Pages

Friday 25 March 2016

If You Forget Me


آؤ کسی دن اکٹھے کیٹس کی کوئی نظم پڑھتے ہیں۔۔کسی اوڑ پر پہروں اداس پھرتے ہیں ۔۔تم چلو تو کسی دن گزری جوانی تلاش کرتے ہیں ۔مجھے یقین ہے یونیورسٹی کے کسی بینچ پر پڑی ہوئی ملے گی۔۔جہاں ہم مخالف کونوں پر بیٹھ کے، درمیان میں فائلز رکھ کے گھنٹوں سسٹم کو بدلنے کے منصوبے بنایا کرتے تھے

اور اپنے انقلابی خیالات کا پرچار کرتے ہوئے کلاس بھی بنک کر دیا کرتے تھے۔۔تمہیں پتہ ہے مارکسسٹ ہو گئے تھے تم دوسرے سمیسٹر میں اور  پوری کلاس میں مشہورہوگیا تھا کہ رشیا کا ویزہ آگیا ہے تمہارا..تم پورا ہفتہ لوگوں کو صفائیاں دیتے ہوئےاس شخص کی تلاش میں تھے، جس نے یہ افواه اڑائی تھی۔۔سنو وه میں تھی۔۔ اب سوچوں تو ہنسی آتی ہے کس قدر بچگانہ شرارتیں تھیں۔
یاد ہے تمہیں اینول ٹور پر سیف الملوک پر سٹنڈ ہونے کی ایکٹنگ کی تھی میں نے اور تم رونے والے ہو گئے تھے۔سنو! اس دن میں اپنی زندگی کی پہلی اور آخری شرط ہاری تھی۔۔میری دوستوں کا خیال تھا کہ تم پریشان ہو گے جب کہ مجھے لگتا تھا، تم نارمل رہو گے۔۔پر تم نے تو مجھ سمیت سب کو حیران کردیا۔۔ کتنے خوبصورت دن تھے نا۔
آؤ پھر سے اسی معصوم دنیا میں لوٹ چلیں جہاں ہمیں بڑے بڑے مسائل حل نہیں کرنے تھے۔ جہاں ہماری زندگیاں کیمپس سے شروع ہو کر نہر پر ختم ہو جاتی تھیں۔۔نیو کیمپس والی نہر پر واک کرتے کرتے ہم اکثر پوائنٹ مس کر دیتے تھے۔ پر اب تو لگتا ہے راستہ ہی کھو دیا ہے۔ کہیں بہت آگے نکل آئے ہیں ہم۔ اتنی آگے کہ اب زندگی بھی پیچھے ره گئی ہے۔۔تم کسی دن اپنی مصروف زندگی میں سے ایک دن نکالنا...کالج چلیں گے۔۔
اشفاق احمد کہتا ہے ۔۔ ستر سال کے ہو کر بھی جی سی جائیں تو اپنا آپ جوان لگنے لگتا ہے اور گزرا ہوا وقت واپس آتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔۔سنو مجھے زندگی کے اس موڑ پر ان احساسات کی اشد ضرورت ہے، تم ایک دن سِک لیو لے لینا ہم جی سی چلیں گے.. بالکل پرانے دنوں کی طرح مینار کے نیچے بیٹھ کر سیمی کے کردار پر بحث کریں گے۔۔میں قیوم کی طرفداری کروں گی تم سیمی کو جسٹیفائی کرنا۔گھنٹوں برباد کریں گے...میں وہی اورنج شال اوڑھوں گی۔ جس پر تم نے مجھے ساحر کی کوئی بھولی سی نظم سنائی تھی۔ میں بے ساختہ مسکرا اٹھی تھی تم نے چڑ کے میری مسکراہٹ کی وجہ پوچھی تھی تو میں ہنس کر ٹال گئی تھی۔
سنو!اس کی وجہ پنجابی کا ایک ٹپہ تھی۔ جس میں وه اپنی ہر ادا سے پنجاب کے ایک دریا کو لوٹنے کا تذکره کرتی ہے۔جب سارے دریا لوٹ چکتی ہے تو آخر میں کہتی ہے
"نی میں ہس کے کویتا والا ماہی لٹیا"
تو اس دن مجھے بھی لگا تھا کہ میں ہس کے کویتا والا ماہی لٹیا۔سنو اب بھی نظمیں پڑھتے ہو؟ ساحر، فراز، فیض ؟ یا ہندسوں نے تم سے تمہارا ذوق جمال بھی چھین لیا؟۔۔۔ اظہار کے لفظوں کی طرح..تم بات کرنا فیکیلٹی ممبرز سے ...پھر اپنے اپنے ٹیرس سے چاند کو دیکھیں گے۔ملکی وے میں اپنا اپنا ستاره ڈھونڈیں گے۔ پھر اس ستارے کا پیچھا کریں گے۔
تم بھی کہو گے کیا پاگل لڑکی ہے

