Pages

Sunday 23 December 2018

امبانی شادی سماج اور ہم۔




پچھلے کچھ ہفتوں مس امبانی کی شادی کا غل ہے۔ غل اس لئے کہ جب بھی نیوز چینل لگایا جائے۔ مس امبانی کی۔نیوز یو ٹیوب بار بار اپڈیٹیس دے رہی کہ کہیں ہم کچھ مس نہ کردیں۔
ایک میگزین پڑھا کرتے ہیں ہم اس میں فلمی ستاروں کی خبریں بھی آتی ہیں پچھلے تین ہفتوں سے وہاں امبانیوں کا قبضہ ہے۔ اور کارڈ سے لے کر چارٹرڈ طیاروں تک ہر شئے کی وڈیوز اور تصاویر تک ہم تک واٹس ائپ کے ذریعے برابر پہنچتی رہی ہیں۔ ہر قسم کے تبصروں اور تجزیوں کے ساتھ۔
اس سارے ہنگام میں جو تبصرہ سب سے دلچسپ اور جامع تھا وہ ایک مس عثمان نے کہاکہ "لگدی فیر وی غریب پئی اے"
لیجئے ابا کا اتنا خرچا کرا کے ساڑھے چارسو کڑوڑ کا گھر لے کر جہیز میں خاتون پھر بھی غریب لگ رہی تھی۔ یعنی فائدہ کوئی نہ ہوا اس شادی کا۔
یوں تو بظاہر یہ ایک جملہ ہے "لگدی فیر وی غریب پئی اے"(لگ پھر بھی غریب رہی ہے) لیکن درحقیقت یہ پورے برصغیر کی نفسیات کا خلاصہ ہے۔
ہمیں ہر صورت بس امیر لگنا ہوتا ہے۔ 
چاہے اس کے لیے الٹا لٹکنا پڑے۔
ایک بار دوران شاپنگ ایک سیلز گرل جب ہمیں ایک فینسی برینڈ کی لپ سٹک لینے پر مکمل قائل کر چکیں تو ہم نے کہا وہ دراصل ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔اس کے تاثرات جو تھے سو تھے ہماری بہنوں کے چہروں پہ جو وحشت آنکھوں میں جو غصہ تھا وہ ناقابل بیان تھا۔ایک نےتو ایسی زور سے پسلیوں میں کہنی ماری کے چار دن ٹکور کرتے رہے۔ اور ایک صاحبہ تو ہمیں ڈس اون کر کے اگلے سیکشن کی طرف چلتی بن گئیں۔
ہم سوچتے رہ گئے کہ ہمارے بارے میں درست کہا جاتا ہے کہ ہم ہیں بھی غریب اور سوچ بھی غریب ہے۔ ہم نے احتجاج کرنا چاہا کہ کیوں ضائع کئے جائیں اتنے پیسے اس میں تو ہم چار لپ سٹکس خرید لیں گے۔ بہنوں نے کہا یہ ٹھیک ہے لیکن اسے کیوں بتایا کہ پیسے نہیں ہیں۔ بندا غریب ہو لیکن لگے تو نہیں۔
ہم ناک آؤٹ کردینے والی اس منطق کے سامنے کیا ہی بولتے چپ ہورہے۔
یعنی بس ہر صورت مالی طور پر بہت امیر نظر آنا ہے۔تاکہ سماج میں عزت ہو آپکی۔ یعنی حد ہےاوہےاور بے حد ہے جب تک اصراف نہ کرلیا جائے یہ۔سماج آپ کی عزت نہیں کرے گا۔
جب تک آپ نمائش اصراف نہیں کریں گے آپ کو انسان ہی کنسیڈر نہیں کیا جائے گا۔
آپ اپنے ہی جیسے کئی انسانوں میں احساس محرومی تقسیم کریں گے تو ہی یہ مرعوب اور احساس کمتری کا مارا ہوا سماج آپکو انسان کے درجے پر فائز کرے گا۔ وگرنہ آپ کیڑے مکوڑے ہیں۔ اور کیڑے مکوڑے کیڑے مکوڑوں کی عزت نہیں کیا کرتے۔
آپ کو "عزت دار" بننے کے لیے امیر لگنا پڑے گا بھئی۔
آپکو ہر صورت زیادہ کیرٹس والا گولڈ پہننا ہے چاہے اس کے رنگ سے الجھن ہوتی رہے آپ کو بھاری بھرکم شرارےغرارے پہننے ہیں جن کا مہنگا ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا تربوز کا سرخ اور خربوزے کا میٹھا ہونا ہے دوسری صورت میں تینوں چیزوں کا مقدر کوڑے دان کے سوا کچھ نہیں۔۔
اسقدر لگنا اوبسیسڈ ہیں ہم۔
آپ انٹلیکچوؤل نہیں ہیں لیکن آپ کو انٹیلکچوئل لگنا ہے۔
آپ کمیپیٹینٹ نہیں ہیں لیکن آپ کو لگنا پڑے گا
آپ پروفیشنل نہیں ہیں نہ بننا چاہتے ہیں لیکن اس سماج کےلئے آپکو بننا پڑے گا۔
آپ کو انگریزی میوزک نہیں پسند لیکن آپ کو سننا پڑے گا وگرنہ کیا اچھے لگیں گے آپ۔؟؟
آپ کو جیولری نہیں پسند لیکن آپ کو پہننا پڑے گی۔اب خالی ہاتھ خالی کان کیا خاک اچھے لگیں گے۔
آپ خوش نہیں ہیں 
آپ مطمئن نہیں ہیں لیکن آپ کو خوش اور مطمئن لگنا پڑے گا۔
آپ اپنے ذاتی "مسائل" سوشل میڈیا کہ زینت نہیں بنانا چاہتے لیکن آپ کو بتانا پڑے گا وگرنہ "کلاسی" (کلاسک) نہیں لگتا نا۔
ہر روز ہم ایک اعلان تو کرتے ہی ہیں کہ یہ سماج رہنے کے قابل نہیں رہا اور ہر روز ہم سب اس سماج کو مزید نہ رہنے کے قابل بناتے رہتے ہیں۔
امبانی شادیاں دیکھ دیکھ مرعوب ہوتے ہیں احساس کمتری پالتے ہیں پھر اس کو ختم کرنے کے لیے گدھوں کی دوڑ میں سرپٹ دوڑتے ہیں۔ کامیاب ہوجائیں تو اپنے ہی جیسے کئی لوگوں میں احساس محرومی بانٹنے لگتے ہیں۔
ہماری شادیاں عقیقے پیدائش کے مواقعے کوئی بھی موقع ایسا نہیں ہوتا جہاں ہم انسانوں کی طرح بہیو کرتے ہوں۔
ہم نے خانے در خانے اتنے درجے بنا رکھے ہیں اور ان درجات۔سے باہر تو ہم کسی کو منہ بھی نہیں لگاتے اور ہماری زندگیوں کا مقصد صرف اور صرف اس درجہ بندی میں اگلا درجہ حاصل کرنا ہے۔
کیا ہم دائرے کے اس سفر سے کبھی باہر بھی نکل پائیں گے یا پھر یونہی آنکھوں کے اطراف چمڑے کے ٹکڑے لگائے اپن دھن میں۔سرپٹ دوڑتے رہیں گے۔
کوئی تو ہو جو ہم۔سب کی آنکھوں پر بندھی یہ پٹی کھول کر ہمیں دائروں کی مسافت سے باہر نکالے۔
اسیر ذہنوں میں سوچ بھرنا کوئی تو سیکھے۔
کوئی تو ہماری مرعوب ذہنی کا علاج کرئے۔
لیکن کوئی کیوں کرے گا اور کیسے کرے پائے گا جب تک ہم خود نہ کرنا چاہیں گے۔ 
اور ہم کرنا ہی نہیں چاہتے۔
آئیے ہم مس امبانی کے لہنگے کی سستی کاپی ڈھونڈتے ہیں کہیں سے۔

