Pages

Tuesday 20 March 2018

خواتین کا عالمی دن مبارک ہو



گن گن کر کے لفظ لکھنے والوں ان لفظوں کی کہانیاں بنانے والوں ان کہانیوں میں اوروں کی بی بیوں کو گیندوں سے تشبیہ دینے والوں کو بیبئوں کا عالمی دن بہت بہت مبارک۔ دوسروں کی شادیوں پر کسی تیسرے کی بیٹی کی تصویر لگا کر اپنے حکیموں کا پتا دینے والوں کو ان کے حامیوں سمیت آج خواتین کا دن بہت مبارک۔ اپنی اپنی دوکان چلانے کے لیے تھڑے پر کتے باندھنے والوں کو مبارک جن پر گند اچھالتے ہو آج ان کا عالمی دن ہے۔ برابری کے حقوق کی بات کرنے والیوں ۔۔ مکالمے میں ہار کر خاتون کارڈ استمال کرنے والیو ساری بی بیوں آج مبارکباد قبول کرو ۔۔ یہ تمہارا دن ہے۔
مغلظات بکنے والوں کا دفاع کرنے والوں کو نوید ہو آج ان سب کے استادوں مرشدوں کےموضوع گفتگو کا عالمی دن ہے دوستو۔
ہاں یاد آیا ۔۔۔ ان باکس والے سارے مردودوں کو آج اس دن کی مبارکباد کہ جو ان باکس میں بتانے آتے ہیں خاتون کتنی مغرور اور ایروگینٹ ہے۔
تو ان سب کو بتایا جاتا ہے کہ ایروگینس میں لپٹی خواتین کا عالمی دن مبارک۔
بیٹیوں کو محبت دے کر فیصلے کا حق اختیار آزادی چھین لینے والو! آج کا دن تمہاری محبت کے نام۔
بہنوں کو میکہ دے کر وراثت ہتھیانے والو آج کا دن مبارک۔
آج کا دن ہر اس شخص کے نام جو اپنی بات کہنے کا ڈھنگ نہیں جانتا اور میری جنس کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلاتا ہے۔ میری جنسکی طرف سے مبارکباد۔
ماؤں کو دیویاں بنا کر پوجنے اور دوسروں کی بیٹیوں پر زندگی تنگ کرنے والوں مبارکباد۔
رشتوں کے نام پر آزادی اظہار چھین لینے والوں آج کا دن تمہاری انا کو گنے کا رس پلانے آتا ہے۔ مبارکباد لو۔
بے تکلفی میں حد سے گزر جانے والی اور جوابی بے تکلفی پر برا ماننے والی خواتین کا دن ہے۔ مبارکباد خواتین۔
مخالف فرقے سیاسی پارٹی کی خاتون پر اعضاء کی شاعری کرنے والوں کو یوم خواتین کی بہت مبارکباد۔
ننھی پریوں سے بچپن زندگی چھیننے والے درندوں کے خلاف مہم میں سیاست گھسیٹنے والے مکروہ لوگو آج کا دن مبارک۔
اپنی بہو بیٹیوں پر بات آنے پر معافی مانگنے یو ٹرن لینے دوبارہ اسی روش پر آنے والو۔
ایسے مکروہ کرداروں کو ان کی زبان میں جواب دینے والو
تم دونوں عالمی یوم خواتین مبارک۔
آج کا دن ہر اس شخص کے نام جو اپنی بات کہنے کا ڈھنگ نہیں جانتا اور میری جنس کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلاتا ہے۔
میری جنس کی طرف سے مبارکباد۔
یوم خواتین مبارک۔

کھانا خود گرم کر لو



خوامخواہ بولنے، خومخواہ لکھنے کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے پیش خدمت ہے ہماری خامہ فرسائی۔
فیمنسٹ آنٹیز اسے ایسے بھی پڑھ سکتی ہیں کہ اپنے حقوق کی پہچان کی طرف پہلا قدم اور چند گزارشات جنہیں حکم سمجھا جائے تو اچھا ہے۔

