Pages

Sunday 23 December 2018

امبانی شادی سماج اور ہم۔




پچھلے کچھ ہفتوں مس امبانی کی شادی کا غل ہے۔ غل اس لئے کہ جب بھی نیوز چینل لگایا جائے۔ مس امبانی کی۔نیوز یو ٹیوب بار بار اپڈیٹیس دے رہی کہ کہیں ہم کچھ مس نہ کردیں۔
ایک میگزین پڑھا کرتے ہیں ہم اس میں فلمی ستاروں کی خبریں بھی آتی ہیں پچھلے تین ہفتوں سے وہاں امبانیوں کا قبضہ ہے۔ اور کارڈ سے لے کر چارٹرڈ طیاروں تک ہر شئے کی وڈیوز اور تصاویر تک ہم تک واٹس ائپ کے ذریعے برابر پہنچتی رہی ہیں۔ ہر قسم کے تبصروں اور تجزیوں کے ساتھ۔
اس سارے ہنگام میں جو تبصرہ سب سے دلچسپ اور جامع تھا وہ ایک مس عثمان نے کہاکہ "لگدی فیر وی غریب پئی اے"
لیجئے ابا کا اتنا خرچا کرا کے ساڑھے چارسو کڑوڑ کا گھر لے کر جہیز میں خاتون پھر بھی غریب لگ رہی تھی۔ یعنی فائدہ کوئی نہ ہوا اس شادی کا۔
یوں تو بظاہر یہ ایک جملہ ہے "لگدی فیر وی غریب پئی اے"(لگ پھر بھی غریب رہی ہے) لیکن درحقیقت یہ پورے برصغیر کی نفسیات کا خلاصہ ہے۔
ہمیں ہر صورت بس امیر لگنا ہوتا ہے۔ 
چاہے اس کے لیے الٹا لٹکنا پڑے۔
ایک بار دوران شاپنگ ایک سیلز گرل جب ہمیں ایک فینسی برینڈ کی لپ سٹک لینے پر مکمل قائل کر چکیں تو ہم نے کہا وہ دراصل ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔اس کے تاثرات جو تھے سو تھے ہماری بہنوں کے چہروں پہ جو وحشت آنکھوں میں جو غصہ تھا وہ ناقابل بیان تھا۔ایک نےتو ایسی زور سے پسلیوں میں کہنی ماری کے چار دن ٹکور کرتے رہے۔ اور ایک صاحبہ تو ہمیں ڈس اون کر کے اگلے سیکشن کی طرف چلتی بن گئیں۔
ہم سوچتے رہ گئے کہ ہمارے بارے میں درست کہا جاتا ہے کہ ہم ہیں بھی غریب اور سوچ بھی غریب ہے۔ ہم نے احتجاج کرنا چاہا کہ کیوں ضائع کئے جائیں اتنے پیسے اس میں تو ہم چار لپ سٹکس خرید لیں گے۔ بہنوں نے کہا یہ ٹھیک ہے لیکن اسے کیوں بتایا کہ پیسے نہیں ہیں۔ بندا غریب ہو لیکن لگے تو نہیں۔
ہم ناک آؤٹ کردینے والی اس منطق کے سامنے کیا ہی بولتے چپ ہورہے۔
یعنی بس ہر صورت مالی طور پر بہت امیر نظر آنا ہے۔تاکہ سماج میں عزت ہو آپکی۔ یعنی حد ہےاوہےاور بے حد ہے جب تک اصراف نہ کرلیا جائے یہ۔سماج آپ کی عزت نہیں کرے گا۔
جب تک آپ نمائش اصراف نہیں کریں گے آپ کو انسان ہی کنسیڈر نہیں کیا جائے گا۔
آپ اپنے ہی جیسے کئی انسانوں میں احساس محرومی تقسیم کریں گے تو ہی یہ مرعوب اور احساس کمتری کا مارا ہوا سماج آپکو انسان کے درجے پر فائز کرے گا۔ وگرنہ آپ کیڑے مکوڑے ہیں۔ اور کیڑے مکوڑے کیڑے مکوڑوں کی عزت نہیں کیا کرتے۔
آپ کو "عزت دار" بننے کے لیے امیر لگنا پڑے گا بھئی۔
آپکو ہر صورت زیادہ کیرٹس والا گولڈ پہننا ہے چاہے اس کے رنگ سے الجھن ہوتی رہے آپ کو بھاری بھرکم شرارےغرارے پہننے ہیں جن کا مہنگا ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا تربوز کا سرخ اور خربوزے کا میٹھا ہونا ہے دوسری صورت میں تینوں چیزوں کا مقدر کوڑے دان کے سوا کچھ نہیں۔۔
اسقدر لگنا اوبسیسڈ ہیں ہم۔
آپ انٹلیکچوؤل نہیں ہیں لیکن آپ کو انٹیلکچوئل لگنا ہے۔
آپ کمیپیٹینٹ نہیں ہیں لیکن آپ کو لگنا پڑے گا
آپ پروفیشنل نہیں ہیں نہ بننا چاہتے ہیں لیکن اس سماج کےلئے آپکو بننا پڑے گا۔
آپ کو انگریزی میوزک نہیں پسند لیکن آپ کو سننا پڑے گا وگرنہ کیا اچھے لگیں گے آپ۔؟؟
آپ کو جیولری نہیں پسند لیکن آپ کو پہننا پڑے گی۔اب خالی ہاتھ خالی کان کیا خاک اچھے لگیں گے۔
آپ خوش نہیں ہیں 
آپ مطمئن نہیں ہیں لیکن آپ کو خوش اور مطمئن لگنا پڑے گا۔
