Pages

Sunday 28 May 2017

سائیکاٹرسٹ کو ملنے کا وقت ہوا چاہتا ہے


خدا جانے یہ تخیل ہے یا پاگل پن یا پھر دماغ میں چل رہے کسی کیمیکل لوچے کا کیا دھرا۔ یا پھر اس ہمہ وقت آوارگی پر آمادہ دل کا دوش ہے یہ سب۔

یہ فیصلہ کرنے میں شدید مشکل کا سامنا ہے آج کل

کبھی کبھی یہ بھی خیال گزرتا ہے کہ میں دماغ کی بجائے دل سے سوچتی ہوں__ہاں، دل سے بھی تو سوچا جا سکتا ہے ۔ بلکہ ہم سب ہی کہیں نہ کہیں تھوڑا تھوڑا دل سے سوچتے ہی ہیں۔ جب ہم دوست بناتے ہیں۔آپ خود ہی بتائیے دماغ سے سوچا کریں تو بھلا ایسے دوست ہوں ہمارے؟؟

میرے بھی دل میں یہ خیال آتا ہے کہ کسی روز شام کے وقت آنکھیں بند کروں اور کھولوں تو کسی ستارے پر پاؤں لٹکا کر بیٹھی دور بسی دنیا کو دیکھتی رہوں۔ گریوٹی کی حد سے باہر نکل کر کسی آوارہ چاند سے اٹھکیلیاں کروں۔ ایک ستارے سے دوسرے ستارے کا درمیانی فاصلہ طے کرنے کے لیے رین بو سا ایک لوپ ہو۔جس میں شب ڈھلے سلور گرے کے سارے شیڈز ہوں،،جس پر میں پاؤں رکھوں تو چاندنی سے پیر اٹ جائیں۔ اور جب کبھی ستارے کے درمیاں ہی ٹھہر کر خاموشی سے گیلکسیز کا ساز سننے کو جی چاہے تو رین بو کے اسی لوپ کو الٹا  کرلوں اور اس کی پینگ پر جھولا جھولوں۔ جب مستی میں سر پیچھے کو جھکا کر جھولا تیز جھلاؤں تو بے خیالی میں پاؤں سامنے سے آتے کسی سیارے سے ٹکرا جائیں۔ وہ مجھے گھور کر دیکھے تو میں گھبرانے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے سوری کہوں۔ وہ سر جھٹک کر اپنی راہ لے تو کھلکھلا کر ہنس پڑوں۔

کسی ستارے سے دوستی کروں۔۔۔۔ گہری دوستی۔ پھر اس سے پوچھوں دن میں کہاں جا چھپتے ہو؟ اور کیوں؟ کیا سورج کی تپش تمہارا کمپلیکشن خراب کرتی ہے؟ کیا دن میں تمہی‍ں آرام کرنا ہوتا ہے؟ تمام شب چمکتے رہنا۔ہر روز چمکنا بھی ڈیوٹی کی طرح لگتا ہوگا نا تمہیں۔

کسی کہکشاں پر چلوں۔ اس کے رستے میں آنے والی سفید لکیر کا راز تلاش کروں۔

جب تم سے روٹھ جاؤں تو غصے میں کہکشاں کے پیچھے چھپ جاؤں۔ تم ڈھونڈنے آؤ تو ڈھیر ساری سٹار ڈسٹ تمہارے اوپر ڈال دوں۔ تھوڑی سی سٹار ڈسٹ تمہاری آنکھ میں بھی چلی جائے۔ تم آنکھ پر ہاتھ دھرے ریلیف کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑو تو میں ناراضگی بھول بھال کر چاندنی کی پٹی پر اڑتے بادلوں میں سے روئی چرا کر دو بوند بارش ٹپکا کر اسے صورتِ مرہم تمہاری آنکھ پر رکھ دوں۔ اور تم سارا دن، میرا مطلب ہے تمام رات یونہی پائیریٹ بنے گھومتے رہو۔ اور میں اپنے دوست ستاروں سے یوں تعارف کرواؤں

