Pages

Wednesday 8 February 2017

عورت کا کرب ۔۔۔ تفصیلی خبر




بہت دن ہوئے میں نے آئینہ نہیں دیکھا۔ اب تو خود سے نظریں چرا چرا کر تھک گئی ہوں۔ کتنا عجیب لگتا ہے جب  اپنے آپ سے بھی کچھ چھپانا پڑے۔ جب کسی بات کو آپ خود سے بھی بیان نہ کر سکیں۔ جیسے  اپنا آپ بھی محرم نہ رہا ہو۔ مجھے معلوم نہیں میرا تخیل تھا یا کوئی خواب، لیکن میں ایمبولینس کی سفاک خاموشی کا حصہ تھی۔ اس کا نام ؟۔۔۔۔ وہ عورت جو ایمبولینس کے اندر لیٹی تھی اس کا نام صائمہ تھا۔۔۔ یا پھر شائد سنبل تھا۔۔بے حسی میری یاداشت کھاتی جا رہی ہے۔ اس عورت کا نام مقدس تھا شائد ۔۔۔ یا پھر بے نام تھی وہ۔ عمر یہی کوئی چھ سال۔
جی ہاں ۔۔۔چھ سال، یا شاید اس سے بھی کم
جب اس عورت کو آئی سی یو میں شفٹ کیا جانے لگا تو میں نے دیکھا کہ اس کی کلائی ہاتھ کی گرفت سے پھسلی جا رہی تھی۔ کلائی پر نبض والی رگ کاٹنا چاہی ہوگی اس حاکم نے۔ عورت کو یوں بھی جینے کا حق کم ہوتا ہے۔ جب سٹریچر کے ساتھ ساتھ چلتے میں نے ڈاکٹر کا یہ جملہ سنا کہ خون کی بھی ضرورت پڑے گی تو مجھبے اچنبھا سا ہوا۔ اس بے جان لاشے کو خون لگائیں گے یہ ڈاکٹرز؟ وہ میری آنکھوں کی حیرانی ہی ہوگی جس کوپڑھ کر ڈاکٹر نے کہا کہ یہ زندہ ہے۔ کٹی گردن، کٹی کلائی، لٹی عزت، کھویا بچپن، خوف، بے چارگی، بے بسی، بے اختیاری کے ساتھ دس سے بارہ گھنٹے کچرے میں رہ کر کوئی عورت ہی زندہ رہ سکتی ہے۔ سخت جان، بے حس عورت
مجھے نہیں پتا یہ پڑھ کر آپ کیا تاثر لیں گے۔ مگر اس ایک جملے کے بعد میرا ہاتھ تھم گیا تھا ۔۔۔خدا جانے کتنے زمانوں کے بعد میرا ذہن ان سطروں کو لکھنے پر آمادہ ہوا ہے۔ پر کس قدر خود غرض ہوں نا میں۔ بات میرے تخیل پر آئی ہے تو مجھے درد کا احساس ہوا ہے۔ میرے لفظ،قطرہ قطرہ درد کشید کرتے، ذرہ ذرہ مرنے لگے ہیں تو میرا کرب جاگا ہے ۔ اس کے درد کا کیا؟؟ جو جانے کتنے زمانے درد کے جہنم میں گزار کر لوٹی تھی۔ اس زندگی کا کیا قصور تھا؟ کیا ہم سب اس سوال کے لیے جوابدہ نہیں ہیں؟ کیا ہم سدا یونہی درندگی کے جواز تراشتے رہیں گے؟
 کیا اب بھی ۔۔۔۔ اب بھی نہ جاگیں گے ہم؟ خدا جانے ان سوالوں کی بازگزشت میں کتنے برس لگیں گے ہمیں۔ خدا جانے درندگی کے مزید کتنے باب رقم ہوں گے اور کب ہم اس بات کو قبول کریں گے کہ ہمارے بچوں کو اب آگاہی دینا لازم ہے۔ آگاہی ۔۔
