Pages

Saturday 17 November 2018

تو امیر حرم میں فقیر عجم


نعت کیسے لکھی جا سکتی ہے۔ پڑھی بھی کیسے جا سکتی ہے؟ مجھے ان شاعروں پہ رشک آتا ہے جو نعت لکھ لیتے ہیں آپ صلی علیہ وسلم کی۔

محبت کے اظہار کے لیے ہمیشہ ہی الفاظ کم پڑ جاتے ہیں میرے پاس۔ ایمل کے لیے کچھ لکھنا چاہوں تو پہروں اس تحریر کے جملے درست کرتی رہتی ہوں۔ ابراہیم کے لیے لکھنے بیٹھی تو پہلے ہی پیراگراف کے بعد بس ہوگئی۔ امی ابا کے لیے لکھتی ہوں تو اپنی بدتمیزیوں پر ختم بیٹھتی ہوں بات۔

خدا جانے لوگ محبت کا خالص اظہار کیسے کر لیتے ہیں میں تو صرف یہ کہہ کے رہ جاتی ہوں کہ بتا نہیں سکتی۔
اور میں واقعتا بتا نہیں سکتی۔ کیسی بے بسی ہے۔ محبت میں بتا نہ سکنا کہ محبت ہے۔ اور کتنی ہے۔
اور یہ محبت آپ صلی علیہ وسلم سے محبت__اس کااظہار کیسے ممکن ہو۔نعت کیسے لکھ لیتے ہیں لوگ؟
آپ صلی علیہ وسلم کی محبت میرے ایمان کا حصہ نہیں میرا مکمل ایمان ہے۔ کامل ایمان
اگر رب نے دائرہ نہ کھینچ دیا ہوتا
اور محمد تم میں سے کسی کے باپ نہیں۔
تو میں لکھتی کہ مجھے ویسی محبت ہے جیسی فاطمہ رضی اللہ کو تھی کی اپنی موت کی خبر کو خوشخبری جانا۔
لیکن یہ رب کا کھینچا دائرہ ہے سو میں اظہار کے لیے بھی اسی کا بتایا طریقہ عین ایمان ہے۔ کہ اسے اپنے حبیب کے سامنے ترش لہجے اونچی آوازیں پسند نہیں۔اسے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ اس کا حبیب کچھ کہے اور لوگ سننے میں کوتاہی برتیں۔
اس کا حبیب ہے نا۔ اسے اس کے خالص محبت چاہیے پوری توجہ نیت کا پورا خلوص اور جذبوں کی ساری گہرائیاں۔ محبتیں ایسی ہی ہوتی ہیں شائد۔
اب ایسی محبت میں توہین کی اجازت گنجائش نکلنا تو درکنار توہین کرنے والے کے لیے سزا سخت سے سخت تر ہونی چاہیے۔ کیوں کہ دنیا کا قانون بھی یہ ہی ہے۔ کسی کے سینسٹو ایریا میں گھسنے والا اپنے ہر عمل کا خود ذمہ دار ہوتا ہے۔
لیکن یہ وہ محبت تو نہیں جس کا اظہار ہونا تھا۔ رب تو کہتا ہے آپ صلی علیہ وسلم سے محبت آپ صلی علیہ وسلم کی اطاعت ہے۔ اس محبت کا اظہار تو آپ کے حکم پر سر تسلیم خم کرنا۔ ہم ویسے تو نہیں۔
یہ محبت تو ایمان کا حصہ ہے نا۔ بلکہ کامل ایمان۔ یہ۔محبت ہی تو مکمل کرتی ہے ایمان کو دنیا کو آخرت کو۔ اور کیسی بد نصیبی ہے کہ یہ ہی محبت خام ہے۔ جس محبت کو دنیا و آخرت کی کامیابی کا ضامن بننا تھا وہ ہی خام ہے۔
رب سے میری بہت سی التجاؤں میں ایک یہ بھی ہے کہ حشر میں وہ بہت سی باتوں پہ آپ کے سامنے میرا پردہ رکھ لے۔ آپ جو سراپا دعا سراپا رحمت ہیں۔ آپ کی دل آزاری ہوگی ایسے کسی بندے کے لیے شافع بن کر۔
ابا نے کہا تھا اس پر کچھ مت لکھنا۔ اس معاملے میں چپ رہنا۔ مشعال خان کا واقعہ ہوا تو بھی انہوں نے کہا تھا ہر معاملے میں رائے دینی بھی نہیں چاہیے۔
ایسے جملے تو انہوں نے کبھی نہیں بولے۔ اس میل بے بی اوبسیسڈ سوسائتی میں بیٹیوں کو شعور آزادی دینے والا شخص بہادری کے جس معیار کو اپناتا ہے وہ بتایا سمجھایا نہیں جاسکتا۔ لیکن جب سارا معاشرہ ہی وحشی ہوجائے تو کیا کریں ماں باپ؟ ڈر نہ جائیں تو کیا کریں رائے پر قدغن لگا دیں یا پھر جوان بچوں کے دزدیدہ لاشے اٹھائیں۔
المیہ نہیں کہ عدم برداشت کی اس حد تک پہنچے ہوئے وحشی سماج کا حصہ ہیں ہم۔۔المیہ تو یہ ہے کہ ہم محبت کے نام پر کرتے ہیں یہ سب۔
محبت تو اس کائنات کا کوڈ ہے نا__ پاسورڈ رب کی یونیورس کا۔ یاد ہے نا اس نے اپنے محبوب کی محبت میں تراشی ہے یہ کائنات۔ محبوب بھی وہ جو سراپا محبت ہے(صلی اللہ علیہ وسلم)۔ جس کی محبت نعمان بن ثابت کی شاعری میں چھلکتی تھی تو عمر فاروق کے سینے میں دہکتی تھی۔
جس محبت میں ابوبکر صدیق بنے۔ جو کہا کرتے تھے آپ صلی علیہ وسلم کے چہرے سے روشنی نکلتی ہے جو میری آنکھوں میں ٹھنڈک بھردیتی ہے۔وہ محبت جو عثمان غنی کی حیا میں تھی اور حیدر کرار کی للکار میں۔
جس میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ کو پسینہ ہیرے سے شفاف لگتا تھا۔
ایسی ہوتی ہیں محبتیں__اور محبوب بھی کیسا؟
جو عائشہ صدیقہ کے لہجے میں مبہم ناراضی پہچان جایا کرتے تھے۔ جو خدیجہ رضی اللہ کا ہار مال غنیمت میں دیکھ کر آنسو نہ روک پائے۔
جو رضاعی بہن کو جنگی قیدی نہ بنا سکا۔
جو ماں کی قبر کے نشان پر جا کہ بچوں کی طرح گھٹنوں میں منہ چھپا کہ روئے۔ جیسے کوئی معصوم فرشتہ غم چھپا نہ پاتا ہو۔
وہ جو سجدے میں قیام میں رکوع میں امت کے لیے سراپا رحمت سراپا دعا بنتا ہو۔
وہ محبوب جو بار بار کہتا ہو م ی ں اس قتل سے بری ہوں۔ میں مسلمان کے نا حق خون سے بری ہوں۔
جو جنگ میں بھی حکم دیتا ہو خوبصورتیوں کو تباہ نہیں کرنا کھیتی نہی اجاڑنی کسی کا باغ نہیں جلانا۔ کسی مزدور سے رزق نہیں چھیننا۔اور جو پناہ میں آجائے اس کی حفاظت کرنی ہے۔
ہم کیسے عاشق ہیں کیسے محب ہیں؟
نہ یہ محبت ہماری تلواریں میانوں میں ڈالتی ہے۔نہ یہ محبت ہمیں مسلمان کو آزار پہنچانے سے روکتی ہے۔ نہ ذمی پر ظلم ڈھاتے ہوئے اس شافع محشر صلی علیہ وسلم کا خیال آتا ہے۔
نہ یہ محبت ہمیں اپنے گناہوں پہ شرمسار کرتی ہے۔
وہ محبوب صلی علیہ وسلم تو فرما تے ہیں مومن فحش گو نہیں ہوتا۔کیا ہوئی پھر محبت جو ہم ایک ہی سانس میں اس کا نام لیتے ہیں۔اسی سانس میں لغویات کہتے ہیں۔
یہ محبت ہمارا ہاتھ کیوں نہی پکڑتی۔ہمارے حلق کیوں نہیں خشک ہوتے۔
محبت میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ محبت میں تو آپ تسلیم و رضا پر نہ آئیں تو محبت کا ہونا ہی مشکوک ہوتا ہے۔ اور اس کا دعوی خام۔
محبت کرنے والے تو نقصان نہیں کرتے کسی کا۔
محبت کرنے والے تو محبوب کی نسبتوں سے بھی غضب کا لگاو رکھتے ہیں۔
پتا ہے جب رسول خدا صلی علیہ وسلم جب محبت سے صدیق اکبر یار غار کا ذکر کرتے تھے تو فرماتے تھے عائشہ رضی اللہ کا باپ عائشہ صدیقہ رضی اللہ سے محبت جو تھی۔ محبت کے اظہار کا ایسا کوئی طریقہ کیوں نہیں سوجھتا ہمیں؟
جسمیں روز حشر ہم اٹھائے جائیں تو شرمندگی کا لیول کم ہو۔
میرے پاس جنت اور جہنم کے پاس نہیں ہیں۔لیکن یہ جانتی ہوں ان اعمال کی سزا بھی پالی تو جنت میں محبوب کو فیس نہ کر پائیں گے۔
وہ جس کسی کا رکشہ سائیکل بائیک دوکان توڑی تھی۔ جس پر ارتداد کے فتوے لگائے تھے وہ جو ان کی محفل میں بیٹھا ہوا۔اور رب کے حبیب اسے اپنے پیالے سے پانی پلاتے ہوں۔ ساتھ کہتے ہوں رب راضی ہوگیا تو کیسے جا پائیں گے اس محفل میں؟
اور اگر ان صلی علیہ وسلم کی محفل میں ہی نہ جا پائیں گے تو بتائیے جنت ہوگی؟
یثرب والے کی قربت کے بغیر والی بھی کوئی جنت ہوتی ہے۔
وہ نہ ملے تو ان کے دوست کیسے گوارا کریں گے؟
جہاں آپ کے ٹری ہاؤس سے حیدر کرار کے محل کی بلند برج بھی نہ دکھائی دیں وہ کیسی جنت ہوگی؟
جہاں فاروق حق و باطل میں تفریق کرنے والی بصیرت سے سرفراز نہ کریں۔جہاں آپ ان سے کہہ بھی نہ پائیں عدل کے جھکتے میزان کے ہر ہر جھکاؤ پر آپ یاد آئے تھے ہمیں۔وہ بھی بھلا ہوگی کوئی جنت۔
جہاں عثمان غنی رضی اللہ کو بتا نہ سکوں گی آپ کا نام میرے نام کا حصہ ہے_میرے لئے وہ جنت تو نہ ہوگی۔
جہاں عائشہ صدیقہ سے پوچھ نہ پاؤں جب وجہ کائنات آپ سے محبت کرے تو کیسا لگتا ہے ؟ جب کوئی آپ کے والد کو آپ کا باپ کہہ کر پہچانے تو کیسا فخر محسوس ہوتا ہے۔
بھلا ہوتی ہے کوئی ایسی محبت؟ اور ایسی جنت؟
شائد اس موضوع پر نہیں لکھنا چاہیے تھا۔بہت سے لوگوں نے اسی لئے نہیں لکھا ہوگا۔ لیکن میں شافع محشر کے سامنے کیا کہتی جو وہ پوچھ لیتے کہو کیا کیا تھا۔تب کیا کرتی جو رب کہہ دیتا اس کے حق میں سفارش ہولڈ کرتا ہوں۔ اس کو لفظ دیئے تھے ان کا حساب چکتا کرلوں۔
تب ____تب کیا جواب دیتی
اب سوچا ہے اسے کہوں گی جی جلا کر سر راہ رکھا تھا ربا۔۔لوگ مانے نہیں تونے مجھ سے صرف کوشش کا ہی حساب لینا ہے نا۔۔دیکھ لے کرلی کوشش اپنی سی۔