ہوا کچھ یوں کہ ملین مارچ کے شبھ موقع پر پلے کارڈ پر لکھا مطالبہ پڑھا تو ہنسی آئی۔ اور اس کی جسٹیفیکیشن پر بنی وڈیو دیکھ کر غصہ آیا۔
ایسے موقع پر پنجابی میں ہم نانی کے کھسم والی مثال دیتے ہیں۔ لیکن یہاں بیان نہیں کی جا سکتی آخر  ایک عدد فیمنسٹ ہیں ہم بھی۔ اورنانی سمیت ہر کسی کو کھسم کرنے نہ کرنے کے حق کو اس کا بنیادی حق اور آزادی سمجھتے ہیں۔
ساتھ ہی ہمارا یہ خیال بھی ہے  کہ اگر کوئی مذکورہ بالا محاورے میں موجود نانی والا کام کرنا ہی نہیں چاہتا زندگی میں کبھی تو  اسے یقینا اُس صورتحال کے مسائل کا ادراک نہیں ہوسکتا ۔
جب تک جوتا پہن نہ لیا جائے کیل کی پوزیشن، چبھن کا اندازہ ممکن ہی نہیں۔
خیر یہ تو تھی ضمنی بات۔
اصل مدعا تو آپ نے بیان کردیا کہ نہیں کرنا کھانا گرم تو ٹھیک ہے نا۔ آپ کی مرضی ہے اس سے کس کو اختلاف ہوسکتا ہے۔ آپ نے نہیں کرنا کھانا گرم تو نہ کریں۔لیکن جو کرنا چاہتی ہیں ان پر اپنا نظریہ کو امپوز کر رہی ہیں بھئی۔ آپ کا جسم آپکی مرضی ہوسکتی ہے۔ تو دوسری خواتین کا گھر ان کی زندگی بھی ان کی مرضی ہوسکتی ہے۔
آپ اپنے جسم کا اچار ڈالیں مربہ بنائیں ممی بنائیں یا میوزیم میں رکھوائیں مجھے اعتراض نہیں۔ لیکن ساتھ ہی مجھے بھی یہ حق دیجئے۔ یہ ہی آزادی دیجئے۔
مجھے آپ کی فر والی ٹاپ اور منی سکرٹ پر اعتراض نہیں تو آپ کو میرے سٹالر سکارف پر کامنٹ کرنے کا حق اختیار کس نے دیا؟
اس غلط بلکہ خوش فہمی سے نکلیے کہ آپ سارے ملک کی ٹوٹل خواتین کی اکلوتی نمائندہ ہیں۔
آپ کے مسائل ہوں گے یقینا حقیقی مسائل ہوں گے۔ ممکن ہے مردوں کی ڈیلنگز آپ کے ساتھ فئیر نہ رہی ہوں۔ ممکن ہے آپ رد عمل کی نفسیات کا شکار ہوں۔ عین ممکن ہے آپ کا مدعا بالکل ٹھیک ہو۔
لیکن یہ بھی تسلیم کریں کہ بہت سی خواتین ایسی بھی ہیں جو ردعمل کی نفسیات کا شکار نہیں ہیں۔ جن کے ساتھ باپوں خاوندوں بھائیوں کے روئیے بہت اچھے ہوں گے۔ اور کچھ ہم سی۔۔۔یعنی آنسہ سحرش عثمان جیسی بھی ہوں گی جو یہ سمجھتی اور اس کا برملا اظہار کرتی ہیں کہ زور آور کی کوئی جنس نہیں ہوتی زورآور بلا امتیاز جنس استحصال کرتا ہے۔
تو یہ ساری خواتین کیوں آپ کے نظریات کو تسلیم کرلیں اور کیسے؟
صرف اس لئے تسلیم کر لیا جائے کہ آپ ایک انتہا کے خلاف لڑتے ہوئے انتہاء پسند ہوگئی ہیں۔
آپ کی ملائیت صرف اس لئے تسلیم کرلی جائے کہ آپ مذہبی ملائیت کے خلاف لڑ رہی ہیں؟
آپ کو خواتین کے حقیقی مسائل کا ادراک ہے بھی؟ آپ کے لیے مائیکرو کا بٹن دبا کر کھانا گرم کرنا مسئلہ ہے۔
جبکہ اصل مسئلہ آپ کی میڈ کو درپیش ہے جس کے بچے کی پیدائش پہ آپ اسے پیڈ تو کیا ان پیڈ لیو بھی دینے کو تیار نہیں۔ آپ اسے نکال کر دوسری میڈ رکھ لیتی ہیں یہ کہتے ہوئے کہ اس کا تو ہرسال کا یہ کام ہے۔
خاتون کا مسئلہ سمجھنا ہے تو سارے پرائیویٹ اداروں میں کرسیوں پہ بیٹھی خواتین کو دیکھیں جو دو دو ہفتے ایک ایک مہینے کا بچہ نانی کے پاس یا ڈیئر کئیر سینٹر میں چھوڑ کر کرسیوں پر بیٹھی اکنامک انڈیپینڈینس کی لوری سنا سنا کر اپنی ممتا مارتی رہتی ہیں۔
