Pages

Sunday 15 October 2017

دو لفظوں میں کیسے کہوں اک عمر کا قصّہ



یوں تو انسان کا زمین پر آنا بجائے خود ایک حادثہ تھا۔ مگر گھڑی بھر کو ٹھہر کر، اپنے اپنے کولہو سے دو منٹ کی رخصت لے کر سوچیں کہ اس مسجودِ ملائک پر کیسا کیسا حادثہ نہیں گزرا۔



جنت سے نکالے جانے کا حادثہ کیا کم تھا جو جدائی والے چالیس برس مل گئے؟ جدائیوں کا عذاب بڑا دردناک ہوتا ہے۔ وہی شخص ساتھ اٹھتا بیٹھتا، چلتا پھرتا، ہنستا بولتا ہو تو کبھی یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ یہ اسقدر اہم ہے۔ اور وہی اگر بچھڑ جائے تو کسی کل چین نہیں پڑتا۔ اٹھتے بیٹھتے بس اسی کا خیال۔ "یوں کرتا تھا وہ ۔۔۔ اس وقت ہوتا تو ایسے کہتا۔ بظاہر ایک ماضی پرست یا ناسٹیلجک شخص کے جملے لگتے ہیں۔ پر جس پر بیت رہی ہو جدائی،وہی مفہوم سمجھ سکتا ہے اس سب کا۔
جدائیوں والا حادثہ ختم ہوا تو آدم کے دو بیٹوں کے دل میں ایک ہی ناری کا سمانا ایک نیا حادثہ تھا۔ ویسے یہ بھی تو آدم کی فطرت میں ہے نا، اس کا ناری پر جی ہار بیٹھنا اور پھر اپنی جنت داؤ پر لگا لینا۔ جب آدم کو انہی عناصر سے گوندھا ہے رب نے تو پھر کب تک فطرت سے لڑنے کی ناکام کوشش کرتے رہیں گے ہم سب؟ پھر آج بھی ہم کسی کا کسی کے لئے والہانہ پن دیکھ کر تعجب کیوں کرتے ہیں؟ رب کے رسول کا ہی اٹل فرمان ہے نا کہ دو دلوں میں محبت میں نکاح کے خطبے سے بہترین بات کوئی نہیں؟
تو پھر ہم ملانے یا ملنے کی بات پر ایسا انہونا ردعمل کیوں دیتے ہیں؟ جیسے یہ پہلا ہی واقعہ ہوا ہو زمانے میں۔
سوچیں تو فطرت سے اس لڑائی سے بڑا حادثہ نہیں کوئی۔
کلچر کے نام پر ہر بے جان تکلف کی غلامی سے بڑا کوئی حادثہ نہیں۔ معاشرت کے نام پر ہر اختیار رکھنے والے کا اپنے اختیار کا فرعون بن جانا بھی حادثہ ہے۔
اس حادثے کا اپائے سوچنے سے پہلے ہی اس جلد باز نے زمین اپنے ہی بھائی کے خون سے رنگین کرکے نئے حادثوں اور نئے امکانات کا در وا کیا۔
کیسا کیسا خیال آیا ہوگا اس وقت ذہن میں۔ قدیم و اولین ہی سہی، تھا تو انسان ہی نا۔ خدشات، خوف، امید و یاس میں بندھا۔
کھو دینے کا خوف، کچھ ہوجانے کا خدشہ، منزل سے دوری پر یاسیت ۔۔۔ آج بھی تو انہی بندشوں میں جکڑے ہیں نا ہم سب۔ اور رہ گئی امید ۔۔۔ اچھے وقتوں کی امید۔ امید سے بڑی کوئی برائی شاید زمین پر نہ ہو۔ نہ اس سے بڑی کوئی اچھائی ہی ہوگی۔ پینڈورا والی کہانی میں بھی تو اس لڑکی کے ڈبے میں رہ جانے والی آخری برائی امید ہی تھی۔ جسے لے کر پہاڑی راستے پر نشیب کی طرف گامزن ہوگئی تھی وہ، اچھے دنوں کی آس لئے۔ تو صاحبو، ہماری امید پرستی بھی اور یاسیت بھی حادثہ ہے۔ اور ان دونوں سے جنم لیتے ان گنت حادثے۔
ایک تو شاعر نے بتایا تھا نا کہ
بہت امید رکھنا اور پھر بے آس ہونا بھی
بشر کو مار دیتا ہے بہت حساس ہونا بھی
ویسے بشر کا مر جانا تو کوئی حادثہ نہ ہوا۔ جینا البتہ حادثہ ہو سکتا ہے۔ اور جیے ہی چلے جانا حادثہ ہو سکتا ہے۔ بلکہ حادثے سے بھی بڑا۔۔۔سانحہ۔ کیسی پستی ہے۔ ساری مخلوق رب کا کنبہ ہے اور اس کنبے کا سب سے افضل فرد انسان بغیر کسی واضح مقصد کے جیے جا رہا ہے۔ اپنی اپنی مرضی کا طوق گلے میں ڈالے۔ اپنے اپنے تعصبات کے تمغے سجائے۔ اپنے اپنے کولہو میں سب جتے ہوئے ہیں۔ اپنی تخلیق کے مقصد سے بے نیاز۔
یہ لایعنی بے نیازی حادثہ ہے لوگو۔ پستی کے ساتھ یہ سیٹلمنٹ حادثہ ہے۔ دنیا جہاں کے فلسفے پڑھ کے جینے کا ڈھنگ نہ سیکھ پانا بھی حادثہ ہے۔ ویسے ڈھنگ سیکھنے والا موقف بھی بڑا عجیب ہے۔ یہ پرٹینڈ کرتی ہوئی "تہذیب بھی تو حادثہ ہے نا۔ کلچر کے نام پر ہر بے جان تکلف کی غلامی سے بڑا کوئی حادثہ نہیں۔ معاشرت کے نام پر ہر اختیار رکھنے والے کا اپنے اختیار کا فرعون بن جانا بھی حادثہ ہے۔
اپنے ذرا ذرا سے فائدے کے لئے۔۔ بلکہ نہیں فائدے کی امید پر اوروں کے احساسات کا قتل سانحہ ہے۔ جو روز ہمارے گرد بیت جاتا ہے اور ہمیں حادثہ نہیں لگتا۔ یہ بےخبری المیہ ہے۔