Sunday 16 December 2018

ہر خون معاف کرنے والا نہیں ہوتا



لکھا کرتی ہوں کہ نہ بھولے گے نہ معاف کریں گے۔
اور کیا لکھوں ایسا جو میرے اندر کی حالت کا ترجمان ہو؟
پچھلے چار سال سے میں لکھنے کی کوششوں میں ہوں۔
میرے فون کے لیپ ٹاپ کے جی میل کے گوگل ڈرائیو کے ڈرافٹس میں ان سب کی تصاویر محفوظ ہیں۔ میں ہر بار ان تصاویر کو دیکھتی ہوں اپنے زخم ہرے کرنے واسطے۔ میں اس زخم کو رستا ہوا رکھنا چاہتی ہوں۔ ان سب کی جدائی کا دکھ ایسا دکھ تو نہیں جس پر چند دن رو لیا جائے بس۔
یہ دکھ میری سانس کے ساتھ ختم ہوگا۔ جب تک یہ دل دھڑکتا ہے اُن معصوم چہروں کی روشنی سے جلا پاتا رہے گا۔
جب تک اس زمین پر میرے لیے امن روشنی امید دکھ اداسی محبت اور نفرت کے استعارے باقی ہیں تب تک اے پی ایس یاد ہے مجھے۔ اس کے بعد کا معاملہ اس کے ترازو میں رکھ دیا ہے۔ زندگی کے ہر ہر معاملے میں اس کے ترازو سے خوف آتا ہے چاہے معاملہ میری ذات کا ہو کوئی اسقدر دل دکھا دے کہ جینا مشکل دکھائی دینے لگے وہاں بھی اس سے ہمیشہ رحم آسانی مہربانی مانگی ہے۔ کبھی انصاف نہیں مانگا کہ جب وہ انصاف کرے گا تو کڑا انصاف کرے گا۔ اس کے ترازو میں کھجور کی گھٹلی سے اترے دھاگے جتنی بے انصافی بھی نہیں ہوگی۔
اے پی ایس کے معاملے میں میں اس سے ایسے عدل کی توقع رکھتی ہوں۔
چاہے اس عدل کی زد میں میں ہی کیوں نہ آجاؤں لیکن میرے بچوں کے معاملے میں عدل چاہیے۔ انصاف چاہیے اس معاملے میں تو میں خود کو معاف کرنے پر بھی تیار نہیں۔ کسی قاتل پلینر یا اس کے حمایتی کو کیا خاک کیا جائے معاف۔
معافی کے قابل بھی کہاں ہیں وہ۔ سارے درندے جنہیں خولہ کا نیا یونیفارم امیدوں بھرا بستہ نظر نہیں آیا۔
جنہیں ایمل آفریدی کی آنکھوں میں زندگی کی خواہش نظر نہیں آئی۔ جنہیں ایک سو چونتیس ماؤں کی گود نظر نہیں آئی ایسے درندے معافی کے قابل نہیں ہوسکتے ہرگز نہیں ہوسکتے۔
نہ صرف قاتل بلکہ حمایتی بھی قابل گردن زنی ہیں۔
میرے بچوں کے معصوم ذہنوں میں خوف کی آبیاری کرنے والے ہر ہاتھ کو کاٹ دینا چاہیے۔
ایسی ہر آنکھ نوش ڈالنی چاہیے جس کی نظر میرے بچوں کے خوابوں پر ہو۔
ایسا ہر ذہن اکھاڑ دینا چاہیے جو میری نسلوں سے امید امن چھیننے کے متعلق کوئی سوچ بھی پالتا ہو۔
ہم جب بیلنس آف پاور پڑھتے ہیں یا امن اور جنگوں لے قضیے نمٹاتے ہیں تو پہلی اور آخری بات یہ ہی ہوتی ہے یہ لڑائی صلح پر منتج ہوتی ہے، ہر جنگ کا انجام مذاکرات ہوتے ہیں۔ اس اٹل حقیقت کو پڑھنے کے جاننے سمجھنے باوجود میں سمجھتی ہوں میرے بچوں کے قاتلوں کا درد ناک انجام تک پہنچنا ہر صورت ضروری ہے اس کے لیے کسی بھی حد تک جانا پڑے، جائیں۔
ہر خون معاف کرنے والا نہیں ہوتا۔ یاد رکھیں ہر ذمہ دار یاد رکھے یہ خون معاف کیے گئے یا کمپرومائز کئے گئے تو ہماری نسلیں داغدار دامنوں کے ساتھ پیدا ہوں گی۔
ہمارے بچے خوف کے سائے میں بڑے ہوں گے۔ ہماری مائیں بہادر پیدا نہیں کر پائیں گی۔ ہمارے باپ جواں سال جنازوں کو کندھے دیتے دیتے تھک جائیں گے۔
اور خوف کے سوداگر موت بانٹتے بانٹتے نہیں تھکیں گے۔
یاد رکھئے موت حادثہ نہیں، المیہ بھی نہیں، لیکن کسی سے زندگی کا حق چھین لینا، طمانچہ ہے جو ریاست کے منہ پر پڑتا ہے۔ اس مادر پدر آزاد کی طرف سے جو یہ حق چھینتا ہے۔ اور اگر یہ حق کسی بچے کسی بزرگ کسی خاتون سے چھینا جائے، سماج کی کسی کمزور اکائی سے چھینا جائے تو طمانچہ پورے سماج کے منہ پر پڑتا ہے۔ ہر ذی شعور کے منہ پر پڑتا ہے اور اگر طمانچہ مارنے والے کا ہاتھ نہ پکڑا جائے تو اس طمانچے کی گونج نسلوں کو بہرا کردیتی ہے۔
میرے بچے میرے لیے پیمانہ ہیں وہ سرخ لکیر ہیں جس کے ادھر کھڑے لوگوں سے میں تعلق مختصر کرلیتی ہوں۔
یہ ہمارا آپ کا نہیں ہماری نسلوں کے مستقبل کا سوال ہے یہ ہماری نسلوں کی زندگی کی بات ہے اس پر جاگتے رہیئے۔
ہمارے بچوں کے قاتل اگر زندہ ہیں تو کیوں زندہ ہیں اور اگر جہنم واصل ہوچکے ہیں تو ان کے حمایتی یوں کیوں منڈلاتے پھرتے ہیں۔
ان کے فکری حمایتی ابھی تک زبانیں دراز لیے کیسے بیٹھے ہیں۔
میں پچھلے چار سال سے یہ تحریر ایک دن کے وقفے سے لکھتی ہوں۔ کیوں کہ یہ دن میرے لیے کچھ اور چہرے بے نقاب کر جاتا ہے۔
میرے بچے میرے لیے پیمانہ ہیں وہ سرخ لکیر ہیں جس کے ادھر کھڑے لوگوں سے میں تعلق مختصر کرلیتی ہوں۔ اس دن اگر مگر چونکہ چنانچہ لیکن کرنے والے ہر شخص پر لعنت بھیجتی ہوں میں۔ ظالموں کے ہر حمایتی کو اس ظلم کا ساتھ دینے کی مزید دعا دیتی ہوں کہ جب بدلے کا وقت آئے تو ان سب کو کسی شک و شبے کی گنجائش یا فائدہ نہ مل سکے۔ اس دنیا میں اگر وہ اپنی منافقت سے بچ بھی گئے تو حشر میں رب ان کو منافقوں کے انجام سے دوچار کرے۔ میرے بچوں کا خون وہ پیمانہ ہے جس سے قاتلوں کا ہر حمایتی پہچانا جاتا ہے۔ یہ وہی حمایتی ہیں جو سارا سال امن کے محبت کے داعی بنے رہتے ہیں جن کے دل درندے کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ یہ سب کوفیوں سے بھی بدتر ہیں کہ ان کے دل بھی مظلوم کا ساتھ نہیں دیتے۔
جب تک مجھ میں زندگی اس کی رمق اس کی خواہش باقی ہے تب تک اے پی ایس کے ہر ذمہ دار سے نفرت باقی ہے۔
اور یہ نفرت اتنی شدید ہے کہ حشر میں اگر اس نے موقع دیا گفتگو کا تو کہوں گی ان سب کے دلوں کی سیاہی ان کے چہروں پہ مل دے۔ ان رو سیاہوں کو ان کی رو سیاہی کا امتیاز بخش کر اس افراتفری میں ان کے لیے مشکل بڑھا دے۔
ان سب کو ظالموں کی حمایت کرنے پر اپنی حمایت سے محروم کردے۔ میں اس سے کہوں خولہ جو تجھ سے سوال کرتی ہے نا کہ میں کس جرم میں ماری گئی اس سوال کی گونج سے ان حمایتیوں سے ان۔ کی سماعتیں چھین لے۔ یہ اپنی ہی زبانیں کاٹ کھائیں اور اپنے الفاظ ہی نہ سن پائیں۔ ان کو اتنی کڑی سزا دے اگر پھر کبھی تو نے دنیا بسائی کبھی کوئی تو تیری سزا کے خوف سے کسی قاتل کسی ظالم کو کوئی حمایتی نہ مل سکے
شائد یہ تحریر مختصر نہ ہوسکے شائد ایسی تحریروں کو ختم نہیں ہونا چاہیے ہر ظالم کے انجام تک ایسی تحریروں کو مکمل نہیں لکھا جانا چاہیے۔
ظالموں کا ہر حمایتی جان لے نہ ہم بھولے ہیں نہ معاف کیا ہے۔ کیونکہ نہ بھولا جاسکتا ہے نہ معاف کیا جاسکتا ہے۔
کیسی تحریر ہے کہ کسی شاعر کی زبانی کہی کوئی بات یاد آرہی ہے نہ کسی ادیب کا کوئی قول۔ بس بے ربط خیالات ہیں روتا ہوا دل ہے۔ اور بے بسی میں ڈوبے آنسو وہ جو ان باپوں کے حوصلے کے سامنے لایعنی ہیں جنہوں نے اپنے جواں سال بیٹے دفنائے تھے۔ وہ ان دوستوں کے احساسات کے سامنے بونے ہیں جنہوں نے خالی ڈیسک کے ساتھ نئی زندگی شروع کی تھی۔
اور مائیں؟؟ ماؤں کے جذبات کون لکھے وہ جو بچے کے پیچھے جہنم بھی چلی جائیں جو اولاد کے لیے زم زم نکلوا دیں اور جو رب کی رضا پر بھی دریا میں بہائیں تو پیچھے بہن کو دوڑائیں کہ دیکھو لخت جگر اب کہاں پر ہے۔ ماؤں کے جذبات کون لکھ سکتا ہے وہ صرف محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ اور محسوس وہ تو کرے گا ہی جس کی محبت کا استعارہ ہے ماں دنیا میں۔ کیسے نہیں کرے گا محبتوں کو نامراد نہیں ٹہراتا۔ یہ میرے ایمان کا حصہ ہے رب ماؤں کی خاطر ظالموں کے انجام ہمیں ضرور دکھائے گا۔ کیونکہ ہم نہ بھول سکتے ہیں نہ معاف کرسکتے ہیں۔

