Pages

Monday 19 June 2017

باپ، والد، یا پدر: ایک دلگداز تذکرہ، خاص دن سے ورا


یہ دن ہر اس شخص کے نام، جو بن باس کاٹ رہا ہے۔ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے۔ یہ دن ہر اس شخص کے نام، جو بچوں کی پیدائش پر اپنی ضرورتیں مختصر کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ دن ہر اس باپ کے نام، جو دن بھر کی تھکن لیے گھر لوٹتا ہے اور دروازے پر منتظر بچے کی انگلی تھام کر دہلیز سے ہی لوٹ جاتا ہے ۔۔۔ آئسکریم دلانے کے لیے ۔۔۔ کسی کوفت کے بغیر۔ 
یہ دن دنیا کے ہر باپ کے نام!
جیسے مائیں یونیورسل ہوتی ہیں نا، ویسے ہی باپ بھی یونیورسل ہوتے ہیں۔ مینجر، پروائیڈر، ان سنگ ہیروز، لیس ایکسپریسو اور بہت حساس۔
جی بالکل، باپ بھی حساس ہوتے ہیں۔ بس بتاتے نہیں ہیں، کیونکہ بتانے سے ان کے بچے پریشان ہوجاتے ہیں۔ یہ سوچ کر کہ ان کے ابا ایموشنل ہیں۔ تو ابا ایموشنز سائیڈ پہ کر کے پریکٹیکل ہوتے جاتے ہیں۔ ان کے بچوں کا احساس تحفظ جڑا ہوتا ہے نا اس سے۔
اور باپ سے جڑے احساس تخفظ کو سمجھنا ہو تو اس بچے کی آنکھ میں جھانک کر دیکھ لیں جو باپ کی انگلی تھامے سڑک کنارے چل رہا ہوتا ہے۔ کبھی انگلی چھڑا کر سڑک پر لگے پودوں کو چھیڑتا ہے تو کبھی آتے جاتے بلیوں کتوں سے الجھتا ہے۔ پتا ہے کیوں؟ اسے معلوم ہوتا ہے کہ ابا کے ساتھ ہوں ۔۔۔ کچھ ہوا تو سنبھال لیں گے۔
کچھ موضوعات ایسے ہوتے ہیں جن پر لکھتے ہوئے آپ بلینک ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی انہی میں سے ایک موضوع ہے، جو مجھے بلینک کردیتا ہے۔ کوئی اس شخص کے متعلق کیسے کچھ لکھ سکتا ہے جو زندگی بھر اپنے لیے کسی سے نہ الجھا ہو۔ وہ جس نے اپنے لیے ڈیو سپیس بھی نہ مانگی ہو۔ وہی شخص اپنے بچوں سے محبت ہی تعلق کا معیار بنا لے تو کوئی اس کے بارے میں کیا لکھے؟ خاموش پروائیڈر وہ شخص جب اپنی تکیلف نہیں بتاتا کہ بچے پریشان ہو جائیں گے۔ اس شخص کو لفظوں میں کون بیان کرے اور کیسے؟
پچھلے دو ہفتوں سے میں جملے لکھتی مٹاتی ہوں۔ لفظ تراشتی ہوں۔ ان میں رنگ بھرتی ہوں۔ حرفوں کے ہیر پھیر سے آہنگ بناتی ہوں۔۔۔۔۔اور میں ہار جاتی ہوں۔ اس ایک ایکٹ کے سامنے جب ایک سیلف لیس شخص مجھے ساتھ لگا کر ماتھا چومتا ہے۔
اور میرا سارا تخیل میرے سامنے بے بس کھڑا رہ جاتا ہے۔ میں جو بیٹھے بیٹھے ستاروں سے کہکشاؤں تک کا سفر لفظوں میں طے کر لیا کرتی ہوں، اس ایک جملے کے سامنے گونگی ہو جاتی ہوں جب کوئی کہتا ہے تم لوگ میرے جگر کے ٹکڑے ہو۔
