Pages

Saturday 26 November 2016

بچپن




اچھا تھا بچپن پیارا سا. ٹیکنالوجی نے ابھی دن رات یوں نہیں کھائے تھے کہ ہاتھ میں ٹیبلٹ, آنکھ گیم پر  اور ماں منہ میں نوالہ ٹھونستی ہو کہ جوں جوں گیم چلتی ہے توں توں کھانا ہضم ہوتا ہے۔ دن میں صرف ایک گھنٹہ ویڈیو گیم کھیلنے کی اجازت تھی یا پھر بے بی لونی ٹونز دیکھنے کی۔گو کہ زیادہ پرانی بات نہیں پر جانے کیوں مجھے گمان گزرتا ہے تب وقت بھی یوں پر لگا کر اڑا نہیں کرتا تھا۔سکول سے واپسی پر کام کرکے قاری صاحب سے سیپارہ پڑھنے کے بعد کی ٹوٹل اینٹرٹیمنٹ سارے کزنز کی تخریب کاریاں ہوا کرتی تھیں

کزنز کے معاملے میں بھی ہم خود کفیل تھے ۔ بلکہ دس بارہ چودہ ایکسپورٹ کر دینے کی پوزیشن میں بھی تھے۔ دادا کا بڑا گھر جس کے پیچھے والا زیر تعمیر حصہ جو ہمارا پورا بچپن زیر تعمیر ہی رہا۔سی ایم کا شوق ٹھرک، آئی مین سڑک ہو جیسے. خیر تب نہ تو یہ بکھیڑے نہیں تھے کہ پوچھا کرتے کہ اس کا ٹھیکہ کسی پرائیوٹ کمپنی کو ہی دے ڈالیں۔ پی ایم ڈی سی کے بس کی بات نہیں بابو۔نہ ہی شعور کی یہ خود اذیتی کا دور شروع ہی ہوا تھا۔بلکہ الٹا یہ زیر تعمیر حصہ ہماری جنت تھا۔

تائی امی (رب ان کے درجات بلند کرئے آمین) کو گارڈننگ کا شوق تھا ۔ایک بلی بھی پال رکھی تھی ۔ تو جب اپریل کے شروع میں تائی امی لہسن کے دو تین جوئے زمین میں دبا کر لہسن اگاتی تو ان کے ساتھ ساتھ قطار میں دس پودے مزید لگائے جاتے ۔ہر بچے کا اپنا پودا اور ساتھ میں عہد بھی لیا جاتا کہ اپنی  جان پر کھیل کے ان کی حفاظت  کریں گے۔ اور چار دن بعد جب  پچاسویں بار زمین کھود کے دیکھی جاتی کہ پودا اب کہاں پر ہے تو ہیڈ مالی کزن خبر دیتا کہ یہ پودا نہیں اگنے والا۔ دراصل ہمارے گھر کی زمین لہسن کے لیے موزوں نہیں یوں بھی لہسن کے کچھ خاص فوائد نہیں ہوتے ۔لہذا ہمیں کچھ اور اگانا چاہیے اور یوں قرعہ فال پیاز کے نام نکلتا ۔

پیازوں والی ٹوکری سے دس پیاز چرائے جاتے جو سارے بچوں کی امیوں کی ٹوکریوں سے برابر برابر چرائے جاتے ۔ زمین کھود کر اندر پانی بہایا جاتا ۔ زمین برابر کی جاتی کھاد کے نام پر روٹیوں کے خشک ٹکرے دبائے جاتے اور پیازوں کے دس پودوں کے لیے دس پیاز بو دیے جاتے. بعد میں ہیڈ مالی کزن سے دعا کرائی جاتی ۔یہ وہ کزن تھا جس کے شر سے شیطان بھی پناہ مانگتا تھا لیکن ہم اسے اپنے مدرسے کا امام بنانے پر مجبور تھے کیونکہ پیچھے کھڑا کرنے سے جوتے چوری ہونے کا خدشہ تھ

امام ساب دعا کرانے سے پہلے شرائط طے کر لیتے کہ جو دعا وہ مانگیں گے سب اس پر آمین کہیں گے مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق شرائط تسلیم کر لی جاتیں۔ امام ساب دعا کراتے، اے اللہ میرا پودا سب سے لمبا ہو۔اور سارے مقتدی ایسی دعا پر انگشت بدنداں رہ جاتے ۔امام ساب لہجے میں تنبیہ بھر کہ نسبتا بلند آواز میں دعا دہراتے ۔ساتھ ہی کھنکھار کے گویا یہ بھی واضح کرتے کہ وہ ہاٹ لائن پر ون آن ون گفتگو فرما رہے ہیں.لہذا مری مری سی آمین بلند ہوتی