Thursday 8 November 2018

کوئی تو ہو۔۔۔۔ ایک خود کلامی



ہم پاکستانی بھی نا ویسے عجیب ہی قوم ہیں، ایک مہینہ سردی آتی ہے اور تین پیٹیاں ماؤں نے رضایئوں کی بھر رکھی ہوتی ہیں۔ باقی کے گیارہ مہینے انہیں دھوپ اور چھاؤں لگوانے میں ہی لگے رہتے ہیں۔ اس بھی عجیب سنیے، دس دس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور ہر کمرے میں اے سی لگوا رکھاہوتا ہے ہم نے چلیں یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ دس بارہ گھنٹے آبھی جاتی ہےبجلی۔ لیکن___ پورا گھر فلی کارپٹڈ ہے اور ساتھ ہی ساتھ بارہ چودہ چارپائیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ دختر نیک اختر کو سلائی کے نام پر سوئی میں دھاگہ سیدھا ڈالنا نہیں آتا۔ ساری عمر درزی سے میچ ڈالتے گزرتی ہے اور جہیز میں چھ فنکشنز والی سلائی مشین دی جاتی ہے۔
سادگی پر چھ گھنٹے طویل لیکچر دینے کے بعد امیاں دعوت پر چھ سات آٹھ کھانے بنانے کا حکم نامہ جاری کرتی ہیں۔
جہیز ایک لعنت ہے پر طویل مضمون لکھنے کے بعد کہتے ہیں جو دیں گے اپنی بیٹی کو دیں گے۔
اور نصیب اچھے ہونے کی دعاوں میں رب پر توکل کے پرچار کےساتھ بڑا سا حق مہر بھی لکھوا لیتے ہیں۔ ۔ ۔ اجی کل کلاں کو کچھ ہو گیا تو کوئی تو ڈر خوف ہو۔
کرپشن ختم ہو سب کا احتساب ہو ہر چور ڈاکو کرپٹ غنڈہ سزا پائے بس مجھے قطار میں نہ لگنا پڑے۔ ۔ میں دن میں بلا ضرورت چراغاں کیے رکھوں، موٹر چلا کے پانی اور کمپریسر چلا کے گیس ضائع کروں تو کیا بل بھی تو آتا ہے۔
میرے گھر کے سامنے کوڑا مجھے اچھا نہیں۔ لگےگا البتہ گلی کی نکر پر ڈھیر جمع ہوتا رہے میری بلا سے۔
مجھے اور میری جنس کو برابر کا حق دو کم تر ہو نہ حاوی ہو عورت کا حق مساوی ہو___ پر بس میں مجھے دیکھ کہ کھڑے ہوں لوگ۔ ۔ مجھ سے پبلک پلیسز پر انکوائریز نہ کی جائیں۔
بھئی جنس مخالف میں کشش فطری ہے لہذا میرا سب کو گھورنا ہر قسم کے تعلقات بنانا جائز ہے پر خاتون اس معاملہ میں چاند ہو اور یہ کشش کشش ثقل۔
اور افسوس میری بھولی قوم نے دوہرے معیاروں والا کیا دوغلا مزاج پایا ہے۔ جو پابندی ہے وہ اوروں کے لیے اور جو سہولت یے وہ میرے لیے مختص کردی جائے تو بات بنے۔
ہم۔ چاہتے ہیں زندگی سجی سجائی بنی بنائی پلیٹ میں رکھ کے کوئی پیش کر دے اور ہم شکرییے کے ساتھ بلکہ شکرییے کہ بغیر ہی قبول کر کے ساری جنتا پہ احسان عظیم کر دیں۔
میرے سارے حق تو پورے کیے جائیں پر کسی فرض کی زنجیر سے ہم نہ جکڑے جا-یں۔
تو ایسا ہے کہ مجموعہ عجائب ہی ہم۔
اور المیہ یہ کہ احساس بھی نہیں۔
ویسے اگر کبھی المیوں کی فہرست مرتب کی گئی تو سب سے بڑا اور پہلا المیہ یہ ہی ہوگا کہ ہمارا احساس زیاں کھو گیا ہے۔
تہذیب کھونے کا زیاں۔
انسانیت گم ہوجانے کا نقصان۔
رشتے توڑنے کا ان کی مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا نقصان۔
اعتبار یقین کھونے کا۔
عزت جانے کا نقصان۔
اور ان سب نقصانات پر احساس زیاں نہ ہونے کا المیہ۔
جب جب سماج کی بات کرتی ہوں تو ایسا نہیں ہے عقل و شعور کے کسی عظیم سنگھاسن پر براجمان ہوکر کسی دانشور و فلسفی کی طرح نشاندہی کرتی ہوں۔ میں ہمیشہ اس سماج کا حصہ بن کر لکھتی ہوں اس کی خوبیاں اور خامیاں خود میں تلاش کر کے کہ تنقید کرتی ہوں کہ میں خود بھی اسی قوم اسی سماج کا حصہ ہوں۔ اور بہت عجیب بھی۔
لیکن کچھ دنوں سے بڑی شدت سے احساس ہورہا ہے کہ میں کچھ زیادہ عجیب ہوں اور یہ صرف میں نہیں ہوں میرے جیسے کئی دوست ہیں جو بہت عجیب ہیں۔ سوشل میڈیا کی زباں میں کہوں تو جن کا کوئی 147نظریہ148 ہی نہیں ہے۔ جو نہ تو کسی کے مرنے پہ خوشیاں مناتے ہیں نہ جنت اور جہنم کے ٹکٹس تقسیم کرتے ہیں۔ جن کو عاصمہ جہانگیر کا جنازہ بھی جنازہ لگتا ہے اور ایدھی کا بھی۔ جو بعد از مرگ نہ لاشوں کے ایمانوں کے فیصلے کرتے ہیں نہ قبروں سے رپورٹنگ کرتے ہیں۔
ہم اتنے عجیب ہیں کہ بعد از مرگ جناح کے ایمان و عقیدہ اور ڈگری کی جانچ پڑتال کرنے والے گروہوں سے یکساں بیزار ہیں۔
اتنے عجیب کہ ڈاکٹر رتھ فاؤ کے سٹیٹ فینرل کی تحریک چلاتے ہیں اور مولانا سمیع الحق کے جنازے پر رب کی امانت اسے لٹانے کے حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ہم اتنے عجیب ہیں کہ شوال کے مدرسے کے بچوں اور اے پی ایس کے بچوں میں تقسیم تفریق ہی نہیں کرتے۔ دونوں جگہوں پر مارنے والے کو قاتل جہان فانی۔ سے کوچ کر جانے والوں کو شہید معصوم اور بے جرم مارے جانے والے سمجھتے ہیں۔ چاہے قاتل کا کھرا کہیں بھی نکلتا ہو ہم نہ صرف اسے قاتل سمجھتے ہیں بلکہ برملا کہتے بھی ہیں۔
اتنے عجیب کے جب کوئی مر جائے تو ہمارے اندر کا گدھ نہی جاگتا۔
عجیب پن کی کوئی حد ہوتی تو شائد ہم پر ختم ہوتی۔ کہ میں کسی بھی شخص کو روتا ہوا دیکھ کر خوش نہیں ہوسکتی۔ چاہے وہ کیسا ہی مجرم کیوں نہ ہو۔ میرے دل میں ایک بار ہمدردی جاگتی ہے۔
میں لوگوں کو کینسر و ایڈز ہونے پر شادیانے نہیں بجاتی ڈر جاتی ہوں بری گھڑی بڑے وقت کے آجانے پر۔ بجائے خوشیاں منانے عافیت کی طلبگار ہوجاتی ہوں۔
کوئی شخص کیسا ہی مجرم کیوں نہ ہو جب وہ روتا ہوا سامنے آجائے میں اپنی حد تک اس کے جرائم کا تذکرہ ختم کر دیتی ہوں۔ کیونکہ وقت کے پھیر میں آئے ہوئے شخص کو مزید کٹہرے میں کیسے کھڑا کیا جاسکتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ مجرم کو سزا دینے کی قآئل نہیں۔ لیکن جب کوئی پہلے سے سزا بھگت رہا ہو تو کیا ہم اپنی ججمنٹس ہولڈ نہیں کرسکتے؟
حتی کہ جب کوئی رب کے دین پر اپنی زبان دراز کرتا ہے تب بھی تب بھی اس کے قتل پر جی آمادہ نہیں ہوتا۔ مجھے وہ لازوال الفاظ یاد آجاتے ہیں
جو لہولہان قدموں والی بات نے اپنے ہی لہو کو زمیں پر گرتے دیکھتے ہوئے کہے تھے۔
کہ شائد ان کی اولاد یا اولاد کی اولاد میں سے کوئی اسلام قبول کرلے اور رب کے دین کا کام کرے۔
جب کوئی لائین کراس کر نے لگتا ہے تو میرا جی چاہتا ہے کوئی ہو۔ ۔ ۔ جو آگے بڑھ کہ ہاتھ تھام لے اس کا گلے لگا لے کہ اس عارضی دنیا کے مسائل اور نا انصافیاں رب کا اصول و منشا نہیں۔ آؤ اس کی طرف لوٹ چلتے ہیں۔ آؤ اس کی مدد سے اس کی رضا سے نصرت طلب کرتے ہیں۔ ناانصافی کے خلاف لڑتے ہیں۔
لیکن ایسا ہوتا نہیں____کیونکہ ایک عجیب شخص کے خیالات دیوانے کی بڑ تو ہوسکتے ہیں حقیقت نہیں۔
جان کی امان پاؤں تو عرض کروں
میرا یہ بھی جی چاہتا ہے کوئی جو رب کے حبیب صلی علیہ وسلم کی ناموس پر سوال اٹھائے اس سے بات کرے کوئی کوئی تو ہو جو جا کہ اس شخص کو وحشی کی وحشت اور فاتح کی معافی دکھائے۔ کوئی تو ہو جو ہندہ کے کلیجہ چبانے سے معاف ہوجانے کے درمیان جا ٹہرائے ایسے شخص کو۔
کوئی تو ہو جو میری جنس کو یہ بتائے اس معاشرے کی مردانہ تشریحات میرے رب کا دیں نہیں۔ اس کو بتائے رب کے لیے تم ادنی مخلوق نہیں۔ کوئی ان واقعات کی تشریح بھی کرے جب جب رب نے زمیں پر محبت اتاری محبت کی تشریح کی محبت کا حوالہ دیا سکون اتارا تو مثال ہماری دی۔ ہم زمیں پر رب کی۔ محبت کا حوالہ ہیں ایسا مقام کمتر کو تو نہیں ملا کرتا۔ کوئی امام زماں ہی ہو جو رب سے ناراض برسر پیکار یا الجھے ہوئے لوگوں کو بتائے اللہ ہے بس پیار ہی پیار پیار کے اس کا نہیں شمار۔
کوئی تو انہیں بتائے اس سے لڑ کے دیکھا ہے اس لڑائی کا انجام نہیں ملتا نہ سرا۔
اس لڑائی میں ہار جیت بھی نہیں ہوتی۔ بس بے سکونی ہوتی ہے مسلسل بے سکونی۔ دنیا کے معیارات پہ پورا اترنے کی مسلسل دھن اور اس دھن کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ہم اسی کے فرمان سچے فرمان کی عملی تفسیر بن جاتے ہیں۔ کہ ہوس کا منہ صرف قبر کی مٹی بھر سکتی ہے۔
ہوس چاہے کسی کی ہوں پیسے کی شہرت کی اس کے بندوں کو نیچا دکھانے کی یا خودنمائی کی۔
الجھی سی اس خود کلامی کا کوئی انجام نہیں۔
میرے اندر کا امید پرست جاتے جاتے ایک نظم سنانا چاہتا ہے۔ خواہش نما نظم
اداس لوگوں سے پیار کرنا کوئی تو سیکھے
سفید لمحوں میں رنگ بھرنا کوئی تو سیکھے