آپ اپنے ذاتی "مسائل" سوشل میڈیا کہ زینت نہیں بنانا چاہتے لیکن آپ کو بتانا پڑے گا وگرنہ "کلاسی" (کلاسک) نہیں لگتا نا۔
ہر روز ہم ایک اعلان تو کرتے ہی ہیں کہ یہ سماج رہنے کے قابل نہیں رہا اور ہر روز ہم سب اس سماج کو مزید نہ رہنے کے قابل بناتے رہتے ہیں۔
امبانی شادیاں دیکھ دیکھ مرعوب ہوتے ہیں احساس کمتری پالتے ہیں پھر اس کو ختم کرنے کے لیے گدھوں کی دوڑ میں سرپٹ دوڑتے ہیں۔ کامیاب ہوجائیں تو اپنے ہی جیسے کئی لوگوں میں احساس محرومی بانٹنے لگتے ہیں۔
ہماری شادیاں عقیقے پیدائش کے مواقعے کوئی بھی موقع ایسا نہیں ہوتا جہاں ہم انسانوں کی طرح بہیو کرتے ہوں۔
ہم نے خانے در خانے اتنے درجے بنا رکھے ہیں اور ان درجات۔سے باہر تو ہم کسی کو منہ بھی نہیں لگاتے اور ہماری زندگیوں کا مقصد صرف اور صرف اس درجہ بندی میں اگلا درجہ حاصل کرنا ہے۔
کیا ہم دائرے کے اس سفر سے کبھی باہر بھی نکل پائیں گے یا پھر یونہی آنکھوں کے اطراف چمڑے کے ٹکڑے لگائے اپن دھن میں۔سرپٹ دوڑتے رہیں گے۔
کوئی تو ہو جو ہم۔سب کی آنکھوں پر بندھی یہ پٹی کھول کر ہمیں دائروں کی مسافت سے باہر نکالے۔
اسیر ذہنوں میں سوچ بھرنا کوئی تو سیکھے۔
کوئی تو ہماری مرعوب ذہنی کا علاج کرئے۔
لیکن کوئی کیوں کرے گا اور کیسے کرے پائے گا جب تک ہم خود نہ کرنا چاہیں گے۔ 
اور ہم کرنا ہی نہیں چاہتے۔
آئیے ہم مس امبانی کے لہنگے کی سستی کاپی ڈھونڈتے ہیں کہیں سے۔

Sunday 16 December 2018

ہر خون معاف کرنے والا نہیں ہوتا



لکھا کرتی ہوں کہ نہ بھولے گے نہ معاف کریں گے۔
اور کیا لکھوں ایسا جو میرے اندر کی حالت کا ترجمان ہو؟
پچھلے چار سال سے میں لکھنے کی کوششوں میں ہوں۔
میرے فون کے لیپ ٹاپ کے جی میل کے گوگل ڈرائیو کے ڈرافٹس میں ان سب کی تصاویر محفوظ ہیں۔ میں ہر بار ان تصاویر کو دیکھتی ہوں اپنے زخم ہرے کرنے واسطے۔ میں اس زخم کو رستا ہوا رکھنا چاہتی ہوں۔ ان سب کی جدائی کا دکھ ایسا دکھ تو نہیں جس پر چند دن رو لیا جائے بس۔
یہ دکھ میری سانس کے ساتھ ختم ہوگا۔ جب تک یہ دل دھڑکتا ہے اُن معصوم چہروں کی روشنی سے جلا پاتا رہے گا۔
جب تک اس زمین پر میرے لیے امن روشنی امید دکھ اداسی محبت اور نفرت کے استعارے باقی ہیں تب تک اے پی ایس یاد ہے مجھے۔ اس کے بعد کا معاملہ اس کے ترازو میں رکھ دیا ہے۔ زندگی کے ہر ہر معاملے میں اس کے ترازو سے خوف آتا ہے چاہے معاملہ میری ذات کا ہو کوئی اسقدر دل دکھا دے کہ جینا مشکل دکھائی دینے لگے وہاں بھی اس سے ہمیشہ رحم آسانی مہربانی مانگی ہے۔ کبھی انصاف نہیں مانگا کہ جب وہ انصاف کرے گا تو کڑا انصاف کرے گا۔ اس کے ترازو میں کھجور کی گھٹلی سے اترے دھاگے جتنی بے انصافی بھی نہیں ہوگی۔
اے پی ایس کے معاملے میں میں اس سے ایسے عدل کی توقع رکھتی ہوں۔
چاہے اس عدل کی زد میں میں ہی کیوں نہ آجاؤں لیکن میرے بچوں کے معاملے میں عدل چاہیے۔ انصاف چاہیے اس معاملے میں تو میں خود کو معاف کرنے پر بھی تیار نہیں۔ کسی قاتل پلینر یا اس کے حمایتی کو کیا خاک کیا جائے معاف۔
معافی کے قابل بھی کہاں ہیں وہ۔ سارے درندے جنہیں خولہ کا نیا یونیفارم امیدوں بھرا بستہ نظر نہیں آیا۔
جنہیں ایمل آفریدی کی آنکھوں میں زندگی کی خواہش نظر نہیں آئی۔ جنہیں ایک سو چونتیس ماؤں کی گود نظر نہیں آئی ایسے درندے معافی کے قابل نہیں ہوسکتے ہرگز نہیں ہوسکتے۔
نہ صرف قاتل بلکہ حمایتی بھی قابل گردن زنی ہیں۔
میرے بچوں کے معصوم ذہنوں میں خوف کی آبیاری کرنے والے ہر ہاتھ کو کاٹ دینا چاہیے۔
ایسی ہر آنکھ نوش ڈالنی چاہیے جس کی نظر میرے بچوں کے خوابوں پر ہو۔
