Pages

Saturday 30 July 2016

The child inside your heart is still brave and alive


جب غم دنیا (دنیا کی جگہ دل پڑھا جائے) سے گھبرا کر آتی جاتی، چلتی پھرتی، سوتی جاگتی ہر شئے سے الجھنے لگتے ہیں۔آنکھیں سرخ کیے ہر شخص کو گھورا کرتے ہیں۔تو خدا جانے کونسا سگنل ہوتا ہے، جسے پکڑ کے سولو(پالتوکتا) پیروں میں لوٹنیاں لینے اور آتے جاتے گول گول گھومنے کی بجائے پنجہ آنکھوں پہ دھر کے اونگھتا رہتا ہے۔پنجرے میں سارا دن طوفان بد تہذیبی برپا کیے رکھنے والے پرندے بھی "اوئے چپپپپ" کی بجائے "شششش" سے سہمنے لگتے ہیں.بلیاں بھی دروازے کی نیٹ کھرچنے کی بجائے چپ چاپ دبے پاؤں سیڑھیاں اترتی چڑھتی رہتی ہیں.اور تو اور شیشے کو بجانے سے بھی جب تینوں چھوٹی مچھلیاں رسپانس نہیں کرتیں۔
تو سبلنگز کی مختصر جرنلزم ایک سطری رپورٹ پیش کرتی ہے کہ "چڑیا گھر ، مالکہ سمیت اداس ہے"
وجوہات وہی غم دنیا میرا مطلب ہے دل۔
تو ایسی صورت میں ہم سٹریٹ کی نکر پہ بنے سٹور سے دنیا جہاں کی چاکلیٹس خریدتے ہیں۔ پیدل چلتے ہوئے گلی سے باہر سڑک کے اس پار ریلوئے کوارٹرز کے ساتھ بنے پارک میں جا گھستے ہیں
جہاں ہر عمر کا بچہ اپنی مختصر سی دنیا میں رنگ بھر رہا ہوتا ہے۔کینچے کھیلتے ہوئے چھوٹے بہت سے شریر بچے
آنکھوں پہ پٹی بندھی بچی کے آگے دوڑتی قدرے سمجھدار بچیوں کی ٹولی
لڑتے جھگڑتے بچے اپنے اپنے مسائل سے نبرد آزماء بچے
جن کو دیکھ کر ایک دفعہ تو بندہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ وہ کونسی سیلف کری ایٹیڈ ہرڈلز تھیں جن کے آزار آپ کل عالم سے بیزار خود سے روٹھے بیٹھے تھے( جی ہاں کسی کی اپنے بارے میں پاس کی ہوئی چھوٹی ججمنٹس پر پریشاں پھرنا سیلف کری ایٹیڈ ہرڈلز ہی ہوتی ہیں)
آج شام تک بھی ایسا ہی دن تھا صبح سے دل گرفتگی اور زود رنجی اپنے عروج پر تھی۔سستی شبنم بننے میں تو یوں بھی ہم دیر نہیں لگاتے ۔اب کہ تو ہمارے پاس ویلڈ ریزن تھی۔ ارے وہی غم دل والی۔ تو ہم نے سوچا اس سے پیشتر کہ اماں ہماری زود رنجی کا علاج کسی دیسی ڈش میں ڈھونڈ کے اس قیامت کی حبس میں ہمیں  کچن میں کھڑا کریں کیوں نہ اپنے دوستوں سے ملا جائے۔وہی سٹور سے مین سٹریٹ، وہاں سے سڑک کے پار پارک میں جا گھسے۔بچوں کو ان کی آنکھوں کی بے فکری، اس پر بے ساختگی دیکھ کر اگر کچھ لمحوں کے لیے حیران ہو گئی تھی، رشک سے تو بے جا تو نہ تھا.
بے فکری کم نعمت تھی جو ظالموں نے ہنسنا بھی نہیں چھوڑا تھا.
پارک کے بچوں میں سے ایک نے دیکھتے ہی نعرہ لگایا باجی چاپلیٹ۔اور باجی بے ساختہ ہسنتی چلی گئی..بہت دنوں بعد اپنی ہنسی کی آواز سن کر فرحت کا سا احساس ہوا۔ اپنے ہونے کا گمان گزرا
بچوں سے چاکلیٹس کے بدلے کینچے کھیلنے سیکھے۔ ایک بچے نے بتایا کہ یہ جس چھوٹے ہول میں بڑی انگلی سے نشانہ لے کے اس میں کنچے ڈالتے ہیں اس ہول کو پلہ کہتے ہیں اور جس کا کینچہ چلا جاتا ہے اسے دوسرا فریق دو کنچے دیتا ہے۔
بچیوں نے ہاتھوں پہ لگی مہندی کے رنگ کے پیچھے چینی والے پانی کی کرامت بتائی اور ساتھ ہی بتایا کہ اگر گیلی مہندی والا ہاتھ دھو دیا جاے تو چڑیا رنگ بھی ساتھ لے جاتی ہے کیونکہ مہندی چڑیا کی اور رنگ ہمارا ہوتا ہے...
اور تین سالہ ایان نے کہا تیرا دھیان کدھر ہے۔ یہ تیرا ہیرو ادھر ہے...
اور میں واقعی سوچنے لگی کہ میرا دھیان کدھر ہے؟؟؟
چھوٹی چھوٹی ججمنٹس پر غصہ کرنا اور ری ایکٹ کرنا۔ یہ تو نہیں کرنا تھا زندگی میں۔دنیا تو یوں بھی گنبد کی سی ہے۔ یہاں ہر شخص اپنے لفظوں کی بازگشت سننے پر مجبور ہے..تو میں نے بھی کچھ لوگوں کو باز گشت سننے پر لگایا..
سیلفیاں بناتی بہن کو متوجہ کیا اور پارک سے باہر چلی آئی..
آج بچوں سے ایک اور بات سیکھی کہ صاف نیت والے وقتی طور پر الجھ ضرور سکتے ہیں، مستقل پریشان نہیں رہتے۔
میں تو واپس آگئی اپنے چڑیا گھر۔گلی کے سارے گھروں کے باہر سے پھول توڑتی ہوئی۔