میٹ مائے پائیریٹ

سنو! تم پائیریٹ بن کے بہت کیوٹ لگو گے۔۔۔۔ جانی ڈیپ سے بھی زیادہ کیوٹ۔

ویسے اگر تم پائیریٹ ہوتے  تو ہم نے گہرے سمندروں کے ان دیکھے جزیروں کے باسی ہونا تھا۔

اور پتا ہے ان جزیروں پر تو ہماری تمہاری دنیا کے ضابطے بھی نہیں چلنے تھے۔ یہاں کے اصول بھی بادر نہ کر پاتے ہمیں۔

ہم وہاں اپنا قانون بناتے۔ امن و محبت والا۔ بس محبت و عزت ہی ضابطہ ہوتا ان جزیروں کا۔

اب تم ہنسو گے نا کہ پائیریٹس کا ضابطہ محبت کہاں  ہوتا ہے۔

ہاں تووو!! پائیریٹس محبت نہیں کرتے کیا؟

محبت تو اس کائنات کا کوڈ ہے۔ یہ دنیا کی ہر تہذیب کی لوک کہانی بھلا محبت کی کہانی ہی کیوں ہوتی ہے؟

کیونکہ صرف محبت کی کہانیوں کو دوام حاصل ہے۔

محبت کی ساری کہانیاں ایک جیسی ہوتی ہیں ۔۔۔ گہری۔۔۔ اپنے اندر سمو لینے والی۔۔۔ بظاہر خاموش،،مگر کئی داستانوں کے راز افشاء کرتی ہوئی۔

جیسے ۔۔ سالٹ رینج۔

تمہیں پتا ہے سالٹ رینج کی خصوصیت کیا ہے؟ یہاں سے ایشیا کا ہر فاتح گزرا ہے۔ لیکن تاریخ نے جو مقام جو عزت رانجھے کو دی ہے وہ ان جنگجوؤں کا مقدر کہاں۔

سکندر اعظم سے شیر شاہ سوری تک ہر کسی کے عہد کو مورخ نے سیل کے نرخوں کی طرح ڈیڑھ ڈیڑھ صفحے پر سمیٹ دیا ہے۔

لیکن رانجھے کو تو وارث شاہ کے لہجے نے ہی مکمل جلد میں سمویا ہے۔ وہ بھی آدھا ادھورا۔

سنو! تمہیں گڈریا ہونا چاہیے تھا۔

اور بلوچستان کے کسی پہاڑی گاؤں میں یا سپین کے کسی سبزہ زار میں یا پھر عرب کے صحراؤں میں۔۔۔ تم اچانک مجھ سے آن ٹکراتے اور میں آنکھوں میں سارے صحراؤں کی حیرت سموئے۔کبھی تمہاری سبز آنکھوں میں موجود الہڑ جذبوں کو دیکھتی اور کبھی تمہارے سانسوں کو بانسری میں جاتے سر بنتے ۔۔۔ تم پر دل ہار دیتی۔تمہاری بانسری کے سروں کے پیچھے میں گھر کا سکون چھوڑ کر تمہارے ساتھ صحراؤں کی خاک چھاننے نکل پڑتی۔ تم مجھے پاولو کے الکیمسٹ کے کرداروں سے ملواتے۔ کسی اداس دھن کے سُر اٹھاتے اور اسی دھن کی ایکو میں ساری کائنات تحلیل ہوجاتی۔

تم سیاح ہوتے۔۔۔۔ ہم کندھوں پر مرضی کا بوجھ اٹھائے نگری نگری گھوما کرتے۔ جنگلوں میں خیمے لگائے،چشموں کے ٹھنڈے پانیوں سے چھن کے آتی سورج کی کرنوں میں مندی آنکھوں سے شبنم کی زندگی کے آخری آخری لمحے دیکھتے۔

