Pages

Wednesday 13 January 2016

love, Chemistry and Sorrow

اوائل دسمبر کی ایک زرد سہ پہر تھی۔گدلا گدلا سورج اپنے ہونے کا ثبوت دیتے دیتے تھک ہار کر مغرب کی آغوش میں پناه لینے کو تھا۔ڈوبتا ہوا سورج دیکھنا بھی کس قدر مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ایسے لگتا ہے کوئی اپنی آخری سانسوں کو روک کے کھڑا ہے۔جیسے اسے کوئی آخری منطر دیکھنے کی جلدی ہو۔جیسے وه کسی چہرے پر اپنے لیے مسکراہٹ دیکھنا چاہتا ہو تاکہ پھر سکون سے ہستی سے گزر سکے۔وه سامنے کھڑی قضا کو روکتے روکتے، اس مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ جہاں پورے جسم کی طاقت آنکھ میں در آتی ہے۔

جہاں اس کی بینائی صرف آنکھوں کی محتاج نہیں رہتی۔وه سراپا آنکھ بنے، توانائیاں خرچ کرتے سرخ ہوتے ہوتے، بالآخر ڈوب جاتا ہے۔اس زرد شام میں خزاں کی سنہری چادر اوڑھے، پتوں پر قدم رکھتی، اس لڑکی کی آنکھوں میں بھی ویسا ہی تاثر تھا، ڈوبتے سورج جیسا۔جیسے اسے اب صرف ایک آخری منظر دیکھنے کی تمنا ہو اور پھر اس کی بلا سے، چاہے لاد چلے بنجارا۔
لڑکی کی عمر کا خاصا، لاابالی پن، کہیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہا تھا۔ وه خشک پتوں پر قدم قدم چلتی ہوئی میرے بینچ کی طرف نہ چلی آ رہی ہوتی۔ تو میں اسے وقت کی شاخ سے گرا کوئی پتا ہی سمجھتی۔ جو اگنے کے چند دن بعد ہی خزان رسیده ہو گیا تھا۔وه اس ادھورے منظر کا پورا حصہ۔میرے ساتھ بنچ پر آ بیٹھی۔وه جتنی اچانک بینچ پر بیٹھی تھی مجھے گمان گزرا کہ اگر یہ کچھ دیر اور چلتی تو شائد وحشت میں دیوانہ وار چلا اٹھتی۔ضبط غم تھا یا رت جگا۔ اس کی انکھوں کی سرخی میں کوئی درد بہرحال چھپا ہوا تھا۔
اب میرے اور اس کے درمیان ڈیڑھ فٹ کے فاصلے میں دوموبائل اور ایک ناول حائل تھے۔ مجھے یقین تھا اگر میں نے بات کرنے میں پہل کی تو وه کانچ کا منظر چھناکے سے ٹوٹ جائے گا اور ابھی تھوڑی دیر پہلے میری آنکھوں کہ رستے اس کا اَن کہا درد، جو میرے دل میں اترا ہے۔وه واپس لے جائے گی۔وه اپنی متاع اٹھاکر اجنبی بن کر چلتی بنے گی۔میں خاموشی سے بے وجہ بے آواز صفحے الٹتے پلٹتے رہی۔دفعتاً موبائل جیب میں ڈالتی وه میری طرف مڑی....کیا پڑھ رہی ہیں آپ؟
برائیڈا؟
میں نے کتاب کے شوخ رنگوں کے ٹائٹل کو اسکے سامنے کرتے ہوئے کہا ۔  ناول کا شوخ ٹائٹل بھی جب خزاں کی پژمردگی کم کرنے میں ناکام رھا، تو میں نے اسے واپس گود میں گرا لیا
یہ کیا ہے؟
فلسفہ
کس چیز کا فلسفہ؟
محبت کا فلسفہ، سول میٹس کا فلسفہ، دو روحوں کے درمیان کمیسٹری کا فلسفہ ۔جب دو عالم ارواح کے باسی، وہاں کے "میٹس" یہاں ملتے ہیں۔  تو کس طرح ایک دوسرے کے ادھورے وجود کو مکمل کرتے ہیں ۔ جگسا پزل کے دو ٹکروں جیسے، جو بظاہر دیکھنے میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف لگتے ہیں لیکن جب آپس میں ملتے ہیں تبھی ان میں چھُپی تصویر کو معنی ملتے ہیں ۔ سول میٹس بھی ایسے ہی ہوتے ہیں دیکھنے میں الگ الگ لیکن اکھٹے ہوں، تو ان کی شخصیت کا اصل رنگ سامنے آتا ہے ۔
اس کی آنکھوں میں موجود استھزا،تضحیک، بے اعتباری نے میرے جملوں کو بریک لگا دی۔
بینچ کے اوپر موجود درخت سے کوئی پتا بے آواز گرا تھاکہ یکایک اس کی آواز کی اداسی اور لہجے کی یاسیت نے طلسم توڑا
ہممم
 محبت کا بھی فلسفہ ہوتا ھے؟
شائد
کسی کو پانے کے بھی اصول ہوتے ہیں
مجھے لگا وه سوال نہیں پوچھ رہی۔وه پرت در پرت کھل رہی ہے
میری خاموشی پر میری طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوئی
چلا گیا وه
دو ماه پہلے۔چار سال پہلے نکاح ہوا تھا۔محبت کرتے تھے،ہم۔ ہم کہتے ہوئے اس کا لہجہ چغلی کھا رہا تھا
مجھے لگا کسی نے میرے ارد گرد ایٹمی دھماکے کر دیے ہوں۔انیس بیس سال کی وه لڑکی۔جس عمر کی لڑکیاں ابھی خواب دیکھنا شروع کرتی ہیں۔ اس عمر میں وه خوابوں سے دستبردار بھی ہو گئی۔
مجھے شاک میں دیکھ کر بولی۔
وه کہتا ہے،تم میرے ساتھ نہیں چل سکتی۔ہماری کیمسٹری نہیں ملتی
تم ہر وقت ہنستی رہتی ہو۔مجھے ہر وقت ٹھٹھے لگاتی، لڑکیاں زہر لگتی ہیں ۔
سنجیده لڑکیاں پسند ہیں مجھے۔ پریکٹیکل، تمہارے جیسی بیوقوف نہیں
وه مجھے موقع تو دیتا میں اس کے ساتھ چل کر دکھاتی...بتائیے کیا کمی ھے مجھ میں؟؟
میں نظریں چرائے، سامنے چڑیا کو درخت کی شاخوں کے درمیان اڑتے ہوئے دیکھنے لگی۔جیسے اس کے سوالوں کے جواب ابھی آسمان سے ہی نہ اترے ہوں۔
اور اترتے بھی کیسے
بے وفائی کے جواز نہیں ہوتے۔ ۔ ۔

No comments:

Post a Comment