بڑوں کے بچوں کے ساتھ بدلتے تعلقات اور رویے


ماؤنٹینز ایکوڈ، کے اندر بک مارک لگاتے ہوئے سوچ کا پنچھی اپنے اردگرد بکھری بہت کہانیوں کے تانے بانوں میں الجھ گیا۔ بہت سے بچے، ان کے اپنے والدین کے ساتھ تعلقات، بچوں پر اس تعلق کے اثرات، بہن بھائیوں کے کردار کی اک فرد کی زندگی میں اہمیت سے ذہن الجھتا الجھتا تعلقات کی نوعیت اور وقت کے ساتھ اس میں تبدیلی پر جا اٹکا۔
عمر کے اس حصے میں تو ابھی پہنچے نہیں کہ جہاں اپنا بچپن اور اس میں موجود خوشیاں ہی زندگی کا حاصل لگتی ہیں۔ ابھی ناسٹلیجیا کا وہ دور بھی نہیں آیا کہ بس اپنا بچپن ہی سہانا لگے۔ ویسے کبھی کبھی یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ ہمیں بچپن اس لیے پیارا نہیں ہوتا کہ وہ بہت شاندار زمانہ ہوتا ہے بلکہ اس لیے بھی خوبصورت لگتا ہے کہ اس دور کی بے فکری آنے والی زندگی میں پھر نصیب نہیں ہوتی۔ اس دور میں اپنی ہنسی کی آواز سننے کے لیے محنت نہیں کرنا پڑتی، انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ بس یونہی بلاوجہ ہی قہقہے پھوٹ پڑتے ہیں۔ مور کے پر ملنے کا مطلب ہوتا تھا کہ آپ دنیا کے بہترین بک مارکس کے حامل ہیں۔ بارش میں آنگن میں لگی انگور کی بیل اور اس پر اترتی چڑھتی گلہری۔گل دوپہر کے کھلنے کے انتظار میں کڑی دھوپ میں کیاریوں کا طواف اور اس پر اماں کی ڈانٹ۔ سوچ کر ہی مسکراہٹ ہونٹ سے آنکھ اور وہاں سے دل کے کسی گوشے میں پہنچ جاتی ہے۔
بچپن کی ایسی باتیں اب بھی میسر ہیں لیکن اب انھیں دیکھنے اور اسی محویت سے دیکھنے کی نہ تو فرصت ملتی ہے نہ ویسی خوشی۔ شاید گلہری کی شرارت کا تعلق بھی میرے بچپن سے تھا اور شاید پلاسٹک منی  کی طر ح اب ہم پلاسٹک بک مارکس کے عادی ہوگئے ہیں۔ اب ہر چیز اپنی افادیت کے پیراہن میں نظر آتی ہے۔شائد اسی لیے بھی ہمیں اپنا بچپن بہت پیارا ہوتا ہے کہ تب چیزیں فائدہ مند نہیں، خوشی دینے والی ہوتی تھیں
ویسے بات تعلقات کے انداز  بدلنے سے شروع کر کے اپنے بچپن اور گلہری کی شرارت تک لے جانا بھی کسی خاتون کا ہی خاصہ ہو سکتی ہے
خیر! تعلق تو واقعی بدل گئے ہیں۔ مثبت اور منفی ہر دو طرح کی تبدیلیاں۔ اب والدین اور بچوں یا یوں کہہ لیں بڑوں اور بچوں کے درمیان تعلقات پر اثر انداز ہوئی ہیں۔ بچہ چونکہ معاشرے کا مستقبل اور امید ہوتی ہے اور پورے معاشرے کی معاشرتی ذمہ داری بھی لہذا جب  بچوں کے ساتھ تعلقات اور ان پر اثر انداز ہونے والے عوامل پر بات ہوگی تو وہاں ہم سب کی بات بھی ہوگی اور سب کی ذمہ داری کی بھی
جہاں وقت نے تعلقات پر مثبت تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ جیسے دوستی، بے تکلفی، کو رواج دیا ہے اور والدین  یا بزرگ، جہاں خوف کی علامت نہیں رہے، وہیں پر وقت نے تعلقات کی بہت سی خوبصورتیاں بھی چھین لی ہیں.
اب بچے برینڈڈ کپڑے پہنتے ہیں اور بارش میں نہیں بھیگتے
