Pages

Tuesday 19 December 2017

سوال سارے، جواب سارے



 
آنکھوں میں کاجل بھی لگا رکھا تھا. جتنا صبح صبح ہم کر سکتے تھے اتنے بال بھی سٹریٹ کر رکھے تھے. نہ محسوس ہونے والا لپ کلر بھی لگا رکھا تھا. عجیب ہے نا جب اجازت نہ تھی ہمیں سجنے سنورنے کا بے حد شوق تھا. پھر اجازت آزادی ملی تو دل اوب گیا
ہم دوسری کلاس میں پہلی رو کی پہلی کرسی پر بیٹھے، کتاب سامنے کھولے، انتہائی دل جمعی سے ساتھ بیٹھی سہیلی سے نیل پینٹ کے شیڈز پر سیر حاصل گفتگو کر رہے تھے۔ ٹیچر کلاس میں آئیں. اٹینڈنس کے بعد پوچھا، آج کیا دن ہے سحرش؟
سحرش: منڈے میم
تاریخ کونسی ہے؟
سحرش: سکسٹین ڈسمبر میم.
کیا ہوا تھا؟
فال آف ڈھاکہ۔
دھیمے پڑتے ہوئے یہ آخری جملہ دہرایا.
مجھے لگا میں چپ تھی، پر نہیں وہ چپ تھیں.
ان کی آنکھ کے گوشے بھیگ رہے تھے۔ چہرے پر سایہ سا لہرایا. ہم خود کو کمپوز کرتے ہوئے فال آف ڈھاکہ کے اسباب ڈسکس کرنے لگے.
مجھے نہیں پوچھنا چاہیے تھا اسوقت یہ سوال.
لیکن پوچھ بیٹھی تھی.
لہجے میں ضدی سا تاثر بھی ہوگا۔
کیوں توڑنے دیا آپ لوگوں نے ملک ؟
کیوں نہیں لڑے آپ لوگ؟
کیوں نہیں سمجھ رہے تھے سامنے کا منظر؟
راہزنوں کو کیوں راہبری سونپی تھی آپ لوگوں نے؟
ادھر ہم، ادھر تم والوں سے اسی وقت جواب کیوں نہیں لیا؟
پٹ سن کی خوشبو والوں سے کیوں نہیں کچھ پوچھا کسی نے؟ ؟
آخری سانس آخری سپاہی آخری ربط تک نہ لڑنے والوں کی پکڑ کیوں نہ کی؟
ریجن کی سب سے ایجوکیٹڈ پولیٹیکلی اییور قوم کو کس نے سول بیوروکریسی سے دور رکھا؟
زہر میں لپٹے سارے ہی تیر چلائے ہوں گے میں نے. اچانک ان کے ہاتھ میں کتاب لرزی تھی۔
وہ زندگی میں زندگی جیسی تھیں. ہاں ناں ایسی ہی تھیں. ان لوگوں میں سے جنہیں دیکھ کر انسان کا زندگی پر ایمان ریسٹور ہوتا رہتا ہے.
ان کا جواب آیا تو بہت مختصر
کہ ہم نے کوشش کی تھی سحرش!
چارہ گروں کو چارہ گری سے گریز تھا بچے
میں اسوقت نہ ان کا لہجہ سمجھ پائی تھی نہ اس میں بسا کرب محسوس ہوا تھا، نہ درد کی شدت محسوس کر سکی تھی.
انہوں نے آنکھ کے گوشے صاف کرتے ہوئے کہا کہ اللہ نہ کرے ہماری زندگیوں میں اب اور کوئی سولہ دسمبر آئے.
میں نے بے دلی سے آمین کہا تھا.
اور میری بے دلی سارے خدشوں کو سچ ثابت کر گئی.
میں سپر سٹیشیس نہیں ہو رہی، پر میرے آمین میں جذب نہیں تھا. کیونکہ آپ کا درد بیتا ہی نہیں تھا مجھ پر، مجھ پر کرب کا وہ درجہ گزرا ہی نہیں تھا. میں اذیت کی اس انتہا کو سمجھ ہی نہ پائی تھی تو کیسے کہہ دیتی آمین جذب والی؟
اور رب لاپرواہ بے دلوں کی دعائیں کیوں قبول کرتا. وہ بھی تو بے نیاز ہے ناں ..!!
پھر!! میں پچھلے پورے مہینے سے اس پھر پر آکر رک جاتی ہوں.
ہر رات کا پچھلا پہر اس بھیگے ہوئے پھر کے آس پاس بے بسی سے گزر جاتا ہے.
میں چاہ کر بھی نہ بتا پاتی ہوں نہ لکھ پاتی ہوں.
میں کیسے بتاؤں کہ کرب کی وہ کالی رات جب آئی تھی تو اذیت کس کس پہلو سے دل کو چیرتی ہوئی ٹھہر گئی تھی۔
میری جذب سے خالی دعا کا نتیجہ۔۔۔۔۔۔ہم پر دسمبر سولہ پھر سے بیت گیا.
نہیں بلکہ بیتا کب؟ بلکہ ٹھہر گیا.!!
میں پورا سال ذکر نہیں کرتی ہوں مجھے لگتا ہے میں روز ذکر کرنے لگی تو درد کی یہ لو مدھم پڑ جائے گی. میں آج کے دن ذکر کئے بنا رہ بھی نہ پاتی. مجھے لگتا ہے میں اپنے بچوں کے خون کی سوداگر ہوں. مجھے لگتا ہے میں لاشوں کی تاجر ہوں
مجھے نہیں پتا میرے بچوں کے قاتل، قتل کے منصوبہ ساز یا ان کے حمایتیوں میں سے کس کی رسی ابھی تک دراز ہے. پر مجھے یہ پتا ہے ان روسیاہوں کو اپنے عمل کی توجیہہ اب شائد نہ ملے. اس لئے نہیں کہ میری بستی کے راہبر، راہبری کرنے لگے ہیں. بلکہ اس لئے کہ اب رب جلدی جلدی اتمام حجت کرنے لگا ہے شائد!!
کیسا دوراہا ہے کیسی مشکل ہے؟ کہے بنا بھی چارہ نہیں.کہہ دوں تو دل کسی کل چین نہیں پاتا.
میرے بچوں کے خون کا سرخ رنگ انہیں سرخ رو کر گیا لیکن وہ ہی سرخ رنگ مجھ سمیت ہر بے حس ذمہ دار کے چہرے پر سیاہی بھی مل گیا. مجھے دسمبر اپنے بچوں کا قاتل لگنے لگا ہے.
یہ رستا ہوا زخم، قطرہ قطرہ میرے اندر ناسور بنتا جا رہا ہے
مجھے نہیں پتا میرے بچوں کے قاتل، قتل کے منصوبہ ساز یا ان کے حمایتیوں میں سے کس کی رسی ابھی تک دراز ہے. پر مجھے یہ پتا ہے ان روسیاہوں کو اپنے عمل کی توجیہہ اب شائد نہ ملے. اس لئے نہیں کہ میری بستی کے راہبر، راہبری کرنے لگے ہیں. بلکہ اس لئے کہ اب رب جلدی جلدی اتمام حجت کرنے لگا ہے شائد!!
اب دیکھا نہیں کیسے تم اور تمہارے حمایتی جب جب مرتے رہے میری بستی میں امن اترتا گیا
بنو قریظہ پر توریت میں نازل کئے گئے حکم کی تطبیق کرنے والو! آؤ اور دیکھو! میری بستی کی ماؤں کے حوصلے، وہ جنہوں نے امانت کی طرح لعل واپس سونپتے ہوئے کلے نہیں پیٹے تھے.
مجھے پتا ہے یہ تحریر الجھن ہوئی بے ربط اور جذباتی ہے.
کیونکہ بچوں کے مرثیے ربط میں نہیں لکھے جا سکتے
میں صرف یہ بتانا چاہتی ہوں
بھولے نہیں ہم، نہ معاف کیا ہے. تمہارا انجام ہو رہا ہے یا ہو چکا ہے بس اب تمہارے حمایتیوں کا انجام باقی ہے
جو جلد یا بدیر ہم دیکھیں گے..
یہ یقین اس لئے بھی ہے کیوں کہ رب کا وعدہ ہے ناں مکافات عمل کا!!
اور ہاں روز حشر جب ساقیء کوثر کے پاس آؤ گے ناں تو میرے بچوں کا خون تمہارے اور ان کے درمیان نہ پاٹی جا سکنے والی خلیج بن جائے گا. میم! آپ نے سچے دل سے دعا کی تھی تو رب نے اس اذیت سے بچا لیا آپکو. آپ بھی تو نہیں رہیں
لیکن اب میں پورے جذب سے سولہ دسمبر کے نہ آنے کی دعا کرتی ہوں.
آپ یقینا جنت میں ہوں گی، رب آپکے درجات بہت ہی زیادہ بلند کرے
آپکی سٹوڈنٹ کو، کیوں کے جواب مل گئے ہیں میم..!!!

