Pages

Thursday 28 January 2016

ننگے سر


حادثوں کے بعد گنتی بھی دردناک ھوتی ھے....
چار بچے تھے....مرنے والوں میں
عورت تھی مٹھی میں بچے کی انگلی دبائے...
باپ تھا کوئی پشت پر بیٹا چھپائے...
اک ننھی پری تھی...خواب آنکھوں میں وحشت بھرئے.....
میرے ھاتھوں پر اپنا خون تلاشتی ھوئی....
بوڑھے تھے دو...کسی کی دعا کا گھر...
حادثے چھین لیے نا تونے..
میرے لوگوں سے عافیت کے در.....
سحرش

پورا منظر


کھڑکی سے بوند بوند سرپٹختی زندگی نئے موسموں کی نوید سناتی ھے__بہاروں کی آمد کے قصے شگوفوں کے پھوٹنے کی باتیں کلی کی پھول تک کے سفر کی داستاں
پتا ھے لوگ بارش میں مسکرانے کیوں لگتے ھیں؟کیوں؟
کیونکہ بارش خوشی ھوتی ھے رب کی خوشی...اپنے بندوں کے ساتھ میوچل خوشی، پورا منظر ھوتی ھے بارش__ جیسے کوئی بچہ جگنو مٹھی میں قید کر کے الوھی مسکان چہرے پر سجائے روشن آنکھوں سے دنیا کو دیکھتا ھو۔۔ بالکل ویسا پورا منظر سرخوشی، پا لینے کی طمانیت مٹھی میں قید "دنیا" پر فخر...ھر جذبہ اپنی شدت کے ساتھ موجود ھوتا ھے.
جیسے کوئی کوه پیماء سخت موسم میں چوٹی سر کرے اور اس چوٹی کے سرے پرایک لحظہ رک کر محسوس کرے زندگی کو اس لمحے میں تاثرات کا جو ھجوم ھوتا ھے نا اس کی آنکھوں میں بالکل  ویسا منظر
کھڑکی کے شیشے سے پرے بوند بوند دھندلاتا ھوا منظر۔۔۔کھڑکی پر قطرے ٹپکاتی بیل شفاف آسمان پرسکون دھرتی دریا میں رک رک کر چلتا ھوایک بوٹ ھاؤس دوور کہیں جنگل میں بجتی ھوئی بانسری جس کی اٹھان پر وائلن کا گماں گزرتا ھو__کسی کی بات کا کوئی جگنو تھامے کھڑکی سے پرے دیکھتے ھوں آپ 
!!!!منظر پورا ہوا نا
سحرش

Tuesday 26 January 2016

منافقت


میں لکھنا چاھتی تھی کافی دنوں سے....لیکن موضوع میرے قلم کی گرفت میں آنے سے انکاری تھا....میرا ھی قلم مجھے کہتائی شرم ھوتی ھے کوئی حیا ھوتی ھے.....جملے لکھ لکھ کر کاٹتی رھی....بلا آخر میں نے اپنی تمام تر مشرقی روایات کو اٹھا کر طاق پر رکھا اور یہ چار جملے گھسیٹے....
محترمہ آنسہ ایان کی حالت زار اور...اس کے ذمہ دار/مھربان.....اور ھمارا دوغلہ منافق میڈیا اور معاشره....
یہ اسلامی جمھوریہ پاکستان ھےجہاں کاذھب اسلام ھے اور سرکاری "مولانا" فضل الرحمان ھیں....جو تمام کے تمام بیس کروڑحالت ایمانی و اسلام کا فیصلہ عین پرمٹوں کی روشنی میں بلا دریغ کرتے ھیں.....اور پورا میڈیا من عن ایمان لا کے پوری قوم کا قبلہ درست کرتا ھے....
تو خضور والا مانا نیکیوں کی مھینہ ھے آپ سب خضرات اس ناقص العقل گناهگار قوم کے گناه بخشوا رھے ھوں گے...
پر اک ذرا توجہ.....صاحب کوئی فتوی کوئی حد کوئی سزا کا مطالبہ کوئی ڈی این اے کا قصد.....نھیں؟؟؟؟
تو پھر مجھے کھنے دیجے...اگر یھان عمران خان ھوتا اور معاملہ کسی کافر یھودیہ کا ھوتا تو....آپ سب کی زبانیں زھر اگلتیں....میڈیا وه طوفان بد تھزیبی برپا کرتا که پوری قوم رجم کی سزا کے عدم اطلاق پر ھونے والی تباھی سے کانپ کانپ جاتی.....قرون اولی سے مثالیں ڈھونڈ کر لائی جاتی اور ھمارے دماغوں کی بتی جلائی جاتی.....
لیکن اب ایسا نھیں ھے.....
کیوں کہ یہ اسلامی جمھوریہ پاکستان ھے اور زرداری..عمران خان نھیں....مولانا کا اتحادی بھی ھے.....لھذا سب کی زبانوں پر تالے ھیں....
تو پھر یہ تمام تر دوغلہ منافق میڈیا اور سیاسی ملا.....میری طرف سے "در فٹے منہ"قبول کریں ان دوھرے معیاروں پر.....
سحرش

عشق


شدید گرمی.....بے سروسامانی....تین گناه طاقتور دشمن.....آگ اگلتا صحرا...آنکھوں میں چبھتی ریت....اور بقاء کی جنگ....
کون لوگ تھے وه جو بغیر کسی جنگی تیاری کے چل پڑے ایک آواز پر لبیک کھتے ھوئے...کس جذبے نے جوت جگائی تھی ان کے اندر جو اپنے ھی خون کے خلاف برسرپیکار ھو گئے....کوئی تو وجہ ھوگی....کوئی اسم پھونکا ھوگا کسی نے جس کے زیر اثر دیوانہ وار لپکے وه.....اور پھر مقتل کو سرخرو کر کے لوٹے....
وه کون سا اسم تھا جس کے اثرات نے جنگی حکمت عملی کو جنگی پیشین گوئیوں کو تین سو اسی کے زاوئیے سے بدل ڈالا......
کسی نے چپکے سے سرگوشی کی....عشق..وه جو ابراھیم کو آگ میں چھلانگ لگوا دیتا ھے....اسماعیل کو چھری کی دھار سے یوسف کو قیدو بند سے بے خوف کردیتا ھے....وھی عشق 
جو صدیق سے کھلواتا ھے خدا اور اس کا رسول بس..
جو عمر کے تلوار میان سے باھر ننگی تلوار کو جھکا دیتا ھے...
وھی عشق جو ذالنورین کے خریدے ھوئےمیٹھے پانی کے کنوئیں کی بوند بوند سے ٹپکتا ھے حیدر کرار کی کمسن گواھی میں ملتا ھے...حسین کی پیاس میں کربلا کی صعوبت میں ملتا ھے....
ھان یہ عشق ھی تھا جس نے معاذ اور معوذ کو ابو جھل کے مقابلے میں لا کھڑا کیا.....
اور عشق کا انجام بخیر ھی ھوا کرتا ھے....
سحرش.
جس دئیے کی توانائی عرض و سماءکی حرارت بنی..
اس دئیے کا ھمیں بھی حوالہ بھت اور اجالا بھت...
وه اک شجر جس کی شاخوں پہ آکر زمانوں کے موسم بسیرا کریں....
اس شجر کا ھمیں بھی سایہ بھت اور گھنیرا بھت...

دوست

اگر کوئی ایسا دوست ھے نہ تمھارے پاس....وه جو تمھارا نام پتا نہ پوچھے...وه جسے تمھاری حثیت سے فرق نہ پڑتا ھو وه جو....تمھاری خاطر رسموں رواجوں کو خاطر میں لانے پر تیار نہ و....وه جو تمھارے درد پر دکھی ھو اور تمھاری خوشی میں مسکرائے...بغیر غرض کے بغیر مطلب کے.....وه جسے تمھاری اداسی کے الھام ھوں.....تو سمجھ لو.....خوش قسمتی کی معراج پر ھو تم....
سحرش

اشعار


چند متفرق" اشعار" آپ سب کی نظر....
ڈر کے آگے جیت ھے....
پانچ دن بعد عید ھے...
.
اب تو پرمننٹ سٹریٹنگ کرا لو جاناں
کوئی کب تک الجھی ھوئی زلفوں کو سنوارے..
.
.
سنا ھے ربط ھے ان کو گندے ڈیزاینوں سے...
سو ھم بھی اب کے لان نکال کے دیکھتے ھیں...
سنا ھے ان کی سیاه چشمگی قیامت ھے...
سو ھم بھی ھاشمی کاجل لگا کہ دیکھتے ھیں...
سنا ھے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ھیں...
آؤ کسی کو سیلزمین رکھ کہ دیکھتے ھیں...
جب سے شروع ھوا ھے رمضان...
مزاج اور ھی درزی ودرزن کے دیکھتے ھیں..

انجام


ھو سکتا ھے آغاز بہت ھا ھوبہت ندار "بگننگ" ھو....لیکن انجام بخیر نہ ھو....ھو سکتا ھے شروعات میں تمھیں وقت کے ولی دور کے پیغمبر اور مصلح کا ساتھ نصیب ھو اور تم نوح و لوط( علیہ سلام) کی بیویوں کی طرح نامراد رھ جاؤ....تم اپنے ھاتھوں سے اپنا مینار نور مار گراؤ....
ایسا بھی ھو سکتا ھے کہ تمھارا واسطہ وقت کےبدترین شخص سے پڑ جائے...تم کسی زمینی خدا کے ساتھ رھنے پر مجبور کر دیئے جاؤ....اور تمھیں لگے دین و دنیا دونوں گئیں ھاتھ سے....لیکن پھر کیا ھو....تم فرعون کی آسیہ بن جاؤ....تمھارا انجام بخیر ھو....جنت کے فرشتے تمھارے لیے راھیں استوار کریں....
تو....یہ جو دنیا ھے نه یھاں شروعات پر......ظاھری حوالوں پر مت جانا......یہاں اگر انجام بخیر ھے تو سمجھو خیرھے....
کوئی تمام عمر نیکی کی راه پر ایک بلی کو دھتکارے جانے پر بھٹکا دیا جاتا ھے.....اور کوئی کتے کو پانی پلانے پر...."بلا" لیا جاتا ھے....
یھان ھر آن بس انجام کی فکر کرنا....وه جو تم کھتے ھو نہ.....آل از ویل اف اینڈز ویل بس وه قصہ ھے.....
اور کیا ھی خوب ھو جو میں اپنے سے وابستہ ھر شخص کے ساتھ اس "اینڈز ویل" کے ساتھ ملوں....اس شروعات کرنے والے اور انجام دیکھنے والے سے.....
آمین....
سحرش