Tuesday 11 December 2018

ایک جذباتی سیاسی کارکن کے خواب


سیاست پر لکھنے کے لیے جتنی بار قلم اٹھایا یعنی کی بورڈ کھولا اتنی بار رک گئے، ٹھہر گئے یا تحریر درمیان ہی میں چھوڑ دی، ادھوری۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں، ایک تو یہ کہ جب اتنے لوگ سیاست کر رہے ہیں تو بھلا ہمارے کہے کی کیا ضرورت و اہمیت۔ دوسری وجہ ہمارا اپنے دوستوں سے سیاسی اختلاف ہونا ہے۔ تو جب جب ہم سیاست پر لکھتے ہیں انہیں گماں ہوتا ہے ہم ان کو سنا رہے ہیں۔ ہمیں اپنی رائے سے کہیں زیادہ اپنے دوستوں کی بدگمانی تکلیف دیتی ہے سو ہم چپ کرجاتے ہیں۔
آج یہ تحریر جو پچیس کی شام ہی لکھنا تھی، نہیں لکھی۔ وجہ ہماری بہت زیادہ سستی کے بعد یہ ہی تھی کہ ہمارے دوست غصے میں تھے اداس یا فرسٹریٹ تھے۔ ہمیں اچھا نہیں لگا کہ ایسے میں سنجیدہ باتیں کر کے انہیں مزید اداس کیا جائے۔
خیر یہ کوئی ایسی سنجیدہ تحریر بھی نہیں اسے ایک جذباتی سیاسی کارکن کی خود کلامی کہا سمجھا جائے تو بہتر ہے۔
تو پچیس جولائی کی شام نہیں لکھا ایسا کچھ تو بعد میں تو ہمارا فرض تھا خاموش رہنا, وقت دینا, برداشت کرنا, سو کیا۔ آج یہ تحریر لکھ رہی ہوں کہ سو دن پورے ہوئے حکومت کے۔ حکومت کے اور اس کی پالیسیز کے خدوخال واضح ہونا شروع ہوئے ہیں۔ جو یقینا میرے ملک اور میری قوم کے لیے بہترین ہوں گے۔
خان صاحب آپکو سو دن پورے ہونے اقتدار ملنے پر مبارک ہو آپ سے زیادہ کوئی اس مبارک کا مستحق نہیں۔ ہم تو خیر کسی شمار قطار میں ہی نہیں۔ خان صاحب آپ نے میری نسل کو خواب دیکھنا سکھایا کیا اس کا شکریہ ممکن ہے؟ آپ نے ہمیں سطحی باتوں سے اوپر اٹھ کر ملک و قوم کے لیے سوچنا سکھایا کیا اس بات کے لیے شکریہ ادا کیا جا سکتا ہے؟
خان صاحب جب آپ گرے تھے اس ایک لمحے میں خواب چھن جانے کا جو خوف میں نے اور میری نسل نے محسوس کیا تھا اور اس خوف نے جس طرح ہمیں دیوانہ وار آپ کی طرف لپکنے پر مجبور کیا تھا اس فیلنگ کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ بس اس خوف سے رہائی کے لیے آپ کا شکریہ۔
خان صاحب جب آپ گرے تھے اس ایک لمحے میں خواب چھن جانے کا جو خوف میں نے اور میری نسل نے محسوس کیا تھا اور اس خوف نے جس طرح ہمیں دیوانہ وار آپ کی طرف لپکنے پر مجبور کیا تھا اس فیلنگ کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔
آپ نے ہمیں خود پر یقین کرنا سکھایا اس ملک پر یقین کرنے اور یقین رکھنے کا حوصلہ دیا۔ بے یقینی کے ساتھ بھی بھلا کوئی تعلق بن سکتا ہے کیا؟ یہ بات ہمیں معلوم تھی کہ ہماری بے یقینی اس ملک کوکھوکھلا کررہی ہے۔ لیکن ہم کس کے آسرے یقین کی مالا جپتے؟ اس تعفن زدہ نظام میں جس میں میرے کالج کی کئی ایکڑ زمین پر سابقہ حکومتی جماعت کے کارکنوں کا قبضہ تھا۔ ان پر رکھتے کیا یقین؟ یا ان پر جنہوں نے گردوارے مندروں اور مسجدوں کی زمینوں پر ناجائز ٹھیکے دے کر عورت کی حکمرانی کے خلاف فتوے گلی گلی محلے محلے بھجوائے تھے۔ یا ان پر یقین رکھتے جن کے پٹرول پمپس کی وجہ سے ہم روز لمبے چکر کاٹ کر اپنے مطلوبہ مقام پر پہنچتے تھے۔ اور جب جب ٹریفک کے رش میں پھنستے تھے تو اپنے جرم ضیعفی پر نادم ہوتے تھے۔ خیر ہماری اماں کہا کرتی ہیں باری وری روڑی دی وی سنی جاندی اے
یعنی ایک عرصے بعد کچرا کنڈی بھی صاف ہوجاتی ہے۔
تو ہمیں بھی موقع دیا گیا۔ جیسے کہ زندگی بار بار چانس نہیں۔ دیتی لہذا ہم نے اس چانس پر یقین کیا۔ آپ کی صورت میں۔
لیکن ایسا نہیں ہے کہ آپکی ہر بات پہ آمنا صادقنا کہا ہو یا آپکو اومنی پوٹینٹ سمجھا ہو یا آپکو ہر مسئلے کا اکلوتا حل تصور کیا ہو۔
آپ پر تنقید بھی کی شدید تنقید آپ سے کبھی کبھی دوری بھی ہوئی کبھی غصہ اور کبھی خوش گمانی انسانی تعلقات کی یہ ہی خوبصورتی ہوتی ہے شائد اس میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ بقول فراز: کبھی تو کشت زعفراں کبھی اداسیوں کے بن
سماج میں تعلقات تب تک قائم رہتے ہیں جب تک ان میں امید برقرار رہتی ہے جب توقع اٹھ جائے تو شاعر لوگ بھی گلہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
شاید ہماری حالت زار پر رحم آیا تھا رب کو۔ یا پھر آپکی مستقل مزاجی نے ہمیں پرامید رکھا ان سارے حالات میں ہم بھئ غصہ کرتے رہے تنقید کرتے رہے لیکن مایوس نہیں ہوئے۔ کیونکہ ہمارے پاس اور کوئی آپشن نہیں تھا۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھئے گا خان صاحب ہم سے کئی لوگ ہیں جن کے پاس آپ سے بہتر آپشن نہیں ہے۔ جب بھی انہیں آپ سے بہتر انسان اس منظر نامے میں نظر آیا وہ اس کی طرف چلا جائے گا۔ خان صاحب۔ آپ کے پاس ڈیلیور کرنے اس قوم کی حالت بہتر کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔
یاد رکھئے گا ہم نے آپکی خاطر عثمان بزدار کو گوارا کیا ہے۔ ہم نے اعظم سواتی سمیت بہت سے ایلیکٹیبلز برداشت کیے ہیں لیکن ہم اگلی ٹرم میں انہیں برداشت نہیں کریں گے اس بار اتنا کام تو کر جائیں گے اگلی بار ہم ایلیکٹیبلز کے بغیر جیت جائیں۔ جو ہماری فتح ہو سچی فتح ہمارے لوگوں کی فتح۔
خان صاحب اتنا کام تو کرنا پڑے گا آپ کو کہ اگلی بار ہمیں ولید اقبال پر ہمایوں اختر کو ترجیح نہ دینا پڑے۔ اتنا کام تو کرلیں کہ میرے حلقے میں امیدوار کو ٹکٹ لینے براستہ سیالکوٹ بنی گالا نہ جانا پڑے۔ آپکو پتا ہے نا خان صاحب سیالکوٹ بنی گالہ کے راستے میں نہیں پڑتا؟
خان صاحب اتنا ڈیلیور کر جائیں کہ شبلی فراز کو سینٹر نہ بنانا پڑے وہ ہمارے وزیر ہوں۔
خان صاحب اتنا کام کرنا پڑے گا آپ کو کہ ٹو تھرڈ میجارٹی ملے آپ کو اگلی ٹرم میں بڑے اور مضبوط فیصلے کرنے کے لیے۔
خان صاحب اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کے مخالف پر حوالداروں کو بیرکوں تک محدود کرنے کی جنگ لڑیں تو اس کاایک ہی راستہ ہے صاف سیدھا اور کھٹن کام کرنے کا ڈیلیور کرنے کا لوگوں کو راحت پہنچانے کا۔
خان صاحب ہم آپ کے ہر مشکل فیصلے میں آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ لیکن آپ کو پہلے اس مشکل راستے پر خود چل کر دکھانا پڑے گا۔
خان صاحب آپ کام کریں اپنے وزیروں کو کہئے کام کریں میڈیا کا پراپیگنڈا خود ہی ناکام ہوجائے گا۔
سوشل میڈیا پر آپ کے لیے لڑنے والے بہت لوگ ہیں۔ جن کا حکومت سمیت کسی ادارے سے کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں سوائے اس کے کہ ان کی آنکھوں میں ایک رنگین خواب کے رنگ چھلکتے ہیں۔ اپنے لوگوں کے لیے اپنے ملک کے لیے دیکھا ہوا اک سہانا خواب اور آپ ہی تو کہتے ہیں بڑی خواب دیکھنے والے بڑی فائٹ کرتے ہیں۔ یہاں لڑ لیں گے ہم پر کام کرنا پڑے گا آپ کو۔ یاد رکھئے خان صاحب اپنے سارے ایم این ایز ایم پی یز کو بھی بتا دیجئے ہم ہرگز ہرگز جیالے یا پٹواری نہیں۔ نہ۔ ہمارا بھٹو زندہ ہے نہ شیروں پر فخر ہمیں۔ یہ ان سب کا پہلا اور آخری چانس تھا ہم سے اگلی بار ہمدردی کی امید مت رکھے کوئی۔ کام نہیں کریں گے تو اٹھا کر باہر پھینک دیں گے ہم انہیں۔
خان صاحب اپنے سارے ایم این ایز ایم پی یز کو بھی بتا دیجئے ہم ہرگز ہرگز جیالے یا پٹواری نہیں۔ نہ۔ ہمارا بھٹو زندہ ہے نہ شیروں پر فخر ہمیں۔ یہ ان سب کا پہلا اور آخری چانس تھا ہم سے اگلی بار ہمدردی کی امید مت رکھے کوئی
خان صاحب آپ بھی یاد رکھئے گا شاہ و ترین سمیت ہر شخص کو بتا دیجئے گا اگلی بار ٹکٹس میرٹ پر دی جائیں گی اور میرٹ وہ ہوگا جو ہم طے کریں گے۔ ہماری ووٹ کو عزت نہیں دیں گے تو ان سب کو اٹھا کر ان کے فیورٹس سمیت باہر پھینک دیں گے۔ ہمارے پاس اب نہ تجربوں کے لیے وقت ہے نا موقع کہ زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔
اب ہم اپنی نسلوں کے مستقبل کے لیے ایگریسو ہیں۔ اور اب ہمیں ہمارے انسانی حق چاہیے ہیں اور سارے چاہیے ہیں۔
خان صاحب اتنا ڈیلیور کرلیحئے گا کہ اگلی بار ایسی ایگریسو تحریر نہ لکھنی پڑے۔
سماجی ڈھانچہ ابھی بھی آپکی توجہ کا منتظر ہے۔ کوشش کریں یہ اتنا گھٹن زدہ نہ رہے۔ ہمیں انتہائیں مزید یرغمال نہ بنا سکیں۔ ہماری نسلوں کو ملا گردی نہ بھگتنا پڑے اور میرے بچوں کو کوئی سوڈو لبرل یہ نہ بتا سکے کہ ایکسپوییر آف باڈی ماڈرن ازم ہوتا ہے۔
ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے خان صاحب چاہے وہ موقع پانچ سال بعد آئے یا اڑھائی سال بعد اگر رب کے حبیب صلی علیہ وسلم کی ناموس کو دنیا اور یہ ملک اور عدالتیں اور یہاں کے باسی ہمارا سینسٹو کارنر تسلیم کرلیں اور اس حساس ایریا پر اپنی زبانیں دراز کرنے سے پہلے اگر انہیں رٹ آف سٹیٹ کا خوف گھیر لے تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
چاہے کوئی بھی سال ہو یا مہینہ۔
شائد یہ تحریر آپ تک نہ پہنچے لیکن یہ کئی لوگوں کے ان کہے خیالات ضرور ہیں وہ جو آپ کے ووٹر ہیں۔

Thursday 6 December 2018

حقیقی تخیلات



جب میں کچھ نہیں لکھ پاتی یا پھر درد دیتی حقیقیتیں لکھ لکھ کر تھک جاتی ہوں تو فینٹسیز لکھتی ہوں۔ کھلی آنکھ سے دیکھے ہوئے خواب۔ بلکہ اپنے ہاتھوں سے بُنے ہوئے خواب۔ جن میں زندہ رہنا اتنا ہی دلکش اتنا ہی حسین ہے جتنا کسی دل ربا کے ساتھ من مرضی کی حقیقت جینا۔ بلکہ یہ دل رباؤں، حسیناؤں کے ساتھ جینے جیسی حقیقیتیں ہی تو ہوتی ہیں۔
جب مصنوعی لوگوں سے ملتے ملتے آرٹیفیشل تعلقات بناتے بناتے ہم تھکنے لگتے ہیں تو اپنی دنیا بسا لیتے ہیں۔ اپنی پسند کی دنیا۔
جو کبھی ستارے پر پاؤں لٹکا کر بیٹھنے سے مکمل ہوجاتی ہے۔ تو کبھی سٹار ڈسٹ سے اٹے ہاتھ چہرے پر رکھے بے ساختہ ہنسے چلے جانے سے شروع ہو کر دو ستاروں کا درمیانی رستہ دھنک کے پل پر چلتے ہوئے ختم ہوتی ہے۔ کبھی کہکشاؤں کے راستے پر تمہارا ہاتھ تھامے میں اس دنیا کی حدوں سے پرے کہیں دور نکل جاتی ہوں۔ اتنی دور کہ پھر واپس اس دنیامیں آنے کے لئے خود کو آمادہ کرنا پڑتا ہے۔
ویسے سوچو تو اگر خیال کی دنیا بھی میسر نہ ہوتی تو کیسی بے بسی ہوتی۔ قوت گویائی چھن جانے جیسی۔ نہیں یہ اس سے بھی بڑا نقصان ہوتا۔ گویائی چھن جانا تو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ بول کر کونسے انقلاب لے آتے ہیں ہم۔ گویائی والے بھی تو سکرپٹڈ ورژن ہی بولتے ہیں نا۔ اپنی ذاتی رائے کا اظہار تو گستاخی ہوتی ہے نا۔ سنو! میری ایک فینٹسی خالص رائے کا برملا اظہار بھی ہے۔ میرا جی چاہتا ہے ہر شخص کو اس کی ذات پر اس کا اختیار مل جائے۔ مجھے معلوم ہے میرے دیکھے ہوئے بُنے ہوئے خوابوں میں یہ سب سے مشکل ہے۔ پر یہ سب سے خوبصورت بھی تو ہے نا۔ میری ذات پر میرا تمہاری پر تمہارا اختیار۔ ہاں پتا ہے تم سوشل سیٹ اپ کا سوشل نارمز کا حوالہ دو گے۔ میں کب سوسائٹی کے بیرئیرز کو توڑنے کا کہہ رہی ہوں۔ میں تو بس تمہارے معاملات میں تمہارے فیصلوں کی بات کر رہی ہوں۔ خیر یہ بھی فینٹسی ہے۔
میری ساری فینٹسیز ستاروں سیاروں چاندنی دھنک لئے ہوئے نہیں ہوتی۔ کچھ کا تعلق حقیقت سے بھی ہوتا ہ
میری ساری فینٹسیز ستاروں سیاروں چاندنی دھنک لئے ہوئے نہیں ہوتی۔ کچھ کا تعلق حقیقت سے بھی ہوتا ہے۔
فینٹسی پر مبنی حقیقت یا پھر حقیقی فینٹسی۔ یہ جملہ پڑھنے کے بعد یقینا آپ سب سنجیدگی سے سائکا ٹرسٹ والے آپشن پر غور کر رہے ہوں گے۔ ٹھہریے سمجھاتی ہوں۔۔۔ میری حقیقی سی فینٹسی ہے کہ کچھ لوگ جب بول رہے ہوں تو ان کو میوٹ پر لگا دوں۔ وہ بولتے رہیں اور آوازیں بند ہوں۔ ویسے کچھ لوگ چپ رہیں تو کسقدر خوبصورت لگتے ہیں نا؟
میرا جی چاہتا برفیلی باتوں والوں کو شعلے گھول کر پلایا کروں تاکہ ان کے لہجے میں گرم جوشی نہ سہی گرمی ِحیات ہی آجائے۔
میں کبھی کبھی چاہتی ہوں اختیار والوں سے ان کا اختیار چھین لوں اور ان کو ان کی ذات کے غرور کے ساتھ جیتے رہنے کا آپشن دوں۔
میری فینٹسی تو یہ بھی ہے ٹراؤٹ فش کی طرح پانی کے بہاؤ کے الٹ تیرنے والے سارے ٹراؤٹسکی الگ سے ایک بستی بساؤں۔
چاہتی تو میں یہ بھی ہوں میری بستی کے سارے بچے تھوڑے بہت تو بہاؤ کی الٹی سمت میں تیرنا سیکھیں۔سارے ہی کہیں نا کہیں ٹیبوز توڑیں تعصبات کے عینکیوں کے بغیر ننگی آنکھوں سے زندگی کو دیکھیں۔ اوروں کے تجرباتکی۔چھتریوں سے چھاؤںکرنے کی بجائے اپنے اپنے حصے کی دھوپ خود برداشت کرنے جتنی ہمت پیدا کریں ہم۔ زندگی کو اپنے ہاتھوں سے پرکھیں۔
خیر چاہتی تو میں یہ بھی ہوں لمبی گیلی سڑک پر چلتے چلتے زندگی کی شام ہوجائے اور وہ ایک بھیگی خنکی بھری شام رات میں نہ بدلے۔
چاہتوں کی لمبی فہرست ہے جس میں ہر خواہش پہ دم نکلے والی صورتحال ہے۔
میں چاہتی ہیں ساحر کی نظم کبھی ختم نہ ہو۔
وہ اپنی لو دیتی نگاہوں سے گنگناتا رہے۔

کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاوں میں
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ تیرگی جو مری زیست کا مقدر ہے
تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی
عجب نہ تھا کہ میں بے گانہء الم ہو کر
ترے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا
ترا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں
انہیں حسین فسانوں میں محو ہو رہتا
پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی
ترے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا
حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں
گھنیری زلفوں کے سائے میں چھپ کے جی لیتا
مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں ترا غم، تری جستجو بھی نہیں
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے
اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں
زمانے بھر کے دکھوں کو لگا چکا ہوں گلے
گزر رہا ہوں کچھ انجانی رہ گزاروں سے
مہیب سائے مری سمت بڑھتے آتے ہیں
حیات و موت کے پرہول خارزاروں میں
نہ کوئی جادہء منزل نہ روشنی کا سراغ
بھٹک رہی ہے خلاوں میں زندگی میری
انہی خلاوں میں رہ جاوں گا کبھی کھو کر
میں جانتا ہوں کہ مری ہم نفس مگر یونہی
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
اور اس کے اس خیال کا جواب امرتا اپنی مادری زبان کے میٹھے لہجے میں
میں تینوں فیر مِلاں گی کہہ کر دے۔
کبھی کبھی تو یہ بھی چاہتی ہوں ساحر کو جا کر کہوں تمہاری انا نے محبت کی کہانیوں پر کئیوں کا ایمان کمزور کیا ہوگا۔ کچھ احساس ہے تمہیں؟ اب تو خیر لوگ خدا پر ایمان نہیں لاتے۔ ہم تم دیویوں پر ایمان کے وقت میں ہوتے تو محبت کی دیوی کو شکایت کرتی ساحر کی۔ اور پھر اس دیوی کے سبھی ماننے والے ساحر کا داخلہ محبت کے سب ہی مندروں میں ممنوع قرار دے دیتے۔
میں امرتا سے بھی کہتی۔ مرنے والیوں کے بین لکھنے سے حل نہیں ہوگا مسئلہ۔ اب کلام میں جدت لاؤ جینے والوں کا قصہ لکھو زندگی کی بد سلوکیاں رقم کرو۔ ہم بار بار تھوڑی آئیں گے۔ زندگی سے کہو ہمارے ساتھ نرمی سے پیش آئے ہم اس کے خیر خواہ ہیں۔ ممکن ہے ہم واپس جائیں تو مارکیٹنگ کردیں زندگی کی۔
لیکن افسوس یہ سب میرے وہ خواب ہیں جن کے پورا ہونے میں ایک عمر ایک زمانہ اور ایک قیامت حائل ہے۔
لیکن اب سب خواب تو جنت پر نہیں چھوڑے جا سکتے نا۔ زندہ رہنے کے لیے خواب دیکھنا پڑتے ہیں اور ان کو تعبیر کرنا پڑتا ہے۔
ویسے میرا ایک اور خواب ہے۔
میرا جی چاہتا ہے دھوپ کنارے کبھی ختم نہ ہو۔ اور ڈاکٹر احمر یونہی ضویا کے تصور کو مسکرا کر دیکھا کرے اور یونہی کہتا رہے۔
رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے۔
جیسے ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے۔
پر مسئلہ یہ ہے نا بے وجہ قرار آتا نہیں۔
بے وجہ صرف بے چینی آتی ہے، اداسی آتی ہے اور بے بسی آتی ہے۔ قرار کو وجوہات درکار ہوتی ہیں اور بیمار کو دوا۔
بھوکے کو مضافات سے خوشبو آ بھی جائے تو اس کا پیٹ نہیں بھرتا خوشبو لاکھ حسین سہی پر پیٹ کی آگ نہیں بجھاتی۔ شاعر کے خیالات سے زندگی نہیں بسر ہو پاتی۔
ڈاکٹر احمر اور اس کا تصور لاکھ جاذب و جمیل سہی پرہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔
ہم سے پاگل تخیل میں ڈراموں کہانیوں قصوں کے ہیرو ہیروئن کی محبت کی۔دنیا بسا تو سکتے ہیں اس دنیا میں جی نہیں سکتے۔ اور اگر جی بھی لیں تو وہ زندگی چند لمحوں سے زیادہ کی نہیں۔ کہ ساحر و ضویا بوڑھے ہوجاتے ہیں۔اور احمر اور امرتا مر جاتے ہیں۔
یہ ہی زندگی ہے شائد جب ذرا فرصت کا گمان ہونے لگتا ہے تو وعدہ وفا کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔اور اس سے کئے وعدے کو کون توڑے۔ کس کی جرات وعدہ خلافی کرے۔

Saturday 17 November 2018

تو امیر حرم میں فقیر عجم


نعت کیسے لکھی جا سکتی ہے۔ پڑھی بھی کیسے جا سکتی ہے؟ مجھے ان شاعروں پہ رشک آتا ہے جو نعت لکھ لیتے ہیں آپ صلی علیہ وسلم کی۔

محبت کے اظہار کے لیے ہمیشہ ہی الفاظ کم پڑ جاتے ہیں میرے پاس۔ ایمل کے لیے کچھ لکھنا چاہوں تو پہروں اس تحریر کے جملے درست کرتی رہتی ہوں۔ ابراہیم کے لیے لکھنے بیٹھی تو پہلے ہی پیراگراف کے بعد بس ہوگئی۔ امی ابا کے لیے لکھتی ہوں تو اپنی بدتمیزیوں پر ختم بیٹھتی ہوں بات۔

خدا جانے لوگ محبت کا خالص اظہار کیسے کر لیتے ہیں میں تو صرف یہ کہہ کے رہ جاتی ہوں کہ بتا نہیں سکتی۔
اور میں واقعتا بتا نہیں سکتی۔ کیسی بے بسی ہے۔ محبت میں بتا نہ سکنا کہ محبت ہے۔ اور کتنی ہے۔
اور یہ محبت آپ صلی علیہ وسلم سے محبت__اس کااظہار کیسے ممکن ہو۔نعت کیسے لکھ لیتے ہیں لوگ؟
آپ صلی علیہ وسلم کی محبت میرے ایمان کا حصہ نہیں میرا مکمل ایمان ہے۔ کامل ایمان
اگر رب نے دائرہ نہ کھینچ دیا ہوتا
اور محمد تم میں سے کسی کے باپ نہیں۔
تو میں لکھتی کہ مجھے ویسی محبت ہے جیسی فاطمہ رضی اللہ کو تھی کی اپنی موت کی خبر کو خوشخبری جانا۔
لیکن یہ رب کا کھینچا دائرہ ہے سو میں اظہار کے لیے بھی اسی کا بتایا طریقہ عین ایمان ہے۔ کہ اسے اپنے حبیب کے سامنے ترش لہجے اونچی آوازیں پسند نہیں۔اسے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ اس کا حبیب کچھ کہے اور لوگ سننے میں کوتاہی برتیں۔
اس کا حبیب ہے نا۔ اسے اس کے خالص محبت چاہیے پوری توجہ نیت کا پورا خلوص اور جذبوں کی ساری گہرائیاں۔ محبتیں ایسی ہی ہوتی ہیں شائد۔
اب ایسی محبت میں توہین کی اجازت گنجائش نکلنا تو درکنار توہین کرنے والے کے لیے سزا سخت سے سخت تر ہونی چاہیے۔ کیوں کہ دنیا کا قانون بھی یہ ہی ہے۔ کسی کے سینسٹو ایریا میں گھسنے والا اپنے ہر عمل کا خود ذمہ دار ہوتا ہے۔
لیکن یہ وہ محبت تو نہیں جس کا اظہار ہونا تھا۔ رب تو کہتا ہے آپ صلی علیہ وسلم سے محبت آپ صلی علیہ وسلم کی اطاعت ہے۔ اس محبت کا اظہار تو آپ کے حکم پر سر تسلیم خم کرنا۔ ہم ویسے تو نہیں۔
یہ محبت تو ایمان کا حصہ ہے نا۔ بلکہ کامل ایمان۔ یہ۔محبت ہی تو مکمل کرتی ہے ایمان کو دنیا کو آخرت کو۔ اور کیسی بد نصیبی ہے کہ یہ ہی محبت خام ہے۔ جس محبت کو دنیا و آخرت کی کامیابی کا ضامن بننا تھا وہ ہی خام ہے۔
رب سے میری بہت سی التجاؤں میں ایک یہ بھی ہے کہ حشر میں وہ بہت سی باتوں پہ آپ کے سامنے میرا پردہ رکھ لے۔ آپ جو سراپا دعا سراپا رحمت ہیں۔ آپ کی دل آزاری ہوگی ایسے کسی بندے کے لیے شافع بن کر۔
ابا نے کہا تھا اس پر کچھ مت لکھنا۔ اس معاملے میں چپ رہنا۔ مشعال خان کا واقعہ ہوا تو بھی انہوں نے کہا تھا ہر معاملے میں رائے دینی بھی نہیں چاہیے۔
ایسے جملے تو انہوں نے کبھی نہیں بولے۔ اس میل بے بی اوبسیسڈ سوسائتی میں بیٹیوں کو شعور آزادی دینے والا شخص بہادری کے جس معیار کو اپناتا ہے وہ بتایا سمجھایا نہیں جاسکتا۔ لیکن جب سارا معاشرہ ہی وحشی ہوجائے تو کیا کریں ماں باپ؟ ڈر نہ جائیں تو کیا کریں رائے پر قدغن لگا دیں یا پھر جوان بچوں کے دزدیدہ لاشے اٹھائیں۔
المیہ نہیں کہ عدم برداشت کی اس حد تک پہنچے ہوئے وحشی سماج کا حصہ ہیں ہم۔۔المیہ تو یہ ہے کہ ہم محبت کے نام پر کرتے ہیں یہ سب۔
محبت تو اس کائنات کا کوڈ ہے نا__ پاسورڈ رب کی یونیورس کا۔ یاد ہے نا اس نے اپنے محبوب کی محبت میں تراشی ہے یہ کائنات۔ محبوب بھی وہ جو سراپا محبت ہے(صلی اللہ علیہ وسلم)۔ جس کی محبت نعمان بن ثابت کی شاعری میں چھلکتی تھی تو عمر فاروق کے سینے میں دہکتی تھی۔
جس محبت میں ابوبکر صدیق بنے۔ جو کہا کرتے تھے آپ صلی علیہ وسلم کے چہرے سے روشنی نکلتی ہے جو میری آنکھوں میں ٹھنڈک بھردیتی ہے۔وہ محبت جو عثمان غنی کی حیا میں تھی اور حیدر کرار کی للکار میں۔
جس میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ کو پسینہ ہیرے سے شفاف لگتا تھا۔
ایسی ہوتی ہیں محبتیں__اور محبوب بھی کیسا؟
جو عائشہ صدیقہ کے لہجے میں مبہم ناراضی پہچان جایا کرتے تھے۔ جو خدیجہ رضی اللہ کا ہار مال غنیمت میں دیکھ کر آنسو نہ روک پائے۔
جو رضاعی بہن کو جنگی قیدی نہ بنا سکا۔
جو ماں کی قبر کے نشان پر جا کہ بچوں کی طرح گھٹنوں میں منہ چھپا کہ روئے۔ جیسے کوئی معصوم فرشتہ غم چھپا نہ پاتا ہو۔
وہ جو سجدے میں قیام میں رکوع میں امت کے لیے سراپا رحمت سراپا دعا بنتا ہو۔
وہ محبوب جو بار بار کہتا ہو م ی ں اس قتل سے بری ہوں۔ میں مسلمان کے نا حق خون سے بری ہوں۔
جو جنگ میں بھی حکم دیتا ہو خوبصورتیوں کو تباہ نہیں کرنا کھیتی نہی اجاڑنی کسی کا باغ نہیں جلانا۔ کسی مزدور سے رزق نہیں چھیننا۔اور جو پناہ میں آجائے اس کی حفاظت کرنی ہے۔
ہم کیسے عاشق ہیں کیسے محب ہیں؟
نہ یہ محبت ہماری تلواریں میانوں میں ڈالتی ہے۔نہ یہ محبت ہمیں مسلمان کو آزار پہنچانے سے روکتی ہے۔ نہ ذمی پر ظلم ڈھاتے ہوئے اس شافع محشر صلی علیہ وسلم کا خیال آتا ہے۔
نہ یہ محبت ہمیں اپنے گناہوں پہ شرمسار کرتی ہے۔
وہ محبوب صلی علیہ وسلم تو فرما تے ہیں مومن فحش گو نہیں ہوتا۔کیا ہوئی پھر محبت جو ہم ایک ہی سانس میں اس کا نام لیتے ہیں۔اسی سانس میں لغویات کہتے ہیں۔
یہ محبت ہمارا ہاتھ کیوں نہی پکڑتی۔ہمارے حلق کیوں نہیں خشک ہوتے۔
محبت میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ محبت میں تو آپ تسلیم و رضا پر نہ آئیں تو محبت کا ہونا ہی مشکوک ہوتا ہے۔ اور اس کا دعوی خام۔
محبت کرنے والے تو نقصان نہیں کرتے کسی کا۔
محبت کرنے والے تو محبوب کی نسبتوں سے بھی غضب کا لگاو رکھتے ہیں۔
پتا ہے جب رسول خدا صلی علیہ وسلم جب محبت سے صدیق اکبر یار غار کا ذکر کرتے تھے تو فرماتے تھے عائشہ رضی اللہ کا باپ عائشہ صدیقہ رضی اللہ سے محبت جو تھی۔ محبت کے اظہار کا ایسا کوئی طریقہ کیوں نہیں سوجھتا ہمیں؟
جسمیں روز حشر ہم اٹھائے جائیں تو شرمندگی کا لیول کم ہو۔
میرے پاس جنت اور جہنم کے پاس نہیں ہیں۔لیکن یہ جانتی ہوں ان اعمال کی سزا بھی پالی تو جنت میں محبوب کو فیس نہ کر پائیں گے۔
وہ جس کسی کا رکشہ سائیکل بائیک دوکان توڑی تھی۔ جس پر ارتداد کے فتوے لگائے تھے وہ جو ان کی محفل میں بیٹھا ہوا۔اور رب کے حبیب اسے اپنے پیالے سے پانی پلاتے ہوں۔ ساتھ کہتے ہوں رب راضی ہوگیا تو کیسے جا پائیں گے اس محفل میں؟
اور اگر ان صلی علیہ وسلم کی محفل میں ہی نہ جا پائیں گے تو بتائیے جنت ہوگی؟
یثرب والے کی قربت کے بغیر والی بھی کوئی جنت ہوتی ہے۔
وہ نہ ملے تو ان کے دوست کیسے گوارا کریں گے؟
جہاں آپ کے ٹری ہاؤس سے حیدر کرار کے محل کی بلند برج بھی نہ دکھائی دیں وہ کیسی جنت ہوگی؟
جہاں فاروق حق و باطل میں تفریق کرنے والی بصیرت سے سرفراز نہ کریں۔جہاں آپ ان سے کہہ بھی نہ پائیں عدل کے جھکتے میزان کے ہر ہر جھکاؤ پر آپ یاد آئے تھے ہمیں۔وہ بھی بھلا ہوگی کوئی جنت۔
جہاں عثمان غنی رضی اللہ کو بتا نہ سکوں گی آپ کا نام میرے نام کا حصہ ہے_میرے لئے وہ جنت تو نہ ہوگی۔
جہاں عائشہ صدیقہ سے پوچھ نہ پاؤں جب وجہ کائنات آپ سے محبت کرے تو کیسا لگتا ہے ؟ جب کوئی آپ کے والد کو آپ کا باپ کہہ کر پہچانے تو کیسا فخر محسوس ہوتا ہے۔
بھلا ہوتی ہے کوئی ایسی محبت؟ اور ایسی جنت؟
شائد اس موضوع پر نہیں لکھنا چاہیے تھا۔بہت سے لوگوں نے اسی لئے نہیں لکھا ہوگا۔ لیکن میں شافع محشر کے سامنے کیا کہتی جو وہ پوچھ لیتے کہو کیا کیا تھا۔تب کیا کرتی جو رب کہہ دیتا اس کے حق میں سفارش ہولڈ کرتا ہوں۔ اس کو لفظ دیئے تھے ان کا حساب چکتا کرلوں۔
تب ____تب کیا جواب دیتی
اب سوچا ہے اسے کہوں گی جی جلا کر سر راہ رکھا تھا ربا۔۔لوگ مانے نہیں تونے مجھ سے صرف کوشش کا ہی حساب لینا ہے نا۔۔دیکھ لے کرلی کوشش اپنی سی۔