اردگرد چلتی پھرتی زندہ لاشوں کے گروہ مسکراہٹ سے عاری لب زندگی سے عاری آنکھیں اور لہجے ان سب کو دیکھنا پھر بھی زندگی پر اصرار کرنا بھی حادثہ ہے اور یہ سب جانتے بوجھتے اپنے ہی بزدل انسان دنیا میں لائے ہی چلے جانا حادثہ ہے۔


آسمان سے گرے پٹواری



ویسے پٹواریوں بیماریوں کی سختی کے دن ختم ہونے میں ہی نہیں آرہے بیچارے۔ آسمان سے گر کے کھجور میں ایسے اٹکے ہیں کہ نہ وہاں چھلانگ لگا پارہے ہیں نہ ٹہر پا رہے ہیں۔ لیکن چونکہ اسٹائل بھی کوئی چیز ہوتی ہے لہذا وہاں بیٹھے ہی ایسے ڈیزائن مار رہے ہیں جیسے بہت ہی مزے میں ہوں۔ لیکن کب تک آخر کب تک اچانک پھٹ پڑتے ہیں۔ بالکل اس موٹی آنٹی کی طرح جو فوٹو میں سمارٹ نظر آنے کے لئے پوری سانس اندر کھینچ کے کھڑی ہو اور فوٹو گرافر کہیں اور بسی ہوجائے اور وہ اپنے ہی سانس کے پریشر تلے آ کر دھڑام سے نیچے جا گرے۔ ہائے بیچارے ہمارے عقلبند پٹواری پونے دو روپے کی تالیاں تم لوگوں کی "لاجکس148 کے لئے اس کے بعد یہ بتانا تھا کہ یہ تم لوگوں کے حواسؤں پر کپتان کب سے سوار ہونے لگے۔ بولے تو کہاں گیا وہ سارا تجربہ جس کے چرچے سن سن کر ہمارےکان تقریبا پک جاتے جو ہم نے غور کیا ہوتا تم لوگوں کی فضولیات پہ۔ کسمے آجکل مجھے اچھا خاصا ترس آجاتا ہے تم لوگوں پہ۔ پہلے پوچھ پوچھ کے گلا خراب کر لیا کہ کیوں نکالا؟ جب مرضی ہماری جیسا ریسپانس دیا تو خود ہی تنخواہ نہ لینے والا جواب گھڑ لیا۔ اس ناراض بہو کی مانند جو ناراض ہو کہ میکے جا بیٹھتی ہے اور جب کافی عرصہ کوئی منانے کے لئے نہیں جاتا تو بھینس کی دم سے لٹکے چلے آتی ہے یہ شور کرتی کہ میں کب آرہی تھی یہ تو بھینس مجھے کھینچے لا رہی ہے۔ کیا؟؟ مثال فٹ نہیں بیٹھ رہی؟ تو تنخواہ والی بات فٹ بیٹھ رہی تھی؟ نہیں نا ؟ ہم نے بھی تو سنی ہی نا۔ خیر آپ سب سے اظہار محبت کی تازہ وجوہات پہ بات کرتے ہیں۔ تو ہوا کچھ یوں کہ نانی نے خصم کیا برا کیا کر کے چھوڑا اور بھی برا کیا والا سین ہو رہا ہے تم لوگوں کے ساتھ۔ حساس ایریاز میں گھسے برا کیا کر کے مکر گئے اور بھی برا کیا۔ پر سب سے برا تب ہوا جب کرائے کا پالتو داماد چھوڑ دیا۔