اب بلی، طوطے پالنے سے (بچوں کو کم اور ان کی ماؤں کو زیادہ) انفیکشن ہوجاتا ہے
وقت نے ماؤں کو اس قدر مصروف کر دیا ہے کہ اب ان کے پاس بچوں کو سنانے کے لیے کہانیاں ہیں، نہ وقت۔
مائیں تو مائیں اب تو نانیاں دادیاں بھی ورکنگ ہو گئی ہیں۔ اور بچے پوکی مان تلاش کرتے کرتے اپنی ثقافت، اپنے رویوں اور اپنے لوگوں سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ اس سارے چکر میں جو ناقابل تلافی نقصان ہوا وہ کہانیوںاور قصوں کا، کہانی  ہو جانا ہے۔ جی ہمارے بچے کہانی سے دور چلے گئے۔ انہیں قصے سنانے اور کہانی ہی کہانی میں اچھائی اور برائی کے درمیان فرق سمجھانے والے نہ رہے۔ وہ جنوں پریوں کے قصے، دوستی محبت کی داستانیں، جادگروں کا انجام، ہیرو کی بہادری، ہیروئن سے ہمدردی، اس کو بچانے کے لیے کبھی کوہ قاف، کبھی پرستان تو کبھی گہرے مہیب جنگلوں کے پھیرے۔ ان پھیروں کے چکر میں ایک احساس ذہن  میں بٹھا دیا جاتا تھا کہ آپ سے وابستہ خواتین آپ کی ذمہ داری ہوتی ہیں۔کوئی سمجھا جاتا تھا کہ برائی کی حد ہے، اچھائی کی نہیں۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ ہر شب غم کی ایک صبح ہے، تیرگی کو بہر کیف زوال ہے
اور پتا ہے آپ سب کو! ایسی کہانیاں سن کے بڑے ہونے والے بچے ڈپریشن، فرسٹریشن جیسے لفظوں سے آگاہ نہیں تھے۔ یہ جو ہمارے بچے شاخ پہ لگی ننھی کونپل کی عمر میں ہی ڈپریشن اور مایوسی جیسے لفظوں سے آگاہ ہیں تو یہ اسی کا شاخسانہ ہے۔ ٹیکنالوجی کا غیرضروری استعمال، ہر شے میں جلدی، طاقت کا بلاجواز اور بےدریغ استعمال سکھانے والی گیمز
اب یوں ہے کہ وقت کا پہیہ الٹا چلانے پر تو ہم آپ قادر ہیں نہیں۔ نہ اس ٹیکنالوجی کو اپنے بچوں کی زندگیوں سے یکسر نکال  سکتے ہیں ۔لیکن ہاں! ہم اس کے بےدریغ استعمال کو کم کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو لفظوں میں موجود احساسات کی چاشنی سے  متعارف کرا سکتے ہیں۔ جو انھیں آپ سے، ہم سے، اپنی جڑوں سے، اپنی تہذیب سے جوڑے رکھے۔ تاکہ ہمارے بچے شاخ سے ٹوٹے پتے کی مانند بے یقین مستقبل کاشکار  نہ ہوں
لہذا میں نے تو فیصلہ کیا ہے کہ آج سے اپنی بھتیجی کے لیے کہانیاں لکھا کروں گی۔ جنوں کی، پریوں کی کہانیاں، اچھائی کی، برائی کے قصے۔
میں اسے بتاؤں گی کہ جادوگروں کے انجام اچھے نہیں ہوا کرتے اور میں اسے بتاؤں گی کہ بہادری اور سچائی وہ ٹریٹس ہیں جو فقیر کو بادشاہ بنا دینے پر قادر ہوتے ہیں
اور میں اسے بتاؤں گی کہ ظلم کے خلاف لڑنے والے ہی درحقیقت ہیرو ہوتے ہیں۔ چاہے وہ کسی لکڑ ہارے کہ بچے ہوں یا مزدور کے
اور میں چپکے سے رفتہ رفتہ اس کے اندر اچھی پریوں کی محبت اور ظالم دیو سے نفرت ڈال دوں گی تاکہ جب وہ پریکٹیکل لائف میں آئے تو پھر کسی ظالم جابر کی نا انصافی کو وقت کا جی ون سمجھ کے خاموش نہ رہے بلکہ اپنے حق کے لیے اٹھ کھڑی ہو.