ایک مطالبہ


اب کے میرا بھی یرپرزور مطالبہ ھے.....کہ رینجرز کی نگرانی میں ایک آپریشن ایگزامز کے خلاف بھی کیا جائے...
ان کی گونگی بدمعاشی اور خاموش دھشت گردی کاپچھلے کئی سالوں سے میرے جیسے کئی معصوم....شکار ھو چکے ھیں....نہ صرف آپریشن....بلکہ...اس موئےریزلٹ پر تو آرٹیکل ٦ سکس لگنا چاھیے.... موخذاه ھونا چاھیے....غضب خدا کا جسے دیکھو وه ھی اس کا شکار نظر آتا ھے....آدھا سال اس کے آنے کا خوف دھلائےرکھتا....باقی کا آدھا سال اس کے آ جانے کے بعد کی صورتحال سے نمپٹنے کی تراکیب کرتے رھتے....آئےھائےمیرے معصوم ھم قفس....کوئی پیمبر کوئی امام زماں ھی آئےھمیں ڈگری کی اس قید سے رھائی دلائے...وگرنہ گھٹ کے مر جائےگا انسان....اس جی پی اے....پرسنٹیج کے چکر میں....آؤ کوئی پیپر چیکر کو سمجھاؤ....اسے بتاؤ....کہ میاں انساں کو انساں رھنے دو....کیوں مقابلے کی دوڑ میں گدھوں کی تعداد پر خوشیاں مناتے ھے....
کوئی ھے جو میرے لوگوں کو بتائےنمبر پرسنٹیج انسان سے ھے....انسان ھی نه رھے تو کسے جھونکوں گے اس بھٹی میں....ھم ھی ھیں جو اس قوم کے غم میں گھلتے جا رئے..مجال ھے کہ کسی کہ کان پر جوں تک رینگی ھو....جب سے شوباز لندن سدھارے ھیں جوں تو جون ڈینگی بھی نھیں رینگتا....
کوئی مانے نه مانے....یہ دوڑ گدھے بنانے کی فیکٹریاں...ھیں فی الفور بند کی جائیں...اور....کتابوں پر پابندی لگائی جائے..اگلے دو سالوں کے امتحنات موخر کر دیے جائیں....اور پچھلے امتحنات والوں کو پاس ڈکلیر کر دیا جاۓ😜
اور کم از کم یہ سوچا جائے.......اتنے سارے گدھوں کا کریں گے کیا ھم.....
سحرش

وہ لمحے


بیتے ھوئےلمحے ٹھر جائیں تو گزارنا مشکل ھو جاتے ھیں...ایسا ایک لمحہ پوری حیات پر بھاری ھو جاتا ھے.....آپ لاکھ اوپر اٹھنا چاھیں....لاکھ سمجھائیں خود کو...فلسفوں دلیلوں....منطقوں کے انبار لگا دیں.... لیکن آپ کے اندر کوئی مستقل اسی لمحے میں جیتے رھنا چاھتا ھے....وه جس میں بچھڑا تھا کوئی....جس میں اعتبار کھویا تھا زندگی پر سے....وه جس ایک لمحے میں آپ کا تارا ٹوٹ کر شھاب ثاقب بن گیا تھا.....اور آپ کی زندگی کے آسماں کے ھاتھوں سے چھوٹ کر زمیں کی بے انت پستیوں میں کھو گیا تھا....
وه ایک لمحہ ٹھر جاتا ھے....اور آپ تمام عمر بے یقینی کی کیفیت میں یہ سوچتے رھتے ھیں کہ...آپ کی گرفت اتنی کمزور تو نہ تھی جو وه تاروں کی طرح ٹوٹا....خوشبو کی طرح روٹھا...یقین نھیں آتا کہ ھم اتنے بے مایا بھی ھو سکتے ھیں ایک خواھش کو پورا نہ کر سکیں.....ایک شخص کو اپنا نہ بنا سکیں.......ایک صرف ایک لمحہ....اور ھر خواب سے دستبرداری....ذات کا اعتبار طنطنہ.....مان اور زور بازو کا غرور.....قسمت کے سامنے سرنگوں ھو جاتے ھیں....اور انسان اس تقسیم پر.....خواھشوں کی پائمالی پر سراپا احتجاج بن جاتا ھے.....وه نارمل زندگی کی طرف لوٹ آتا ھے.....ھنستا بولتا بھی ھے.....لیکن اندر کھیں دور بھت دور.... ضدی بچے کی طرح سردیوں کی بارش میں گیلی زمین پر بیٹھا رھتا ھے......موسم کی سختی سے بے نیاز.....بیمار پڑ جانے کے خدشے کو روندتے ھوئے....بس اسی ایک لمحے میں زنده رھنے کے لیے.....انسان شکوے کرنا چھوڑ دیتا ھے......کیوں کہ سراپا شکوه بن جاتا ھے....
سحرش

پچھتاوے


پھر ھم شرطیں رکھنے لگتے ھیں....میں یا وه..
مجھ سے ملنا ھے تو وه نھیں....فیصلہ کر لو....اب ھمارے تمھارے رشتے کی میان میں دو تلواریں نھیں رہ سکتی.....تم اسے چھوڑ دو یا مجھے....
یہ ب شرائط طے کرتے ھوۓ بلا کی فرعونیت ھوتی ھے ھمارےلہجوں .ھمیں لگتا ھے ھم ممہلتیں کرنے کے لیے پیدا کیے گئے ھیں...ھم رشتوں میں اتنی شدید حبس کر دیتے ھیں..کہ جس سے شرائط منوانی ھوتی ھیں وه گھبرا کے ڈور ھی توڑ ڈالتا ھے.....اور ھم کھتے ھیں لوگ بدل جاتے ھیں......اب اپنا بھی احتساب لوگو.... وگرنہ پچھتاوں کی أخیر نھیں ھوا کرتی. . 
سحرش

دوری


کوئی دور بھت دور درد میں ھو....اتنی دور کہ دعا کے سوا کچھ کرنے کی اوقات نہ ھو تو پھر..
سمندر کی تاہ ں اور ھمالیہ کی چوٹی پر پکار کا یکساں جواب دینے والے رب سے ....جواب مقبولیت....کے طلبگار ھو جاؤ......وه کبھی اپنے بندے کو تنھا نھیں چھوڑتا......نه اپنے بندے سے بیزار ھوتا ھے......
اور کوئی کتنا ھی دور کیوں نہ ھو دعا کی حد سے باھر نھیں ھوتا....
سحرش

میری دنیا کے لوگ


کچھ لوگ واقعی اتنے اھم ھوتے ھیں....کہ کی سلامتی کے سامنے آپ کی اپنی ذات کی سلامتی کائنات کے سامنے ذرے کی سی ھو جاتی ھے....
چھوٹی...حقیر بے مایا....لا یعنی اور غیر اھم.....اھم ھوتے ھیں تو وه لوگ....جو کسی دکھ میں ھوں تو آپ کے قیام لمبے ھو جاتے ھیں...آپ کے رکوع وسجود میں خشوع در آتا ھے اور آپ کو صرف ایک حرف دعا یاد ره جاتا ھے سلامتی میرے مخلص کی سلامتی....یا رب کل جب تو اپنی خدائی میں سلامتی تقسیم کرے نہ و میرے حصے کی سلامتی بھی اس کے حصے میں ڈال دینا....
تا کہ تیری کائنات کا جو ذره میری کل کائنات ھواھےنہ وه سلامت رھے....میری دنیا قائم رھے یارب.....
میرے لفظوں میں تاثیر تیرے کن سے جڑی ھے....اور وه کن چاھیے مجھے...
سحرش

محبت

اگر کسی کے دل میں اپنا مقام ڈھونڈنا ھو تو اپنے دل میں جھانک کے دیکھو....
حضرت علی رض.....
کس قدر خوبصورت بات ھے.....اور ھم ڈھونڈتے پھرتے ھیں کوئی نجومی جو ھمیں بتائے ه فلاں شخص ھم سے محبت کرتا ھے اگر کرتا ھے تو کتنی.....لوگو......محبتوں کا نجومی تو تمھارے اندر بیٹھا ھے....اس سے رجوع کیوں نھیں کرتے....اس لیے کہ تمھارے جذبے خالص نھیں ھوتے.....تم دل ھی دل میں خود کو دھوکہ دے رھے ھوتے ھو......محبتوں کا ڈھونگ رچا کے بیٹھے ھوئےھوتے ھو....تمھاری غرض نے تمھیں لوگوں سے جوڑا ھوتا ھے....اور تم محبت کا نام دیتے ھو.....پھر کھتے ھو آج کل خالص محبت کھاں ملتی ھے....
ملتی ھے خالص محبت بھی ملتی ھے....خلوص بھی ملتا ھے اور بے ریاء دوست بھی ملتے ھیں....بس اس کے لیے تمھیں اپنے دل کے سومنات سے ریاء کے خود غرضی کے خود پسندی کے اور اناء کے بت توڑنا ھوں گے......
محبت واحد و یکتا کی خوبصورت تخلیقات میں سے ایک ھے....کسی موحد کے دل میں ھی گھر کرئےگی نہ....
سحرش...

شہزادی کی ایک کہانی

کہانی سے شروع ھوتی ھے....جب ایک حسین وجمیل ذھانت سے بھرپور شھزادی اپنی رین این مارٹن گم کر ی جسے اس نے پال پوس کے بڑا کیا تھا جس کے اوپر کپ رکھ کے اسں نے کئی بار کافی پی تھی...وه رین این مارٹن.......اورنج ھائی لائیٹر سمیت رات کے پچھلے پھر کھیں "چلی گئی"...زمانے کے دستور نرالے...کرے کوئی اور بھرے کوئی کے مصداق.....وقت کے "جابر سلطان" نے عدم بازیابی کی صورت میں شھزادی کا سر قلم کر دینے کا حکم نامہ جاری کر دیا....."جابر سلطان" جس کے سامنے کسی کو جرات گفتار نہ ھی حتمی فیصلہ کر کے دربار سمیٹ چکا....تو شھزادی کی بے وقت اور ناگھانی ممکنہ وت نے ھر آنکھ اشکبار کردی....ھر شخص اداس دل گرفتہ تھا....شھزادی اپنی وصیت لکھوانا ھی چاھتی تھی کہ اچانک ایک اڑن کٹھولہ نمودار ھوا.....جس پر ایک فربہ ائل رحم دل بلند آھنگ قھقھے لگانے والی پری براجمان تھی جس کے ساتھ ایک خوبصورت ننھی پری بھی تھی جس کی آنکھوں سے ذھانت ٹپک رھی تھی....اس پری نے جب شھزادی کی حالت زار دیکھی تو اس سے رھا نہ گیا.....دل میں ٹھاٹھیں مارتا ھوا محبت کا سمندر جوش میں آیا.....اور پری نے اپنی ذاتی سالوڈ رین این مارٹن کی بک اور نوٹس کے ساتھ شھزادی کو دے دی.....اور پھر واپس اپنے ان دیکھے انجانے دیس....چلی گئی....یوں شھزادی تقریبا ھنسی حوشی رھنے لگی.....

کچھ شرم ۔۔۔


خواجہ آصف صاحب.....
واقعی کوئی شرم ھوتی ھے...؟؟؟
کوئی حیاء ھوتی ھے؟؟؟؟
کوئی انسانیت ھوتی ھے....
کوئی مذھب ھوتا ھے....
کوئی گورننس ھوتی ھے....؟؟
یا پھر بس ھوس ھی ھوتی ھے....
بے غیرتی ھی ھوتی ھے....
خواجه صاحب اپنے معزز وزیراعظم کو بتائیے....ان کی ناک کے نیچے یہ کیسا غزه برپا کر دیا ظالموں نے.....انھیں کانوں کان خبر نہ ھوئی.....
یه کسی جنگ زده شھر کا قصہ نھیں یہ لاھور سے سے جڑا ھوا شھر ھے.....آپ کی راجھدانی کے ٢٥ سال میاں صاحب اور ٢٨٦ معصوم بچے.....
اور.....موت کا سا سکوت.....ڈر جائیں اس وقت سے جب لوگ داعش و ٹی ٹی پی سے انصاف کے طلبگار ھو جائیں.....
.
.
میری بھت ھمدرد بھت حساس قوم کے بھت منصف مزاج مصلح اور عوام.....آج چپ کیوں ھیں آپ لوگ....آج کیوں زبانیں زھر نھیں اگلتیں.....آج کیوں یوم سیاه نھیں مناتے کیوں کالی ڈی پی نھیں لگاتے.....کیوں کیوں کہ یہ روز جینے روز مرنے والے بچوں کے مجرم طالبان نھیں....کیوں کہ کوئی مولوی ملوث نھیں اس میں......یا پھر اس لیے کہ بچے اے پی ایس میں نھیں پڑھتے تھے... اور ان واقعہ پشاور میں نھیں ھوا...
سحرش

چاند روشن

چاند روشن چمکتا ستاره رھے....سب سے اونچا یہ جھنڈا ھمارا رھے...
ھر اک قاتل شیطان آواره رھے...
چاند روشن چمکتا ستاره رھے...
عدلیہ و آیئن پر قبضہ تمھارا رھے...
چاند روشن چمکتا ستاره رھے...
محکوموں پر تمھارا اجاره رھے...
چاند روشن چمکتا ستاره رھے...
جمھوریت کے نام پر کھیل جاری تمھارا رھے..
چاند روشن چمکتا ستاره رھے....
عزتوں کے بیوپاریو...ھوس کے پجاریوں کو میسر ساتھ تمھارا رھے....
چاند روشن چمکتا ستاره رھے...
اونچے شملے والوں پہ ایہ فگن حفاظتوں کا سایه رھے....
چاند روشن.....
یہ و بیس کڑوڑ ھیں گدھے ان پر صدا جھالت کا سایہ رھے....
چاند روشن چمکتا ستاره رھے.....
سب سے اونچاء یہ جھنڈا ھمااااارا رھے......
چاند روشننننننن.......