لیکن یہ میری رائے ہے




یقینا آپ سب ہی رائزڈ آئی برو کے ساتھ پڑھیں گے اسے لیکن چونکہ ملکیت والی بات میں نے کہی تھی اور حق اختیار کے بے جا تصور پر کامنٹ بھی میں نے کیا تھا جس پر اعتراضات کیے جا رہے ہیں سو مجھے لگتا ہے یہ میرا فرض ہے ان سوالوں یا اعتراضات کے وہ جواب مہیا کروں جو سوال اٹھاتے ہوئے بیک اینڈ میرے دماغ میں تھے۔
ظاہر سی بات ہے انسانی دماغ غلطی کرتا ہے کر سکتا ہے لہذا ان جوابات میں بھی غلطی کا امکان ہے۔ 
لیکن یہ میری رائے ہے۔
پہلا جواب کہ اولاد تو کیا کسی بھی معاشرے میں کوئی بھی رشتہ کسی دوسرے کی ملکیت نہیں ہوتا۔
والدین کی بات پال پوس کر جوان کرنے والی تو۔ بات تو سخت ہے لیکن اولاد کا فیصلہ بھی تو انہی کا ہوتا ہے تو یہ ان ہی کی ڈیوٹی ہے تب تک اولاد کے فنانشل میٹرز کو سپورٹ کرے جب تک وہ خود اس قابل نہیں ہوجاتے۔ اگر تو اللہ کے احکامات پر چلنا ہے تو پھر تو آپ انہیں لیگیسی سے بھی محروم نہیں کر سکتے کسی بھی صورت چاہے وہ آپ کی پسند کےمطابق پھپھو کی بیٹی بیٹے سے شادی کرے یا نہیں۔ یہ رب کا حکم ہے دو ٹوک اور واضح۔۔تم میں سے کوئی کسی حقدار کو اس کے حق سے محروم نہ کرے۔
اور اگر مروج یا یوں کہہ لیں جنہیں ہم مہذب سمجھتے یا کہتے ہیں ان کی سوشل نارمز کو فالو کرنا ہے تو آپ اٹھارہ سال تک ہر اس بچے کی زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے پابند ہیں وہ جس کو دنیا میں لانے کا سبب آپ بنے۔۔۔
دوسرا اعتراض تھا کہ بچیاں اپنا اچھا برا نہیں سمجھتی۔
پہلی بات کوئی بھی۔بنداویری ینگ ایج لڑکا ہو یا لڑکی اٹھارہ انیس سال کی عمر میں یا ارلی ٹوئنٹیز میں اتنا میچور نہیں ہوتا کہ چیزوں کو تجربے سے پرکھ سکے۔ یا پھر معاشرتی روییوں کو سمجھ سکے۔ تو ان سے اسوقت میچور اپروچ کی توقع عبث ہے۔ اور یہ میچور پروف زندگی برتنے سے ہی آتی ہے۔ 
تجربے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن اس وقت اگر کوئی بچہ اپنی پسند کا اظہار کرتا ہے کسی بھی معاملے میں تو اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ آپ کے تجربے کو عقل سمجھ شعور کو چیلنج کرہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے آپ کا بچہ اپنی رائے رکھتا ہےوہ شعور کی اس منزل کی طرف گامزن ہوگیا ہے جہاں فیصلے لینے کا حق اختیار استمال کرنے کے قابل ہوتا ہے انسان۔ البتہ ساری عمر اپنے پلو سے باندھ کر رکھنا ہے بچوں کو تو آپ لوگوں کی چوائس۔
اب آجاتے ہیں شادی کی طرف جس پر یہ ساری بحث چل رہی ہے۔
شادی ہو یا زندگی کا کوئی بھی معاملہ کوئی بھی انسان کوئی بھی دوسرے پر اپنی رائے تھوپ نہیں سکتا۔ نہ تھوپنا چاہیے۔ بہتر آپشن پر بات کی جا سکتی ہے۔
اور رہ گئی لڑکی کی ولایت کی بات تو مجھے حوالہ یاد نہیں آرہا۔۔
لیکن یہ حدیث ہے بعد میں۔فقہ میں بھی اسے اصول مانا گیا کہ اگر لڑکی کا ولی اس کی مرضی یا پسند کے بغیر اس کا نکاح کسی سے کر رہا ہے تو اس کی ولایت ساقط ہوجائے گی۔ اور سارے محرم رشتوں سے یہ ولایت ساقط ہوتے ہوتے قاضی اور پھر سٹیٹ کو ولایت منتقل ہوجائے گی۔
خاتون کی مرضی اس قدر اہم ہے شادی کے معاملے میں۔
اور ہم سکون سے کہہ دیتے ہیں اس کو زمانے کا کیا پتا۔ ماں لیا بچیوں کو زمانے کا نہیں پتا ہوتا۔ یہ بھی مان لیا آپ کے بچے کی چوائس اچھی چوائس نہیں یا اس کا فیصلہ مستقبل میں غلط ہو سکتا ہے۔ اس وقت ہم کیا کرتے ہی؟ ہم اپنے بچے کی بات طوعا کرہا مان بھی لیں تو اسے صاف جتا دیتے ہیں اب زندگی میں کوئی بھی مشکل آئے تو ہمارے پاس مت آنا۔ اپنے فیصلے کے تم خود ذمہ دار ہو۔اور کون ہے جس کی زندگی میں مشکلات نہیں آتیں؟ 
خیر لیکن یہ ہی صورتحال جب کبھی ارینج میریج کے بعد پیش آجائیں تو تب ان دو افراد کی زندگی خراب ہونے کی ذمہ داری کون لیتا ہے ؟
کوئی نہیں۔ ہمارے معاشرے میں تو مائیں بھی کہہ دیتی ہیں اسے شوہر مٹھی میں نہیں کرنا آیا۔
یعنی اگلے فریق کو مٹی کا مادھو بنا کہ رکھنا ہی ازدواجی زندگی کی کامیابی ہے ؟
نکاح دل کی خوشی کا نام ہے جیسے دل کو چھونے والے الفاظ ہم نے صرف چوم چاٹ کے طاق میں ہی رکھنا ہوتے ہیں۔
اور بات چل ہی نکلی ہے تو بتا دوں جب آپ کا بچہ کسی کو پسند کرتا ہے تو وہ اپنی مرضی کے انسان کے ساتھ زندگی گزارنے کی بات کرتا ہے نہ کہ پسند کی بیوی یا شوہر کو پیش کرتا ہے آپ کے سامنے۔ 
آخری بات والدین کے کسی حق سے انکار نہیں ان کی محبت پر شک کی گنجائش نہیں۔ ان کے فیصلوں پر اعتراض ہو سکتا ہے تب بھی بدتمیزی کی گنجائش نہیں۔
لیکن پورے احترام کے ساتھ پھر بھی یہ ہی رائے ہے والدین یا کوئی بھی رشتہ دوسرے کی زندگی کا مالک نہیں۔
آخری بات اگر میں غلط ہوں تو کوئی مجھے صحیح الفاظ بتا دے۔
ایک حدیث کے الفاظ ہیں فتنہ پھیلانے والی چیزوں میں ایک بغیر پسند یامرضی کے نکاح کرنا ہے۔
زور زبردستی سے کوئی نکاح نہیں ہوتا یہ دل کی مرضی ہے۔
باقی آپ لوگوں کی پسند ہے ملک کو اتاترک کا ترکی بنانا ہے یا سوشل نارمز پر بچے قربان نہیں کرنے۔

ایک الارمنگ بات بتا دوں پاکستان میں ایکسٹرا میریٹل افیئرز کی ریشو خطے میں دوسرے نمبر پر ہے۔
وجوہات سوچ کر جییں۔

Saturday 16 December 2017

یونیورسٹی، کلچر اور قوم



سماء ٹی وی پر خبریں چل رہی تھیں۔ ویسے یہ جملہ خاصا عجیب لگ رہا ہے پڑھنے میں۔ آپ سب بھی یہ سوچ رہے ہوں گے کہ۔کیا خبریت ہے اس جملے میں۔ نیوز چینل پر خبریں نہیں چلیں گی تو کیا چلے گا؟
جی ایگزیکٹلی یہ ہی میرا سوال تھا۔ اور ہے کہ نیوز چینلز پر خبریں کیوں نہیں چلتیں؟ اور خبروں کے نام پر تماشے کب تک چلیں گے ؟
چلیے تفصیل سے بات کرتے ہیں۔ ایک سنجیدہ اور الارمنگ سچوئشین پر۔ پرائم ٹائم کی خبروں میں سماء ٹی وی پشاور یونیورسٹی کی طالبہ کی پرفارمنس پر نیوز رپورٹ چلنے لگی۔ خاتون ڈانس کر رہی تھیں کالا لباس پہنے حجاب لئے نقاب کئے۔ اور ڈانسنگ بیلٹ باندھ کر خاتون سارے مجمع کے بیچ بیلی ڈانس کر رہی تھیں۔ اور سماء ٹی وی اپنی روایت کے عین مطابق بار بار اس خبر کو سپیس دے رہا تھا۔
یہ تو وہ المیہ تھا جس نے ہمارے پورے تعلیمی نظام کو آسیب کی طرح اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا ہے۔ اور المیہ در المیہ یہ کہ ہم میں سے کسی کو اس المیے کی نوعیت کا احساس ہی نہیں۔ ہم آنکھیں بیچ رہے ہیں۔ اب اگر ہمارے نسلیں نابینا پیدا ہوں گی تو ہمیں شکایت کا تو کوئی حق حاصل نہ ہوگا۔
بار بار چینل کا نام مینشن کرنے کی وجہ بھی یہ ہی ہے کہ اور کسی نیوز چینل پر میں نے یہ خبر نہیں دیکھی۔ یا کم از کم میری نظر سے نہیں گزری۔خیر یہاں چینلز کا تقابل نہیں کر رہی۔
یہاں میں یونیورسٹیز سے متعلق کچھ سوال اٹھانا چاہتی ہوں۔ یہاں یہ مینشن کردوں ہر سرکاری یونیورسٹی فیڈرل یونیورسٹی ہوتی ہے۔ اور اس کا چانسلر وفاق کی علامت ہوتا ہے۔ یونیورسٹی میں تعینات پولیس فیڈریشن کی صوابدید پر کام کرتی ہے۔

اس نیوز رپورٹ کو دیکھتے عجیب خیالات کا مجموعہ تھا جس نے یلغار کردی تھی جیسے دشمن کی فوجیں نہتے سپاہیوں پر سوتے میں وار کردیں۔ اور چونکہ کسی بھی حفاظتی میئر کو اپنایا نہیں تھا تو ذہن میں سوالات کا انبار لگ گیا۔ آپ سب کے سامنے وہ سوال رکھنا چاہتی ہوں۔ میں ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنا چاہتی ہوں۔ تاکہ میں اس بیلی ڈانس کو کلچرل پرفارمنس تسلیم کرنے جتنی سمجھدار ہو سکوں۔