پاگل ہی تو ہوں۔۔ گزرے وقت کی رنگین تتلیاں پھر سے پکڑنا چاہتی ہوں جن کے رنگ وقت کی دھول میں اتنے ہلکے ہو گئے ہیں کے انھیں پہچاننے کیلئے بھی ذہن پر زور دینا پڑتا ہے...ہاں نا زور ہی۔۔

کل وه قمر ملا تھا شاپنگ مال میں، ہمارا کلاس فیلو۔ وه جس کا نِک نیم جب میں نے تمہیں بتایا تھا تو تم نے کتنی دیر سکتے میں رہنے کے بعد پوچھا تھا کہ سچ بتاؤ میرا کیا نک نیم رکھ چھوڑا تھا تم نے۔اور میں نے حلفا کہا تھا کہ تمہارا کبھی نام نہیں رکھا...سنو ایسا نہیں تھا..تمہارا نام بھی رکھا تھا...کسی دن بتاؤں گی، اب تمہیں کھونے کا ڈر جو نہیں رہا۔کیونکہ اب تم حاصل میسر ہی نہیں ہو، تو کھونا کیسا۔ کل پرانی بکس میں سے ایک ڈی وی ڈی ملی تھی لیپ ٹاپ میں تو چل ہی نہیں رہی تھی پر مجھ پر دھن سوار تھی اسے چلانے کی اس کے کور کے کونے پر وه چھوٹی سی سمائل بنی تھی۔ جو تم مجھے دیتے ہوئے ہر چیز پر بناتے تھے۔اور میں قہقہہ لگاتی تھی کہ تم نہیں سدھرو گے،اب سوچتی ہوں کیا ہی اچھا ہوتا جو نہ سدھرتے ۔۔ سدھر کے بے حس ہو جاتے ہیں لوگ
ڈی وی ڈی چلائی تو پہلا گانا ہی ابرار کا مجھے ماہی یادآتا ہے" تھا۔ پتا ہےاس گانے کو سن کے کیا کہا تھا ہم نے؟؟ ہمیں لگا تھا کسی نے ابرار کو ہماری مخبری کر دی ہے۔تمہارا تو پتا نہیں پر اب بھی جب دوور کسی جنگل میں کوئی پنچھی گنگناتا ہے...تو ،مجھے ماہی یاد آتا ہے۔