کوئی تو آۓ خزاں میں پتے اُگانے والا
گلوں میں خوشبو کو قید کرنا کوئی تو سیکھے

کوئی تو آۓ نئی رتوں کا پیام لے کر
میری نگاہوں سے بات کرنا کوئی تو سیکھے

کوئی تو آۓ اندھیریوں میں چراغ بن کر
اندھیری راتوں میں چاند بننا کوئی تو سیکھے

کوئی پیمبر، کوئی امامِ زماں ہی آۓ
اسیر ذہنوں میں سوچ بھرنا کوئی تو سیکھے

Friday 2 November 2018

جیسی روح ویسے فرشتے۔


جیسی روح ویسے فرشتے۔

سنا تو آپ سب ہی نے ہوگا ہم نے خود پر بیتتے دیکھا ہے۔ جیسی روح ویسے ہی فرشتے۔قصہ کچھ یوں ہے کہ شکر خورے کو شکر دینے والے اور ہر صورت شکر کا انتظام کئے رکھنے والے رب نے روحوں کی اقسام بنائیں تو فرشتوں کی بھی بنائیں۔ "اکارڈنگلی ٹریٹ" کرنے کے لیے۔ 
ہم سی بے چین روحوں پر مضطرب فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی گئی۔ جو مسلسل حرکت کا انتظام کئے رکھتے ہیں۔ ایسا نہ ہو تو شائد بے چینی کا آخر دیکھنے کا جی چاہنے لگے اور ہم اس کی حد پار کر جائیں اب تو زندگی کا بہانہ ہے اور سچ بتائیں تو اتنی فرصت میسر ہوئی کبھی تو شائد بنجارے کو بلا لیویں لادنے واسطے۔
قصہ مختصر اور تمہید طولانی کے مترادف بات گو ذرا سی تھی لیکن رش میں ہم خاموش دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے سکارف کے ڈیزائن میں ڈوب کر ابھرے تو یہ تحریر ہوچکی تھی۔ ہم نے بھی عافیت جانی اور رات کے اس پہر جب چاند ستارے بھی سو رہے ہیں ہم نے اسے قرطاس پر اتارنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس سے پہلے کہ صبح ایک نئی مصروفیت لائے ہم اسے لکھتے ہیں۔
آنسہ بہت ساری منگنیوں شادیوں عقیقوں سے فرصت کے لمحوں میں امی کے کچن کی ہیڈ شیف کے فرائض ادا کرتی ہیں۔
اور گھر میں اترنے والی ساری رحمتوں کے لذت کام و دہن کا تعلق آنسہ کے فرائض منصبی سے ہے۔ لہذا آنسہ اب ری فلنگ والے سارے ٹرکس میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ پرانے کوفتوں کو ری نیو کرنے کے طریقوں سے بھی واقفیت حاصل کرچکی ہیں۔
"رحمتوں" کے درمیانی وقفہ کو ہم اگلی نسلوں کی "تربیت" میں وقف کرتے ہیں۔ جس کا بچہ سکول نہ پڑھتا ہو ٹیوشن والی ٹیچر نہ رکھتی ہو سیپارے والی باجی بھی نہ پڑھاتی ہو وہ آنسہ کی "گوناں گو" صلاحیتوں پر سوالیہ نشان بن کر سارے خاندان کی "عزت" کو بٹہ لگانے لگ جاتا ہے۔
اب ہم اتنے بے حس تو ہو نہیں سکتے اور نہ اتنے نالائق کہ ایک بچے کو نہ پڑھا سکیں۔کسی بچے کی استانی صحیح انگریزی میں غلط گفتگو کر کے بچے کی عزت افزائی کا سامان کرتی ہو اور مسلسل کرتی ہو تو اس ٹیچر کے ساتھ مذاکراتی کمیٹی کی سربراہی بھی آنسہ کو دی جاتی یے۔
یہ سب نہ ہو رہا ہو تو مضطرب فرشتہ اجزائے ترکیبی میں ردو بدل کا حکم لے کر زمین پر اترتا ہے اور کسی کے دانت کان گھٹنے کے درد میں ہم یاد آتے ہیں۔اور سارے بزرگوں اور بچوں کی ماؤں کو لگتا ہے کہ ہم اپنی چرب زبانی سے ڈاکٹر کو ان کا مسئلہ بہت اچھی طرح سمجھا سکتے ہیں ان سے بھی کہیں اچھا تو ہم بھی عبایا پہن سکارف لے کر چل دیتے ہیں۔ یہ سوچتے ہوئے کہ پہروں اکیلے تنہا ادس بیٹھے رہنے کہ حسرت لئے اس جہان فانی سے کوچ کرجاویں گے ہم۔ بقول شاعر۔
جس روز ہمارا کوچ ہوگا پھولوں کی دوکانیں بند یوں گی۔
شیریں سخنوں کے حرف دشنام اور بے مہر زبانیں بندہوں گی۔
اب تو آرتھو پیڈک ہم سے پوچھتا ہے آپ کیا کرتی ہیں۔ ہم : ہم ماہر امور ہڈی توڑ ہیں۔
ڈینٹسٹ پوچھتا ہے تو کہتی ہوں آپ کے لیے مریضوں کا انتظام کرتی ہوں جو فری ہو اس کی بتیسی ہتھیلی پہ دھر دیتی ہوں۔
کوئی ٹیچر پوچھتی ہے کہ آپ ان کی کیا لگتی ہیں تو کہہ دیتی ہوں میں ان سب کو فارغ لگتی ہوں۔
اور کوئی "رحمت" پوچھ لے کوکنگ کیسی لگتی ہے کہتی ہوں زہر۔
لیکن افسوس یہ سب دل میں کہتی ہوں کہ۔تہذیب نے حسن بیان چھین لیا آنسہ سے۔ اور شارپ ایجز کو فائل کردیا آسان لفظوں میں کہوں تو یوں کہ سارے کس بل نکال دیئے۔
لیکن اس المیہ کی خبر ابھی خود کو بھی نہیں ہونے دی۔ کہ اس نقصان پر تعزیت کو فرصت چاہیے۔اور
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا۔
سحرش۔

درندے


سماج میں ہم مہر سے وراثت تک پسند کی شادی سے پسند کے لباس تک ہر جائزشرعی معاشرتی معاشی حق سے تو محروم ہیں ہی اب کیا جینا بھی چھوڑ دیں۔

کیسا سماج ہے جو عزت ذلت کردار زندگی کے فیصلے جنس کی بنیاد پر کرتا ہے۔ یہ کیسا سماج ہے جہاں بیٹیاں شرم کا مقام سمجھی جاتی ہیں۔ بہنیں بے غیرتی کے غیرت والے پیمانے پر تولی جاتی ہیں۔بیویاں ملکیت اور مائیں جذباتی ٹول۔ کیسا سماج ہے جہاں میری جنس رشتے کے بغیر پہچانی نہیں جاتی۔
خان صاحب آپ کے سوا نہ اس ملک کے کسی ادارے سے ہمیں امیدیں ہیں کہ کسی شخص۔آپ سے امید ہے صرف امید نہیں یہ امید سے بڑھ کر حق پر پہنچ گیا ہے معاملہ۔ یہ میرا حق ہے کہ میری جان و مال عزت و آبرو کی حفاظت کی جائے ریاست ماں کے جیسی ہے کے کھوکھلے نعرے کو عملی کیا جائے۔ میرےاور بچوں کو محفوظ ریاست محفوظ سماج دیا جائے۔
یہ سماج ہم سے جینے کا حق بھی چھین رہا ہے خدارا ہمیں جینے دیں۔
یہاں نہ تین سال کی شازیہ محفوظ ہے نہ پانچ سال۔کی مقدس سات سال کی زینب کی تار تار چادر آج بھی اس نظام کی برہنگی چھپانے کی سعی لاحاصل کرتی ہے۔
خان صاحب۔ روز اخبار میرے گھر میں دو تین کٹے پھٹے بچے ڈال جاتی ہے۔نیوز چینلز سارا دن سہمے ہوئے میرے دل کو مزید سہما دیتے ہیں۔ میں سارا دن گھر کے بچوں کو باہر جانے سے روکتی رہتی ہوں۔ہر روز میرا سر شرم سے جھکا ہے ہر روز مقدس زینب حفیضہ حدیجہ سمبل فاطمہ جیسے ناموں کے ساتھ جڑی خبریں میرے لیے قیامت برپا کرتے رہتے ہیں۔
یہ کون درندے بھیڑیے ہیں جو میرے چمن کو اجاڑنے روز چلے آتے ہیں۔ کوئی ان کو لگام کیوں نہیں ڈالتا۔ان وحشی درندوں کی آنکھیں نوچ لینے کا قانون کیوں نہیں ہے اس سماج میں۔ ان بھیڑیوں کے پیٹ پھاڑنے والے خنجر کیوں نہیں بنائے ابھی تک کسی نے۔
خدارا میرے بچوں کو محفوظ سماج دیں خان صاحب۔خوف زدہ مائیں نفسیاتی نسلیں پیدا کر کر کے بھی تھک چکی ہیں اب۔
اب تو ہمیں جینے کا حق دیا جائے اب تو سنگ آزاد کریں۔ ہمیں کتوں سے بچا نہیں سکتا کوئی قانون تو انہیں پتھر مار لینے کا اپنا تحفظ کرلینے کا حق ہی دے دیں
اگر یہ سب بھی نہیں کر سکتے تو قانون پاس کریں۔بیٹیوں کو پیدا ہوتے زندہ دفنا دینے کا۔تاکہ روز حشر میں گریباں پکڑ سکوں سب کے اور پوچھ سکوں کہ کس جرم میں ماری گئی۔
ہمیں جینے کا حق دیں 
اس درندے کو مصلوب کردیں اس غلاظت کی پوٹ کو د س دن سڑک پر لٹکائے رکھیں۔
تحریر سحرش عثمان