اب آتے ہیں سوالات کی طرف۔
پہلا سوال۔ وہ فنکنشن جسے کلچرل شو کہا جا رہا تھا۔ وہ کونسا کلچر تھا اور کہاں کا؟
دوسرا سوال میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ کلچرل پرفارمنسز کا ایک معیار اور ضابطہء اخلاق ہوتا ہے کیا ہماری یونیورسٹیز اس معیار کو فالو کر رہی ہیں؟
یہاں یہ یاد رہے مجھے کسی کے بیلی، بیلے یا نیلا ڈانس کرنے پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں۔ میرا اعتراض اس بے ہودہ ڈانس کو یونیورسٹی کی کلچرل نائٹ کا حصہ بنانے اور اسے ماڈرن ازم سے جوڑنے پر ہے۔ کیا ماڈرن ازم ڈانس گانے کا ہی نام ہے؟ اور ڈانس بھی وہ جو کسی نا کسی تعلیمی ادارے میں ہو؟
کسی بھی تعلیمی ادارے کے متعلق تمام تر خبریں انتظامیہ کے ذریعے میڈیا تک پہنچتی ہیں۔ ایسا کہاں ہوتا ہے کہ پورے پورے فنکشن کی لائیو کوریج میڈیا ہاؤس پر چلے؟
یونیورسٹیز کا کانسیپٹ پہلی بار اتھینینز نے دیا تھا۔ علمی بیٹھکیں لگا کر۔ شہر سے باہر ایک الگ شہر بسا کر۔ جہاں بادشاہوں کی تربیت کرتے کرتے استادوں نے اور شہزادوں نے تعلیم پر سب کا حق تسلیم کر لیا۔ اور یوں انسان کو شعور و آگہی اداروں میں سیکھائی جانے لگی۔ مہذب دنیا میں یونیورسٹی کو عبادت گاہ کا ڈر حاصل ہے۔
دوسری جنگ عظیم میں ہارورڈ کیمربج آکسفورڈ کو وار فری زون تسلیم کیا گیا تھا۔ آج بھی دوسری جنگ عظیم کے دوران پیدا ہونے والے بہت سے بچوں کی جائے پیدائش یہ علم گاہیں ہیں۔
یہ ہی وجہ ہوگی کہ ان اداروں کی تکریم ساری دنیا کی نظر میں بہت زیادہ ہے۔
لیکن ان سب کے باوجود کبھی اداروں نے ماڈرن ازم کے نام پر کلچر اڈاپٹ کرنے کی کوشش نہیں کی۔
آپ میں سے کسی نے کبھی کسی ایسے ادارے کے متعلق ایسی کسی نیوز رپورٹ میں کسی چینل کو اتنے ذوق و شوق سے نیوز رپورٹ بناتے ہوئے نہیں دیکھا ہوگا۔ کیا وہ لوگ ماڈرن نہیں ہیں؟ یا کلچرڈ نہیں ہیں۔؃
یہ تو وہ المیہ تھا جس نے ہمارے پورے تعلیمی نظام کو آسیب کی طرح اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا ہے۔ اور المیہ در المیہ یہ کہ ہم میں سے کسی کو اس المیے کی نوعیت کا احساس ہی نہیں۔ ہم آنکھیں بیچ رہے ہیں۔ اب اگر ہمارے نسلیں نابینا پیدا ہوں گی تو ہمیں شکایت کا تو کوئی حق حاصل نہ ہوگا۔ ٹھہرییے اس نکتے پر اداس مت ہوئیے۔ ادا سی بچا رکھئے کیونکہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
دنیا کے کسی بھی تعلیمی ادارے کے متعلق تمام تر خبریں انتظامیہ کے ذریعے میڈیا تک پہنچتی ہیں۔ ایسا کہاں ہوتا ہے کہ پورے پورے فنکشن کی لائیو کوریج میڈیا ہاؤس پر چلے اور لوگ لائیو دیکھیں؟
کیا ہم ہر سطح پر اخلاقیات کھو چکے ہیں؟
نہ انتظامیہ پر کوئی قانون لاگو ہوتا ہے۔ اور نہ نیوز چینل پر۔ رہ گئی قوم یعنی کہ ہم سب ہجوم تو ہجوم تماش بین ہی ہوتا ہے عموما سو تماش بینوں کی بستی میں کوئی کب تک ہجوم کا حصہ بننے سے خود کو محفوظ رکھ سکتا ہے؟
سو چپ رہیئے اور انتظار کیجئے اگلے تماشے کا۔۔۔!

Tuesday 5 December 2017

نکلے اپنی تلاش میں


بوریت سے بھرپور دن رات چل رہے تھے۔ نہ کوئی امتحان ہو رہے تھے نہ نتیجہ کا خوف دہلانے کی کوشش کر رھا تھا۔ ہمارا حال بھی اس بہو سا تھا۔ جس کی جھگڑالو ساس جب دو چار دن لڑائی جھگڑا فساد نہیں کرے تو وہ بہانے بہانے سے میکے فون کرتی ہے کہ۔۔۔ خیر ہو چار دن سے لڑی نہیں خدا جانے کونسی کھچڑی پکا رہی ہے۔ ہمیں بھی دن رات کے سمودھلی آنے جانے سے الجھن بلکہ وحشت ہونے لگی۔

اندر کا، آوارہ گرد روز صبح اٹھ کر دہائیاں دینے لگتا۔ بلکہ صبح کہاں۔ وہ تو سر شام دہائیاں  دینا شروع کرتا تو پو پھوٹنے تک ایسی ایسی بکواسیات کرتا کہ جو ہم آپ کو سنانے لگیں تو آپ سب کے آنسو نکل آئیں اورکان حیا سے سرخ ہوجائیں ۔