Thursday 8 November 2018

کوئی تو ہو۔۔۔۔ ایک خود کلامی



ہم پاکستانی بھی نا ویسے عجیب ہی قوم ہیں، ایک مہینہ سردی آتی ہے اور تین پیٹیاں ماؤں نے رضایئوں کی بھر رکھی ہوتی ہیں۔ باقی کے گیارہ مہینے انہیں دھوپ اور چھاؤں لگوانے میں ہی لگے رہتے ہیں۔ اس بھی عجیب سنیے، دس دس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور ہر کمرے میں اے سی لگوا رکھاہوتا ہے ہم نے چلیں یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ دس بارہ گھنٹے آبھی جاتی ہےبجلی۔ لیکن___ پورا گھر فلی کارپٹڈ ہے اور ساتھ ہی ساتھ بارہ چودہ چارپائیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ دختر نیک اختر کو سلائی کے نام پر سوئی میں دھاگہ سیدھا ڈالنا نہیں آتا۔ ساری عمر درزی سے میچ ڈالتے گزرتی ہے اور جہیز میں چھ فنکشنز والی سلائی مشین دی جاتی ہے۔
سادگی پر چھ گھنٹے طویل لیکچر دینے کے بعد امیاں دعوت پر چھ سات آٹھ کھانے بنانے کا حکم نامہ جاری کرتی ہیں۔
جہیز ایک لعنت ہے پر طویل مضمون لکھنے کے بعد کہتے ہیں جو دیں گے اپنی بیٹی کو دیں گے۔
اور نصیب اچھے ہونے کی دعاوں میں رب پر توکل کے پرچار کےساتھ بڑا سا حق مہر بھی لکھوا لیتے ہیں۔ ۔ ۔ اجی کل کلاں کو کچھ ہو گیا تو کوئی تو ڈر خوف ہو۔
کرپشن ختم ہو سب کا احتساب ہو ہر چور ڈاکو کرپٹ غنڈہ سزا پائے بس مجھے قطار میں نہ لگنا پڑے۔ ۔ میں دن میں بلا ضرورت چراغاں کیے رکھوں، موٹر چلا کے پانی اور کمپریسر چلا کے گیس ضائع کروں تو کیا بل بھی تو آتا ہے۔
میرے گھر کے سامنے کوڑا مجھے اچھا نہیں۔ لگےگا البتہ گلی کی نکر پر ڈھیر جمع ہوتا رہے میری بلا سے۔
مجھے اور میری جنس کو برابر کا حق دو کم تر ہو نہ حاوی ہو عورت کا حق مساوی ہو___ پر بس میں مجھے دیکھ کہ کھڑے ہوں لوگ۔ ۔ مجھ سے پبلک پلیسز پر انکوائریز نہ کی جائیں۔
بھئی جنس مخالف میں کشش فطری ہے لہذا میرا سب کو گھورنا ہر قسم کے تعلقات بنانا جائز ہے پر خاتون اس معاملہ میں چاند ہو اور یہ کشش کشش ثقل۔
اور افسوس میری بھولی قوم نے دوہرے معیاروں والا کیا دوغلا مزاج پایا ہے۔ جو پابندی ہے وہ اوروں کے لیے اور جو سہولت یے وہ میرے لیے مختص کردی جائے تو بات بنے۔
ہم۔ چاہتے ہیں زندگی سجی سجائی بنی بنائی پلیٹ میں رکھ کے کوئی پیش کر دے اور ہم شکرییے کے ساتھ بلکہ شکرییے کہ بغیر ہی قبول کر کے ساری جنتا پہ احسان عظیم کر دیں۔
میرے سارے حق تو پورے کیے جائیں پر کسی فرض کی زنجیر سے ہم نہ جکڑے جا-یں۔
تو ایسا ہے کہ مجموعہ عجائب ہی ہم۔
اور المیہ یہ کہ احساس بھی نہیں۔
ویسے اگر کبھی المیوں کی فہرست مرتب کی گئی تو سب سے بڑا اور پہلا المیہ یہ ہی ہوگا کہ ہمارا احساس زیاں کھو گیا ہے۔
تہذیب کھونے کا زیاں۔
انسانیت گم ہوجانے کا نقصان۔
رشتے توڑنے کا ان کی مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا نقصان۔
اعتبار یقین کھونے کا۔
عزت جانے کا نقصان۔
اور ان سب نقصانات پر احساس زیاں نہ ہونے کا المیہ۔
جب جب سماج کی بات کرتی ہوں تو ایسا نہیں ہے عقل و شعور کے کسی عظیم سنگھاسن پر براجمان ہوکر کسی دانشور و فلسفی کی طرح نشاندہی کرتی ہوں۔ میں ہمیشہ اس سماج کا حصہ بن کر لکھتی ہوں اس کی خوبیاں اور خامیاں خود میں تلاش کر کے کہ تنقید کرتی ہوں کہ میں خود بھی اسی قوم اسی سماج کا حصہ ہوں۔ اور بہت عجیب بھی۔
لیکن کچھ دنوں سے بڑی شدت سے احساس ہورہا ہے کہ میں کچھ زیادہ عجیب ہوں اور یہ صرف میں نہیں ہوں میرے جیسے کئی دوست ہیں جو بہت عجیب ہیں۔ سوشل میڈیا کی زباں میں کہوں تو جن کا کوئی 147نظریہ148 ہی نہیں ہے۔ جو نہ تو کسی کے مرنے پہ خوشیاں مناتے ہیں نہ جنت اور جہنم کے ٹکٹس تقسیم کرتے ہیں۔ جن کو عاصمہ جہانگیر کا جنازہ بھی جنازہ لگتا ہے اور ایدھی کا بھی۔ جو بعد از مرگ نہ لاشوں کے ایمانوں کے فیصلے کرتے ہیں نہ قبروں سے رپورٹنگ کرتے ہیں۔
ہم اتنے عجیب ہیں کہ بعد از مرگ جناح کے ایمان و عقیدہ اور ڈگری کی جانچ پڑتال کرنے والے گروہوں سے یکساں بیزار ہیں۔
اتنے عجیب کہ ڈاکٹر رتھ فاؤ کے سٹیٹ فینرل کی تحریک چلاتے ہیں اور مولانا سمیع الحق کے جنازے پر رب کی امانت اسے لٹانے کے حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ہم اتنے عجیب ہیں کہ شوال کے مدرسے کے بچوں اور اے پی ایس کے بچوں میں تقسیم تفریق ہی نہیں کرتے۔ دونوں جگہوں پر مارنے والے کو قاتل جہان فانی۔ سے کوچ کر جانے والوں کو شہید معصوم اور بے جرم مارے جانے والے سمجھتے ہیں۔ چاہے قاتل کا کھرا کہیں بھی نکلتا ہو ہم نہ صرف اسے قاتل سمجھتے ہیں بلکہ برملا کہتے بھی ہیں۔
اتنے عجیب کے جب کوئی مر جائے تو ہمارے اندر کا گدھ نہی جاگتا۔
عجیب پن کی کوئی حد ہوتی تو شائد ہم پر ختم ہوتی۔ کہ میں کسی بھی شخص کو روتا ہوا دیکھ کر خوش نہیں ہوسکتی۔ چاہے وہ کیسا ہی مجرم کیوں نہ ہو۔ میرے دل میں ایک بار ہمدردی جاگتی ہے۔
میں لوگوں کو کینسر و ایڈز ہونے پر شادیانے نہیں بجاتی ڈر جاتی ہوں بری گھڑی بڑے وقت کے آجانے پر۔ بجائے خوشیاں منانے عافیت کی طلبگار ہوجاتی ہوں۔
کوئی شخص کیسا ہی مجرم کیوں نہ ہو جب وہ روتا ہوا سامنے آجائے میں اپنی حد تک اس کے جرائم کا تذکرہ ختم کر دیتی ہوں۔ کیونکہ وقت کے پھیر میں آئے ہوئے شخص کو مزید کٹہرے میں کیسے کھڑا کیا جاسکتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ مجرم کو سزا دینے کی قآئل نہیں۔ لیکن جب کوئی پہلے سے سزا بھگت رہا ہو تو کیا ہم اپنی ججمنٹس ہولڈ نہیں کرسکتے؟
حتی کہ جب کوئی رب کے دین پر اپنی زبان دراز کرتا ہے تب بھی تب بھی اس کے قتل پر جی آمادہ نہیں ہوتا۔ مجھے وہ لازوال الفاظ یاد آجاتے ہیں
جو لہولہان قدموں والی بات نے اپنے ہی لہو کو زمیں پر گرتے دیکھتے ہوئے کہے تھے۔
کہ شائد ان کی اولاد یا اولاد کی اولاد میں سے کوئی اسلام قبول کرلے اور رب کے دین کا کام کرے۔
جب کوئی لائین کراس کر نے لگتا ہے تو میرا جی چاہتا ہے کوئی ہو۔ ۔ ۔ جو آگے بڑھ کہ ہاتھ تھام لے اس کا گلے لگا لے کہ اس عارضی دنیا کے مسائل اور نا انصافیاں رب کا اصول و منشا نہیں۔ آؤ اس کی طرف لوٹ چلتے ہیں۔ آؤ اس کی مدد سے اس کی رضا سے نصرت طلب کرتے ہیں۔ ناانصافی کے خلاف لڑتے ہیں۔
لیکن ایسا ہوتا نہیں____کیونکہ ایک عجیب شخص کے خیالات دیوانے کی بڑ تو ہوسکتے ہیں حقیقت نہیں۔
جان کی امان پاؤں تو عرض کروں
میرا یہ بھی جی چاہتا ہے کوئی جو رب کے حبیب صلی علیہ وسلم کی ناموس پر سوال اٹھائے اس سے بات کرے کوئی کوئی تو ہو جو جا کہ اس شخص کو وحشی کی وحشت اور فاتح کی معافی دکھائے۔ کوئی تو ہو جو ہندہ کے کلیجہ چبانے سے معاف ہوجانے کے درمیان جا ٹہرائے ایسے شخص کو۔
کوئی تو ہو جو میری جنس کو یہ بتائے اس معاشرے کی مردانہ تشریحات میرے رب کا دیں نہیں۔ اس کو بتائے رب کے لیے تم ادنی مخلوق نہیں۔ کوئی ان واقعات کی تشریح بھی کرے جب جب رب نے زمیں پر محبت اتاری محبت کی تشریح کی محبت کا حوالہ دیا سکون اتارا تو مثال ہماری دی۔ ہم زمیں پر رب کی۔ محبت کا حوالہ ہیں ایسا مقام کمتر کو تو نہیں ملا کرتا۔ کوئی امام زماں ہی ہو جو رب سے ناراض برسر پیکار یا الجھے ہوئے لوگوں کو بتائے اللہ ہے بس پیار ہی پیار پیار کے اس کا نہیں شمار۔
کوئی تو انہیں بتائے اس سے لڑ کے دیکھا ہے اس لڑائی کا انجام نہیں ملتا نہ سرا۔
اس لڑائی میں ہار جیت بھی نہیں ہوتی۔ بس بے سکونی ہوتی ہے مسلسل بے سکونی۔ دنیا کے معیارات پہ پورا اترنے کی مسلسل دھن اور اس دھن کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ہم اسی کے فرمان سچے فرمان کی عملی تفسیر بن جاتے ہیں۔ کہ ہوس کا منہ صرف قبر کی مٹی بھر سکتی ہے۔
ہوس چاہے کسی کی ہوں پیسے کی شہرت کی اس کے بندوں کو نیچا دکھانے کی یا خودنمائی کی۔
الجھی سی اس خود کلامی کا کوئی انجام نہیں۔
میرے اندر کا امید پرست جاتے جاتے ایک نظم سنانا چاہتا ہے۔ خواہش نما نظم
اداس لوگوں سے پیار کرنا کوئی تو سیکھے
سفید لمحوں میں رنگ بھرنا کوئی تو سیکھے