ایسا ہر ذہن اکھاڑ دینا چاہیے جو میری نسلوں سے امید امن چھیننے کے متعلق کوئی سوچ بھی پالتا ہو۔
ہم جب بیلنس آف پاور پڑھتے ہیں یا امن اور جنگوں لے قضیے نمٹاتے ہیں تو پہلی اور آخری بات یہ ہی ہوتی ہے یہ لڑائی صلح پر منتج ہوتی ہے، ہر جنگ کا انجام مذاکرات ہوتے ہیں۔ اس اٹل حقیقت کو پڑھنے کے جاننے سمجھنے باوجود میں سمجھتی ہوں میرے بچوں کے قاتلوں کا درد ناک انجام تک پہنچنا ہر صورت ضروری ہے اس کے لیے کسی بھی حد تک جانا پڑے، جائیں۔
ہر خون معاف کرنے والا نہیں ہوتا۔ یاد رکھیں ہر ذمہ دار یاد رکھے یہ خون معاف کیے گئے یا کمپرومائز کئے گئے تو ہماری نسلیں داغدار دامنوں کے ساتھ پیدا ہوں گی۔
ہمارے بچے خوف کے سائے میں بڑے ہوں گے۔ ہماری مائیں بہادر پیدا نہیں کر پائیں گی۔ ہمارے باپ جواں سال جنازوں کو کندھے دیتے دیتے تھک جائیں گے۔
اور خوف کے سوداگر موت بانٹتے بانٹتے نہیں تھکیں گے۔
یاد رکھئے موت حادثہ نہیں، المیہ بھی نہیں، لیکن کسی سے زندگی کا حق چھین لینا، طمانچہ ہے جو ریاست کے منہ پر پڑتا ہے۔ اس مادر پدر آزاد کی طرف سے جو یہ حق چھینتا ہے۔ اور اگر یہ حق کسی بچے کسی بزرگ کسی خاتون سے چھینا جائے، سماج کی کسی کمزور اکائی سے چھینا جائے تو طمانچہ پورے سماج کے منہ پر پڑتا ہے۔ ہر ذی شعور کے منہ پر پڑتا ہے اور اگر طمانچہ مارنے والے کا ہاتھ نہ پکڑا جائے تو اس طمانچے کی گونج نسلوں کو بہرا کردیتی ہے۔
میرے بچے میرے لیے پیمانہ ہیں وہ سرخ لکیر ہیں جس کے ادھر کھڑے لوگوں سے میں تعلق مختصر کرلیتی ہوں۔
یہ ہمارا آپ کا نہیں ہماری نسلوں کے مستقبل کا سوال ہے یہ ہماری نسلوں کی زندگی کی بات ہے اس پر جاگتے رہیئے۔
ہمارے بچوں کے قاتل اگر زندہ ہیں تو کیوں زندہ ہیں اور اگر جہنم واصل ہوچکے ہیں تو ان کے حمایتی یوں کیوں منڈلاتے پھرتے ہیں۔
ان کے فکری حمایتی ابھی تک زبانیں دراز لیے کیسے بیٹھے ہیں۔
میں پچھلے چار سال سے یہ تحریر ایک دن کے وقفے سے لکھتی ہوں۔ کیوں کہ یہ دن میرے لیے کچھ اور چہرے بے نقاب کر جاتا ہے۔
میرے بچے میرے لیے پیمانہ ہیں وہ سرخ لکیر ہیں جس کے ادھر کھڑے لوگوں سے میں تعلق مختصر کرلیتی ہوں۔ اس دن اگر مگر چونکہ چنانچہ لیکن کرنے والے ہر شخص پر لعنت بھیجتی ہوں میں۔ ظالموں کے ہر حمایتی کو اس ظلم کا ساتھ دینے کی مزید دعا دیتی ہوں کہ جب بدلے کا وقت آئے تو ان سب کو کسی شک و شبے کی گنجائش یا فائدہ نہ مل سکے۔ اس دنیا میں اگر وہ اپنی منافقت سے بچ بھی گئے تو حشر میں رب ان کو منافقوں کے انجام سے دوچار کرے۔ میرے بچوں کا خون وہ پیمانہ ہے جس سے قاتلوں کا ہر حمایتی پہچانا جاتا ہے۔ یہ وہی حمایتی ہیں جو سارا سال امن کے محبت کے داعی بنے رہتے ہیں جن کے دل درندے کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ یہ سب کوفیوں سے بھی بدتر ہیں کہ ان کے دل بھی مظلوم کا ساتھ نہیں دیتے۔
جب تک مجھ میں زندگی اس کی رمق اس کی خواہش باقی ہے تب تک اے پی ایس کے ہر ذمہ دار سے نفرت باقی ہے۔
اور یہ نفرت اتنی شدید ہے کہ حشر میں اگر اس نے موقع دیا گفتگو کا تو کہوں گی ان سب کے دلوں کی سیاہی ان کے چہروں پہ مل دے۔ ان رو سیاہوں کو ان کی رو سیاہی کا امتیاز بخش کر اس افراتفری میں ان کے لیے مشکل بڑھا دے۔
ان سب کو ظالموں کی حمایت کرنے پر اپنی حمایت سے محروم کردے۔ میں اس سے کہوں خولہ جو تجھ سے سوال کرتی ہے نا کہ میں کس جرم میں ماری گئی اس سوال کی گونج سے ان حمایتیوں سے ان۔ کی سماعتیں چھین لے۔ یہ اپنی ہی زبانیں کاٹ کھائیں اور اپنے الفاظ ہی نہ سن پائیں۔ ان کو اتنی کڑی سزا دے اگر پھر کبھی تو نے دنیا بسائی کبھی کوئی تو تیری سزا کے خوف سے کسی قاتل کسی ظالم کو کوئی حمایتی نہ مل سکے