آج بھی مجھے وه سنہری شام یاد ہے۔ جس دن تم نے زندگی کے سردوگرم میں ساتھ نبھانے کی ذمہ داری لی تھی۔ساده سی پروقار تقریب۔جس کی تمام تر تفصیلات اپنی جزیات سمیت یاد ہیں مجھے۔۔افسوس اس بات کا ہے کہ زندگی کے سرد دن تو ساتھ نبھا گئے تم جب تحفے چھوٹےتھے اور محبت بڑی تھی۔پر جب سے مادی زندگی میں گرمجوشی آئی ہے،تب سے اندر ہی اندر مجھے تمہاری سرد مہری مار رہی ہے۔مجھے تو یہ "خوشحالی" لے ڈوبے گی
سنو ابھی بھی مٹھی سے سرکتی ھوئی ریت کی ماند عمر کے چند ذرات بچے ھیں۔۔۔ ابھی بھی میں پوائنٹ اف نو ریٹرن پر نہیں پہنچی۔۔۔ ابھی بھی دسمبر کے آنے پر میں پرانے کارڈز اور ان پر لکھی نظمیں ۔۔۔نظموں کے درمیان پنکچوئشن اور اس پر کوئی یاد۔۔۔ دھیمی مسکراھٹ ۔۔کوئی بھولا بسرا آنسو۔۔۔ کسی یاد کی خوشبو ۔۔۔کسی لمحے کا فسوں جگاتی ھوں۔میں اب بھی پھر ان کتابوں کو تکتی رھتی ھوں۔ وه جن کا حصول کبھی ہمیں ہفتوں مسرور رکھتا تھا۔
اب ہم دونوںاپنے اپنے کنڈل پر کتابیں پڑھتے ہیں۔ دنیا جہان کے موضوعات۔۔ ان پر ریوویوز بھی۔ اب ہم کتاب کے ساتھ اپنے محسوسات بیان کرنے سے قاصر ہیں....ہر سہولت مہیا کر دی ہے، تم نے مجھے....ہر وه چیز جو کسی بھی لڑکی کا خواب ہو سکتی ہے....پر کوئی ویکیوم تھا جو بھرنے کا نام نہیں لیتا تھا....بک ریک کی ترتیب درست کرتےھوئے ایک کارڈ ھاتھ لگااور مجھ پر کھلا کہ اتنی أسائشیں بھی خالی پن کو کم کرنے میں ناکام کیوں ھیں۔ کارڈ پر تین لفظی ایک سطر تھی...بلکہ کتاب پر ایک خیال کا تاره جگمگا رھا تھا جس نے کبھی مجھے میری ذات کا عرفان بخشا تھا ۔جس فقرے نے مجھے اتنا معتبر کر دیا تھا کہ میں سرشاری کہ عالم میں پھرتی رہی۔جب تم نے وه کارڈ مجھے دیا تھا نا تو تشکر کا ایک بھولا بھٹکا آنسو بھی گرا تھا۔ اس فقرے پر آج بھی اس آنسو کے مٹے مٹے سے نشان محبت کا پتا دیتے ھیں...تم نے لکھا تھا۔۔۔۔۔ بہت خاص لڑکی کے لیے
سنو! وه خاص لڑکی تمہاری محبت کی قیمت پردنیا خرید کر کیا کر لے گی ؟؟ جواب ملے تو بتانا
میں یہ ساری داستاں تمہیں میل کر رہی ہوں۔ کیونکہ اب تم جی میل کو ویسے ہی سنتے ہو جیسےکسی زمانے میں مجھے سنا کرتے تھے
کافی پینی ہوئی تو بتانا اب بھی اچھی بناتی ہوں۔