دن ڈھلے تم کسی سرد ٹیلے پر بیٹھے اکتارہ بجاتے۔ میں محبتوں کی کوئی ان سنی نظم تمہارے کانوں میں گنگناتی۔

پہاڑی دریاؤں کی گہرائیاں ماپتے۔

الاؤ سلگا کر آمنے سامنے بیٹھے کسی عہد رفتہ کی یاد میں گم خاموشی کی زباں میں گفتگو کرتے۔

تم بیگ سے کتاب نکال کر سیجز آف دی ایجز سناتے۔ مجھ سے فلاسفیز پر الجھتے۔ کبھی افلاطون کے یوٹوپیا پر۔کبھی ارسطو کا قانون تمہیں لا قانونیت لگتا۔کبھی جان لاک روسو کا سوشل کانٹریکٹ اور کبھی مارکس کی سرپلس ویلیو۔

اور میں تمہارے خفگی بھرے تاثرات پر مسکراتی۔ تمہیں بتاتی۔ دیکھو یہ دنیا اتنی بری نہیں ہے جتنا اسکو ہم پینٹ کر دیتے ہیں۔ تم یہ فلسفے بند کر کے کسی دن کیٹس کی اوڈز کی نظر سے دنیا کو دیکھو تو جانو۔ کبھی شیلے کی نظموں سے جھانک کر خوبصورتی کو محسوس کرو۔ یہ دنیا خوبصورت لگے گی۔ جیسے رین بو کے الٹے لوپ پر جھولا جھولتی حسینہ۔۔۔۔ جس کے پاؤں چاندنی سے اٹے پڑے ہیں۔




Friday 19 May 2017

میں نے لکھا ہے بھولی نہیں میں.


ہر اچھا برا فیز ،زندگی کے سارے نشیب و فراز ،سارے اونچ نیچ رویوں کے درشت لہجوں کے صحرا ، بندے کو کچھ نہ کچھ سکھا کر ہی جاتے ہیں۔ کبھی کسی موڑ پر ایسے بھی لگتا ہے کہ یہ موڑ اندھا موڑ ہے آگے کھائی ہےاور سچی بات ہے اس لمحے  تو نظر بھی کچھ نہیں آتا۔بس  کھائی ہی سجھائی دیتی ہے۔ یوں  لگتا ہے کہ اب کے ہم زندگی سے بچھڑے تو شائد کبھی خوابوں میں ہی مل پائیں۔لیکن ایسا نہیں ہوتا دھند کو بہرحال چھٹنا ہی ہوتا ہے۔ چاہے وہ غلط توقعات کی دھند ہو یا کسی غلط بندے سے صحیح روییے کی امید کی دھند۔ تو معلوم پڑتا ہے وہ ہم جسے کھائی سمجھ کے زندگی کے خوف میں مبتلا تھے۔وہ تو کسی کی بے حسی جیسا چھوٹا گڑھا تھا۔ جسے آپ ظرف کے چھوٹے سے مظاہرے سے پار کرسکتے ہیں