دن رات تو ہمارے بچپن سے ہی الٹے ہیں چاند کے ساتھ ساتھ ہماری فسادی طبیعت پر جوبن آتا ہے اور سورج کی روشنی جوں جوں کم ہوتی ہےتوں توں ہماری آنکھیں کھلتی ہیں۔
یہ بھی انہی دنوں کی بات ہے جب راتیں جاگتی اور دن اونگھتے تھے کیونکہ دن میں سونے سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں جن پر ہماری اماں عنقریب ایک کتاب لکھنے والی ہیں۔
سو بوریت اندر باہر دھرنا دیئے بیٹھی تھی کہ ہم نے بوریت کے تالاب میں آوارگی کا پتھر مارنے کا فیصلہ کر لیا۔ یعنی دھرنے کے خلاف آپریشن کے عدالتی احکامات دے ڈالے ۔
یوں چار پانچ لوگوں کا ٹولہ بلکہ مختصر سی ٹولی عازم سفر ہوئی۔
پہلے تو صبح ہی صبح دھند، ٹھنڈ اوربادلوں نے ہمارا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ مرد ہی کیا جو ڈر جائے حالات کے خونی منظر کے مصداق ہم نے مقتدر حلقوں کے سامنے موسم کی انتہائی غیر شادی شدہ تشریح کی۔۔ ہم نے کہا آج موسم بڑا بیمان ہے بڑا ہی بیمان ہے۔ وہ تو شکر ہوا مقتدر شخصیات نے ہم سے موسم کا ایمان جانچنے والا آلہ نہیں مانگ لیا۔ وگرنہ کہاں ثابت کر پاتے۔ لہذا ہمیں سفر کی اجازت مل گئی۔
ہم نے رخت سفر باندھا اور بذریعہ جی ٹی روڈ اپنے شہر سے اسلام آباد سے ہوتے ہوئے ایبٹ آباد پہلی منزل پر جانے کا فیصلہ کیا۔ جی ٹی روڈ سے گجرات کے قریب پہنچے تو بہن نے پڑھ کے بتایا کہ انتہائی خطرناک موڑ ہے۔ یہیں سے لوٹ چلو۔ پر ہم اپنی پیدائش کی بستی سے کہاں لوٹنے والے تھے۔ لہذا وہ خطرناک موڑ بھی کاٹ ہی لیا ۔ چناپ پر پانی میں دیکھتے ہوئے ہمیشہ مجھے سوہنی کا گھڑا یاد آتا ہے۔ اتنے چوڑے پاٹ والے دریا کوگھڑے سے پار کرتی ہوئی سوہنی کے دل میں عشق پر ایمان کتنا مضبوط ہوتا ہوگا نا؟۔
ہم آپ بھی تو آج کی دنیا میں رسموں رواجوں ٹیبوز کے دریا اپنے اپنے گھڑے پر ہی پار کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔
ہم اور آپ بھی  اپنے اپنے حصے کا دریا پار کر  رہے ہیں ۔ ہے تو سخت بات، لیکن  ہے سچ۔ زندگی بہت سی باتیں آسانی سے، نرمی سے، محبت سے نہیں سکھاتی۔ زندگی کے بہت سارے سبق پڑھنے کے لئے کئی رویوں کے دشت دیکھنے پڑتے ہیں۔ کئی لہجوں کے صحرا پار کرنا پڑتے ہیں۔ سو جب یہ طے ہے کہ زندگی میں اپنے چراغ خود ہی جلانا پڑیں گے۔ اپنی کشتی کا بادبان خود ہی سینا پڑے گا تو پھر شکایت کیسی؟
لہذا فلسفے کو ہولڈ پر لگا کر واپس چلتے ہیں سفر کی روئیداد پر۔ کھاریاں تک تو ہم نے نمکو بسکٹ کھا کہ پاپی پیٹ کی آگ بجھائی پھر جہلم تک ہم اچھے دنوں کی آس لگائے چپ چاپ بیٹھے رہے۔ پر دینہ سے پہلے ہم نے بھوک کا، اعلان کرنا چاہا۔ لیکن چونکہ ہم ایک عدد انتہائی مذہبی انسان واقعہ ہوئے ہیں لہذا ہم نے انتہائی شائستگی۔۔۔ کسم لے لیں وہ شائستگی ہی تھی جس کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہم نے نماز ظہر ادا کرنے کی طرف اشارہ کیا۔
ہمارے اشارے کو تحسین پیش کرتے ہوئے ایک خوبصورت مسجد والے سی این جی اسٹیشن کے سامنے قافلہ رکا۔ ہم نے نماز پڑھی اور خدا سے من و، سلوی کی درخواست کی جو فورا قبول ہوئی ہماری بہت سی دعاؤں کی طرح۔
ایک ڈھابے پر کھانے کے لئے جب دال اور چکن آرڈر کیا تو قطعی اندازہ نہ تھا کھانے کا ٹیسٹ اتنا اچھا ہوگا۔ کھانا واقعی بہت اچھا تھا یا بھوک کی شدت نے کھانے کا ٹیسٹ بنا دیا تھا یہ بات ہم ابھی تک طے نہیں کر سکے۔ برتن زیادہ صاف نہیں تھے ۔ہمیں چھری کانٹے کے ساتھ چھوٹی سرونگ نہیں ملی تھی وگرنہ میوزک تو یہاں بھی بج رہا تھا۔ چانجر پھبتی نہ مٹیار بنا۔۔ طاہرہ سید سر بکھیر رہی تھیں اور ہمیں دیکھے بنا بھی یقین تھا انہوں نے اپنی ناک بھی سکوری ہوگی اور آنکھ سے ادائے دلبرانہ کا مظاہرہ بھی کیا ہوگا۔
اور پرائویسی بھی خوب میسر تھی لہذا ہم فائیو نہیں تو فور سٹار لنچ تو کر ہی رہے تھے۔
چائے میں اگر چینی تھوڑی سی کم ہوتی تو ہم سمجھتے ہم لیکوئیڈ فام میں گلاب جامن کھا رہے ہیں۔
جی چائے میں چینی تھوڑی سے کافی زیادہ تھی۔
لنچ کے بعد ہم پھر سے عازم سفر ہوئے۔
سوہاوہ سے پہلے ہی اماں کو کہہ بیٹھے ہم پنڈی پہنچ گئے۔
بعد میں گوجر خان کو دیکھ کر دنیا پر اعتبار نہ کرنے کی ٹھانی ہی ہی ٹھانی سڑکوں پر بھی اعتبار نہ کرنے کی ٹھانی ہم نے۔
راستے میں سڑک کے ساتھ ساتھ چلتی آبادیاں ہر شہر کا اپنا رنگ۔
اور ہر رنگ میں جھلکتی الگ تہذیب خوبصورتیوں کو بڑھا رہے تھے۔ سہ پہر ہو رہی تھی جب ہم پنڈی پہنچے۔
پنڈی والی بڑی سرکار کے متعلق تو سنا ہوگا۔۔ پر یہاں تو ہم چھوٹی اور نقلی سرکار کے پروٹوکول میں پھنس گے۔
اور تیس منٹ تک سڑک پر کھڑے گاڑیاں دیکھتے رہے۔ خیر تیس منٹ بعد پروٹوکول والوں کی سواری باد بہاری گزری اور ہمیں اذن رخصت ملی۔
اس سارے عرصے میں ہم سڑک پر پھنس جانے والے لوگوں کے متعلق سوچتے رہے۔ وہ جنہیں ایمرجنسی میں کہیں پہنچنا ہوتا ہے۔ وہ جن کا کوئی بیمار ہوتا ہے۔ یا جس کو ہواؤں میں سفر پر روانہ ہونا ہو۔ ان پر روز کیسی کوفت گزرتی ہوگی۔ پھر کوئی اٹھ کر اسی جھنجھلائے ہوئے انسان کو جمہوریت کا حسن بتانا چاہے گا تو  پھر وہ غنچۂ دہن شیریں بیاں نہ بنے گا تو یقینا ولی ہوگا۔
اسلام آباد میں داخل ہوتے ہوتے سہ پہر ڈھل کر شام میں بدل  چکی تھی۔
ہم سڑک کے دونوں طرف ڈھلتی شام میں اترتی خاموشی محسوس کرتے ایبٹ آباد کی طرف رواں تھے۔
حویلیاں کے اردگرد پہنچے تو کسی نے دل میں چٹکی بھری۔۔ سنو!!! ہم نے اونہوں کہہ کے اگنور کرنا چاہا۔۔ پر ہمارے اندر بھی ہم سا ہی ایک عدد ڈھیٹ انسان بیٹھا ہے۔ زبان کو تالو سے چپکاتے اتارتے۔۔ چچ کی آواز کے ساتھ پوچھا کیا ہے۔ ؟
سنو! حویلیاں کو وہ آسٹریلوی سیاح جوڑا محبت کی خوبصورتی کا شہر کہہ کر گیا تھا۔
ہم:کیوں ؟
سنا ہے اس کی وادیوں کی سبز چوٹیوں پر آبشاریں ہیں۔
ہم: تووو؟
جواب: دسمبر میں بھی سبزہ اگتا ہے۔
ہم: دھیمے پڑتے ہوئے۔۔ سدا بہار ہوگا۔۔
تو کیا سدا بہار زندگی کو دیکھنا نہ چاہو گی؟
ہمیں رات سے پہلے ایبٹ آباد پہنچ جانا چاہیے۔
وادی سون سکیسر کا حصہ بھی رہا ہے حویلیاں۔
ہم: چپ چاپ سن رہے تھے۔ اپنے اندر چلتی انسٹی گیٹو ایڈورٹیزمنٹ سن رہے تھے۔
سوال آیا۔ سکیسر نام کیسر سے نکلا ہے نا؟ یا کیسر سکیسر سے نکلا ہے؟
دنیا کا بہترین کیسر ( زعفران) جو پیدا ہوتا ہے یہاں۔
ہم: ہار مانتے ہوئے۔۔۔۔
حویلیاں میں رکنا ہے۔
گاڑی ذیلی سڑک پر مڑتی ہے۔ ہمارے اندر سکون اترنے لگتا ہے۔ دروازے کے شیشیے  نیچے گرائے فضاء میں بسی خوشبو سانس کے ذریعے اندر اترنے لگتی ہے

