Pages

Wednesday 13 January 2016

مزاح پارے


یہ ان دنوں کا قصہ ھے، جب ہم شدت سے یونی پولر سسٹم کے حق میں تھے۔

اور چونکہ ھماری یونی پولیرٹی جسے چیلنج کرنے کیلئے، ہمارے اردگرد، ہررنگ، نسل، سائز اور ٹائپ کا کزن موجود تھا۔ جس سے کسی بھی وقت ھمارے اقتدار کو خطره لاحق ھو سکتا تھا۔ان خطرات کے تدارک کیلئے ہم نے نہایت عمده سٹیرٹیجی ترتیب دے رکھی تھی۔ہم نےتمام ویٹو پاورز یعنی دادا، دادی، تایا اور ابا سے نہایت حوشگوار تعلقات استور کر رکھے تھے۔
لہذا ہمیں ہمیشہ اسرائیل کی طرح ٹریٹ کیا جاتا۔
ہم بھی اس سٹیٹس سے بھرپور فائده اٹھاتے اور ہر وقت کہیں نہ کہیں محاذ کھولے رکھتے۔گرمیوں کی چھٹیاں ہماری فیورٹ ہوتیں کیونکہ اس میں ٹارگٹس کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا تھا۔ہم نہایت انصاف سے اور برابری کی بنیاد پر صبح اور شام اپنے ایک کزنز کی کٹ لگاتے اور بھاگ کر دادا کے کمرے میں پناه گزیں ہو جاتے...دادا کی کمرے کی دہلیز پر کبھی ہماری کوئی پھپھو، کبھی تائی، یا کوئی دوسری خاتون کھڑی ہمیں کینہ توڑ نظروں سے گھور رہی ہوتی اور یہ خاتون وہی ہوتیں جن کے لعل کو ہم تازه بہ تازه لال کر کے آئے ہوتے۔ہماری اماں کے سوا کسی خاتون کی جرات نہ تھی کہ دادا کو جا کر ہمارے کارنامے گوش گزار کرتیں۔ اماں جب سوشل پریشر سے گھبرا کر متاثره فریق سمیت کمرے میں قدم رنجہ فرماتی۔ ہم فورا لسانی کارڈ استعمال کرتے۔اردو سپیکنگ ہونے کی وجہ سے ہم ہمیشہ اپنی مظلومیت ثابت کر دیتے۔ وفاق کے ظلم گنواتے اور متاثره فریق صرف پنجابی بولنے کی وجہ سے غاصب کہلایا جاتا۔اور دادا شیر بن شیر کہتے ہوئے کیس ڈس مس کر دیتے۔
یہ صورتحال ایسے ہی چلتی رہتی۔ جو ایک دن ہم اپنے کلاس فیلو کا سر دیوار میں  مار کر ڈاکٹر کواس کے سر میں ڈیزایننگ کرنے کا مواقع نہ فراہم نہ کر دیتے۔گو کہ بات ذرا سی تھی، صرف چار ٹانکے
لیکن بات عمر بھر کی تھی۔سو اماں نے ہمارا علاج ڈھونڈ لیا۔اور یوں ہم نے عمرو عیار کے قصوں کی پہلی کتاب پڑھی

No comments:

Post a Comment