شائد یہ تحریر مختصر نہ ہوسکے شائد ایسی تحریروں کو ختم نہیں ہونا چاہیے ہر ظالم کے انجام تک ایسی تحریروں کو مکمل نہیں لکھا جانا چاہیے۔
ظالموں کا ہر حمایتی جان لے نہ ہم بھولے ہیں نہ معاف کیا ہے۔ کیونکہ نہ بھولا جاسکتا ہے نہ معاف کیا جاسکتا ہے۔
کیسی تحریر ہے کہ کسی شاعر کی زبانی کہی کوئی بات یاد آرہی ہے نہ کسی ادیب کا کوئی قول۔ بس بے ربط خیالات ہیں روتا ہوا دل ہے۔ اور بے بسی میں ڈوبے آنسو وہ جو ان باپوں کے حوصلے کے سامنے لایعنی ہیں جنہوں نے اپنے جواں سال بیٹے دفنائے تھے۔ وہ ان دوستوں کے احساسات کے سامنے بونے ہیں جنہوں نے خالی ڈیسک کے ساتھ نئی زندگی شروع کی تھی۔
اور مائیں؟؟ ماؤں کے جذبات کون لکھے وہ جو بچے کے پیچھے جہنم بھی چلی جائیں جو اولاد کے لیے زم زم نکلوا دیں اور جو رب کی رضا پر بھی دریا میں بہائیں تو پیچھے بہن کو دوڑائیں کہ دیکھو لخت جگر اب کہاں پر ہے۔ ماؤں کے جذبات کون لکھ سکتا ہے وہ صرف محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ اور محسوس وہ تو کرے گا ہی جس کی محبت کا استعارہ ہے ماں دنیا میں۔ کیسے نہیں کرے گا محبتوں کو نامراد نہیں ٹہراتا۔ یہ میرے ایمان کا حصہ ہے رب ماؤں کی خاطر ظالموں کے انجام ہمیں ضرور دکھائے گا۔ کیونکہ ہم نہ بھول سکتے ہیں نہ معاف کرسکتے ہیں۔

Tuesday 11 December 2018

ایک جذباتی سیاسی کارکن کے خواب


سیاست پر لکھنے کے لیے جتنی بار قلم اٹھایا یعنی کی بورڈ کھولا اتنی بار رک گئے، ٹھہر گئے یا تحریر درمیان ہی میں چھوڑ دی، ادھوری۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں، ایک تو یہ کہ جب اتنے لوگ سیاست کر رہے ہیں تو بھلا ہمارے کہے کی کیا ضرورت و اہمیت۔ دوسری وجہ ہمارا اپنے دوستوں سے سیاسی اختلاف ہونا ہے۔ تو جب جب ہم سیاست پر لکھتے ہیں انہیں گماں ہوتا ہے ہم ان کو سنا رہے ہیں۔ ہمیں اپنی رائے سے کہیں زیادہ اپنے دوستوں کی بدگمانی تکلیف دیتی ہے سو ہم چپ کرجاتے ہیں۔
آج یہ تحریر جو پچیس کی شام ہی لکھنا تھی، نہیں لکھی۔ وجہ ہماری بہت زیادہ سستی کے بعد یہ ہی تھی کہ ہمارے دوست غصے میں تھے اداس یا فرسٹریٹ تھے۔ ہمیں اچھا نہیں لگا کہ ایسے میں سنجیدہ باتیں کر کے انہیں مزید اداس کیا جائے۔
خیر یہ کوئی ایسی سنجیدہ تحریر بھی نہیں اسے ایک جذباتی سیاسی کارکن کی خود کلامی کہا سمجھا جائے تو بہتر ہے۔
تو پچیس جولائی کی شام نہیں لکھا ایسا کچھ تو بعد میں تو ہمارا فرض تھا خاموش رہنا, وقت دینا, برداشت کرنا, سو کیا۔ آج یہ تحریر لکھ رہی ہوں کہ سو دن پورے ہوئے حکومت کے۔ حکومت کے اور اس کی پالیسیز کے خدوخال واضح ہونا شروع ہوئے ہیں۔ جو یقینا میرے ملک اور میری قوم کے لیے بہترین ہوں گے۔
خان صاحب آپکو سو دن پورے ہونے اقتدار ملنے پر مبارک ہو آپ سے زیادہ کوئی اس مبارک کا مستحق نہیں۔ ہم تو خیر کسی شمار قطار میں ہی نہیں۔ خان صاحب آپ نے میری نسل کو خواب دیکھنا سکھایا کیا اس کا شکریہ ممکن ہے؟ آپ نے ہمیں سطحی باتوں سے اوپر اٹھ کر ملک و قوم کے لیے سوچنا سکھایا کیا اس بات کے لیے شکریہ ادا کیا جا سکتا ہے؟
خان صاحب جب آپ گرے تھے اس ایک لمحے میں خواب چھن جانے کا جو خوف میں نے اور میری نسل نے محسوس کیا تھا اور اس خوف نے جس طرح ہمیں دیوانہ وار آپ کی طرف لپکنے پر مجبور کیا تھا اس فیلنگ کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ بس اس خوف سے رہائی کے لیے آپ کا شکریہ۔