گاڑی ایک جگہ رکی تھوڑا سا کچا رستہ طے کیا تو سامنے تا حد نگاہ بھیگا بھیگا سبزہ تھا۔ نظر کی آخری حد سے اوپر نگاہ کی تو سبزے کی حد پر چوٹیاں دیکھائی دے رہی تھیں۔ ہم نے دھیرے سے اندر بیٹھے ڈھیٹ کا ہاتھ پکڑا شکریہ ادا کرنے کا۔
وہ بھی ہماری ہی طرح بات بتا کر بے نیاز ہوجانے کی ادا کا مظاہرہ کر کے چپ ہورہا۔
نومبر کی ڈھلتی شام سبزہ پہاڑ اور سرد ہوا۔ ایسے منظر کے لئے کسی جگہ پر دیر سے پہنچنا گھاٹے کا سودا تو ہرگز نہیں تھا۔ ہم چپ چاپ ہوجانے والی دیر کو بھلائے منظر دیکھنے لگے۔
گہری سانس لے کر حویلیاں کی ہوا اندر اتاری۔ آنکھوں میں یہ منظر محفوظ کرنے کو پلکیں ذرا کی ذرا موندیں تو کوئی اندر سے بولا۔
خوبصورتی رب کی تخلیق ہے یا رب کی تخلیق خوبصورت ہے۔
ہم: تخلیق خوبصورتی ہے۔ اور اگر رب کی تخلیق ہو تو مکمل ہے خوبصورت ہے محو کر دینے والی ہے۔
سوال:رب کی تخلیق انسان بھی تو ہے۔
ہم: ہمممم
سوال: تو یہ مکمل کیوں نہیں۔
ہم نے دھیرے سے وہ آیت دہرائی۔
اور جب آدم نے تمام نام بتا دیے تو رب نے کہا اوربے شک میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
اندر سکون اترنے لگا۔
جیسے اس کے جاننے میں ہی تو راز پنہا ہے ہماری آپکی امپرفیکشن کا۔
خود سے مکالمہ جانے کب تک جاری رہتا۔ کہ ساتھیوں نے سفر دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے جمہوری روئیے کا مظاہرہ کیا اور چپ چاپ گاڑی میں آ بیٹھے۔ توبہ ہے۔۔۔۔ اس میں اتنا شکی ہونے والی کونسی بات ہے۔ ارے بھئی ہو جایا کرتے ہیں ہم کبھی کبھار پانچ دس منٹ کو خاموش۔
گاڑی میں بیٹھ کر بیگ میں سے بسکٹ کا پیکٹ نکال کر کھولا اور کھانے ہی لگے تھے کہ پیکٹ اچک لیا گیا۔
درزیدہ نظروں سے اچکنے والے کو دیکھا تو وہ ایک اور مس عثمان تھیں۔ غصے کے گھونٹ تو خیر ہم کیا پیتے۔ سائڈ پہ رکھی کوک کھول کے پینے لگے۔
لڑنے کا ہمارا ہرگز کوئی ارادہ نہ تھا۔ سڑکے کے دونوں طرف درخت تھے سڑک پہ رش تھا۔ نومبر کی گلابی شام رات میں بدل رہی تھی۔ ہوا میں خنکی تھی اور کشمیری چائے کی خوشبو چیزوں کو معنی بخش  بنا رہی تھی۔
گوگل میپ والی آنٹی کے مطابق ایک گھنٹے میں ہم اپنی منزل مقصود تک پہنچنے والے تھے۔
گاڑی سرک رہی تھی
ارد گرد زندگی رواں تھی۔
ہم سوچ رہے تھے یہ سارے راستے اولڈ سلک روڈ کے نئے رستے ہیں۔ ان پر کموڈٹیز جایا کریں گی اور خوشحالی آیا کرے گی۔
خوشخالی ایسا خواب ہے جو ہر زمانے ہر تہذیب کا مشترکہ خواب رہا ہے۔
سلک روڈ والی تہذیب نے بھی تو اسی خواب کے پیش نظر سینٹرل ایشیاء کو چنگیزی نسلوں سے جوڑا ہوگا نا۔ چنگیزیوں سے چینی صدر کا وہ انٹرویو یاد آگیا جو اس نے سی این والی آنٹی کو دیتے ہوئے چینی زبان میں گٹ پٹ کی تھی۔ اور ہم نے سب ٹائٹلز پڑھ کے جانا تھا چنی آنکھوں والا یہ شخص کتنا ڈٹرمائنڈ اور کمیٹڈ ہے جو اپنی قوم کے مفادات کے تحفظ کے لئے اتنے اہم فورم پہ غیر سفارتی زبان تک بول رہا ہے۔
قومی مفادات بھی کیسی خوب اصطلاح ہے اور ہم جیسی غریب قوموں کا اس کے نام پہ کیسا کیسا استحصال کیا جاتاہے۔ اففف ایک تو یہ پولیٹیکل سائنس مجال ہے جو کہیں پیچھا چھوڑ دے ہمارا۔
خیر ان سارے خیالات کا ارتکاز گوگل میپ والی آنٹی نے توڑا یہ بتا کر کہ ہم دس منٹ کی دوری پر ہیں۔
دس منٹ بعد ایبٹ آباد آرمی میس (بلوچ میس) پہنچ چکے تھے۔
سیکورٹی کلیئرنس کے بعد کمرے کے سامنے گاڑی رکی۔ گاڑی سے باہر نکلے تو سردی نے ہمارے قدم چومے گو کہ چوما تو اس نے ناک تھا۔ پر یہ۔ محاورہ نہیں بنتا نا کہ سردی نے ناک چوما۔ لہذا آپ اسے پاؤں ہی پڑھ لیجئے۔
کمرے میں جا کہ بیڈ پر ڈھیر ہونے کا ارادہ کیا۔ لیکن نشئی کو یہ سہولت میسر نہیں ہوتی۔
چائے کے دو دو کپ پینے کے بعد منہ دھونے کا ارادہ کیا حالانکہ ہمیں پتا تھا کوئی فرق نہیں پڑنے والا پھر بھی کوشش کرنے میں حرج ہی کیا تھا۔ ؟
دو تین سویٹرز پہن کے شال اوڑھ کے بلوچ میس کے روف ٹاپ پر پہنچے۔ سامنے سارا ایبٹ آباد پہاڑوں پر ننھے ستاروں کی صورت چمک رہا تھا۔ سیاہ چادر پر بکھری روشنیاں منظر میں گم ہونے کا اتنا بے ساختہ جی شائد ہی کبھی چاہا ہو۔ کرسی سے ٹیک لگا کر آسمان کو دیکھا تو۔۔
منیر نیازی یاد آئے کہ۔
اکھ پر کے ویکھ نہ سکیا
حالت نیلے امبر دی۔
شفاف آسمان پر جھلملاتے بہت سے ستارے۔
اسوقت اگر کوئی مجھ سے پوچھتا  کہ کیا دیکھا تو میں کہتی ستارہ۔۔۔
زندگی کا ستارہ
محبت کا ستارہ۔
کسی ساتھ کا ستارہ۔
کسی ساتھ کی خوشبو کا ستارہ۔
اندر اترتے سکون کا ستارہ۔
اتنے بہت سے ستارے تھے کہ اگر دنیا کے کے سارے انسانوں کے سارے احساسات کا ایک ایک ستارہ بھی لکھ دیا جاتا تو ستارے بچ جاتے۔
اور میں ان بچ جانے والے ستاروں کو میجک سٹک سے  بہت چھوٹا کر کے ایک ماچس کی ڈبیا میں رکھ لیتی۔ تمہاری آنکھ میں سجانے کو۔ ہاں نا!!! ان ستاروں کو دیکھتے پہلا خیال بھی تو تمہارا آیا تھا نا۔ کہ ان ستاروں کو تمہارے ساتھ دیکھوں۔ میں یہ سارے ستارے تمہارے ساتھ کھوجنا چاہتی ہوں۔
تمہیں پتا ہے ان سب ستاروں میں سب سے روشن ستارا کونسا تھا؟
امید کا ستارہ۔۔
وصل کی امید کا۔
محبت کی امید کا۔
خوابوں کی بار آواری کی امید۔
تمہارے اور ہمارے ساتھ کی یقین والی امید۔
میری بستی کے لوگوں کی خوشی کی امید۔
جانے کتنے پل ستاروں کو گنتے ہم مجنوں بنے بیٹھے تھے۔ کہ خبر ملی دس بجے کے بعد فوجی کھانا نہیں دیتے۔ لہذا ٹور کے پنڈت نے نیچے ڈنر حال میں پہنچ کر کھانے پر ٹوٹ پڑنے کے شبھ مہورت کا اعلان کر دیا۔
اور ہمارے  شہر کی کنڈلی میں ہی کھانا لکھا ہوتا ہے کھانا اور بہت سارا کھانا۔ ہم بھی جتنا کھا سکتے تھے اس، سے زیادہ کھایا۔ پھر مزید کھانے کی جگہ بنانے کے لئے فریش لائم پیا۔ کچھ دیر اور ہال میں بیٹھے دو عدد نیم برگر فوجی آنٹیوں کے او مائے گاش ٹائپ قصے سنے۔ جو وہ با آواز بلند ایک دوسرے پر جتا رہی تھیں۔ ہم اپنی قوم کی نفسیات کا تجزیہ کرنے کا خیال جی سے نکال کر نیچے چلے آئے۔
ایک سو پچیس سیڑھیاں نیچے اتر کر نیچے لان میں پہنچے۔
جہاں ہمارے قافلے نے سیلفی وڈیوز سیلفییز اور فوٹو سیشن کیا۔
ہم لان کی آخری حد پر کھڑے سامنے پھیلی وادی کو گھورتے رہے۔ جتنا گھور سکتے تھے گھورا۔ تھک گئے تو چلنے لگے۔ چلتے چلتے لان کے دوسرے کونے میں جا پہنچے جہاں سخت سردی میں ایک فوجی اوور کوٹ پہنے پہرہ دے رہا تھا۔ ہم نے بہت چاہا اس کو  پچھتر فیصد بجٹ کھا جانے کا طعنہ دیتے جائیں۔ پر نہ دے سکے۔ خاموشی سے وہاں سے چلے آئے۔
واپسی پر ایک سو پچیس سیڑھیاں چڑھ کے اوپر آئے اور پھر چھتیس سیڑھیوں کے فاصلے پر کمرہ دیکھ کر ہم نے سوچا ڈائٹنگ گرین ٹی واک سب چھوڑ چھاڑ اس کمرے میں ایک مہینہ گزار لیں تو دل کی۔ مراد پا لیں۔
کمرے میں آ کر کمبل میں گھس کر چائے پی اور کھڑکی سے باہر پڑتی دھند دیکھنے لگے۔۔۔۔ نومبر کی گہری کالی رات کا پہلا پہر ہو۔ آپ دنیا کے کام دھندوں الجھنوں نفرتوں سے دور اک ان جانی بستی کے پرسکون گوشے میں بستر نشیں ہوں۔ کھڑکی کے شیشے کے باہر دھند ٹھہر ٹھہر کر گر رہی ہو۔ آپ کے ہاتھ میں کافی کا مگ ہو، کندھوں پر بکھری شال اور پہلو میں امنگوں آرزوؤں امیدوں خوابوں کی مدھم لے پر دھڑکتا دل ہو۔
تو اس وقت آپ اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کر سکتے ہیں؟