Tuesday 22 March 2016

آج پھر تئیس مارچ ہے


تیئس مارچ پہ کپور اینڈ سنز اور چودہ اگست پہ بجرنگی بھائی جان دیکھنے والو
! "ہیپی ریزولیشن ڈے" دوست
ہینگ اوور پر مہندی کہ فنکشن کی بسم اللہ اور بلو نی تیرا لال کگرا پر آمین کہنے والو ہیپی پاکستان ڈے.
ہاں نا وہی پاکستان جس نے آپ کو دیا ای کچھ نیں ہے..جہاں تو کچھ بھی کرنے کی آزادی نہیں ہے...چھوٹے چھوٹے،لٹکی وی جینز والے برگرو ہیپی پاکستان ڈے...
کیا نا یار یہ مولوی بھی نا ذرا ترقی نہیں ہے کرنے دیتا ابھی کل بیلجئم میں بلاسٹ کر دییے اب دیکھو بلاسٹ وہاں ہوے ہیں سینماء ادھر بند ہیں ورنہ تو کل چھٹی پہ مووی نائٹ مناتے اب کیا "ریزولیشن ڈے" بھی نہ منائیں
کیا ہوگیا کیا ہوگیا جو امریکہ و مغرب نے عراق و افغانستان میں دس دس لاکھ لوگ مار دییے سوری بھی تو بول دیا نا اب کیا یہ مولوی جان لے گا ان بیچاروں گی...کر دیں نا معاف بس ختم کرے یہ دنگا...ہمارا مولوی بھی نا...
اب دیکھو نا مولوی سائنس ہی نہیں پڑھتا ہے ورنہ ہماری یونیورسٹی میں اتنا بڑا فزکس اور کیمسٹری کا ڈیپارٹمنٹ ہے پتا نہیں یہ سٹوپڈ پیرنٹس اپنے بچوں کو وہاں کیوں بھیج دیتے ہیں ٹو ایکسٹریمسٹ ملاء...دس از ٹو مچ ٹو مچ یار...اب یہ ہی دیکھ لو یہ پرائیوٹ سکولز تھوڑی فیس زیادہ لیتے ہیں نا پر مینرز تو سکھا دیتے نا بچوں کو...پر یہ پیرنتس بھی نا....اینوے...کل پروٹیسٹ ہے مولوی کہ خلاف اور کیپیٹیلزم کہ خلاف میں جانے والا ہوں لیٹس ہییو فن گائز...میرے پاپا کہتے ہیں اس ملک میں سرخ انقلاب ضرور آے گا اور یہ بات انہوں نے لاسٹ بزنس پارٹی میں بھی کہی تھی...ڈو یو پپل نو؟؟؟ ان کو بلینز کی انوسٹمنٹ ملی ہے میں نے تو کہہ دیا میں رشیاء دیکھنے جاؤں گا..پاپا کہہ رہے تھے ہاں ہاں ضرور جاؤ داس کیپٹل پڑھ لو لینن پڑھ لو تو تمہیں کیوبا بھی بھجواؤں گا سگار ایمپورٹ کریں گے وہاں سے___آخر اس ملک میں انقلاب بھی تو لانا ہے
یہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ بھی نا...دیکھو ذرا انڈیا سے ہار گئے آفریدی کو تو نکال ہی دینا چاہیے انڈیا سے بھی نہ جیت سکیں تو فائدہ____ اچھا سنو ہولی منائیں؟؟؟ لاسٹ دیوالی بھی مس کردی تھی ہم نے اب کم از کم ہولی پر تو رنگ کھیلنے چاہیے نا...چوبیس کو تو چھٹی نہیں تئیس کو ہی کھیل لیتے ہیں ہولی انڈیا سے ہار کا غم بھی کم ہو جاے گا___
سنیے بھیا کم کم مہندی ہے؟؟ ماسٹر ساب اس قمیص کا پاروتی گلا بنائیے گا کشش سٹائل کی چوڑیاں دیکھائیں__ بھائی کی مہندی پر ہم ابٹن اور سنگیت بھی رکھنے والے ہیں اب تھوڑا ہلہ گلہ ہی کر لیں کرکٹ نے تو مایوس ہی کر دیا___
یار صبح اخبار پڑھتے ہوے خبر نظر سے گزری ہندو تیتیس کڑور خداؤں کی پوجا کرتے ہیں استغفار استغفار اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے جو پاکستان میں پیدا کیا.پیرومرشد کہ صدقے یہ جان دی پیر ساب کہ وسیلے رزق دے رہا ہے___
میں تو اپنے بچوں کو گلی کہ بچوں کہ ساتھ نہیں کھیلنے دیتی الٹی سیدھی باتیں سیکھتے رہتے ہیں...میں تو بس انہیں قاری ساب کہ جاتے ہی چھوٹا بیم لگا دیتی ہوں دیکھتے رہتے ہی‍ـں چھوٹے والا تو خود کو ہنومان ہی سمجھنے لگا ہے..ہاہا سہی کہتی ہو میری بیٹی بھی اپنے ماموں کی شادی پہ کہنے لگی پھیرے کب ہوں گے....ہاہاہا آجکل کہ بچے بھی نا بہت چالاک ہو گئے ہیں...
‫#‏چاند_روشن_چمکتا_ستارہ_رہے‬
سحرش