اور پھر اصل جنگ شروع ہوتی ہے انا اور ظرف کی جنگ۔ ظرف کہتا کہ معاف کرو۔ انا بضد ہوتی ہے کہ نہیں اب کے نہیں۔ اس بار اگلے کے کو بتاؤ کہ وہ بھی غلط ہو سکتا ہے اور اسے بتاؤ کہ میری ذات کے پندار کو روندنے کی تم سمیت کسی کو اجازت نہیں۔
ناصح ہوتی تو نصیحت کرتی، انا کو نفس سے تعبیر کرتی، پھر اس کو روندنے کا کوئی حکم خدائی، حکم بنا کر سناتی۔محبت فاتح عالم سی کوئی رنگین تتلی ہاتھ پر دھرتی، کم ظرفی بے حسی کو بھول جانے کا مشورہ دیتی۔ لمبی تقریر کے بعد فضیلتوں کے انبار لگاتی۔ شائد وقت کے حسن و رابعہ بصری ہی کا درجہ دے دیتی
لیکن کیا کروں؟ نہ میں رابعہ بصری نہ مجھے ولایت کا دعوی ہے۔نیکی کی توفیق ملے تو کر گزرتی ہوں وگرنہ پرہیز گاری کے کسی معیار پر پورا نہیں اترتی۔ اور کسی غیر انسانی ظرف سے بھی کوئی لینا دینا نہیں مجھے
خود کو حساس  کہلوا لیتی ہوں۔ کبھی کبھار اس لیے نہیں کہ اپنے درد پر آنکھ بھیگ جاتی ہے بلکہ اس لیے کہ مجھے کوڑے سے کاغذ چنتا بچہ بھی انسان کا بچہ لگتا ہے اور گھر مدد کے لیے آنے والی خاتون مجھے اپنے جیسی لگتی ہے۔اس کی بیٹی کو بھی میں کسی خانے میں تقسیم نہیں کرتی اور میں کام آنے سے پہلے لوگوں کے عہدے نہیں دیکھتی نہ ہی عہدوں سے تعلق مجھے فخر میں مبتلا کرتے ہیں۔ سو یہ اگر حساسیت ہے تو میں بھی ہوں اگر نہیں تو لوگ ٹھیک ہی کہتے ہوں گے میں بے وقوف اور نالائق ہوں
تو سین یہ ہے کہ یہ بے وقوف اور نالائق لڑکی تسلیم کرتی ہے کہ اسے اب لوگوں کو ان کی زبان میں جواب دینے میں اگر عار ہے تو اب وہ ظرف کے کسی مظاہرے کی قائل نہیں رہی
اگر کوئی بے حسی کا جواب بے حسی سے نہیں دے سکتا تو بھی اسے پورا حق حاصل ہے کہ وہ کم ظرفوں سے کنارا کر لے۔ یہ قطعی ضروری نہیں کہ جہاں تیز دھوپ پاؤں جلانے لگے وہاں پلکیں بچھائی جائیں
ایسا بھی کوئی صحیفہ زمین پر نہیں اترا کہ ذات کے غرور میں مبتلا شخص کے غرور کو آپ کی مسکراہٹ گنے کا رس سمجھ کر پلائے جائیں
بھئی ہوگی محبت فاتح عالم۔ لیکن ہر بے حس کو فتح ہم ہی کیوں کریں؟ اب کے وہ بھی تو آئے اپنے لفظوں پر غور کرے وہ جسے "مہرباں" ہونے کا دعوی ہے.جسے خود پر خدائی فوجداری کا گماں گزرتا ہے
جس کو اپنے دل پر ناز ہے ، اب کے اسے اپنی ہی دھڑکنیں آزمانے دیجیے۔جسے اپنے لہجے میں بات کرنا پسند ہے اسے اب اس کا لہجہ بھی سنائیے 
جس کو لگتا ہے کہ اُس کی جنبش لب، حرف آخر ہے۔ اسے اس کے لفظوں کی بازگزشت سننے دیجیے.اور جو سمجھتا ہے اس کے خم ابرو پر دنیا چلتی ہے اسے ذرا چلا لینے دیجیے دنیا.
لوگوں کو اپنے حرفوں کے ذائقے چکھنے دیجیے 
بدلہ نہیں لینا چاہتے ،مت لیجیے معاف کرنا چاہتے ہیں ضرور کیجیے
لیکن بھول کر بھی بھولیے مت۔تاکہ اگلی بار اسی سوراخ سے ڈسے نہ جائیں
اور مجھے اس "فیز" نے یہ ہی سکھایا ہے کہ بھولنا نہیں.
آپ نے پڑھا؟؟ میں نے لکھا ہے بھولی نہیں ہوں میں.

