلے کی دس منٹس نے مجھے سمجھایا ہے کہ ابھی اس میں ہم میں ربط باقی ہے..ابھی تعلق مردہ نہیں ہوا بوجھ نہیں بنا ابھی بھی حد ماننے کا تصور زندہ ہے
اور آخری بات کہ وہ تو ہے جو ہمیں پانی رکھتے جام شیریں بناتے ہوے برف نکالتے کنٹینر میں شفٹ کرتے ہوئے روکے رکھتا ہے وگرنہ اس وقت پیاس کی شدت میں تیرے علاوہ تو کسی اختیار کو نہ مانے تیرا بندا
سحرش

آنٹیاں


ویسے  یہ آج کی ڈیجیٹل آنٹیاں بھی نا ۔ذرا جو ان میں صبر تحمل یا برداشت پائی جاتی ہو۔ایک منٹ سے پہلے لڑنے مرنے پہ تیار ہو جاتی ہیں۔ اور پھر الزام نئی نسل پہ عدم برداشت کا۔
ابھی کل کی بات ہے۔ ایک آنٹی افراط زر اور ملاوٹ پر گفتگو فرما رہی تھیں۔ جب ماحول خوب گرما چکیں تو کہنے لگیں ہم تو بازار سے زہر بھی خرید کر دیکھ چکے ہوں وہ بھی اصلی نہیں ملا۔ہم نے یونہی ازراہ ہمدردی گندم میں رکھنے والی گولیاں استعمال کر نے کا مشورہ دیا تو برا مان گئیں۔.لو بھلا اس میں برا ماننے والی کیا بات ہے؟؟؟ مشورہ ہی دیا ہے نا...پر نہ جی برداشت ہو تب نا
کچھ دن قبل ایک آنٹی نے فوٹو لگا کہ جب ہمیں بتایا کہ ڈش میں بریانی ہے تو بے ساختہ کہہ بیٹھے کہ آنٹی آپ کہ چاولوں کو سردی لگ رہی ہے۔ جڑ جڑ کہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہیں کمبل اوڑھا دیں۔ تو بھیا ایسا برا منایا کہ ہمیں بلاک ہی کر چھوڑا
ایک آنٹی نے جب اورنج لپ سٹک میں چوتھی سیلفی پوسٹ کی تو ہم نے کمپنی کا نام اور شیڈ کا نمبر پوچھا۔ اترا کر کہنے لگیں۔۔ کاہے؟؟
ہم نے کہا کہ کمپنی کو ای میل کر کے میبو فیکچرنگ سے منع کرنا ہے۔وہ دن اور آج کا دن وہ ہمیں فیس بک پر دکھتی نہیں۔لگتا ہے اب ہمیں چشمے کا نمبر بدلوانا پڑے گا
ایک آنٹی نے تو حد کر دی اپنے منگیتر کے طوطے کے بچوں کی پیدائش پر فیلنگ بلیسڈ میں ہمیں ٹیگ کر چھوڑا۔ جب ہم نے پوچھا عقیقہ کب ہے؟ خیر سے منے کا۔ تو کہنے لگیں، اچھا مذاق نہیں۔ اب ان کو کون سمجھائے کہ وہ مذاق نہیں سوال تھا
ایک خاتون نے مہندی لگے ہاتھوں سے منہ چھپ کہ ڈی پی لگائی تو ہم پوچھا کیے کہ ایسا کیا کر بیٹھیں کہ منہ چھپانا پڑگیا۔بس ذرا سی بات پر عمر بھر کے یارانے گئے کہ مصداق ہم سے ناطہ توڑ لیا
ہم ویسے اکثر اس نکتے پر غور و فکر کرتے ہیں کہ لوگ ہمارے معصوم سوالوں پہ اوفینڈ کیوں کر جاتے ہیں۔پر آج تک سمجھ نہیں آیا
اب آپ ہی انصاف کیجیے۔ اسمیں کچھ اوفینسو ہے کیا؟



نوٹ: آنٹی سے مراد ایک خاص سوچ ہے.