 یعنی اب مہرالنساء کے ابو ہی رہ گئے تھے ہمیں بھاشن دینے والے۔ پیارے پٹواریو اپنے داماد کو اور اپنے وزیروں کو یہ تو سمجھایا ہوتا کہ مسئلہ کسی کے عقیدے میں نہیں ہے نہ ہمیں کسی کے مذہبی عقائد سے کچھ لینا دینا ہے۔ مسئلہ ان کا ہمارے عقیدے میں گھسنے میں ہے۔ نہیں سمجھے نہ۔ نہیں سمجھے ہوں گے۔ ٹہرو بھیا سمجھاتی ہوں۔ وہ یوں کہ ہم نے یعنی آنسہ سحرش عثمان نے ایک عدد آرگنائزیشن کے ساتھ ایز والنٹیر دوسال کام کیا۔ اپنی جان ماری اپنا بیسٹ دیا تھوڑا بہت دماغ لڑا کہ ایک پراجیکٹ بھی منظور کرا لیا آرگنائزیشن کے لئے۔ لیکن ایک دن ہم یونہی اکتا گئے جی اوب گیا آرگنائزیشن کو،لات ماری اور گھر چلے آئے۔ پھر لگے منصوبے بنانے اپنی آرگنائزیشن بنانے کے۔ اب بظاہر تو ہمارے مقاصد ایک سے تھے۔ آرگنائزیشن کے اصول و ضوابط بھی پتا تھے۔ سو ہمیں ان کا نام استمال کر لینا چاہیے تھا نا؟؟ کیا؟؟ نہیں کر سکتے کسی آرگنائزیشن کا نام اور لوگو؟ کیا ہو گیا بھئی بس ذرا سے ہی تو اختلافات تھے پھر بھی ایسا "کٹر رویہ ایسی انتہاء پسندی ایسی تنگ نظری
 چچ چچچ آپ سے روشن جیالوں سے توقع نہیں تھی اسکی۔ کیا کہا یہ اصول ہے دنیا کا؟ تو بھئ صاف سیدھی بات ہے۔ تم لوگ اپنی دنیاوی آرگنائزیشن کا نام مجھے استمال نہیں کرنے دیتے۔ اور ہم تم لوگوں کو اپنے حساس ایریا میں گھسنے دیں؟ صدقے بھی آپ لوگوں کی ایکسپیکٹیشنز۔۔ بات سنو تم لوگوں کو پتا ہے برطانیہ میں پروٹسٹنٹ فرقے والے شاہی خاندان کا حصہ نہیں بن سکتے۔ ہولوکاسٹ پہ بات کرنا جرم ہے۔ وہ کیا نازی کیمپس بنائے تھے ہٹلر نے آج بھی ان پر کچھ کہنے سننے کی تحقیق کر کے آؤٹ آف دا باکس سوچنے کی آزادی نہیں میسر کسی کو۔ تو پھر ہم ہی سے "روشن خیالی کی توقع کیوں ؟ جب ہر قوم ہر مذہب کا حساس ایریا ہے اور وہاں گھسنے کی آزادی نہیں کسی کو تو پھر ہمارے ہی عقیدے کو غریب کی جورو کا درجہ دینے پر تلے رہتے ہو تم لوگ؟ اور کوئی بات نہ ملے تو کہنے لگتے ہو عمران خان چپ ہے اس نے ردعمل نہیں دیا۔ تو بھئ مجھے اپنے عقیدے کی تکریم کرنے کے لئے عمران خان کے رد عمل کی حاجت نہیں ہے۔ اور نہ ہی ایسے عقل کے اندھے سپورٹرز ہیں کپتان کے کہ اتنے اہم معاملہ پر رائے کے لئے کسی کا انتظار کریں۔ ختم نبوت ہمارے ایمان کا حصہ ہے رہے گا ہمیشہ چاہے دنیا ہمیں انتہاء پسند سمجھے چاہے بنیاد پرست۔ شائد یہ جذباتی گفتگو لگے روشن خیالوں کو۔۔۔پر کیا کریں جذبات کے بغیر محبت نہیں ہوتی نا۔۔نہ اس کا اظہار۔