ہم زندہ ۔۔۔۔


ھم مرده قوم ھیں ھم جاھل قوم ھیں....
ھم سب کی پھچان ھم سب بے حس عوام...
ان ملوں مشینوں کے سب پھیے گھومیں گے....
حاکم ھی ھوں گے شاد اور حاکم جھومیں گے....
ھم بے دل ھم بے جان...
ھم سب کا پاکستان پاکستان ھم سب کا پاکستان....
اس عدلیہ میں بیٹھے سب ججز گونگے ھیں....
پارلیمنٹ بھی بدنام....
ھم مرده........
ھر چینل بے لگام عالم بھی بےزبان اور مفتی بھی سارے خام...
ھم مرده قوم ھیں ھم بے حس قوم ھیں...
بچوں کی عزت پر سب ٹھٹھے لگاتے ھیں....
روز ھی بیس پچیس لوگ ھم عوام دفناتے ھیں....
ھم بے دل ھم بے جان.....
ھم سب کا پاکستان......
پھر ھم زنده ھیں انسان کھلاتے ھیں....
ھر روز نیا مدعا ھر روز نیا مجرم.....چند لمحوں کے لیے ھم اسے بے نقط سناتے ھیں...
پھر اک نئی ڈی پی نیا سٹیٹس لگاتے ھیں........
ھم مرده قوم ھیں ھم جاھل قوم ھیں....
ھم سب کی پھچان ھم سب بے حس عوام........

ایک دعا


اگر کوئی آخری حمائیتی ھوگا،نا.....جو کہےھیں ابھی مایوس نھیں ھوں میں.....ابھی بس برف پگھلے گی...نئے موسم کی بارش سے میرا چمن بھیگے گا....پہلی روں کے جوبن کے سارے پھول میرے آنگن میں کھلیں گے....کوئی آخری بھی ھوا نہ....جو تپتی دوپھر میں کسی چھاؤں کی آس کا دامن تھامے ھوئیے ا.....تو میرے پیارے وطن میں وه ھوں گی....
مانا.......کہ گھپ اندھیرا ھے....ابھی تیرگی کی حکومت ھے....پر مجھے یقین ھے کہ اجالےمنتظر ھیں تمھارے..ھم تمھارے حصے کا سورج کھینچ لائیں گے.....وه جو تمھارے کوچا وبازار روشن کر دیں گے.....بس تم آباد رھو....
سوھنی دھرتی الله رکھے قدم قدم آباد تجھے قدم قدم آباد.....
کیونکہ.....
تیرے دم سے شان ھماری تجھ سے نام ھمارا......
لھذا......
جب تک ھے یہ دنیا باقی ھم دیکھیں آباد تجھے ھم دیکھیں آباد....
آمین
سحرش

ایک المیہ


ھمارے ملک میں صرف ٢فیصد خواتین یونیورسٹیز کی تعلیم حاصل کر پاتی ھیں....
ان دو فیصد میں سے بھی .٥ فیصد روسٹرم پر کھڑے ھو کر مباحثہ غیره کر پاتی ھوں گی...
پریزنٹیشن کے دوران بھی گروپ کا کوئی میل ممبر ھی منتحب ھوتا ھے روسٹرم پہ کھڑے ھونے کے لیے.....الغرض.....٢ فیصد کا بھی چو تھا حصہ.....
اور یہ تمام لڑکیاں اپنی اپنی کلاس کی پوزیشن ھولڈرز بھی ھوتی ھیں....با اعتماد اور ذھین بھی....لھذا یہ اپنے بارے میں اس خوش فھمی کاشکار بھی ھوتی ھیں که وه اپنی ذاتی "انسانی" شناخت رکھتی ھیں....وه بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کا حصہ نھیں ھیں شائد.....اور یہ بھی کہ پڑھا لکھا طبقہ ان کے ٹیلنٹ کی قدر بھی کرتا ھے....
لیکن پھر ایک صبح....شام جیسی صبح....انھیں پتا چلتا ھے کہجس روسٹرم پر کھڑے ھو کر وه بولا کرتی تھیں....جس روسٹرم پر کھڑے ھو کر ان کی آنکھوں کی چمک ھونٹوں کی مسکراھٹ اور ذھن کی رسائی کا ایک عالم مداح تھا....آج وه اپنی توقیر کھو بیٹھا ھے.....آج ایک مجرم خاتوں معتبر ھو کر اس روسٹرم کا اعتبار لوٹ کر چلتی بنی ھے...اور آج بھی پوری قوم اس کے بالوں کے رنگ اس کے ابرو کے تیکھے پن اور چاک گریبان پر جان وار رھی ھے آج بھی قوم اس کی ایک نظر التفات پر جان جان آفرین کے سپرد کرنے کو تیار ھے....تو پھر دو فیصد میں بھی ممتاز ھوئی ان تمام خواتین کا دل کرتا ھے که آگ لگا دیں اپنی ڈگری کو جس کی وقعت اوقات یہ هھے کہ سمگلرز آ کر لیکچر دیں.....یہ پوری قوم کہ منہ پر بھی تمانچہ ھے که......یہ لو.....سمگلنگ کرکے کیسنو خرید کے برج خلیفہ میں جائیداد لے کے.......کسی "بڑے" آدمی کے ساتھ عیاشیاں کرکہ بھی....میں باھر آؤں تو تم لوگوں کو اپنے لیے تالیاں پیٹتے ھوئے اؤں....کیونہ..غلام ایسے ھی آقاؤں کے جرم کو فینٹیسائز کرتے رھے ھیں...لھذا تم بھی میرے حسن کے قصیدے پڑھو....اور مجھے مصوم بھی ثابت کرو....ھو سکتا ھے اگلے سال میں رمضان ٹرانسمیشن بھی کروں لھذا.....مجھ سے دعائیں کروانا مت بھولنا..... کیونکه......غلاموں کی تقدیریں نھیں بدلا کرتیں....ذھنی غلاموں آؤ سیلفی لو ایک میرے ساتھ تاکہ تم اپنے ورثے میں چھوڑ کہ جا سکو اپنی اگلی نسل کے لیے...
سحرش

کچھ


یہ ان دنوں کا قصہ ے جب ہم باورچی خانے کےبرادر اسلامی ملک ہوا کرتے تھے۔لہذا جیسا کہ نام سے ظاھر ہے۔ تعلقات کی نوعیت بھی برادرانہ ہی  تھی۔جسے پنجابی میں شریکا بھی کہا جاتا ہے۔

صورت حال کچھ یوں ہوتی کہ جونہی باورچی خانے میں قدم رنجہ فرماتے۔پورا برادر اسلامی ملک میرا مطلب ھے باورچی خانہ ھمارے خلاف اعلان جنگ کر دیتا۔برتن پتھروں کی مانند،ہمارے  سر پر برستے اور اکثر ہاتھ پیر زخمی کر جاتے۔نمک، مرچ مصالحے اپنے اپنے مورچوں ڈبوں سے اوڑھ اوڑھ کے کھانسی چھینکوں کی صورت ہمسے دشمنی نکالتے۔ساری ایلکٹرونکس (برقی آلات) ھاتھ لگاتے ہی کاٹ کھانے کو دوڑتیں۔گلاس اور کپ توہمیں دیکھتے ھی مارنے کو لپکتے اور اس کوشش میں جان جان آفرین کے سپرد کر کے ھمارے یو این یعنی کہ ھماری اماں سے سفارتی تعلقات خراب کر جاتے۔چاکو چھریاں تو بنی ہی کاٹ دینے کے لیے۔ سو ان سے کیا شکوه کرنا.....اور تو اور کیچپ تک ھمارے دامن کو داغدار کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتا۔لیکن ہم بھی ڈٹے رھے اور ہم نے بھی اپنے "نیشنل انٹرسٹ کو ہی مدنظر رکھا اور تمام تر سازشوں کا مقابلہ کرتے رہے
اب آپ سے کیا پرده اس معاندانہ آئی مین برادرانہ تعلقات میں ھماری پالیسیز کا بھی عمل دخل تھا
گم بھی ہمیشہ برادر ملک کے ابو کا رول ھی ادا کرنے پر تلے رہتے۔اور کبھی اس کی ایکسٹرنل انٹیگرٹی کا احترام نہ کیا تھا
ھم ہمیشہ کسی فاتح کی طرح کسی بدمست ھاتھی یا آواره خرام گھوڑے پر سوار باورچی خانے میں گھستے....اور تمام تر سفارتی آداب کو پس پشت ڈال کر ھمیشہ برتنوں والی ٹوکری کو جھنجھوڑ ڈالتے۔جس کے نتیجے میں وہی۔۔۔جنگ۔۔تمام برقی آلات کو الٹا چلا کر چیک کرتے۔۔بلینڈر میں گاجریں جوسر میں پیاز اور چوپر میں گرم مصالحہ....کبھی پیلر سے تربوز چھیل رہے ہیں تو کبھی بیلن سے روٹی سیکھ رہے ہوتے۔ غرض کہ ہم اپنی ذات میں وه تمام تر جملہ خصوصیات رکھتے تھے۔جو کسی بھی " برادر" ملک سے تعلقات میں ضروری ھوتیں
ھمارے یہ برادرانہ تعلقات جاری رہتے....جوہم "خطے" میں تنہائی( ریجنل آئیسولیشن) کا شکار نہ ھو جاتے.....یو این میں پیش کی جانے والی ھماری ہر قرارداد بلا دیکھے رد کر دی جاتی....یوں ہم اپنے تعلقات پر نئے سرے سے غور کرنے پر مجبور ھوۓ...( نیو سٹرٹیجک آرڈر)
لھذا ھم نے اپنے رویے پر نظر ثانی کی اور ھم دونوں نے ایک دوسرے کی انفرادی حثیت کو تسلیم کر لیا....جس کی بدولت اب ھم پر امن بقاۓ باہمی....( پیس فل کو ایگزسٹنس)کے قائل ھو گئے ہیں....
سحرش

آخری فیصلہ


کس بات کے کا شرف کاہےکا امتیاز جب انسان مشکلات کا حل ھی نه نکال سکے.....طاقت کا استمال تو درندے بھی کر لیتے ھیں....تمھارا تو امتیاز ھی اسی میں ھے کہ......تم غوروفکر کرو.....تدبر اختیار کرو...
کیونکه.....مسئلہ حل ھوجاتا ھے پریشانی مشکل ختم ھو جاتی ھے......پر اس میں اختیار کیا جانے والا رویہ اد رھ جاتا ھے....ھماری پھچان بن جاتا ھے....اور پسند ھماری ھوتی ھے......درندے کے طور پر جانے جانا چاھتے ھیں ھم.....یا آدمی سے انسان کی طرف اپنا راسته استوار کرنا چاھتے ھیں
آخری فیصلہ بھرحال ھمارا ھوتا ھے

