Pages

Tuesday 28 August 2018

نئی زندگی کا آغاز


دو دن کی اعصاب شکن اور درد ناک لڑائی میں درد خوف تکلیف خدشے واہمے اندیشے ہارگئے۔اور زندگی جیت گئی۔یہ ہی زندگی ہے۔ہر مشکل کے ساتھ آسانی والی۔تمہاری ماں نے بالکل صحیح نام سوچا ہے ابراہیم اس مہینے میں پیدا ہونا اور ابراہیم نام پانا لازم و ملزوم ہے۔آج تمہاری ماں کی تکلیف نے میرے دل میں خیال جگایا تھا کہ تم اسماعیل ہو اپنی ہاجرہ کے ساتھ تپتے صحرا میں اکیلے۔ صرف تم دو تھے۔ اور تمہاری ہاجرہ تمہارے لئے سعی کررہی تھی۔ کرب و وحشت میں۔ جب ڈاکٹر نے کہا تم تھکنے لگے ہو تو مجھے یقین نہیں آیا۔
ڈاکٹر سے کہیں۔زیادہ مجھے ہاجرہ کی سعی پر یقین تھا۔کہ ہاجرہ اپنے اسماعیل کے لیے زم زم نکلوا کے چھوڑتی ہے۔
مجھے آج سمجھ آیا ماں کو ماں کیوں بنایا رب نے اور کیسے۔
جیو ہزاروں سال دودھ نہاو پوتو پھلو خوشیاں پاؤ۔

تین دن سے تم نے جو تنگ کر کے رکھا تھا اس کا حساب تمہاری خالہ چکتا کرے گی۔ 
نرس نے لا،کر شیٹ میں لپٹے تم پکڑائے تو تمہاری خالہ رو پڑی تھی۔ زندگی کے اس موڑ پر کیا اظہار کرنا تھا نہیں۔معلوم تھا۔ رب اپنے بندے کو اس کی اوقات سے کہیں زیادہ نوازتا ہے۔ یہ تمہیں گود میں اٹھانے کے بعد کے احساسات تھے۔
خیر تمہاری خالہ تمہارے لئے کہانیاں لکھتی رہے گی۔ آج کے لیے بس اتنا کہ رب تمہیں صالح اور امیں بنائے۔احساس کی دولت بخشے۔محبت کی رمز سکھائے۔اور علم کا نور عطا کرے۔
ابراہیم کی طرح تم بت شکن بن جاؤ۔ تعصبات کے بت توڑو روآجوں کے مندر ڈھاؤ۔خوش رہو۔
تمہاری آنا خالہ۔