امام ساب ترپ کا پتا پھینکتے کہ یا رب اونچی آمین کہنے والے کا پودا دوسرے نمبر پر ہو اور ساری جنتا آوے ای آوے کے مصداق دیوانہ وار پکارتی آمین۔آمین۔ دعا کا سرا وہیں سے جڑتا۔ اللہ میرے پودے پر سب سے زیادہ لہسن لگے۔مجبوری میں کہا گیا آمین اور اس کے ساتھ ہی مولوی ساب کا آمین کہہ کے منہ پر ہاتھ پھر کر چلتا بننا۔ پیچھے بچی عوام اپنے اپنے پودے کے لیے دعا کرنا بھی چاہتی تو نہ کر پاتی۔   مولانا کزن ساب کا فتوی تھا، اجتماعی دعا کے بعد اکیلے بندے کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ اور دس دن بعد جب تائی امی اپنے لہسن بارے تشویش کا شکار ہو کہ کھیت کا چکر لگاتیں تو پھر بلا امتیاز، رنگ و نسل، عمر ،جنس و ولدیت سب کی حسب توفیق لتریشن فرماتیں۔ اس عظیم الشان عزت افزائی کے بعد فورا کیبنٹ میٹنگ بلا لی جاتی ۔جو نیم سے لٹکے دو جھولوں تین عدد کرسیوں اور پیڑھیوں پر بیٹھ کر منعقد کی جاتی۔ جس میں کابینہ کے سارے اراکین اسٹیبلشمنٹ کے غیر جمہوری اقدامات کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتے اور دادا کی سپریم کورٹ میں ہمارے خلاف مقدمے کو جمہوریت پر حملہ قرار دے کے اس کے خلاف قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کر لیتے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی طے پا جاتا کی اب ہم چڑیاں طوطے پکڑ لائیو سٹاک کا بزنس کریں گے

اگلی دوپہر ماؤں کے سوجانے کے بعد ساری کابینہ ٹوکری کے نیچے دانہ ڈال کے ٹوکری سے دھاگا باندھ کے دم سادھ بیٹھ جاتی۔ کتنا معصوم شکار تھا۔ شاعر کے بقول چھوٹے تھے تو مکرو فریب بھی چھوٹے تھے۔ دانہ ڈال کے چڑیاں پکڑا کرتے تھے اور جب ساری دن دھوپ میں گزار کر شام کو ہم ویسٹ انڈیز کے نیشنلٹی کیلئے کوالیفائی کرنے والے ہوتے تو ماؤں کو خبر ہوجاتی۔اگلی دوپہر میں ملیں گے، کی مجسم تصویر بن کر سب چل پڑتے۔اگلے دن جیسے ہی کوئی معصوم پرندہ ہاتھ لگ جاتا تو ہیجڑوں کے گھر پیدا ہونے والے کاکے سا سلوک فرمانا شروع کر دیتے ۔ ہاتھ میں پکڑ پکڑ کے اس کی حالت غیر کر دیتے۔شام تک اس کی حفاظت کرتے اور رات ہونے سے پہلے سیکیورٹی لیکس ہوجاتی کوئی سرل المیڈا سٹوری فائل کرکے چلتا بنتا۔

دادا جان بنفس نفیس آتے سب کی گوشمالی کرتے ہوئے پرندہ اڑاتے اور چل پڑتے۔ ایک دن کے وقفے سے دو خوابوں کے روندے جانے پر ہم سب غم سے رنجور چپ چاپ بیری کو اور انگور کی بیل کو پتھر مارا کرتے۔اور یہشغل تب تک  فرماتے  جب تک نیا کٹا نہ کھول لیتے.اور یوں سارا بچپن کزنز کے چڑیا گھر میں چوں چوں کرتے گزرا.
یہ سب لکھنے کا خیال ایک خبر پڑھ کے آیا کہ ہمارے چالیس فیصد بچوں کو کمیونکیشن ایشوز ہیں۔اور اسکول گوئنگ بچوں کی بڑی تعداد سیریس اٹیٹیوڈ پرابلمز کا شکار ہے۔ پتا نہیں کیوں مجھے ان مسائل کے پیچھے آجکل کی ماؤں کا خود ساختہ سوشل بائیکاٹ بھی ہے جس میں مائیں بچوں کو لے کر شدید آئسولیشن کا شکار ہیں