محبت کا سراغ


چوده پندره سال

 ھم تو یونیورسٹی میں تھے۔اور ہر وقت اسی سوچ میں غلطاں رہتے کہ کب کسی کلاس فیلو سے دنگا کیا جائے۔کس کو کٹ لگائی جائے۔لائیبریرین کو دھوکہ دےکر  چار کتابیں اپنے کارڈ پر ایشو کرائی جائیں
ٹیچر کی موجودگی میں موبائیل کیسے استعمال کیا جائے
اور ویک اینڈ سے پہلےیا بعد کی چھٹی کو کوئی قانونی یا  اخلاقی جواز میسر آجائے۔ تو یوں لگتاہفت اقلیم کی دولت ہاتھ آ گئی ھے
عید کے بعد عید ملن پارٹی کی اجازت ملنا یوں تھا ایک اور عید ھوگئی ۔اور ہاں  وه میچنگ نیل کلرز۔پھر ان کا نہ محسوس سا مقابلہ۔فری پیریڈ میں ٹیچرز کی ممیکری.....یہ تھیں خوشیاں
ایچ او ڈی کے آفس کے سامنے بلی کے بچے رکھ دینا اور شرط جیت کے پوری کلاس کاکینٹین پر دھاوا بولنا
دوسرے ڈیپارٹمنٹنس میں جا کرکہنا کہ میرا بھائی پڑھتا ھےیہاں اور اس سے ملنا ہے ن....یہ تھیں جرائتیں
محبت!!!!!! ھاں تھی نا۔نیوز پیپر سٹینڈ سے، جہاںر کھڑے ہو کر کل عالم پر کامنٹس پاس کرتے تھے
اس چھوٹے پپی سے بھی تھی جو آئی ایل کی کلاس میں گھس آیا تھا۔اور ھماری دیکھا دیکھی ساری کلاس کی لڑکیاں کرسیوں کے اوپر کھڑی تھیں۔ ٹیچر حیران اور پورا ڈیپارٹمنٹ پریشان۔جب ساری عوام اکٹھی ھو حیراں و افتاں کھڑی تھی تو ھم پپی کو اٹھائےباہرچھوڑ آئےتھے
لیکن ایسی محبت نہ تھی کہ دنیا سے گزر جاتے۔ایسی کوئی حالت نہ تھی کہ ھم رہیں گے یا پھر محبت
یہ ہمارے بچے کن بند گلیوں کی مسافر بن بیٹھے ہیں۔کوئی پکڑے کوئی ان کو روکے۔نسلوں کا معاملہ ہے......خدارا یوں چپ مت رھو

احساس کے بلبلے

کچھ لوگ پانی کی طرح ھوتے ھیں....چاہے انھیں سالوں چولہے  پر دھرے رکھو۔۔۔ حشک تو ہو جاتے ھیں ابل کے باھر نہیں آتے..جسے پانی کھولتا بھی ھو تو بس اپنے اندر ھی اندر کہیں بلبلے بناتا رھتا ھے....کبھی اپنے "برتن" سے اچھل کر باھر نہیں آتا.....
اس کے برعکس دودھ کی سی تاثیر والے لوگ بھی ھوتے ھیں....جو ذرا سی تپش بڑھتی نہیں ھے اور پیمانہ  توڑ ا۔۔چھل کر باھر آجاتے ھیں.....
اور ھم بھی بھاگ کے جا چولہا  بند کرتے ھیں کہ مزید نقصان نہ ھو.....کیونکہ ھم بھی یہ ھی سمجھتے ھیں جو پھٹ پڑتا ھے صرف اسے ھی برا لگتا ھے....جس کا پیمانہ چھلک جاتا ھے صرف وه ہی محسوس کرتا ھے.....جو اپنی ذات میں بلبلے بناتا کھولتا رھتا ھے اس کا درد کوئی محسوس نھیں کرتا.....
سحرش

اے ارض وطن


پہلے میں جب بھی کافی پیتی تھی تو ہر منظر دھندلا جاتاتھا....میری کتابیں ان پر دھرے ھائی لائیٹرز ایک دم دھند میں لپٹے ھوئےنظر آنے لگتے تھے....میرے کمرے کی کھڑکی سے باھر کا ہر منظر..."دور" کا منظر لگنے لگتا تھا......
پھر ایک دن.....سہانی  سی ایک گلابی شام میں جب میں نے کافی کی کرواھٹ ہنس کے پینے کا فیصلہ کر لیا تو بے دیہانی میں آنکھوں پر سے چشمہ اتار ڈالا.......بس پھر کیا تھا میری تو دنیا روشن ھو گئی ھر منظر صاف شفاف دکھنے لگا.....
اور میں بے ساختی کہہ اٹھی.
شکریہ نواز شریف.....
کیونکہ میں "جمھوریت" پسند ھوں۔۔ جرنیلوں کا شکر ادا کرنا گوارا نہیں مجھے ...
نوٹ:
سب کامنٹس میں ایک دفعہ لکھتے جائیں.......
اے میرے وطن تجھ سے تیرے اندھیرے مٹائیں گے ھم
یہ اس بات کا ثبوت ھوگا کہ ابھی پاکستان میں ھیں سب
سحرش

کبھی ہوسٹ لگائو تو اس طرح


کبھی پوسٹ لگاؤ تو اس طرح...
کہ شاعری کی ساری تمازتیں..
وال کو دھوپ دھوپ سمیٹ لیں....
فیس بک کو رنگ رنگ نکھار دیں....
تمھیں حرف حرف میں سوچ لیں...
شاعری کرنے کا جو میرا شوق ھے ..
سو دیار شعر کی تیرگی...
کو ایڈٹ کی نوک سے نوچ لیں...
کبھی پوسٹ لگاؤ تو اس طرح.....
کہ بحر وزن میں اتر سکے....
تو حواس بن کہ بکھر سکے....
میرا ٹیلنٹ پھر غزل بنے...
کبھی لکھ جو پاؤتو اس طرح...
میرے ھاتھ پھر سے کی پیڈ پر ھوں..
کبھی پوسٹ لگاؤ تو اس طرح...
میری شاعری بھی نکھر سکے کبھی لکھ جو پاؤ تو اس طرح...
جو نھیں تو پھر بڑے شوق سے....
سبھی آئیڈی سبھی پوسٹیں...
کبھی دھوپ چھاؤں میں توڑ دو...
نا شکست دل کا زحم سہیں....
ناھی شاعری سے ڈپراویڈ رھیں....
نا کسی سے اپنی شاعری کھیں....
تم بھی خوش پھرو....
اور ھم بھی.....بھت ھی حوش پھریں...

تدبر


کس بات کے کا شرف کاھے کا امتیاز جب انسان مشکلات کا حل ھی نہ نکال سکے.....طاقت کا استعمال تو درندے بھی کر لیتے ھیں....تمھارا تو امتیاز ھی اسی میں ھے کہ......تم غوروفکر کرو.....تدبر اختیار کرو...
کیونکہ.....مسئلہ حل ھوجاتا ھے پریشانی مشکل ختم ھو جاتی ھے......پر اس میں اختیار کیا جانے والا رویہ یاد رہ  جاتا ھے....ھماری پہچان بن جاتا ھے....اور پسند ھماری ھوتی ھے......درندے کے طور پر جانے جانا چاھتے ھیں ھم.....یا آدمی سے انسان کی طرف اپنا راستہ استوار کرنا چاھتے ھیں
آخری فیصلہ بھرحال ھمارا ھوتا ھے
سحرش

Monday 25 January 2016

مزاح پارے

دوھزار پندره میں ملنے والے کچھ "پیارے" لوگوں کے نام
جو خیال تھے نہ قیاس تھے وھی لوگ مجھ کو ٹکر گئے
مجھے کسی طرح سے جو نہ   راس تھے
وھی لوگ مجھ کو ٹکر گئے
ان سے کیسے جان چھڑاؤں میں انھیں او ایل ایکس پر بیچ آؤں میں؟
وه جو لوگ مجھ کو ٹکر گئے

Sunday 24 January 2016

ایک لمحہ


بیتے ھوئے لمحے ٹھر جائیں تو گزارنا مشکل ھو جاتے ھیں...ایسا ایک لمحہ پوری حیات پر بھاری ھو جاتا ھے.....آپ لاکھ اوپر اٹھنا چاھیں....لاکھ سمجھائیں خود کو...فلسفوں دلیلوں....منطقوں کے انبار لگا دیں.... لیکن آپ کے اندر کوئی مستقل اسی لمحے میں جیتے رھنا چاھتا ھے....وه جس میں بچھڑا تھا کوئی....جس میں اعتبار کھویا تھا زندگی پر سے....وه جس ایک لمحے میں آپ کا تارا ٹوٹ کر شھاب ثاقب بن گیا تھا.....اور آپ کی زندگی کے آسماں کے ھاتھوں سے چھوٹ کر زمیں کی بے انت پستیوں میں کھو گیا تھا....
وه ایک لمحہ ٹھر جاتا ھے....اور آپ تمام عمر بے یقینی کی کیفیت میں یہ سوچتے رھتے ھیں کہ...آپ کی گرفت اتنی کمزور تو نہ تھی جو وه تاروں کی طرح ٹوٹا....خوشبو کی طرح روٹھا...یقین نھیں آتا کہ ھم اتنے بے مایابھی ھو سکتے ھیں ایک خواھش کو پورا نہ کر سکیں.....ایک شخص کو اپنا نہ بنا سکیں.......ایک صرف ایک لمحہ....اور ھر خواب سے دستبرداری....ذات کا اعتبار طنطنہ.....مان اور زور بازو کا غرور.....قسمت کے سامنے سرنگوں ھو جاتے ھیں....اور انسان اس تقسیم پر.....خواھشوں کی پامالی پر سراپا احتجاج بن جاتا ھے.....وه نارمل زندگی کی طرف لوٹ آتا ھے.....ھنستا بولتا بھی ھے.....لیکن اندر کھیں دور بھت دور.... ضدی بچے کی طرح سردیوں کی بارش میں گیلی زمین پر بیٹھا رھتا ھے......موسم کی سختی سے بے نیاز.....بیمار پڑ جانے کے خدشے کو روندتے ھوئے.....بس اسی ایک لمحے میں زنده رھنے کے لیے.....انسان شکوے کرنا چھوڑ دیتا ھے......کیوں کہ سراپا شکوه بن جاتا ھے....
سحرش

Saturday 16 January 2016

چھوٹی بہن کے نام



!بالکل  بھی نھیں عزیزی ماریہ دیا
تمھارا خط نہیں ملا جو اس بات کی علامت ھے کہ آپ اپنی "بے ادب" روش پر ھنوز قائم ہیں
جان کر خوشی ھوئی غلط ہی سہی بھر حال سٹانس تو ھے
بحرحال آپ کی پیدائش کے اس انتہائی "غیر" پر مسرت موقع پر میں کچھ لفظ آپ پر ضائع میرا مطلب ھے وارنا چاھتی ہوں
پہلی بات تو یہ ہے کہ خدا کرے میری عرض پاک پر اترے وه فصل آلو کہ جیسے اندیشہ زوال نہ ھو...یعنی کہ تم اور تمھارا آلو جانی بلیوں پر ایسے ھی پریم کہانی لیے گیت گاتے رھو گنگناتے رھو..
دوسری بات اس سال کے لیے کہ الله کرے سموسے پکوڑے کیلے بریانی زنگر شوارمے جلیبیاں اور کوک تمھارے نصیب میں ایسے لکھ دی جائیں   
جیسے سیاستدانوں کے نصیب میں بے عزتی یا پھر جیسے جیو کے نصیب میں عامر لیاقت..