امید


صوفے پر ابا بیٹھے تھے ان کے ساتھ آٹھ سالہ عدن اور چئیر پہ بہن بیٹھی تھی، جب کمرے میں داخل ہوئی تو تین نسلیں آنکھوں میں نمی لیے ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔
پہلے سوچا دوسرا ٹی وی لگایا جائے یا پھر یو ٹیوب پر جایا جائے کہ کانوں میں بچت کی آواز پڑی۔ قدم وہیں جم گئے اور کسی کے مضبوط لہجے میں کی گئی گفتگو دھڑکنوں میں اترنے لگی۔
خان صاحب آپ کو ووٹ دیتے اس سے پہلے سوشل میڈیا پر لڑتے کئی بار دل میں خیال آیا ایسی جگہ پر کیا بات کی جائے جہاں استدلال یہ ہو کہ کیا ہمارے ماں باپ غلط تھے یا ہیں؟ کئی بار جی چاہا سب کچھ چھوڑ چھاڑ جنگلوں صحراؤں میں نکل جایا جائے۔ کہ پتھروں سے سر پھوڑنا کب تک ممکن ہوتا۔پر آپ نہیں مایوس ہوئے کبھی۔
اللہ نے ہمارے ہاتھ میں صرف کوشش رکھی ہے کامیابی اس کے ہاتھ میں ہے۔خان صاحب اس بات کو میرے ایمان کا حصہ بنانے کا شکریہ۔
آج نم آنکھوں کے ساتھ آپ کا خطاب سنتے ہوئے سارے منظر یاد آرہے تھے۔ خان صاحب آج بھی مئی دو ہزار تیرہ یاد کر کے پھوٹ پھوٹ کر رویا ہے کوئی۔ پہلے خیال یہ تھا کہ مضبوط لوگ روتے نہیں پر خان صاحب جب آپ کو مسکراتے چہرے پر اٹل ارادوں والی آنکھیں صاف کرتے دیکھا تو یقین ہوگیا مضبوط لوگ بھی روتے ہیں پر جنگ جیتنے کے بعد بھلا آپ سے مضبوط کون ہوگا۔ بائیس سالوں کی محنت ہم ہوتے تو کب کا حوصلہ ہار چکے ہوتے۔ اس مضبوطی پر رب کا شکریہ۔ اور اس مضبوط روییے کے اظہار کے لیے آ پکا شکریہ خان صاحب۔
آج جب آپ نے زینب کا ذکر کیا تو آنسوؤں نے ساری سکرین دھندلا دی۔ صرف آنسو پونچھتی عدن نظر آئی۔ وہ آٹھ سالہ بچی جو آج بھی یہ دعا مانگتی ہے کہ جانور قربان کرنے کا کوئی اور طریقہ متعارف کیا جائے کہ چھری سے بہت تکلیف ہوتی ہے خان صاحب۔ اس حساس بچی نے نیوز چیلنز سکول اور گھر کی حفاظتی تدابیر میں زینب کا خوف اور اس کی تکلیف محسوس کی ہے آج اس کی آنکھوں میں آنسو یہ گواہی دے رہے تھے۔
آپ کو پتا ہے آج آپ بولتے ہوئے بارش جیسے لگ رہے تھے۔ اندر باہر سیراب کرتی ہوئی۔ زندگی کی نوید دیتی ہوئی خوشحالی آجاتی ہوئی آپکی آواز بارش کی آواز جیسی لگی کو انوکھی زمینوں پر گرتی ہے تو دھڑکنوں کا جلترنگ بجاتی ہے۔
آپ مدرسے کے بچوں کی بات کر رہے تھے تو مجھے تیمور یاد آیا جو مدرسے میں پڑھتا ہے اور جسے میں ہر دوسرے تیسرے ہفتے مسجد والوں سے جھگڑا کر کے گھر لے آتی ہوں۔ افغانی بچہ ہے چھ سال کا ماں نہیں ہے باپ مسجد کے باہر چھلیاں لگاتا ہے بچہ مسجد میں رہتا ہے۔ جب پہلی بار کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے ایک لڑکے کو،اسے دھمکاتے دیکھا گلی میں جا کر اس بڑے لڑکے کی پھینٹی لگائی تھی تو اسوقت بھی دل خون کے آنسو رویا تھا کہ یہ بچہ ریاست کی ذمہ داری کیوں نہیں ہے۔ مسجد والے ہمسایہ سمجھ کہ برداشت کرتے ہیں اور بچہ ہمدرد سمجھ کہ دوڑا آتا ہے۔ پر یہ مسئلے کا حل نہیں تھا۔ آج آپ کو مدرسہ کے بچوں کو اون کرتے دیکھا تو جی چاہا ابھی جاؤں مسجد کا دروازہ کھٹکھٹاوں مدرسہ میں جا کہ تیمور کو بتاؤں دیکھو تمہاری بات کی خان نے۔ دیکھو اب تم باقاعدہ پڑھو گے۔خود مختار ہوگے۔