کیا نام دوں


میں پینٹر ہوتی تو تمہارا سکیچ بناتی.

چارکول کی پینسل سے گہرا سنجیدہ سکیچ.
جس کے تاثر کسی ہیرو سے ہوتے.
محبت،عزم کے خلوص کے تاثر
جو کاغذ سے باہر دیکھتا ہوا سا ملتا.
رنگوں کو چھوتی میں اور تخیل،
سپرد قرطاس کر دیتی 
تمہیں تصویر کر دیتی.
میوزیشن ہوتی تو
تمہارے نام کی دھن کا_
"ڈنکا چہار عالم بجا کرتا 
وائلن اٹھاتی میں
تمہیں زنجیر کر لیتی.
سیاح ہوتی کوئی
تو کسی ان دیکھے صحرا کو تمہارے 
نام پر رکھتی
کسی ان چھوئے جزیرے پر تمہارا عکس میں بنتی
میں سفر نامہ کوئی لکھتی
تمہیں تحریر کر دیتی.
شاعر ہی اگر ہوتی
تمہارے نام پر نظمیں
عکس پر غزلیں 
رُح پر کافی
خیال پر مصرعے.
میں دیوان لکھتی اور
تمہیں تحریر کر لیتی
میں قلم سے تم کو زنجیر کر لیتی.
افسوس___ میں نہ پینٹر
نہ میوزک ہی پیشہ میرا
سیاحی سے دوور
اور نہ شاعری ہی شعبہ میرا.
احساس لکھتی ہوں لفظوں کی مانند
حرف ٹوٹل اثاثہ میرا.
جن میں سوچا تمہیں 
جن سے سمجھا تمہیں.
لفظ لکھتی ہوں
دوست،بس یہ کہتی ہوں
سحرش