Saturday 7 October 2017

ٹانگ کے پلستر سے یوسین بولٹ تک

لکھ دیتے ہیں بھئ ایک ہی بار۔یوں تو یہ بتانا خاصا معیوب ہی لگتا ہے کہ بیمار ہیں ہم۔عیادت کیجئے ہماری۔ لیکن یقین جانیے اس تحریر کا قطعی مقصد اپنی عیادت کرانا مقصود نہیں۔یوں بھی اب ہم اچھا محسوس کر رہے ہیں۔ تو ہوا کچھ یوں تھا کہ ہم کانوں میں ہینڈز فری لگائے ہاتھ میں یہ موا سارے مسائل کی جڑ۔ نہیں ٹہرییے آپ کو ایسے ہرگز نہیں سمجھ لگی ہوگی ہمیں مزید وضاحت کرنے دیجئے۔ اجی سارے اخلاقی و معاشی و معاشرتی مسائل کی جڑ۔ نوجوان نسل کی گستاخی کی وجہ والدین کے لیے گونا گو مسائل پیدا کرنے والا یہ شیطانی آلہ جی ہاں بالکل صحیح سمجھے آپ یہ موا موبائیل تھا ہاتھ میں۔ اور ہم ہمیشہ کی طرح اندازے سے سیڑھیاں اترنے لگے۔ اسی اثناءمیں آہا بیماری کی حالت میں ہمارے جملے چیک کیجئے۔ تو ہم کہہ رہے تھے اسی اثنا میں سامنے سے ہمیں ایک منحوس کالی بلی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دیکھائی دی ہم نے ازرہ ہمدردی اسے رستہ دینے کے لئے سائڈ پر ہوئے اور اگلا قدم اٹھاتے ہی چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ جی بالکل ہم اوپر سے پہلی سیڑھی سے پھسلے اور نیچے آخری سیڑھی پر آ قیام کیا۔ آخری سیڑھی پر لیٹے لیٹے ہم نے مدد کے لئے گھر والوں کو پکارا انہوں نے آکر بہتیرا پوچھا کہ یہاں یوں بے سدھ لیٹنے کی وجہ۔ ہم نے اپنے پاؤں اور ہاتھ کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ ہم یہاں شدید تکلیف محسوس کر رہے ہیں۔ یوں تو ہمارے ہونے سے ہر لحظہ ہمارے اردگرد کے لوگ تکلیف میں ہی رہتے ہیں۔ لیکن اسوقت ہماری جسمانی تکلیف کو محسوس کرکے ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا۔جس نے اچھی طر ٹھوک بجا کر ہمارا پاؤں چیک کیا کہ کہیں پلاسٹک کے پیر لگا کر تو نہیں گھوم رہے ہم۔ ہم نے بہت بتایا کہ ڈاکٹر صاحب یہ جو ہمارا پاؤں ہے اس کی فوٹو پچھلے پانچ سال سے فیس بک پر ڈی پی ہے ہماری اور اس پر ہمیں کم و بیس ایک ہزار لائک اور تین سو کامنٹس مل چکے ہیں۔جبکہ ہمارا میسنجر ہر وقت اس کی تعریفوں سے بھرا رہتا ہے خدارا رحم اس کو یوں پلستر لگا کر سفو کیٹ مت کیجئے مت کیجئے مت کیجئے۔۔۔۔ساتھ یہ بھی کہا ڈاکٹر تمہیں خدا کا واسطہ۔ تمہیں ہر صورت مریض کی جان بچانا ہوگی۔ ڈاکٹر کے اسسٹنٹ ک گھوری نے پاوں ٹیبل پر رکھنے پر مجبور کر دیا۔جب ادا ہمیں دماغی امراض کے ڈاکٹر کے پاس نہ بھجوادیں۔ اچھی طرح تسلی کر لینے کے بعد پاؤں پر پلاسٹر نماء پٹی چڑھا دی گئی۔ حرکات و سکنات پر مکمل پابندی کے ساتھ مسلسل پین کلر۔ یوں تو ہمیں بھی شک تھا کہ یہ ہمیں نظر لگی ہے۔ لیکن عیادت والوں کو ہمارے شک سے کہیں زیادہ یقین تھا۔ اور اسی یقین کے پیش نظر ہمیں جلے ہوئے کوئلے پر کالی مرچوں کی دھونی کی افادیت کا پتا چلا۔ ساتھ ہی ہمیں دی گریٹ اب یہ مت کہہ دینا دی بھی اور گریٹ بھی ارے ہمارا بس چلے تو سپر لیٹو فام کے ساتھ دی لگا کر اس "فوک وزڈم کو لکھیں۔ جو کہ کچھ یوں ہے کہ گڑ کی بھاپ موچ پلک جھپکنے میں ٹھیک کر دیتی ہے۔ اول تو ڈاکٹر کے پاس جانا ہی نہیں چاہیے لیکن اگر بالفرض جانا پڑ ہی جائے باامر مجبوری تو ڈاکٹر کی دی میڈیسن کبھی نہ کھائیں کیونکہ ڈاکٹری دوائیوں سے ہڈیاں کمزور ہوجاتی ہیں۔ خیر دوسرے نسخے کے مطابق نمک والے پانی میں اینٹ گرم کر کے رکھنے اور اس پانی پلس اینٹ کی بھاپ لینے سے ہڈی اپنے آپ جوڑ سے بغلگیر ہوجاتی ہے۔ جب ہم نے ٹوٹکے کی وجوہات پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ شائد نمک کی زیادتی سے ہڈی ہائی بی پی میں جوڑ سے جا ٹکراتی ہو۔ لیکن خدا گواہ ہے اینٹ کا ہڈی جوڑنے میں کردار اب ہی پتا چلا۔ ہم ہمیشہ اسے آلہ ہڈی توڑ ہی سمجھتے رہے۔ کیسا کیسا آزمودہ نسخہ ہمیں آج کل سننے کو مل رہا وہ ہمارے بیان سے باہر ہے۔ جن کو اگر ہم عملی جامہ پہنا لیں تو ایک دن میں یوسین بولٹ بن جائیں۔ لیکن وہ کیا ہے کہ فائزہ بیوٹی کریم مہنگی ہے اور ہم غریب سو اس آئڈیا کو ڈراپ کئے دیتے ہیں۔ بیڈ پر لیٹے پاؤں پر پلاسٹر چڑھائے ہم سوچ رہے۔ کیسا کیسا بزنس پلین ہمارے اردگرد بکھرا پڑا ہے۔ جس میں ہینگ لگنی ہے نا پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آنے والا ہے۔ تو کہنا یہ تھا کہ وہ بس سیڑھیوں سے گر گئی تھی۔۔۔اور یہ چوٹ ہمیں یوسین بولٹ نہ بھی بنا پائی تو بزنس پرسن تو ضرور ہی بنا ڈالے گی۔ آپ سب کی دعاؤں اور نیک خواہشات کا بہت شکریہ۔ بطور عیادت گفٹ ہم چاکلیٹس قبول فرماتے ہیں۔