سوشل میڈیا سے نسوانی بیان


ہم ایک ایسی خاتون کو جانتے ہیں ہلکا سا زیادہ ہی جانتے ہیں جن کے ہاتھ کی بنی چائے پی کر ہم ایک بار چائے سے تائب ہوئے تھے۔ کل ان کی وال پہ نہاری و پائے ارہر کی دال کی ریسپیز دیکھنے کو ملیں۔ یہ ہی نہیں ان کی بائیو میں کوکنگ ڈرائیونگ شاپنگ اینڈ سوئمنگ آر پیشنس بھی لکھے دیکھ کر ہم پانی گلے کو لگا بیٹھے تھے جو ان کی کوکنگ کی تصاویر دیکھ دیکھ کر منہ میں بھر آیا تھا۔ ہم نے کھانستے ہوئے وہاں سے کھسکنے میں عافیت جانی۔


ایک صاحب ہیں عام زندگی میں چیپ کے عہدے پر فائز ہیں۔ کزن کا لفظ موئے انگریزوں نے ایجاد کردیا ہمیں۔ وگرنہ کم از کم انہیں تو چول ہی کہا جاتا۔ بلکہ اتہاس کے پنوں میں ان کا نام بہت ساری چولیات کے موجد کے طور پر لکھا جاتا۔ خیر ان کا یہاں ایک ہی کام ہے چوبیس گھنٹے آن لائن رہ کے فیمیلز کو سٹالک کرنا اور جہاں کوئی ذرا غیر معیاری پوسٹ دکھے اس کو 147خاندان کے بڑوں148 کو بذریعہ سکرین شاٹ رپورٹ کرنا۔



(نوٹ یہ معیار بھی ان ہی کا سیٹ کیا ہوا ہے۔ یلو جرنلزم کے اس عمدہ مظاہرے پر کم و بیش سب سے بلاک ہونے کے بعد آجکل وہ بے بی ڈال سونے کی بن کر پیتل کی دنیا پر تبرا کرتے پائے جاتے ہیں۔ آنسہ نے دو ایک بار کی رپورٹنگ کے بعد وال ملاحظہ کی تو دعائیہ کلمات، پازیٹیویٹی والی حد تھی۔ نوجوان نسل کے بگاڑ کے اسباب پر پورا واپڈا ہاؤس ہی ڈال رکھا تھا موصوف نے۔ غیبت کے خلاف پوسٹس دیکھنے پر آنسہ کے اندر کا فسادی جاگ اٹھا۔ لمبا چوڑا سوال نما کمنٹ کیا اب انہوں نے اپنا نام کانٹینٹ ناٹ ایولیبل رکھ لیا۔۔۔ خدا جنے کیوں۔



ایک اور موصوف ہیں۔ ہمہ وقت ہمیں پولیٹکل سائنس اور پالیٹکس پڑھاتے رہتے ہیں۔ جمہوریت کے بہت بڑے چیمپئن ہیں۔ یوں جانییے خلاف جمہوریت تو چھینکتے بھی نہیں۔ ان سے ایک بار پارلیمانی جمہوریت پر اسائنمنٹ بنانے کا کہا تھا تب سے ہمیں بدتمیز کہتے سمجھتے ہیں۔۔ کیا اتنے برے ہیں ہم۔ گو ہمیں بدتمیز کہلانے پر بھی کوئی مسئلہ نہیں لیکن کم از کم وجوہات تو بتائی جائیں صرف اسائنمنٹ کا کہنے پر بدتمیز ہی کہہ دینا کہاں کا انصاف ہے۔چلیے یہ بھی تسلیم ہم نے یہ فرمائش نما درخواست انورٹڈ کاماز میں کی تھی۔ لہجے میں کل عالم کی معصومیت جو انہیں طنز لگا تھا بھر کے یور سپیشیلٹی بھی کہا ہوگا۔ لیکن پھر بھی___ آپ سوشل میڈیا پر بھی تو بائیس کروڑ کے جمہوری چیمپئن بنے ہی ہوتے ہیں نا۔



خیر اب آپ لوگ سمجھ جائیے نا کہ ان کا رویہ ہی سراسر غلط تھا آنسہ کی ہرگز کوئی غلطی نہ تھی۔ اب کاپی پیسٹ دانشور کہہ دینا ایسا بھی اوفینسو نہیں کہ اگلے کو آپ بدتمیز ہی کہہ دیں۔آپ ہی فیصلہ کیجئے۔



چلیے ایک اور صاحب کا قصہ سنئے۔ رشتہ پوچھنے سے احتراز کہ ہماری تحریریں حساس تقریبات میں ایز ریفرنس ٹو دی کانٹیکسٹ استمال کی جانے لگی ہیں اور شاعر ایسا منہ پھٹ کہ ساری بات صاف ہی لکھ دیتا ذرا جو 147گل وچوں ہور اے148 کہنے نوبت آئی ہو۔ یوں سمجھ لیجئے۔ ذکر خیر والے موصوف ہمارے ہمسائیوں کے انکل ہیں۔



انگریزی ادب تو ان پر الہام کی طرح اترا ہے۔ حتی کہ موصوف کھانستے بھی انگریزی ادب میں ہیں۔



رابرٹ فراسٹ کو خود اپنی اتنی نظمیں یاد نہ ہوں گی جتنی انہیں یاد ہیں۔ بلکہ جتنی انہیں یاد ہیں اتنی تو فراسٹ نے لکھی بھی نہ ہوں گی۔



ہمیں ریکوسٹ موصول ہوئی تو ڈی پی دیکھ کر جو تراہ نکلا تو تین چار گھنٹے بعد آن لائن آئے۔جب انہیں ایڈ کیا تو صبح دوپہر شام سپہر رات آدھی رات دیگر ویلا اور پیشی ویلا کے حساب سے انگریزی شاعری ہمارے سر پہ برسنے لگی۔ ہم نالائقی کے سبب گوگل ٹرانسلیٹر سے پوچھ پوچھ کر سراہتے رہے۔ لیکن آخر کب تک آخر کو ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا جو ویسے بھی چھوٹا ہے پٹوارخانے کی سوچ کی مانند۔



تو ایک دن عادت سے مجبور ہوکر ہم انہیں مشورہ دے بیٹھے پنجابی اردو ادب پڑھنے کا۔ کہ شاعری میوزک آرٹ اپنی زبان میں ہو ماں بولی میں ہو تو لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ گویا جام دو اور دونوں ہی دو آتشہ۔



پہلے تو وہ ہماری نالائقی پر چپ رہے ہنس دیے پر جب ہم مسلسل انہیں فرنگی شاعروں کے باندھے مضامین اردو پنجابی میں سنوانے لگے تو ہمیں بلاک کردیا۔ ہم نے ریڈنگ گلاسیز اتارے چائے کا کپ بنایا اور زیر لب وہ ماہیا گنگنایا۔۔



میں کوئی کفر تولیا؟ نہ جی۔



خیر یہ تو کچھ ناگفتنی سے قصے تھے۔ لیکن داد دیجئے ناگفتنی قصوں پر بھی فسانے بنا دیئے ہم نے۔



تو یوں ہے کہ سوشل میڈیا پر بہت اچھے محترم لوگوں سے تعارف و تعلق بنا۔ جن سے مسلسل سیکھنے کو ملتا ہے۔ بہت سی خواتین جنہیں یہاں دیکھ کر میرا انسانیت پر ایمان بحال ہوا۔



ایک تو ان میں ہماری دوست عظمی ذوالفقار ہیں کاش دانش والے ان سے ہماری تحریروں کی ایڈیٹنگ کرایا کریں۔ کیونکہ یہ ہمیشہ ایگزیکٹلی وہ لفظ لکھتی ہیں جو ہم اپنی دانست میں لکھ چکتے ہیں اور آٹو کوریکٹ ہم کو شٹ اپ کہہ کے آگے بڑھ جاتا ہے۔ خیر۔ باقی دوستوں پر روشنی بہت جلد ڈالی جائے گی کہ اسوقت ٹارچ بجھ رہی ہے ہمارا جی اچاٹ ہوگیا۔ اور کوئی نیا میوزک بھی کہیں سننے کو جسے کانوں میں لگا کر ہم رنگوں کی خوشبو کی باتیں کریں۔ ہمارے سارے دوست رنگ سے ہیں خوشبو جیسے۔

سوشل میڈیا سے نسوانی بیان حصہ دوم


پہلے ہم نے سوچا اس قصے کو یہیں ختم کئے دیتے ہیں۔ پہلے بھی تو کئی بار ہم اگلی قسط کا کہہ کر بھول جاتے ہیں اس بار بھی سہی۔


لیکن ہمارے ضمیر نے یہ ہرگز گوارا نہ کیا کہ اس بار ایسی حرکت کی جائے۔ اب اس سے یہ مت سمجھ لیا جاوے کے ہمارا ضمیر ایسا ہی جاگتا رہے گا اب سے ہمیشہ۔ بھئی ہمارا ضمیر ہے سوئے جاگے تمہیں کیا ہے بھئی۔ ملک میں جمہوریت ہوسکتی ہے تو ہمارے اندر کیوں نہیں ؟ کیا اسقدر ڈکٹیٹر لگتے ہیں ہم آپ کو۔؟ اگر لگتے بھی ہیں تو ہمیں کیا۔



او تینوں کافر کافر آکھدے تو آہو آہو آخ ایسا معاملہ ہے اس بات میں۔



خیر بات ہو رہی تھی سوشل میڈیا کی اور دوستوں کی بلکہ یہاں پائی جانے والی عظیم ہستیوں کی جن سے بلاک کھانے کے بعد ہمیں انٹرنیٹ کا بل سفل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ویسے تو ہم دوستوں کو اوفینڈ کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ سب ہی سے بلاک کھا بیٹھے ہیں کچھ ہمارے دوست مستقل مزاج بھی واقع ہوئے ہیں اور کچھ کی برداشت قابل دید ہے ہمیں مسلسل برداشت کیے ہوئے ہیں۔



کچھ ایسے ہیں ان کی وال پہ آنسہ انتہائی تہذیب کا مظاہرہ کرتی پائی جاتی ہیں۔ ہنسییے مت آنسہ کو آتی جاتی ہے تہذیب وہ الگ بات کہ آتی کم جاتی زیادہ ہے۔



خیر تو تذکرہ ہو رہا تھا دوستوں کا تو ایسا نہیں ہے کہ ہم مفلس ہیں۔ خاصے امیر واقعہ ہوئے ہیں۔



ہمارے دوستوں میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جن سے دوستی کے لیے عوام قطار میں لگی کھڑی ہوتی۔



مثال کے طور پر ڈاکٹر رابعہ خرم درانی ڈاکٹر صاحبہ مصروف ترین پروفیشن سے وابستہ تو ہیں ہی ساتھ ہی ساتھ رعنائی خیال والی بھی حد ختم ہے ان پر۔ تحریر ایسی نکھار کے لکھتی ہیں کہ جملہ تو جملہ لفظ یا حرف بھی ادھر سے ادھر ہوجائیں۔