مسائل کیا ہوتے ہیں کبھی کھیتوں میں کام کرتی اس خاتون سے پوچھیں جو نو مہینے ریگولر اور تین دن پہلے پری آب چیک اپ کے لیے کسی مہنگے ہسپتال کے بستر پر پڑی نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ اس لئے پریشان ہوتی ہے کہ کٹائی کے دنوں میں بچہ ہوگیا تو کتنے دنوں کا حرج ہوجائے گا۔
اس خاتون سے مسائل پوچھئے جو ایم ایس سی فزکس بیٹی کے لیے رشتہ ڈھونڈتے ہوئے انٹر فیل لڑکے کو کنسیڈر کر رہی تھی۔
وہ سارے مسائل بھی جانیے جو ہر روز لڑکیوں کو کالج یونیورسٹی جاتے ہوئے درپیش ہوتے ہیں۔
اس نفسیاتی ٹارچر کا حل ڈھونڈیے جو پانچ پانچ سال کی بچی کو یہ کہہ کر دیا جاتا ہے کہ اگلے گھر جا کر کیا کرنا ہے۔ اور یہ ٹارچر کوئی اور نہیں اردگرد موجود خواتین ہی دیتی ہیں۔
مسائل ہی حل کرنے ہیں،انہیں مضبوط ہی بنانا ہے تو اس سوچ کی نفی کیجئے خاتون باہر نکل کر ہی مضبوط ہوتی ہے کام کرکے پیسے کما کر ہی مضبوط ہوتی ہے خاتون۔
گھر بیٹھی خواتین کے کام کو کام کنسیڈر کیجیے۔ انہیں اپنے بل پہ مضبوط بنانے کی کوشش کیجئے۔ اکنامک انڈیپینڈینس ہی دلانی ہے تو نکاح نامے میں شقیں ڈلوائیے نان و نفقے والی نکاح جیسے سوشل کانٹریکٹ میں سول کورٹس کی شمولیت پر بات کیجئے۔
گارنٹر کی قانونی حیثیت پر بات کیجئے۔
لڑکی کو نکاح میں اپنا وکیل خود چننے کی آگاہی دیجئے۔
کیوں۔۔
کیونکہ مجھ سمیت بہت سی لڑکیاں خواتین آپ کی طرح اس انسٹینکٹ کا انکار نہیں کرتیں۔ فطرت سے بھاگنے کا نہ کوئی شوق ہے نہ خواہش۔
ہم شادی کے معاشرتی تصور پر بات کرسکتے ہیں اس پر تنقید بھی کی جا سکتی ہے۔ لیکن سوکالڈ آزادی کے لیے فطرت سے بھاگنے کا نہ ہمیں شوق ہے نہ دلچسپی۔
 مسائل ہیں، حقیقی مسائل ہیں گھمبیر بھی میری آپکی جنس متاثر ہورہی ہے  لیکن یقین کیجئے جس طرح ایک فیصد سے بھی کم لوگ گرم کھانے پر مارتے پیٹتے ہیں بالکل اسی طرح ایک فیصد سے بھی کم خواتین صرف کھانا گرم کرنے کی بات پر اوفینڈ کرتی یا ہوسکتی ہیں۔
رہ گئی بات جینڈر رول ڈیفائن کرنے کی تو کیا بڑی بات ہے؟ آپ نہ مانیے اس ڈیفینیشن کو۔ آخر آپ سوشیالوجی کے پرسپیکٹو میں فیمینزم کو بیان کرتی ڈیفینیشن کو بھی تو نہیں مانتی ہوں گی نا۔ آپ جیسی سوڈو فیمینسٹ اس کو زمینی حقیقت ہی سمجھے گی کانفلکٹ تھیوری تو ماننے سے رہی۔
تو کہنا یہ ہے کہ میں آپ کے فیمینزم میں نہیں گھستی آپ ہمارے ریلزم میں مت گھسیے۔
پیس فل کو ایگزسٹنس کہتے ہیں اسے۔
اور اگر مقدمہ لڑنا ہی ہے جنس کا تو آئیے رئیل گراونڈز پہ لڑتے ہیں اپنی بیٹیوں کو مضبوط بنا کہ۔
انہیں فطری اور نارمل زندگی جینے کا حوصلہ دے کر۔کیونکہ فرار کوئی حل نہیں ہوتا۔
اپنی بیٹیوں کو آزادانہ اور مشکل فیصلے لیتے دیکھ کر ان کے لیے سپورٹیو ہو کر۔ تعصب کے دائرے کا بیل بننے سے بچا کر۔
یہ کہنا کہ کام ہی کرانے ہیں تو میڈ سے شادی کر لیں انتہائی غلط بات ہے کیونکہ میڈ بھی ایک ورکنگ لیڈی ہوتی ہے۔ اکنامک انڈیپینڈنس کا شکار۔
اگر یہ سب نہیں کرنا۔۔۔ تو پھر ایک مفت مشورہ لیجئے۔۔
سن لائٹ میں ڈی ایم جی ایم کی ڈرائے بیس اور میڈونا آف لنڈن کا سن بلاک استعمال کرنے کا۔
امید ہے برا نہیں مانیں گی۔
کھانا کھانا ہوا تو گرم کر لیجئے گا۔۔۔ میں تو نہیں کروں گی باس۔