یہ دن ہر اس شخص کے نام، جو بیٹی کی پیشانی چوم کر اسے سر اٹھا کر جینے کا اعتماد بخشتا ہے۔ یہ دن ہر اس شخص کے نام، جو جگر کا ٹکڑا کہہ کر بیٹی کے لہجے میں اعتماد بھرتا ہے۔
یہ دن ہر اس شخص کے نام، جو اپنے بہترین دن کسی کےمستقبل پر وار دیتا ہے ۔۔۔ بغیر کسی صلے کی خواہش کے۔ یہ دن ہر اس شخص کے نام جو سفر، موسم، بیماری، وطن سے دوری کی پروا نہیں کرتا ۔۔۔۔ کیونکہ اس سے اس کے بچوں کی مسکراہٹیں جڑی ہوتی ہیں۔
یہ دن دنیا کہ ہر باپ کے نام، جو انگلی پکڑ کر چلنا سکھانے سے لے کر پرواز کے لیے پر مہیا کرنے تک ہر ہر موڑ پر بچوں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ جب جب اس کے بچے تھکنے لگتے ہیں وہ مصنوعی غصے سے ان کی تھکن کو توانائی میں بدل دیتا ہے۔ جب جب اس کے بچے حوصلہ ہارنے لگتے ہیں وہ ان کی پیٹھ تھپک کر، زندگی کی امنگوں کے قصے سنا کر، ڈانٹ کر ان کو زندگی کی طرف لوٹنے کا جواز مہیا کرتا ہے۔ یہ باپ ہی ہوتا ہے جو اپنی محنت کی کمائی اپنے بچوں پہ انوسٹ148 کر کے خوش ہوتا ہے۔ یہ باپ ہی ہو سکتا ہے جو راہ کے سب کانٹے اس لیے سہتا رہتا ہے کہ اس کے پیچھے آنے والے اس کے بچے درد سے ناآشنا رہیں۔
مجھے نہیں پتا اس تحریر کو مکمل سا تاثر کیسے دینا ہے. یا پھر یہ کیسے بتانا ہے کہ ابا کیا ہوتے ہیں۔
لمبے لمبے فقرے لکھ کر مٹا چکی ہوں۔ ذہن پر زور ڈال کر کوئی ایسا منظر ڈھونڈنا چاہتی ہوں جس پر اس تحریر کا خاتمہ کروں۔
لیکن ذہن بار بار بھٹک کر اس منظر کا قیدی بن جاتا ہے ابا، جب بیٹی کی رخصتی پر آپ بے ساختہ کرسی پر بیٹھ گئے تھے۔
پتا ہے آپکو ۔۔۔ بہت سوں نے تو وہ منظر دیکھا بھی نہیں ہوگا۔ بہت سوں کے لیے آپ تھک گئے ہوں گے۔ لیکن ایک لمحے کے ہزارویں حصہ میں ۔۔۔۔۔ جب آپ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پھنسا کر زیاں اور تاسف اور اضطراب کا اظہار کیا تھا ۔۔۔۔ آج چار ماہ بعد بھی میرے اندر اسی منظر کی بازگزشت ہے۔ یہ محبت کا شاید وہی درجہ ہے جسے رب نے قبولیت سے نوازا ہے۔
اس فنکشن پر جب آپ سب کو ڈانٹ رہے تھے اور سب کو آپ بےچین لگ رہے تھے۔
اس وقت آپ کی آنکھوں کی سرخی میں جو کرب تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ محبت کی چغلی کھا رہا تھا۔ جس کے سامنے دو جہاں بھی چھوٹے محسوس ہوتے ہیں۔
آپ کو بتانا تھا آپ کے بچے آپ کو رہتی دنیا تک قائم و دائم، خوش و خرم دیکھنا چاہتے ہیں۔

