Pages

Friday 30 September 2016

I keep finding this decision hard


وہ میرا خواب تھایا خیال یا کوئی سوچی سمجھی سکیم
میں فرق جاننے سے قاصر ہوں۔ست پارہ  جھیل کےبیچوں بیچ چلتی ہوئی کشتی چپو تھامے وہ شائد تم ہی تھے۔کیونکہ اسقدر لاتعلقی سے میرا خیال تمہارے سوا کون رکھ سکتا ہے بھلا؟ جو احساس بھی نہ ہونے دے اور سدا ساتھ ساتھ بھی رہے۔سنو جب تم ساتھ تھے تو تمہاری موجودگی شائد ہی کبھی محسوس ہوئی ہو
لیکن اب تم ساتھ نہیں ہو تو تمہارے ساتھ کااحساس مجھے کسی کل چین نہیں پڑنے دیتا۔مجھے یہ احساس لکھنے کی ترغیب بھی تمہارے بھولے بسرے لفظوں نےدی ہے۔ یاد ہے پیپرز کے دنوں میں لکھی ہوئی نظم پڑھ کر کیا کہا تھا تم نے؟؟

تم نے کہا تھا امتحانوں میں لکھا زیادہ کرو اور پڑھا کم۔حیرانگی سے سراپا سوال ہوئی تو ہنس کر کہنے لگے اچھا لکھا ہے۔اب بھی امتحان سر پر ہیں اور میں بیٹھی نظمیں لکھ کہانیاں بن رہی ہوں کہ شائد ان کہانیوں کی بنت میں کوئی دھاگا ایسا الجھے کہ تم چڑ کے سلجھانے آ پہنچو۔دھاگے کی تند سیدھی کرو اور غصے سے کہو کوئی کام تو ڈھنگ سے کیا کرو۔میں تنک کرکہوں مدد کردی ہے تو احسان مت چڑھاؤ۔اور
تم کہو واحد ایک غصہ ہے جو تم ڈھنگ سے کرتی ہو۔تمہاری تعریف بھی تمہاری ہی طرح ہوا کرتی تھی۔ سمجھ میں نہ آ سکنے والی۔کبھی کہنا اس رنگ میں زیادہ بری نہیں لگتی ہو۔کبھی کہنا لائبریری سے باہر آجاؤ تمہارا  وہاں کیا کام  اور میرے گھورنے پر مصنوعی وضاحت ارے بھئی پڑھاکو جو ہوئی

ویسے تم صحیح کہتے تھے کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرتی ہوں۔ اب یہ ہی دیکھ لو ست پارہ جھیل سے بات شروع کر کے لائیبریری تک لے آئی ہوں۔یہ خود کلامی یونہی چلتی رہی تو کچھ بعید نہیں مستقبل کے کسی خواب کو بھی ادھر ہی ترتیب دے ڈالوں۔کاغذ پہ خواب بننے کی تو یوں بھی بہت ماہر ہوں۔کاغذ پہ ہی تو وہ ٹری ہاؤس بنا کر دیا تھا تمہیں جہاں رٹائرمنٹ کے بعد رہنے والی تھی اور مجھے یقین ہے تم نے وہ کاغذ گم کر دیا ہوگا۔تم بھی کم لاپرواہ نہیں تھے۔کبھی جو تمہیں اپنا خیال رکھنا یاد رہا ہو۔ بیماری میں دوا لینا تک بھول جاتے تھے۔اب بھی ایسے ہی ہو گے تمہارے لیے بدلنا ممکن نہ تھا۔ممکن ہوتا تو میں تمہیں اپنے رنگ میں نہ رنگ لیتی؟
ست پارہ جھیل کا منظر تھا۔بلند و بالا سنگلاخ چوٹیوں کے درمیان سبک خرام بہتی ہوئی پرسکون جھیل۔جھیل میں چلتی ہماری کشتی..نہیں یہ کہنا شائد زیادہ مناسب ہو کہ ایک کشتی میں بیٹھے ہم دو مسافر۔کبھی کبھی ایک ہی منزل کو جاتی ایک ہی راہ پر ایک ساتھ چلنے والے مسافر بھی ہم سفر نہیں ہو پاتے
یوں بھی راہیں، راہیوں کی مرضی پسند اور انتخاب ہوا کرتی ہیں۔کوئی کسی پر اپنی راہ  کیسے مسلط  کر سکتا ہے؟
جھیل کے اردگرد کی چوٹیاں اتنی بلند ہیں کہ جھیل کے لیے انہیں سر کر لینا ممکن نہیں ہے۔آتے جاتے سیاح کہتے ہیں یہ چوٹیاں جھیل کی مخافظ ہیں۔ یہ جھیل کو بچانے کیلئے کھڑی ہیں
لیکن کشتی کے آگے پیچھے ڈولتے چپو۔پانی کی خاموش اداسی اور چوٹی پر سے جھانکتا الجھا الجھا سورج مجھے اس حفاظت کی کہانی پر اعتبار نہیں آنےدے رہا۔جانے کیوں مجھے لگایہ چوٹیاں جھیل کو سفوکیٹ کر رہی ہیں
یہ خیال بھی بڑی شدت سے آیا کہ ہمارا تعلق بھی توایساہی تھا ست پارہ جھیل جیسا۔ ریتوں،رواجوں، اناؤں کی بلند آہنگ سنگلاخ چوٹیوں کے درمیان الجھا ہوا، بکھرابکھرا..جس کو اون کرنے سے چوٹیاں ہمیں مار دینے پر تل سکتی تھیں
اور جب میں تمہیں کہتی تھی ان چوٹیوں کو سر کر لینا  ممکن ہے اور تم پوچھتے تھے سر کر کے کیا کرنا ہے؟سنو تم صحیح کہتے تھے چوٹیاں سر کر بھی لیتی تو جھیل کدھر جاتی؟؟ساری وادی ہی چوٹیوں کے حصار میں مقید ہے۔جھیل کے لیے بس یہی آزادی ہے کہ دونوں چوٹیوں کے درمیان چپ چاپ اپنی ڈگر پہ چلتی رہے
تمہارا خیال شائد صحیح تھا۔جھیل بغاوت کر بھی لے تو کیا تیر مار لے گی؟ رہنا تو اسے بستی میں ہے  
تم نے کبھی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ ہر اک بے جان تکلف سے بغاوت ہو بھی سکتی ہے۔وادی کو اپنے پانیوں سے سیراب کرےیا جھیل چوٹیوں سے محترم ٹہر بھی سکتی ہے
کاش کوئی ساحر سا ہوتا پرانے ہجوں سے نئے لفظ بنتا اور کسی نئے آہنگ میں یہ بتاتا کہ اب
ہر اک بے جان تکلف سے بغاوت کا ارادہ ہےکہ اب تعلق کی جھیل کو اون کرلینے سے قیامتیں نہیں ٹوٹا کریں گی