Saturday 19 March 2016

قلعہ روہتاس سے ٹلہ جوگیاں





اگر ٹلہ جوگیاں پر کھڑے ہوکر روہتاس پر نظر دوڑائیں تو شیر شاہ سوری تا اکبر، کئی نسلوں کا عروج و زوال، مزاج و نفسیات کی گرہیں کھلتی ہیں۔ ۔ زندگی پرشور پر ہجوم رواں دواں اپنے دھیان میں مست نظر آتی ہے۔ جس میں کبھی شیر شاہ کی منتظم طبیعت، کبھی سوری قبیلے کی جنگجو فطرت ۔ ۔ اور کبھی مان سنگھ کا اکبر سے مستعار لیا ہوا طنطنہ نظر آتا ہے ۔  کبھی اپنی ہی توپ کہ گولے سے جھلسے ہوئے شیر شاہ سوری کی موت زندگی کی قلعی کھولتی ہے۔ تو کبھی اکبر کا دین الٰہی روہتاس کی ٹوٹی فصیلوں میں دفن ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔۔ لیکن اگر روہتاس کی ٹوٹی فصیل پرکھڑے ہو ٹلہ جوگیاں دیکھیں تو ساری تاریخ، تمام  بادشاہ، ساری عظمت و دولت اور ہیبت پانی بھرتی نظر آتی ہے ۔ ۔ ۔ اس بے آب گیاہ پہاڑ پر بیٹھا اپنے عہد کا شہزادہ کانوں میں سوراخ کرتا، بالیاں پہنتا جوگ لیتا ہوا اور بانسری بجاتا ہوا تاریخ کے سارے کرداروں کو فاتح کی طرح مسکراتا ہوا ملتا ہے ۔ ۔ وہ اکیلا روہتاس پر بھاری نظر آتا ہے ۔ ۔ جس کے پاس کوئی فوج و سپاہ نہیں ۔ ۔ پر ٹلہ جوگیاں اس کے قدموں میں شکت خوردہ لگتا ہے ۔۔ روہتاس ہارا ہوا۔ شیر شاہ سوری سے اکبر تک سب چھوٹے ۔ ۔
اگر ٹلہ جوگیاں سے دیکھنے پر زندگی رواں دواں پرشور اور پر ہنگام نظر آتی ہے ۔ ۔ اور انسان کو حیرت زدہ کرتی ہے تو روہتاس سے دیکھنے پر زندگی یکلخت ٹھہر جاتی ہے۔ سارے ہنگامے زندگی کے سارے شور خاموشی کی ردا اوڑھ کے حالت سکوت میں آ جاتے ہیں ۔ ۔ جیسے کوئی بیمار اچانک شفایاف ہو جائے ۔۔ ۔ جیسے کسی آسیب زدہ پر اچانک کوئی اسم کام کر جائے ۔ ۔ یا پھر جیسے دریا ایک لحظے کو اپنی روانی بھول کر رک جائے ۔ ۔ اور انجانی سی کسی منزل کا کوئی راہی سفر روک کر راہ کو تکنا شروع ہو جائے ۔ ۔ ایسے ہی ساری دنیا محوحیرت یا محوتماشہ نظر آتی ہے روہتاس سے ٹلہ جوگیاں پر دیکھنے سے ۔ ۔
اور ٹلہ جوگیاں اور اسکا مکین جوگی ۔۔ روہتاس کو اپنی ''ونجلی'' بانسری کی اٹھتی تان میں گراتا چلا جاتا ہے ۔ ۔ سانس لینے کو جو ٹھہرتا ہے تو اس کی ونجلی کیساتھ سانس بھی رکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ زندگی کی نبض ٹھہرتی ہوئی لگتی ہے۔ ۔ 