ڈائجسٹکل اسٹرائک


اس نے اپنے گھنے لمبے گھنگریالے کالے سیاہ بالوں کو یونہی کندھوں پر پھیلایا پرفیوم سپرے کیا اور کمرے سے باہر چل پڑی۔
لاؤنج میں۔پہنچ کر اسے احساس ہوا کے کندھے سے جھولتا کرش کیا ہوا ہلکے گلابی رنگ کا دوپٹہ زمین بوس ہونے کو ہے۔لاپرواہی سے دوپٹہ دوسرے کندھے پر ٹکاتے ہوئے علیشہ احمد کچن کا رخ کیا۔
ہلکے سر مئی رنگ کی قمیض میں اس،کا گندمی رنگ تمتا رہا تھا۔
پوچھنا یہ تھا کہ گھنے لمبے گھنگھریالے بال کندھوں پر کیسے پھیل جاتے ہیں؟
ادھر تو گھنگریالے بال ہمیشہ جنگل کا سا سماں پیش کرتے ہیں۔
اور اگر کبھی بھولے سے کھلے چھوڑ دیں تو خاندان کا بچہ بچہ جگت لگاتا ہے گھونسلے کے سر والی۔ ہلکے گلابی اور ہلکے سر مئی رنگ یعنی لائٹ پنک اور سلور گرے میں گندمی رنگ خاک تمتماتا ہے۔
اچھا خاصا فئیر کلر گہرا لگنے لگتا ہے کچھ غلط کہا ؟۔
گندمی کہاں سے تمتائے گا۔یعنی حد ہوگئی عوام کو بے وقوف بنانے کی۔
پھر کچن میں بھی کھلے بالوں کے ساتھ۔۔۔اللہ جانے اس علیشہ احمد کو کوئی سمجھاتا کیوں نہیں کچن میں جانے کے کیا طور طریقے ہوتے ہیں۔
کوئی اس شوخی کو یہ بھی نہیں کہتا ہوگا کل نو سوہرے جا کہ میرے چاٹے ایچ سواہ پائیں گی۔۔
میسنی سی ہے اب ہماری طرح صاف گو تو ہوتا نہیں کوئی کہ واپس کہہ دے سوہریاں دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔آہو۔
Reality
یہاں تو چائے/کافی بنانے لگے بنداتو سارے گھر کو خوشبو پہنچ جاتی ہے۔اور چھ سات کپ بنائے بغیر گزارا نہیں ہوتا۔
اور ادھر وہ علیشہ احمدآدھی رات کو کیک بیک کر آئسنگ کر کافی بنا کر دبے پاؤں بڑے ابا کے پورشن میں پہنچ جاتی ہے۔عون ہمدانی کا برتھڈے سیلیبریٹ کرنے ٹرے میں لان سے سفید و سرخ گلابوں کی دو ٹہنیاں بھی توڑ کے سجا لیتی ہے۔
اور تف ہے ادھر لاکھ جتن کر لو ایلویرا بھی نہیں اگ کے دیتا کہ چلو سوٹڈ بوٹڈ ڈیشنگ سنجیدہ لمبی سی گاڑی والے عون ہمدانی کا نہ سہی چول چھچھورے شانی کا برتھڈے ہی منا لے بندا۔
یعنی حد ہی ہے
ادھر نیند کی کچی انوشے انصاری بھی صبح صبح ٹریک سوٹ پہنے پونی ٹیل کئے اسفند یار کے ساتھ جاگنگ کر رہی ہوتی ہے۔۔
اور ادھر ہم ہیں جو انسومنک ہو کہ بھی نو بجے تک بستر سے ساز باز کرتے رہتے ہیں۔
یہاں چھ سال یونیورسٹی میں گزار کے سارے شہر میں آوارہ گردیاں کر کے بھی بقول اماں کے لنڈورے گھوم رہے ہیں۔
اور اُدھر زرمینے آفریدی یونی کے انگلش ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیوں پر شایان آفندی کی بانہوں میں جھول رہی ہوتی ہے۔
ہائی ہیلز بھی سکون سے کیری کر لینے والے لوگ کیا فالتو لگنے آئے ہیں دنیا میں۔؟
Conclusion
فار گاڈ سیک۔۔۔سوچ کو بدلیے کسی کو دیکھائی دینے کے لئے گرنا ضروری نہیں ہے۔
وہاں فلم گریویٹی والی آنٹی مارس سے اکیلے واپس چلی آتی ہے بخفاظت ہے نا ؟۔
یہاں ابھی تک عوام ہراساں آنکھوں والی انگلیاں مروڑتی کنفیوز ہرنی کو ہی آئیڈیلاز کر رہی ہے۔
یعنی ہمیں فینٹسی میں بھی مضبوط کانفیڈنٹ الفا فی میل گوارا نہیں۔
پھر سارا جہاں مل کے روتا ہے کہ خواتین بولڈ ڈیسینز نہیں لے سکتیں۔
Moralآپ لوگ اپنے معاشرے کی نارمز اچھائی کے معیار تو دیکھیں۔
اپنا ادب اس میں موجود فینٹسیزتو دیکھیں۔
جس میں خاتون کو پورے فرد کا سٹیٹس نہیں ملتا۔ بس ہر وقت فریق ثانی کو پلیز کرنے کے چکروں میں اپنی ذات کا غرور کھوتی رہتی ہیں۔