 سرجری ٹیبل پر لیٹے وجود نے سسکی لی تھی اور سرجن نے جھرجھری۔ میں نے گردن گھما کر سرجن کی طرف دیکھا تو پیرا میڈیکل سٹاف میں سے ایک شخص گویا ہوا پچھلے تین گھنٹے سے اس عورت کی سرجری جاری ہے۔ پرت در پرت اس کی جلد کو جوڑتے، ٹانکتے، مرمت کرتے، سرجن جب تھک کے کرسی پر بیٹھے تو کتنے زمانوں کی تھکن رقم تھی ان کی آنکھوں میں۔ جیسے وہ ہمت ہار گئے ہوں پرت در پرت بچپن جوڑتے ۔۔۔۔۔۔۔ بچپن بھی جڑا ہے کبھی؟؟ سائیکولجسٹس کہتے ہیں بچپن کا کوئی ناخوشگوار واقعہ تمام عمر ذہن پر نقش رہتا ہے۔ اور ہم کس قدر سفاکی سے کہہ دیتے ہیں چائلڈ ریپ وکٹم۔ نہیں، بچہ نہیں رہتا وہ فرد نہ ہی وکٹم۔ وہ جیتی جاگتی لاش بن جاتا ہے۔ چلتی پھرتی ممی ۔۔جی چاہتا ہے سارے آرکیالوجسٹس سے پوچھوں وہ اہرام میں کیا تلاش کرتے ہیں؟؟ کیمیکلز لگے بے جان لاشے؟ آئیں تو میں انہیں یہ چلتی پھرتی ممیز دکھاؤں۔ اپنی لاش کا بوجھ اٹھائے دن سے رات کرتے ہوئے وجود، جن کی آنکھوں کے رنج، اداسی کے سامنے ساری دنیا بھر کے درد چھوٹے نظر آنے لگتے ہیں۔
میرا جی چاہتا ہے یہاں وہ ساری تفصیلات لکھ دوں۔ تفصیلات___ کتنا حسابی کتابی سا لفظ ہے نا؟؟ نفع کا حساب، نقصان کی تفصیلات، تباہی کا چارٹ۔ مگر کیا کروں، جسمانی درد کی تفصیل اس کے نقصان کے شمار کو تفصیلات ہی کہوں گی۔ بڑی بے درد زبان ہے ہماری بھی۔ کوئی جان سے جاتا ہے تو کہہ دیتے ہیں انتقال فرما گیا ہے۔ لیکن یہ تو اچھا لفظ ہے اس جہانِ خراب سے جانا کوئی ایسا خسارہ بھی نہیں ہے۔ جی چاہتا ہے وہ سب لکھ دوں جو ریپ وکٹم بچے اپنی باقی زندگی میں سہتے رہتے ہیں۔ وہ سارے درد، سارے دکھ، ساری تکلیفیں لکھ دوں۔ جی چاہتا ہے کہ بتاؤں ۔۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ وہ بچیاں مائیں بننے سے انکاری ہو جاتی ہیں۔ پتا ہے عورت کے لیے ماں بننا کیا معنی رکھتا ہے؟ اور کوئی عورت ماں بننے سے انکار ہی کردے تو کوئی تو درد ہوگا نا جو حد سے گزرا ہوگا۔ ہوس کا کیسا انگارہ تھا جو کوکھ جلا کر خاکستر کر گیا؟ اور ہمارے چینلز پر تین وقت خبر چلتی ہے، بخار کی ٹیبلٹ کی طرح ۔۔۔۔۔۔ صبح، دوپہر، شام۔
سرجن نے بہہ چکے خون کا حساب لگا کر کلائی کا بازو سے ناتا بعد میں جوڑنے کا فیصلہ کیا اور شریانوں کو عارضی مرمت کے بعد پٹی میں قید کر دیا۔ نرس نے سرنج میں دوا کا محلول بھرا تو میرا دل حلق میں آ گیا۔ کیا اتنی لمبی سرنج گھسائے گی اس معصوم جان میں؟ اور کسی نے سوال در سوال پوچھا، اب تم سرنج کے چبھنے پر نوحہ خوانی کرو گی؟ سوال کے لہجے کی سفاکی نے میرے لفظوں سے مفہوم کھینچ لیا۔ کبھی کبھی ہم خود سے بھی بے رحمی کے ساتھ پیش آتے ہیں نا۔ جیسے خود سے بھی صلہ رحمی کا تعلق نہ رہا ہو۔ ویسا ہی بے رحمی کا تعلق تھا اس وقت۔ گلے پر پٹی باندھے، آنکھیں موندے، ہوش سے ورا، وہ ننھی جان ۔۔۔۔۔۔ خواب و خیال میں کسی تتلی کے پیچھے بھاگ رہی ہو گی۔ اور تتلی کے اڑ جانے پر انگلیوں پر لگے اس کے پروں کے رنگ دیکھتی ہو گی۔ اسے کیا معلوم کہ ہوش کی دنیا میں اب وہ خود رنگ اڑی تتلی کی مانند ہی جیئے گی۔ یہ سنگدل، بے حس، بے رحم معاشرہ اب اس شیطان صفت درندے کی ہوس کی سزا بھی اسے دے گا۔ اب اس کے لیے سب سے دوستانہ رویہ، کسی کا ترحم بھری نظروں سے دیکھنا ہوگا۔ اڑتالیس گھنٹے بعد وارڈ میں شفٹ کر دیں گے۔ سرجن نے دوسرے ڈاکٹر سے مشورہ لیتی نظروں سے دیکھا۔ ڈاکٹر نے اثبات میں یوں سر ہلایا گویا پوچھ رہے ہوں اڑتالیس گھنٹے گزار پائے گی۔ یہ سخت جان عورت؟
آپریشن تھیٹر سے آئی سی یو میں لے جاتے سارے ڈاکٹرز اور عملہ ایک ایک کر کے او ٹی چھوڑ گیا۔ میرے خیال کے جہنم نے مجھے او ٹی سے اٹھا کر معاشرے کے کرتا دھرتا معزز اشرافیہ کے روشن طبقے کے سامنے لا کھڑا کیا۔ اس پر مجھے قدیم روم کے ایوانوں کا گمان گزرا، جہاں طاقت کا قانون پاس ہوا تھا کہ جو جتنا طاقتور ہوگا وہ اتنے اختیار کا مالک ہوگا۔
غیر قانونی چھینک آنے پر سؤو موٹو نوٹس لینے والی عدالتیں بھی نظر آئیں۔ جہاں سب بونے سر جوڑے حاکم کی تدبیر کو خدائی حکم ثابت کرنے پر تلے تھے۔ جہاں جا کر صرف ایک بات یاد رہ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ جب حشر میں کوئی اٹھ کر پوچھے گا کس جرم میں میری روح تار تار کی گئی تو کیا سارے خدائی فوجدار جواب دے پائیں گے؟ کہ جب ہم ضعیف سے ضعیف حدیث پر حلق کے پورے زور سے تطبیق تطبیق پکارتے تھے تو اپنی مرضی کو رب کا حکم بتاتے تھے، تب ہم اس جرم پر خاموش کیوں رہے؟ اور کیا میں جواب دے پاؤں گی کہ میں ہر معاملے میں ایمان کے کمزور ترین درجے پر ہی فائز رہی___کیوں؟
عملے کے ایک رکن نے بتایا کہ آئی سی یو سے وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا ہے۔ وارڈ میں گئی تو ہاتھ بازو گردن پٹیو‍ں میں جکڑی عورت نیم دراز تھی۔ اسے دیکھا تو ہونٹ خفیف سی مسکراہٹ کے دباؤ سے پھیلے تھے جیسے مجھ سے پوچھ رہی ہو 
تیرے ہر رویے میں بد گمانیاں کیسی؟
جب تلک ہے دنیا میں اعتبارِ دنیا کر