بھئی سیدھی سی بات ہے جنس با جنس پرواز پانچ پانچ، چھ چھ ،سات سات سال کے بچے جب اپنے ہی جیسے بچوں سے کمیونکیٹ نہیں کریں گے تو لازمی ہے ان کا سکول انہیں کمیونیکیشن سکلز  کے کورسز ہی کرائیں گے اور جب مائیں سارا وقت یہ بتاتی رہیں گی کہ چاچو کے، پھپھو کے، تایا کہ بچے گندے ہیں تو پھر اٹیٹوڈ ایشوز تو ہوں گے ہی۔
 تو میری قوم کی کافی پیاری ماؤں ، سوچیں ذرا بچوں کے نفسیاتی سیشنز کرانے سے کہیں بہتر ہوگا اگر وہ اپنے ہی جیسے بچوں کے ساتھ فیزیکل ایکٹیوٹیز مصروف ہو جائیں۔ مائے ڈئیر لیڈیز کزنز بڑا پیارا رشتہ ہوتا ہے، اسے کم از کم اپنی سیاست کی نظر  نہ کریں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر صرف ایک تعلق باقی رہ جائے سائیکولوجسٹ اور مریض کا.

Wednesday 23 November 2016

نتھنگ مچ




جب بھی کوئی انکل آنٹی پوچھتی ہیں کے اور کیا کرتی ہیں یا کر لیتی ہیں. تو بے ساختہ جی چاہتا ہے کہ بتاؤں کہ صوفے پہ لیٹ کے میز پر پڑے ریموٹ کو پیروں کے ساتھ چلاسکتی ہوں. دونوں ہاتھوں کی ساری انگلیوں اور دونوں انگوٹھوں سے یکساں سپیڈ سے فون یوز کر لیتی ہوں. دو دن کامب نہ کر کے زلف تابدار( کرلی ہیئرز) کو اور بھی تابدار کر لیتی ہوں. دن میں چھ کپ چائے کافی پی سکتی ہوں کزنز کے الٹے سیدھے نام رکھ لیتی ہوں.کسی بھی دوست کو تین منٹ میں اوفینڈ کر سکتی ہوں.صوفے کی بیک پر ٹانگیں ٹکا کر سر نیچے لٹکا کر "چلتے"پنکھے کے پر گن لیتی ہوں. ساکس کے "کپل" کو ایک دن میں سنگل کر لینے کی صلاحیت رکھتی ہوں.
لیکن!!! عجب دستور زبان بندی ہے تیری محفل میں..
جوابا کہتی ہوں تو صرف یہ کہ
نتھنگ مچ._____ اور اس نتھنگ مچ پر میرے اندر کا آرٹسٹ دہائیاں دیتا ہے.
ہے کوئی جو اس نتھنگ مچ کے پیچھے چھپے کرب جو پہچانے اس درد کا درماں بنے اور اس دکھ کا چارہ گر بنے..

Monday 21 November 2016

لفظوں کا دکھ




اور ان لفظوں کا کیا ہوتا ہے جو جملوں میں نہیں ڈھل پاتے.وہ خیال جو اندر طوفان برپا کر کے چپکے بیٹھ جاتے ہیں.وہ احساس جو حرفوں میں نہیں سماتے.
اس وحشت کا قصہ کون سنائے اور کیسے؟ جسے کوئی روزون نہیں ملتا کھڑکی نہیں ملتی رستہ نہیں ملتا وہ جو اندر ہی اندر لاوا بنتی رہتی ہے..جو اندر ہی بہہ کر من خاکستر کر دیتی ہے.کہنے والوں کے دکھ بھی عجیب ہوتے ہیں انہی کی طرح. احساس کو گویائی نہ دے پا سکنے کا دکھ.لفظ کے تنہا رہ جانے کا دکھ ان کہی نظموں کا دکھ نہ سنی جا سکنے والی کہانیوں کا دکھ.اور آواز کے گویائی نہ پانے کا دکھ.

Tuesday 15 November 2016

Can I lay by your side?