مرد کا المیہ: ایک عورت کی پوری گواہی


اچھی لڑکی اور سکیچ بک والی شہرزاد کے تذکرے کے بعد یونہی بے سبب اداسی طاری تھی۔ یونہی بے وجہ بے سبب والی اداسی وہ جس میں بندا ۔۔بلاوجہ ہی چائے پی لیتا ہے سگریٹ سلگا لیتا ہے۔ مسکرا دیتا ہے۔ رو پڑتا ہے۔  خود کو ہی بتاتا رہتا ہے بندا ۔نہیں میں نے کسی سے کچھ کہنا تو نہیں تھا- کوئ ضروری بات بھی نہیں کرنی- کچھ پوچھنا بتانا بھی نہیں تھا- بس یونہی کیبورڈ کھول لیا- جیسے کوئی ضروری بات کہنی ہو- مگر کھول کہ پتا چلا کہ  کچھ کہنا تو نہیں تھا- بس ایسے ہی  جملے پھسل رہے ہیں- جیسے بلاوجہ اداسی ہوتی ہے- زندگی میں کوئی مسئلہ بھی نہیں ہوتا اور آپ دکھی آتما بنے گھوم رہے ہوتے ہیں- جیسے بلاوجہ ہی آپ کسی کو کال ملا بیٹھتے ہیں اور ہیلو کی آواز سنتے ہی سوچنے لگتے ہیں، کیا کہا جائے

ایسی ہی شام تھی۔



شام سے یاد آیا مغرب کے وقت کی خاموشی عجیب سے احساسات میں مبتلا کر دیتی ہے ہمیشہ۔ ڈوبتا سورج پھیلتا اندھیرا اور فضاء میں گونجتی اس کی کبریائی کا اعلان۔
جیسے اسوقت میں اپنے بندے کو اپنی طرف بلانا کسی خاص مقصد کے تحت ہو۔کسی بڑے پلین کا چھوٹا سا حصہ۔جیسے پزل گیم کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوتے ہیں ان کو صحیح ترکیب میں جوڑتے جائیں تو پوری تصویر سامنے آجاتی ہے۔
بالکل ایسے ہی شام کا ڈوبتا سورج، گہرا ہوتا آسمان، گھروں کو لوٹتے پرندے اور فضاء میں اس کے نام کی گونج۔
یہ احساس اس دن گھر سے دور اس خالی ٹرمنل کے بینچ پہ بیٹھے  کر ڈھونڈا تھا- کہ اسوقت رب کا اپنی طرف بلانا دراصل بندے کو یہ بتانے، سمجھانے کے لئے ضروری تھا کہ اس سے بڑی کوئی قوت نہیں۔اور یہ کہ اس کائنات میں بسنے والے ہر جاندار کو تو بہت بہرصورت شام ڈھلے اسی کی طرف لوٹنا پڑتا ہے۔ چاہے دن بھر جاندار قہر ہی برساتا رہا ہو۔