Thursday 2 February 2017

سیلون میں ہمارا شریکا نکل آیا۔۔۔




گو کہ یہ اپنی ذات میں ایک بڑا واقعہ ہے کہ ہم کسی ایسی جگہ پائے جائیں جہاں جاتے ہوئے عام لڑکیاں انتہائی مسرت کا اظہار کرتی ہوں۔ خیر کسی کام سے ہم پھرتے پھراتے سیلون جا نکلے۔ بیسمنٹ کے کاسمیٹکس سٹور پر باڈی شاپ اور لوریل کی پراڈکٹس کو دیکھتے اور ساشے کی انوینٹر اس معمولی دکاندار کی بیٹی کی اس کاوش پر سر دھنتے، جانے ہم کس دنیا میں جا نکلتے جو سیڑھیاں اترتی ایک عدد ایکس ایل آنٹی سے ٹکراتے ٹکراتے نہ بچتے۔ چونکہ سیلون لے جانے سے قبل ہم سے یہ وعدہ لیا گیا تھا کہ ہم کسی قسم کی کوئی بدتمیزی نہیں فرمائیں گے سو ہم آنٹی نما اس لڑکی سے یہ پوچھتے پوچھتے رہ گئے کہ باجی نیو خان یا نیازی ٹریولز؟؟ جی بالکل، انہوں نے ٹرک کے فرنٹ پر لگی، فزکس کے قانون کو مینج کرتی زنجیر کی مانند ایک عدد ماتھا پٹی چہرے پر سجا رکھی تھی۔ آنکھوں پر رنگوں کا سیلاب آیا ہوا تھا۔ انتہائی نفیس سموکی میک اپ میں چار رنگوں کی بلینڈنگ کسی ہنر مند کی محنت کا پتا دے رہی تھی لیکن ان خاتون نے ساری کسر اورنج لپ سٹک اور بلش آن لگوا کر پوری کر دی تھی خاتون کا ڈریس اور اس پر لگے بے تحاشہ پرلز نے یہ راز کھولا کہ اورنج لپ سٹک بھی ان ہی کا انتخاب ہوگی۔



خیر ہم سیڑھیاں چڑھ کر ہیئر سیکشن میں تشریف لے گئے جہاں ہر طرف گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کرنے واسطے مشاطائیں سر توڑ کوششوں میں مصروف پائی گئیں۔ اور چونکہ ہم یہ پوچھنے واسطے تشریف لے گئے تھے کہ یہ جو سر پہ بالوں کا ایک عدد گھونسلہ نما سا ہے اسے انسانی شکل دینے کا کیا قصہ ہے۔ آخر کوئی کب تک الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے؟ اور یوں بھی آجکل ہمیں کچھ ایسا کرنے کا شوق چڑھا ہے کہ کوئی ہمیں دیکھ بھی لے تو سوچے کتنا بدل گئی ہیں__لیکن جب وہاں سب کو بال کرل کراتے دیکھا تو دل سے بے ساختہ آواز آئی دنیا کسی حال میں خوش نہیں آنا بی۔۔ بہتر ہوگا سٹک لو۔



لیکن وہ آنا بی ہی کیا جو کسی نصیحت پر کان دھر لیں۔ لہٰذا وہاں سے ارادہ ڈگمگایا تو میک اوور سیکشن میں جا پہنچے وہاں جب رنگ و نور کو خواتین کے چہروں پہ برستے دیکھا تو بے ساختہ کسی پیر سے یہ سوال پوچھنے کا جی چاہا کہ ایسی کونسی نیکی ہوگی بھلا ان خواتین کی جو نور ان کے چہروں سے پھوٹ رہا ہے؟ اور حسب معمول اس سوال کا جواب بھی دل ہی نے دیا۔ بی بی یہ نیکی نہیں ان کے شوہروں اور اباؤں کی محنت کی کمائی ہے، جو نمود نمائش اور جھوٹے مقابلے کی نذر ہورہی ہے۔ اس سے پہلے کہ خواتین کے اس مقابلے میں ہمارا وعدہ اپنی طبعی عمر پوری کرجاتا۔ سینئر میک اپ آرٹسٹ نے ہماری آمد کا مقصد پوچھا۔ ہم نے سوال کیا ہمارے چہرے پر کیسا میک اپ اچھا لگے گا کہنے لگیں ہر طرح کا۔ یقین مانیے ہم بھی گویا یہی سننے گئے تھے۔ عرض کیا، جب ہر طرح کا میک اپ سوٹ کرے گا تو ہم گھر میں کر لیں گے۔