Tuesday 27 September 2016

ہمارا قصور کیا ہے


 جب جنگوں کی ساری باتیں امن کے سارے قصے بہادری کی ساری داستانیں اور درد کی ساری شاعری پڑھ چکتی ہوں اور جب بیلنس آف پاور
 مینٹین کرنے کے سارے مییرز پر اسائنمنٹ بنا چکتی ہوں تو_____تو مجھے وہ افغانی بچہ یاد آجاتاہے جس کی آنکھوں میں کسی نے سبز کانچ توڑ کے فٹ کردیا تھا..وہ جب میری طرف دیکھتا تھا مجھے اپنے مجرم ہونے کا یقین ہونے لگتا تھا اور پھر وہ سارے معصوم بچے جو کبھی افغانی کبھی عراقی کبھی شامی کبھی کشمیری اور کبھی لبنانی ہوتے ہیں..

وہ سارے بچے مجھے سرگوشی میں پوچھتے ہیں ہمارا قصور کیا ہے..ان کی آنکھوں کے سرد تاثرمجھے انساں کے درجے سے گرا دیتے ہیں..
سحرش

Friday 23 September 2016

جمیعت کے صالحین


چونکہ سب ہی جمعیت کے ساتھ تعلقات کی تفصیلات بتا رہے ہیں تو ہم بھی بتائے دیتے ہیں کہ جمیعت والے، بقول وصی بابا صالحین، کس طرح ہماری مدد کرنے پر تل گئے تھے.


گو کہ ہم اس ڈنڈا بردار دور میں تو زیر تعلیم نہیں تھے لیکن بہرحال صالحین موجود ہیں اب بھی.



تو ہوا کچھ یوں کہ ہمارے ایک سنئیر جمیعت کے رکن نے جب سبحان اللہ ماشاءاللہ کہہ کر ہماری کلاس کی ٹوٹل بتیس میں سے اکتیس لڑکیوں کو بہن بنا لیا تو نظر کرم ہم پر پڑی۔ ایک دن ہمیں کہنے لگے ڈیپارٹمنٹ میں کسی بھی سے کوئی کام ہو ہم سے کہیے گا.ہم سمجھے ویسے ای منڈے نے بی بی طبیعت پائی ہے مسکرا کر چل دییے اب ان کا روز کا معمول آتے جاتے ہم سے سلامی ایک دن کہنے لگے ہمارا نمبر رکھ لیجیے کوئی کام ہو تو کال کر لیجے.چونکہ ایسے موقعوں پر ہمارے اندر کا دیہاتی جاگنے میں ٹوٹل چار سیکنڈ لگاتا ہے لہذا۔۔۔ آگے کی پوری کاروائی سنسر کی جاتی ہے۔.