جی تو اسوقت بھی اڑ کے ناشتہ والی سٹریٹ میں جانے کا چاہا جب آپ نے سٹریٹ چلڈرن اور سکولوں سے باہر بچوں کی بات کی۔میرا جی چاہا ان سارے بچوں کو اکٹھا کر کے بتاؤں کہ تم لوگ اب لاوارث نہیں رہے۔
جب آپ نے کہا نا معذوروں کا خیال رکھیں تو عینی یاد آئی نمرہ یاد آئی عافیہ یاد آئی عائشہ یاد آئی یہ سارے وہ دوست ہیں جن کو ذہنی معذوروں کا معاشرہ معذور سمجھ کر اپنے ظرف کا مظاہرہ کرتا ہے۔ خان صاحب۔ جی چاہا ان سب کو میسج کروں کہ اب تم لوگ بے سہارا نہی رہے۔
جب آپ نے بتایا کہ بیوہ نے خون سے خط لکھا تھا آپکو تو مجھے وہ بیوہ یاد آئی جس کا بچہ میرے پاس آتا تھا۔جب ماں کو دیس نکالا ملا تو وہ بچہ میرا ہاتھ پکڑ کے پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا۔ اس نے کہا تھا اپنے پاس رکھ لو۔اور میں چاہ کر بھی جواب نہیں دے پائی تھی۔ آج جی چاہتا ہے مظفرآباد کے اس دور افتادہ گاؤں میں فون ملاوں ان سے کہوں ولید سے بات کروائیں اور جب وہ کروائیں تو ولید سے کہوں۔۔۔ دیکھو ہم دونوں اب بے بس نہیں رہے تم لوٹ آؤ مجھے اس احساس جرم سے نکالو میں تمہیں یہاں اسکول بھیجوں گی۔ ہم دونوں خواب دیکھیں گے اسے تعبیر کریں گے۔
میرا جی چاہ رہا ہے میں ساری دنیا کو چلا کر بتاؤں اب ہم لاوارث نہیں رہے۔ اب ہمیں آنکھیں نہ دکھائے کوئی۔ ہم سے برابری کا سلوک کرنا پڑے گا۔کہ اب ہم نے ریوڑ اور ہجوم سے قوم بننے کی طرف سفر کا آغاز کردیا ہے۔
میں یہ ساری باتیں کروں گی۔ لیکن خود کو سنبھال لوں۔ جذبات میں بڑا بول نہیں بولنا چاہتی کہ یہاں تکبر والوں کے سر نیچے ہوتے دکھائے ہمیں رب نے۔
آج دل میں خوف بھی ہے تھوڑا۔۔ توقعات کا،خوف ہوتا ہے نا وہی ہے۔
لوگ کہتے ہیں میں آپ پر تنقید برداشت نہیں کرسکتی۔ کیا کروں خانصاحب خود سے کہیں زیادہ یقین ہے آپ پر اور میرے لیے میرے جیسے ہزاروں لاکھوں لوگوں کے لیے یہ گالی نہیں، آپ سے محبت ہماری سچائی سے اعلی آدرشوں والے نظریات سے محبت ہے۔
فیض کے الفاظ میں یوں کہ
ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے
دشنام تو نہیں یہ اکرام ہی تو ہے
اگلا شعر نہیں لکھوں گی کہ ڈھل چکی شب غم اور شب غم و ہجر کتنی ہی طویل ہو ڈھول جاتی ہے۔ آپ سے سیکھا یہ۔ نکموں کو یہ سیکھانے کا شکریہ۔
یہ قبولیت کی گھڑیاں ہیں رب زمین پر اپنے بندوں کا،حج قربانی اخلاص دیکھ رہا ہوگا وہاں ہی وہ ہمارے بھیگے لہجے نم آنکھیں موم د ل بھی دیکھ رہا ہوگا۔ اس کا شکر ادا کر پانا ممکن ہی نہیں۔ اس سے صرف کرم کی مہربانی کی توفیق ہمت کی دعا کی جاسکتی ہے۔ اس سے مدد و نصرت چاہی جاسکتی ہے۔ اور بے شک وہ اپنے بندے کی سعی و دعا ضایع نہیں کرتا۔ رب ہمارا بھی مددگار ہوجائے۔ رب آپ کو آپکی ٹیم کو سرخرو کرئے آمین۔ ہم سر اٹھا کر جی سکیں۔ میرے بچے بہتر ملک میں جی سکیں۔
اور آپ کے خطاب پر صرف یہ کہا جاسکتا ہے