لفظ ان کے سامنے یوں قطار باندھے کھڑے ہوتے ہیں جیسے وکیسینیشن کرانے کے لیے آئے ہوئے ننھے فرشتے ہوں جن کی قطار جوں جوں آگے بڑھتی ہو منظر کا حسن مانند پڑتا جاتا ہو۔ ڈاکٹر صاحبہ فوٹوگرافی بھی کمال کرتی ہیں۔ بس ایک سوال ہے ان سے کیسے کرلیتی ہیں اتنا سب کچھ ایک ساتھ وہ بھی اتنی پرفیکشن سے۔ ڈاکٹر صاحبہ کو ہر نئی ویب سائیٹ کی طبیب ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔ سوشل میڈیا کی ان خاتون دوست کا تعلق ہے بھی ہمارے شہر سے۔ ایسی ہی رہیئے گا ڈاکٹر صاحبہ۔



اگلا تعارف لکھتے لکھتے رہ گئی کہ ان پر تو بات ختم کی جائے گی یعنی فل سٹاپ لگایا جائے گا جیسے پرانے وقتوں میں بادشاہ پچیس تیس سالوں بعد کوئی چج کی بات کر ہی لیتے تھے تو بعد، میں وہ قلم تڑوا دیا کرتے تھے کہ اب اس قلم سے اس سے اچھی بات ممکن نہیں بالکل ایسے ہی آج کے وقت کی شہزادی صاحبہ یعنی ہم یعنی آنسہ سحرش عثمان اس ذکر کے بعد قلم نہ بھی توڑ سکیں تو کیبورڈ ضرور بند کردیں گی۔ لہٰذا اس سے پہلے باقی دوستوں کا ذکر ضروری ہے۔



ایک نییر آپی ہیں۔ نیر تاباں ان کی وال پہ پٹواریوں کو بھی بہیو کرتے دیکھا تو انسانیت پہ میرا ایمان بحال ہو گیا کہ انسان چاہے تو کچھ بھی کرسکتا ہے اور اگر وہ انسان خاتون ہو تو سونے پہ سہاگہ ایک بار امی سے پوچھا تھا یہ سہاگہ سونے پہ کیوں ہوتا ہے اٹھنے پہ کیوں نہیں۔ امی نے بس گھوری ڈالی تھی خدا جانے اُس کا مطلب تھا خیر۔ نییر آپی کی وال پہ ہماری دلچسپی احمد والی پوسٹس اور کہانیوں تک ہی رہتی جو ایک دن نییر آئی بریانی و کڑاہی نیز نہاری مکس سے چکن قورمہ نہ بنا لیتیں۔ امی کو بھی وہ پوسٹ پڑھائی تھی نییر آپی امی آپکو شاباش دے رہی تھیں۔ اور ہمارے مخدوش مستقبل پہ فاتحہ پڑھ رہی تھیں۔ نییر آپی کو سات سالہ احمد کی کہانیوں میں اور نیئر آپی کی کہانیوں میں سات سالہ احمد کو آپ الگ نہیں کر سکتے دونوں اتنے لازم ملزوم ہیں کہ ان کی ہونے والی بہو کو یہ اعتراض ہو گا لڑکا مماز بوائے ہے۔ اچھا سوری ہماری بہت پیاری شنیلہ آپی جو وال پہ مدھو مکھیوں کو اکھٹا کرنے واسطے مدھو کی سیلفیز لگاتی اور بھگانے کے لیے اپنی تحریریں لگاتی ہیں۔



میں اکثر ان کے سیاسی لطیفے پڑھ کے سوچتی ہوں کہ یہ ہی لطیفہ کسی میل نے لگایا ہوتا ہے مخالفین ایک آدھ ہڈی تو برابر کر ہی دیتے۔ لیکن واہ رے سوشل میڈیا اور اس کے معجزے۔ قابل گردن زنی پوسٹ پہ بھی سو سو لائک لیتی ہیں۔ بلکہ ایک دن تو چھینکتے ہوئے 146146ابگجحلیکبط145145 لکھ بیٹھیں اس پر بھی کئیوں کے مرشدی استازی کے عہدوں پر فائز اشخاص نے ہنس ہنس کر پیٹ میں بل ڈال لئے اب ایسے بڑے ناموں میں آنسہ کیا کرتی ہنسنا پڑا۔ وہ تو انباکس میں آکر بتانے لگیں کہ یہ چھینک تھی ہم نے بھی یرحمک کہہ کہ ہنسی ڈیلیٹ کر دی۔ صرف یہ ہی نہیں کہ یہ سو دوسو کمنٹس لیتی ہیں۔



بلکہ ان کے کمنٹس گننے والے خواتین حضرات بھی انہی کی وال پہ موجود ہوتے ہیں۔ اور حیرت انگیز یہ کہ شنیلہ آپی کو معلوم بھی ہے ان کا اور شدید حیرت انگیز یہ کہ شہنیلہ انہیں پیاری بہنیں بھی کہتی ہیں اور سب سے حیرت انگیز یہ کہ ان کی بزتی کے سکرین شاٹس بھی، سنبھال کے رکھتی ہیں۔ کہیں لگاتیں نہیں کہ میمن ہیں اسے فضول خرچی سمجھتی ہیں اور جہاں حیرت ختم ہوجاتی ہے وہاں سے یہ بات شروع ہوتی ہے کہ ایسی تمام منکر نکیر آنٹیز کو اکھٹا کر کے ایک گروپ بھی بنائے بیٹھی ہیں۔ جہاں آج یہ تحریر پڑھ کے 146146گھمسان کی رن145145 پڑیں گی ان کو۔ کیونکہ ڈالینس لیا تو بات بنی۔



ثمینہ ریاض احمد سے کون نہیں واقف پٹوار خانے کے جملہ امراض کی ماہر سمجھی جاتی ہیں۔ اور رب نے شفا بھی بہت دے رکھی ہاتھ میں۔ ان کی وجہ شہرت ان کی آنکھیں ہیں۔ ارے ارے رکیے ہمارا مطلب ان کی عقابی نگاہیں پٹواری تو دور بلکہ بہت دور سے تاڑ لیتی ہیں پھر اس کے گھر جا کہ اس کی ٹکور فرما کہ آتی ہیں ذوق بھی بہت اعلی پایا ہے۔ فیس بک والے بہت جیلس ہوتے میری دوست سے ایک دن ان کی بھیجی وڈیو کی شہرت کی تاب نہ لاتے ہوئے ان کی آئڈی بند کر دی۔ ثمینہ جی برا مت کرنا مارک زخر برگ جیلس ہوتا اور کچھ نہیں۔



مطربہ شیخ کسی کی وال پہ ہمیں ملیں ہمیں ان کی حرافہ رپورٹر اور فسادی رپورٹنگ بہت بھائی ایک دن ان سے پوچھا کہ سیاسی طور پر آپ کس کی فکر سے متاثر ہیں کہنے لگیں ایسے نہیں سمجھو گی تمہاری بوری بنوانی پڑے گی۔ ہائے ہائے ہم تو ایسا ڈرے کہ فوراً نعرہ لگایا بھائی کے بھگت ہیں جیسا کرو گے ویسا کریں گے۔ پیار دو گے پیار دیں گے۔ مارنے آؤ گے مار دیں گے۔ سیانی کڑی اے فوراً سمجھ گئی تب سے ہمارے درمیان اچھا 146146ورکنگ145145 ریلیشن شپ قائم ہے۔ جس میں وہ کام کرتی ہیں ہم آرام یعنی وہ دھڑا دھڑ لکھے جاتی ہیں ہم نیم دراز ان کی تحریریں پڑھتے لائک کئے جاتے ہیں۔ یہ واحد خاتون ہیں جو ہمیں ان باکس میں کئی بار کہہ چکیں کہ شاپنگ کرنے جا رہی کہو تمہارے لئے کیا خریدوں اب اپنے منہ سے ہم بتاتے کیا اچھے لگے گئے۔ آپ خود ہی لے لیجئے گا مطربہ ہمیں یقین ہے آپکی پسند بہت اچھی ہے۔



سیدہ فاطمہ الزہرہ ان کو شروع شروع میں بہت تنقیدی نگاہ سے دیکھا کئے ہم۔ اے لو جوان جہاں لڑکی جہاں جی میں آتا ہے منہ اٹھائے چلے جاتی ہے۔ نہ کوئی لجا نہ لحاظ یہ کوئی بات ہوئی بھلا شہر لے حالات کیسے خراب ہیں اور یہ مہارانی ہیں بیگ اٹھایا موبائل پکڑا اور چل پڑیں۔ اور آتے جاتے راہ چلتے انٹرویو بھی لیتے پھرتی ہیں لوگوں سے۔ آپ ہی کہئے یہ اطوار ہیں کوئی اچھی لڑکیوں والے؟



اس سے پہلے کہ ہم ججمنٹس پاس کرتے کرتے اندر ہی اندر چیپ جسٹس بن جاتے کسی نے ہماری آنکھوں سے تعصب اور تنگ نظری کی عینک اتار دی اور ہم نے خاتون کی تحریر کے ذریعے ان کے بارے میں رائے قائم کرنے کی کوشش کی۔ اور یہ نتیجہ نکالا۔ کہ ارے یہ تو ہمارے ہی جیسی ہے۔ لوگوں سے بیزار بھی اور ان سے تعلق نبھاتی ہوئی بھی (اب دیتی پھرو وضاحتیں) پتا نہیں کب یہ وال سے ان باکس اور وہاں سے واٹس ایپ پہ چلی آئیں۔ اور جانے کب رات کے ایک بجے ان سے مکالمہ ہونے لگا اس گرے ایریا پر جس کو ہم دن بھر برائٹ رنگوں سے پینٹ کئے رکھتے ہیں۔ اور جس پر بات کرنے والے کو ہم سخت قسم کی گفتگو سے نوازتے ہیں۔ ان سے ایسا تعلق ہے۔ چوڑیاں بہت پیاری پہنتی ہیں خود بھی پیاری ہیں حتی کہ سیلفی وڈیو میں بھی پیاری لگتی ہیں اور ہلدی کے اتنے فوائد گنوا چکی ہیں کہ مجھے گمان گزرتا ہے من و سلوی میں ہلدی تو ضرور اترتی ہو گی یا پھر جنت میں ہلدی والا دودھ قومی فروٹ ہو گا۔



صابن تک آرگینک استعمال کرتی ہیں۔ اور باربی کیو کھانے سے پہلے پوچھتی ہیں یہ بکرا سبزہ کھانے سے پہلے ہاتھ دھوتا تھا کہ نہیں اتنی بار سمجھایا ہے بکرا ہاتھ لگائے بغیر کھا لیتا تھا سبزہ مرحوم بڑا ہی قانع تھا۔ لیکن مانتی نہیں۔ اور باربی کیو تک نہیں کھاتیں۔ حالانکہ بکرا نہ کھانے والوں کا حساب الگ سے ہو گا لیکن یہ نہی سمجھتیں۔ آئیے سب مل کر دعا کریں ان کی شادی شُد مسلمان سے ہو جو دن میں چار بار کھانا کھاتا ہو وہ بھی گوشت والا کھانا آمین