بس اتنا بتائے دیتے ہیں کہ ہم نے محترم کی عزیزگان کے متعلق سلیس پنجابی میں نستعلیق گفتگو کی.جس سے شرما کے  بھائی صاحب نے تشریف لے جانا مناسب سمجھا.



لیکن طبیعت بی بی ہونے کے ساتھ ہلکی سی ڈھیٹ بھی تھی ویسے بھی انہوں نے پڑھ رکھا تھا کہ ٹھنڈ اور بے عزتی جتنی محسوس کی جائے اتنی بڑھتی ہے لہذا تیسرے دن چلے آئے اپنے سابقہ رویے کی معافی مانگنے اور ہم نے بھی کمال مروت سے معاف کردیا.



اور موصوف کو لگا ہم بہن بھائی چارے پر آمادہ ہوگئے ہیں لہذا پھر سے ہمیں مسکرا کر سلام کرنا خود پر فرض کر لیا.



ہم جو مسکراہٹوں سے پہلے ہی عاجز آئے بیٹھے تھے اور اس پہلے معرکے کے بعد سے کہیں بمباری بھی نہیں کی تھی تو اچانک ہمارے فسادی دماغ نے ہمیشہ کی طرح ساتھ دیا.پانچ دن پہلے بلی کے جو بچے اس جہان فانی میں تشریف لائے تھے ہم نے انہیں دنیا دکھانے کا فیصلہ کیا شاپر میں ڈالا، ٹارگٹڈ کارروائی کرتے ہوئے دشمن کے اڈوں کو نشانہ بنایا.اب اس اچانک افتاد کا کسی کو علم نہ تھا اور تیز پنجوں والے اوفینسو ڈرے ہوئے چار بلی کے بچے اوران سے لڑتا تن تنہا مجاہد. اور ہماری طرف سے ایچ او ڈی کو راؤنڈ کے وقت پہنچائی گئی معصوم خبر کے شائد اس طرف کوئی گیم کھیل رہے ہیں سنیرز ۔ مارکسسٹ ایچ اوڈی اور صالح بھائی، باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔ اشک پینا کیسا دلدوز واقعہ ہوتا ہے.



اور جب ہم نے عین موقع پر بلی کے چاروں بچوں کو گود لے کے غرباء کی انجیلینا جولی بننے کا فیصلہ کیا تو صالح بھائی کے شرمندگی چھپائے نہیں چھپتی تھی.



ایک اور بھائی صاحب تھے جو اپنی بد قسمتی اور ہماری خوش قسمتی سے ہماری ہی کلاس میں پڑھا کرتے تھے..وہ ہر وقت کو ایجوکیشن کے عظیم ترین نقصانات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کرتے تھے کہ ہماری جنس کا یونیورسٹی میں پڑھنا کتنے ارب ڈالر کی انڈسٹری کے فروغ کا سبب ہے ان کے ان فیکٹس اینڈ فگرز کا بدلہ تو خیر ہم نے ان کو گروپ لیڈر بنوا کر پولیٹیکل اکانومی پر پریزینٹیشن دلوا کر ہی لے لیا تھا لیکن ایک دن جب انہوں نے ایک کلاس فیلو کو وصی شاہ کی نظم مہکتے ہوئے کاغذ پر لکھ کر دی اور نیچے انتہائی خوبصورت الفاظ میں اپنا نام مع تخلص لکھا اور ہم نے وہ کاغذ ایز اٹ از نوٹس بورڈ پر لگا دیا . صالح پریمی صاحب کو آٹھ دن کی جبری رخصت پر بھیجے جانے کا حکم نامہ جاری ہوا تو اس موقع پر ثالثی کے فرائض بھی ہم ہی نے ادا کیے اور موصوف کو معافی دلوا کر ایک اور بھائی نیک کر لیا.



جمیعت کی ایک قسم وہ بھی تھی جن سے کڑیاں دل سے اترے اور نظر سے گر جانے والے مسٹنڈوں کو کٹ لگوا کر کلیجے ٹھنڈ پایا کرتی تھیں.



ایک قسم وہ بھی تھی جو مددگار کے روپ میں کبھی ایڈمن بلاک تو کبھی ڈیپارٹمنٹ میں نمودار ہوتی ہے..کہنا یہ ہے کہ اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں.جمیعت پر تنقید یا یونیورسٹیز میں ان کے رویوں پر تنقید دراصل ان کی پولیٹیکل ایفیلیشن پر نہیں بلکہ ان کا اپنے سوا کسی کو سٹیک ہولڈر نہ سمجھنے والے رویے پر ہوتی ہے اور معذرت کے ساتھ کبھی کبھی منافقت نما مصلحت پر بھی..کیونکہ جمیت ہی کے ایک سابق ناظم کے کمرے سے چرس نکلنا چھوٹا واقعہ نہیں تھا اور اکلوتا بھی نہیں
سحرش