بھلا یہ فن بھی کہاں ہر کسی کو آتا ہے
وہ گفتگو نہیں کرتا، دیے جلاتا ہے

نقطہ نظر


ہر شخص کی ایک سیاسی وابستگی ہوتی ہے۔ ہونی بھی چاہیے کہ ارسطو کہتا ہے غیر سیاسی صرف جانور ہوتے ہیں۔بالکل ایسے ہی ہمارے بھی سیاسی نظریات ہیں۔ سیاسی وابستگی ہے۔ جو کہ روز روشن کی۔طرح عیاں ہے کہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں ہم عمران خان کو ایک بہتر آپشن سمجھتے ہیں سو اس کے ووٹر ہیں۔ اور تب تک رہیں گے جب تک کہ سیاسی منظر نامے میں کوئی خان سے بہتر شخص جگہ نہ بنا لے۔ اس سیاسی وابستگی کی اور بھی بہت سی وجوہات ہوں گی/ہیں ایسے ہی ہمارے اردگرد یا یوں کہہ لیجئے سوشل میڈیا پر موجود لوگوں کے الگ الگ نظریات و وابستگیاں ہیں سب کے پاس اپنی اپنی ریزنز ہوتی ہیں چاہے وہ کسی خاص شخص سے محبت ہی کیوں نہ ہو۔
بہرحال یہ ضمنی باتیں تھیں۔لیکن وضاحت کرنا ضروری تھا کہ دانشواران ملت بات کو غلط رنگ دینے میں اتنے ہی ماہر ہیں جتنا ہمارا نیا ڈائیر دوپٹوں کو صحیح رنگ دینے میں۔یعنی بہت۔
سو ہمارا چونکہ مضمون بھی پولیٹکل سائنس ہے اور پچھلے آٹھ دس سالوں سے پڑھ ہی رہے ہیں اسے لہذا اپنی ایک سیاسی رائے رکھتے اور اس کا،اظہار کرتے ہیں۔
اس تحریر کو لکھنے کا مقصد عمران خان یا اس کی سیاست نہی بلکہ ن لیگ اور اس کی سیاست ہے۔
میرا ن لیگ سے سخت اختلاف ہے میں یہ بھی سمجھتی ہوں یہ کرپٹ فیملی ہے خائن ہیں میاں صاحب بطور حکمران بدیانتی کے مرتکب ہوئے ہیں۔بلکہ انہوں نے قومی و ملکی املاک اداروں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ میں انہیں گلوریفائی کرنے والے دانشوروں سے الجھتی بھی رہتی ہوں۔ آج ان کی گرفتاری پر اگر خوشی نہیں بھی تھی تو اطمینان ضرور تھا۔ میں یہ بھی سمجھتی ہوں ان کی گرفتاری کے اس قانونی معاملہ پر یوں ہائپ کڑی ایٹ کرنا بھی ان کو سیاسی فائدہ پہنچانے جیسا ہے۔
لیکن ان سب باتوں کے باوجود مجھے آج میاں صاحب سے ہمدردی محسوس ہورہی ہے اس لئے نہی کہ وہ جیل جا رہے ہیں۔ بلکہ اس لئے کہ انہوں نے اپنے اردگرد جو جغادری لوہے کے چنے اکھٹے کیے ہوئے تھے وہ جن کی زبانیں بھلے زمانوں میں صبح شام زہر اگلا کرتی تھیں۔ آج چپ تھیں آج وہ کہیں نہ تھے۔ اور اس سے کہیں زیادہ افسوس مجھے شہباز شریف پر ہے جو سیاسی فرض تو کیا بھائی ہونے کا حق بھی ادا نہ کرسکا۔
میاں صاحب غلط تھے پھر بھی۔شہباز شریف کو ائیرپورٹ پر کھڑا ہونا چاہیے تھا یہ بتانے کے لیے نہیں کہ وہ سیاسی شہید ہورہے ہیں بلکہ یہ بتانے کے لیے کہ مشکل وقت میں شہباز شریف بھائی پہلے ہے اور سیاستدان بعد میں۔
مشکل وقت میں اگر سبلنگز بھی کام نہ آئیں تو تف ایسے رشتوں پر اور لعنت ایسی سیاست پر۔
شہباز شریف صاحب آپ پر دلی تف۔۔
میاں صاحب آپ نے آج ایک سبق تو ضرور سیکھا ہوگا کہ قوم کو جاہل بنانا اب ایسا آسان نہیں رہا۔ اور اگر آپ نے یا بی بی نے آج بھی یہ نہی سیکھا تو پھر آپ کو کوئی یہ نہیں سکھا سکتا۔
شہباز شریف صاحب کو بھی یاد رکھنا چاہیے مشکل میں سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔
اور خان صاحب کو بھی کہ مفاد پرست کا کوئی دیں مذہب نہیں ہوتا سوائے اپنے مفاد اور اپنے فائدے کے۔
اور جو لوگ ابھی بھی ن لیگ کو ووٹ دینا چاہتے ہیں انہیں ایک بار سوچنا چاہئے کیا مفاد پرستی کے ایسے نمونہ کو ووٹ دیں گے؟
ووٹ کو عزت دیجئے کہ کل آپ کو عزت ملے۔
سحرش عثمان

وائے حسرتا


وائے حسرتا!
حسرتوں کی فہرست میں
پہلا نام تیرا ہے۔
دوجی تیری خواہش ہے۔
تیسری محبت ہے
وہ جو مجھ کو تم سے ہے۔
تیری اس مسکراہٹ سے۔
جو زندگی کا سورج ہے
چاندنی لٹاتا ہے۔
میرے سخن کی رمزیں
نکھار جاتا ہے۔
وائے حسرتا!
فینٹسی کے خانے میں
تیرا ہونا اول ہے۔
دوجا عشق موسم کا۔
وہ جو تیری آنکھوں کے سمندروں 
سے اٹھتے ہوئے۔۔
بادلوں کے اس جھرمٹ میں 
ٹھہرے ہوئے پانی کی
بارشوں سے مجھ کو ہے
تیسری محبت ہے
وہ جو تم کو۔۔ 
وہ جو مجھ کو تم سے ہے۔
وائے حسرتا
خواہشوں کی دنیا کی
دنیا تم ہی سے ہے۔
خواہشوں کے موسم کی
بارشیں تمہی سے ہیں۔
خواب نگر کے چندا کی
روپہلی کرنیں
وہاں کے گلاب سارے
ان پر گری شبنم
موتیے کی ٹہنی
حسن کے استعارے
سارے کے سارے
تم ہی سے ہیں
وائے حسرتا!
زندگی کے میلے میں
ملنے والی خوشی تم ہو۔
دوجی وہ محبت ہے
وہ جو تم کو___
تیجا عشق چاہت کا
وہ جو مجھ کو تم سے۔۔۔