انسان کتنا کفر کرسکتا ہے؟
پتا ہے دنیا کے سارے الہامی مذاہب کی پہلی نرسری صحراؤں یا پہاڑوں کے باسی کیوں ہوتے ہیں؟
یا پھر رب اپنے پیمبروں کو صحراؤں پہاڑوں دریاؤں میں کیوں اکیلا چھوڑ دیتا ہے کچھ دیر کو؟
شاید اسی لئے کہ
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کہستانی
ہم آپ، بسے بسائے، سجے سجائے، بھاگتے دوڑتے شہروں کے باسی تو زیادہ سے زیادہ اپنی سہولتوں کی حفاظت کر سکتے ہیں۔
فطرت کے عظیم مظاہر کے درمیان زندگی تراشنا اور اس زندگی کو جینا ہی شاید اصل زندگی ہے۔
جب نیند پلکوں پہ مہربان ہونے لگی تو ستاروں کو آنکھ کے راستے دل کے اندر اتار کر ہیٹر بند کر کے کسی خواب کی آبیاری کرنے لگے۔
اگلے دن سورج نکلنے سے پہلے اٹھنا تھا۔ کیونکہ سنا تھا ایبٹ آباد میں سورج اگر آپ سے پہلے نکل آئے تو سمجھ لیں آپ ناکام رہے۔
رات چاند تاروں کے ساتھ آنکھ مٹکے کی وجہ سے بمشکل آنکھ کھلی۔
بھاگم بھاگ شال اوڑھ کے کمرے کے سامنے والے ٹیرس پر پہنچےتو
سورج بستی کے پیچھے والے پہاڑ کی اوٹ سے آنکھیں موندیں دھیرے دھیرے اوپر آ رہا تھا۔
ہمیں ہمیشہ لگتا تھا جس دن ہم چناب میں سورج کو ڈبو کر اٹھے تھے تو ہم نے سورج کے ساتھ خوبصورتی کو منسلک کر لیا تھا۔
لیکن ایبٹ آباد میں اس روپہلی صبح سنہری سورج کو ابھرتے دیکھ کر اس سے ایک نئی محبت ہونے لگی۔
اگر آپ ایبٹ آباد میں ابھرتا سورج نہیں دیکھتے تو پلیز وہاں مت جائیے گا۔
نو بجے ناشتے کے بعد فوٹو سیشن کر کے اگلی منزل بالا کوٹ کی طرف سفر کا ارادہ کیا۔
گوگل میپ والی آنٹی یہاں بھی بہت کام آئیں اور ہم دو گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد کنہار کنارے پہنچ گئے۔
کنہار پر پہنچ کر صرف ایک بات یاد رہی۔۔۔۔
اپنی دعاؤں کی قبولیت کی۔۔
پچھلی بار کنہار سے بچھڑتے وقت جو مانگی تھیں۔
پہاڑی دریا مہربان دریا نہیں ہوتے۔ ان میں کوئی گر جائے تو وہ ڈوب کر نہیں مرتا۔ یہ دریا اپنی سرحد میں مداخلت کرنے کی پاداش میں انسان کو پٹخ پٹخ کر مارتے ہیں۔ کنہار بھی ایسا ہی دریا ہے۔ سخت نا مہربان شوریدہ سر اپنی دھن میں بہتا ہوا۔ چینختا چنگھاڑتا۔
آئڈئیلی ہمیں آگے نہیں جانا چاہیے تھا۔
پر ہم بھی بہت ڈھیٹ ہیں کہاں آتے باز۔ دریا کے درمیاں شان سے کڑے پانی کو مسلسل چیلنج کرتے بڑے پتھر پر جا بیٹھے۔
اور لگے دریا کے مالک سے مکالمہ کرنے۔
ہم نے مکالمے کے درمیان بڑی چالاکی سے فوائل پیپر میں لپیٹ کر دو تین عرضیاں بھی ڈال دیں۔
پتا تو تھا مان لینی ہیں اس نے۔
ہم نے جب کہا کتنا شوریدہ سر ہے پانی۔۔۔اور کس قدر سخت دل ہیں پتھر۔
مسکراتا سا جواب آیا۔
اور کئی لوگ ان پتھروں سے بھی سخت دل ہوتے ہیں۔
کیونکہ بعض پتھر تو ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان سے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں۔ اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ پھٹتے ہیں تو ان میں سے پانی نکل آتا ہے۔
اور کوئی خوفِ خدا سے لرز کر گر پڑتا ہے۔
پر ان دلوں پر تو رب کا کلام بھی اثر نہیں کرتا۔
ساری تماثیل آنکھوں کے سامنے تھیں۔
پتھروں سے پھوٹے چشمے بہتے دریا اور پتھروں سے بھی سخت دل۔
اس سے پہلے مجھے ہمیشہ نرم دلی سے الجھن ہوتی تھی۔ یہ کیا کہ کوئی کچھ بھی کرے کہے آپ بھول جائیں۔
لیکن ۔۔۔ اس مکالمے کے بعد القاء ہوا کہ سخت دلی بڑی بلا ہے دوستو!
کنہار پر ہم ٹوٹل ہیروئن بنے اپنی کہانی کے شیر افگن تیمور ولی آفریدی شنواری طورپکئی خان کا انتظار کر رہے تھے۔ کہ جینز کی جیب میں پڑا فون دھیرے سے تھرکا اور پھر گنگنایا۔
ہم خوش گمانیوں کی انتہاء پر۔۔
ہائے لا فون پر۔
پتھر پر پیر جما کر جیب سے فون نکالا اور سکرین دیکھے بغیر ایک ادا کے ساتھ کان سے لگایا۔
ہیلو۔
دوسری طرف اماں تھیں۔۔۔۔۔۔
گوکہ یہ جو اوپر ہم نے نکتے اٹھائے ہیں ان سے اندازہ تو ہوجانا چاہئے کہ ہمارے ساتھ مکالمہ کیا ہوا ہوگا۔
پھر بھی بتائے دیتے ہیں۔
اماں نے تشویشناک لہجے میں ہمیں بتایا کہ پورے ملک میں بلیک آؤٹ ہوگیا ہے۔
فیض آباد پررٹ قائم کرنے کے چکر میں وزارت داخلہ پورے ملک سے خارج ہوچکی ہے۔
ہم نے کرسٹلز جماتے، ٹھنڈے ٹھار پانی سے زیادہ ٹھنڈی آہ بھری۔
مذہب کے بیوپاریوں سے سیاست کے پٹواریوں تک ۔
اور وقار والوں کی بے توقیر باتوں سے عوام کی بے اختیاریوں تک۔
سبھی کچھ تو یاد آگیا۔
دل میں کسی نے چٹکی بھری کہ
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے۔
یہ نکتہ ٹور کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔
خیر ہم نے کنہار کو خدا حافظ کہا دعاؤں کی قبولیت کا یقین دل میں تھا۔ سو اتنا تو پتا ہی تھا یہاں پھر سے آنا ہے۔اور تمہارے ساتھ آنا ہے۔اس لئے بچھڑنے کی کسک سے کہیں زیادہ پھر آنے کی امید دل میں تھی۔
کنہار سے واپسی پر کسی نے بوئی ڈیم جانے کا مشورہ دیا اور ساتھ ہی اسے آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کی دوری پر بتایا۔
ہم گائیڈ کی بات پر یقین کئے اگلے ڈھائی گھنٹے بوئی ڈیم کے تعاقب میں گھومتے رہے۔
جس پر گوگل میپ  والی آنٹی نے بھی ہمارا قطعی ساتھ نہیں دیا۔
ہم گڑھی حبیب اللہ سے گزرتے خدا جانے کن رستوں پر گھومتے وہاں پہنچے۔
ہم وہاں ہرگز نہ جاتے۔۔۔۔پر کمبخت مارکیٹنگ والوں نے اس کی بھی شادی کی طرح مارکیٹنگ  ایسی کی تھی۔کہ اس کو دیکھ بنا جانا ممکن نہیں رھا تھا۔
ہمیں بتایا گیا نیلم اور کنہار کے سنگم پر بنایا گیا ڈیم ہے۔
ہم نیلم کے نیلے اور کنہار کے سبز پانیوں کی تلاش میں بہت سی وادیوں کو پیچھے چھوڑتے کسی ان دیکھے جزیرے کی بستی کی طرف چلے جا رہے تھے۔
دائیں ہاتھ آبادی تھی۔ آبادیوں کے پیچھے کنہار بہہ رہا تھا۔دریا گھروں کی کھڑکیوں سے جھانک جھانک کر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا۔ فضا میں بارش کے بعد کی ساری خوشبوئیں تھیں۔
مٹی کی خوشبو۔
مکئی کی خوشبو
چپلی کباب کی خوشبو۔
زندگی کی خوشبو۔
امن کی خوشبو۔
محبت کی خوشبو۔
مہمان نوازی کی خوشبو۔
آتی خوشحالی کے خواب کی خوشبو۔
اور تمہاری یاد کی خوشبو۔
دل میں منزل کی خواہش نہ ہوتی تو یہیں رہ جاتے ہم۔
ڈیم پر پہنچ کر شدت سے احساس ہوا۔۔۔۔
ان دیکھی منزلوں کے خواب آنکھوں میں برسائے ہم بہت سے راستوں کی دلکشی نظرانداز کر دیتے ہیں۔اور منزل پر پہنچ کر احساس ہوتا ہے۔۔۔کہ رستہ بھی بہت خوبصورت تھا۔
اور ہم آپ تو شائد زندگی بھی اسی کلیے کے تحت گزار جاتے ہیں۔
بہت سے اچھے دنوں کی آس میں بہترین دن تیاگ دیتے ہیں۔
خیر ڈیم پر پہنچے تو پتا چلا ڈیم انڈر کنسٹرکشن ہے اور سیاحوں کے لئے بند ہے۔۔
ہم نے بطور اپنے رنگ کو بطور ثبوت پیش کیا اور بتایا ہم سیاہ نہیں۔ لیکن سیکیورٹی آفیسر پر ہماری کسی التجا کا اثر نہ ہوا۔ ہم نے سڑک ہی سے دو تصویریں بنوا کر دل کو تسلی دی اور واپسی کے لئے گاڑی میں پر گئے۔اگر تو ڈیم دیکھنے کی بات کی جائے تو شائد یہ زیادہ کامیاب تجربہ نہ کہلا سکے۔ کیوں کہ ہم میدانی علاقوں والے چوڑے پاٹ کے دریاؤں پر بنے ڈیمز اور ہیڈز دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ ہمیں چھوٹا سا پہاڑی ڈیم پنجاب کے کسی دیہات کی چھوٹی موٹی ندی ہی لگتا ہے۔