نیندسے لڑتے جھگڑتے جب کھڑکی کےپاس جاکر ٹھکانہ بنایا تو باہر اکتوبر کی اولین راتوں کا سحر پھونکتا آسماں منتظر تھا۔گہرا نیلا خاموش آسمان اور چپکے چپکے، چمکتےتارے جیسے ان کے زور سے چمکنے سے منظر ٹوٹ جانے کا خوف لاحق ہو۔  کھڑکی کی گرل کھولنے سے پہلے دیور پہ لگے اے سی کی طرف دھیان گیا جو ہر صورت کمرے کو "رہنے"کے قابل بنائے رکھتا تھا۔ کولنگ خراب ہونے کے خدشے کے پیش نظر بند کھڑکی پر پردے گرا کر خود باہر چلی آئی۔ ٹیرس کی دیوار کے ساتھ ساتھ پھیلتی بوگن ویلیا، 
دیوار کے ساتھ گملوں میں پرپل زینیا جس کے درمیان میں گہرا سبز رنگ تھا۔ جو اس کے پرپپل اور ایمرلڈ گرین ڈریس کا ڈیزائنر بھی تھا۔ گیٹ کے پول پر لگی دودھیا لائٹ کا ہلکا تاثر جو منظر واضح تو نہیں کر پارہی تھی مگر اس کی موجودگی چیزوں کو ان کی ساخت پر قائم رکھے ہوئے تھی۔
لائٹ کو دیکھتے ہی اسے اسکا کا کہا ہوا وہ جملہ بھی یاد آیا کہ تم لان میں لگی لائٹ  جیسی ہو، جسے بجھا دیا جائے تو ہر شئے بے معنی ہو جاتی ہے۔ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ تمہیں تو اداس ہونے کی اجازت ہی نہیں ہونی چاہیے۔ تمہارے ساتھ اداسی بالکل نہیں جچتی۔ جیسے چھم چھم برستی بارش میں اچانک سورج نکل آئے اور ہاتھ میں پکڑا چائے کا مگ تک اپنی اہمیت کھو دے
کین کی کرسی پر بیٹھ کر یہ جملے یاد آئے تو مدھم سی مسکراہٹ لمحہ بھر کوچہرے پہ آئی اور پھر معدوم ہو گئی۔ گویا مسکرانا بھی کوشش سے پڑنا ہو۔ اور اب وہ اکثر اداس رہتی ہے۔گویا منظر پگھلاتی رہتی ہے. موم کی صورت جس میں دھاگا جلتا رہتا ہے اور وہ پگھل پگھل کے ہستی کھوتی رہتی ہے۔ناآسودہ خواہشات ان کہے لفظوں کی کوئی نظم اس کے اندر بھی تڑپ تڑپ کے ہستی کھوتی رہتی ہے اور وہ کاغذ قلم پکڑے یہ سوچتی رہتی ہے۔ لکھ دئے وہ سارے احساس جو اسے مسلسل تخلیق کے کرب میں مبتلا رکھتے ہیں۔لیکن لفظ بھی کہاں تک ترجمانی کرتے اس بے انت درد کی۔اور بظاہرکسقدر نارمل زندگی تھی اس کی بلکہ بہت سے لوگوں کے لیے قابل رشک،
وہاں بیٹھے اس منظر کا حصہ بنے، نہیں معلوم کتنا وقت گزرا تھا۔ بس اتنا معلوم تھا کہ آسما ن پر دمکنے والے ستارے اس کی چشم حیراں میں آن بسے تھے۔وہ سارے ستارے ایک ایک کر کے ٹوٹنے کو تھے۔ وہ جن کو آنکھوں میں بسا کر آغاز سفر کیا تھا۔اس سے پہلے کہ یہ متاع شہاب ثاقب میں بدل کر زمیں کی گہرائیوں میں روح سے عاری جسم کی طرح بسیرا کرتے اس نے بات کرنے کا،سمجھانے کا اور اپنا نکتہ بتانے کا فیصلہ کرلیا
ارادے کے بعد کا اطمینان لیے آسمان کے ستاروں کو چاندنی کے اور زینیا کے سبز اور کاسنی رنگ کو پول پر لگی لائٹ کے حوالے کر کے کمرے میں چلی آئی
اگلی صبح کا سورج ارادے اور عزم کی روشنی لیے ہوئے تھا۔ اسی زینیا   جیسا سوٹ پہنے نفاست سے میک اپ کیے جب وہ گھر سے نکلی تو مصمم ارادے کے ساتھ فتح کی امید سے دل معمور تھا۔ویسے امید بھی کیا بری شئے ہے انسان کو جیتے رہنے پر مجبور کرتی رہتی ہے
شہر کی مصروف سڑک پر موجود اس کے آفس میں بڑی سی میز کہ سرے پر دھری کرسی پر بیٹھی وہ اس مصروف ترین شخص کو دیکھ رہی تھی اور جملے ترتیب دے رہی تھی۔ اس شخص کے لیے جو اس کہ لیے رفتہ رفتہ اے ٹی ایم مشین میں بدلتا جا رہا تھا۔ جس میں سے وہ حسب ضرورت روپے نکال کر " زندگی" خریدتی تھی___ وہ جس کے خواب الگ الگ تھے۔ وہ جسے بسی بسائی دنیا میں اپنا مستقبل "روشن" رکھنا تھا۔ وہ جو چھٹیوں پر بھی جاتا تھا تو دبئی یا لندن۔ کہ چھٹیاں توآسائش سے گزرنی چاہییں ارلی گرے ہوجانے والے بالوں کو سلیقے سے جمائے۔ ارلی گرے بھی خوب اصطلاح ہے...جب دن رات آٹھوں پہر مقابلہ جیت جانے کی دھن سوار ہو تو گرے چھوڑ سلور بھی بچ جائیں تو غنیمت سمجھنا چاہیے__ عینک کہ پیچھے اس کی کسی فائل میں ڈوبی آنکھوں میں خود کو تلاش کی سعی لا حاصل میں وہ کہیں دوور نکل گئی تھی...فائل سے نظریں ہٹا اس نے آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی تو حال میں واپس آتے ہوئے بے ساختہ خیال آیا