Wednesday 21 September 2016

کمزور لڑکی




پاگل سی وہ لڑکی
تمہاری خاطر 
جو جوڑتی ہے تو
تعلق توڑ بھی سکتی ہے.
تمہارے لیے جو مسکراتی ہے
تو اب کے رو بھی سکتی ہے.
تصور میں بس کر
تمہارے خوابوں کا رخ موڑ بھی سکتی ہے.
آنکھوں سے اشک
لبوں سے مسکراہٹ موڑ بھی سکتی ہے.
سنو ضبط آزمانے سے.
بلاوجہ روٹھ جانے سے
محبت کی فصیلوں میں
دڑاڑیں آتی ہیں.
یقیں کے مضبوط قلعے
بھی ٹوٹ جاتے ہیں.
تم محبت کی پنیری کو.
اعتبار کے پانیوں سے 
سینچ کر دیکھو
یہ کمزور سی پگلی لڑکی
تمہاری خاطر زمانے
کی تند ہواؤں کا رخ موڑ بھی سکتی ہے.
سحرش

محبت گھولنے والے بڑے درویش ہوتے ہیں


اس کی پلکوں کا سایہ اس کی گالوں پر پڑا کرتا تھا ۔مسکراتی ہوئی بھلی لگتی تھی۔ یا تو اسے معلوم تھا یا اسے کسی نے بتا رکھا تھا پلکیں جھکا کہ مسکرایا کرو۔ گردشیں تھم کے نہ بھی دیکھیں تو آنکھ کے دریچوں کا سفر دل کے نہاں خانوں تک ضرور ہوتا ہے۔ اور ہمیں یقین ہے ایسی ہی کوئی گھڑی تھی خاتون روسٹرم پہ کھڑی پریزنٹیشن دے رہی تھیں اور آدم کے بیٹے نے اپنی جنت داؤ پہ لگانے کا فیصلہ کر لیا۔
دو چار مہینے ہم ہونق بنے مسکراہٹوں کے تبادلے دیکھتے رہے۔ اور جس دن انفارمل گیٹ ٹو گیدر میں خاتون کسی کے ساتھ رنگوں کی میچنگ کرکے بلیک نیٹ کا ڈریس پہن کے ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں اس دن تو ہمارے اندر کی شکی آنٹی  کا یقین عین الیقین کی حدوں کو چھونے لگا۔ اسی دن جب خاتون نے یونہی کوئی مل گیا تھا سر راہ چلتے چلتے کی تان اٹھائی تو ہمیں کسی ظالم کے پلائے بغیر ہی کوک کا اچھو لگا کہ دو ایک اور سمجھدار لوگوں کو کہانی سمجھا گئے۔
ابھی ہم دی پرنس اور ارتھ شائستر میں سے کوئی فسادی منصوبہ اس ہنسوں کی جوڑی پہ اپلائی کرنے کے متعلق سوچ ہی رہے تھے کہ انہوں نے پریم رتن دھن پاییوؤ  گا لیا۔ المختصر ماں نے جب بیٹا ہاتھوں سے نکلتا دیکھا تو اس نے گہری پلکوں والی چڑیل کے ساتھ میچ ڈالنے کا پروگرام بنالیا۔ دسمبر کی چھٹیوں سے پہلے جب ہمیں مسکراتی آنکھوں سے کارڈ تھمایا گیا اور آنے کی تاکید کی گئی تو اس کی آنکھوں کی مسکراہٹ پہلی دفعہ ہمیں بھی اپنے لڑکی ہونے کا احساس دلا گئی۔ اس سے پہلے کہ ہم اپنے منصوبہ ساز ذہن سے شادی پر نہ آنے کا کوئی اخیر قسم کا منصوبہ سناتے ایک کلاس فیلو گویا ہوئیں تو لو میریج کر رہی ہو تم؟ ساتھ ہی بولیں پتا نہیں لڑکیاں لڑکے کیسے پھنسا لیتی ہیں
گہری پلکیں ایک لحظے کو لرزیں اور چہرے پر سایہ سا لہرایا۔
ہم نے بھی شائد زندگی میں پہلی ہی دفعہ دنگے کو جنم نہ دینے کا فیصلہ کیا خاتون کو وش کیا اور آنے کی یقین دہانی کرائی۔