خود کلامی

سنو۔
پہلے بھی کہا تھا پھر کہتی ہوں۔ہر اچھا برا فیز کچھ نہ کچھ سیکھا کر جاتا ہے۔
معلوم ہے میں نے کرب کے اس دور میں کیا سیکھا تھا؟ کہ کوئی رشتہ کوئی تعلق مستقل نہیں ہوتا۔
مجھے معلوم ہے یہ مشکل تم پر آگاہی کے نئے دروازے کھولے گی۔ اب تم نے کہنا ہے آگاہی بھی کرب ہے۔
ہاں تسلیم آگاہی بھی کرب ہے۔ مگر جہالت سے کم تر درجے کا۔
پتا ہے کیسے ؟
آگاہی کا کرب اپنے آپ پر بیتتا ہے۔ شعور کی آگ جلا کندن بنا دیتی ہے۔
شعور وہ کیمیا دان ہے جو مٹی کو پارس کردیتا ہے۔
اور جہالت کی تکلیف سامنے والے پر مخاطب پر گزرتی ہے۔
اور اس کی تپش اس کے بی ہولڈر کو جلا کر خاک کردیتی ہے۔
کبھی اناؤں کے گہرے پانیوں میں کبھی اختیار کے اندھے گڑھوں میں۔
کبھی موقع ملے تو تاریخ کے قبرستان کھگالنا تمہیں ایسے بے شمار فرعون ملیں گے جو وقت کے سینے میں دھڑکن کی مانند ناگزیر سمجھتے تھے خود کو۔ اور جب وقت پھرا تو یہی لوگ اپنا نشاں ڈھونڈتے رہے داستانوں میں۔
سنو یہ سخت مرحلہ ہے۔۔مجھے معلوم ہے لیکن یہ تمہیں کندن بنانے آیا ہے۔
حوصلہ مت ہارنا۔
خود کو اس لمحے کا قیدی مت بنانا۔۔
معاف نہیں کرنا نہ کرنا تمہاری چوائس ہوگی۔۔البتہ بھول جانے کی کوشش کرنا۔
یاد رکھنے سے زخم رہے رہتے ہیں۔اور طاقت کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
سنو یہ وقت بھی گزر جائے گا۔

Monday 5 March 2018

کیوں ٹھہر گئی دل میں اُس قیام کی آہٹ



جب چاند بھی کھڑکی سے باہر ڈرا سہما سا ٹنگا تھا جب کھڑکی کے پاس کرسی پر بیٹھی ہوئی کے لیے چاندنی بھی فسوں جگانے سے انکاری تھی۔ اس رات میرے کمرے میں صرف ایک زندہ چیز تھی۔ کمرہ ہی کیا کائنات کی تمام وسعتوں میں میرے لیے زندگی کا مفہوم بس میری بک شیلف پر رکھی کتابیں تراش رہی تھیں۔ وہ کتابیں جن پر تمہاری پوروں کا لمس ابھی زندہ تھا۔ کہیں جلد پر دو انگلیوں سے کھینچی لمبی لکیر روشنی کا سفر طے کر رہی تھی تو کسی کتاب کے اندر مڑا ہوا کوئی صفحہ شہادت اور انگھوٹھے سے پکڑے جانے پر نازاں تھا۔ کسی صفحے پر جگمگاتے لفظ اس بات کی غمازی تھے کے تم نے پڑھتے پڑھتے بے دھیان ہو کر ان پر ہاتھ رکھ دیا ہوگا۔

سنو وہ میرا ہاتھ ہوتا تو لفظ گھٹن سے مر جاتے۔ وہ تم تھے جو گھٹن سے بھی لفظ نکال لیتے ہو۔
تمہاری پوروں کا یہ لمس میرے دل پر دستک کی صورت بھی محفوظ ہے۔
جب میں احساس کی شکستگی پر خائف سارے آنے سے خفا تھی تو تم تھے جو دل پر دستک دیے اندر چلے آئے تھے۔
دستک پر اونہوں سن کر بھی تم نے ہار نہیں مانی تھی۔
میری روح میں تمہاری روح ایسے حل ہوگئی ہے جیسے پانی میں کسی نے نمک گھول دیا ہو۔ اب اس میں کوئی بھی ذائقہ ملایا جائے نمک کا، ذائقہ آتا رہے گا۔
دل کی سرزمینوں پر بوڑھے برگد کی طرح ایستادہ وجود ہو۔ جس کی جڑیں اتنی گہری اور وسیع رقبے پر پھیل چکی ہیں کہ اب اگر تم یا، میں جڑ در جڑ بھی اسے کاٹنا چاہیں تو سینکڑوں جڑیں کاٹنی پڑیں اور کوئی ایک آدھی پھر بھی اندر رہ جائے گی۔ دوبارہ سے کونپل اس سے کلی پودا اور درخت بننے کو۔