سستےدانشوروں کےنام


ویسے تو دیکھو نا جسقدر خوبصورت دن اور پیاری رات ہے آج.اور جسقدر میں نے نرم دلی خوش مزاجی انسان دوستی پائی ہے تو انہیں مد نظر رکھتے ہوئے مجھے تمہیں معاف ہی کردینا چاہیے.

لیکن پتا کیا بات ہے؟ ملزم کو معافی اسے مجرم اور مجرم کو معافی اسے گنہگار بنا دیتی ہے. اور میں تمہیں مزید گنہگار ہوتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتی اس لیے تمہیں کہنا چاہتی ہوں کہ آج جس جذبے لگن محنت سے تمہاری اور "دی کوہلی" کی ٹیم نے تمہیارے غرور کا سر نیچا کیا ہے ناں تو یقین کرو مجھے دلی اطیمنان تسلی سکون وغیرہ وغیرہ حاصل ہوئے ہیں.
اسکی وجہ میری تمہاری دوستانہ دشمنی ہرگز نہیں.بلکہ وہ سارے فرعونیت بھرے لہجے اور بڑے بول تھے جو تمہارے ہمنوا لہک لہک کہ گاتے تھے.
اب سنو! یہ جو لوگ اپنی طرف سے انتہائی سمجھدار بن کے اور خود پہ کل عالم کی دانش طاری کر کے کہتے ہیں نا دونوں بھائی ہیں جو بھی جیتے.
میچ ہے اسے جنگ مت بنائیں.
بی میچور.
کھیل میں جذباتیت نہیں ہونی چاہیے وطنیت نہیں ہونی چاہیے جو ٹیم اچھا کھیلے ہم تو اسے سپورٹ کرتے ہیں.
ان سب سے ایک سوال پوچھنا تھا اگر آپ کے بہن بھائی آپکی گرومنگ میں اچھا پرفارم نہ کر رہے ہوں تو باہر ان کے کسی کے ساتھ جھگڑے میں تو آپ باہر والے کو ہی سپورٹ کریں گے نا؟
اچھا چلیں چھوڑیں یہ میرے سے پاکستانی تو ہوتے ہی جذباتی بڑی جذباتی قوم ہیں جی ہم.لیکن دوسری دنیا آپ لوگوں کے ممدوح گورے تو مہذب ہیں نا جی؟ وہ جو ایشنز سیریز میں مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں؟.
رگبی بیس بال کے میچوں میں امریکن سٹیٹس میں باقاعدہ ٹھنی رہتی ہے.
ترکی اور یونان کا فٹ بال میچ ہو تو بارڈر بند کرنا پڑ جاتا ہے.
یونان اور آسٹریا میں کئی سال میچ کے بعد کرفیو لگانا پڑتا رہا.
یہ عصبیت میری یا میرے جیسے بے وقوف پاکستانیوں کی بنائی ہوئی یا گھڑی ہوئی نہیں یہ انسان کی جبلت میں ہے.جب کبھی میری قوم کو جذباتیت کے طعنے سے فرصت مل جائے تب ابن خلدون کی عصبیت پڑھ لینا زرا سوشیالوجی پر دماغ کھلے تمہارا. تمہیں پتا ہے میکس کیا کہتا ہے اسے؟؟ دی بیسٹ بائنڈنٍگ فورس.
پر چونکہ تم سب میکس وائبر سے بڑے دانشور ہو سو یہ سستی جذباتیت ہی ہے.
لیکن سنو یہ اگر سستی جذباتیت بھی ہے نا تو بے شرمی سے کہیں زیادہ بہتر ہے.
وہی بے شرمی وہ جو ملک قوم آپ کے آرٹسٹ کھلاڑی کو نہ چھوڑے آپ اسی کو اپنی قوم پر ترجیح دیں تو تف ایسی دانش پر اور افسوس ایسے علم پر.
خیر اب چونکہ ہم جیت چکے ہیں لہذا تمہاری دانش کی ہمیں فلحال کوئی ضرورت نہیں.
اگلے میچ میں دیکھیں گے ہار گئے تو بھی روئیں گے نہی تم لوگوں کی ممدوح ٹیم کی مانند.
جیت گئے تو اسی ذوق و شوق سے تمہارے سینے پہ مونگ دلیں گے.
والسلام تم سب کی بہت پیاری
سحرش عثمان.

دیوانوں سی نہ بات کرے



تمہیں پتا ہے میرا جی چاہتا ہے کہ میں کسی دن رب سے کہوں کہ مجھے اک اور آسمان دو تاکہ میں لمبی اڑان بھر سکوں

مجھے اڑنے کے لیے ایک اور فضاءچاہیے.جس میں میں ڈار سے بچھڑی کونج کی طرح زندگی وموت سے بے نیاز نفع و نقصان سے اوپر کہیں بہت دور ،بہت دور ایک نئے جہان کی دریافت کی بے انت مسافتوں میں کھو جاوں