لوٹ کر جانا تو اسی کے پاس ہے۔ اور جانا بھی کیسے؟
ذات کا ہر غرور پس پشت ڈال کر۔ ہر زمینی امتیاز زمین پر چھوڑ کر
وہ اس احساس کے غلبے والی شام تھی ۔ جب اردگرد چلتی پھرتی انتظار کرتی کہانیوں پر نظر دوڑائی۔ چھوٹے بچوں کےسوالوں کے جواب دیتی مائیں۔ ان کے لئے پروائیڈر مینجر کا رول ادا کرتے باپ۔
کہانیاں بھی کیسی عجیب ہوتی ہیں ۔ خود اپنا آپ پڑھوا لیتی ہیں۔ کونے میں کھڑا وہ شخص جس نے روشنی کو روکا ہوا تھا۔ اس کے سامنے کرسی پر بیٹھی خاتون اور اس کی گود میں سوئی جاگی چھوٹی سی پری۔ مجھے بے ساختہ ایمل (بھتیجی) یاد آئی جو اس بات پہ آپ سے گھنٹوں لڑ سکتی ہے کہ آپ نے لائٹ آن کیوں کی ایمو شو رھا تھا۔
شائد ایسی ہی ہوگی وہ۔ جس کی نیند کی خاطر باپ سایہ کئیے کھڑا تھا۔
قدرے کم رش والے ٹرمنل پر گہری ہوتی شام کی اداسی تحلیل ہونے لگی تھی۔جیسے روشنی کی ایک کرن تیرگی کے سمندروں میں دراڑ ڈالنے لگی ہو۔ جیسے اندھیرے کو ہرانے واسطے روشنی کی پہلی لکیر نے سفر شروع کر دیا ہو۔
روشنی کے امید اور محبت کے ذرے ٹرمنل کے لاؤنج میں پھیلنے لگے تو منظر کو آنکھ کے رستے دل میں محفوظ کرنے کے لئے آنکھ موند لی۔ بلکہ شائد اس کہانی کو لکھنے کا منصوبہ بناتے ہوئے آنکھیں موندی تھیں۔
مصروفیت کے چرخے میں منٹ گھنٹے دن دھاگے سے سوت، سوت سے کھیس کی صورت جب ہفتوں میں ڈھلنے لگے تو کہانی پس منظر میں چلی گئ۔

کل انٹرنیٹ چلایا تو دھڑا دھڑ فون بجنے لگا۔
میسنجر پر آتے میسجز چیک کئے تو کسی اجنبی کی طرف سے اپنی ہی تحریروں کے لنک ملنے پر اگلا جملہ لکھا تھا کہ کیا خوبصورت لکھتی ہیں آپ مجھے ایڈ کر لیجئے ٹائپ کسی جملے کے انتظار میں میسج ریکوسٹ کینسل کرنے کے متعلق سوچ ہی رہی تھی کہ اگلے میسج نے رائزڈ آئی برو کے ساتھ جواب دینے پہ مجبور کیا۔
اگلا سوال تھا آپ کی عمر کیا ہے۔ آپ کی کتنے سال کی ہیں؟
ابھی "ایکسکیوزمی پورا ٹائپ بھی نہ کیا تھا کہ جلدی جلدی کہہ دینے کے سے انداز میں گویا ہوئے۔
جتنی آپ کی عمر ہوگی اتنا تجربہ ہے میرا عملی زندگی کا۔
دس سالہ شادی کا تجربہ بھی ہے۔ میرے سارے دوست بھی میریڈ ہیں۔ اور سب کی زندگیاں کم و بیش ویسی ہی آزاد اور خوشحال ہیں جیسی آپکی اسکیچ بک والی دوست کی ہے۔
اچھے سامع کی طرح سننے لگی۔ اور جو کہانی تھی وہ یوں تھی۔

میں اپنی کلاس فیلو کو پسند کرتا تھا اور یہ پسندیدگی تھی یا محبت، مجھے معلوم نہیں۔ گھر میں شادی کی بات شروع ہوئی تو نرم لہجے والی اس لڑکی کا بتایا گھر میں۔۔۔۔۔۔۔ اور گھر میں طوفان آگیا۔ بہن بھائی جو اپنی اپنی زندگیوں میں مگن تھے۔سب کو اچانک میں نظر آنے لگا۔ پورے خاندان بلکہ سات نسلوں کی عزت کا بوجھ میرے کندھوں پڑگیا۔ میں ایک روائتی بزدل مرد تھا جو آشیانے سے بچھڑنے سے خوف زدہ رہتا ہے۔ سو عزت وقار بچا لیا میں نے مرضی کی قیمت پر۔
ماں کے آنسوؤں کے سامنے ہار گیا میں۔



یہ جان کر اندر خاموشیاں گہری ہوتی گئیں کہ جذباتی استحصال صرف میری جنس کا ہی نہیں ہوتا۔ ہر اس شخص کا ہوتا ہے جو رشتوں کی قدر کرنا چاہے
سکرین کے اس پار میں کرب میں مبتلا تھی۔ اُس پار ناجانے کیا کیفیت ہوگی۔ جی چاہ رہا تھا سکرین گرا دوں۔ فون کہیں رکھ کر بھول جاؤں۔ اپنے ہی جیسے انسانوں کا استحصال کوئی کب تک  سہہ سکتا ہے۔ لیکن فرار بھی تو کوئی حل نہیں ہوتا ۔ میرے چلے جانے سے اگر دکھوں میں آدھا فیصد بھی کمی آجاتی درد کم ہوجاتے تو کب کی جا چکتی۔ مصیبت بھی شائد یہ ہی ہے ہمارے ہونے نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔
خیر۔۔۔ پتا نہیں کیوں یہ جان کر اندر خاموشیاں گہری ہوتی گئیں کہ جذباتی استحصال صرف میری جنس کا ہی نہیں ہوتا۔ ہر اس شخص کا ہوتا ہے جو رشتوں کی قدر کرنا  چاہتا ہے تعلق جوڑ کے رکھنا چاہتا ہے۔
سکرین کے اس طرف کوئی آف لائن جا چکا تھا۔ گود میں پڑے لیپ ٹاپ کی روشن سکرین خاموش پڑی تھی۔ اداسی میز پر پڑے چائے کے کپ میں ٹھنڈی ہو رہی تھی۔ آخری راتوں کا چاند اندھیروں سے لڑتے لڑتے روشنی کی کوشش میں نڈھال ہو رہا تھا۔ تارے بھی مکانوں کو لوٹنے والے تھے۔