وہ بات تو ختم ہوگئی اور میں آج تک یہ ہی سوچتی ہوں لڑکی کو اب تمام عمر اسی جملے کی بازگزشت سننا پڑے گی کہ خدا جانے کیسے پھنسا۔  پتا نہیں ہمارے سوشل سیٹ اپ میں ناخوب اسقدر خوب کیوں ہے؟ جب لڑکی کی اپنی مرضی خوشی رضامندی کے بغیر کسی ان چاہے تعلق کو تمام عمر گھسیٹنے پر رضامند ہو جاتی ہے تو کل عالم کی غیرت کا شملہ اوج ثریا کو چھونے لگتا ہے۔ سارا خاندان براداری فخر سے سر اونچا کرکے کسی انسان سے اس کا پیدائشی، قانونی، شہری ،معاشرتی اور شرعی حق چھین کے مسرور پھرتا ہے۔ سٹیٹ سے لے کر خون جگر میں سینچنے والی ماں تک نہیں پوچھتی کہ یہ جو خود کشی پر مجبور کی جارہی ہو۔ حشر میں اس کی وجہ سے حشر تو نہیں اٹھا دو گی- لیز کے پیکٹ پر کمپرومائز نہ کرنے والی بیٹی کو جب باپ عزت پر سمجھوتہ کراتا ہوگا تو بیٹی انگلی پکڑ کے چلتے چلتے رک کے دیکھتی تو ہوگی ۔ ہر وقت چھپکلی کاکروچ سے ڈرانے والے بھائی کی آنکھوں میں شرارت تو ڈھونڈتی ہی ہوگی کہ ابھی بھائی کہہ اٹھے گا ہیو یو ٹوٹلی لاسٹڈ؟
Have you totally lost
چائے بناؤ کچھ نہیں ہورہا ایسا۔ ۔
اورجب یہ سب نہیں ہوتا ہوگا تو اس وقت یقینا تعلقات پر سرشار ہونا تو چھوڑ ہی دیتی ہوگی وہ۔
والدین بھی کیا کریں ہمارا معاشرتی سیٹ اپ لوگوں کو پسند رکھنے کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ ہم فیصلے لینے کی، آزادی دینے کو، بغاوت اور بدتمیزی سمجھتے ہیں۔ یہ جو پوری کی پوری برادری، پورا پورا، گاؤں چودہری ساب کے فیصلے پر ایک ہی بندے کو ووٹ دیتی ہے، یہ بھی تو اسی کی ایک مثال ہے۔ ذرا سوچیے ہر مہذب معاشرہ، معاشرتی گروہ اور فرد اس بات پر تنقید کرتا ہے، اسے قابل نفرت سمجھتا ہے۔ سیاسی حقوق پر ڈاکہ بھی کہلاتا ہے۔
تو کسی کی زندگی کے ساتھی چننے کے حق پر ہم فیصلے میں  قطعی اختیار کیسے رکھ سکتے ہیں؟ چاہے وہ لڑکی ہو یا لڑکا؟
ایک اور پیاری سی دوست ہے جب اس سے شادی کا پوچھیں تو مسکرا کہ کہتی بچپن کے منگیتر کی فیملی سے اب امی ابو کی لڑائی چل رہی ہے۔ ہنس کے کہا کسی اور سے کرلواور اس کی آنکھوں کی شکستگی لے ڈوبی مجھے۔
فیصلہ کیا ہے اس کے امی ابو سے ملنے کا اور انہیں یہ بتانے کا کہ
اناؤں نفرتوں خود غرضیوں کے ٹہرے پانیوں میں
محبت گھولنے والے بڑے درویش ہوتے ہیں
کیا ہمیں اب اپنے سوشل ٹیبوز توڑنے کی سخت ضرورت نہیں؟ ذرا سے تھوڑا زیادہ سوچیے
اور یہ مت سمجھ لیا جائے کہ یہاں ہر قسم کی بے راہ روی کا جواز مہیا کیا جا رہا ہے۔ ارے بھئی ہم تو دشمنی کے اظہار کرنے میں بھی ملٹن کے  معیار کے قائل ہیں- محبت تو پھر ادب کی متقاضی ہے اظہار میں بھی