آہ! تمہیں یہ سمجھانا کسقدر دشوار ہے  کہ مجھے ان بسے بسائے سجے سجائے سیٹلڈ شہروں سے وحشت ہوتی ہے.مجھے لگتا ہے یہ "آسان" زندگی میرے اندر کا خواب پرست مار ڈالے گی...کیا میرے لہجے کی تھکن یہ بتانے کہ لیے ناکافی ہے کہ یہ سہولتوں کا انبار مجھے جینے نہیں دیتا.۔۔ تم نہیں سمجھ پاؤ گئے شائد
مجھے لگتا ہے مجھے سسی ہونا تھا۔پنوں کہ پیچھے تھل کی ریت چھاننا تھی...روحی کے کسی سرد ٹیلے پر زندگی کی شام بتانی تھی
کبھی یہ بھی گمان گزرتا ہے کہ کسی پہاڑی دریا کہ کنارے کسی ٹری ہاؤس کہ نیچے کرسی ڈالے اکتارہ بجاتے ہوئے سپہریں کاٹنا تھیں..یہ تو نہ چاہا تھا کہ آدمیوں کہ ہجوم میں عمر بسر ہو..پر تم نہیں سمجھ پاؤ گے تمہیں لگتا ہے زندگی آسائش کا دوسرا نام ہے تمہیں یہ بھی لگتا ہے کہ سیٹلٹڈ شہروں کی رونقیں جاگتی راتیں مصروف دن زندگی کی علامت ہیں....
سنو! کسی دن صحرامیں رات گزارو ٹہرے ہوئے آسماں پر فسوں جگاتے ستارے ریت پر منعکس ہوتی چاندنی اور دوور کہیں بجتی بانسری تم۔ سحر کا مفہوم نہ جان جاؤ تو تو جادو کا لفظ ہی لغت سے نکال باہر کرنا۔
سنو تم جاگتی راتوں میں چمکتی، آنکھوں کو خیرہ کرتی مصنوعی روشنیوں کو ہی خوبصورتی سمجھ بیٹھے ہو....خوبصورتی دیکھنا چاہو گے؟؟؟ تو پھر کسی معصوم بچے کی شفاف آنکھوں میں ڈوبتا سورج دیکھو۔ اگر حیرت استعجاب ، خوشی، امید باہم یکساں مجسم خوبصورتی نظر نہ آئیں تو میں خوبصورتی کی تمہاری تعریف کو مان لوں گی
تم ایک دفعہ کسی دوست کا ہاتھ تھام کہ ان شہروں سے نکل کر کسی ویرانے میں جا بسرام تو کرو۔ زندگی کاٹنے اور جینے کہ درمیان فرق سمجھ جاؤ گے..دیکھو!! بڑا گھر بڑی گاڑی، بڑا بینک بیلنس یہ ہی تو زندگی نہیں۔ کسی دن چوٹی پر چھوٹا سا کیمپ اس میں راڈ سے پانی گرم کر کے کافی اور اس کافی میں ڈبوئے سخت بسکٹ کھا کر دیکھو تم زندگی محسوس کرو گے
تم ایک بار ایک بار میرے ساتھ چلو ہم دریا کہ ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ریت پر بیٹھ کہ پانی میں بنتے بگڑتے.بھنور دیکھیں گے۔ اگر یہ سب مایا اس بھنور جیسا نہ لگا تو میں تمہاری دنیا میں پلٹ آؤں گی۔ پر آسائش آسان زندگی والی دنیا میں۔۔ لیکن ایک بار چلو تو سہی۔اس کے اندر کی دیوانی  لڑکی منظروں کی دلیلوں کے انبار لگا رہی تھی اور وہ ہونٹوں پر چپ کی دبیز تہہ لگائے بیٹھی تھی۔اندر کی شوریدہ سری نے سرپٹخا اور اس نے کہنے کے لیے لب کھولے اور تو بس یہ کہا ، دیر ہو گئی ہے۔کیونکہ دیر تو واقعی ہو چکی تھی وہ زندگی کی ان منزلوں کی مسافر ہو چکی تھی جن راہوں کا سب سے بڑا خوف اظہار کے بعد کی بے توقیری ہوتا ہے۔ وہ کہہ کہ لفظوں کا مان نہیں گنوانا چاہتی تھی
اگر اس نے حسب معمول میرے محبتوں کے سارے فلسفے چٹکی میں اڑادیے تو__ کیا اس کے بعد جینا ممکن ہوگا؟ 
چلیں، کی آواز نے اس کے خیال کو بریک لگائی اور وہ دیوانی اس کہ ساتھ گاڑی میں آ بیٹھی__ کیونکہ سمجھداروں کو دیوانگی سمجھانا کسقدر مشکل ہوتا ہے یہ کوئی "دیوانہ" ہی سمجھ سکتا ہے.