کوئی تو آۓ خزاں میں پتے اُگانے والا
گلوں میں خوشبو کو قید کرنا کوئی تو سیکھے

کوئی تو آۓ نئی رتوں کا پیام لے کر
میری نگاہوں سے بات کرنا کوئی تو سیکھے

کوئی تو آۓ اندھیریوں میں چراغ بن کر
اندھیری راتوں میں چاند بننا کوئی تو سیکھے

کوئی پیمبر، کوئی امامِ زماں ہی آۓ
اسیر ذہنوں میں سوچ بھرنا کوئی تو سیکھے

Friday 2 November 2018

جیسی روح ویسے فرشتے۔


جیسی روح ویسے فرشتے۔

سنا تو آپ سب ہی نے ہوگا ہم نے خود پر بیتتے دیکھا ہے۔ جیسی روح ویسے ہی فرشتے۔قصہ کچھ یوں ہے کہ شکر خورے کو شکر دینے والے اور ہر صورت شکر کا انتظام کئے رکھنے والے رب نے روحوں کی اقسام بنائیں تو فرشتوں کی بھی بنائیں۔ "اکارڈنگلی ٹریٹ" کرنے کے لیے۔ 
ہم سی بے چین روحوں پر مضطرب فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی گئی۔ جو مسلسل حرکت کا انتظام کئے رکھتے ہیں۔ ایسا نہ ہو تو شائد بے چینی کا آخر دیکھنے کا جی چاہنے لگے اور ہم اس کی حد پار کر جائیں اب تو زندگی کا بہانہ ہے اور سچ بتائیں تو اتنی فرصت میسر ہوئی کبھی تو شائد بنجارے کو بلا لیویں لادنے واسطے۔
قصہ مختصر اور تمہید طولانی کے مترادف بات گو ذرا سی تھی لیکن رش میں ہم خاموش دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے سکارف کے ڈیزائن میں ڈوب کر ابھرے تو یہ تحریر ہوچکی تھی۔ ہم نے بھی عافیت جانی اور رات کے اس پہر جب چاند ستارے بھی سو رہے ہیں ہم نے اسے قرطاس پر اتارنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس سے پہلے کہ صبح ایک نئی مصروفیت لائے ہم اسے لکھتے ہیں۔
آنسہ بہت ساری منگنیوں شادیوں عقیقوں سے فرصت کے لمحوں میں امی کے کچن کی ہیڈ شیف کے فرائض ادا کرتی ہیں۔
اور گھر میں اترنے والی ساری رحمتوں کے لذت کام و دہن کا تعلق آنسہ کے فرائض منصبی سے ہے۔ لہذا آنسہ اب ری فلنگ والے سارے ٹرکس میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ پرانے کوفتوں کو ری نیو کرنے کے طریقوں سے بھی واقفیت حاصل کرچکی ہیں۔
"رحمتوں" کے درمیانی وقفہ کو ہم اگلی نسلوں کی "تربیت" میں وقف کرتے ہیں۔ جس کا بچہ سکول نہ پڑھتا ہو ٹیوشن والی ٹیچر نہ رکھتی ہو سیپارے والی باجی بھی نہ پڑھاتی ہو وہ آنسہ کی "گوناں گو" صلاحیتوں پر سوالیہ نشان بن کر سارے خاندان کی "عزت" کو بٹہ لگانے لگ جاتا ہے۔
اب ہم اتنے بے حس تو ہو نہیں سکتے اور نہ اتنے نالائق کہ ایک بچے کو نہ پڑھا سکیں۔کسی بچے کی استانی صحیح انگریزی میں غلط گفتگو کر کے بچے کی عزت افزائی کا سامان کرتی ہو اور مسلسل کرتی ہو تو اس ٹیچر کے ساتھ مذاکراتی کمیٹی کی سربراہی بھی آنسہ کو دی جاتی یے۔
یہ سب نہ ہو رہا ہو تو مضطرب فرشتہ اجزائے ترکیبی میں ردو بدل کا حکم لے کر زمین پر اترتا ہے اور کسی کے دانت کان گھٹنے کے درد میں ہم یاد آتے ہیں۔اور سارے بزرگوں اور بچوں کی ماؤں کو لگتا ہے کہ ہم اپنی چرب زبانی سے ڈاکٹر کو ان کا مسئلہ بہت اچھی طرح سمجھا سکتے ہیں ان سے بھی کہیں اچھا تو ہم بھی عبایا پہن سکارف لے کر چل دیتے ہیں۔ یہ سوچتے ہوئے کہ پہروں اکیلے تنہا ادس بیٹھے رہنے کہ حسرت لئے اس جہان فانی سے کوچ کرجاویں گے ہم۔ بقول شاعر۔
جس روز ہمارا کوچ ہوگا پھولوں کی دوکانیں بند یوں گی۔
شیریں سخنوں کے حرف دشنام اور بے مہر زبانیں بندہوں گی۔
اب تو آرتھو پیڈک ہم سے پوچھتا ہے آپ کیا کرتی ہیں۔ ہم : ہم ماہر امور ہڈی توڑ ہیں۔
ڈینٹسٹ پوچھتا ہے تو کہتی ہوں آپ کے لیے مریضوں کا انتظام کرتی ہوں جو فری ہو اس کی بتیسی ہتھیلی پہ دھر دیتی ہوں۔
کوئی ٹیچر پوچھتی ہے کہ آپ ان کی کیا لگتی ہیں تو کہہ دیتی ہوں میں ان سب کو فارغ لگتی ہوں۔
اور کوئی "رحمت" پوچھ لے کوکنگ کیسی لگتی ہے کہتی ہوں زہر۔
لیکن افسوس یہ سب دل میں کہتی ہوں کہ۔تہذیب نے حسن بیان چھین لیا آنسہ سے۔ اور شارپ ایجز کو فائل کردیا آسان لفظوں میں کہوں تو یوں کہ سارے کس بل نکال دیئے۔
لیکن اس المیہ کی خبر ابھی خود کو بھی نہیں ہونے دی۔ کہ اس نقصان پر تعزیت کو فرصت چاہیے۔اور
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا۔
سحرش۔

درندے


سماج میں ہم مہر سے وراثت تک پسند کی شادی سے پسند کے لباس تک ہر جائزشرعی معاشرتی معاشی حق سے تو محروم ہیں ہی اب کیا جینا بھی چھوڑ دیں۔