روہتاس کے لشکر جب گھوڑےسرپٹ دوڑتے اپنی رعونیت میں دشمن سپاہ کو روندتے ہوئے جب کبھی فرصت میں قلعے کی فصیل سے باہر نکلتے ہونگے تو ونجلی والا درد کا راگ الاپتا ہوگا ۔۔ کیونکہ جوگیوں کو جنگیں لڑنا نہیں آتیں ۔۔ جب طاقت و فتح کے نشے میں چور لشکر واپس آتے ہونگے۔ تو دور جوگی کے ٹلے پر ہو کا عالم ہوتا ہوگا ۔۔ اپنے ہی جیسے، اپنے ہم مذہبوں کے ،ہم نفسوں کے قتل عام پر جوگی 
کوئی درد بھری تان اٹھاتا ہوگا پھر روہتاس سمیت ہر کوئی اس تان میں ڈوب جاتا ہوگا 
پتہ ہے جب ٹلہ جوگیاں پر شام ڈھلتی ہے تو کیسی خاموشی کیسی اداسی راج کرتی ہے ۔ ۔ پتہ ہے جب رات کے کسی پہر کوئی بھٹکتا ہوا جوگی کوئی تان بجاتا ہے۔ جب وہ بانسری میں محبت کا طلسم پھونکتا ہے تو کیسا درد جاگتا ہے ۔ ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے صدیوں سے خاموش جھیل میں کوئی پتھر پھینکا ہو ۔ ۔ اور وہ پتھر بھنور در بھنور دائرے بناتا چلا جائے ۔ ۔ روہتاس پر کھڑی ٹلہ جوگیاں کو دیکھتے ہوئے عجیب منتشر خیالوں کی آماجگاہ تھا میرا ذہن ۔ ۔ کبھی سکندر کی فوج کے نمک چاٹتے ہوئے گھوڑے، کبھی مرہٹوں اور سکھوں کی جنگیں ، کبھی جودھا اکبر کا اثر و رسوخ، کبھی انگریزوں کی فوجی چوکیاں ۔ ۔
کبھی ہیر کے آنسو ۔  تو کبھی سوچ نالہ کہان کیساتھ ساتھ چلتی ہوئی دور کہیں گوجر خان کے کسی چھوٹے سے گاؤں کے کچے چولہے کے پاس دھری چوکی پے جا بیٹھتی تھی ۔ ۔ اور دیس سے پردیس ہونے والوں کے دکھ کو محسوس کرنے کی کوشش میں رہتی ہے ۔ ۔ نالہ کہان کے پل سے گزرتی ہوئی اس کے کنارے کیساتھ چلنے کی شدید خواہش جاگی ۔ ۔ نالے کی پراسرار خاموشی اور روانی میں عجیب جذبیت تھی ۔ ۔ کشمیر کے کسی پہاڑ سے نکلنے والا سالٹ رینج کیساتھ ساتھ چلتا ہوا جہلم کو گوجر خان سے ملاتا، جرنیلی سڑک کے دونوں کناروں میں واحد مزاحمت کرتا ہوا یہ نالا، اپنے دامن میں کتنی کہانیاں چھپائے بیٹھا ہے ۔ ۔ صدیوں سے اتنا پرسکون چپ چاپ بیٹھا ہوا جو کبھی ہیر کی سکھیوں کی پائل کی چھن چھن سنتا ہوگا ۔ ۔ کیسی کیسی آشنائیوں کا وہ چشم دید گواہ ہے
۔ ۔ پھر یہ اتنا پرسکون کیسے ہے ۔ ۔ شاید جان لینے کی وجہ سے ۔ ۔