سحرش عثمان۔

گر تم اجازت دو


گر تم اجازت دو
تو اس چپ کا نام وحشت رکھ لوں۔
جس میں تم چپ ہو
اور لفظ نشتر بن کر
خنجر کی انی کی مانند 
میرے ذہن و دل چیر رہے ہیں۔
گر تم اجازت دو تو 
اس چپ کا نام اداسی رکھ لوں۔
جس میں تم چپ ہو۔
اور لفظ برسات کے بعد کے حبس کی مانند
میرا سانس روکے کھڑے ہیں۔
گر تم اجازت دو تو اس چپ کا نام مرگ ناگہانی رکھ لوں۔
وہ جس میں تم چپ ہو
اور لفظ چاک گریباں
سر پہ خاک ڈالے۔
بین کر رہے ہیں
میری حساسیت کی موت کا پرسہ دے رہے ہیں۔
تم اجازت دو
تو اس چپ کا نام محبت۔۔۔
محبت کی موت رکھ لوں
اس چپ کا نام بلیک ہول رکھ لوں
جہاں سارے جذبے 
سارے لفظ
ساری خاموشیاں
سارے دکھ
ساری خوشیاں
ٹہر جاتے ہیں۔
یا مر جاتے ہیں۔
سنو یہ چپ ویسی ہے۔
بلیک ہول جیسی۔
جہاں میرے لفظ
ان کا آہنگ
شاعری کے ہجے
شاعر کا لہجہ
گائیک کے سُر
سُروں کا تال
تال پہ بنی کوئی مدھر دھن
اس دھن کو گنگناتی
کسی شاعر کی پہلی محبت۔
سب مر رہے ہیں۔
تم اجازت دو
سخن کو اجازت دو
تو یہ چپ ٹوٹے
کاروبار حیات چلے۔
وحشت کی رات ٹلے۔

سحرش عثمان
2،7،18

منطق


ہمارے لبرلز جعلی والے نکتہ آفرینی کی تو حد کردیتے ہیں۔ایسی ایسی منطق تراشتے ہیں کہ عش عش کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچتا۔تازہ
فرمان سنئے!
فرماتے ہیں ناتجربہ کار سے بئیمان بھلا۔
بھئی ایسا ہے کہ اپنے ذاتی مکان فیکٹری دفتر میں رکھ لیجئے گا آپ تجربہ کار بئیمان ، ہم تو نہ رکھیں گے اور یہ ملک آپ کی منطق کا متحمل نہیں ہوسکتا جہاں رہتے ہیں وہاں آزما دیکھئے یہ کلیہ۔ 
ہم تو ایمان دار بندہ ہی ہائیر کریں گے کہ خائن کے ساتھ آپ سے انھے واہ دانشوروں کی حمایت ہو تو ہو رب کی حمایت نہیں ہوسکتی۔
رب خائن کو انصاف کی توفیق نہیں دیتا جب تک وہ اپنی خیانت پر ڈٹا رہے اور عدل نہ کرنے والا حکمران اس کی نظر میں۔بدترین ہوتا ہے۔
ہم نہ رکھیں گے بئیمان آپ اپنے ادارے میں رکھ لیں۔
شکریہ

خانہ فرسائیاں


موسم نواز شریف ہوا تو ہم بھی کابینہ کے رکن ہی ہوگئے۔ جائز و ناجائز ہر فائدہ اٹھا لیا۔