وہاں سے جب ہمیں باقاعدہ کھینچ کر باہر نکالا گیا تو فورس اور موشن کے قوانین کے عین مطابق ہم اگلے سیکشن یعنی فیشل این سکن ٹریٹمنٹ سیکشن میں پہنچے۔ پوچھا کیا ٹریٹمنٹ فرماتے ہیں آپ لوگ؟ جوابا چھ عدد بھاری بھرکم انگریزی الفاظ ایک ہی سانس میں بول کر بتایا گیا یہ۔ اور جب ہم نے اس کا ترجمہ اردو میں کر کے پوچھا کہ یہ؟ تو خاتون تقریباً برا مان گئیں ہم نے بہتیرا بتانے کی کوشش کی کہ بی بی انگریزی میں اچھے نہیں ہم۔ لیکن وہ کہنے لگیں کہ آپ ریسیپشن سے سلپ بنوا لیں جو ٹریٹمنٹ لینا ہے۔ ہم خواتین کے اس میک اپ اوبسیشن سے خاصے متاثر ہوئے اور اس سے تحریک پا کر ہم نے بھی اس ہجوم کا حصہ بننا چاہا۔ سیدھے گئے ریسیپشن، خاتون سے کہا مینی کیور کی سلپ بنا دیں۔ کہنے لگیں ساتھ پیڈی کیور مسٹ ہوگا۔ پوچھا کیوں؟ کہنے لگیں پیکج ہے، آپکو ڈسکاونٹ مل جائے گا۔ ہم نے بدتمیزی کا سدباب کرنے والے وعدے کو ایک منٹ کے لیے ہولڈ کرایا اور کہا بی بی آپکا ڈسکاونٹ اتنا اہم نہیں کہ اس کی خاطر میں کسی کی سیلف ایسٹیم پر پاوں رکھوں۔ کہنے لگیں یہ ورکر کی جاب ہے۔ اور میں یہ سوچتے ہوئے باہر کی طرف چل دی کہ کس قدر بے ضمیر ہوتے جا رہے ہیں ہم مجبور کی مجبوری اور بے بس کی بے بسی کو اس کی جاب کا نام دیتے ہیں۔

یہ تو خیر کمرشل بے حسی ہے۔ آپ لوگ اسے پروفیشنل ایٹیچوڈ، بزنس ڈیمانڈ یا کچھ بھی کہہ کے خود کو تسلی دے سکتے ہیں۔ لیکن اس دوسری بے حسی کا کیا کریں گے؟ وہ جو ہم گھر میں اپنے لوگوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ ایک شخص کو اے ٹی ایم بنا کر جو ہم اپنے لیے آسائشیں خریدتے ہیں وہ بھی تو بے حسی ہے۔ جب ہم اسراف کو ضرورت کا اور نمود و نمائش کو رسم دنیا کا نام دیتے ہیں، وہ بھی تو خود غرضی ہی ہے نا۔ اور جب کبھی کسی خاتون سے پوچھ لیا جائے کہ ایسا کیوں؟

تو کیا جواب آتا ہے ؟ شریکا۔

شریکا جینے نہیں دیتا

کتنی عجیب بات ہے کہ ہم اپنی زندگی ان لوگوں کو خوش کرنے میں، ان کے بنائے ہوئے پیمانوں پر پورا اترنے میں صرف کر رہے ہیں، جن کو ہم سرے سے پسند ہی نہیں کرتے ۔۔۔۔۔۔ ہے نا عجیب منطق؟