خان صاحب جب آپ گرے تھے اس ایک لمحے میں خواب چھن جانے کا جو خوف میں نے اور میری نسل نے محسوس کیا تھا اور اس خوف نے جس طرح ہمیں دیوانہ وار آپ کی طرف لپکنے پر مجبور کیا تھا اس فیلنگ کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔
آپ نے ہمیں خود پر یقین کرنا سکھایا اس ملک پر یقین کرنے اور یقین رکھنے کا حوصلہ دیا۔ بے یقینی کے ساتھ بھی بھلا کوئی تعلق بن سکتا ہے کیا؟ یہ بات ہمیں معلوم تھی کہ ہماری بے یقینی اس ملک کوکھوکھلا کررہی ہے۔ لیکن ہم کس کے آسرے یقین کی مالا جپتے؟ اس تعفن زدہ نظام میں جس میں میرے کالج کی کئی ایکڑ زمین پر سابقہ حکومتی جماعت کے کارکنوں کا قبضہ تھا۔ ان پر رکھتے کیا یقین؟ یا ان پر جنہوں نے گردوارے مندروں اور مسجدوں کی زمینوں پر ناجائز ٹھیکے دے کر عورت کی حکمرانی کے خلاف فتوے گلی گلی محلے محلے بھجوائے تھے۔ یا ان پر یقین رکھتے جن کے پٹرول پمپس کی وجہ سے ہم روز لمبے چکر کاٹ کر اپنے مطلوبہ مقام پر پہنچتے تھے۔ اور جب جب ٹریفک کے رش میں پھنستے تھے تو اپنے جرم ضیعفی پر نادم ہوتے تھے۔ خیر ہماری اماں کہا کرتی ہیں باری وری روڑی دی وی سنی جاندی اے
یعنی ایک عرصے بعد کچرا کنڈی بھی صاف ہوجاتی ہے۔
تو ہمیں بھی موقع دیا گیا۔ جیسے کہ زندگی بار بار چانس نہیں۔ دیتی لہذا ہم نے اس چانس پر یقین کیا۔ آپ کی صورت میں۔
لیکن ایسا نہیں ہے کہ آپکی ہر بات پہ آمنا صادقنا کہا ہو یا آپکو اومنی پوٹینٹ سمجھا ہو یا آپکو ہر مسئلے کا اکلوتا حل تصور کیا ہو۔
آپ پر تنقید بھی کی شدید تنقید آپ سے کبھی کبھی دوری بھی ہوئی کبھی غصہ اور کبھی خوش گمانی انسانی تعلقات کی یہ ہی خوبصورتی ہوتی ہے شائد اس میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ بقول فراز: کبھی تو کشت زعفراں کبھی اداسیوں کے بن
سماج میں تعلقات تب تک قائم رہتے ہیں جب تک ان میں امید برقرار رہتی ہے جب توقع اٹھ جائے تو شاعر لوگ بھی گلہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
شاید ہماری حالت زار پر رحم آیا تھا رب کو۔ یا پھر آپکی مستقل مزاجی نے ہمیں پرامید رکھا ان سارے حالات میں ہم بھئ غصہ کرتے رہے تنقید کرتے رہے لیکن مایوس نہیں ہوئے۔ کیونکہ ہمارے پاس اور کوئی آپشن نہیں تھا۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھئے گا خان صاحب ہم سے کئی لوگ ہیں جن کے پاس آپ سے بہتر آپشن نہیں ہے۔ جب بھی انہیں آپ سے بہتر انسان اس منظر نامے میں نظر آیا وہ اس کی طرف چلا جائے گا۔ خان صاحب۔ آپ کے پاس ڈیلیور کرنے اس قوم کی حالت بہتر کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔
یاد رکھئے گا ہم نے آپکی خاطر عثمان بزدار کو گوارا کیا ہے۔ ہم نے اعظم سواتی سمیت بہت سے ایلیکٹیبلز برداشت کیے ہیں لیکن ہم اگلی ٹرم میں انہیں برداشت نہیں کریں گے اس بار اتنا کام تو کر جائیں گے اگلی بار ہم ایلیکٹیبلز کے بغیر جیت جائیں۔ جو ہماری فتح ہو سچی فتح ہمارے لوگوں کی فتح۔
خان صاحب اتنا کام تو کرنا پڑے گا آپ کو کہ اگلی بار ہمیں ولید اقبال پر ہمایوں اختر کو ترجیح نہ دینا پڑے۔ اتنا کام تو کرلیں کہ میرے حلقے میں امیدوار کو ٹکٹ لینے براستہ سیالکوٹ بنی گالا نہ جانا پڑے۔ آپکو پتا ہے نا خان صاحب سیالکوٹ بنی گالہ کے راستے میں نہیں پڑتا؟
خان صاحب اتنا ڈیلیور کر جائیں کہ شبلی فراز کو سینٹر نہ بنانا پڑے وہ ہمارے وزیر ہوں۔
خان صاحب اتنا کام کرنا پڑے گا آپ کو کہ ٹو تھرڈ میجارٹی ملے آپ کو اگلی ٹرم میں بڑے اور مضبوط فیصلے کرنے کے لیے۔