Saturday 17 September 2016

ایمی اور کہانی


بہت دن پہلے ایمی کے لیے کہانیاں لکھنے کا وعدہ کیا تھا اور حسب عادت ایمی کی آنا نے دیر کردی.

تو میرے پیارے جگنو اب کی بار دیر ہو جانے کی وجہ آنا کی سستی نہیں بلکہ آپ کی محبت تھی.
آپ کو پتا ہے آپ کے لیے لفظ جوڑ کر جملہ تراشنا کتنا مشکل کام ہے؟ آپ کے لیے کہانی شروع کرنا بہت کھٹن ہے اس کی اور میری راہ میں معیار حائل ہے،پیاری سی تتلی.
سوچا سیف الملوک سے کہانی شروع کرتی ہوں جھیل کی خوبصورت پریوں کا حوالہ پر نہیں__کسی پری کی کوئی تخلیق یا گفٹ اتنا خوبصورت نہیں ہوسکتا یہ صرف رب کی عطا ہی ہو سکتی ہے..آپ کو پتا ہے نا اللہ کون ہے؟؟ وہ جس سے ہم دعا مانگتے ہیں وہی..اسی سے مانگا تھا ہم نے اپنا جگنو. 
آپ دنیا کے سارے بچوں کی مانند ہی دنیا میں آئیں تھیں. آپکو ہاتھ سے چھونا البتہ ایک نیا اچھوتا تجربہ تھا. آپ کے شب روز کا تجربہ بلکل الگ تھا.
مجھے شائد بتانا نہیں آتا پر میری ذہن و نظر میں محفوظ جو منظر سب سے خوبصورت ہے نا وہ میری تتلی کی مسکراہٹ ہے.آپ کو پتا ہے میں آپ کو جگنو کیوں کہتی ہوں؟ کیونکہ جگنو خوبصورتی کا استعارہ ہوتا ہے. خوشی کی پہلی کرن جیسا تیرگی میں مزاحمت کی علامت اس لیے اور اس لیے کیونکہ آپ کی آنکھ میں چھپے تاروں کی چمک سے میرے تخیل کے رنگ زندگی پاتے ہیں جب جب میں آپ کو دیکھتی ہوں مجھے لگتا ہے میں اپنا ہی کوئی گمشدہ حصہ دیکھ رہی ہوں.یوں کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ آپ دنیا پر موجود منظروں میں ایسا منظر ہو جو آنکھ کے دریچوں سے دل کی پناہوں کی طرف مسلسل سفر میں ہے.
میں یہ سب بتا کر آپ کو کوئی احساس برتری نہیں دیناچاہتی نہ میں چاہوں گی کہ کبھی زندگی میں آپ اس کا شکار ہوں. ایسا بھی ممکن ہے جگنو کہ اسی دنیا میں کوئی اور بھی ایمو جیسا ہو اور کوئی اور آنا سے بہت اچھی دوست ہو پر وہ آنا لکھتی نہ ہو وہ اپنے جذبوں کو لفظ نہ دیتی ہو.تو اس کے لفظوں سے آگاہ نہ ہونا اس کے نہ ہونے کی دلیل نہیں..
مجھے پتا ہے یہ آپکی عمر سے کہیں بڑی باتیں ہیں پر میں خود کو کہنے سے نہیں روک پا رہی تو جیسے چائینز وزڈم ہے نا کہ کنگ کو ان کہی باتیں سننا سیکھنا پڑتا ہے..بلکل ایسے ہی دلوں کے حکمرانوں کو بھی ان کہے جذبے سمجھنا پڑتے ہیں.ان کہی محبت کسی آنکھ کا تاثر.
یہ سطر لکھتے ہوئے مجھے شدت سے یہ خیال آیا کے میں احساس کے عذابوں سے روشناس کرارہی ہوں آپکو..تو آنا کے جگنو حساسیت واحد عطا ہے جو عذابوں کی مانند اترتی ہے اس کے شکار تمام عمر اپنی دہکائی ہوئی آگ میں جلتے ہیں..پر کیا کیا جائے آپ کو بے حسی کے اندھیروں میں بھی تو اکیلا نہیں چھوڑا جاسکتا نا_اسی لیے یہ سوچا ہے کہ اب سے میں اور آپ احساس کاشت کریں گے اور کہانی کی فصل کاٹیں گے دونوں مل کے. ویسے ہی جیسے ہم مل کے فرائز کھاتے ہیں اور پھول توڑتے ہیں.

سحرش. 

مضطرب سعی


پہلا چکر لگایا ہوگا، نہیں بلکہ چکر سے بھی پہلے اس ننھے وجود کو بھینچ کر سینے میں بھرنے کی کوشش کی ہوگی۔ اپنی آنکھوں کے پانی کو زیر غور لائی ہوں گی۔ کیسی بے بسی سے ارد گرد دیکھا ہوگا۔ ہر شے پر انہیں پانی کا گماں ہوا ہوگا
لیکن صحرا کی ریت لاکھ سراب دکھے، ریت ہی رہتی ہے۔ جب کچھ نہ بن پڑا ہوگا، جب کوئی چارہ نہ بچا ہوگا تو پھر اس لخت جگر کو جسے ماں خود سے جدا کرنے کا سوچے بھی تو جان حلق میں آتی ہے۔ اسے تپتی ریت پہ لٹا کر دیوانہ وار لپکی ہوگی وہ عورت، جسے لہجوں میں تمسخر بھر کے کہہ دیتے ہو، کمزور عورت، ناتواں عورت۔ پتہ ہے جب وہ ماں بنتی ہے تو کیا کرتی ہے؟ صحرا کو قیامت تک چلنے والا چشمہ عطا کرتی ہے۔ اپنے بچے کی پیاس پر کیسی دیوانگی سے اس نے چکر کاٹے ہوں گے