ہم نے جولائی اگست کے مہینوں میں چناب جہلم پر بنے ہیڈز دیکھے ہیں جو اپنے جوبن پر کناروں سے چھلکے جاتے ہیں۔ جیسے ابھی بپھر جائیں گے۔
ہیڈ قادر آباد کی ٹربائینز کو چلتے اور پانی کو بلیڈز سے گزرتے، بلیڈز کو پانی کا سینہ چیر کر زندگی سینچتے دیکھا ہے۔ ہمیں اس کے مقابلے میں انڈر کنسٹرکشن چھوٹی جھیل والا کوئی ڈیم بہت ہی معصوم لگا۔
لیکن معصومیت اسوقت تھوڑی کم لگی جب ایک اور ویو سے ڈیم کی ایک ٹربائین چلتے ہوئے دیکھی۔

خیر واپسی پر بھوک سے آنتیں جگر دل گردے پھیپھڑے سب مل کے ہمیں بددعائیں دے رہے تھے۔ اماں کا حکم تھا شام ہونے سے پہلے میس پہنچا جائے۔ اسی لئے کھانا میس جا کر کھانے کا فیصلہ کر کے ایک جگہ چائے لینے کو رکے تو چائے والی دوکان کے ساتھ والی چھوٹی دوکان میں چپل کباب کا بورڈ پڑھا تو ٹور کے فوڈ ڈیپارٹمنٹ نے دھرنا دے دیا اور یوں سارا گروپ اس چھوٹی دوکان کے بینچ پر بیٹھا تھا۔
دوکان کیا تھی مکمل سامان حیرت تھی۔ بظاہر عام سی دوکان تندور چولہا بڑا سا توا، دو تین بڑے برتن اور پیچھے لگے بینچ۔۔لیکن پیچھے والی دیوار میں لکڑی کی کھڑکی تھی۔۔کھڑکی سے باہر تیزی سے بہتا کنہار شدید سرد ہوا اور شام کے اولین لمحے۔
کھانے کی خوشبو نے بھوک کو اتنا مہمیز کردیا کہ پھر کچھ بھی یاد نہ رہا سوائے کھانے کے۔
کھانے کے دوران۔۔۔۔۔۔بہت دھیمی آواز آئی۔
گڑھی حبیب اللہ تو نہیں آنا تھا۔
ہم: ہاں آؤٹ آف نو وے آئے ادھر۔
آواز: پتا ہے کیوں؟
ہم: ڈیم دیکھنے۔
آواز: نہیں۔
ہم: تو پھر کیوں ؟
آواز: یہ جو کھانا کھا رہی ہو نا۔۔یہ رزق کھینچ لایا ادھر۔
رب نے تمہارے لئے رکھا تھا۔ کوئی اور کیسے لے جاتا۔
ہم پر سکتہ طاری تھا۔ یوں لگا کسی نے کنہار میں غوطہ دیا ہے۔ سارے فلسفے کہیںدریا میں  بہہ گئے ۔ اور یاد رہا تو بس یہ۔۔جس کے نصیب کا رزق ہو اسی کا رہتا ہے۔ چاہے اس کے لیے بندا پلین کرے یا نہیں۔
گویا کسی کا مقدر چھین لینے کا اختیار نہیں اتارا، رب نے زمین پر۔
رب کی تقسیم پر پیار ہی آ سکتا ہے بندے کو۔ ویسے میں جب ملوں گی نا۔۔ارے نہیں بھئی اس افراتفری والے دن نہیں۔اس دن اس کا سامنا کرنے کی اوقات کہاں۔جب معاملات سیٹل ہوجائیں گے نا ہمارے درمیان۔اور نارمیلٹی لوٹ آئے گی۔ تب اس سے کہوں گی ضرور میں نے ہر موڑ پر تجھے ڈھونڈا تلاش کیا تھا۔حتی کہ وہ جو اندھے موڑ تھے وہاں بھی چپکے سے ساتھ کھڑا تھا تو میرے۔ پھر بھی جانے میں ایسی بے چین روح کے ساتھ کیسے رہی اس خرابے میں۔
نہایت لذیذ کھانا۔ اور اس پر شدید میٹھی چائے۔
کے پی والو خدا کا واسطہ ہے ود آؤٹ شوگر چائے پیا کرو۔ چینیوں کا فرسٹ ہوسٹ ہونے کا یہ مطلب کہاں ہے کہ چینی ہی سے بیڑا غرق کر لیا جائے۔
شام ڈھلے ہم دل پر افراتفری کا بوجھ لئے میس چلے آئے۔
گو کے پی میں ہمیں کہیں کوئی افراتفری یا ایمرجنسی ٹائپ سچوئشن نظر نہیں آئی تھی۔
لیکن میرا سارا شہر بند تھا۔
میرا شہر ہی کیا۔ نا عاقبت اندیشی کا مفہوم اس دن سمجھ آگیا۔
رات گئے تک بے یقینی کی صورتحال اور ہم ٹی وی پر ایٹ ایکس ایم دیکھ رہے ہیں۔ فوجیوں کا فراہم کردہ وائی فائی بھی کسی کام نہ آیا۔ اور یو ٹیوب نہ چل سکی۔
رات ڈھلی اور ہم ٹیرس پر جا بیٹھے۔ دل ملال سے بھرا تھا۔آنکھ بے توقیری کے احساس سے نم تھی۔ یہ بھی کیا کہ ہم کوئی کام بھی ڈھنگ سے نہیں کرتے۔ خاموش گفتگو جاری تھی۔ یکا یک احساس ہوا۔ دھرنے کی وجہ کیا تھی؟۔
یوں لگا کسی نے دھونکنی کا منہ اندر ڈال کر زور سے پھونکا ہے اور اندر سارا دھواں بھر دیا ہے۔ دھویں کی کڑواہٹ حلق میں۔گھل کر تلخیاں بنانے لگی تو دیوانوں کی طرح چلنے لگی۔
اب ہم محبتوں کے بھی سودے کرنے لگے ہیں۔ کس قدر سستے لوگ ہیں ہم۔
اس سنسان گھڑی میں تمہاری کال راحت جاں بنی۔
اسوقت اگر سامنے پڑے فون کی سکرین روشن نہ ہوتی تو رات کی رات کے مہیب اندھیروں پر میرا یقین پختہ ہوجانا تھا۔خیریت دریافت کرنے کی ابتدا کرنے والا بھی جنتی ہی ہوگا۔
سنو!آسمان اور میرے درمیاں چھائی دھند کو عارضی ثابت کرنے کے لئے تمہارا شکریہ۔
دھند آہستہ آہستہ چھٹنے لگی۔
گھٹن کو بہہ جانے کا رستہ مل گیا۔ دھواں کسی کی آواز کے ایک ہی کش میں تحلیل ہوگیا گو صورتحال اب بھی ویسی تھی۔ پر نا امیدی نہیں تھی۔ اور یہ کیا کم تھا۔
رات ڈھل رہی تھی۔ ہم خواب نگری کی طرف جا رہے تھے۔جہاں کے باسی محبتوں کے سوداگر نہیں۔ اور جہاں کوئی کسی کا رب سے تعلق نہیں پوچھتا۔
اور جہاں امن والے نیلے موسم میں گلابی شامیں اترتی ہیں تو آسمان انڈیگو ہوجاتا ہے۔
سنو! پرانی تہذیبوں کی کہانیوں میں انڈیگو محبت کا رنگ ہوا کرتا تھا۔۔
آؤ نا۔۔۔۔۔ہم بھی ایک تیر لے کر اپنی محبت کے آسمان کا تاک کر نشانہ لیں۔آسمان کے سینے سے رنگ بڑھتے دیکھیں جو میری بستی کے لوگوں کی آنکھ میں کاجل سا سماں جائے۔ جو میرے شہر کی ناریوں کے خوف زدہ چہروں پر غازے سا بکھر کر منظر خوشنما کردے۔
دیکھو! ایسے تو نہیں چلے گا نا۔۔۔۔انسانی درجے سے اتنا نیچے کب تک زندگی گزاریں گے ؟
دن کا احتتام اس لاؤڈ تھنکنگ پر ہوا۔ پلکیں موند گئیں۔
محبت کے انڈیگو کو تلاشنے تراشنے کی آرزو کے ساتھ پچھلا دن تمام ہوا تھا۔ صبح آنکھ کھلی تو واٹس ائپ پر پیغام ملا راستے کھل گئے ہیں۔نیا دن نئے امکانات لے کر طلوع ہوا تھا۔ سو آوارہ گردوں کی ٹولی نے پھر سے رخصت سفر باندھا۔۔گلیات مری بھوربن کی طرف۔
اس دن ٹھنڈ بھی زیادہ تھی اور بادل بھی چوٹیوں کے کانوں میں محبت بھرا کوئی گیت گنگنا رہے تھے جس کی مخبری ہواؤں میں بسی خوشبو کر رہی تھی۔
ہم سکون سے شیشے سے باہر دیکھ رہے تھے۔خدا جانے یہ صرف ہم ہیں یا اوروں کے ساتھ بھی یہ ہی معاملہ ہوتا ہے۔کہ راستوں سے عشق ہوجاتا ہے ہمیں۔
دائیں ہاتھ جنگل تھا۔۔چوٹیوں پر اگے پام ٹری۔۔ دائیں ہاتھ گہری کھائیاں۔
انور مسعود اپنی ایک خواب، جنت میں الیکشن والی نظم میں لکھتے ہیں۔
جیویں جیویں تکداں جاواں وددی جائے اکھیاں دی رشنائی۔
یعنی جیسے جیسے دیکھتا جاؤں آئی سائٹ ایمپرو ہوتی جائے۔
یہ بات گرینری یعنی سبزے کے لئے کہہ جاتی ہے۔جنت کا پتا نہیں۔ گلیات میں یہ ہی گمان گزرا دائیں ہاتھ پھیلا سبز جنگل چوٹیوں پر کہیں کہیں برف کی سفیدی اور کہیں پیلے پتوں والے درختوں کا جھنڈ۔ دل اپنی سپیڈ سے تیز دھڑک رہا تھا۔گاڑی موڑ مڑ رہی تھی۔ جنگل ہمارے دائیں بائیں آجا رہا تھا۔۔اور ہم پلکیں جھپکیں بغیر بس دیکھے ہی جا رہے تھے۔
 میرے پاس وہ لفظ ہی نہیں ہیں جو منظر کشی کر سکیں۔گاڑی میں ٹینا ثانی کی دھیمے سروں والی غزلوں اور لتا کے اونچے سروں والے گیتوں کا مقابلہ جاری تھا۔ چوٹیوں پر برف گری تھی وادی میں پیلے درختوں کا قبضہ تھا اور بھیگی سڑک پر ہم محو سفر۔
گلیات کے موڑ مڑتے ہر ہر موڑ پر زندگی کا نیا رنگ دیکھا۔ پت جھڑ ابھی پوری طرح نہیں اترا تھا۔ سو گلیات کے جنگل میں ہر رنگ موجود تھا۔
اس سے پہلے جولائی میں گلیات کا حسن دیکھا تھا۔۔ہر شئے پہ سبزہ اترا ہوا تھا۔ پہاڑوں چشمے پھوٹ پڑتے تھے۔ دسمبر کے اوائل میں چشمے نہیں تھے ان کے رستے موجود تھے۔ پہاڑوں کے درمیان سے پانی کی کاٹ سے بنا ہوا رستہ۔
ایک چشمے کا رستہ دیکھا تو دل میں درد سا جاگا۔۔ہمیں یہ درشت رویوں کی کاٹ جیسا لگا جو اچھے بھلے پہاڑ سے انسان کو کاٹ کے رکھ دیتے ہیں۔
لیکن اگلے پڑاؤ تک یہ خیالات بدل چکے تھے۔ دوسرے چشمے کے نشان تک پہنچے تو یہ ہمیں مستقل مزاجی ہمت اور امید کی کرن لگی۔۔گویا ارادہ اور عمل کا استقلال پہاڑ بھی کاٹ دیتے ہیں ہیت چاہے پانی سی ہی ہو۔ دل اسی حوصلے کی لے پر گنگنانے لگا۔ اچھی چیزوں کے رونماء ہونے پر یقین پہلے سے زیادہ ہوگیا۔
ڈونگہ گلی سے ایک ٹریک اوپر مشکپوری ٹاپ تک جاتا ہے۔ یہاں گاڑی رکی اور ہم نے بہت  لمحے اس ٹریک کو دیکھنے میں گزار دیئے۔
میرے اندر کا سپر سٹیشئس جاگ اٹھا جس نے کنہار کے کانوں میں مقبول دعائیں کیں تھیں۔ اس نے چپکے سے کتنی ہی دعائیں کر ڈالیں۔
کسی خوش کن ساتھ کی تمہارے مل جانے کی دعاؤں سے اسے بہترین بنانے تک کی۔ جانے کتنے پل راز و نیاز جاری رہے۔