Thursday 21 July 2016

آؤ!! اور تجدید عہد وفا کر لو


خالی ہاتھ، شکستہ دل، ہاتھوں پر سر گرائے، بال مٹھیوں میں جکڑے، پچیس چھبیس سالہ شخص پہلی دفعہ دیکھنے پرکسی شکستہ مقبرے کا خستہ حال مجاور لگا۔ جو اپنے حصے کی شب غم گزارتا ہوا تیرگی کا حصہ بن جاتاہے اور پھر اسی تاریکی کو اپنی کل کائنات سمجھ کہ سمجھوتا کر لیتا ہے۔
گنگا رام ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کی سیڑھیاں اترتے ہوئے اس شخص پر نظر پڑی تو کئی لمحے سکوت کی نظر ہوگئے
بظاہر نہ سمجھ میں آنے والی کوئی صورتحال نہ تھی۔دنیا کے مصروف ترین گائنی وارڈ کی ایمرجنسی کے باہر بیٹھا وہ کسی نہ سمجھی جا سکنے والی صورتحال کا حصہ  نہ تھا۔
اپنے لوگوں کی لاپرواہیاں، کوتاہیاں، مجرمانہ غفلتیں سب یاد ہونے کے باوجود نجانے کیوں اس انجان شخص کو سیڑھیوں پہ ہارا ہوا بیٹھا دیکھ کے دل میں درد سا جاگا۔جیسے کسی کی متاع لٹتےدیکھ کر جاگ سکتا ہے۔اس وقت شدت سے یہ احساس جاگا کہ صرف بے بس ہونا ہی دردناک نہیں بلکہ کسی بےبس کو دیکھنا بھی کم دردناک نہیں
اس کی شکست خوردگی نے گیٹ تک میرا ساتھ نبھایا۔وہاں سے جاتے ہوئے، اپنا کام کرتے بہت سی جگہوں پر جھک مارتے وہ شخص آنکھوں سے تو محو ہوگیا لیکن ذہن کے کسی گوشے میں اس کا بے بس سراپا چپک کر رہ گیا۔
ڈھلتی رات بستر پہ جب نیند کی برسوں سے جاری خفگی کم ہونے میں نہیں آئی تو آوارہ سوچوں نے رخت سفر باندھا۔دن بھر کے واقعات جزیات اور وہ شخص۔جس کے یاد آتے ہی بہت سی کہانیاں ذہن کے پردے پر آ کے ٹہرتی رہیں۔ وہ بھی یاد آئی مجھے جو ہر دوسرے ہفتے انباکس میں کسی کی شقی القلبی کا کوئی قصہ سناتی ہے۔ ساتھ اس شخص کو زندگی کا ساتھی بھی بتاتی ہے. اور میں اسے یہ بھی نہیں کہہ پاتی کہ ایسے ساتھ رہنے سے بندا اکیلا بھلا۔ جانتی ہوں بھیڑیوں کے اس معاشرے میں تعلیم و ہنر سے محروم لڑکی کیا بییچتی ہے
مجھے وہ بھی یاد آئی جس کی چنچل ہنسی کبھی مجھے بھی مسکرانے پر مجبور کر دیا کرتی تھی۔ جو کہتی تھی میں پانچ منٹ نہ ہنسوں تو بے ہوش ہو جاؤں۔اب اسے میسج کرتی ہوں تو، ہوں، ہاں میں جواب دیتی ہے یا پھر یہ کہ انہیں سنجیدہ لڑکیاں پسند ہیں- میں یہ بھی نہیں پوچھ پاتی کہ "انہیں" یہ حق اختیار کس نے دیاہے کہ اچھے بھلے مکمل انسان کو اپنے سو کالڈ معیارات پر ڈھالنے پر تل جائیں..کس حق سے پوچھوں؟؟ وہ تو زیادہ بات بھی نہیں کرتی کہ بھرم نہ ٹوٹنے پائے۔میں چاہتے ہوئے بھی نہیں پوچھ پاتی۔
 کبھی انہوں نے سوچا تمہیں کیسے لڑکے پسند ہیں؟
 پوچھ کر کونسا تیر مار لوں گی؟ اس کا بھرم توڑوں گی اور بس
جب والدین ہی کہہ دیں وہاں ہی رہنا ہے۔ اسی سے نباہ کرنا تو کہاں کی آزادی، کیسی مرضی، کہاں کا حق اور کونسا احتجاج۔
زندگی کے دن کاٹنے ہیں ہنس کر یا رو کر۔سوچتی جاؤں اور سوال در سوال کے دائروں میں الجھتی جاؤں۔سوال سے یادآیا اب مجھے مکتب میں کوئی نہیں رکھتا..." اب میں مشکل سوال کرتی ہوں
ایسے تو ایسے ہی سہی۔ زندگی کی بے حسی سے دو سوال اور سہی کس طرح جیا جائے اور کس لیے؟؟
کسی کے خم ابروپر مسکرانا چھوڑ دینے کے لیے؟
کسی کی جنش لب سے ہر زمینی و زمانی رشتہ توڑ دینے واسطے؟؟
یا پھر تیس چالیس سال بعد اس سوال کی گونج سے منہ چھپانے کے لیے کہ ساتھ کاٹا ہے یا گزارا ہے
ویسے کبھی آپ نے سوچا کہ صرف روٹی کپڑے کے عوض شادی کر رہے ہیں آپ؟؟ اگر ہاں تو مت کرییے وہ لڑکی باپ کے گھر زیادہ آزادی اور دھڑلے سے لیتی ہے
صرف چھت دینی ہے تو مت کریں! یقین کریں باپ کے گھر میں تو بھائیوں کو بھی اس کے کمرے میں بلا اجازت گھسنے کی اجازت نہیں ہوتی
کیا کسی کی انا اتنی اہم ہو سکتی ہے کہ اسے تقویت دینے کے لیے ایک انسان کو جیتے جی مار دیا جائے
کیا آپ کو اپناآپ، گھٹیا اور چیپ نہیں لگتا ایک زندہ لاش کے ساتھ رہتے ہوئے
ان سوالوں کے جواب نہ پاکر، اندر کی وحشت سے گھبرا، کر رات کا آخری پہر ٹیرس پہ بے قراری کو کاونٹر کرتے گزرا۔اگلی صبح پھر اسی روٹ سے شارٹ کٹ اپناتے گزر ہوا تو وہی کل والا شخص گزری رات کی کرب ناکی اور کھو دینے کے خوف کا ملا جلا تاثر لیے شاپنگ بیگز میں کچھ ڈالے ہسپتال کے اندر جاتا ہوا نظر آیا تو خوشگوار حیرت اور امید کا  تاثر جاگا
مجھے لگا کل درد کی شدت میں شفاء کی امید بن کر اترنے والے نے اس شخص کو ایک اور چانس دیا ہے
جیسے کل کسی نے نیلے یاپنک کمبل میں لپٹی امید اسے تھمائی ہو اور کہا ہو ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا یہ دیکھو تمہارے وجود کی شبہیہ دنیا میں تمہارا سرمایہ بن کے جینے آئی ہے
آؤ!! اور تجدید عہد وفا کر لو جس کے ضامن نے تمہیں اس عہد کی پاسداری کی نصیحت کی تھی.