پہلے چکر پر خیال آیا ہوگا اسے، کہ رب بڑا منصف ہے، وہ عدل کرے گا

دوسرے چکر پر اس سے ایڑیاں رگڑتا ننھا وجود برداشت نہ ہوا ہوگا تو وہ عدل سے دستبردار ہوگئی ہوگی۔ اس نے کہا ہوگا کہ رحیم ہے میرا رب، غفور ہے. وہ ابھی ابر رحمت برسائے گا
تیسرے پر تو رو ہی پڑی ہوگی کہ اللہ یہ کیسا امتحاں ہے؟ کہا ہوگا اس نے کہ خالق تو مجھ سے آزمائش لے ،لیکن میرا بچہ تو معصوم ہے۔ وہ میرے جگر کا ٹکرا میرے وجود کا حصہ، اللہ تو اسے  آزمائش میں مت ڈال۔ اگلے چکر کا اضطراب حد سے سیا ہوگا۔ اور رب نے وہ اضطراب بھی حشر تک کے لیے زندہ کر دیا کہ جب جب کوئی ان پہاڑیوں پہ چلے گا تو تیز قدم چلے گا۔ اب سے کوئی آہستہ روی سے نہ چلے گا
اور پانچویں چکر میں وہ تجارت کرنے لگی ہوگی۔ وہ عورت، وہ ماں، رب کو واسطے دینے لگی ہوگی کہ میری کوئی نیکی، میراکوئی عمل،. کوئی دعا، کوئی ادا، تجھے پسند آئی ہو تو اس کا اجر دے دے، آج میرے بچے کی پیاس بجھا دے، میں حشر تک تجھ سے کوئی اور سوال نہ کروں گی۔
چھٹے چکر پر اپنی محبت کی مثال دینے والے کو اسی محبت کا حوالہ دیا ہوگا، زمین پر سب سے معتبر حوالہ ماں کا۔پھر اس نے نے آسمان کی طرف رخ کیا ہوگا۔ شاکی نظروں سے آسمان کو دیکھا ہوگا. اب بس وہ چپ ہو گئی ہوں گی۔ کیسی خاموش دعا تھی جو عرش کو چیر کے رب کے پاس پہنچی۔ مقبول ہو کے پلٹی اور وہ عورت وہ ماں، نبی کی ماں، کائنات کی سب سے زیادہ کی جانے والی عبادت کر کے پلٹی تو اس کا بچہ پیاسا نہیں تھا۔ اور رب نے ان کی سنت سب سے بڑی عبادت کا حصہ بنادی تھی اور نام کیا رکھا؟ ۔ سعی  ۔ یعنی کوشش۔ کتنا خوبصورت نام اور اس میں چھپے معنی خوبصورت تر، کہ میاں انسان! تمھارا کام صرف کوشش کرنا ہے۔ انجام کے ذمہ دار تم نہیں۔ اپنے حصے کی کوشش پوری لگن سے کر گزرو۔ پھر امید کا دیا جلاؤ اور ڈوری مجھے تھما کر بے فکر ہوجاؤ
صاف ہی کہہ ڈالا کہ تم بس صندوق میں ڈالو۔ میرا نام لو اور نیل کے حوالے کردو۔ حفاظت میرا کام ہے۔ میں جانوں میرا کام
اور کوشش بھی اپنی بساط بھر۔ ہاجرہ کے بس میں بس مضطرب چکر ہی تھے اس نے لگا ڈالے، زم زم چلانا،رب کا کام تھا سو ان سے اپنے بندے کا اضطراب بھی قبول کیا
 اس بڑھیا کا قصہ بھی یاد ہوگا جو سوت کی اٹی لے کر خریداران یوسف میں جا کھڑی ہوئی تھی، استفسار پہ کہنے لگی کہ میں میسر سامان لے گئی تھی
تو بس قصہ یہ ہے کہ میسر سامان لے جائو۔اور اس کے سامنے کھڑے ہونا ہے کہ یہی کل اثاثہ ہے۔ اب تجھ پر ہے، رکھ لے یا لوٹا دے۔ اور اس جملے کو بےنیازی مت سمجھ۔ وہ تجھے زیبا ہے، اس میں عاجز کی بےبسی دیکھ وہ جو لے کے آیا ہے
اور یہ کہ اپنی سی کوشش چاہے وہ صورت اضطراب ہی قرار پائے کہ اپنا حق ادا کرنا ہے۔اگر اس نے قلم دیا ہے تو لفظ لکھیں، تاثیر اتارنا اس کا کام ہے. وہ جو قادر ہے قادر مطلق