Sunday 13 November 2016

ورچوئل دھشت گردی


جیسے شہباز شریف نے لاہور میں سڑکوں اور پلوں کااور جیسے کیبل نیٹ ورکس نے ملک میں "فحاشی"کا جال بچھا رکھا ہے.

بلکل ایسے ہی دو جڑواں شہروں میں ہمارے کزنز کا جال بچھا ہوا ہے.
شہر کےکسی بھی کونے میں چلے جائیں کوئی نا کوئی کزن دانت نکالتا ہوا برآمد ہوتا ہے اور امی ابا سمیت پورے خاندان کی خیریت معلوم کرنے لگتا ہے.جیسے ہم سارے خاندان کے جملہ امور صحت و تعلیم کے سپوکس پرسن ہیں .وہ تو بھلا ہو گاگلز ایجاد کرنے والے کا۔۔. رب اس کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے آمین.
جن کو لگائے ہم کینہ توز نظروں سے انہیں گھورنےکے با وجود چہرے پہ جیسے جانتے نہیں پہچانتے نہیں کے تاثرات سجائے بے مروت سے پھرنے کی کوشش کرتے ہیں.وگرنہ تو ہمہ وقت واٹس ایپ کی آنکھیں اوپر کی وی سمائیلی جیسا فیس بنا کہ پھرنا پڑتا۔۔.
کبھی کبھی ذہن میں خیال آتا ہے، دل میں اس لیے نہیں آتا کہ جب ذہن میں خیال آ سکتا ہے تو کیوں خوامخواہ دل کو زحمت دی جائے؟ ویسے بھی بیچارہ دن رات صبح شام آٹھوں پہر خون پمپ کر کر کے تھک جاتا ہوگا اوپر سے ہم اس سے ایکسٹرا ڈیوٹیز کراتے پھریں. بھئی ہمارا دل کوئی ڈاکٹر یا ٹیچر نہیں نہ ہم سی ایم، جو اس سے اتنا برا سلوک کریں.لہذا ہم خیال ویال ذہن میں ہی لاتے ہیں.کہ وہاں یوں بھی سارا دن فسادی منصوبے بنتے رہتے ہیں سو کافی وقت مل جاتا ہے وہاں خیال لانے کا.
ہاں تو ہم بتا رہے تھے کہ ذہن میں خیال آتا ہے کہ جانے کون لوگ ہوتے ہیں جن کے دو دو چار چار پانچ پانچ کزنز ہوتے ہیں یہاں تو برائی کی طرح ہر سو پھیلی ہوئی عوام ہمارے کزن کے عہدے پر فائز ہے. اگر ہم صرف آج تک کی، ان کی ہمیں کی گئی سلامیاں ہی گنیں تو شمار مشکل ہو جائے۔۔ اس سے حساب لگائیں اگر سلام دعا کی کوئی فیس رکھ لیتے تو آج چھوٹے سےبل گیٹس ہم بھی ہوتے اور اگر یہ سلامیاں توپوں کی صورت میں ہوتی تو آج اپنے اسلحہ ڈیپو کے مالک ہوتے ہم۔۔.ارے بھئی توپ لے کہ رکھ ہی لیتے نا ہم؟ اب اتنے آتشیں "اسلحے" کے سامنے کون جرات کرتا توپ چلانے کی؟
یادش بخیر جب فیس بک پر اکاؤنٹ بنایا تو تقریبا ہر شام صدماتی کیفیت ہوتی. وہ کزن جن کے آنے پر ہم جوس بھی اماں کی شدید گھوریوں خاموش دھمکیوں کے بعد طوعا کرہا سرو کرتے تھے وہ بھی فرینڈز ریکوسٹ بھجوا رہے تھے اور انباکس میں آ کر تعارف بھی.اس سے پہلے کہ ہم ایک خط بنام مارک زخربرگ لکھتے اور اپنے تخفظات سے اسے آگاہ کرتے کہ بھیا یہ ان سب نمونوں کو کاہے اپنی ویب سائٹ پر دندناتے پھرنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کوئی لگام وگام ڈالو انہیں کم از کم ان لوگوں سے انباکس ہی چھین لو کہ کسی نے چپکے سے سرگوشی کی کہ بی بی اگنور کیوں نہیں کرتی ہو سب کو. 
