Pages

Monday 9 April 2018

خود_کلامی

ہم بھی عجیب ہیں۔
اتنے عجیب کہ بس!!
جہالت کا نام معصومیت رکھ چھوڑا ہے۔
شعور کا چالاکی
آزادی اظہار پر قدغن لگا کر "تربیت" کرتے ہیں
اور منافقت معاشرتی اقدار کہلاتی۔ 
چوں چوں کا مربہ ترتیب پانے کے بعد خاندانی نظام کہلاتا ہے۔
اور استحصال کا نام ہے محبت۔

ہم بھی عجیب ہیں۔

منیر نیازی کہتا ہے۔

اس شہر سنگدل کو جلا دینا چاہیے

پھر اس کی راکھ کو بھی اڑا دینا چاہیے۔

#خود_کلامی


جگنو کے لیے



خوبصورتی کے سارے استعارے معصومیت کے سارے نام۔ جگنو کے لیے۔
پتا ہے آج میں نے فیلنگ پھپھو کیوں نہیں لگائی کیونکہ آپ کا میرا تعلق ہر زمینی رشتے سے اوپر ہے۔
ممکن ہے یہ بات آپ کو سمجھ نہ آئے کچھ سال لیکن جب سمجھ آئے گی تو مجھے یقین ہے آپ کو اچھا لگے گا پارو جگنو۔آپ آنا کی تتلی ہو۔ جس کے پروں کے رنگ محبت کی کہانیوں میں گھلے ہوئے ہیں اور جس کی مسکراہٹ زندگی کی دھوپ چھاؤں میں دھنک بن کر آنا کے تخیل کو نئے رمز سکھاتی ہے۔
میری خواہش ہے آپ کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ اور اس پر آنکھ کا خوبصورت تاثر اتنا گہرا اتنا مستقل ہو کہ آپ کسی اور تاثر کو یاد نہ کر سکیں۔
کچھ مہینے پہلے جب آپ بیمار ہوئیں تھیں تو میں نے ایک کہانی لکھی تھی جو کبھی کسی کو نہیں پڑھوا سکی۔ اس کا کچھ حصہ یہاں لگاتی ہوں شائد میں اور آپ سمجھ سکیں آنا کے لیے جگنو کتنا پیارا ہے۔

آئیم سوری ایمل۔
میں بالکل اچھی آنا نہیں ہوں۔
کل جب آپ کو انجیکشن لگتے دیکھا تو دل پہ گھونسا پڑنے کا مطلب سمجھ آیا تھا۔
مجھے پتا ہے یہ بہت جذباتی سٹیٹمنٹ ہے۔ پر محبتوں میں عقل و خرد والی سٹیٹمنٹ تو نہیں پاس کی جا سکتی نا۔
مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا۔بچھڑتے سمے آپ رو رہی تھیں۔مجھے ہمیشہ برا لگتا رہے گا۔ 
پر ایمی۔۔۔کیا کروں لاکھ دعوے کروں ہوں تو میں بھی اسی دنیا کی باسی نا۔ جگنو۔ آنا بھی۔نمک کی کان میں نمک ہوتی جا رہی ہے میں زندہ رہنے کے گر سیکھتی جا رہی ہوں بے حس ہوگئی ہوں سیلف سینٹرڈ بھی۔
بے حس ہونے کا افسوس نہیں ہے مجھے۔۔دکھ اس بات کا میری بے حسی نے رلایا ہے آپکو۔
جگنو آنا ایموشنل ہو رہی ہے۔ آپ پلیز معاف کر دینا۔۔سوری۔
پر آپ کو تکلیف میں۔دیکھنا آنا کے لیے ممکن نہ تھا۔ سو آنا چلی آئی۔
آپ نے جب فون پر کہا گندی آنا۔۔تو مجھے یقین ہوگیا میں گندی آنا ہوں۔"

مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا میں آپ کو سمجھا بھی نہیں پاؤں گی۔
آپ تو بھول چکی ہوں گی لیکن مجھے یاد ہے۔
مجھے ہر وہ لمحہ جب جب آپ روئیں جب جب ہنس کر آپ نے آنکھیں میچیں۔
جب رنگوں کے نام سیکھے۔
"ایلو گوین بلیو اوونج"
جب پھول کو شلاور کہنا سیکھا۔
جب آئش کویم کہنا سیکھا۔
الشلاکا لیکم کہنا سیکھا۔
جواب میں اللہ کا شکر کہنا سیکھا۔
سیڑھیاں اترنا سیکھ کر تالیاں بجوائیں۔
گلی کے بچوں سے دوستی کرنا سیکھی۔
یہاں مجھے افسوس رہے گا ایمو میں ابھی تک آپ کو ہم عمروں سے لڑنا نہیں سیکھا پائی۔
لیکن آپ یقین کریں آپ کا بولا ہوا سیکھا ہوا ہر لفظ آنا کے لیے ایک خاص اور اہم لفظ ہے۔ جو بظاہر کتنا عام کیوں نہ ہو آنا اس پر پہروں سرشار رہ سکتی ہے۔
اور آپ کے آنسو اداسی کا وہ دور ہوتے ہیں جن میں آنا کے سرواییول کے چانسسز کم بہت کم ہوجاتے ہیں۔
اب آپ نے سکول جانا ہے تو آنا کو بھی اچھا لکھنا سیکھنا پڑے گا۔
وگرنہ آپ تو منہ پر کہہ دیں گی۔۔آنا فییری والی سٹوری کیوں نہیں لکھتیں۔
تو آنا کے پیارے سے جگنو۔ آپ خود پری ہو آنا آپ کو پریوں والی کہانی کیسے سنائے۔
سو آج کے لیے اتنا ہی۔
جیتی رہو جیتتی رہو آنا کی پیاری سی تتلی ہمیشہ خوش رہو مسکراتی رہو۔اور جیو ہزاروں سال۔
ہیپی ٹو یو ایمل۔
آنا۔

دانش ہی کیوں



ہم سے پوچھا کہ دانش ہی کیوں۔ دانش پر ہی کیوں لکھتی ہیں۔


تو ہمارے مزاج، جنگجویانہ مزاج کو ذہن میں رکھتے ہوئے آپ سب کے ذہن میں یقینا یہ ہی خیال آیا ہوگا کہ باقی سب سے لڑ بیٹھے ہیں۔
بالکل ویسے جب ہم بہن کو گھما کر لمبا چکر لگا کہ ایک ڈائیر کے پاس لے کر جاتے تھے۔ تو اچانک ایک دن بہن گوشمالی پر اتر آئی کہ اس پرانے ڈائیر کو کیا تکلیف ہے۔۔
ہم نے نہایت بے نیازی سے جواب دیا ہم لڑ پڑے ہیں اس سے۔
بہن نے اس سے کہیں بے نیازی سے جواب دیا تمہاری لڑائیوں کو دیکھنے لگے تو سارے شہر سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
تو یہ ہی قول زریں ہم نے کرش کئے ہوئے دوپٹے کے پلو سے باندھ لیا کہ لڑائی پر کسی کا بائیکاٹ نہیں کرنا۔ بلکہ اس کو مزید ٹیز کرنا ہے۔ جسے موئے انگریز ٹیز ٹو ڈیتھ کہتے ہیں۔



تو ایسا نہیں ہے کہ ہم باقیوں سے لڑ بیٹھے ہیں۔ یہ تو ثابت ہوگیا لڑائی پر بائیکاٹ والے نظرییے پر بھی قائم ہیں۔ یوں بھی اس میں لطف سوا تھا۔ اب اس عمر میں کہاں ہم نئے نئے دشمن ڈھونڈنے نکلتے۔پرانی دشمنیوں کو ہی جھاڑ پونچھ کر نیا رکھنے کا خیال ہمیں بھایا ہی بہت۔ کہ اس میں مستقبل کے منظر نامےکی پریکٹس کا حسین موقع میسر تھا
سو اب کیا وجہ بتاتے کہ کیوں___دانش ہی کیوں۔
تو ہم نے سچ بتانے کا فیصلہ کر لیا۔ وجہ یہ ہے کہ۔۔۔ میری تحریر میری مرضی۔۔
اور وجہ خود ڈھونڈ لو۔ کے بعد عرض ہے کہ۔
دانش آنے والے زمانے کی خبر لانے والی ایک فیوچرسٹک ویب سائٹ ہے۔
جس میں لکھنے والے اعلی دماغ بہترین مزاج کے حامل لوگ ہیں۔
جن کے لہجوں میں پیمبرانہ آہنگ اور جن کی تحریر کے فلو میں پہاڑی جھرنوں سی کشش ہے۔جو جب زمیں پر گرتے ہیں تو دیکھنے والا ہیبت اور محبت کے حسین امتزاج سے پیدا ہونے والے جذبات کا شکار ہوجاتا ہے۔



بالکل ایسے ہی دانش پر لوگ جب لکھتے ہیں تو ان کی تحاریر ویسا ہی تاثر دیتی ہیں گویا کوئی قرطاس کی چاندنی پر مقدس ہرا رنگ لٹا رہا ہو۔ پڑھنے والے کے ذہن میں سندوری فضا قائم کرکے خوابوں والے اعلی آدرشوں والے کسی حسین نظریئے کی آبیاری کرتا ہو۔ جیسے جنگلوں میں پیہو پیہو کرتا پیپیہہ کوئی۔ جس کی تان میں وصل کے گیتوں کی مٹھاس ہو۔ یا ڈار سے بچھڑی اس کونج کی چینخ جس کت تال میں ہجر کی فراق کی وحشت ہو دوری کے کرب کا اندر باہر سے چیرتا ہوا سا تاثر۔۔۔۔