خان صاحب اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کے مخالف پر حوالداروں کو بیرکوں تک محدود کرنے کی جنگ لڑیں تو اس کاایک ہی راستہ ہے صاف سیدھا اور کھٹن کام کرنے کا ڈیلیور کرنے کا لوگوں کو راحت پہنچانے کا۔
خان صاحب ہم آپ کے ہر مشکل فیصلے میں آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ لیکن آپ کو پہلے اس مشکل راستے پر خود چل کر دکھانا پڑے گا۔
خان صاحب آپ کام کریں اپنے وزیروں کو کہئے کام کریں میڈیا کا پراپیگنڈا خود ہی ناکام ہوجائے گا۔
سوشل میڈیا پر آپ کے لیے لڑنے والے بہت لوگ ہیں۔ جن کا حکومت سمیت کسی ادارے سے کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں سوائے اس کے کہ ان کی آنکھوں میں ایک رنگین خواب کے رنگ چھلکتے ہیں۔ اپنے لوگوں کے لیے اپنے ملک کے لیے دیکھا ہوا اک سہانا خواب اور آپ ہی تو کہتے ہیں بڑی خواب دیکھنے والے بڑی فائٹ کرتے ہیں۔ یہاں لڑ لیں گے ہم پر کام کرنا پڑے گا آپ کو۔ یاد رکھئے خان صاحب اپنے سارے ایم این ایز ایم پی یز کو بھی بتا دیجئے ہم ہرگز ہرگز جیالے یا پٹواری نہیں۔ نہ۔ ہمارا بھٹو زندہ ہے نہ شیروں پر فخر ہمیں۔ یہ ان سب کا پہلا اور آخری چانس تھا ہم سے اگلی بار ہمدردی کی امید مت رکھے کوئی۔ کام نہیں کریں گے تو اٹھا کر باہر پھینک دیں گے ہم انہیں۔
خان صاحب اپنے سارے ایم این ایز ایم پی یز کو بھی بتا دیجئے ہم ہرگز ہرگز جیالے یا پٹواری نہیں۔ نہ۔ ہمارا بھٹو زندہ ہے نہ شیروں پر فخر ہمیں۔ یہ ان سب کا پہلا اور آخری چانس تھا ہم سے اگلی بار ہمدردی کی امید مت رکھے کوئی
خان صاحب آپ بھی یاد رکھئے گا شاہ و ترین سمیت ہر شخص کو بتا دیجئے گا اگلی بار ٹکٹس میرٹ پر دی جائیں گی اور میرٹ وہ ہوگا جو ہم طے کریں گے۔ ہماری ووٹ کو عزت نہیں دیں گے تو ان سب کو اٹھا کر ان کے فیورٹس سمیت باہر پھینک دیں گے۔ ہمارے پاس اب نہ تجربوں کے لیے وقت ہے نا موقع کہ زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔
اب ہم اپنی نسلوں کے مستقبل کے لیے ایگریسو ہیں۔ اور اب ہمیں ہمارے انسانی حق چاہیے ہیں اور سارے چاہیے ہیں۔
خان صاحب اتنا ڈیلیور کرلیحئے گا کہ اگلی بار ایسی ایگریسو تحریر نہ لکھنی پڑے۔
سماجی ڈھانچہ ابھی بھی آپکی توجہ کا منتظر ہے۔ کوشش کریں یہ اتنا گھٹن زدہ نہ رہے۔ ہمیں انتہائیں مزید یرغمال نہ بنا سکیں۔ ہماری نسلوں کو ملا گردی نہ بھگتنا پڑے اور میرے بچوں کو کوئی سوڈو لبرل یہ نہ بتا سکے کہ ایکسپوییر آف باڈی ماڈرن ازم ہوتا ہے۔
ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے خان صاحب چاہے وہ موقع پانچ سال بعد آئے یا اڑھائی سال بعد اگر رب کے حبیب صلی علیہ وسلم کی ناموس کو دنیا اور یہ ملک اور عدالتیں اور یہاں کے باسی ہمارا سینسٹو کارنر تسلیم کرلیں اور اس حساس ایریا پر اپنی زبانیں دراز کرنے سے پہلے اگر انہیں رٹ آف سٹیٹ کا خوف گھیر لے تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
چاہے کوئی بھی سال ہو یا مہینہ۔
شائد یہ تحریر آپ تک نہ پہنچے لیکن یہ کئی لوگوں کے ان کہے خیالات ضرور ہیں وہ جو آپ کے ووٹر ہیں۔

Thursday 6 December 2018

حقیقی تخیلات



جب میں کچھ نہیں لکھ پاتی یا پھر درد دیتی حقیقیتیں لکھ لکھ کر تھک جاتی ہوں تو فینٹسیز لکھتی ہوں۔ کھلی آنکھ سے دیکھے ہوئے خواب۔ بلکہ اپنے ہاتھوں سے بُنے ہوئے خواب۔ جن میں زندہ رہنا اتنا ہی دلکش اتنا ہی حسین ہے جتنا کسی دل ربا کے ساتھ من مرضی کی حقیقت جینا۔ بلکہ یہ دل رباؤں، حسیناؤں کے ساتھ جینے جیسی حقیقیتیں ہی تو ہوتی ہیں۔