کیسا سماج ہے جو عزت ذلت کردار زندگی کے فیصلے جنس کی بنیاد پر کرتا ہے۔ یہ کیسا سماج ہے جہاں بیٹیاں شرم کا مقام سمجھی جاتی ہیں۔ بہنیں بے غیرتی کے غیرت والے پیمانے پر تولی جاتی ہیں۔بیویاں ملکیت اور مائیں جذباتی ٹول۔ کیسا سماج ہے جہاں میری جنس رشتے کے بغیر پہچانی نہیں جاتی۔
خان صاحب آپ کے سوا نہ اس ملک کے کسی ادارے سے ہمیں امیدیں ہیں کہ کسی شخص۔آپ سے امید ہے صرف امید نہیں یہ امید سے بڑھ کر حق پر پہنچ گیا ہے معاملہ۔ یہ میرا حق ہے کہ میری جان و مال عزت و آبرو کی حفاظت کی جائے ریاست ماں کے جیسی ہے کے کھوکھلے نعرے کو عملی کیا جائے۔ میرےاور بچوں کو محفوظ ریاست محفوظ سماج دیا جائے۔
یہ سماج ہم سے جینے کا حق بھی چھین رہا ہے خدارا ہمیں جینے دیں۔
یہاں نہ تین سال کی شازیہ محفوظ ہے نہ پانچ سال۔کی مقدس سات سال کی زینب کی تار تار چادر آج بھی اس نظام کی برہنگی چھپانے کی سعی لاحاصل کرتی ہے۔
خان صاحب۔ روز اخبار میرے گھر میں دو تین کٹے پھٹے بچے ڈال جاتی ہے۔نیوز چینلز سارا دن سہمے ہوئے میرے دل کو مزید سہما دیتے ہیں۔ میں سارا دن گھر کے بچوں کو باہر جانے سے روکتی رہتی ہوں۔ہر روز میرا سر شرم سے جھکا ہے ہر روز مقدس زینب حفیضہ حدیجہ سمبل فاطمہ جیسے ناموں کے ساتھ جڑی خبریں میرے لیے قیامت برپا کرتے رہتے ہیں۔
یہ کون درندے بھیڑیے ہیں جو میرے چمن کو اجاڑنے روز چلے آتے ہیں۔ کوئی ان کو لگام کیوں نہیں ڈالتا۔ان وحشی درندوں کی آنکھیں نوچ لینے کا قانون کیوں نہیں ہے اس سماج میں۔ ان بھیڑیوں کے پیٹ پھاڑنے والے خنجر کیوں نہیں بنائے ابھی تک کسی نے۔
خدارا میرے بچوں کو محفوظ سماج دیں خان صاحب۔خوف زدہ مائیں نفسیاتی نسلیں پیدا کر کر کے بھی تھک چکی ہیں اب۔
اب تو ہمیں جینے کا حق دیا جائے اب تو سنگ آزاد کریں۔ ہمیں کتوں سے بچا نہیں سکتا کوئی قانون تو انہیں پتھر مار لینے کا اپنا تحفظ کرلینے کا حق ہی دے دیں
اگر یہ سب بھی نہیں کر سکتے تو قانون پاس کریں۔بیٹیوں کو پیدا ہوتے زندہ دفنا دینے کا۔تاکہ روز حشر میں گریباں پکڑ سکوں سب کے اور پوچھ سکوں کہ کس جرم میں ماری گئی۔
ہمیں جینے کا حق دیں 
اس درندے کو مصلوب کردیں اس غلاظت کی پوٹ کو د س دن سڑک پر لٹکائے رکھیں۔
تحریر سحرش عثمان

سوشل میڈیا سے نسوانی بیان


ہم ایک ایسی خاتون کو جانتے ہیں ہلکا سا زیادہ ہی جانتے ہیں جن کے ہاتھ کی بنی چائے پی کر ہم ایک بار چائے سے تائب ہوئے تھے۔ کل ان کی وال پہ نہاری و پائے ارہر کی دال کی ریسپیز دیکھنے کو ملیں۔ یہ ہی نہیں ان کی بائیو میں کوکنگ ڈرائیونگ شاپنگ اینڈ سوئمنگ آر پیشنس بھی لکھے دیکھ کر ہم پانی گلے کو لگا بیٹھے تھے جو ان کی کوکنگ کی تصاویر دیکھ دیکھ کر منہ میں بھر آیا تھا۔ ہم نے کھانستے ہوئے وہاں سے کھسکنے میں عافیت جانی۔


ایک صاحب ہیں عام زندگی میں چیپ کے عہدے پر فائز ہیں۔ کزن کا لفظ موئے انگریزوں نے ایجاد کردیا ہمیں۔ وگرنہ کم از کم انہیں تو چول ہی کہا جاتا۔ بلکہ اتہاس کے پنوں میں ان کا نام بہت ساری چولیات کے موجد کے طور پر لکھا جاتا۔ خیر ان کا یہاں ایک ہی کام ہے چوبیس گھنٹے آن لائن رہ کے فیمیلز کو سٹالک کرنا اور جہاں کوئی ذرا غیر معیاری پوسٹ دکھے اس کو 147خاندان کے بڑوں148 کو بذریعہ سکرین شاٹ رپورٹ کرنا۔



(نوٹ یہ معیار بھی ان ہی کا سیٹ کیا ہوا ہے۔ یلو جرنلزم کے اس عمدہ مظاہرے پر کم و بیش سب سے بلاک ہونے کے بعد آجکل وہ بے بی ڈال سونے کی بن کر پیتل کی دنیا پر تبرا کرتے پائے جاتے ہیں۔ آنسہ نے دو ایک بار کی رپورٹنگ کے بعد وال ملاحظہ کی تو دعائیہ کلمات، پازیٹیویٹی والی حد تھی۔ نوجوان نسل کے بگاڑ کے اسباب پر پورا واپڈا ہاؤس ہی ڈال رکھا تھا موصوف نے۔ غیبت کے خلاف پوسٹس دیکھنے پر آنسہ کے اندر کا فسادی جاگ اٹھا۔ لمبا چوڑا سوال نما کمنٹ کیا اب انہوں نے اپنا نام کانٹینٹ ناٹ ایولیبل رکھ لیا۔۔۔ خدا جنے کیوں۔



ایک اور موصوف ہیں۔ ہمہ وقت ہمیں پولیٹکل سائنس اور پالیٹکس پڑھاتے رہتے ہیں۔ جمہوریت کے بہت بڑے چیمپئن ہیں۔ یوں جانییے خلاف جمہوریت تو چھینکتے بھی نہیں۔ ان سے ایک بار پارلیمانی جمہوریت پر اسائنمنٹ بنانے کا کہا تھا تب سے ہمیں بدتمیز کہتے سمجھتے ہیں۔۔ کیا اتنے برے ہیں ہم۔ گو ہمیں بدتمیز کہلانے پر بھی کوئی مسئلہ نہیں لیکن کم از کم وجوہات تو بتائی جائیں صرف اسائنمنٹ کا کہنے پر بدتمیز ہی کہہ دینا کہاں کا انصاف ہے۔چلیے یہ بھی تسلیم ہم نے یہ فرمائش نما درخواست انورٹڈ کاماز میں کی تھی۔ لہجے میں کل عالم کی معصومیت جو انہیں طنز لگا تھا بھر کے یور سپیشیلٹی بھی کہا ہوگا۔ لیکن پھر بھی___ آپ سوشل میڈیا پر بھی تو بائیس کروڑ کے جمہوری چیمپئن بنے ہی ہوتے ہیں نا۔



خیر اب آپ لوگ سمجھ جائیے نا کہ ان کا رویہ ہی سراسر غلط تھا آنسہ کی ہرگز کوئی غلطی نہ تھی۔ اب کاپی پیسٹ دانشور کہہ دینا ایسا بھی اوفینسو نہیں کہ اگلے کو آپ بدتمیز ہی کہہ دیں۔آپ ہی فیصلہ کیجئے۔



چلیے ایک اور صاحب کا قصہ سنئے۔ رشتہ پوچھنے سے احتراز کہ ہماری تحریریں حساس تقریبات میں ایز ریفرنس ٹو دی کانٹیکسٹ استمال کی جانے لگی ہیں اور شاعر ایسا منہ پھٹ کہ ساری بات صاف ہی لکھ دیتا ذرا جو 147گل وچوں ہور اے148 کہنے نوبت آئی ہو۔ یوں سمجھ لیجئے۔ ذکر خیر والے موصوف ہمارے ہمسائیوں کے انکل ہیں۔



انگریزی ادب تو ان پر الہام کی طرح اترا ہے۔ حتی کہ موصوف کھانستے بھی انگریزی ادب میں ہیں۔



رابرٹ فراسٹ کو خود اپنی اتنی نظمیں یاد نہ ہوں گی جتنی انہیں یاد ہیں۔ بلکہ جتنی انہیں یاد ہیں اتنی تو فراسٹ نے لکھی بھی نہ ہوں گی۔



ہمیں ریکوسٹ موصول ہوئی تو ڈی پی دیکھ کر جو تراہ نکلا تو تین چار گھنٹے بعد آن لائن آئے۔جب انہیں ایڈ کیا تو صبح دوپہر شام سپہر رات آدھی رات دیگر ویلا اور پیشی ویلا کے حساب سے انگریزی شاعری ہمارے سر پہ برسنے لگی۔ ہم نالائقی کے سبب گوگل ٹرانسلیٹر سے پوچھ پوچھ کر سراہتے رہے۔ لیکن آخر کب تک آخر کو ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا جو ویسے بھی چھوٹا ہے پٹوارخانے کی سوچ کی مانند۔



تو ایک دن عادت سے مجبور ہوکر ہم انہیں مشورہ دے بیٹھے پنجابی اردو ادب پڑھنے کا۔ کہ شاعری میوزک آرٹ اپنی زبان میں ہو ماں بولی میں ہو تو لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ گویا جام دو اور دونوں ہی دو آتشہ۔



پہلے تو وہ ہماری نالائقی پر چپ رہے ہنس دیے پر جب ہم مسلسل انہیں فرنگی شاعروں کے باندھے مضامین اردو پنجابی میں سنوانے لگے تو ہمیں بلاک کردیا۔ ہم نے ریڈنگ گلاسیز اتارے چائے کا کپ بنایا اور زیر لب وہ ماہیا گنگنایا۔۔



میں کوئی کفر تولیا؟ نہ جی۔



خیر یہ تو کچھ ناگفتنی سے قصے تھے۔ لیکن داد دیجئے ناگفتنی قصوں پر بھی فسانے بنا دیئے ہم نے۔



تو یوں ہے کہ سوشل میڈیا پر بہت اچھے محترم لوگوں سے تعارف و تعلق بنا۔ جن سے مسلسل سیکھنے کو ملتا ہے۔ بہت سی خواتین جنہیں یہاں دیکھ کر میرا انسانیت پر ایمان بحال ہوا۔



ایک تو ان میں ہماری دوست عظمی ذوالفقار ہیں کاش دانش والے ان سے ہماری تحریروں کی ایڈیٹنگ کرایا کریں۔ کیونکہ یہ ہمیشہ ایگزیکٹلی وہ لفظ لکھتی ہیں جو ہم اپنی دانست میں لکھ چکتے ہیں اور آٹو کوریکٹ ہم کو شٹ اپ کہہ کے آگے بڑھ جاتا ہے۔ خیر۔ باقی دوستوں پر روشنی بہت جلد ڈالی جائے گی کہ اسوقت ٹارچ بجھ رہی ہے ہمارا جی اچاٹ ہوگیا۔ اور کوئی نیا میوزک بھی کہیں سننے کو جسے کانوں میں لگا کر ہم رنگوں کی خوشبو کی باتیں کریں۔ ہمارے سارے دوست رنگ سے ہیں خوشبو جیسے۔

سوشل میڈیا سے نسوانی بیان حصہ دوم


پہلے ہم نے سوچا اس قصے کو یہیں ختم کئے دیتے ہیں۔ پہلے بھی تو کئی بار ہم اگلی قسط کا کہہ کر بھول جاتے ہیں اس بار بھی سہی۔


لیکن ہمارے ضمیر نے یہ ہرگز گوارا نہ کیا کہ اس بار ایسی حرکت کی جائے۔ اب اس سے یہ مت سمجھ لیا جاوے کے ہمارا ضمیر ایسا ہی جاگتا رہے گا اب سے ہمیشہ۔ بھئی ہمارا ضمیر ہے سوئے جاگے تمہیں کیا ہے بھئی۔ ملک میں جمہوریت ہوسکتی ہے تو ہمارے اندر کیوں نہیں ؟ کیا اسقدر ڈکٹیٹر لگتے ہیں ہم آپ کو۔؟ اگر لگتے بھی ہیں تو ہمیں کیا۔



او تینوں کافر کافر آکھدے تو آہو آہو آخ ایسا معاملہ ہے اس بات میں۔



خیر بات ہو رہی تھی سوشل میڈیا کی اور دوستوں کی بلکہ یہاں پائی جانے والی عظیم ہستیوں کی جن سے بلاک کھانے کے بعد ہمیں انٹرنیٹ کا بل سفل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ویسے تو ہم دوستوں کو اوفینڈ کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ سب ہی سے بلاک کھا بیٹھے ہیں کچھ ہمارے دوست مستقل مزاج بھی واقع ہوئے ہیں اور کچھ کی برداشت قابل دید ہے ہمیں مسلسل برداشت کیے ہوئے ہیں۔