اور بلاک کس نے کری ممنوع
کردو اچھی لگتی ہو.
سو ایک کرائیٹیریا سیٹ کیا ہر انباکس کرنے والے کزن/فیلو کو بلاک کرنا شروع کردیا جس کے بعد سے فیس بک ایسی پرسکون لگنا شروع ہو گئی کہ بس.اس سے پہلے کہ کل عالم کو بلاک کر کے ہم گلیاں سنجیاں کر لیتے۔۔۔ بلاک شدگان و دیگر کو ہم فیس بک پر ویسے ہی لگنے لگے جیسے وہ ہمیں اصل زندگی میں لگتے ہیں یعنی کے زہر.:-P یوں فیس بک پر ہمارا سیلکیٹو سوشل ہونا قائم ہی رہا.
آج یہ سب اس لیے یاد آیا کہ فیس بک کے گزرے ماہ و سال میں بہت اچھے لوگوں سے واسطہ پڑا اچھے لوگ ملے ہمیں اپنی خامہ فرسائیاں لکھنے کا ان پر داد پانے کا موقع ملا ہم بھی تھوڑے کم "فلیم ایبل" ہوگئے.سوشل میڈیا یا فیس بک کا کہہ لیں جو سب سے بڑافائدہ ہوا وہ یہ ہوا کہ پیارے لوگوں سے تعلق بنا سیکھنے کو ملا.
ان سب کے باوجود دو چار دن بعد کہیں نا کہیں سے صدااحتجاج بلند ہوتی ہے ہمارے ریکوسٹس اگنور کرنے کی...تو پیارے دوستو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم کوئی توپ شئے تو ہیں نہیں جن سے کچھ سیکھنے ویکھنے کو ملے بھئی بد تمیز سی لڑکی ہیں سو اس لیے چاہتے ہیں کہ آپ لوگوں کا وقت توقعات اور رائے کھوٹی نہ کی جائے.
بلکہ آپ سب کو اپنے فسادی منصوبوں سے بھی محفوظ رکھا جائے..کیونکہ یہ بتانا بھول ہی گئی ہمارے دوست ہماری ٹوٹل سوشل سائینسز کی تجربہ گاہ کے عہدے پر بھی فائز ہوتے ہیں۔۔ مین وائل ہم اپنی وال پہ ان کے کامنٹس کو خوش آمدید بروزن تیا پانچہ کرتے رہتے ہیں دوستوں کے خاکے)(الٹے سیدھے) لکھنے اور پھر ان پر قائم.رہنے میں بھی ہمیں خاص قسم کا سکون ملتا ہے.اور وہ دن تو ہم ناکام ناکام محسوس کرتے ہیں انٹرنیٹ استمال کرنے کا مقصد ہی فوت ہوا لگتا ہے جس دن ہم اپنی گوناں گو صلاحیتوں سے کسی نا کسی دوست کو اوفینڈ نہ کر لیں. اور جب کچھ نہیں بن پڑتا تو ہم شاعری کرنے لگتے ہیں الٹی سیدھی نظمیں لکھتے پوسٹ کرتے ہیں اور نہ صرف پوسٹ بلکہ خاموشی کی زبان میں باقاعدہ دھمکیاں بھی دیتے ہیں کہ اس شاعری نما کو نہ صرف شاعری سمجھا بولا مانا جائے بلکہ اس کی تعریف بھی کی جائے. مختصرا کہیں تو یوں کہ ہمارے ساتھ ایڈ سب معزز لوگ "سواریوں کی طرح اپنے سامان" کی حفاظت کی ذمہ دار خود ہے۔ انتظامیہ کسی قسم کے نقصان کی ذمہ داری قبول کرنے سے صاف انکاری ہے.