تیسری دعا یہ ہے کہ تمہاری خوشیوں کی عمر بھٹوجتنی ہو۔جو ہمیشہ زندہ رہیں۔اور ان کے مخلاف بلاول جیسے ہوں۔جن کی دیکھ کر ہی ہنسی آجائے۔
اور اگلی دعا یہ کہ اس سال تمہارا تمیز والا تمہارا خانہ پاکستان کے قومی خزانے کی بجائے پٹواریوں کے ذاتی خزانے کی طرح جیسا بڑھ جائے۔



اور تمھاری کتاب "دوستی تھوڑی ہی سہی، پر کم ہوجائے
 اور آخر پر یہ کہ تمھاری برتھ ڈے کی چاکلیٹس میری کپبورڈ میں پڑی ھیں جن کو پیش کرنے کا یقیننا آپ مجھے موقع عنائت فرمائیں گی..
 اورمیری چاکلیٹس پر نظر رکھنا چھوڑ دو 
خوش رھو ایسے بہت سوں کہ سینوں پر مونگ دلتی رھو....اور ھاں اب چونکہ شناختی کارڈ کی عمر کو پہنچی ھو  اورخیر سے یونیورسٹی سدھار گئی ھو تو سنو!ڈائریکٹ بدتمیزیاں کم کردو...کچھ لوگوں کے جواب میں پریکٹیکل تھپڑ مارنا سیکھو...اور ہرکسی کو اس قابل بھی مت سمجھو کہ جواب دو...
کبھی کبھی اگنور کے چابک سے بھی ہانکا کرو ،غیر ضروری عناصر کو۔۔
کرکٹ  اورٹینس کھیلتی رھو سیلفیاں بنایا کرو..بیچ بیچ میں پڑھ بھی لیا کرو
تمھاری بلکہ سب کی پیاری 
آنا

Thursday 14 January 2016

مزاح پارے


زندگی عجیب ڈگر پر چل نکلی ھے واٹس ایپ کھولوتو "ان کی امی ان کے ابو"ھو رھا ھوتا ھے
رات کو آخری پہر فیس بک پر نظر دوڑاؤ تو کوئی نہ کوئی دوست "ان" کو پیاری ھو چکی ھوتی ھے۔بات یہاں تک محدود ہوتی تو بھی ٹھیک تھی۔ تصویروں، کہانیوں، قصوں کا جو طوفان بد تہذیبی برپا ھوگیا ہے۔ اس کی صورتحال اس سے پہلے اتنی گھمبیر نہ تھی۔لوگ اپنی سپائوز کے ھاتھوں، پیروں، انگلیوں، ناخنوں، شرٹس، جوتوں کی تصویریں تو ایسے ایپلوڈ کرتے ہیں جیسے وہ ڈائون سینڈروم کا شکار ہے اور گواچ گیا تے لبھنا کوئی نہیں۔
غضب خدا کا جن کو ٹائی ٹینک کے ہجے بھی نہیں آتے تھے۔ وه بھی ایوری نائٹس ٹیگ کرتا "اسے" ھن دسو ایتھے بندا کی کرے جنوں کلاس فور تو چار نمبر دی عینک لگی اے او وی کیندی پھردی اے ۔اکھیوں کا اجالا پردیسی لے گیا
حق ھاه باجی او پردیسی نو کار دس ھاں اکھیاں بلور کی شیشے کی جوانی۔ہمیں کیوں اپنی لو سٹوری کا چشم دید گواه بناتی ھو؟؟او وی بعد از شادی۔ ویسے بڑی کوئی منحوس حرکت ھے۔منحوس سے یاد آیا۔ نئی سنو وه جو کلاس میں ایک دوسرے کو بھائی بہن کہتے نھیں تھکتے تھے آج ان کی پروفائلز پر ایک دوسرے کے ساتھ شادی کی تصویر تھی اور تصویر میں ایسا جوڑا بھی موجود تھا جس کے بارے میں آدھے ڈیپارٹمنٹ کو یقین تھا کہ نہیں  دیندا اینوں کوئی کڑی 
اور تو اور جسے بچپن میں اماں بھی کہہ دیتی تھی "کوجا" او وی اج کل موچی کو کٹنگ کرا اورنج "بو" لا کر اپنے الوں لینارڈو ڈی کپریو بنی پھردا اے۔تے ٹائم لائن تے ٹی پلس اے لکھ دا اے۔ جیوں جیویں ٹی پلس اے۔ لکھن نال ٹمبکٹو تو امریکہ تک اودی دھوم مچ جانی۔
ہم ہی ڈنگر تھے۔ جولڑ جھگڑ کر فساد ڈال کرکٹ پھینٹ کر زندگی گزار گئے۔لوگ تو وہاں بھی اپنے اپنے مقاصد حاصل کرنے چلے آئے تھے۔غزل بھی گائی تو کیا اک ھجر جو ہم کو لاحق ہے
ڈرامہ بھی کیا تو سوشل ایولز پر
تقریر بھی کی، تو ڈائس پر
پر عوام.!!! وه جس کےگلے میں نانا پاٹیکر فٹ ھے۔ وه بھی کہہ رھی ھے جو وعده کیا وه نبھانا پڑے گا
میں صرف یہ پوچھتی ھوں۔ وعده لیتے دیتے وقت ھم سے مشوره نہیں  لیا تھا تو اب کیوں ہمیں سناتی ہو...جانا ہے، تو جاؤ نہیں تو رہو گھر۔۔ہونہہ
کہاں تک سنو گے؟ کہاں تک سناؤں؟
لوگوں کے ہر مہینے سسرال سے شاپنگ آتی ہے...اور ہمارے زیاده سے زیاده ہر دو مہینے بعد پیپر چلے آتے ہیں۔ جیسے ہم پیپرز کی بہن کا سسرال ہوںں
لوگ کارنیٹو ٹائم مناتے ہیں 
ھم باره سبجیکٹس کا ٹائم ٹیبل بناتے ہیں
لوگ لانگ ڈرائیو پر جاتےہھیں
ہمیں زیاده سے زیاده گھر والے اکیڈمی بھیج دیتےہیں
لوگ ماے لو کہ سٹیٹس لگاتے
ھم ایگزیمز کی دھائی دیتے ہیں
حق ھاه....
لوگ ایٹنگ، فیلنگ، ڈرنکنگ، جوکنگ، جوگنگ، سرچنگ سب کچھ فیس بک پر ہی کرتے  ہیں اور ہم ایک کامنٹ کر دیں تو حساب دینا پڑتا ھے کہ بولو۔ کاھے کو وقت برباد کیا
حتی کہ ڈائیووکی ہوسٹس بھی فون پر کسی کو کہتی ھےبہت خراب ہیں آپ
اور ہم بھائی کو بھی کال ملائیں تو آنٹی کہتی ھے فون میں کریڈٹ اور سسٹم میں مطلوبہ سھولت میسر نھیں لہذاا نکلو تے پڑھو
ھم بھی مان لیتے اس کی بات
چلتے ھیں گلوبل کموڈٹی ایکسچینج ہی ہے ہماری قسمت میں۔ھومن جہاں دیکھنے دو دنیا کو
آه!! زخم جب بھی کوئی ذہن و دل پر لگا

Wednesday 13 January 2016

مزاح پارے


مجھے امید ہی نہیں، یقین ھے تم ٹھیک ھو بالکل۔ اس لیے نہیں کے،فوٹو میں ٹھیک لگ رھے تھے-بلکہ اس لیے کہ تم نے پچھلے خط کا جواب بھی حسب معمول تاخیر سے دیا تھا

...میں کھنی آں آپ ای سدھر جاؤ تسی تے بھتر اے مینوں نان وائیلنٹ ای رھن دیو......
سو ونٹرز بیگین ھمممم....
ان کرسمس کی چھٹیوں میں تو آؤ گے نا کہ تب بھی وھاں سانتا کلاز کا کاسٹیوم پہنے گفٹس بانٹنےھیں تم نے....
ویسے تم بھی اپنی نوعیت کے واحد سانتا کلاز ھوگے جس نے معصوموں کی بجائے۔۔ پھپے کٹنیوں میں بانٹنے گفٹ...میں قسمے بڑے شدید غصے اچ آں او جیڑی بلونڈ ڈائی والی ڈایریا وائٹ اے اونے میری کو پنجابی اچ گالیاں کھانیاں نے....ایڈے کادی ھمسائیگی اے جیڑی او تواڈے لان ایچوں ای نھیں باھر نکلدی....وڈی ایلیسیا تے ویکھو....
ایلیسیا سے یاد آیا....سنو! جان سنوو مر گیا.....ھاااا کیا رچ ڈائیلاگ بول کے مرا ھے...
یو نو جان سنو! یو نو نتھنگ..
YOU know Jhon Snow YOU know nothing...
خیر یو نو نتھنگ سے یاد آیا تمھاری بہن کا فیانسی زیاده نھیں ھیرو بنتا___ سمجھتی تو تمھاری بہن بھی خود کو ھیروئن ھی ھے کل میرےساتھ مارکیٹ گئی تھی کہتی تھی۔۔ اکیلی نھیں جا سکتی "انھوں" نے منع کیا ھے....کہتی۔۔ گانا واٹس ایپ کیا انھوں نے مجھے
اکیلی نا بازار جایا میری جاں زمانہ ٹھیک نہیں.
دل تے میرا کیتا کھواں تے جان کیڑا پیدل عمره کر کے آئی اے او وی نھیں ٹھیک کر درست لے گی....پر عادت نھیں ھے مجھے منہ پر بات مارنے کی.....
ورنہ تمھاری بھن جیسی فسادی طبیعت ھے میری...انے تے ھن تو ای اپنے فیانسی نو مٹھی. اچ کر لیا اے...ریسپیشن ڈریس وی اگلی اپنی پسند دا خریدن لگی اے....تے جیڑی میری بری بنائی سی تسی....کسے نه کم دی کوجی.....میری جگه تے کوئی ھور کڑی ھوندی تے اگ لا دیندی ایڈے نکمے سوٹاں نو.....مجھ معصوم پہ کیا کیا ستم ڈھائے ھوئے تم لوگوں نے معاف نہیں کرنا الله نے نہ توانوں نہ تواڈی فسادی پہن نو.....
تمھاری اماں کہتی ھیں میں تمھیں رپورٹیں پہنچاتی ھوں.....تو او جیڑی ٹواڈی پین دے رابطے نے اپنے فیانسی نال او تے پینٹا گان دی ھاٹ لائن اے نا۔ جیڑی نہ ھوئے تے دنیا تباه ھو جائے.....وڈی ھیلری کلنٹن تے ویکھو .....
میں آخری دفعہ بتا رھی ھوں اگر کرسمس کی چھٹیوں میں نھیں آئے تو پھر اپنےاور اپنی بہن کے مستقبل کو مخدوش ھی سمجھنا.....
مینوں اینا فسادیاں دے وس پا کے آپ تواڈا یورپ آڈٹ ای نہیں پیا مکدا.....
چلتی ھوں خط ملے تو جی میل پر میں نے افسانہ بھیجا تمھیں پڑھ لینا....
اور میرے لیے ھاؤس آف کارڈز کا نیا سیزن ڈائنلوڈ کر لینا...
تمھاری بہن کی شادی کی دعا گو
سحرش

To concerned Department !