افففف۔۔۔۔یہ پیڈ کانٹینٹ لکھنا بھی کس قدر مشکل کام ہے۔ ہم سب کو نہیں کرنا چاہیے۔
ناظرین یہاں بتانا لازمی ہے کہ ہم سب واوین میں نہیں۔آپ لوگ پڑھنا چاہیں تو آپ کی مرضی منشاء۔۔ہم آپ کے جسم مطلب ہے سوچ پر پہرے نہیں۔بٹھا سکتے۔ کیونکہ ہم۔ایک عدد کھلے ذہن کے مالک انسان ہیں۔ اور ہمارا شعور ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ کسی کی سوچ پر پہرے لگانا اپنا نظریہ امپوز کرنا اوروں کے نظریات کو حقیر کمتر اور گھٹیا سمجھنا ان کا مذاق اڑانا کچھ اور ہو تو ہو روشن خیالی نہیں ہوسکتی۔اور جہاں خود کو امام زماں سمجھنے سمجھانے کی خواہش کی۔بھنک بھی پڑ جائے وہاں اوپرا سا اجنبی سا احساس اتنا شدید ہوجاتا ہے کہ مارے گھٹن کے سانس لینا دشوار ہوجاتا ہے۔ اور جہاں یہ ہو وہاں سے کنارہ کرلینا ہی آپشن بچتا ہے۔ کیونکہ قائل کرنے یا منوا لینے کے نظریہ کے۔نہیں قائل۔ نہ ایسا کوئی دعوی ہے کہ لہجے میں۔ایسی کوئی تاثیر بسی ہے کہ لوگ ہماری بات کو من و عن تسلیم کر لیں۔
اسی لیے ہم نے دانش مندی کا مظاہرہ کیا ہو شائد۔
لیکن اس شائد میں بہت سے امکانات پوشیدہ ہیں۔ یہ امکانات کا جہاں ہے۔
بقول شاعر۔



ہمارا اور تمہارا ساتھ ممکن ہے
یہ دنیا ہے یہاں ہر بات ممکن ہے



تو امکانات کے اس جہاں میں ہم سے دانش کے مظاہرے کی توقع رکھنا ایس بھی۔بعید از امکان نہیں۔ کیا کہتے ہیں آپ لوگ؟
اب خدارا ہمارا سآٹ انیلیسز نہ کر دیجئے گا۔۔
کہاں۔ڈھونڈتے پھریں گے آپ کوئی خوبی ہم میں۔۔۔مشکل کام ہے۔
اس سٹیج یعنی مقام پر پہنچ کر آپ پڑھنے والوں کے ذہن میں یقینا یہ سوال اٹھ رہا ہوگا کہ اس تحریر کا مقصد کیا ہے۔
آپ پریشان مت ہوئیے بتائے دیتے ہیں۔۔
مقصد یہ ہے کہ۔۔۔۔کوئی مقصد نہیں ہے۔
دانش والوں نے اصرار کیا تھا کہ سالگرہ کے شبھ موقع پر کچھ لکھ بھیجئے۔
ہم صدا کے سست تحریر لکھنے کی کوشش کی اور نہ لکھ پائے۔ جب کہ۔کمٹمنٹ کر چکے تھے۔پھر سوچا ہماری گفتگو کرنے کی صلاحیت کس دن کام آئے گی۔لہذا یہاں۔اسی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔
رہ گئی دانش پہ لکھنے کی وجوہات۔
تو ایک وجہ بہت بڑی کہ ہم نے بہر صورت لکھنا ہوتا ہے جب گھٹن بڑھ جائے اندر باہر بارش ہونے لگے تو ہم لفظوں کے دیئے جلا کر انہیں اپنے تخیل کا سورج سمجھ کر روشنی کر لیتے ہیں۔یہ دیئے جلا کر سر راہ رکھ دیتے ہیں دانش والے چھاپ دیتے ہیں آپ لوگ پڑھ لیتے ہیں۔
اور دوسری وجہ۔۔دانش والے ہر دوسرے دن ہم سے پوچھتے ہیں کچھ لکھا۔ جس پر ہم شرم سے پانی پانی ہو لکھنے پہ آمادہ ہوجاتے ہیں۔
تو آپ لوگوں نے جتنے انڈے ٹماٹر اکھٹے کر رکھے ہیں ان کا رخ دانش کی طرف کر لیجئے۔ ہم ان کے اکسانے پر لکھتے ہیں۔
وگرنہ ہفتوں منظر نامے سے غائب رہیں اور بہت سی جگہوں پر دنگا فساد وغیرہ میں مصروف رہا کریں۔



اور آخری وجہ____
ہم دانش میں لکھتے ہیں تو تمہیں کیا ہے بھئی۔