کچھ ایسے ہیں ان کی وال پہ آنسہ انتہائی تہذیب کا مظاہرہ کرتی پائی جاتی ہیں۔ ہنسییے مت آنسہ کو آتی جاتی ہے تہذیب وہ الگ بات کہ آتی کم جاتی زیادہ ہے۔



خیر تو تذکرہ ہو رہا تھا دوستوں کا تو ایسا نہیں ہے کہ ہم مفلس ہیں۔ خاصے امیر واقعہ ہوئے ہیں۔



ہمارے دوستوں میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جن سے دوستی کے لیے عوام قطار میں لگی کھڑی ہوتی۔



مثال کے طور پر ڈاکٹر رابعہ خرم درانی ڈاکٹر صاحبہ مصروف ترین پروفیشن سے وابستہ تو ہیں ہی ساتھ ہی ساتھ رعنائی خیال والی بھی حد ختم ہے ان پر۔ تحریر ایسی نکھار کے لکھتی ہیں کہ جملہ تو جملہ لفظ یا حرف بھی ادھر سے ادھر ہوجائیں۔



لفظ ان کے سامنے یوں قطار باندھے کھڑے ہوتے ہیں جیسے وکیسینیشن کرانے کے لیے آئے ہوئے ننھے فرشتے ہوں جن کی قطار جوں جوں آگے بڑھتی ہو منظر کا حسن مانند پڑتا جاتا ہو۔ ڈاکٹر صاحبہ فوٹوگرافی بھی کمال کرتی ہیں۔ بس ایک سوال ہے ان سے کیسے کرلیتی ہیں اتنا سب کچھ ایک ساتھ وہ بھی اتنی پرفیکشن سے۔ ڈاکٹر صاحبہ کو ہر نئی ویب سائیٹ کی طبیب ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔ سوشل میڈیا کی ان خاتون دوست کا تعلق ہے بھی ہمارے شہر سے۔ ایسی ہی رہیئے گا ڈاکٹر صاحبہ۔



اگلا تعارف لکھتے لکھتے رہ گئی کہ ان پر تو بات ختم کی جائے گی یعنی فل سٹاپ لگایا جائے گا جیسے پرانے وقتوں میں بادشاہ پچیس تیس سالوں بعد کوئی چج کی بات کر ہی لیتے تھے تو بعد، میں وہ قلم تڑوا دیا کرتے تھے کہ اب اس قلم سے اس سے اچھی بات ممکن نہیں بالکل ایسے ہی آج کے وقت کی شہزادی صاحبہ یعنی ہم یعنی آنسہ سحرش عثمان اس ذکر کے بعد قلم نہ بھی توڑ سکیں تو کیبورڈ ضرور بند کردیں گی۔ لہٰذا اس سے پہلے باقی دوستوں کا ذکر ضروری ہے۔



ایک نییر آپی ہیں۔ نیر تاباں ان کی وال پہ پٹواریوں کو بھی بہیو کرتے دیکھا تو انسانیت پہ میرا ایمان بحال ہو گیا کہ انسان چاہے تو کچھ بھی کرسکتا ہے اور اگر وہ انسان خاتون ہو تو سونے پہ سہاگہ ایک بار امی سے پوچھا تھا یہ سہاگہ سونے پہ کیوں ہوتا ہے اٹھنے پہ کیوں نہیں۔ امی نے بس گھوری ڈالی تھی خدا جانے اُس کا مطلب تھا خیر۔ نییر آپی کی وال پہ ہماری دلچسپی احمد والی پوسٹس اور کہانیوں تک ہی رہتی جو ایک دن نییر آئی بریانی و کڑاہی نیز نہاری مکس سے چکن قورمہ نہ بنا لیتیں۔ امی کو بھی وہ پوسٹ پڑھائی تھی نییر آپی امی آپکو شاباش دے رہی تھیں۔ اور ہمارے مخدوش مستقبل پہ فاتحہ پڑھ رہی تھیں۔ نییر آپی کو سات سالہ احمد کی کہانیوں میں اور نیئر آپی کی کہانیوں میں سات سالہ احمد کو آپ الگ نہیں کر سکتے دونوں اتنے لازم ملزوم ہیں کہ ان کی ہونے والی بہو کو یہ اعتراض ہو گا لڑکا مماز بوائے ہے۔ اچھا سوری ہماری بہت پیاری شنیلہ آپی جو وال پہ مدھو مکھیوں کو اکھٹا کرنے واسطے مدھو کی سیلفیز لگاتی اور بھگانے کے لیے اپنی تحریریں لگاتی ہیں۔



میں اکثر ان کے سیاسی لطیفے پڑھ کے سوچتی ہوں کہ یہ ہی لطیفہ کسی میل نے لگایا ہوتا ہے مخالفین ایک آدھ ہڈی تو برابر کر ہی دیتے۔ لیکن واہ رے سوشل میڈیا اور اس کے معجزے۔ قابل گردن زنی پوسٹ پہ بھی سو سو لائک لیتی ہیں۔ بلکہ ایک دن تو چھینکتے ہوئے 146146ابگجحلیکبط145145 لکھ بیٹھیں اس پر بھی کئیوں کے مرشدی استازی کے عہدوں پر فائز اشخاص نے ہنس ہنس کر پیٹ میں بل ڈال لئے اب ایسے بڑے ناموں میں آنسہ کیا کرتی ہنسنا پڑا۔ وہ تو انباکس میں آکر بتانے لگیں کہ یہ چھینک تھی ہم نے بھی یرحمک کہہ کہ ہنسی ڈیلیٹ کر دی۔ صرف یہ ہی نہیں کہ یہ سو دوسو کمنٹس لیتی ہیں۔



بلکہ ان کے کمنٹس گننے والے خواتین حضرات بھی انہی کی وال پہ موجود ہوتے ہیں۔ اور حیرت انگیز یہ کہ شنیلہ آپی کو معلوم بھی ہے ان کا اور شدید حیرت انگیز یہ کہ شہنیلہ انہیں پیاری بہنیں بھی کہتی ہیں اور سب سے حیرت انگیز یہ کہ ان کی بزتی کے سکرین شاٹس بھی، سنبھال کے رکھتی ہیں۔ کہیں لگاتیں نہیں کہ میمن ہیں اسے فضول خرچی سمجھتی ہیں اور جہاں حیرت ختم ہوجاتی ہے وہاں سے یہ بات شروع ہوتی ہے کہ ایسی تمام منکر نکیر آنٹیز کو اکھٹا کر کے ایک گروپ بھی بنائے بیٹھی ہیں۔ جہاں آج یہ تحریر پڑھ کے 146146گھمسان کی رن145145 پڑیں گی ان کو۔ کیونکہ ڈالینس لیا تو بات بنی۔



ثمینہ ریاض احمد سے کون نہیں واقف پٹوار خانے کے جملہ امراض کی ماہر سمجھی جاتی ہیں۔ اور رب نے شفا بھی بہت دے رکھی ہاتھ میں۔ ان کی وجہ شہرت ان کی آنکھیں ہیں۔ ارے ارے رکیے ہمارا مطلب ان کی عقابی نگاہیں پٹواری تو دور بلکہ بہت دور سے تاڑ لیتی ہیں پھر اس کے گھر جا کہ اس کی ٹکور فرما کہ آتی ہیں ذوق بھی بہت اعلی پایا ہے۔ فیس بک والے بہت جیلس ہوتے میری دوست سے ایک دن ان کی بھیجی وڈیو کی شہرت کی تاب نہ لاتے ہوئے ان کی آئڈی بند کر دی۔ ثمینہ جی برا مت کرنا مارک زخر برگ جیلس ہوتا اور کچھ نہیں۔



مطربہ شیخ کسی کی وال پہ ہمیں ملیں ہمیں ان کی حرافہ رپورٹر اور فسادی رپورٹنگ بہت بھائی ایک دن ان سے پوچھا کہ سیاسی طور پر آپ کس کی فکر سے متاثر ہیں کہنے لگیں ایسے نہیں سمجھو گی تمہاری بوری بنوانی پڑے گی۔ ہائے ہائے ہم تو ایسا ڈرے کہ فوراً نعرہ لگایا بھائی کے بھگت ہیں جیسا کرو گے ویسا کریں گے۔ پیار دو گے پیار دیں گے۔ مارنے آؤ گے مار دیں گے۔ سیانی کڑی اے فوراً سمجھ گئی تب سے ہمارے درمیان اچھا 146146ورکنگ145145 ریلیشن شپ قائم ہے۔ جس میں وہ کام کرتی ہیں ہم آرام یعنی وہ دھڑا دھڑ لکھے جاتی ہیں ہم نیم دراز ان کی تحریریں پڑھتے لائک کئے جاتے ہیں۔ یہ واحد خاتون ہیں جو ہمیں ان باکس میں کئی بار کہہ چکیں کہ شاپنگ کرنے جا رہی کہو تمہارے لئے کیا خریدوں اب اپنے منہ سے ہم بتاتے کیا اچھے لگے گئے۔ آپ خود ہی لے لیجئے گا مطربہ ہمیں یقین ہے آپکی پسند بہت اچھی ہے۔



سیدہ فاطمہ الزہرہ ان کو شروع شروع میں بہت تنقیدی نگاہ سے دیکھا کئے ہم۔ اے لو جوان جہاں لڑکی جہاں جی میں آتا ہے منہ اٹھائے چلے جاتی ہے۔ نہ کوئی لجا نہ لحاظ یہ کوئی بات ہوئی بھلا شہر لے حالات کیسے خراب ہیں اور یہ مہارانی ہیں بیگ اٹھایا موبائل پکڑا اور چل پڑیں۔ اور آتے جاتے راہ چلتے انٹرویو بھی لیتے پھرتی ہیں لوگوں سے۔ آپ ہی کہئے یہ اطوار ہیں کوئی اچھی لڑکیوں والے؟



اس سے پہلے کہ ہم ججمنٹس پاس کرتے کرتے اندر ہی اندر چیپ جسٹس بن جاتے کسی نے ہماری آنکھوں سے تعصب اور تنگ نظری کی عینک اتار دی اور ہم نے خاتون کی تحریر کے ذریعے ان کے بارے میں رائے قائم کرنے کی کوشش کی۔ اور یہ نتیجہ نکالا۔ کہ ارے یہ تو ہمارے ہی جیسی ہے۔ لوگوں سے بیزار بھی اور ان سے تعلق نبھاتی ہوئی بھی (اب دیتی پھرو وضاحتیں) پتا نہیں کب یہ وال سے ان باکس اور وہاں سے واٹس ایپ پہ چلی آئیں۔ اور جانے کب رات کے ایک بجے ان سے مکالمہ ہونے لگا اس گرے ایریا پر جس کو ہم دن بھر برائٹ رنگوں سے پینٹ کئے رکھتے ہیں۔ اور جس پر بات کرنے والے کو ہم سخت قسم کی گفتگو سے نوازتے ہیں۔ ان سے ایسا تعلق ہے۔ چوڑیاں بہت پیاری پہنتی ہیں خود بھی پیاری ہیں حتی کہ سیلفی وڈیو میں بھی پیاری لگتی ہیں اور ہلدی کے اتنے فوائد گنوا چکی ہیں کہ مجھے گمان گزرتا ہے من و سلوی میں ہلدی تو ضرور اترتی ہو گی یا پھر جنت میں ہلدی والا دودھ قومی فروٹ ہو گا۔



صابن تک آرگینک استعمال کرتی ہیں۔ اور باربی کیو کھانے سے پہلے پوچھتی ہیں یہ بکرا سبزہ کھانے سے پہلے ہاتھ دھوتا تھا کہ نہیں اتنی بار سمجھایا ہے بکرا ہاتھ لگائے بغیر کھا لیتا تھا سبزہ مرحوم بڑا ہی قانع تھا۔ لیکن مانتی نہیں۔ اور باربی کیو تک نہیں کھاتیں۔ حالانکہ بکرا نہ کھانے والوں کا حساب الگ سے ہو گا لیکن یہ نہی سمجھتیں۔ آئیے سب مل کر دعا کریں ان کی شادی شُد مسلمان سے ہو جو دن میں چار بار کھانا کھاتا ہو وہ بھی گوشت والا کھانا آمین