Sunday 14 May 2017

Mother's Day


یہ دن اس ماں کے نام وہ جو کینسر پیشنٹ بچے کو خون دینے کے بعد یہ جوس پینے سے اس لیے انکاری تھی کہ وہ روزے سے تھی. بیٹے کی صحت یابی کے لیے رب کے سامنے اس کی محبوب عبادت کر رہی تھی.
یہ دن اس ماں کے نام وہ جو اولڈ ہاؤس میں بیٹھی نظریں چراتے ہوئے کہہ رہی تھی بیٹا بہت اچھا ہے میرا آجائے گا لینے.جب اینکر نے اس سے پوچھا اگر نہ آسکا تو کہنے لگیں اللہ اسے زمانے بھر کی خوشیاں دے____نہ آیا تو بھی میرا بیٹامیرا بیٹا ہی رہے گا.
یہ دن اس ماں کے نام وہ جو تپتی دوپہر میں پیدل چلتے ہوئے بچے کو پلو کے نیچے چھپا لیتی ہے.
آج اس دن پر اس ماں کو سلام وہ جو تکلیف کی شدت پر جب موت مانگنے لگتی ہے تو خود سے کہیں زیادہ اپنے وجود کے حصے اپنے چھوٹے سے جگر گوشے کے خیال سے تکلیف کو نجات پر ترجیح دیتی ہے.آج کا دن اس ماں کے نام وہ جو کاکروچ چھپکلی کو دیکھ کے چینخیں مارتی تھی وہ بچے کی جان خطرے میں دیکھ کر اپنا ہر خوف جھٹک کر فولاد کی عورت بن جاتی ہے.
یہ دن اس ماں کے نام وہ جس کو رنگوں سے عشق تھا جو ہر رنگ ناخنوں پر سجائے پھرتی ہے جب اسے معلوم پڑا کہ ایک خاص قسم کے کیمیکل سے اس کا بچہ الرجک ہے تو وہی عورت وہی ماں ہر رنگ اٹھا کر ٹوکری میں ڈال گئی کہ شوق نہیں رہا.
اس ماں کے نام وہ جو کہہ رہی تھی میں اپنے بیٹے کے خون کا حساب رب کی عدالت میں لوں گی..ایک آخری قطرے کا بدلہ بھی نہی چھوڑوں گی.پوچھا کیوں زمینی عدالتوں پر اعتبار نہیں؟ کہنے لگیں نہیں یہاں سزا کم ملے گی.قاتل ظالم نے میرا بچہ مارا ہے.بظاہر کسقدر سادہ جملہ ہے "میرا بچہ مارا ہے" 
لیکن یہ جملہ ہی محبت کی کل داستاں ہے وہ محبت جو دنیا میں کامل محبت ہے ماں کی اپنے بچے کے لیے.
رب نے بھی زمیں پر جب اپنی محبت کی مثال دینا تھی تو ماں کی محبت کی مثال پیش کی وہ جو اپنی ذات اپنا وجود اپنی ہستی اپنے بچوں پر وار کے خوش رہتی ہے.
انگلیوں پر لقمے ٹھنڈے کرتی ہے کہ بچے کی زباں نہ جل جائے. دودھ کے فیڈر کو گرم کرنے کے لیے اپنا ٹھنڈا کمرہ چھوڑتی ہے کہیں بچے کا گلا خراب نہ ہو.
گھر کے سارے ساکٹس پہ ٹیپیں چڑھاتی کچن کی سیٹنگز بدلتی کرسٹلز اٹھاتی کراکری ریپلیس کرتی وہ صرف یہ سوچتی ہے کہیں بچہ زخمی نہ ہوجائے خود کو نقصان نہ پہنچا لے.ایسی بے لوث محبت کے نام.
آج کا دن اس ماں کے نام جس نے جب آگ پورے کمرے میں پھیلتے دیکھی تو اپنا بچہ کھڑکی سے باہر لٹکا دیا آگ میں جلتے ہوئے اس نے صرف ایک بات سوچی کہ کسی صورت اس کے بچے کی جان بچ جائے.
یہ دن اس ماں کے نام جس نے پانی کا آخری گھونٹ اپنے بچے کے لیے بچا رکھا تھا اور خود پیاسی جان سے گئی تھی.اور رپورٹر کی زبانی تھر کی یہ رپورٹ سن کر میری ماں کی آنکھوں میں در آنے والی محبت کے نام یہ دن.
