Pages

Wednesday 13 January 2016

دوسرے خط کے جواب میں


تمھارا خط ملا...خوشگوار حیرت میں ھوں میں تم زیاده بولنے لگے ھو..لفظوں پر عبور تو خیر تمھیں پہلے بھی بہت تھا اب تو اور بھی ماہر ھو گئے ھو....
ھاں مانتی ھوں تمھارے لفظ جام ھوتے ھیں میرے لیے....
تاریخ ھی کی مثال ذھن میں آرھی ھے...وه کسی فرعون کی کنیز جس نے انگور گھڑے میں دبا کر رکھے تھے....تو جب وه درد شقیقہ سے مرنے لگی تو ان "خراب" انگوروں کا پانی زھر سمجھ کر پی گئی....اور دنیا کو ایک خماری سے آشناکردیاا س نے نادانستگی میں....مجھے بھی لگتا ھے میرے خطوط نے دنیا کو تمھارے لفظوں سے آشنائی دی ھے جن کو تم تاریخ کی بوسیده کتابوں میں کسی گمشده بستی کی مانند چھپائےبیٹھے تھے.
میری تاریخ سے دلچسبی غیر معمولی تو نہیں لیکن جب اپنے وجود میں کسی نامکمل تہذیب کو ساتھ لے کر چلنا پڑے تو تاریخ اپنے آپ دلچسپ لگنے لگتی ھے۔۔۔چلنا بھی کہاں بس گزاره ھے.
خود ترسی کی بھی خوب کھی....خود ساختہ خول کہاں...
بھئی
دل ھی تو ھے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آۓ کیوں
ھم روئیں گے ہزار بار کوئی ہمیں ستائے ھی کیوں.
کہو کولیسٹرول کی گولی کیوں کھانے لگے....اب کیا پودے نھیں اگاتے ھو...وه تمھارا پھولوں سے عشق کیا ھوا؟؟
تم تاریخ کے ھولناک "سنہرے" ابواب کی بات کرتے ھو سنو! حال بھی کچھ کم سنہرا نھیں ہے...پتھر دلوں کا دیس دیکھا ھے تم نے؟؟ کوئی ایسا شخص دیکھا ھے جس کو اس کی نزاکت رعنائی مار دے؟؟؟؟میں نے دیکھا ھے...محبت جرم بنتے ھوئے جرم انجام تک پہنچتے ھوئے اور کیا خوب انجام "پتھر"۔۔۔۔
میرے استعارے تشبہات سب چھو اورٹے کھوٹے ھوگئے ھیں اس ایک لفظ کے سنے....میرے احساس کی رعنائی ہار گئی ھے اس کو لکھتے ھو.ئے.تم نے تو لکھا تھا قتل و غارت گری کے انداز بدل گئے ھیں.....تو سنو پھر یہ ھمارے پہلو میں پرانے ڈارک ایجز کا روم کس نے برپا کر دیا تھا؟؟؟پڑھی ھے رومن کی تاریخ تم نے.....میں نے تو دیکھ بھی لی....میرا تخیل اکثر سیزرز کے محل میں بپا اس "میلے"میں جہاں انسانیت کی تذلیل پر آرذده ھو جایاکرتا تھا....بھلا ھو میرے عہد کا مجھے اس کرب سےبھی رھائی دی اس نے.....مجھے بڑی شدت سے احساس ھونے لگا ھے میں غلط دور میں پیدا ھوگئی ھوں...کبھی کبھی دل کرتا ھے زندگی سے کھوں...

اے زندگی ٹہر ادھر
میں زمانہ بدل کے آتی ھوں....
خیر.....پیلا رنگ نھیں پہنتی ھوں اب ۔۔چہرے کی گویائی پیلے رنگ کے ساتھ بڑھ جاتی ھے....اسی لیے شائد انگریزی ادب میں پیلے رنگ کو موت کی اداسی کی علامت سمجھا جاتا ھے...موت بھی تو بہت پر شور ھوتی ھے نا۔۔بے پناه بولتی ھوئی...شدید خاموش.
سنو تم جتنا بھی دائیں بازو پر جھکو تم اشتراکیت کے قائل نھیں ھو سکتے.....کیوں کہ تم کھونے سے ڈرتے ھو اور اشتراک میں کھونا ھی کھونا ھے___اور یوں بھی مارکس کو لینن کو "مان" لینے کے لیے حوصلہ چاھیے اور شیطان جیسی مستقل مزاجی...اورتمھارا خط چیخ چیخ کر تمھاری متلون مزاجی بتا رھا ھے...
تم کہتے ھو اس شعلےکو جانتے ھو جس کی حدت میں میں جل گئی ھوں....
سنو! لفظوں کے جادوگر۔۔۔برف پوش وادیوں کی سحر انگیزی بھی چنارہی مکمل کرتے ھیں...زندگی کا حسن بھی بیرونی محرکات کا محتاج ھوتا ھے..زبان کے میٹھے چشمے بھی ایک مدت کے بعد کھارے پانی میں نے تبدیل ھو جاتے ھیں..جب خیالات کے دریا اپنا رخ بدلتے ھیں تو زبان بھی سالٹ رینج کی طرح حشک نمکین اور کسیلی ھو جاتی ھے...
اور آخری بات سنو....متانت اور پر فریب شائستگی نھیں اظہار کے بعد کی بے توقیری کا خوف گلا گھونٹتا ھے ....میں لہجوں میں در آنے والی تھکن سےڈرتی ھوں
خوش ھی رھتی ھوں اور کوئی چاره جو نھیں ھے،،لیکن خیال نھیں رکھا جاتا خود کا
کولیسٹرول کنٹرول کرتے رھو پھول اگایا کرو
سحرش

No comments:

Post a Comment