وہ جو تعلق تھا نہ رہا.


تم وحشتوں کے ساتھی تھے نہ رہے.

ہم بے وجہ سےعادی تھے،نہ رہے
تیرے لہجے میں بولتی نفرتوں 
تیرے لفظوں سے ٹپکتی بے زاری نے
ہم سے چپکے سے کہا
وہ جو تعلق تھا.نہ رہا
دل کے نہاں کونے میں
و جو کانچ کا ٹکرا تھا،نہ رہا
کوکون سے نکلا تھا کوئی
وہ جو چھوٹا سا جگنو تھا نہ رہا.
بے حسی میراث کب ہوتی ہے.
وہ جو حساس سا احساس تھا،نہ رہا.
آؤ برابر کا تعلق بناتے ہیں
تم نفرت کرو بدلے میں نفرت پاؤ.
جو بدل جاؤ تو بدلے میں بدلہ پاؤ.
تم مات دو اور شکست کھاؤ
تم چپ رہو اور خاموشی پاؤ.
تم رخ موڑو تو راہ مڑی پاؤ.
تم الزام لگاؤ،بدلے میں بہتان پاؤ!
پر!اک ذرا ٹہرو!
سودوزیاں گننے دو.
مجھے شام و سحر یاد کرنے دو.
اپنے خسارے ماپ لینے دو.
تعلق توڑ ڈالوں گی مجھے کنکر توچننے دو.
وہ جو تمہارے لہجے نے میری سوچ کی راہ میں بچھا ڈالے ہیں
مجھے وہ سارے کنکر چننے دو.
میں وہ سارے کنکر اپنی آنکھوں میں بسا لوں گی.
اب کہ تم لوٹو گے تو بے حس پاؤ گے
مجھے یہ جان لینے میں دن لگیں گے.
لیکن میں اب کہ تمہیں آزاد کردوں گی.
اپنی نفرت سے بھی،جو تھی ہی نہیں
میں تعلق توڑ ڈالوں گی ذرا سا بے حس ہونے دو.
مجھے اب کے دن لگیں گے..
مگر تم دیکھنا میں خود غرض ہو جاؤں گی.
اتنی کہ___کہ تم بھی کہو گے 
وہ جو تعلق تھا نہ رہا.
سحرش

Monday 18 July 2016

وہی شخص کھو دیا ہے.


وہ جو ہنستا تھا میرے اندر.

