Pages

Wednesday 13 January 2016

Empty and broken, I was alone


آج سہ پہر اکیڈمی جاتے ہوئے،قطره قطره درختوں پر گرتی بارش اور درختوں کی اوٹ سے جھانکتی، گھروں کی بالکونیاں۔ بالکونیوں میں اکا دکا کھڑے بچے اورتار کول کی لمبی خاموش سڑک دیکھ کے میں بے ساختہ کہہ اٹھی۔ الله کا شکر ھے، آج موسم بہت خوبصورت لگ رھا ہے۔

گرمی کی شدت بھی کم ہے اور مناظر بھی کیسے پر سکون ہیں
لیکن ذیلی سڑک مڑنےکے بعد ریلوے سٹیشن  کےپیچھے والی سڑک، جہاں ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ چلتی جھونپڑیاں ہیں۔وہاں پہنچتے ہی مجھے موسم کی بدصورتی کا شدت سے احساس ہوا۔
کسی جھونپڑی کا سامان باہر پڑا تھا، تو کہیں بچے سامان کے ساتھ باہر پڑے تھے۔کہیں کوئی مریض، بوڑھا اور مریل کتا ایک ہی ٹاٹ پر پڑے تھے۔
تارکول کی لمبی سیاه سڑک یکایک جلنے لگی تھی۔
دو متضاد دنیاؤں کے درمیان یہ تارکول کی سڑک ہی تو تھی۔
 اے سی والی گاڑی میں بیٹھ کر  پیدل چلنے والے ہمیں احمق دکھائی دیتے ہیں۔
ہم کالا چشمہ لگا کر سمجھتے ہیں کہ فضاء میں سرمئی پن ھے۔ برانڈز پہن کر مجھے ادھ ڈھانپا ہوا ستر جنگلی لگتا ہے۔اپنے نرم جوتوں میں ہمیں ننگے پیروں کی چبھن  محسوس ہی نہیں ہوتی
سوچیں! اگر یہ تارکول کی درمیانی سڑک نہ رہی تو؟

No comments:

Post a Comment