ٹو کنسرنڈ ڈیپارٹمنٹ...
ندرت کو خط لکھنے بیٹھی تھی تو میری گولی (ٹیبلٹ) کے اوپر لال بتی جلنے لگی....بتی پر ھاتھ مارا تو معلوم پڑا ھاٹ میل پر تم مجھ نے سندیسہ بھیجا ھے مجھے....
تمھاری طرف سے آئے خطوط پر مجھے بے ساختہ دل دھڑکنے کا سبب یاد آجاتا ھے....
کبھی کوئی خیر کی خبر جو نہ آئی تمھاری طرف سے....جب بھی آیا اینٹرنس سرٹیفکیٹ آیا...ڈیٹ شیٹ آئی شیڈول آیا....پر آج تو تم نے حد کر دی....ریزلٹ ھی بھیج ڈالا....سنو تمھیں اپنی منحوس طبیعت پر کوئی شرمندگی نہیں ھے....اگر تم نائی ھوتے ناتو دس گاؤں کی فوتیدگیوں کی خبریں تم نے بریک کیا کرنی تھیں...
مشوره دوں تو ریٹائرمنٹ کے بعد کسی طلاق کے وکیل سے ڈیل کر کے میرج بیورو کھول لینا....اس کا روز گار لگ جائےگا اور تمھاری نحوست....
اوپر سے جو تم کل عالم کی نحوست پھیلا کے نیچے لکھتے ھو نا۔۔ یورز سینسیرلی کنسرنڈ ڈیپارٹمنٹ....یقین مانو کنسرنڈ بارے کنسرنز ھونے لگتے ھیں...
ویسے ایسے خلوص سے ھم باز آئے....
جس میں تم ڈائیرکٹ ابا جی
کو مخاطب کر کے ھماری طبیعت کی جولانی بارے سیر حاصل تبصره کرنے کے بعد مفید مشورے بھی دیتے ھو....میں پوچھتی ھوں میں نے آج تک لکھا ھے تمھارے ابا جی کو خط؟؟؟ تم بھی میرے تک محدود رھا کرو نا۔۔ ابا کو انوالو کرنا ضروری ھوتا ھے؟....فائن(جرمانہ) میرا تمھارا مسئلہ ھے نا مل کے حل نکال لیتے.....وه تو مین ھی عقلمند تھی جو گارڈئین والے خانے میں بھی اپنا نمبر اور ای میل آئیڈی دیا تھا....وگرنہ تم نے تو کوئی کسر نہ چھوڑی تھی مجھ معصوم کے ھاتھ پیلے اور منہ لال کرانے میں....غضب خدا کا....خط کے شروع میں لکھتے ھو ڈئیر مسٹر .......مجھے لگا تم سدھر گئے ھو.....پر ھائے۔۔ ری میری خام خیالی.....تم کہتے ھو آپ کی بیٹی یونیورسٹی میں دنگا فساد کرتی ھے....اے لو اب ایک سر پھاڑنے اور دو چار چپئیڑیں لگانے کو دنگا فساد کھا جانے لگا....
جی لگتی کہوں تو صاحب برداشت ختم ھو گئی ھے تم لوگوں کی نسل میں....کیا ھوا جو سنئیر کے ماتھے پر میرے آزار چار ٹانکے لگ گئے....سنو یہ ڈیپارٹمنٹ کا ڈاکٹر مفت کی تنخواه بٹورنے آتا ھے....ایک تو تم لوگوں کا بھلا سوچو اوپر سے ابا جی تک بات پہنچائو....سچ ھے بھئ بھلائی کا دور نہیں رھا.....
اور ھاں یہ جو تم مجھے خط میں ڈئیر سحرش لکھتے ھو نا۔۔ تو اس سے باز آجاؤ...کچھ اپنی عمر کا لحاظ کرو.....کسی نے دیکھ سن لیا تو کیا کہے گا....
تمھاری مخلص
ایک طالب علم....
سحرش

ندرت کے نام دوسرا خط


ری ندرت....
حالانکہ تمھاری ڈی پی دیکھنے کے بعد تمھیں پیارا کھنے کو دل تو نھیں چاه رھا...لیکن چلو پھر بھی شکسپئر کے مقولے...
Appearances are always deceptive...
کو سچ مانتے ھوئے....دل پر پورا ماؤنٹ ایورسٹ رکھ کے تمھیں پیاری کہنے کا جرم اور اعتراف جرم ایک ساتھ کرتی ھوں....
خط لکھنے کی وجہ یہ ھے کہ....بنو اب جب کہ تم آ ھی گئی ھو واپس تو سنو.....یہاں منطقیوں فلسفیوں کی بہتات ھے.....ایسا نہ ھو دو دن گزریں اور پتا چلے کہ بنو پھر سے دکھی اور دل گرفتہ ھے....
سنو! یہ دنیا ھے....یہاں ہرمسکرا کے ملنے والا دوست نھیں ھوتا اور نہ ھر کسی کے پاس یہھنر ھی ھوتا ھے کہ دوستی نبھائے....وه کیا کہتا ھے ابن انشاء....
یہاں اصلی کم بھروپ بہت....تو بس تمھیں بھی بہروپیوں سے بچ کر رھنا ھے اور اصلی سچے کھرے ٢٤ کیرٹ سونے کے جیسے دوستوں کی پرکھ کرنی ھے.....اب پوچھو گی وه بھلا کیسے ھو.....تو اس کا سیدھا سا کلیہ ھے....جو تمھاری عزت کرے....اور کروائے....ھاں بھئ کروائے...جس کی محفل میں ایسے لوگ ھوں جن کے لیے تمھاری ذات کا پندار اھم نہ ھو....تو لڑکی وه تمھارا دوست تو کم از کم نہیں ھو سکتا ایسے لوگ سے میل جول تو رکھو بات چیت بھی کرو پر ان سے درد دل مت کھو.....انھیں دوست مت بناؤ....اکیا ٹرم ھے بھلی سی.....ھاں سوشلائز کرو...کرٹسیز دکھاؤ....پر دوست....نا نا....
یہ زندگی ھے بنو....تو اگر زندگی تمھیں لیموں دیتی ھے نا تو تم لیموں پانی بنا کر پیا کرو....
If life gives u lemons,make lemonad....
اور چینی کم رکھا کرو....اب زندگی میں ترشی بھی نہ ھو تو کیا مزه بچے گا....
اور آخری بات سن لو....یہ جن کے لفظوں میں خالی برتن سی چھنک ھوتی ھے نا.....
وه اگر تمھیں کھیں نا کہ تم دنیا کی آخری حسین لڑکی ھو....یا پھر یہ کہیں کہ تمھارے بعد حسن کی تعریف وجود میں آئی تھی...تو یقین کیا کرو ان کی باتوں پر... ضرور یقین کیا کرو ان پر..لیکن وه بھی اپنے جملوں پر یقین رکھتے ھوں....یہ گمان مت پالنا....وگرنہ پھر اداسی ہی ہے...اور! اگر کبھی اداسی میں مسکرانا پڑ جائے نا....تو اتنے دل سے مسکراؤ...کہ ایک لحظے کو دل بھی پریشاں ھو جائے کہ.....یا وحشت...یہاں تو ابھی اداسی دھری تھی کہاں گئی....
اب چلتی ھوں....
خوش رھو...منطقیوں فلسفیوں کے سینوں پر مونگ دلتی رھو....
دوستوں کی پہچان کے مراحل طے کرتی ھوئی....
سحرش

ندرت کے نام


پیاری ندرت....
ویسے آپس کی بات ھے کتنی کو پیاری....چلو جتنی بھی ھو مجھ سے کم ھی ھوگی....
یہ بتاؤ ذرا...یہ کس قیامت کے نامے تمھارے نام آرھے ھیں آج کل...دیکھو اچھی بچیاں ایسے نہیں کرتیں...
اور یہ جو تم تمام خطوط کے بعد بھی خاموشی کی ردا اوڑھے دور جنگلوں میں ناراض بچے کی طرح کسی ٹیلے پر بیٹھی کن اکھیوں سے دیکھتی ھو نا.. .تو اس سے صرف دو ھی مطلب نکلتے ھیں...
یا تو یہ کہ تم داعش جوائن کرنے کے متعلق سوچ رھی ھو. یا پھر یہ کہ تم اداس ھو....
دیکھو اگر تو داعش واعش جوائن کرنے لگی ھو تو یہ تمھارا ذاتی معاملہ ھے اور میں کسی کے ذاتی معاملے میں نھیں بولتی.....
لیکن اگر اداس ھو تو سنو....یوں چپ چپ رھنے سے اداسی کم نھیں ھونے والی....اور اگر ناراض ھو تو یوں خاموش ره کے دل توڑنے کی بجائے کہیں بہتر ھوتا اگر تم ھاتھ پیروں کا استعمال کر کے دل دکھانے والوں کی ایک ادھ ھڈی توڑ دیتی. تین چار مہینے پلستر لگوا کے پھرتے....تو اگلی دفعہ جرأت نہ ھوتی ان منطقیوں فلسفیوں کی کہ کسی ندرت بارے بات کرتے. دیکھو جو کھتا ھو نا...اک پھل موتیے دا مار کے جگا سوھنیے....ھو سکے تو اسے گملے سمیت پھول دے مارو....تاکہ ساتھ ھی ساتھ خواب غفلت سے بھی جاگ جائے...اور تمھیں بھی اپنے برابر اپنے جتنے انسان کا درجہ دے سکے... لیکن یہ ھی تو مسئلہ ھے....
خیر تم کھو تو میں مدد کروں....؟؟؟
تم کہو تو سلیس پنجابی میں بلیغ گفتگو کروں....اب تم کہو گی کہ یہ کیا بدلہ ھوا....پگلی دنیا کی ساری زبانیں زبانیں ھوتی ھیں تھذیب ادب ثقافت کا امتزاج....لیکن پنجابی زبان اپنی ذات میں ایک ہتھیار ھے ھے... سیلف ڈیفنس ھے یہ زبان....خیر چھوڑو یہ زبان بیان کے قصے....یہ بتاؤ تمھاری طرف موسم کیسا ھے....مڈ سیزن کے کپڑے نکال لیے...یہ جو ناراضگی کے بعد والا پیریڈ ھوتا ھے نا۔۔ یہ بھی مڈ سیزن جیسا ھوتا ھے...نہ غصے کی گرمی لگتی ھے نہ رویوں کا سرد پن سلگاتا ھے....
کوئی فرق نھیں پڑتا لفظوں کے پنکھے چلاؤ یا نھیں....اچھا یہ کہو...یہ جرأت کیسے ھو گئی لوگوں کی کہ تم سےتمھاری ھنسی چھینیں....سنو لڑکی بلاوجہ کی امیدیں باندھو گی تو ایسے ھی ھوگا....
پرامید رھنے میں اور توقعات رکھنے کے درمیان جو فرق ھے اسے سمجھو....خوش رھو خوش فھیمیاں مت پالو.....خواب دیکھو....لیکن ان خوابوں کو سب معتبر سمجھیں...نہ۔ نہ یہ غلطی مت کرنا....
اور کسی کو یہ حق مت دو کہ تمھاری آنکھ میں موجود مسکراھٹ کے تاثر تک آ پہنچیں....یہ جو لوگ باتیں کرتے ھیں نا رنگوں کی....خوشبو کی....تتلی کی جگنو کی...
ان میں سے اکثر کے لفظوں میں خوشبو نھیں ھوتی....رنگ نھیں چھلکتے ان کے لہجوں میں....اور نہ ھی جگنو جیسے حرف ھوتے ھیں ان کے پاس....
بس خالی برتن سے کھنکھتے لہجے ھی ھوتے ھین ان کے پاس لبھانے کے لیے....سو.....ان کے لہجووں پر مت جایا کرو....بس سنا کرو اور ھنسا کرو....جہاں برداشت سے باھر دوراھے پر آ کھڑی ھو نا....وھاں وه راستہ اختیار کر لیا کرو جس پر یہ نہ چلتے ھوں...
چلتی ھوں....میں پر امید ھوں تم یہ خط پڑھو گی....لیکن جواب ملنے کی توقع وابستہ نہیں کی میں نے...
خوش رھو اور خط پڑھتی رھو....
آپ اپنی پیاری