وہ شخص کھو دیاہے.
وہ جو مسکراہٹ میں ملتا تھااکثر
وہی شخص کھو دیا ہے.
وہ الجھن میں راس آتاتھا.
وہ جو سلجھا ہوا سا ملتا تھا.
کسی الجھن کے دشت میں
وہی شخص کھو دیا ہے. 
خوشی کے ایک دیپ جیسا.
وہ شخص گہرے میت جیسا
لبوں پہ آئے گیت جیسا.
وہ نغموں میں بہتے سر کی مانند
وہ اوپر جاتی تال جیسا.
وہ شخص خواب و خیال جیسا.
وہ رات کے پہلے پہر کا تارا
وہ پھیلی صبح کے چاند جیسا.
وہ موسموں میں برستی بارش.
وہ گلابوں پہ اترتی شبنم.
موتیا پہ گلال جیسا.
وہ شخص بزم محبت کے 
پہلے کلمے کی لام جیسا.
وہ میرے لفظوں میں گونج جیسا
وہ ڈاروں سے بچھڑی کونج جیسا..
وہی شخص کھو دیا ہے.
سحرش

Saturday 9 July 2016

خدمت کا استعارہ ۔ایدھی


اچھا ایدھی صاحب! رب سہارا بنے آپ کا.آپ سے ملنے کی بڑی حسرت تھی ٹھیک ہے حشر میں ملیں گے جب آپ کی کتاب میں بہت سی نیکیاں ہوں گی آپ فخر سے کھڑے ہوں گے اور ہم سے نادان سوچتے ہوں گے ایدھی نہیں تو ان سا ہونے کی خواہش ہی کی ہوتی.

اللہ کرے جو آپ اس کے پاس پہنچیں تو آپ کی نیکیاں فرشتوں کی سی صورت ڈھالے آپ کے سامنے کھڑی ہوں جزا کی امید بن کے.ہم آپ کے احسانوں کا بدلہ چکانے سے قاصر ہیں بھلا ہماری اوقات ہی کیا صلہ دیں رب آپ کو جزائے خیر دے.آپ کے مشن کو چلانے والے یقینا بہت ہوں گے___ پر کوئی آپ سا کہاں جو جھولی پھیلائے سڑک پہ آبیٹھے کے میرے بچے بیمار ہیں میرے بوڑھے بے سہارا.
آپ یاد آتے رہیں گے___ ہمیشہ یاد آئیں گے جب کوئی بچہ بے سہارا ہوگا.جب کوئی بیٹی دھتکاری جائے گی.جب کوئی پیدا ہونے کے جرم میں لاوارث پھینکا جائے گا.جب کوئی بڑھاپے میں اولاد کی آزمائش بن جاے گا اور اولاد اس پر پوری نہ اتر پائے گی.
آپ یاد آتے رہیں گے جب میرے اردگرد بے حسی بڑھتی جائے گی جب میں خود غرضی میں لپٹے لہجے ان لہجوں میں چھپی غرض سنوں گی.
آپ نے جو دیا جلایا ہے اس کی حرارت سے میری قوم کی رگوں میں احساس جلا پاتا رہے گا.ایدھی صاحب آپ ہمیشہ یاد آئیں گے جب جب کوئی ہمیں دہشت گرد مجرم سمجھے گا جب کوئی ہمیں بحثیت مجموعی خوف کی علامت بتائے گا.ہم آپ کا نام لیا کریں گے.امن کے استعارے کے طور پر پیش کریں گے آپ کو،آپ یاد آتے رہیں گے.جب کوئی اس ملک سے جانے کی بات کرئے گا میرے لوگوں سے مایوس ہوگا ناامیدی پھیلائے گا آپ امید کا جگنو خوشی کا استعارہ بن کے جگمگائیں گے.
اچھا ایدھی صاحب رب آپ کو بدلہ دے وہ ہی بہترین بدلہ دینے والا ہے...آپ آدمیوں کے ہجوم میں واقعی انسان تھے.
سحرش

Tuesday 5 July 2016

حادثوں کا بوجھ


حادثوں کے بعد گنتی بھی دردناک ھوتی ھے

چار بچے تھے....مرنے والوں میں
عورت تھی مٹھی میں بچے کی انگلی دبائے
باپ تھا کوئی پست پہ کوئی بیٹا چھپائے
اک ننھی پری تھی..خواب آنکھوں میں وحشت بھرے
میرے ھاتھوں پر اپنا خون تلاشتی ھوئی
بوڑھے تھے دو...کسی کی دعا کا گھر
حادثے چھین لیے نہ تونے
میرے لوگوں سے عافیت کے در
سحرش

عشق


شدید گرمی.....بے سروسامانی....تین گناه طاقتور دشمن.....آگ اگلتا صحرا...آنکھوں میں چبھتی ریت....اور بقاء کی جنگ