جب احساس کی موت پر میں دعا پر بھی یقین کھو بیٹھی تھی تب تم تھے جس نے دوا کی تھی حرف تسلی سے۔ دعاؤں پر یقین لوٹانے پر کوئی کیسے سپاس گزار ہو؟ سنو فراحی کشادگی میں کی جانےوالی بے پناہ چیئریٹی شائد وہ معنی نہ رکھتی ہو جو تنگ دستی کا ایک روپیہ کرتا ہو۔ کرب کے دور میں تمہارا لہجہ میرے اندر پلتے جڑ پکڑتے پروان چڑھتے زہر کا واحد تریاق تھا۔ بالکل ایسے جب کتابوں میں موجود ساری اچھی باتوں پر سے میرا ایمان اٹھ گیا تھا جب لفظوں کے گورکھ دھندے سے اکتاہٹ اپنے عروج پر تھی جب مجھے آسمانی فیصلے بھی زمینی 147سازشوں148 کا حصہ لگنے لگے تھے تم نے اس دور میں ساتھ دیا۔ اس دور میں میری سماعتوں پر اپنے لہجے میں بسے الہاموں کو اتارا۔ کرب کے اس دور میں تمہارے وجود کے گہرے رنگوں نے میری روح کی بے رنگی ڈھانپ لی تھی۔ میرے لہجے کی خفگی ختم کرنے کے لئے تمہارے لمبے لمبے فلسفے اندر سلگتے دل پر پھوار کی طرح برستے رہے اور تم نامحسوس طریقے سے اندر بسی ناراضی نکالتے رہے۔

سنو! مجھے لگتا تھا اندر ایک شعلہ ہے بھڑکتا ہوا میرے مزاج سے میل کھاتا جو میرے اندر باہر کو جلا کر بھسم کردے گا۔
لیکن اس دن جب سفید گلابوں کی کیاری کے پاس کرسی پر بیٹھے میں خلاوں کے سفر پر 147روانہ148 ہونے لگی تھی اور تم نے کافی کے دو مگ درمیان میں رکھتے ہوئے کہا تھا کہہ دو۔ ۔
تمہیں معلوم ہے کیا ہوا تھا ؟ میں نے کافی کے مگ میں آنکھیں کیوں گم کرنے کی کوشش کی تھی۔ سنو اس دن احساس ہوا تھا کہ اندر شعلہ نہیں جل رہا اندر تو سیہ پارہ ہوتا ہوا ایک انگارہ تھا ہے جو مسلسل سلگ رہا ہے اور اس سے اٹھتا دھواں میری آنکھوں میں چھبنے لگا تھا۔ میں نے اس چھبن سے گھبرا کر مگ میں منہ چھپانا چاہا تھا۔

تم کہتے ہو مجھے بھی اداس کردیتا ہے اپنے نظریات پہ قائم رہنا تو کیا ہوا؟ نظریات پہ جینے کی قیمت اداسی ایسی بری بھی نہیں۔
کیا کیا جائے۔ ۔ ۔ یہ بھرم بھی بڑی ظالم شئے ہوتی ہے اس کو قائم رکھنے کے چکروں میں خدا جانے کہاں کہاں کیا کیا گوارا کرنا پڑتا ہے۔ وہاں جہاں چینخنے کا چلانے کا موقع ہوتا ہے وہاں مسکرا کر چپ کر جانا پڑتا ہے۔ جہاں سامنے پڑی ہر شئے تلپٹ کردینے پر جی پوری طرح آمادہ ہوتا ہے وہاں چپ چاپ ہاتھ سینے پہ باندھے اٹس اوکے کہہ دینا پڑتا ہے۔ اور وہاں جہاں اجارہ داروں کے خلاف اندر کا وحشی آمادہ برجنگ ہوجاتا ہے تب اس کی سونتی ہوئی تلوار کو نظر انداز کرکے جگہ چھوڑ دینی پڑتی ہے۔
اس ایک بھرم کو قائم رکھنے کو۔
لیکن برا ہو تمہارے اندر لگی اس تیسری آنکھ کا جو میری آنکھ میں در آنے سے بھی پہلے اس آنسو کو سمجھنے دیکھنے سپیس دینے پر تیار ہوجاتی ہے۔
اور بھلا ہو اس ظرف کا جو میرا بھرم ٹوٹنے نہیں دیتا۔