مزاح پارے


ھیں تم میرے پچھلے خط کو سنجیده تو نھیں لے گئے
وه تو بس یونہی....تمھاری بہن نہیں تھی گھر...اماں بھی سر درد کے آزار منہ سر لپیٹ کر پڑی تھیں....میں بھی لگی شکوے کرنے...جانے دو...بتاؤ کیسے ھو؟
کہتے ھو اداس کر دیا میں نے.....تو چلو میں واپس لیتی ھوں اپنے الفاظ...
تم پھول بس چھوا کرو...
اداس مت ھوا کرو...
میں نھیں کہتی تمھیں آنے کے لیے...رھو وھاں...بندوبست کرلیا ھے میں نے تمھارا...
کل جیری کے ویزا سینٹر فون کیا تھا میں نے....وه آنٹی پوچھتی ھے کیوں چاھیے ویزا.....
میں نے بھی کہہ دیا ایک آدمی میرے ساتھ دھوکہ کر کے سٹک لیا ھے....اسے پکڑنے واسطے جانا میں....پوچھنے لگی فنانشل میٹرز تھے....میں نے کہا۔۔ ہاں....دیکھو فنانس تو بھرحال انوالو ہے نا۔۔ میرے تمھارے درمیان....تمھارا اور میرا میوچل اکاؤنٹ....جس میں تم پیسے ڈالتے ھو اور میں نکالتی ھوں....ھن بندا مل جل کے ای گزارا کردا اے نا....
خیر یہ تو تھی ضمنی بات....
اصل بات تو یہ ھے میاں!
تمھاری فسادی بہن میری پارٹنر ان کرائم ھے اس بار....
اب پوچھو کیسے تو وه ایسے میاں...کہ اچھے وقتوں میں پڑھ لی تھی ارتھ شاستر....
حکومت کرنے کے سارے گر آتے ھیں ھمیں...
وه الگ بات ھے کہ....
کی محبت تو سیاست کے چلن چھوڑ دیے ..
ھم اگر عشق نہ کرتے تو حکومت کرتے....
آلینے دو مجھے....کر درست لوں گی تمھاری "خوش اخلاق" کولیگز کو.....جڑ کے تے انج تصویراں بنادیاں نے جیویں کم دے میلے اچ وچھڑا پرا مل گیا اناں نو....
آج تمھاری بہن ایسکیپ پلین دیکھ رئی تھی....اے ٹائم وی آنا سی سلویسٹر تے....
یہ فلو کیوں نھیں ٹھیک ھو را تمھارا....فروزن یوگرٹ کھانا چھڈو گے تے فلو ٹھیک ھوئے گا.....ڈگریاں کر لیں میماں نال نوکری کر لئی...پر دھی کھان دا چاه نھیں لتھا....پینڈو...
سنو یہ مجھے ماسک چڑھا کر خط کا جواب دینا....کھیں فلو کے جرمز ھی نا پارسل کر دینا
جراثیم سے یاد آیا...وه تمھارا کزن نہیں تمھارے ماموں کا بیٹا....وئی جو کولھو میں سر دے کر تیل لگاتا ھے...کل آیا تھا....
انارکلی کے چست پاجامے سے زیاده ٹائٹ جینز تے اوتے پیلی شرٹ....بڑا ای زھر پیا لگدا سی....کیندا پابی جی پائین دا کی حال اے......میں کیا اودرے نے تیرے کو....جا اوتھے ٹر جا....کوئی دنیا ویکھ تینوں ھوش پھرے...منوسا...
ویسے مننا پے گا اونوں ویکھ کے مینوں ڈارون سچا لگدا اے....
چلو چلتی ھوں پھلے ھی دماغ کی لسی بنی ھوئی....تمھاری اماں سے ماڑی تماڑی کرتے....اوتوں تواڈی فسادی پین....
کاخان والی تصویریں لگاؤں گی....تے جے اودے تےتعریفی کامنٹس نہ آئے تے میں انسٹا گرام دے ویچوں نکل کر تواڈے پورے خاندان دے دند پن دینے نے....جیلس پپل
تمھیں شرٹس پارسل کی ھیں...کیمبرج کی...وینٹ ورتھ ملر جیسی ایک شرٹ....تے پا کے کسی فراڈن نال کافی پین نہ ٹر جانا....یاد رکھنا مینوں کوئی ثبوت مل گیا تے میں نائن ایم ایم نه "پوک" کراں گی دوواں نو.....
چلتی ھوں....قہوے کی ریسپی میسج کی ھے وه بنا کر پیو فلو کے لیے....
نھیں فلحال کچھ نھیں منگوانا....
تمھاری
منتقم مزاج
سحرش

مزح پارے


تو پھر طے ھوا نھیں آؤ گے تم....
تم نے لکھا ھے کہ اب بدل گئی ھوں میں....پہلے جیسی نھیں رھی....ھاں بدل تو واقعی گئی ھوں....یاد ھے تمھیں یونیورسٹی کے دنوں میں....میرا کوئی رنگ ریپیٹ نھیں ھوتا تھا....رنگوں سے عشق تھا مجھے....اور تم بھی تو کہتے تھے رنگ الہام کی طرح اترتے ھیں تم پر...گویا تم پر ھی اترنا تھے....اب تم بھی تو کہتے ھو۔۔ پیچ کلر میں موٹی لگتی ھوں....اور یہ سچ ھے....اب رنگ نھیں سجتے مجھ پر....تمھاری اماں صحیح کہتی ھیں میں سفیانے رنگ پھنتی ھوں....کیونکہ میرے رنگوں میں شوخی تم سے تھی....تم نھیں تو کیا کالا کیا سفید...سب ایک سے دکھتے ھیں...
تم پوچھ رھے تھے نا....کہ اپنی امی کی طرف کیوں نھیں جاتی....
میں اس لیے نھیں جاتی وھاں کیونکہ میری ماں کرید کرید کر پوچھتی ھے کہ میں تمھارے ساتھ خوش تو ھوں نا....مجھ سے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے جھوٹ نھیں بولا جاتا...کیا بتاؤں میں انھیں کہ میں خوش تو درکنار....سرے سے تمھارے ساتھ ہی نھیں ھو....میں وھاں جاتی ھوں تو ابا کے کندھے جھکنے لگتے ھیں...بتاؤ ایسی صورت میں کیا کروں....بیٹی کے باپ نھیں ھو نا....اس لیے تم نھیں سمجھو گے....باپ کی آنکھوں کے تاثرات اور بیٹی کی مسکراھٹ کے درمیان تعلق کیا ھے....میں وھاں جاتی ھوں تو بھائی بار بار پوچھتے ھیں کیا کھاؤ گی ۔۔کیا لا دوں۔۔۔ چلو کہیں باھر چلتے ھیں....بہن بیاہو گے تو ان جملوں کے مفھوم سمجھو گے....
تم نے اپنی مجبوریاں بھی لکھی ھیں....نھیں آسکتے....چھٹیاں نھیں ھیں آڈٹ چل رھے ھیں....سالانہ رپورٹ دینی ھے....اور پھر پاکستان میں گرمی بھی تو بہت ھے....
سنو! آج میری بھی مجبوریاں سنو.....
میں سارا دن تمھاری بہن سے الجھتی...نقص نکالتی..."پیاز" کاٹتے گزار دیتی ھوں....
پر.....
سہ پہر ہوتے ہی....سالٹ رینج کی ساری نمکینی میرے اندر اتر آتی ھے....دینہ سے پنڈی تک کی خشک پہاڑیاں میری آنکھوں میں اگ آتی ھیں....تمھیں پتا ھے....پلکوں کا درمیانی فاصلہ بحر مردار جتنا طویل اور تھر جتنا مشکل ھو جاتا ھے.....میرےسے پاٹا نھیں جاتا....میں گھڑی گھڑی فون کا پروفائل چیک کرتی ھوں کہ کہیں سائیلنٹ نہ ھو اور تم....تم فون کرتے رہ جاؤ....
لیکن تم......تم...تم نہیں سمجھو گے.....
تم اوروں کے ھاتھ تھامو۔۔۔ انھیں نئیں منزلیں دکھاؤ....
میں بھول جاؤں اپنے ھی گھر کا رستہ....تم کو اس سے کیا...
تم کہتے ھو دو آپشنز تھے...یا تو آڈٹ کرنے یورپ چلا جاتا یا گھر آجاتا...میں یورپ چلا آیا ایسی آفرز بار بار نھیں ملتیں....
سنو.....
تم موج مثل صبا گھومتے رھو...
کٹ جائیں میری سوچ کے پر..
تم کو اس کیا....
کل نالا کاخاں گئی تھی...اس کے ساتھ ساتھ چلنے کی خواھش تھی مجھے بہت دیر سے .....مجھے لگتا تھا نالا کو پاس سے دیکھا تو شائد....ھیر سے زیاده خوش قسمت ھوں

مزاح پارے


لو سنو! تمھاری اماں نے آج تڑکے ماری تماڑی کرتے ھوئے مجھ معصوم پر تمھیں پٹیاں پڑھانے کا الزام لگایا ھے...اور یہ پٹی بھی تمھاری بہن نے پڑھائی ھے انہیں....ویسے تمھاری اماں بھی بڑی باکمال خاتون ھیں..میں تم سے بات کروں تو وه پٹیاں پڑھانا ھے ..
تو جو تمھاری بہن جو ساراسارا دن اپنے فیانسی سے کرتی رھتی باتیں ...او اونوں ایمان مجمل تے ایمان مفصل پئی یاد کراندی اے....وڈی سیپارے آلی باجی تے ویکھو...
جو پچھلی دفعہ میں نے واٹس ایپ کی تھیں تمھیں تصویریں ویسا سیٹ بنوانے لگی تھی...پر مجال ھے جو تمھاری بہن کا آتنک مجھے کہیں چین لینے دیتا ھو... وھاں بھی گھس آئی کہنے لگیں بہت ھلکا ھے۔۔ نو لکھا سیٹ بنوا لیں....میں بتا رئی ھوں تمھیں یہ تمھاری بہن کی ویڑیوں والی پسند ناقابل برداشت ھوتی جا رئی ھے مجھ سے...
کہاں مین این سی اے کی گریجوائٹ اورکہاں
گوجر خان کی تمھاری حویلی.... میں تو اس دن کو کوستی ھوں جس دن بک فئیر پر تم سے تکرار ھوئی تھی....سچ بتانا یہ تمھاری بہن پچھلے جنم میں ویڑی تو نھیں تھی؟؟؟
اچھا سنو! لچھو باندری آئی تھی کل رضایئوں والا پرنٹ پہن کے...تے گلاں انج پئی کردی سی جیوئں آپ ماریہ بی, اے....قسمے اک تو اک نمونہ تواڈے خاندان اچ...
پچھلے خط کا جواب تین دن دیر سے ملا تھا...میں بینفٹ آف ڈاؤٹ دیتے ھوئے چھوڑتی ھوں...اب چلتی ھوں تمھاری فسادی بہن لاونج میں بیٹھی انڈین آئڈل دیکھ رھی ھے...ویسے او اپنے آپ نو وی لتا منگیشکر ای سمجھدی اے.....تے گلے اچ نانا پاٹیکر فٹ سو...
خیر...میں نے قلعه رھتاس کا اسکیچ بنایا ھے ھیڈر لگاؤں گی ٹیوٹر پر فیورٹ کرنا...
ھاں یاد آیا وه لڑکی کون ھے پنک ٹی شرٹ آلی....بڑا دوڑ دوڑ کی تصویراں لائک کردی اے تواڈی...یاد رکھنا میں بلیک بیلٹ ھوں..اور سیلف ڈیفنس پر سزا بھی کوئی نئیں....میں برگر ٹائپ کڑی نھیں جیڑی رو دھو فیلنگ بروکن لا کے، تے چپ کر جائے گی....میں لتاں پن دینیاں نے اودیاں وی تے اونوں ویکھن آلیاں دییاں وی...
اپنی بہن کی شادی کی تاریخ سوچ کر آنا وھاں سے.....اے کڑی نال مزید گزارا نھیں میرا....
وائبر ان انسٹال کر دیا ھے میں نے....میسنجر پر کر لینا کال....
تمھاری بلیک بیلٹ....شاعرانہ طبیعت کی مالک.....آپ کی بہن کے آزار۔۔ ڈپریس....
سحرش