کون لوگ تھے جو بغیر تیاری کے چل پڑے،ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے...کس جذبے نے جوت جگائی تھی ان کے اندر جو اپنے ہی خون کے خلاف برسرپیکار ھو گئے....کوئی تو وجہ ھوگی....کوئی اسم پھونکا ھوگا کسی نے جس کے زیر اثر دیوانہ وار لپکے وه.....اور پھر مقتل کو سرخرو کر کے لوٹے
وه کون سا اسم تھا جس کے اثرات نے جنگی حکمت عملی کو جنگی پیشین گوئیوں کو تین سو اسی کے زاوئیے سے بدل ڈالا
کسی نے چپکے سے سرگوشی کی....عشق..وه جو ابراھیم کو آگ میں چھلانگ لگوا دیتا ھے....اسماعیل کو چھری کی دھار سے یوسف کو قیدو بند سے بے خوف کردیتا ھے....وھی عشق 
جو صدیق سے کھلواتا ھے خدا اور اس کا رسول بس
جو عمر کے تلوار میان سے باھر ننگی تلوار کو جھکا دیتا ھے
وہی عشق جو ذالنورین کے خریدے ہوئے میٹھے پانی کی بوند بوندسے ٹپکتا ہے۔حیدر کرار کی کمسن گواہی میں ملتا ہے...حسین کی پیاس میں کربلا کی صعوبت میں ملتا ھے
ہان یہ عشق ھی تھا جس نے معاذ اور معوذ کو ابو جھل کے مقابلے میں لا کھڑا کیا
اور عشق کا انجام بخیر ھی ھوا کرتا ھے
سحرش.



جس دئیے کی توانائی عرض و سماءکی حرارت بنی
اس دئیے کا ھمیں بھی حوالہ بہت اور اجالا بہت
وه اک شجر جس کی شاخوں پہ آکر زمانوں کے موسم بسیرا کریں
اس شجر کا ہمیں بھی سایہ بہت اور گہنیرا بہت

Friday 1 July 2016

پیتنے تھے جو مےٗ


ویسے میں سوچ رہی تھی کہ غالب آج اگر زندہ ہوتے تو شاعری کرنے کی بجائے کچی اور جعلی مئے پی کر ادیب رضوی کے کلینک میں لیٹے....سائیں کچی سرکار کی ہجو کہہ رھے ھوتے....اور تو اور بعد از وفات غالب..، شوباز شریف بھی پانچ لاکھ کا چیک لے کر فوٹو سیشن کراتے....اور کئی این جی اوز مفت قبر کا اعلان کر دیتیں....موم بتی آنٹیوں نے تو سیلفیز لے لے کے حلق حشک کر لینے تھے اپنے.. ....تو مختصر یہ کہ  میاں اسد... وقت پر سٹک لیے.... ہم تو ایسے دور میں جی رہے ہیں کہہ یہاں مئے تو مئے یہاں تم زہر لینے نکلوتو وہ بھی خالص نہ نکلے

اور کچی پی کے کیا خاک شاعری کرتے تم
اب یہ ھی دیکھ لو...کیا مضمون باندھا ھے تم نے



ھوئی اس دور میں منسوب مجھ سے باده آشامی
پھر آیا وه زمانہ،جو جہاں میں جام جم نکلے



آج جو کہنا بھی چاھتے تو کیا یہ ھی



کہں مے خانے کا دروازہ کہاں غالب!اور کہاں واعظ

بس میاں ہم تو اسی بات پر خوش ہیں کہ آج نہ ہوئے تم ...نہیں تو کچی سے بچتے تو میٹھے پان کے آزار جان جان آفرین کے سپرد کر دیتے....ھمارا کیا تھا ک، دو چار دن آنسو بہا کر قسمت پر شاکر ہوکرحیات میں مگن ہوجاتے مگر ان کا کیا ہوتاجن کی تنقید کا موضوع ہی غالب اور مئے ہے....ان کی تو لٹیا ھی ڈوب جاتی....کیا ہی خوب ہوا جو بہادر شاه ظفر کے بیٹے کا سہرا لکھا اور چل دیے آج ھوتے تو خادم اعلی کے سہرے ھی ختم نہیں ھونے تھے....وه ختم ھوتے تو ایان کا قصیده لکھوانے آ دھمکتے عاشقان....قصیده کا قصہ تمام نہیں ھونا تھا کہ مذھب کی ھجو لکھواتے تم سے میرے شہر کے لوگ.....اور اس ھجو کی پاداش میں مارے جاتے تم بے موت میری بستی کے پرھیزگاروں کے ھاتھوں

سحرش