مثلا دن چڑھے تک سوتے رہے۔ اٹھ کر درزی کے ہاں حاضری لگائی ڈائر کو یاددہانی کرائی پیکو والے سے دوپٹے پیکو کروا کر جب گھر کی راہ لی تو ہمیں دو سو فیصد یقین تھا کہ آنسہ کے دوستوں نے سوشل میڈیا پر ہلکی پھلکی کمپیئن تو چلا ہی دی ہوگی برنگ بیک آنسہ کی۔ کہ موبائل گھر تھا اور ہم پورے دو گھنٹے آف لائن رہے۔
پر وائے افسوس آنسہ کے دوست اتنے نظریے بیانیے نہ ہوئے۔
رنج افسوس دکھ درد روزے کا لگنا اور دیگر سارے گلومی جذبات لئے ہم اپنے دوستوں  کی ماضی قریب و بعید میں روا رکھی جانے والی زیادتیوں پرمبنی ناروا سلوک کے واقعات یاد کر رہے تھے کہ ہمیں یاد آیا ہمارے دوست ہماری تحریروں کو بھی خاطر خواہ اہمیت نہیں دیتے۔سو، سوچا ایک عدد مینے مارتی تحریر لکھی جائے جو ان سب کے سارے پول کھول دے۔لیکن خیال آیا اب ایسی بھی۔کیا افتاد ٹوٹ پڑی ہم پر کہ ریحام خان ہی بن بیٹھیں۔
ریحام بی بی کے نام سے ایک عدد فسادی خیال آیا۔ جسے ہم نے فورا جھٹک دیا۔سوچا اس بی بی سے ہی دو چار سوال پوچھ لوں۔۔
لیکن پھر سوچا یہ ایسا کیا کہہ گئی جو اس کو اہمیت دی جائے۔یہ تو ہمارے ہاں دیہاتوں شہروں کی عورتیں ہر شادی پہ ڈھول پیٹ اور گلا پھاڑ کر اعلان فرماتی ہیں۔
"میں تیرے نال وسی آں تے ہور کوئی وسے ای نہ۔"
لو دسو شاعر ایسے موقعوں پر فرما تے ہیں۔
اب اتنی سے بات پہ کون جینا حرام کرے۔
یوں بھی ایسی کسی بات کو توجہ دے کر ہم اپنی جنس کا مقدمہ کیوں کمزور کریں۔جو پہلے ہی اس استحصالی نظام میں جکڑی آزادی کے لیے کوشاں ہے۔
لیکن وہ دوستوں سے لڑائی۔۔تو اچانک ذہن میں جھماکہ ہوا کہ۔ ہماری ایک تحریر پر دوست ہلکے سے ججمنٹل ہوگئے تھے۔ سو آج اچھا موقع تھا۔ بلکہ رسم دنیا بھی تھی موقع بھی اور دستور بھی لہذا ہم نے کرڈالی انتقامی کاروائی۔
شادی کے حق میں تحریر لکھنے سے پہلے ہی اندازہ تھا۔ کہاں کہاں سے میسج آئیں گے۔
اندازہ درست ہوا۔ بہت سی دوستوں کے تپتے ان باکس موصول ہوئے۔
ہمیں شادی کا شوقین ثابت کرنے کے بعد فرمایا گیا کہ تم جیسی لڑکیاں فینٹسی ورلڈ میں رہتی ہیں۔جن کو لگتا ہے شادی کے بعد سب کچھ ہرا ہرا ہی ہوتا ہے۔
اندازے کی درستگی پر داد کیا ملتی الٹا خود سے بھی طعنے پڑے کہ لو دیکھ لو۔ پچھلے کئی دن ہم اسی دکھ میں خود ساختہ بائیکاٹ کئے رہے کہ یہ سارے ہمارے دوست ہیں انہیں ہمارے متعلق اتنا تو معلوم ہونا ہی چاہیے۔ اس سے پہلے کہ ہم اسی بات پر سستی شبنم بنے کل عالم میں اداسی کی نحوست پھیلا دیتے۔ ہم نے خود ہی خود کو ٹوکا۔
 بتا دینے میں کہہ دینے میں کیا حرج ہے ؟ اپنا نکتہ نظر کمیونیکیٹ کرنے میں حرج کیا ہے؟۔اپنی پوزیشن کلئیر کرنے میں کیا بات آڑے آرہی ہے ؟ ہماری انا؟ یا کیمونیکیشن سکلز کا نہ ہونا یا پھر یہ سوچ کہ ہم ججمنٹل نہیں ہوتے تو اوروں کو بھی نہیں ہونا چاہیئے۔
اس سے پہلے کہ اس سوال کا جواب لکھا جائے۔ جواز تراشا جائے۔ ایک اور بات ذہن میں آئی ہے کہ یہ ایگو ہمارا مسئلہ کہیں ٹیکینیکل فالٹ تو نہیں؟
صنفی فالٹ ہماری صنف کی اکثریت یہ شکوہ کرتی نظر آتی ہے کہ "اسے"نظر نہیں آتا۔
تو صاف سیدھا جواب تو یہ ہی ہے کہ نہیں۔
لیکن اگر نہیں۔لکھ کر ہم نے بات ختم کردی تو آپ سب ہمیں "عظم لکھاری" کیسے تسلیم کریں گے۔
لہذا منطقی گفتگو کرتے ہیں۔