دوبارہ سفر شروع ہوا تو پیچھے مڑ کر تب تک اسی ٹریک کو دیکھتے رہے جب تک نظروں سے اوجھل نہیں ہوگیا۔
دل میں جانے کیوں عجیب سا ملال جاگ اٹھا۔۔۔جیسے کسی بہت اپنے سے دور جا رہے ہوں۔
پتا نہیں یہ کیسی رمز ہے کیسا بھید ہے کہ بہت سی جگہوں پر پہلی بار جانا ہو تو لگتا ہے پہلے بھی آچکے ہیں یہاں۔۔ کسی سے مل کے لگتا ہے جیسے پہلے سے جانتے ہوں اسے اور کسی گفتگو کا حصہ بن کر گمان گزرتا ہے جیسے ایسی ہی کوئی گفتگو پہلے بھی سن چکے ہیں۔
اس منظر سے بچھڑتے سمے ہمیں بھی ایسا ہی لگا جیسے اپنا کچھ اسی منظر میں۔چھوڑ آئے ہوں۔
گاڑی سے باہر جھانکتے دوور پہاڑ کی چوٹی پر ایک اکیلا گھر نظر آیا۔۔ تنہا دور، دل نے اتنی شدت سے اس گھر کے مکین سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مجھے اس دنیا کا نہیں پتا۔۔پر جانے کیوں لگا اگر اگلی زندگی میں رب نے چوائس دی تو اس گھر میں رہنا پسند کروں گی۔۔
پہاڑ کی چوٹی پر اکیلا گھر دنیا اور اس کے جھمیلوں سے دور بہت دور۔
سنو! ایسا ہی ایک گھر بنا لیں تو کیسا ہو ؟
دور کسی پہاڑ کی چوٹی پر ایک چھوٹی سی دنیا۔
جہاں میرے کمرے کی کھڑکی سے کوئی پہاڑی چشمہ نظر آتا ہو۔ جہاں سورج بستی سے ذرا پہلے پہنچتا ہو۔۔اور واپس جاتے ہوئے وہ ذرا دیر میرے ٹیرس پر رک کر دن بھر کا احوال بتاتا جاتا ہو۔ کبھی جاتے ہوئے مجھے بادلوں کا سندیسہ دے جاتا ہو۔ اور کبھی اپنے کڑے تیوروں سے میرے اور اپنے تعلق میں تپتی دوپہریں حائل کر لیتا ہو۔
جہاں سے نیچے کو جاتے پہاڑی راستے سے چاندنی چپکے سے اندر آجاتی ہو۔
اور جب کبھی میں دل میں دھواں بھرے اس راستے پر رکھے تنہا لکڑی کے اداس بینچ پہ بیٹھی ستارے گن رہی ہوں تو چاندنی میرے بالوں میں اٹک اٹک جاتی ہو۔ اور اگر کبھی تم سے ناراض ہو کر اس راستے سے جانے لگوں تو جنگلی پھول میرا راستہ روک روک کھڑے ہوجائیں۔
گھاس میرے پیروں سے لپٹ جائے کوئی جھاڑی دامن تھام لے۔۔اور کسی چھوٹے پتھر سے پیر رپٹ جائے تم آخر ہاتھ تھام لو۔۔اور ہم اپنی دنیا میں لوٹ جائیں واپس۔

سنو!
کیا ایسا ممکن ہے ؟ میری اور تمہاری ایسی دنیا ہو ایک مکمل دنیا۔۔۔جہاں الجھنوں بھرے رشتے نہ ہوں اور جہاں دلوں میں کینہ نہ ہو۔۔
مری جا کر مال روڈ پر واک نہ کی جائے وہاں سے خواتین والی شاپنگ یعنی پتھروں والے زیورات نہ خریدے جائیں ایسا تو ممکن ہی نہیں۔ بہت سی دوکانوں میں پھرتے پھراتے شاپنگ کرتے جب بھوک سے مرنے کے قریب پہنچ گئے تو فٹ سا کھانا کھایا۔
اور یہاں بھی جتنا کھایا جا سکتا تھا اس سے زیادہ کھایا۔ پاکستان پوسٹ آفس کے سامنے فوٹو سیشن کیا پھر کشمیری چائے کے کپس پکڑے گاڑی میں آ بیٹھے۔ ابھی شام ہونے میں وقت تھا۔اور اگلی منزل بھوربن تھا۔
بھوربن پہنچ کر ایک سپاٹ کا بتایا گیا کہ سامنے دیکھنا ہے۔
سامنے دیکھا تو منظر نے دل کھینچ ہی لیا۔سورج کی ٹکیا آسمان کے آخری کنارے میں ڈوب رہی تھی۔ پہاڑ اپنی پوری تمکنت سے ساکت کھڑے تھے۔ اوس پورے آسمان اور زمین کے درمیان اپنا مقام تلاش کرتے کرتے اب ہمارے اوپر گرنے لگی تھی۔ فضا میں شدید ٹھنڈ تھی۔ اور خاموشی تھی۔
خدا جانے یہ منظر کا فسوں تھا یا تھکن کے اثرات کہ ہر شخص چپ تھا۔ سارے مسافر چپ۔ سارے پہاڑ خاموش تھے چوٹیوں پر پھیلا جنگل چپ تھا سورج خاموش اوس چپ اور ہم چپ۔۔۔
ہم چپ تھے اور منظر بولنے لگا۔ ہمارے دل سے مکالمہ کرنے لگا۔
اس خاموش منظر کو بولتے ہوئے دیکھنا ایسا انوکھا ایسا نیا ایسا خوبصورت تجربہ تھا کہ اس پر کچھ بھی قربان کیا جا سکتا ہے۔
دل میں چھپے ملال نے شکوہ کیا۔
کیسا خاموش منظر ہے ہم اس کی خاموش گفتگو کیش کرا کے اپنے لوگوں کے لئے زندگی خرید سکتے ہیں۔ مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ۔
اتنا کشٹ کون کرے۔ اپنے لوگوں کا درد کو پا لے۔۔ اس دھرتی کو دنیا میں کون متعارف کرائے گا اس کے منظروں سمیت۔۔کون ہے جو اس کے بولتے صحراؤں داستانیں سناتے دریاؤں اور گنگناتے منظروں کو لے جائے اوروں کے سامنے۔
ہم نے تو بس اوروں کو چیختا چلاتا لڑتا جھگڑتا روپ ہی دکھانے کا عہد کر رکھا ہے۔
واپسی پر۔۔۔ لتا نے تان اٹھائی یہ دل تم بن کہیں لگتا نہیں ہم کیا کریں۔ہم نے کھڑکی سے باہر پہلو میں
مچلتا دل پھیلتی شام کے حوالے  کیا اور آنکھیں بند کر کے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائی۔
ہمیں ڈر تھا اس منظر کو مزید دیکھتے رہے تو واپس نہ جا پائیں شائد۔
کچھ جگہوں پر آپ پتھر کے نہیں ہوتے آپ بس اپنی ذات کا ایک حصہ وہاں چھوڑ آتے ہیں۔
اور پھر انہیں ویرانوں جنگلوں میں بھٹک جانے کی خواہش کرتے کسی حسرت کو لیلی بنائے اس کے مجنوں بن کر اپنی زندگیوں میں دن سے رات کرتے رہتے ہیں۔
کیونکہ لٹے دل میں دیا جلتا نہیں۔۔۔۔۔ہم کیا کریں۔
ہم رات گئے واپس میس پہنچ گئے۔۔
اگلا دن ٹیکسلا جانے کا تھا۔ مگر حالات اس کی اجازت نہ دیتے تھے۔
لہذا ہم نے ٹور مختصر کیا اور اگلے دن واپسی کا سفر کیا۔
واپسی کا سفر ایک الگ کہانی ہے وہ پھر کسی روز ۔
_ختم شد_