سوشل میڈیا سے نسوانی بیان حصہ دوم


اس سلسلہ کی یہ قسط لکھنے سے پہلے ہم کچھ باتوں کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔ اول تو یہ انجمن ستائش باہمی نہ تصور کی جائے کہ اس میں باہمی یگانگت کے رنگ پھیکے ہیں۔ ہماری ممدوح آنٹی لوگ ہلکا سا سڑیل ہورہی ہیں ہمارے خود پر تبصرے پڑھ پڑھ کر۔ دوسری بات جس کی وضاحت ضروری سمجھتے تھے وہ فلحال ہمیں یاد نہیں آرہی۔ تیسری یہ کہ یہ ان تحریروں کو ہماری گفتگو کی طرح بس شرارت ہی سمجھا جائے دل پر مت لیا جائے لیکن پھر بھی کوئی اسے جی پر لگانے پر مصر ہے تو یقین جانیے آپ کو اوفینڈ کر کے ہمیں دلی اطمینان وغیرہ حاصل ہوگا۔ رہ گئی ہمارے سدھرنے کی اِچھا و آشا تو یہ بالکل چھوٹے سے دل کی چھوٹی سی آشا ہے۔۔ اپنی اپنی چوٹی میں دنیا باندھنے جیسی۔ ایسا مشکل نہیں یہ، ایک بار ہم نے باندھی تھی چوٹی میں دنیا۔ پھر گلوب والا وہ کیچر ہمارے ہاتھ سے چھوٹ کر ٹوٹ گیا۔


ان کی زندگی کے بہت بہت بڑے مسائل میں مطلوبہ انکل کا بہت بری چائے بنانا سرفہرست ہے۔
خیر۔ آتے ہیں مدعا کی طرف، تو ہماری آج کی مہمان ہستیوں میں پہلے نمبر پر آتی ہیں غزالہ آپا۔
ان سے پہلے ایسی خواتین صرف نورالہدی شاہ کے ڈراموں میں نظر آتی تھیں۔ سب کو دعا دینے والی۔ انہیں دیکھ کر ہلکا سا یقین ہوا یہ ڈرامے وغیرہ ایسا جھوٹ بھی نہیں ہوتے۔جہاں تک میرا خیال ہے یہ آدھے پاکستان کی تو آپا ہیں باقی جن کی نہیں ان کی بننے کی کوششوں میں مصروف رہتی ہیں۔ اپنی وال پہ چائے کی دہائی دیتی پائی جاتی ہیں جس پر ہم سے بدتمیز بچے ہنستے ہیں تو بجائے ڈانٹنے کے خود بھی ساتھ ہنسنے لگتی ہیں۔ ان کی زندگی کے بہت بہت بڑے مسائل میں مطلوبہ انکل کا بہت بری چائے بنانا سرفہرست ہے۔ انکل کی اتنی بری چائے کی مشہوری اکثر کرتی رہتی ہیں۔ اس چائے پر ڈالی جانے والی پنیلٹیز کا ذکر دانستہ بھول جاتی ہیں۔کل ملا کر یہ کہ انکل کو چائے بنانا نہیں آتی اور آپا کو دشمن بنانا نہیں آتا۔حد تو یہ کہ آنسہ کو بھی صاف ستھرا نکھرا سلجھا بچہ کہتی سمجھتی ہیں۔ان کی اس بات پر ہم کئی دن منہ چھپائے ہنستے رہے تھے۔ ہنس لیں آپ سب بھی یہ ہی زندگی ہے خود پر ہنسنے والی دل کھول کر ہنسنا پڑتا ہے زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جب وقت دوراہوں پر لا کھڑا کرے تو پھر دوستوں کو یاد کرنا پڑتا ہے سو ہم بھی کرتے ہیں آپ بھی کیجئے۔



اگلی مہان ہستی ہیں۔ ہماری بالکل بھی نہیں پیاری دوست رابعہ خزیں۔ اس کے سر نیم پہ مت جائیے گا بہت شوخی ہے۔ مورخ جب بھی شوخیوں کا ریکارڈ مرتب کرے گا اس کا نام اوپر والی سطروں میں لکھا جائے گا۔ فیس بک پر ان سے ملاقات ایک چلتے پھڈے میں ہوئی۔ لڑکی مردانہ وار لڑ رہی تھی ایک انتہائی مرشدی سے۔ ہم ہلکا سا متاثر ہوئے ہی تھے کہ راشد حمزہ سے کہلا بھیجا ہمیں ایڈ کرنے کے لیے ہم نے سوچا ایسی تہذیب والی لڑکی یوں نہیں ضائع ہونی چاہیے ایڈ کر کے تمیز سکھاتے ہیں۔ پر وائے افسوس ایڈ کرنے کے بعد پتا چلا جو رہی سہی تمیز ہم میں باقی تھی وہ بھی لٹانے کا موسم آگیا ہے۔ یہ ان دوستوں میں ہیں جن کو گھر والوں سے چھپا کر رکھتا ہے بندا کہ جب بھی بزتی ہوتی ہے ان کا 147ذکر خیر148 بھی ضرور کیا جاتا ہے پھر۔ خیر خاتون کسی زمانے میں اندھا دھند انصافی ہوا کرتی تھیں۔ آج کل 147جمہوریت اور پاپائے جمہوریت148 کی زلف کی اسیر ہوئی ہیں۔ بس اسی سے اندازہ لگائیے کہ ہلکی سی پاگل بھی ہے، جو چیز ہے ہی نہیں اسی کی اسیری اختیار کر بیٹھی ہے۔ جب انصافی تھی تو گندی گالیوں سے تواضع کرتی تھی سب کی۔ اب پٹواری خانے میں ہیڈ مسٹرس کے عہدے پہ فائز ہے اور وہاں سے سارے انصافیوں کی پی ڈی ایس کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ جسمیں اکثر پیشتر کانٹے کا مقابلہ ہوتا ہے ان کے نئے و پرانے دوستوں میں۔



آزاد روح ہے آزادی پر عشق بھی قربان کردینے والے قبیلے سے تعلق ہے۔
ٹریولر سول ہے۔ اکثر بیشتر آوارہ گردی کرتی رہتی ہے۔ جب کہیں گھوم پھر نہ رہی ہو تو بیمار پڑ جاتی ہے لہذا ان کے واٹس ائپ پر یا تو راستوں کے سٹیٹس لگتے ہیں یا سرنجوں کے۔ آجکل بھی صاحب بلکہ خاتون فراش ہیں پچھلی آوارگی میں چوٹ لگوا بیٹھی تھیں۔ آزاد روح ہے آزادی پر عشق بھی قربان کردینے والے قبیلے سے تعلق ہے۔ پیار نال پاویں بندا مروا لوو بٹ ونس یو پش ہر۔۔۔۔۔فیر کسی جنگجو قبیلے کی سالار ہے لیلی۔



سر پھروں میں سر پھری ہے۔ آشفتہ سر ہے، سیلانی ہے، حساس ہے اور بدتمیز ہے۔ اگر اس کی ساری خوبیوں خامیوں کو جمع کیا جائے، صرف بدتمیزی نکال دی جائے تو رابعہ، رابعہ نہ رہے۔ ہاں ایک اور خوبی ہے، بے وزن شاعری کرتی اور بڑی ستھری نثر لکھتی ہے۔ بہت سے سیاسی سماجی معاملات میں اختلاف کے باوجود ٹھیک لگتی ہے۔ مددگار ہے اور صاف دل۔ لیکن پھر دہراتی ہوں۔۔۔ ان باکس میں جانے سے پہلے سوچ لیجئے گا۔۔ جس کو ہو جان و دل عزیز وہ ان کی گلی میں جائے کیوں۔ اور بزت کرتے وقت عورت مرد کی سیگریگیشن بھی نہیں کرتی۔ صنفی امتیاز کی قائل نہیں ہے ایک جیسی گالیوں سے نوازتی ہے لہذا اک ذرا احتیاط۔



انیسہ فرزند اب تم پر کیا لکھوں؟ تم اجنبیوں پر اعتبار کی پہلی سیڑھی ہو اور بے وجہ محبت کی پہلی کوشش چلو شعر سنو۔
بے وجہ بے سبب بے ارادہ چاہا
ہم نے تم کو کتنا سادہ چاہا



فرح رضوان اور فریحہ ڈار کو بس تھوڑا تھوڑا جانتی ہوں اتنا تھوڑا کہ دو تین مہینے ان دونوں کو ایک ہی سمجھتی رہی۔ فرح اور فریحہ میں فرق اس دن سمجھ آیا جب دونوں کو ایک ساتھ ایک جگہ کمنٹ کرتے ہوئے پایا کئی پل تو حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ پھر سوئی دھاگے سے آنکھیں سی کر دیکھا تو دو الگ الگ خواتین نظر آئیں۔



فرح رضوان کو دیکھ کر حوصلہ ہوتا ہے بندا گرینی بن کے بھی ٹرینڈی ہوسکتا ہے اور کیوٹ بھی۔ فریحہ ڈار کو پڑھ پڑھ کر حوصلہ ہوا کہ بٹ حضرات صرف کھاتے ہی نہیں ہیں لگاتے بھی ہیں والز پہ دماغی محنت تو میرا اس سوچ پہ ایمان بحال ہوگیا کہ کھاتے ہیں تو کیا ہوا لگاتے بھی تو ہیں۔



فرح کی تحریر میں ڈوب کر ابھرنے کے درمیانی وقفے میں خود کے کئی ایسے کام یاد آجاتے ہیں جن پر ہم نے کئی جواز تراش رکھے ہیں۔ جن کو کر کے شرمندگی نہیں ہوتی جو کہ ہونی چاہیے۔ ان کی تحریر میں وہ شرمندگی خود پر طاری ہوتے ہوئے دیکھی تو ڈر کے کہ ان کی تحریر پڑھنی چھوڑنا چاہی تو خالی پن کے احساس نے مجبور کردیا اب بھی ان کی کئی تحریریں آدھی ادھوری پڑھی ہیں کہ پوری پڑھنے کی ہمت نہیں پڑتی۔



فریحہ کی وال پہ نرمی اور خوبصورتی کا تاثر اتنا گہرا ہے کہ بے ساختہ وہاں دل کھینچتا ہے۔ مجھے یقین ہے یہ عام زندگی میں بہت پیارا ہنستی ہوں گی۔ اور ہنسی کا یہ تاثر ان کی مستقل اداس آنکھوں میں بڑا پیارا لگتا ہوگا۔



خان نشرح جن کو آدھی فیس بک شاز اور باقی آدھی خان کہتی ہے، ہم نشرح کہتے ہیں۔ زبان کی چاندی، فلسفے اور نفسیات کا رنگ کسی ایک ہی تحریر میں دیکھنا ہو تو انہیں پڑھ لیجئے۔ ہمسائیوں کے کچھ حقوق ہوتے ہیں اس کے پیش نظر انہیں ایڈ کیا اور خود کی نالائقی پر بہت افسوس ہوا۔ کئی دن احساس کمتری ہوتا رہا۔ وہ تو شکر ہے اللہ کا خاصے ڈھیٹ واقعہ ہوئے ہیں ہم اس بات کو دل پر نہیں لگایا وگرنہ جو ہم اس احساس کے تحت چل بستے تو کون ذمہ دار ہوتا؟
لہذا مرنے کا اارادہ موقوف کر کے ہم نے انہیں پڑھنے پڑھتے رہنے کا فیصلہ کیا۔ یہ اکثر و پیشتر غم امتحان کے پیش نظر یہاں وہاں سے غائب ہوجاتی ہیں، جب نظر آتی ہیں تو نیا موضوع نیا اسلوب لاتی ہیں اور دل۔جیت لیتی ہیں۔