سنو! تم ایک عجیب شخص ہو ٹوٹل عجیب، تم وجدان کی روشنی سے منور بے ریا حقیقت پسند ہو۔ جو خواب میں بنایا تعلق بھی نبھاتا ہے۔
تم کہتے ہو مجھے بھی اداس کردیتا ہے اپنے نظریات پہ قائم رہنا تو کیا ہوا؟ نظریات پہ جینے کی قیمت اداسی ایسی بری بھی نہیں۔ تمہارے خیال میں مستقبل مشکل ہو سکتا ہے۔ دیکھو میں متفق نہیں تم کچھ سال پہلے بھی تو اسی جمود کا شکار ہوئے تھے نا؟ جب پرانے قلعہ میں گھومتے تم سے وہ ٹکرائی تھی۔ جو اتفاقی ٹکر پر گھورنے کی بجائے بے ساختہ ہنس دی تھی اور تم دوڑے دوڑے خول میں جا گھسے کہ اس کی ہنسی سے ڈر گئے تھے تمہیں لگا تھا اس کی ہنسی تمہارے وجود کو تحلیل کردے گی۔ وہ تمہیں کیمسٹری کے کسی ایکسپیریمنٹ کی مانند مختلف عناصر کا مرکب بنا کر کسی دن یونہی لیب میں چھوڑ کر چلی جائے گی۔ اور تم آنکھوں میں وحشت لئے آنے والے زمانوں میں غیر فعال مادے کی صورت پڑے پڑے فنا ہوجاؤ گے۔

پھر کیا ہوا؟ پرانے قلعے میں کسی آوارہ روح کی طرح پھرتی وہ چنچل اندر سے تاریخ کی کتاب کی طرح گہری نکلی نا ؟ وہ جس نے تمہیں موٹروے پر جاتے ہوئے ٹوکا تھا کہ کھڑکی سے باہر دیکھو اور اسوقت جب تم نے باہر دیکھتے ساتھ ہی منظر کیمرے میں قید کیا تھا تو جانتے ہو کیا کہا تھا ؟ تم نے کہا تھا خوبصورت منظروں کے لیے سفر کچھ وقت کو روک بھی دیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
سنو اب بھی ایسا ہی ہے۔ اب بھی ماضی کی طرح تمہارا مستقبل سے متعلق رویہ منفیت پر مبنی ہے۔
شاعر کہتا ہے
سنو ایسا نہیں کرتے
سفر تنہا نہیں کرتے۔
حالانکہ میں اس سے متفق نہیں کبھی کبھی سفر تنہا بھی کرنا چاہیے۔ پر پھر بھی کہتی ہوں سنو راہ میں آنے والی رکاوٹوں کے خدشوں کے پیش نظر تو منزلیں کھوٹی نہیں کی جا سکتی نا۔
اسے خود غرضی کہو یا کچھ بھی۔ پر سن لو تمہیں اداس دیکھنا میرے اندر کے انسان کی برداشت سے باہر ہوجاتا ہے۔ تمہاری اداسی پر میرے اندر کوئی تڑپ جاتا ہے۔ مجھ پر اس اداسی کا سرا ڈھونڈنے اس ڈور کو سلجھانے کی دھن سوار ہوجاتی ہے۔

تم کو بے یقینی کا شکار دیکھنا ایک مشکل کام ہے۔ میں نے بے یقینی کے پوائنٹ آف سیچوریشن پر تمہیں بے یقینی کے کرسٹین توڑتے انہیں امید کی آنچ سے پگھلاتے دوبارہ یقین بناتے دیکھا ہے۔
تم کو بے یقینی کا شکار دیکھنا ایک مشکل کام ہے۔ میں نے بے یقینی کے پوائنٹ آف سیچوریشن پر تمہیں بے یقینی کے کرسٹین توڑتے انہیں امید کی آنچ سے پگھلاتے دوبارہ یقین بناتے دیکھا ہے۔ اب میں یہ کیسے مان لوں وہی بے یقینی تمہیں گھیرے ہوئے ہے۔ ؟ میں غیر انسانی توقعات کا بوجھ نہیں ڈال رہی تم پر۔ میں بس یہ چاہ رہی ہوں کہ تمہارے اندر غیر مشروط محبتوں پر ایمان کی صورت یہ یقین بھی اتر جائے کہ زندگی پر بدگمانیاں مستقبل کے خوف محبتیں نگل جایا کرتے ہیں۔
تم بس محبت زندہ رکھنے کا امید جگانے کا فن زندہ رکھو تم زندگانی کے سارے خوشنما امکانات کے در وا ہوتے دیکھو گے۔
کیونکہ یہ ہی زندگی ہے۔ ۔ ۔ دن سورج کا ہے تو رات بہر صورت چاند ہی کی ہونی ہے۔ تنگی کے دامن سے لپٹی ہوئی آسانی اور جنگ کے بدن سے پیدا ہوتا امن۔ سنو یہ ہی زندگی ہے۔ ۔
بھیگی آنکھوں سے مسکراتی ہوئی۔