پتا ہے ڈار سے بچھڑی کونج آسمانوں کی طرف کیوں لپکتی ہے؟ کیونکہ اسے کھونے کا خوف لاحق نہیں ہوتا۔ وہ تو پہلے سے ہی اپنا سب کچھ کھو چکی ہوتی ہے۔ اپنا قبیلہ، اپنی شناحت، اپنے لوگ، پھر وہ ان جہانوں کی مسافر بن جاتی ہے جہاں فاصلوں کی کوئی وقعت نہیں ہوتی اور جہاں سفر ھی منزل ہوتی ہے۔ بالکل ایسے ہی کسی جہاں کی تلاش ہے مجھے بھی۔ جہاں مسافت ایسی لمبی ہو کہ سانس تھمنے لگیں اور شوق سفر نہ جائے۔ جہاں راستے کے پتھر بھی نشان منزل لگیں، جہاں آبلہ پائی اور تیز اور تیز چلنے کا حوصلہ دے۔جہاں منزل کی ہوس نہ ہو، جہاں کھونا ھی پانا ہو-دل چاہتا ہے اس سے کہوں یارب، اب مجھے بدلے ہوے معیارات والی دنیا دے،وہ جس میں کوئی شب نہ ہو،کوئی شب غم۔وہ جس میں کسی کی آنکھ اگر پرنم ہو۔تو  اس کی وجہ اس جیسا  جیتا جاگتا انسان نہ ہو۔
اپنے بندے میں اڑنے کی خواہش بھی تو اسی نے ہی رکھی ہے ۔ پھر اسی کے دوسرے بندے اس پر خفا کیوں ہوتے ہیں؟
ان کو خفا ہونے کا حق ہی کیوں دیا تھا؟ کیا انساں چاند سیاروں ، ستاروں کی طرح اپنے اپنے مدار میں خاموش سفر کرنے والا نہیں ہو سکتا تھا؟ جو کسی کے دائرے میں یہ سوچ کر نہیں گھستا کہ اپنی حد سے تجاوز کیا تو نقصان اٹھاؤں گا۔
اب کہو گے یہ بات انسان کے ذاتی فیصلوں پر چھوڑ دی گئی۔یہ فیصلے کا اختیار دے کر جو بے اختیاری زمیں پر اتاری گئی ہے ، یہ بھی سخت بے اطمینانی کا باعث ہے۔
مستقل بے چینی ہے فیصلے کے غلط ہونے کا خوف، اپنے فیصلوں سے کسی کی دل آزاری کا ڈر۔سنو وہ چاہتا تو خوف کے بغیر والی دنیا بھی تو بنا سکت تھا نا۔
پتا ہے اس کی دنیا میں سارے جاندار مجھے انسان لگتے ہیں۔
مجھے لگتا ہے ہر جاندار کے محسوسات ہوتے ہیں۔ جیسے___ جیسے واک کرتے ہوئے مجھے چاندنی دھیمے سروں میں مسکراتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔اور چاند چاندنی سے رومینس کرتا ہوا۔
تم اس لفظ پر مسکرا رہے ہو نا رومینس پر___سنو یہ لفظوں کی تشریحات بھی تو ہماری ذاتی ہی ہیں نا معاشرتی سی۔
خیر مجھے چاند چاندنی کو محبت پاش نظروں سے تکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
محبت کوڈ ہے نا اس کائنات کا؟ جب کبھی بارش ہونے سے پہلے بادل آسماں کو ڈھک لیتے ہیں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کائنات محبت کے گہرے سرمئی رنگ جیسی ہے۔گہری خاموش اسرار چھپائے ، خود پر نازاں۔
محبت کے بھی کتنے سارے رنگ اور کتنے روپ ہوتے ہیں۔ ہر شخص اپنے ظرف کے مطابق  محبت کرتا ہے۔ محبت کو سمجھتا برتتا ہے۔کوئی چہرے پر مر مٹتا ہے اور کسی کو چہرے کا ہوش ہی نہیں رہتا۔