سارے ایکسٹرا فرینکنس والے 147بھائیوں148 کو جب آپ، ہمارے سگے بھائیوں جیسے ہیں، کہتی ہیں تو آنسہ فلک شگاف قہقہ ضرور لگاتی ہیں۔ خدا جانے معصومیت میں کہتی ہیں یا چالاکی میں لیکن وہ 147بھائی148 دوبارہ ان کی وال پہ نظر نہیں آتا۔ یہ آزمودہ فارمولا دیگر خواتین بھی آزما سکتی ہیں۔ تب تک کے لیے جاتے ہیں۔ اگلی قسط میں نئے دوستوں کے ساتھ آیا جائے گا۔

سوشل میڈیا کا نسوانی بیان..آخری حصہ


اس سلسلے کی آخری کڑی ہے۔


ایسا نہیں ہے کہ دوست ختم ہوگئے یا سب ہی کے متعلق خامہ فرساییاں کرچکے ہم۔ ایسا ہے کہ آنٹی لوگ اوفینڈ نہیں ہو رہیں تو ذرا لطف نہیں دے رہی یہ یکطرفہ لڑائی اب کوئی کب تک الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے؟
اب اگر آپ سب اس تحریر میں تاخیر کا سبب پوچھیں تو یقینا ہم پابند ہیں بتانے کے تو یوں ہے کہ ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا۔



وہ یہ کہ آنسہ ایک دو حصے لکھنے کے بعد نیپال چلی جاتی ہیں وہاں شام ڈھلے جب ہوش آتا ہے تو اگلا حصہ لکھنے کے متعلق سوچا کرتی ہیں۔ اس بار شوخیِ تحریر کا اثر تھا یا یونہی ہواؤں میں اڑ رہے تھے ہم کہ ذرا مہیب جنگل میں نکل گئے تھے۔ شام کو جی تو اٹھے تھے لیکن واپسی کا رستہ بھول گئے تھے۔ کسی لہجے کے دشت میں جب پڑاؤ آیا تو سوچے سمجھے بغیر ٹھکانے کی ٹھانی پر پڑاؤ میں روئیے کا ایک سرد خانہ منتظر تھا۔ اب ہم تاثر نہ بھی دیتے ہوں محسوس نہ بھی ہوتا ہو ہیں ہم بھی انسان ہی جو احساسات رکھتا ہے اور وہ زخمی بھی ہوجاتے ہیں۔ لہذا ہمیں واپس پہنچتے کچھ تاخیر ہوگئی۔



خیر جو رائتہ پھیلا بیٹھے ہیں اسے سمیٹنے کی ذمہ داری بھی ہمارے ہی نازک کندھوں پر آتی ہے تو سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں کس قدر کامیاب یا ناکام رہے اس کا قطعی فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں۔



اگلا تعارف کرانے سے پہلے اگر کہا جائے کہ ان شخصیت کے متعلق ہمارا جاننا ایک کامنٹ سے شروع ہوکر ایک پوسٹ تک ہے تو شائد بے جا نہ ہوگا۔ لہذا ہماری اس رائے کو قطعی ہرگز نہ سمجھا جائے ہم اسے ری وزٹ کرنے میں آزاد ہیں آزاد تو خیر ہم یوں بھی بہت ہیں۔ اتنے نہیں کہ آزادی پر عشق قربان کردیں۔ لیکن ہلکے سے آزادی کے متوالے ہیں۔



تو خاتون کا نام ہے نائلہ صادق پتا نہیں کیا کرتی ہیں اور کیا کیا کرتی ہیں۔ ہم تو بس یہ جانتے ہیں کہ زخموں پر مرہم رکھتی ہیں۔ کچھ لکھتی ہیں تو جی کھول کہ قرطاس پہ بکھیر دیتی ہیں۔ کسی کو سراہنے پر آئیں تو اتنا میٹھا ڈالتی ہیں کہ حلق تک جڑ جاتا ہے۔ گرے ایریاز پر بہت سے پھول اگا رکھے ہیں نہ انہیں چھپاتی ہیں نہ دکھاتی۔ کوئی دیکھ لے تو ڈینائے نہیں کرتیں۔ اور کوئی غور نہ کرے تو ہمدردی نہیں سمیٹتیں، عجیب ہیں۔ خیر ہمارا دوست ہونے کے لیے یہ تو بنیادی کوالیفیکشن ہے۔ نارمل از بورنگ یو نو۔



تحریر میں زیادہ سے زیادہ کوشش کرتی ہیں کہ یہ ظاہر نہ ہونے پائیں۔ بلکہ یوں کہا جائے تحریر کی اوٹ سے لو پروفائل ہونا چاہتی ہیں تو شائد زیادہ مناسب ہو۔ احساس محبت نرمی کو گھول کر بہادری ڈالیں اور اپنے فیصلوں کو اون کرنے کی گارنشنگ کردیں تو یہ بن جاتی ہیں۔ اس گھٹن زدہ سماج میں اپنے لیے اور دوسروں کے لیے راہوں میں دییے جلانے سے بڑی بھی کوئی نیکی ہوگی۔ پہلے بھی یہ جملہ لکھا ہے پھر لکھنا چاہتی ہوں راہیں راہیوں کی مرضی منشا اور پسند ہوا کرتی ہیں۔ ہمارا آپ کا کام صرف جی جلا کر سر راہ رکھنا ہے، سو رکھ دیتے ہیں۔ آپ بھی رکھ دیجئے۔ اندھیرے رستوں کا انتخاب کرنے والوں کے لیے اداس ہوا جاسکتا ہے دعا کی جاسکتی ہے دوا نہیں، آپ بھی رستوں کے مسافروں کے راہیوں کے دکھ نہ پالیں، اداسی کی مقدار ہوا میں پہلے ہی بہت زیادہ ہے، ہم اداسی سے الرجک، لہذا دیئے جلائیے دل نہیں۔ہماری اس تحریر کے بعد اگر آپ کا ہمارے متعلق گفتگو بلکہ بے لاگ تبصرہ کرنے کو جی چاہے تو ہمیں خوشی ہوگی۔ آپ کی گوشہ نشینی کم ہوگی ویسے تو ہمیں گوشہ نشینی پر اعتراض نہیں لیکن ایسے موتی بکھیرنے والی سوچ تو مقید نہیں ہونی چاہیے۔ پہلے ہی سنگ مقید ہیں تو سگ آزاد۔



اگلے تعارف بہت زیادہ تعارف ہیں جو ہمارے دوست ہیں اور بہت خاص ہیں لیکن ہم انہیں کم کم جانتے ہیں یا پھر جن کا ایریا آف ایکسپریشن رائٹنگ نہیں ہے ہماری ان کے بارے میں رائے کسی قدر کم نہیں۔ جیسے ہاجرہ سعید ہیں جو انتہائی سنجیدگی سے لطائف شئیر کرتی ہیں۔ جیسے سمیرا نصرت ہے جو اٹھے ہوئے ہاتھوں میں دعا کی صورت در آتی ہے۔ جس کی بہادری پر کئی تحریریں لکھی جاسکتی ہیں اور جس کی وجہ سے زندگی کبھی کبھی بہت بری لگتی ہے اور کبھی کبھی اتنی ہی پیاری۔ سارہ جمیل ہیں جو ہنستی ہیں تو ہنسنے کا جی چاہتا ہے۔ سنجیدہ گفتگو کریں تو احساس در احساس جملے بنائے جاتی ہیں۔ عمارہ نصرت ہے جو ہیمنگوئے کا کوئی کردار لگتی ہے۔ اکیلے سمندر میں تنہا اپنے لیے زندگی کے اسباب کرتی ہوئی۔ طیبہ اکرم ہیں، صبا فرحت ہیں صبیح گل ہیں۔ جیسے انمول سعدی ہیں جو گھر کا نیپالی بچہ ہیں، جیسے صالحہ سراج ہیں، جیسے حرا یوسف ہیں جو کیک کھلا کھلا کر شوہر کو موٹا کر کے مارکیٹ ویلیو کم کرنے کے مشن پہ تندہی سے عملدرآمد کر رہی ہیں۔ جو پارٹنرز کے لطائف سے بھری فیس بک پر اچانک محبت کا کوئی گیٹ چھیڑ دیتی ہیں، جس کی مدھر لے میں مستقبل کے سارے اندیشے بہہ جاتے ہیں۔ یہ ساری لڑکیاں جن کی والز پہ زندگی اٹھکھیلیاں کرتی ہے۔ تتلیوں کے رنگوں جیسی باتیں کرتیں یہ ساری سہیلییاں بہت پیاری ہیں جن سے تعلق میں ریا لالچ غرض شامل نہیں۔ جو اختلاف رائے کے باوجود ایک دوسرے کو برداشت کئے ہوئے ہیں اور جو اپنی اپنی جنت اپنے ہاتھوں سے تعمیر کررہیں ہیں۔



ان سب کے وجود سے رنگوں کی جو بہار ہے وہ میرے تخیل کو دھنک سا خوشنما بناتی ہے۔ تو ان سب کا تعارف و شکریہ بنتا ہے۔



عزیزہ انجم ہمیں نہیں پتا تھا یہ کون ہیں۔ نہ ہیں۔ ایڈ کرنے کے بعد وال پہ دیکھی تو حساسیت ہی نظر آئی۔
باقاعدہ تعارف مریض بچے کی کہانی سے ہوا۔ جسے پڑھنے کے بعد معلوم ہوا خاتون ڈاکٹر ہیں۔ اب یہاں پر یہ بڑا مسئلہ ہوا انہیں کیا کہہ کر مخاطب کیا جائے۔ اب آنسہ اسقدر بھی بدتمیز نہیں کہ نام ہی سے پکاریں آنٹی نہیں کہہ سکتی اس کی بہت ساری دوسری وجوہ کے ساتھ ایک عدد سالڈ ریزن آگے بیان کی جائے گی۔
خیر ان کو دیکھ کر ریٹائرمنٹ والے تصور پر یقین کمزور ہوا۔ آنسہ جو اگلے دو تین سالوں تک ریٹائرمنٹ کے متعلق سوچ رہی تھیں ان کا خیال بدل گیا۔



ان کے ساتھ دوستی کا بڑا نقصان ہوا ہے انکار مشکل تر ہوگیا ہے۔ پہلے ہی نو کہنا مشکل تھا اب تو انکار کرنے سے پہلے یہ سامنے آجاتی ہیں جیسے دیکھ رہی ہوں۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ یہ کچھ کہیں گی یا شرمندہ کریں گی اس بات پر۔۔مسئلہ ہی تو یہ ہے کہ یہ کچھ کہیں گی نہیں۔ اب ایسی صورت میں انکار کیسے کرے کوئی؟