تو پیاری خواتین۔ چیزوں کو محسوس کرنے کی جو صلاحیت رب نے آپکو دی ہے وہ آپکی اوپزیٹ جینڈر کے پاس نہیں ہے۔ لہذا یہ آرگیومنٹ ہی فضول ہے کہ آپ کے ڈس کمفرٹ کو محسوس کیا جائے اور اس کا سد باب کیا جائے۔ یا پھر آپ کے بن کہے آپ کی دلیل کو تسلیم کیا جائے۔
خواتین آپ کو کہنا پڑے گا۔ سپیک آؤٹ لاؤڈ کے نظریہ پر عمل کرتے ہوئے پسندیدگی نا پسندیدگی کے متعلق بات کرنا پڑے گی۔اور یہ فارمولہ ہر تعلق ہر رشتے کے لیے ہے۔
بالکل اسی فارمولے کے تحت ہم بتا رہے ہیں کہ کیوں ہم شادی کے بغیر سماج کے ڈھانچے کی تکمیل کا کوئی نظریہ تسلیم نہیں کرتے۔
تو اس کا ایک سطری جواب تو یہ ہے کہ یہ رب کا قانون ہے قانون فطرت جس سے فرار ممکن ہی نہیں ہے۔ انسٹنکٹ یعنی فطرت ہے نر اور مادہ کا ساتھ رہنا۔
اب آتے ہیں۔اس قانون کے سماجی پہلوؤں کی طرف۔
کوئی بھی معاشرہ فیملی یونٹ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ فرد سماج کی پہلی اکائی ہے اور خاندان اس کا بنیادی یونٹ۔
تو جب تک یونٹوں کا اجتماع نہ ہو سماج تشکیل نہیں پاسکتا۔
عموما اس نکتہ نظر کے خلاف یہ دلیل دی جاتی ہے کہ دنیا کے بہت سے معاشروں میں شادی کا سسٹم نہیں ہے تو کیا وہ معاشرے قائم نہیں
قائم ہیں یقینا قائم ہیں اور ہمارے جیسے معاشروں سے کہیں مضبوط بنیادوں پر قائم۔ لیکن شادی کے تعلقات استوار کئے بغیر نہیں۔
ہر معاشرے کی شادی نارمز الگ ہوتی ہیں۔
اور شادی سے مراد ساتھ ہی تو رہنا ہے ؟
دل کی مرضی کا نام ہی تو نکاح ہے۔
اب آپ لوگ اس ساتھ رہنے کو شادی کہہ لیں یا لیونگ ادارہ تو آپ قائم کر ہی رہے ہیں نا؟ فیملی یونٹ۔
اور اس یونٹ کی تشکیل کے بغیر سماج ممکن نہیں فیملی یونٹ ساتھ رہے بغیر ممکن نہیں۔ تو مختصر یہ کہ سماج کی تشکیل کے لیے فیملی یونٹ کا ہونا بہت ضروری ہے۔
اب اس وجہ کو ایڈریس کیا جائے جسمیں ہم لوگ شادی کو مسائل کی جڑ سمجھتے ہیں۔
کیونکہ ساتھ رہنا تو فطری عمل ہے۔
اس کی وجوہات جانچنے کے لیے ہمیں سماجی روئیے جانچنے پڑیں گے۔
آپ لوگوں نے اکثر سنا ہوگا۔ کسی بیوہ کے متعلق کہ ایک سال کا بچہ تھا اس کے سر پہ ساری زندگی گزار دی بڑی نیک عورت ہے۔
یہ بیٹی تو پیدا بھی نہیں ہوئی تھی جب شوہر گزر گیا۔۔
اب کیا بیٹی لے کر پر آئے مرد کے ساتھ رہتی؟
بیچاری کے نصیب ہی ایسے ہیں۔
یا پھر یوں کہ۔۔ کیسا بے شرم ہے بیوی کو گزرے سال بھی نہ ہوا کہ۔بیاہ رچا لیا۔
اس کے تو دیدوں کا پانی ڈھل گیا جوان اولاد کی۔موجودگی میں چہلم پر ہی کہنے لگا میری شادی کرائیں۔
یہ روزمرہ کے جملے ہیں جو ہم روٹین میں سنتے واقعہ کے مطابق دو منٹ اظہار افسوس لعن طعن اور صنفی فخر کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ جو ہمارے پرہیز گاری کے خود ساختہ پیمانے پر پوری اتری ہے اس کے دن کیسی مشکل سے گزر رہے ہیں۔
یا پھر جس پر ابھی ہم لعن طعن کر کے فارغ ہوئے ہیں۔ اس نے کوئی برائی نہیں کی بلکہ عین نیکی کی ہے۔
اس دور ابتلا میں جہاں ہر جاہ برائی گھات لگائے بیٹھی ہے اور ارزاں نرخوں پہ ہر شئے میسر ہے وہاں کوئی نکاح کی بات کرتا ہے نکاح کا پیغام دیتا ہے تو وہ دراصل اپنا آدھا دین ہی مکمل کر رہا ہے وہ نیکی ہی کررہا ہے نفس کے ر ستے پر نہ چل کر اپنے فطری حق کے استمال کی بات کر کے۔
خدارا اگر خدا کو مانتے ہیں تو اس کا خوف کیجئے۔ اور اگر اس کی مانتے ہیں تو ایسے روییوں سے ایسے جملوں سے پرہیز فرمائیے۔
کم از کم ان پر فخر کرنا ہی چھوڑ دیجئے۔