مزاح پارے


سنو میرا خط ملتے ھی اپنے گھوڑے کی پیٹھ پر سوار سپر مین کے سہارے کا انتظار چھوڑ کر ائیر بلیو کی فرسٹ ایولیبل فلائٹ پکڑ کے گوجر خان پہنچو....میں نے سنا ھے ہڑتالوں کی بدولت ایئر بلیو کی ٹکٹس ممہنگی بک رہی ہیں بھئ خاقان عباسی ہے کچھ بھی کرے۔....
ھاں تو میں کہہ رھی تھی فورا پہنچو....وجوھات کے ضمن میں یہ بتانا پسند کروں گی کہ پیچھے تواڈی نکی پین نے آخر چکی اے....سارا دن ترکی ڈرامے دیکھتی اور اماں کو میرے خلاف پٹیاں پڑھاتی رھتی ھے....تمھاری اماں بھی تارتاریوں کی نسل سے لگتی ھیں مجھ معصوم پر ھمہ وقت گھیرا تنگ کیے رکھتی....
تم نے کتنے سھانے خواب دکھائے تھے مجھے راج کرانے کے....راج میں کٹہ تے سوا کرنا سی۔۔ الٹا کام کر کر کے میرے ھاتھوں پیروں کا بیڑا غرق ھو گیا ھے....سارے میرے نیل کلرز پڑے پڑے خراب ھو رھے مجھے لگانے کی فرصت نہیں ہے
مسکارا تک واٹر پروف نہیں ھے میرے پاس ۔۔جب بھی لگاؤں پیاز کٹوا کے دل کے ارمانوں کے ساتھ آنسوؤں میں ڈلواتی ھیں تمھاری اماں....اوپر سے تمھاری فسادی بہن ۔۔میں کہتی ھوں فورا پہنچو اور شادی کرو، اسکی.....اور ھاں جس طرح کے کنگن أس کیلئے لاؤ....
میرے ویسے مت لانا....مجھے ویسے بھی نازک زیورات پسند ھیں ان کی طرح کی ویڑیوں والی جیولری نھیں پہنتی میں
بحرحال میں تمھیں آخری دفعہ بتا رھی ھوں اس مہینے کے اندر اندر تم بہیں پہنچے تو میں چلی جاؤں گی امی کی طرف....
اور یہ تو بتاؤ ذرا....میرے کہنے کے باوجود تم نے ابھی تک اپنی پھوپھی کی بیٹی کو بلاک کیوں نھیں کیا فیس بک سے ....اور کل کس خوشی میں تم انسٹا گرام پہ اس کی فوٹو پی لوکنگ فیب کا کامنٹ کر رھے تھے....لچھو باندری جیئ ھے وے اوتوں جیڑا ھئیر ڈائی لایا سو۔۔ نکما.....
پوز اینج کردی اے جیویں سلمی ھایئک اے....سٹیٹس ویکھا سی اودا....مسنگ سم ون.....یاد رکھنا اے سم ون..سم ون ای رھنا چاھیے دا اے.....
آتے ھوئے میرے لیے آئی فون سیکس پلس لے آنا....اس فون سے دل چڑھ گیا میرا....
ویسے ٹیوئٹر پر فوٹو میں تو ٹھیک ھی لگ رہےتھے تم....پھر بھی اپنا حال واٹس ایپ پر بتا دینا....
تمھاری بہت سی، نہ ھو سکنے والی، کچھ لگتیوں کے سینوں پر مونگ دلنے والی ....تمھاری بہن کے ھاتھوں تنگ
سحرش

دوسرے خط کے جواب میں


تمھارا خط ملا...خوشگوار حیرت میں ھوں میں تم زیاده بولنے لگے ھو..لفظوں پر عبور تو خیر تمھیں پہلے بھی بہت تھا اب تو اور بھی ماہر ھو گئے ھو....
ھاں مانتی ھوں تمھارے لفظ جام ھوتے ھیں میرے لیے....
تاریخ ھی کی مثال ذھن میں آرھی ھے...وه کسی فرعون کی کنیز جس نے انگور گھڑے میں دبا کر رکھے تھے....تو جب وه درد شقیقہ سے مرنے لگی تو ان "خراب" انگوروں کا پانی زھر سمجھ کر پی گئی....اور دنیا کو ایک خماری سے آشناکردیاا س نے نادانستگی میں....مجھے بھی لگتا ھے میرے خطوط نے دنیا کو تمھارے لفظوں سے آشنائی دی ھے جن کو تم تاریخ کی بوسیده کتابوں میں کسی گمشده بستی کی مانند چھپائےبیٹھے تھے.
میری تاریخ سے دلچسبی غیر معمولی تو نہیں لیکن جب اپنے وجود میں کسی نامکمل تہذیب کو ساتھ لے کر چلنا پڑے تو تاریخ اپنے آپ دلچسپ لگنے لگتی ھے۔۔۔چلنا بھی کہاں بس گزاره ھے.
خود ترسی کی بھی خوب کھی....خود ساختہ خول کہاں...
بھئی
دل ھی تو ھے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آۓ کیوں
ھم روئیں گے ہزار بار کوئی ہمیں ستائے ھی کیوں.
کہو کولیسٹرول کی گولی کیوں کھانے لگے....اب کیا پودے نھیں اگاتے ھو...وه تمھارا پھولوں سے عشق کیا ھوا؟؟
تم تاریخ کے ھولناک "سنہرے" ابواب کی بات کرتے ھو سنو! حال بھی کچھ کم سنہرا نھیں ہے...پتھر دلوں کا دیس دیکھا ھے تم نے؟؟ کوئی ایسا شخص دیکھا ھے جس کو اس کی نزاکت رعنائی مار دے؟؟؟؟میں نے دیکھا ھے...محبت جرم بنتے ھوئے جرم انجام تک پہنچتے ھوئے اور کیا خوب انجام "پتھر"۔۔۔۔
میرے استعارے تشبہات سب چھو اورٹے کھوٹے ھوگئے ھیں اس ایک لفظ کے سنے....میرے احساس کی رعنائی ہار گئی ھے اس کو لکھتے ھو.ئے.تم نے تو لکھا تھا قتل و غارت گری کے انداز بدل گئے ھیں.....تو سنو پھر یہ ھمارے پہلو میں پرانے ڈارک ایجز کا روم کس نے برپا کر دیا تھا؟؟؟پڑھی ھے رومن کی تاریخ تم نے.....میں نے تو دیکھ بھی لی....میرا تخیل اکثر سیزرز کے محل میں بپا اس "میلے"میں جہاں انسانیت کی تذلیل پر آرذده ھو جایاکرتا تھا....بھلا ھو میرے عہد کا مجھے اس کرب سےبھی رھائی دی اس نے.....مجھے بڑی شدت سے احساس ھونے لگا ھے میں غلط دور میں پیدا ھوگئی ھوں...کبھی کبھی دل کرتا ھے زندگی سے کھوں...

اے زندگی ٹہر ادھر
میں زمانہ بدل کے آتی ھوں....
خیر.....پیلا رنگ نھیں پہنتی ھوں اب ۔۔چہرے کی گویائی پیلے رنگ کے ساتھ بڑھ جاتی ھے....اسی لیے شائد انگریزی ادب میں پیلے رنگ کو موت کی اداسی کی علامت سمجھا جاتا ھے...موت بھی تو بہت پر شور ھوتی ھے نا۔۔بے پناه بولتی ھوئی...شدید خاموش.
سنو تم جتنا بھی دائیں بازو پر جھکو تم اشتراکیت کے قائل نھیں ھو سکتے.....کیوں کہ تم کھونے سے ڈرتے ھو اور اشتراک میں کھونا ھی کھونا ھے___اور یوں بھی مارکس کو لینن کو "مان" لینے کے لیے حوصلہ چاھیے اور شیطان جیسی مستقل مزاجی...اورتمھارا خط چیخ چیخ کر تمھاری متلون مزاجی بتا رھا ھے...
تم کہتے ھو اس شعلےکو جانتے ھو جس کی حدت میں میں جل گئی ھوں....
سنو! لفظوں کے جادوگر۔۔۔برف پوش وادیوں کی سحر انگیزی بھی چنارہی مکمل کرتے ھیں...زندگی کا حسن بھی بیرونی محرکات کا محتاج ھوتا ھے..زبان کے میٹھے چشمے بھی ایک مدت کے بعد کھارے پانی میں نے تبدیل ھو جاتے ھیں..جب خیالات کے دریا اپنا رخ بدلتے ھیں تو زبان بھی سالٹ رینج کی طرح حشک نمکین اور کسیلی ھو جاتی ھے...
اور آخری بات سنو....متانت اور پر فریب شائستگی نھیں اظہار کے بعد کی بے توقیری کا خوف گلا گھونٹتا ھے ....میں لہجوں میں در آنے والی تھکن سےڈرتی ھوں
خوش ھی رھتی ھوں اور کوئی چاره جو نھیں ھے،،لیکن خیال نھیں رکھا جاتا خود کا
کولیسٹرول کنٹرول کرتے رھو پھول اگایا کرو
سحرش

خود اذیتی کے چند حروف


ایک سڑک کے دونوں اطراف دو متضاد دنیائیں بسا رکھی ھیں لوگوں نے....دونوں دنیائیوں کے تضادات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ھیں....جس رفتار سے ایک طرف سکولز بڑھتے جاتے ھیں اسی رفتار سے دوسری طرف جہالت بڑھتی جاتی ھے....ایک طرف ھوٹل کھلتے ھیں تو دوسری طرف بھوک برھنہ ناچتی ھے....ایک طرف مسجد کے مینار بلند ھوتے جاتے ھیں اور دوسری طرف مذہب مرتا جاتا ھے....ایک طرف بینک کھلتے جاتے ھیں دوسری طرف بھکاری پیدا ھوتے رھتے ھیں....سڑک کے اس طرف ہسپتال کھلتے ھیں...تو دوسری جانب بیماریاں جان لیوا ھوتی جاتی ھیں...
درمیان میں تارکول کی سیاه سڑک جو دونو ںطراف کی مشترکہ ملکیت ھے...وه خاموش چپ چاپ محو تماشا ھے کہ یہ اس کے دونوں اطراف میں شب وروز کیا تماشا برپا ھے....ایک ھسپتال میں کوئی زیاده کھا لینے سے جان بلب ھے تو دوسری طرف بچہ کوئی بھوک سے مر گیا.....

سڑک برسوں سے دونوں اطراف کی بستیوں میں کم اور مکینوں میں بڑھتے ھوئے فاصلے چپ چاپ دیکھ رھی تھی
پر آج سہ پہر مجھے لگا سڑک چلا اٹھی جب ایک بچہ اور ایک کتا نھیں کتے کا بچہ شائد ایک ھی کوڑے دان سے رزق تلاش کر رھے تھے....یا پھر کھلونا کوئی ٹوٹا ھوا......
آج سڑک نے بے ساختہ کہہ اٹھی........میری دونوں طرف قائم بستیوں کے مالک یہ کیسی دنیا بسا دی جہاں کھیں انسان نھیں بستے....جہاں لوگ انسانی تو کیا حیوانی سطح سے بھی نیچے زندگی گزار رھے ھیں جہان دونوں طرف ھی آگ ھے کہیں بھوک کی تو کہیں نہ ختم ھونے والی اشتہاء کی....کہیں جھالت کا ننگا ناچ ھے تو کھیں علم کی بے فائده بہتات.....سڑک کی خاموش گفتگو جاری تھی....مجھے حق نہ تھا پر ایک شکوہ میرا بھی.......
سڑک کے شکوؤں میں ایک سرگوشی میری بھی تھی......
میں تیری دنیا کے معیارات سے مطمئن نھیں ھوں
سحرش