بارش کے بعد نکلنے والی دھنک جیسی۔ جس کے الٹے لوپ پر چلتے ہوئے ایک سیارے سے دوسرے پر جانے کی فینٹسی لئے بہت سے تخیل زندہ ہیں۔ اور تخیل کا نہ مرنا ہی تو انسان ہونے کی علامت ہے۔ جب انسان کسی بھی صورت اندر کا تخلیق کار مرنے نہی دیتا۔ جب وہ باہر کی نفرت کسی کردار کو تراش کر نکال لیتا ہے اور جب کوئی میسر نہ ہو تو وہ خود سے گفتگو کر کے خود زندہ رکھ لیتا ہے۔ تو وہ ثابت کردیتا ہے کہ انسان مر سکتا ہے ہار نہیں سکتا۔ (ارنسٹ ہیمنگوے)
سنو!تم میری نفرتوں کے دور کی محبت ہو۔ کرب کے زمانے کا سکون ہو۔ بقول شاعر آفتوں کے دور میں چین کی گھڑی ہے تو۔

تبصرہ

#رین_کوٹ
ایک بہترین انڈین آرٹ فلم۔
جس کے لمبے لمبے ڈائیلاگز مشرقی معاشرے کی بھرم قائم رکھنے جیسی سوشل نارم کو بہت ہی خوبصورتی سے بیان کرتی ہے۔
یقینا او ہنری چونکا دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی داستاں سے متاثر یہ فلم داستاں گو کا ہی انداز لیے ہوئے ہے۔
ایشوریہ کی خوبصورتی کے ساتھ ڈائلاگز ادا کرنے کے انداز جس میں وہ بھولی بھالی گاؤں کی لڑکی نظر آتی ہے خوبصورتی تخلیق کرتی ہے۔اور اس پر پس منظر میں مسلسل بارش۔۔۔۔گویا جام دو اور دونوں ہی دو آتشہ۔۔۔
خیر مجھے تو بہت اچھی لگی فلم۔
منطقی انجام والی فلمیں پسند کرتے ہیں تو اینڈ سے مت دیکھیں۔
اجے دیوگن بھی بس ٹھیک ہی لگ رہا تھا۔۔خدا جانے کاجل کو اس میں نظر کیا آیا۔۔
خیر فلم اچھی ہے گانے ڈانس کچھ بھی نہیں
ب گلزار ہے۔۔اپنی نظم اور آواز سمیت۔۔جادو جگاتا ہوا۔
مسحور کرتا ہوا۔
سیدھی سادھی کہانی ہے بچھڑی نا آسودہ محبت کی۔۔زندگی کی بھرم کی لحاظ کی۔
دیکھنا چاہیں تو ٹورنٹ پر لنک مل سکتا ہے۔

تبصرہ فلم


جنگ ایک انسانی المیہ ہے۔
اور یہ المیہ زمین پر انسان کی۔معلوم تاریخ جتنا ہی پرانا ہے۔
جنگ اور اس کی ہولناکیوں کوفلمانا ہمیشہ سے فلم سازوں کی دلچسپی کا موضوع رہا ہے۔
ویت نام یو ایس ایس آر اور بعد ازاں افغان طالبان کے اوپریسڈ پولیٹیکل سسٹمز کو دنیا تک پہنچانے میں واحد کردار امریکن شوبز انڈسٹری نے ادا کیا۔
پراہیگنڈا سیٹنگ اور اوپینئن میکنگ کی اس سے اچھی مثال نہیں ملتی۔
یو ایس ایس آر کے پولیٹکل سسٹم، مارکسسزم اور کولڈ وار پر بنائی جانے والے ساری فلمیں دیکھنے والے کو یہ بتانے سمجھانے کے لیے بہت ہیں کہ اس دنیا کا واحد نجات دہندہ شری بہادر امریکہ ہے۔
اور یہ امریکہ ہی ہے جس نے ہر قوم کے پیسے ہوئے طبقات کی مدد کی۔
فرسٹ دے ِکل مائے فادر بھی ایسی ہی فلم ہے۔
جو کمبوڈیا کے انقلاب پر بنائی گئی فلم ہے۔
یاد رہے یہ فلمائی نہیں بنائی گئی فلم ہے۔
طاقت کے توازن کے بگڑنے سے دنیا جن مسائل کا شکار ہوتی ہے جنگ ان تمام مسائل کا حل سمجھی جاتی ہے۔ حیرت انگیز تو ہے لایعنی بھی لیکن یہ دنیا ہے اور یہاں کا،اصول یہ ہی طاقت کے استمال کو روکنے کے لیے طاقت استمال کرنا پڑتی ہے۔
فرسٹ دے کلڈ مائے فادر ایک فوجی کی فیملی کے گرد گھومنے والی فلم ہے۔ جسمیں ایک پانچ سالہ بچی جنگ انقلاب کے متعلق اپنے تاثرات بتاتی ہے۔
جنگ کسی بھی شخص سے بچپن اور زندگی چھین سکتی ہے۔
اس فیملی کے ساتھ بھی یہ ہی ہوا۔ ہجرت گھر بار چھوڑنا اپنوں کا بچھڑنا بھوک نا انصافی انقلابی اشرافیہ کے ظلم اور شناحت چھپا کر جینا۔ بے گھروں کے کیمپس کی زندگی بیماری یہ سارے المیے ایک جگہ جمع دیکھنا ہوں تو یہ فلم دیکھ لیں۔
اس سے متفق ہونا نہ ہونا الگ بات ہے اور کسی بھی قوم پر انڈیجنس لوگوں کی حکمرانی اور حق حکمرانی سے انکار ممکن ہی نہیں۔
لیکن احساسات کو سمجھنے حساسیت سے بے حسی کا سفر اورسروائیول کی جنگ۔ خوبصورتی سے دکھائے گئے ہیں اس میں۔
انتقام اور جنگ کی نفسیات سمجھنے کے لیے عمدہ فلم ہے۔
پروپیگنڈا کی اس دنیا میں کسی کو ولن پینٹ کرنے کے لیے دو اڑھائی گھنٹے بہت ہیں۔یہ فلم اسی پراپیگنڈا کی ایک کڑی ہے۔
جس کی زد پر کبھی فیدل کاسترو کبھی لینن کبھی بن لادن اور کبھی ملا عمر ہوتے ہیں۔اوپینین میکنگ شائد اسی کو کہتے ہیں بم بھی برساؤ مظلوم بھی بن جاؤ۔
گالی بھی دو اور پوتر بھی بن جاؤ۔نوٹ یہ سطر مستند پٹواری حضرات کے لیے قطعی نہیں لکھی گئی۔۔بس پروپیگنڈا ٹول بتایا ہے ایک۔