مجھے لگتا ہے محبت بھی ہرشخص پر، ہر شئے پر، اس کے مزاج کے رنگ میں اترتی ہے۔الگ الگ انداز میں۔ کسی پر منصور کی مانند بے باک۔کسی پر سوہنی کی کی طرح نتائج سے بے پرواہ۔کبھی فرہاد کی مانند محنتی تو کبھی بلھے کی طرح عاجز۔
کسی پر محبت بہاروں کا گلابی پن  کر اترتی ہے آنکھ کے ڈوروں سے عارض کی آنچ تک، ہر شئے گلابی لو دیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
اور کسی کے لیے خزاؤں کا سنہری رنگ بن جاتی ہے، زرد پتوں سے بھی زندگی ٹپکنے لگتی ہے۔
کبھی محبت تپتی دوپہروں کے جوبن جیسی اتر آتی ہے کسی کے من کو جلا کر خاک کر دینے والی۔نہیں بلکہ کندن بنانے والی۔ محبت کبھی خاک نہیں کرتی ۔ نہ رشتوں کو، نہ جذبوں کو، نہ عزت کو، نہ تعلق کو ۔یہ تو نمو دیتی ہے جلا بخشتی ہے۔
جیسے محبت میں رب نے یہ کائنات بنا دی۔
کبھی محبت شاموں کے گلابی پن کی طرح اترتی محسوس کی ہے؟ مدہم مدہم، ہولے ہولے، رفتہ رفتہ کسی کے دل میں گھر کرتی ہوئی جیسے سہ پہر ڈھل کر گہری شام کے درمیان کا وقت ہو۔آسماں کی آنکھ سے قطرہ قطرہ ٹپکتا ہوا دن کے کٹورے کا آخری منظر۔
محبت بھی مجھے محسوسات کی حامل لگتی ہے جو اترنے سے پہلے بندے کی پہچان کر لیتی ہے۔
تم نے سوہنی کا قصہ پڑھا ہے نا؟ 
کچا گھڑا شوریدہ سر چناب اور ملنے کا وعدہ ۔یہ محبت خالص سوہنی کے لیے اتری تھی اس کے مزاج سے میل کھاتی ہوئی۔اب اس کا مزاج لفظوں میں کیسے لکھ دوں؟؟ یہ تو چناب کے بیلوں میں بسنے والوں کو سمجھ آتا ہے۔اسی کارن تو ہر علاقے ہر خطے کی اپنی لوک کہانی ہوتی ہے۔ محبتوں کی اپنی اپنی داستانیں ہوتی ہیں۔
صحراؤں کے باسی عمروماروی سے واقف ہیں۔یہ کمبخت محبت ماروی پر طنطنہ بن کر اتری تھی۔ورنہ کون تھا جو خیام کو انکار کی جرات کرتا۔
سنو! مجھے لگتا ہے خیام کی رباعیوں میں محبت نے صحرا بھرا ہے۔
تم نے پڑھی ہیں نا خیام کی رباعیاں؟ محبت اور اداسی کی صحیح مقدار لفظوں میں گھول دی جائے ، تو خیام کی رباعی بنتی ہے دھیرے دھیرے من میں اترتی ہوئی۔جیسے سردیوں کی بارش ہوتی ہے۔ مسلسل گرتی رہتی ہے پر پانی جمع نہیں ہوتا۔ خنکی کے احساس میں گھلتا اداسی کا کوئی ساز سا ہوتا ہے جو بجتا رہتا ہے۔
مجھے تو بارش بھی احساسات کا مجموعہ لگتی ہے۔ پہاڑ اور ان پر جمی برف، نیچے بہتی جھیل۔ اس کی تشبیہ کسی کی آنکھیں ۔ یہ سب مجھے قصے کہانیاں سناتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
پر تم نہیں سمجھو گے شائد__ یہ دیوانگی کا عالم کوئی دیوانہ ہی سمجھ سکتا ہے۔
تمہیں پتا ہے میں سائیکا ٹرسٹ کو کیوں نہیں ملتی؟؟
کیونکہ میں سمجھتی ہوں دیوانوں سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا؟