جب مصنوعی لوگوں سے ملتے ملتے آرٹیفیشل تعلقات بناتے بناتے ہم تھکنے لگتے ہیں تو اپنی دنیا بسا لیتے ہیں۔ اپنی پسند کی دنیا۔
جو کبھی ستارے پر پاؤں لٹکا کر بیٹھنے سے مکمل ہوجاتی ہے۔ تو کبھی سٹار ڈسٹ سے اٹے ہاتھ چہرے پر رکھے بے ساختہ ہنسے چلے جانے سے شروع ہو کر دو ستاروں کا درمیانی رستہ دھنک کے پل پر چلتے ہوئے ختم ہوتی ہے۔ کبھی کہکشاؤں کے راستے پر تمہارا ہاتھ تھامے میں اس دنیا کی حدوں سے پرے کہیں دور نکل جاتی ہوں۔ اتنی دور کہ پھر واپس اس دنیامیں آنے کے لئے خود کو آمادہ کرنا پڑتا ہے۔
ویسے سوچو تو اگر خیال کی دنیا بھی میسر نہ ہوتی تو کیسی بے بسی ہوتی۔ قوت گویائی چھن جانے جیسی۔ نہیں یہ اس سے بھی بڑا نقصان ہوتا۔ گویائی چھن جانا تو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ بول کر کونسے انقلاب لے آتے ہیں ہم۔ گویائی والے بھی تو سکرپٹڈ ورژن ہی بولتے ہیں نا۔ اپنی ذاتی رائے کا اظہار تو گستاخی ہوتی ہے نا۔ سنو! میری ایک فینٹسی خالص رائے کا برملا اظہار بھی ہے۔ میرا جی چاہتا ہے ہر شخص کو اس کی ذات پر اس کا اختیار مل جائے۔ مجھے معلوم ہے میرے دیکھے ہوئے بُنے ہوئے خوابوں میں یہ سب سے مشکل ہے۔ پر یہ سب سے خوبصورت بھی تو ہے نا۔ میری ذات پر میرا تمہاری پر تمہارا اختیار۔ ہاں پتا ہے تم سوشل سیٹ اپ کا سوشل نارمز کا حوالہ دو گے۔ میں کب سوسائٹی کے بیرئیرز کو توڑنے کا کہہ رہی ہوں۔ میں تو بس تمہارے معاملات میں تمہارے فیصلوں کی بات کر رہی ہوں۔ خیر یہ بھی فینٹسی ہے۔
میری ساری فینٹسیز ستاروں سیاروں چاندنی دھنک لئے ہوئے نہیں ہوتی۔ کچھ کا تعلق حقیقت سے بھی ہوتا ہ
میری ساری فینٹسیز ستاروں سیاروں چاندنی دھنک لئے ہوئے نہیں ہوتی۔ کچھ کا تعلق حقیقت سے بھی ہوتا ہے۔
فینٹسی پر مبنی حقیقت یا پھر حقیقی فینٹسی۔ یہ جملہ پڑھنے کے بعد یقینا آپ سب سنجیدگی سے سائکا ٹرسٹ والے آپشن پر غور کر رہے ہوں گے۔ ٹھہریے سمجھاتی ہوں۔۔۔ میری حقیقی سی فینٹسی ہے کہ کچھ لوگ جب بول رہے ہوں تو ان کو میوٹ پر لگا دوں۔ وہ بولتے رہیں اور آوازیں بند ہوں۔ ویسے کچھ لوگ چپ رہیں تو کسقدر خوبصورت لگتے ہیں نا؟
میرا جی چاہتا برفیلی باتوں والوں کو شعلے گھول کر پلایا کروں تاکہ ان کے لہجے میں گرم جوشی نہ سہی گرمی ِحیات ہی آجائے۔
میں کبھی کبھی چاہتی ہوں اختیار والوں سے ان کا اختیار چھین لوں اور ان کو ان کی ذات کے غرور کے ساتھ جیتے رہنے کا آپشن دوں۔
میری فینٹسی تو یہ بھی ہے ٹراؤٹ فش کی طرح پانی کے بہاؤ کے الٹ تیرنے والے سارے ٹراؤٹسکی الگ سے ایک بستی بساؤں۔
چاہتی تو میں یہ بھی ہوں میری بستی کے سارے بچے تھوڑے بہت تو بہاؤ کی الٹی سمت میں تیرنا سیکھیں۔سارے ہی کہیں نا کہیں ٹیبوز توڑیں تعصبات کے عینکیوں کے بغیر ننگی آنکھوں سے زندگی کو دیکھیں۔ اوروں کے تجرباتکی۔چھتریوں سے چھاؤںکرنے کی بجائے اپنے اپنے حصے کی دھوپ خود برداشت کرنے جتنی ہمت پیدا کریں ہم۔ زندگی کو اپنے ہاتھوں سے پرکھیں۔
خیر چاہتی تو میں یہ بھی ہوں لمبی گیلی سڑک پر چلتے چلتے زندگی کی شام ہوجائے اور وہ ایک بھیگی خنکی بھری شام رات میں نہ بدلے۔
چاہتوں کی لمبی فہرست ہے جس میں ہر خواہش پہ دم نکلے والی صورتحال ہے۔
میں چاہتی ہیں ساحر کی نظم کبھی ختم نہ ہو۔
وہ اپنی لو دیتی نگاہوں سے گنگناتا رہے۔

کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاوں میں
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ تیرگی جو مری زیست کا مقدر ہے
تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی
عجب نہ تھا کہ میں بے گانہء الم ہو کر
ترے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا
ترا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں
انہیں حسین فسانوں میں محو ہو رہتا
پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی
ترے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا
حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں
گھنیری زلفوں کے سائے میں چھپ کے جی لیتا
مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں ترا غم، تری جستجو بھی نہیں
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے
اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں
زمانے بھر کے دکھوں کو لگا چکا ہوں گلے
گزر رہا ہوں کچھ انجانی رہ گزاروں سے
مہیب سائے مری سمت بڑھتے آتے ہیں
حیات و موت کے پرہول خارزاروں میں
نہ کوئی جادہء منزل نہ روشنی کا سراغ
بھٹک رہی ہے خلاوں میں زندگی میری
انہی خلاوں میں رہ جاوں گا کبھی کھو کر
میں جانتا ہوں کہ مری ہم نفس مگر یونہی
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
اور اس کے اس خیال کا جواب امرتا اپنی مادری زبان کے میٹھے لہجے میں
میں تینوں فیر مِلاں گی کہہ کر دے۔
کبھی کبھی تو یہ بھی چاہتی ہوں ساحر کو جا کر کہوں تمہاری انا نے محبت کی کہانیوں پر کئیوں کا ایمان کمزور کیا ہوگا۔ کچھ احساس ہے تمہیں؟ اب تو خیر لوگ خدا پر ایمان نہیں لاتے۔ ہم تم دیویوں پر ایمان کے وقت میں ہوتے تو محبت کی دیوی کو شکایت کرتی ساحر کی۔ اور پھر اس دیوی کے سبھی ماننے والے ساحر کا داخلہ محبت کے سب ہی مندروں میں ممنوع قرار دے دیتے۔
میں امرتا سے بھی کہتی۔ مرنے والیوں کے بین لکھنے سے حل نہیں ہوگا مسئلہ۔ اب کلام میں جدت لاؤ جینے والوں کا قصہ لکھو زندگی کی بد سلوکیاں رقم کرو۔ ہم بار بار تھوڑی آئیں گے۔ زندگی سے کہو ہمارے ساتھ نرمی سے پیش آئے ہم اس کے خیر خواہ ہیں۔ ممکن ہے ہم واپس جائیں تو مارکیٹنگ کردیں زندگی کی۔
لیکن افسوس یہ سب میرے وہ خواب ہیں جن کے پورا ہونے میں ایک عمر ایک زمانہ اور ایک قیامت حائل ہے۔
لیکن اب سب خواب تو جنت پر نہیں چھوڑے جا سکتے نا۔ زندہ رہنے کے لیے خواب دیکھنا پڑتے ہیں اور ان کو تعبیر کرنا پڑتا ہے۔
ویسے میرا ایک اور خواب ہے۔
میرا جی چاہتا ہے دھوپ کنارے کبھی ختم نہ ہو۔ اور ڈاکٹر احمر یونہی ضویا کے تصور کو مسکرا کر دیکھا کرے اور یونہی کہتا رہے۔
رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے۔
جیسے ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے۔
پر مسئلہ یہ ہے نا بے وجہ قرار آتا نہیں۔
بے وجہ صرف بے چینی آتی ہے، اداسی آتی ہے اور بے بسی آتی ہے۔ قرار کو وجوہات درکار ہوتی ہیں اور بیمار کو دوا۔
بھوکے کو مضافات سے خوشبو آ بھی جائے تو اس کا پیٹ نہیں بھرتا خوشبو لاکھ حسین سہی پر پیٹ کی آگ نہیں بجھاتی۔ شاعر کے خیالات سے زندگی نہیں بسر ہو پاتی۔
ڈاکٹر احمر اور اس کا تصور لاکھ جاذب و جمیل سہی پرہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔
ہم سے پاگل تخیل میں ڈراموں کہانیوں قصوں کے ہیرو ہیروئن کی محبت کی۔دنیا بسا تو سکتے ہیں اس دنیا میں جی نہیں سکتے۔ اور اگر جی بھی لیں تو وہ زندگی چند لمحوں سے زیادہ کی نہیں۔ کہ ساحر و ضویا بوڑھے ہوجاتے ہیں۔اور احمر اور امرتا مر جاتے ہیں۔
یہ ہی زندگی ہے شائد جب ذرا فرصت کا گمان ہونے لگتا ہے تو وعدہ وفا کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔اور اس سے کئے وعدے کو کون توڑے۔ کس کی جرات وعدہ خلافی کرے۔