سوالوں کے بھنور نیند کی کشتی کو خوابوں کے خوش رنگ بادبانوں سمیت گھیر چکے تھے۔ وہ خواب جس میں شعور کے ایک صفحے پر موجود دوسرے کو اپنے جیسا انسان سمجھتی ہوں۔۔۔ انسانوں کی برابری کے خواب۔ وہ خواب جن میں کوئی شب، شبِ غم نہیں ہوتی۔جانے کتنی دیر خوابوں سے یقین اٹھ جانے کے ملال نے دل کو گھیرے رکھا ۔

اگلا میسج اس سوکالڈ مشرقی روایات والے معاشرے کے منہ پر طمانچہ تھا۔
کہنے لگے سارے گھر کی مرضی منشاء پسند اور رضا مندی سے خالہ کےگھر شادی ہوگئی۔ شادی کے دسویں دن سے آج دسویں سال تک میں اپنی ماں اور بیوی میں مصالحت کراتے کراتے تھک چکا ہوں۔ماں کے پاس بیٹھ جاؤں تو بیوی سازشی تھیوریز کے تانے بانے ڈھونڈتی رہتی ہے۔ ماں بھی یہ  بتاتی رہتی ہیں کہ میری بیوی نے مجھے ان سے چھین لیا ہے۔ اور میں پچھلے دس سال سے اپنی دنیا اورآخرت کے درمیان فٹ بال کی طرح بھٹکتا رہتا ہوں۔
میرے بہن بھائی مجھ سے میل جول کم کر چکے ہیں۔ میرے بچے اجنبیت سے ملتے ہیں۔ سوشل آئسولیشن کا شکار ہو چکے ہیں۔
اور میں اپنی شادی کو ناکام شادی سمجھتا ہوں۔
اور المیہ یہ ہے کہ یہ سب میں کسی سے کہہ نہیں سکتا کیونکہ اس معاشرے میں مرد کو درد نہیں ہوتا۔۔
آج سوچتا ہوں پسند سے شادی کی ہوتی تو شائد بیوی کو سمجھانا آسان ہوتا۔ یا پھر ماں کے طعنے ہی اتنا دکھ نہ دیتے۔
ایسے تو نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔۔۔۔۔
آپ سب سوچ رہے ہوں گے اس سارے قصے میں نئی بات کیا ہے؟ یہ تو اس  اعلی مشرقی اقدار والے معاشرے میں ہر تیسرے فرد کا قصہ ہے۔
تو یہ ہی تو بڑی بات ہے یہ قصہ ہر تیسرے شخص کا قصہ ہے اور ہمیں یہ المیہ نہیں لگتا۔



المیہ یہ ہے کہ یہ سب میں کسی سے کہہ نہیں سکتا کیونکہ اس معاشرے میں مرد کو درد نہیں ہوتا
معاشرے کی ڈومینیٹ جینڈر کا المیہ ہے۔ کمزور اکائی کا نہیں۔ جسے ہم ڈیپینڈینسی کے خوبصورت سوشو اکنامک ریپر میں لپیٹ کر سوشل لائف کے میز پر سجا کر آتے جاتے ہیں۔ ٹیبوز توڑنے جیسے  رسمی جملے بول  کر اپنے روشن خیال ہونے کے ثبوت دیتے پھریں۔
یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اور یہ مسئلہ ہر اس جگہ نظر آتا ہے جہاں بیٹوں کو جاگیرسمجھ کر ٹریٹ کیاجاتا ہے۔ جس کے چھن جانے کا خوف ہماری راتوں کی نیند اور دن کا چین چین اڑائے رکھتا ہے۔
اس سے پہلے کے یہ اداسی مایوسی میں بدلتی۔ رویوں کے نیزے میری خواب پرستی کو تار تار کرتے رات کے آخری پہر نے ہار مان لی۔ دور فضاء میں اسی نام کی اسی پکار کی گونج تھی جو ہر بار پیمانہ چھلکنے سے آسانی کردیتا ہے۔خوابوں پر میرے ایمان کو ریسٹور کردیتا ہے۔
اور خواب بھی کیا___ یہ نا کہ کوئی شب نہ ہو شبِ غم۔
کیا ہم سب اس خواب کی تعبیر کے لیے اپنے اپنے حصے کی شمع نہیں جلا سکتے؟



اس رات کی یہ آخری سوچ تھی۔ سکرین کے اس طرف والےاجنبی کو بی آ فائٹر، بی پازیٹیو، ہیو فیتھ کا میسج کرکے سکرین گرا دی۔