Saturday 3 June 2017

پنجاب یونیورسٹی گرلز ہاسٹل: حقیقت حال


حجاب اوڑھا کرتی تھی وہ ، مکمل پردے والا حجاب، ہاتھوں پر گلووز بھی پہنتی تھی۔دو ایک بار بات چیت کے بعد اس کے جہادی خیالات کے متعلق جانکاری حاصل ہوگئی۔
اب ہم نے اسے "ااوائڈ148 کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک دن ڈیپارٹمنٹ سے باہر نکلتے اس پر نظر پڑی تو ہم جیسے جانتے نہیں پہچانتے نہیں کی عملی تفسیر بنے گزرنے لگے تو اچانک ہمارے نام کی پکار سے فضا گونج اٹھی، ناگواری سے پیچھے مڑ کے دیکھا تو محترمہ ہمیں ہی دیکھ کر ہاتھ ہلا رہی تھیں، چارو ناچار ہاتھ ہلانا پڑا حال احوال اور ہم سٹک لیے۔
اگلے دن کیفے ٹیریا میں کوئی اچانک آن ٹکرایا_____ پھر وہی محترمہ سوالیہ نشان بنے چہرے کو دیکھ کر کہنے لگیں حجاب میں پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے نا۔
یہ میں ہوں__کہا جی؟ کہنے لگیں کیا ہوا ناگواری کو قطعی چھپائے بغیر کہا کچھ نہیں بس موڈ نہی بات چیت کا۔اور دل میں سوچا اب تو ضرور پیچھے ہٹ جائے گی۔
لیکن حیرت کا جھٹکا اسوقت لگا جب کہنے لگیں کوئی بات نہیں میرے ساتھ بھی ایسے ہوتا ہے کبھی کبھی کسی سے بات کرنے کا جی نہیں چاہتا۔
یہ تھا ہاسٹل سے میرا پہلا تعارف۔