ایک بچے کو پڑھا کر جو میں سوشل ورک والے بہت سے میڈلز خود ہی خود کو دیتی رہتی تھی اس میں بھی افاقہ ہوا۔خاتون جانے کہاں کہاں درد دل کی دعا اور دوا کرتی ہیں۔ اور وہ بھی خاموشی سے فرض سمجھ کر۔
مائیں مضبوط کیسے ہوتی ہیں اتنی۔ یہ بات شائد ابھی سمجھ نہ آئے لیکن مضبوط مائیں کیسی ہوتی ہیں وہ ان کو دیکھ کر ضرور سمجھ آتا ہے۔ ضروری نہیں آپ چلائیں بچوں میں ایگریشن بھر دیں ان میں سیلف اوبسیشن ڈال دیں۔
آپ نرم لہجے کے ساتھ اپنے حق کے لیے کھڑا ہونا سکھا کر بہت مضبوط ماں بن سکتے ہیں۔ آپ نرمی حساسیت ڈال کر رب سے تعلق کی مٹھاس سے روشناس کراکہ بہت مضبوط ماں بن سکتی ہیں۔



اور آپ درد دل دے کر اپنے بچوں کی صورت ہمیشہ والی نیکی زمین پر رکھ رہے ہوتے ہیں اور آپ نے یہ کیا ہے۔
آپ کی ہر بات میں جس طرح نیکی اور رب سے تعلق نکلتا ہے میری خواہش ہے ایسے ہی میری گفتگو کا مرکزی خیال وہ بن جائے۔ آپ سے نرم لہجہ سیکھنے کی کوشش کروں گی۔ کہ تھوڑی سی سلو لرنر ہوں ابھی تک سیکھ نہیں پائی۔ میری خواہش ہے آپ سے یہ تعلق قائم رہے مضبوط تر ہو۔
ہنجی آجاؤ ہن تسی۔۔۔



پہلا حصہ لکھا تو کسی نے پوچھا صرف عظما کا ذکر 147ان148 کا کیوں نہیں۔ ہم چپ رہے ہم ہنس دیئے۔
اگلا حصہ لکھنے سے پہلے آپ آگئیں تصور میں۔ تصور کو ڈانٹا تو تحریر پر کمنٹس آئے کہ آپ کہاں ہیں؟ ہر حصے پر کسی نا کسی نے آپ کے متعلق استفسار کیا۔
کیا لوگ آپ کو میری آنکھوں میں پڑھنے لگے ہیں؟



لیکن آنکھیں تو ہیں نہیں ادھر۔ آپ میری تحریر سے جھلکنے لگی ہیں یا پھر میرے لہجے میں آئی یہ نئی نرمی کہاں سے آتی ہے یہ معلوم ہوگیا ہے لوگوں کو؟ اگر یہ سب باتیں ہیں یا ان میں سے کوئی ایک بھی تو یقین کریں مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔ گو میں ایسی لڑکی نہیں😁 لیکن اگر کوئی سمجھتا ہے تو ٹھیک ہے سمجھتا رہے۔
ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے۔
دشنام تو نہیں یہ اکرام ہی تو ہے۔



جی چاہ رہا ہے یہاں ہی بات چھوڑ دوں ادھوری اور مسلمانوں کو تکے لگانے دوں۔
لیکن میں آپ نہیں ہوں نا کہ ایسی کوئی تحریر ادھوری چھوڑ دوں تو بھی لوگ ادھر ادھر چہ مگوئیاں کرنے کی بجائے دھڑا دھڑ شئیر کرنے لگیں کہ صاحبہ نے لکھا ہے تو یقینا کچھ اچھا ہی لکھا ہوگا۔



خاتون ایسی ہی ہیں وال پر ایک نکتہ ڈال دیں تو یار لوگ کئی نقطے نکال لیں اس میں سے۔ شعر کا ش لکھ دیں تو لوگ اس پر دیوان کہہ دیتے ہیں۔ شاعروں کے تخیل جیسی ہیں یعنی انھے واہ اچھی۔ اگر مجھے لکھنا آتا ہوتا تو ان کو اپنے ناول کا مرکزی کردار بناتی۔ ایک عدد فٹ سا ہیرو ڈالتی اور اسے ان کی محبت میں کھجل ہوتا دیکھتی۔ وہ فراز کی غزلیں سنایا کرتا تو یہ کبھی اے حقیقت منتظر 147گا گا کر محبت کے۔مفہوم بدلنے پر مجبور کرتیں اسے۔
جو وہ مائل بہ رہبانیت ہوتا تو یہ شب وصل بھی ہے حجاب اسقدر کیوں سے شوق وصل کو مہمیز کرتیں۔
پر ہائے افسوس لکھنا نہ آیا ہمیں۔



زندگی میں اگر کبھی سنجیدگی سے کچھ لکھا تو اس کی ہیروئن آپ ہی ہوں گی۔ چاہے اس افسانے ناول داستاں میں ہیرؤین کی۔ضرورت نہ بھی ہوئی تو بھی۔ڈالی جائے گی۔
کیونکہ آپ محبت ہیں اور محبتیں کبھی بھی غیر ضروری نہیں ہوتیں۔



میرے پاس ایک شیطانی یاداشت ہے۔ پر اب یاد نہیں آرہا آپ کب سے دوست ہیں اور کب سے اتنی گہری دوست ہیں۔ یوں لگتا ہے بچپن کی سہیلی ہیں آپ میری طرف سے تو یہ ہی ہے۔آپ البتہ ہر دوسری وال پہ ایسے ہی 147دوستیاں148 کرتی نظر آتی ہیں۔ فیس بک کے شرق و غرب میں کوئی ایسی لڑکی نہیں جو ان کے شر سے محفوظ ہو۔ ہر لڑکی کو اپنی سہیلی بنانے کا شوق ہے انہیں۔ اسی شوق میں ایک بار سرخ دوپٹہ اوڑھے بکری کے پیچھے گھر سے بہت دور نکل گئی تھیں۔ پھر انکل واپس لے کر آئے تھے۔



خیر خاتون بہت خطرناک بھی ہیں صرف اچھائی ہی نہیں۔خطرناکی بھی ختم ہے ان پر۔
سائکالوجسٹ ہیں آپکو سائکو تھیرپیز دینے میں ہمہ وقت تیار۔ ان سے بات چیت میں انتہائی احتیاط کا مشورہ ہے کہ یہ اپنی ہلکی سی اداسی کا ذکر چھیڑ کر آپ کی بے پایاں اداسی کا نامحسوس علاج کر جاتی ہیں اور آپ کہہ دینے کی افسردگی کا شکار ہوسکتے ہیں۔
یہ ڈپریشن کا ذکر چھیڑ کر آدھا گھنٹہ مریضوں کی باتیں کرتی ہیں اور جانے سے پہلے آپ کو پتا چلتا ہے آج انہوں نے بیس نہیں اکیس مریض دیکھے ہیں۔
آپ کے مرض کا علاج کرتے ہوئے تاثر بھی نہیں آنے دیں گی کہ آپ کے مرض کی بات ہورہی ہے۔۔
بہت دن آپ کچھ لکھیں نہیں تو کہنے لگتی ہیں رائِنگ بلاک ہے کیا کروں۔
کہیں نظر نہ آئیں آپ تو پوچھیں گی یاسیت سی ہے جل بتاؤ۔
چپ ہوں تو اداسی کا نام لے کر آجائیں گی۔
اور آپ الٹے سیدھے مشورے دیتے کب اپنی نبض تھام لیتے ہیں معلوم نہیں پڑتا۔
مجھے نہیں پتا کب پہلی بار غم دل سے گھبرا کر انہیں پکارا تھا۔



اب تو بس یہ یاد ہے میری سکیچ بک کا سب سے رنگین و دلچسپ سکیچ ان کا ہے۔ کیونکہ نا مکمل ہے میں دانستہ اسے مکمل نہیں کرتی۔۔رابطے اور تعلق کی یہ صورت ٹوٹے مجھے قبول نہیں۔
خیر میٹھا زیادہ نہ ہوجائے بتائے دیتی ہوں۔ فون پر دو سو چالیس بلکہ اسی کی سپیڈ بولتی ہیں۔ اور بولنے کے وقفوں کے درمیان اگلے کو بہت بولنے کا طعنہ مار جاتی ہیں۔ اگر کسی مسئلہ پر بات کرنے کے لیے فون کرنا چاہیں تو ہرگز مت کریں کیونکہ ان کا فون ون وے ہوتا ہے۔ فریق ثانی کو صرف سننے کی سہولت میسر ہوتی ہے۔ لہذا سنجیدہ گفتگو کرنے کے لیے میسج کیجئے۔ وہ بھی اجازت طلب کر کے۔



بلا اجازت میسجز پہ آپ کو ایک لا ابالی بے فکر مصروف ترین ڈاکٹر تو مل سکتا ہے جویریہ سعید نہیں۔ یوں تو اس تعارف کے بعد نام لکھنے کی حاجت نہیں تھی لیکن معلوم تھا نام نہیں لکھا تو یہ یوں ہی پرٹینڈ کریں گی کہ یہ وہ نہیں۔
لہذا ہم نے فرار کی ہر راہ مسدود کردی۔
کچھ اور بھی لکھنا چاہتی ہوں بلکہ بہت کچھ لکھنا چاہتی ہوں۔ لیکن آپ پر لکھنا بہت ہی مشکل کام ہیں۔ بس یوں سمجھ لیجئے۔ آپ میرے کینوس کو سب سے بولڈ سٹروک ہیں۔ جس کے شارپ ایجز بھی اتنے ریفائن ہیں کہ کوئی بھی ذی روح ذی شعور ان سے محبت کر بیٹھے۔
آپ جسطرح کہانی میں مخلوق کو خالق سے جوڑ دیتی ہیں میری خواہش ہے میرے جنت والے ٹری ہاؤس کی ایک شاخ ایسے آپ کے ٹیرس پر گرتی ہو۔ جس کے پار آپ سے خاموش گفتگو ہوا کرے۔
البتہ ایموشنل بلیک میلنگ نہیں کیا کریں۔ ایکٹنگ بھی اچھی نہیں کرتیں آپ۔



اب چلتی ہوں اگر کوئی جوابی کاروائی کرئے گا تو یقین کریں اس کوخوش آمدید کہا جائے گا۔
امید ہے پیاری خواتین نے برا نہیں مانا ہوگا۔
اوہ شٹ ایک بات تو بتانا بھول گئی جب بھی کوئی خاتون اپنی دوست کو پیارا کہے تو اسے ہرگز پیارا مت سمجھیے۔
خیر تو پیاری خواتین آپ نے برا نہیں۔مانا ہوگا۔
لیکن اگر برا مانا ہے تو یقین کیجیے ہماری اس کے سوا کوئی برانچ نہیں۔
آج آنسہ مائل بہ کرم ہیں تو جاتے جاتے قاری کو بھی نصیحت کئے دیتی ہیں کہ ہم اپنے کہے کہ ذمہ دار ہیں کسی کے سمجھے کے نہیں۔اپنی نیت خیالات اور ان کے مطالب صرف ہم واضح کرسکتے ہیں۔
شکریہ