Monday 5 September 2016

پاگل پن کا دائرہ


اففف کتنی ساری باتیں ہیں.
جو تم سے ڈسکس کرنا تھیں
سیپتمبر کی ان راتوں پر
نیازی کی نظم سنانا تھی.
اب آئے ہو جب جگنو بھی اپنا رستہ بھول گئے.
دن میں آتے،پھول پہ بیٹھی تتلی تم کو دکھانی تھی.
اب تو بھول چکی ہوں.
لیکن!
کتنی اہم تھی بات وہ جو تم کو میں نے
بتانی تھی.
تم بھی نا! مجھ سے پوچھ ہی لیتے تم.
شام کی چائے میں تھوڑی چینی ملانی تھی.
کڑوی چائے پی بیٹھی ہوں.
اب رات کے خوابوں کی تلخی.
چائے کے ساتھ مل کے
میرا جی جلائے گی.
میری جاں کو آئے گی.
پھر تم بولو گے
کڑوی باتیں کرتی ہوں.
کبھی جو تم کو یاد آیا ہو.
غلام علی کی غزل تھی وہ.
واٹس ایپ پہ جو سنوانی تھی.
مجھ کو گھور کے مت دیکھو.
ساری تقصیر تمہاری ہے.
تم جب ان باتوں پہ ہس کے کہتے ہو پاگل!
تو میں ہنسی کے بھنور سے نکل کر
"پاگل" کے دائرہ میں الجھ کر.
یہ بتلانا بھول ہی جاتی ہوں.
یہ سب تو خالی پن ہے.
جو تم سے بھرتی رہتی ہوں.
میں شاعری کرتی رہتی ہوں.
سحرش.

Saturday 3 September 2016

ایک خیال کی کہانی


چند تتلیاں میرے خوابوں جیسی

کچھ جگنو میرے لفظوں جیسے.
اک مسکراہٹ اس کے خیال جیسی.
اک ساعت کوئی وصال جیسی.
اس کا خیال سرمئی شام جیسا.
شام میرے خیال جیسی.
شام پہلے سے جام جیسی.
مئے خانے کی دہلیز جیسی.
ساقی کے پہلے پہلے اکرام جیسی.
وہ شاعری کے انعام جیسی.
مہکی مہکی گلاب جیسی
بہکی بہکی نگاہ جیسی.
الجھی الجھی زلف کی مانند.
سلجھی سلجھی آداب جیسی.
وہ شام شائد یہیں کہیں ہے.
دالان کی سیڑھی پہ جیسے ڈائری.
ڈائری میں نثر ہو لکھی.
ساتھ ہلتا ہو خالی جھولا.
جیسے کوئی ابھی اٹھا ہو.
کافی کے مگ کا دھواں بھی.
پین کی نب پر سیاہی بھی.
ٹوٹے پتے کی آوارگی بھی.
وہ بجتے نغمے کی تال بھی.
سب ابھی بھی تازہ ہوں جیسے.
وہ شام میرے پاس ایسے.
ایسی ہی اک شام میں.
بچھڑنے کا قصد کیا تھا نا.
ہم مل نہیں پائیں گے،
یہ کہا تھا نا.
یہ بھی کہا تھا یہ آخری منظر ہے.
اس کو روک پانا ممکن نہیں ہے.
تو سنو ہمدم.
میرا ہلتا ہوا جھولا.
میرا گرتا ہوا پتا.
سبھی "منزل" تک نہیں پہنچے
میرے گھر کے آنگن میں وہی منظر.
وہی میں ہوں.
میں اس آخری شام کو.
روک بیٹھا ہوں.
جو ہو ممکن تم بھی چلے آؤ.
ابھی ڈائری کے اس صفحے پر
نثر کچھ لکھنا باقی ہے.
سحرش

آگہی سے آگے


گلیلیو کا آخری فقرہ

یاد ہےنا کہ
مارڈالو یا نوچ ڈالو
زمیں تو بہر صورت گھومتی ہے.
وہ سقراط کا کہنا
مر تو جاؤں آگہی نہ چھوڑوں.
یہ زہر آب حیات جیسا.
جو شعور نہ بیچے نہ مستی چھوڑے.
مستی اس "مجنون"__
کےیوریکا جیسی.
وہ اک نعرہ مستانہ
انا الحق____
وہ پانا آگہی کا وہ حیرت کو چکھنا.
بڑی لذت آفرین کیفیت ہے.
جو اس کو پا کہ مر تو جائے
گلیلیو پادری کی دھمکی میں نہ آئے.
جو سقراط زہر میں حیات پائے.
یہ آگاہی "اقرا" جیسی
ُُاُمی)(صلی علیہ وسلم)کو کل جہاں کا
استاد منوائے.
ایک قدر جو سب میں مشترک.
آگہی کے عذابوں میں.
اک مصیبت جہل بھی ہے.
روایت بھی اس کی دشمن پرانی.
تو مختصر بس یوں ہے.
کہ اگر روایت کو چھیڑ بیٹھو.
عین ممکن ہے کافر کہلاؤ
ہو بھی سکتا ہے مارے جاؤ
پر جاتے جاتے یہ ہی کہنا.
کہنا____ زمیں تو بہر صورت گھوتی ہے
آگاہی کو واپس موڑ دینا ممکن نہیں ہے.
سحرش