وہ پیاری حجابی دوست اب آپ لوگوں کو جھٹکا لگا ہوگا لفظ دوست سے۔وہ ہے ہی ایسی دوست کہے جانے کے قابل۔ 
نہ صرف وہ بلکہ ہاسٹلز کی ساری قرآن کلاس والی دوستیں وہ جب شروع شروع میں خود کو ایک دوسرے کا ایمان کا ساتھی کہا کرتی تھیں تو مجھ جیسے بہت سے زیر لب طنزا مسکرایا کرتے تھے۔
لیکن ہاسٹل کے چار اور کئیوں کے چھ سالوں نے انہیں درست ثابت کیا۔
بہت سی لڑکیاں جنہیں میں ننجا ٹرٹل تو کبھی جہادی آنٹی تو کبھی دہشت گرد کہہ کر پکارا کرتی تھی ان میں سے کسی نے کبھی پلٹ کر مجھے نہیں کہا بی بی یہ جو تم کلاس میں تنک کر لوگوں کو مائے ڈریس مائے پرسنل میٹر کے جواب دے کر لاجواب کرتی ہو تو کیا یہ کلیہ ہمارے لیے بھی قابل عمل ہے؟ بھلا کیوں؟ کیوں کہ وہ لڑکیاں پیس فل کو ایگزسٹینس کی قائل تھیں۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا ہاسٹلز میں رہ رہی ہیں تو کہیں نا کہیں کسی فضول بات کا حوالہ بننا پڑے گا سو احتیاط لازم__ کلاس میِں حجاب اوڑھنے والی زیادہ تر لڑکیاں ہاسٹلرز تھی __ چھ بجے کے بعد پی یو کہ ہاسٹل کے گیٹ انڈیا پاکستان بارڈر کی طرح بند ہوجاتے ہیں۔
جس پر ہاسٹل کی لڑکیوں اور وارڈن کے درمیاں آئے روز معرکے ہوا کرتے تھے__ ہاسٹل کی لڑکیاں ڈنر کرنے پانچ بجے جایا کرتی تھیں___
اور ویلنٹائنز ڈے اور نیو ائیر نائٹ کا نام سن سن کے اور شریکوں کے لال منہ دیکھ کرخود کو چپیڑیں مارنے والوں کی اطلاع کے لیے بتاتی چلو پی یو میں دونوں مواقع پر باقاعدہ چھٹی ہوا کرتی ہےاور چھٹی پر یاسٹلز میں صرف الو بولتے ہیں یا وہ لڑکیاں جن کا اگلے دن پیپر یوتا ہے۔
خیر یہ سب بتانے سے صفائی دینا یا ایکسپلین کرنا مقصد نہیں تھا بتایا اس لیے کہ مجھے اپنے حصے کا سچ بولنا تھا۔
پر آج یہ لائنز لکھتے ہوئے اپنے حصے کا سچ بولتے یوئے نہایت افسوس اور دکھ ہو رہا ہے۔ وہ ساری لڑکیاں جو ہاسٹلز میں چھ چھ سال گزار کر اس دور ابتلا میں بھی عزت مخفوظ رکھ حیا کا پاس رکھ کر گھروں کو واپس جا چکیں یا جانے والی ہیں وہ سب کسی ڈیسپو کے ناکام اور فرسٹریٹڈ جذبات کی وجہ سے سوالیہ نشان کا شکار ہیں۔
ہاسٹلز میں ہر قسم کی لڑکیاں ہوا کرتی ہیں ہر لڑکی ایک الگ فیملی کی ریپرزینٹیشن۔
الگ ماحول سے آئی ہوئی الگ لڑکی الگ فرد دراصل الگ الگ ماحول اور فیملی گرومنگ کا الگ الگ نمائندہ۔
جن میں زیادہ تر ٹیپیکل پڑھاکو ٹائپ لڑکیاں ہوتی ہیں۔اپنی اپنی کلاس کی ٹاپر نیچرل سائنسز پڑھنے والی اماں ابا کی لاڈلی سیدھا سا کلیہ ہے جس معاشرے میں صرف دو فیصد لڑکیاں یونیورسٹی جا پاتی ہوں اور ان دو فیصد میں بھی پوائنٹ ایٹ پوائنٹ نائن پرسنٹ ہاسٹلرز ہوں بھیا ایسی لڑکیاں پڑھ کے میرٹ پہ آ کہ ہاسٹلز آتی ہیں ابا فیس دیتے ہیں اماں کھانے فریز کر کر کہ لاڈ اٹھاتی ہیں۔بھیا ایسی لڑکیاں میریٹ پی سی میں "ملاقاتیں148 افورڈ نہیں کرسکتیں۔
یہ جملے لکھتے ہوئے بھی شرم آ رہی ہے خود کے لڑکی ہونے پر نہیں آپ کی سو کالڈ علمیت کی مردانہ تشرییحات پر۔
کسی نے ٹیکسی ڈرائیور سے قصہ سنا اگلے دن صبح اٹھا اور فون اٹھایا ٹائپ کیا اور چھپوا دیا ان کی بلا سے ایک ہزار لڑکی ان کے الزام کی زد میں آاءی ہے دو ہزار یا پانچ ہزار انہوں نے تو "سچ148 کا بول بالا کردیا اللہ اللہ خیر صلا۔
کسی نے ثبوت مانگا؟ گواہی چاہی؟ کسی نے یہ بھی نہیں پوچھا جب ٹیکسی ڈرائیور کا نام بھی نہیں معلوم تو کس برتے پر کہانیاں لکھ رہے ہیں آپ جناب۔
میں نہ تو ماہر قانون ہوں نہ اسلامی فقہ کا علم ہے لیکن کم علمی کے باوجود یہ معلوم ہے مجھے ایسے الزامات پر حد لگتی ہے۔تو کیا اس اسلامی جمہوری ملک میں کسی میں اتنی اخلاقی جرات ہے کہ وہ اتنی زیادہ پاک دامن لڑکیوں پر فضول گھٹیا الزام لگانے پر معافی مانگے؟ یا پھر اپنے الزامات ثابت کرنے کے لیے ثبوت مہیا کرے؟ یا پھر آپ سب عبداللہ بن ابی کے قبیلے سے ہیں؟ کیا آپ سب منافق ہیں؟
یہ لکھنا اس لیے ضروری سمجھا کیوں کہ اب کسی پیمبر پر سورہ نور نہیں اترے گی۔اب ہمارے بیچ کسی امام زماں کو نہیں آنا۔
اب میری جنس کی پاک دامنی اپنے اختیار کی حد تک مجھے ثابت کرنا ہے۔
اور اپنے الزامات کو بہرحال آپ ہی نے ثابت کرنا ہے وگرنہ حشر تو برپا ہونا ہی ہے ناں؟ 
آپ کی خوش قسمتی آپ ہم آپ پاکستان جیسے ملک میں رہتے ہیں کوئی مہذب ملک ہوتا جہاں انصاف کی قیمت نہ ہوتی تو اب تک کوئی آپکو سو کر چکا ہوتا۔