تبصرہ


اگر آپ نے ابھی تک انیس سو ساٹھ میں ریلیز ہوئی وی فلم سائیکو نہیں دیکھی تو یقین کیجیے آپ ایک عمدہ فلم سے اپنے آپ کو محروم رکھے ہوئے ہیں اینتھنی پارکنز Jeanet Leigh اورAnthony parkins کی خوبصورت فلم جس کا پہلا ہاف مس جینٹ اور دوسرا اینتھنی پارکنز کی جاندار ایکٹنگ کے نام۔
ایک گھنٹہ اڑتالیس منٹ کی یہ فلم کہیں پر بھی دیکھنے والے کی توجہ منتشر نہیں ہونے دیتی۔ دلچسپ اور مربوط انداز سے فلمائی گئی یہ ایک سسپینس فلم ہے۔ جو کہ سسپنس ہونےکے باوجود اگلے سین پر جمپ کرنے پر نہیں اکساتی بلکہ چل رہے سین کی جزئیات پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
فلم کا آغاز ایک مالی طور پر غیر مستحکم اوکے بروکن فیملی کے فرد جان گییون کے ڈائلاگز اور اداکاری سے ہوتا ہے اور اختتامی ایکشن بھی جان گییون کے حصے ں ں آتا ہے۔ لیکن انہیں آپ فلم کا ہیرو نہیں کہہ سکتے۔
فلم کا پہلا ہاف ایسی لڑکی کے گرد گھومتا ہے جو اپنے آفس،کے چالیس ہزار ڈالرز سمیت شہر سے باہر کی طرف محو سفر ہے۔
اور اگلا ہاف ایسے لڑکے کے گرد جو اپنی ماں سے شدید محبت اور شدید نفرت کرتا ہے وہ بھی ایک ساتھ۔
محبت اور نفرت کے اس امتزاج کا انجام تو آپ کو فلم دیکھ کر ہی پتا چل سکتا ہے۔
یہاں یہ بتا دوں کہ ہنگامے میوزک بڑے کرداروں اور گلیمر پر مبنی فلمز پسند کرنے والے لوگ اس فلم کو دیکھ کر مایوس ہو سکتے ہیں۔ البتہ ضروری "گرم مصالحہ" ڈالا گیا ہے فلم میں۔
۔

کسی بھی عمدہ حساس موضوع کا نیست مارنا کوئی انڈین فلم میکرز سے اچھا نہ جانتا ہو گا۔ #تنو_ویڈز_منو_ریٹرنز بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
اگر آپ نے یہ فلم نہیں دیکھی تو اپنے رب کا شکر ادا کر بھائی۔۔ اور اگر دیکھ رکھی ہے تو میں آپ کے غم میں برابر کی شریک ہوں۔
کامن سینس سے عاری اس فلم پر اپنی زندگی کے پورے بیس منٹ ضائع کرنے پر میں شرمندہ ہوں۔
بی بی خود شرمندہ ہے۔۔۔
ایستھٹک سینس کا قاتل زندہ ہے۔۔
جی وہی اس،فلم کو بنانے والا۔