یہ دن امی کے نام جو ہاسپٹل میں سرجری کروا کر لیٹیں اس بات کے لیے فکر مند تھیں کہ ان کی بیٹی کو نیند نہیں آتی.
یہ دن محبت کے بے ریا سچے خالص پن کے نام.
یہ اس دعا کے نام جب رب نے کہا تھا موسی)(علیہ السلام) اب سنبھل کر___ اب بچانے کو ماں کی دعا نہیں آئے گی.
یہ دن اس محبت کے نام وہ جسمیں چڑیا باز سے الجھ جاتی ہے ہرن شیر سے اور فاختہ عقاب سے.
یہ دن اس ماں کے نام جو ڈائبٹک سپیشلسٹ سے پوچھ رہی تو کوئی شوگر فری چاکلیٹس بھی ہوتی ہوں گی__دیکھیں آٹھ ہی سال کا تو ہے چاکلیٹ کے لیے ضد تو کرے گا ن
ا.بلڈ بنک وزٹ کرتے ہوئے جب بلڈ ڈونیٹ کیا اور ایک تھیلیسیمیا پیشنٹ کی ماں نے گلے سے لگا کر دعاؤں کی بوچھاڑ کردی تو گھبرا کر پوچھا کیاـہوا___ کہنے لگیں میرا یونیورسل ڈونر گروپ کا حامل بچہ ہر مہینے یہاں خون لگوانے آتا ہے میں ہر مہینے سٹاف سے پوچھتی ہوں اور اس گروپ کے ڈونرز کو ملتی ہوں.
کہا آنٹی یہ احسان تو نہیں___کہنے لگیں 
میرا بچہ کو لگنے والے ایک ایک قطرے پر میں دعائیں کرتی ہوں. یہ دن اس بے ساختہ محبت کے نام وہ جسمیں ماں اجنبیوں سے محبت کرتی تھی کیونکہ وہ اس کی اولاد کے لیے اہم تھے.
یہ دن اس محبت کے نام جس پر ہمارے رسول( صلی علیہ وسلم) نے کہا تھا اب مت نکالو اس بلی کو یہ ماں بن گئی ہے
یہ دن میری آپکی ہم سب کی ماؤں کے نام.وہ جو سیلف لیس محبت ہے اسکے نام.
یہ الٹے سیدھے جملے لکھنے کا مقصد ماں کی محبت کو ثابت کرنا یا اس کو اکنالج کرنا ہرگز ہرگز نہیں یے یہ میرے لفظوں کی بساط سے باہر ہے.
یہ تو اس لیے لکھا کہ ان ساری مثالوں نے میرے اندر محبت پر ایمان کو مضبوط تر کیا ہے.جب جب یہ سب مجھے معلوم ہوتا گیا.محبت پر میرا فخر بڑھتا گیا.
محبت اس کائنات کا کوڈ ہے ناں رب نے محبت میں تخلیق کی یہ کائنات پھر اپنی محبت کے اظہار کے لیے ہر شخص کی ایک ماں بنائی.
پتا ہے مجھے لگتا ہے اگر رب مامتا تخلیق نہ کرتا ناں تو اس کی کائنات کے سارے رنگ بے رنگ ہونے تھے ساری خوشبوئیں روٹھی روٹھی اور سارے خواب بکھرے بکھرے..یہ مائیں ہی ہوتی ہیں جو بچے کا خواب اس سے پہلے اپنی آنکھوں میں سجا لیتی ہیں پھر اس کی تعبیر کے لیے ہر وقت دعا گو رہتی ہیں.مائیں جو امید کا سرا تھامے اپنی اولاد کو بستر مرگ سے بھی اٹھا لیتی ہیں.اور جواولاد کی محبت کے دامن میں عہد کم ضرف کی ہر بات گوارا کر لیتی ہیں.
اور مجھے یہ بھی لگتا ہے میری ماں رب کی محبت کی جو پرچھائی ہے تو دراصل رب نے یہ بتانا چاہا ہے مجھے کہ وہ بھی معاف کرے گا مجھے رحم ہی کرے گا مجھ پر اور یہ کہ وہ بھی مجھے مشکل میں پریشانی میں دکھ میں نہیں دیکھ سکتا. 
مختصر یہ کہ ماںیں مجھے محبت کرناـاس پر ایمان لانا اور اس پر قائم رہنا سیکھاتی ہیں.
#سحرش_عثمان