اور ان وجوہات کو ایڈریس کیجئے جن میں ساتھ رہنا اس ساتھ کو اون کرنا اس پر اطمینان و خوشی کا اظہار کرنا یا اس ساتھ کی خواہش کرنا گالی بن چکا ہے۔
آپ کی بچیاں شادی نہیں کرنا چاہتیں بچے ذمہ داری نہیں لینا چاہتے۔
کبھی کسی نے سوچا جواں سال بیوہ شادی کیوں نہیں کرنا چاہتی؟
کیا صرف وفا کی آپکی تشریح اور معیار پر پورا اترنے کے لیے؟
نہیں۔۔۔شائد اس کے پیش نظر شادی شدہ زندگی کی مشکلات بھی ہوتی ہیں۔ وہ میاں بیوی کے مسائل کو عورت مرد کا ناقابل حل مسئلہ سمجھنے لگتی ہے۔ اس کے خیال میں دنیا کا کوئی شخص عورت کو نہیں سمجھ سکتا لہذا وہ اکیلے رہ جانا بہتر گردانتی ہے۔ کبھی کسی نے اس خیال کو جاننے بدلنے کی کوشش کی؟ کبھی کسی نے شادی کے بعد اپنے بچوں بچیوں کو بتایا ہے کہ ان کی زندگی کے مسائل جنس یا صنف کے مسائل نہیں فرد یا افراد کے مسائل ہیں۔ جنہیں مرد یا عورت کے خانے میں تقسیم ہوکر حل نہیں کیا جاسکتا۔
کیا میریج کونسلنگ کی کوئی شکل موجودہ ہے اس سماج میں؟ جو ایک دوسرے سے بیزار جوڑوں کو حل بتا سکے بیزاری کا ان کو وے آؤٹ ہی بتا سکے کوئی اس مستقل آزاد سے۔
خیر اب آجائیے دوسری اہم ترین وجہ جس پر ہمارے معاشرے میں داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے کی حد ہوجاتی ہے۔اولاد کی خاطر زندگی گزار دی۔اولاد میں بیٹے ہوں تو ایک آدھ فیصد امکان ہوتا ہے بیوہ کی شادی کا۔ لیکن اگر بیٹیاں ہوں تو سارے معاشرے کے لیے ایلٹیمیٹ ہوتا ہے اب خاتون کو صدقات و خیرات کی ضرورت ہے شادی یا ساتھی کی نہیں۔
آرگیومنٹ بھی بہت دلچسپ دیا جاتا ہے اب کیا بیٹی کو لے کر پرایے مرد کے ساتھ رہنے لگے۔
بیٹی کے معاملے میں کیسے بھروسہ کرلے پرائے مرد پر۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا سارا معاشرہ ریپیسٹ ہے ؟ اگر ہے تو ایسے سماج پر اپنے اور اپنی بیٹی کے معاملے میں اعتبار کیوں کر کر رہی ہے؟
جو سماج اس کی نومولود کے لیے محفوظ نہیں وہ اس کے لیے کیوں کر محفوظ ہوگا۔
عجیب منطق ہے کسی ایک شخص پر اعتبار نہ کرے رب اور اس کے رسول کو ضامن بنا کر لیکن سارے سماج پر کر لے بغیر کسی ضمانت کے۔
اور مرد شادی کئے بغیر اکیلا رہ رہ کر نفسیاتی ہوجائے بہوؤں بیٹوں کی زندگی اجیرن کردے سب تو ٹھیک بس اپنا گھر بسا کر کسی کے لیے آسانی نہ کردے۔
عجیب لوگ ہیں ہم والدین کے ادب و احترام حقوق پر بیویوں کو شب عروس پر دو گھنٹے کا لیکچر پکا سکتے ہیں لیکن اسی باپ کے شادی کرنے کے فیصلے کے سب سے بڑے مخالف بن کر مرنے مارنے پر اترنے میں دو منٹ نہیں لگاتے۔
جائز شرعی اور فطری کاموں میں رکاوٹ ڈال کر ہم سو کالڈ رواجوں کے چنگل میں الجھ کر ہم سماج کا ڈھانچہ بہتر کرنا چاہتے ہیں۔۔ہم سا نادان بھی کہیں ہوگا۔؟
اگر کسی کو اس معاشرے کی بھلائی مقصود ہے تو اس کو ہندوانہ نظام کی ان "اچھائیوں" کو ترک کرنا ہوگا۔ وگرنہ یوں ہی شادی کے حق میں لکھنے پر ہمیں طعنے ملتے رہیں گے۔ اور ہم جوابا یونہی لمبی لمبی تحریریں لکھتے رہیں گے کچھ اور کر جو نہیں سکتے۔خواب دیکھ سکتے ہیں سو دیکھتے ہیں اس سماج کی بہتری کے۔
اس بے اختیاری سے ایک شعر سنئے


ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے، ہم صورت گر کچھ خوابوں کے

بے جذبۂ شوق سنائیں کیا، کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا


میریج کونسلنگ شادی کی راہ میں رکاوٹ پر خانہ فرسائیاں کسی اگلی تحریر میں۔

سحرش عثمان۔