پیلے پتوں والا پل


سردیوں کی بارش میں دھندلے بادلوں میں جب پیلے پتوں والے اورنج پل پر ہاتھ تھامے میں اور تم واک کیا کرتے تھے۔ تو کیسا ٹہرا ٹہرا پورا منظر ہوا کرتا تھا۔ہر چیز ہمارے ساتھ سست قدم ہو جاتی تھی۔ بارش کی قطرہ قطرہ مدہم مدہم گرتی پھوار، آہستہ آہستہ محو سفر بادل، بھیگے بھیگے گیلے پتے اور وہ میری سرخ چھتری

تم پوچھتے تھے نا؟ یہ تم سرخ چھتری کیوں لے آتی ہو..تو سنو! مجھے رنگوں سے عشق تھا۔مجھے ہر منظر ہر سو رنگ دکھائی دیتے تھے۔ خوشبو سنائی دیتی تھی۔ اب تم کہو گے پاگل پن ہے یہ۔پر تم نہیں سمجھو گے
عشق وہ ساتویں حس ہےکہ عطا ہو جس کو
رنگ سن جاویں اسے خوشبو دیکھائی دیوے
اور وہ بھی تو عشق کا دیوانہ پن تھا نا روز سر شام اسی پل پر ہاتھ تھام کے چپ چاپ چلتے رہنا۔ خاموشی کی زباں میں سارے جہاں کی باتیں کرنا۔ تم خود ہی سمجھ جاتے تھے کہ موڈ آف ہے میرا۔ تو کبھی میں اچانک پوچھ لیتی، لو  ساؤنڈ کیوں کر رہے ہو؟ تم پوچھتےتھے کیسے اندازہ ہورھا؟؟ میں مسکراتی کہ بولے۔۔۔ اور تم اداسی بھول کر ہنسنے لگتے۔کتنے پیارے دن تھے۔۔۔۔
سنو تم پھر سے اسی ہل سٹیشن پہ پوسٹنگ لے لو۔ اسی ریسٹ ہاؤس کو دوبارہ سے گھر بناتے ہیں۔اور اسی پل پہ چل کر ایک ساتھ نئے خواب بنتے ہیں۔ یہ بڑے شہر ان کے تقاضوں، سہولتوں کی فراہمی نے تو تم سے تمہاری نرمی اور مجھ سے میری دیوانگی ہی چھین لی ہے۔
سنو ہمیں اس دنیا کے معیار فالو نہیں کرنے۔ میں اور تم خواب پرست ہی اچھے۔ کم از کم وہاں سانس لینے کی تو آزادی ہے، سر خوشی توہے اور سب سے بڑھ کر میں اور تم اک دوجے کو میسر تو ہیں.
سحرش

Tuesday 8 November 2016


شکایت_نامہ


سوچتی ہوں کیا مجھے واقعی شکایت نہیں کیا.ایسا نہیں ہے مجھے شکایت نہیں.پر جان من شکایت تب کروں جب تم شکایت سننے پر آمادہ ہو.تم تو یہ طے کر چکے ہو کہ تم صحیح اور کل عالم غلط ہے.درحقیقت تم صحیح ہونے کے زعم میں مبتلا ہو.تمہیں یہ بھی لگتا ہے کہ تمہارے سوا سب جھوٹے منافق ہیں.

سنو ایسا نہیں ہوتا..اکثر لوگوں کی مجبوریاں ہوتی ہیں جو وہ چاہ کر بھی اظہارِ تمنا نہیں کر پاتے.اور مجبوریاں نہ بھی ہوں تو بھی ہم آپ کون ہیں بھلا ان پر اپنی مرضی تھوپنے والے انہیں یہ بتانے کہ ہمارے طے کیے ہوئے معیارات پر پورا اترو تو تمہیں "مومن" مانیں.
سنو ایسا نہیں کرتے یہ دنیا ہے جان من میرا تمہارا خواب نہیں جہاں ہر شئے ہماری مرضی کے مطابق ہو...سو لوگوں کو قبول کرنا اور خوبیوں خامیوں سمیت قبول کرنا سیکھ لو تا کہ شکایتیں کم کم ہوں مجھے تمہیں ہم سب کو.