Saturday 6 May 2017

Power Of Dua



تمہیں پتا ہے سب سے خطرناک دعا کیا ہوتی ہے؟ سب سے خوفناک جملہ جو حرفوں کے سنگم سے وجود میں آتا ہے وہ کیا ہے؟

جب تمہاری کسی زیادتی پر تمہارے کسی فعل سے آرزدہ ہوکر کوئی کہہ دے۔میرا اور تمہارا معاملہ رب کے سپرد۔
جب تمہارے ہی جیسا کوئی شخص بدلہ لینے کی بجائے. معاملے کی ڈور رب کے ہاتھ میں دے دے ۔تو سوچو کیا ہوتا ہے؟
 زمینی مثال دوں؟
جیسے الائنس ہوتے ہیں ۔ چھوٹے کمزور ملک بڑی طاقتوں سے الائنس کر لیتے ہیں کہ اردگرد والوں کو جرات نہ ہو فساد کی
ایسے ہی بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ مضبوط صورتحال وجود میں آتی ہے۔جب بندہ اپنے رب کے ساتھ الائنس بنا لیتا ہے۔رب کے ساتھ تو الائنس بھی غیر مشروط ہوتا ہے۔بس عدل چاہنے والا یا آسانی مانگنے والا یا پھر اپنے معاملہ میں اس کو سرپرست  بنانے والا۔
اور پتا ہے کسقدر منصف ہے وہ؟ اس کے عدل کا معیار کیا ہے؟ کھجور کی گھٹلی پر لگے دھاگے کے برابر نا انصافی نہیں کرتا وہ.
تو کیا تمہیں اس جملے سے خوف محسوس نہیں ہوا اب بھی؟
کہ میرے معاملے میں میرا فریق رب ہے
اب تم یہ کہو گے،  بدلہ نہ لے سکنے والے کہا کرتے ہیں ایسے جملے۔ہاں تم سہی کہتے ہو جو بدلہ لینے کی سکت رکھتا ہو وہ تو تمہارا ظلم پر مبنی قانون اٹھا کر تمہارے منہ پر دے مارتا ہے ۔
لیکن جو بدلہ لینے کی طاقت نہیں رکھتا وہ وہ کیا کرتا ہے اس سے پہلے یہ سوچو
تمہارے لیے اس سے گھٹیا بات کیا ہوگی کہ تم نے ایک ایسے شخص سے زیادتی کی ہے جو تم سے بدلہ لینے کی طاقت نہیں رکھتا۔کیا یہ طاقت کے اختیار کے اظہار کا کم تر درجہ نہیں؟ اور کم ترین یہ کہ وہ اختیار جس کے بل پر تم زیادتی کی ہے وہ اختیار تمہاری آزمائش ہے اور تم اس کے دائرے کے فرعون بن گئے ہو.
سوچو تو! اس معاملہ کا انجام کیا ہوگا وہ جس میں تمہاری زیادتی، تمہارے ظلم، تمہاری بدزبانی کا شکار شخص دل ہی دل میں رب کو فریق بنا بیٹھا ہے