Thursday 10 March 2016

The girl in coffee shop


تمہیں یہ کھوج نہیں ہے کہ میری آنکھوں کے گوشے کس درد سے بھیگے رہتے ہیں نہ تمہیں یہ درد ہے کہ کس یاد کا الاؤ دہکائے رکھتی ہوں جگر میں، جو لہجے کی تپش سے تمہاری سماعتوں کے پر جلاتے ہیں ۔تم تو بس اس کھوج میں ہو کہ میرے لفظوں سے جب اشک ٹپکتے ہوں گے تو لفظوں کا رنگ کیسا ہوگا۔ تمہیں بس یہ دیکھنا ہے کہ جب اندر کی حبس سے گھبرا کہ میں کھڑکیاں کھول دیتی ہوں گی تو کیسا احساس زیاں ہوتا ہوگا۔ کیسی بےبسی چھلکے گی اور کیسے میری ہستی کا غرور ٹوٹے گا۔ تم میرے درد سمیٹنا نہیں ان کہ اشتہار لگانا چاہتے ہو۔۔تاکہ تم کہہ سکو۔ کہا تھا نا، اس صنف میں برداشت کا حوصلہ نہیں ہوتا....سنو تم بس مجھے ٹوٹ کر بکھرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہو...تاکہ تم ان کرچیوں پر ججمنٹس دے سکو ،ترس کھا سکو۔

سنو۔
کانچ سی اس لڑکی کو اپنی ہستی کے پندار کو، ہستی کی قیمت پر بچانا پڑا تو وہ بچالے گی۔۔ مجھے اپنے خیال کی رعنائی دے کہ اپنا غرور بچانا پڑا تو میں بچاؤں گی۔مجھے اپنی سوچ کے جگنو مار کہ اپنے اندر کی تاریکی بچانی پڑی تو میں بچاؤں گی
کافی ہاؤس کہ نیم تاریک گوشے میں رکھی میز پر وہ گھنگریالے بالوں والی لڑکی کسی ربورٹ کی مانند بیٹھی تھی جیسے کچھ دیر پہلے ہونے والی گفتگو سے اس کا کوئی تعلق ہی نہ ہو
مگ میں سے گھونٹ گھونٹ تلخی اندر اتارتے پینٹر نے لڑکی کی آنکھوں سے چھلکتی بے اعتباری کو تاسف سے دیکھا اور گلاس وال سے باہر دھند میں لیپٹی سپہر دیکھنے لگا۔ گویا یہ ساری دھند لڑکی کی باتوں سے فضاء میں منتقل ہوئی ہو
بات گو ذرا سی تھی پینٹنگ کے شارٹ کورسسز کرانے والا ، ایک جانا پہچانا پینٹڑ اور  سٹوڈنٹ  کے لہجے میں کوئی خاص بات تھی ،جو اسے چالیس کی کلاس میں ممتاز کرتا تھا جو یوں میں اس کے ساتھ کافی شاپ پہ بیٹھا تھا
اور یہ پہلی دفعہ نہیں تھا کہ میں نے اس کو پرت در پرت کھولنا چاہا تھا اور وہ ہتھے سے اکھڑی تھی...دنیا جہاں کہ موضوعات پہ بات کرتی ہوئی اپنی تصویروں ایگزبیشن، پر اعتماد سے ڈیلنگ کرتی ہوئی اور لیکچر دیتی ہوئی اس مضبوط خاتون میں اور اس میں بہت فرق تھا یہ اپنی ذات کے گنبد میں بند اکیلی خؤد اذیتی کا شکار تنہا لڑکی نظر آئی
میں چلتی ہوں، کی آواز نے میری سوچ کو بریک لگائی اور میں واپس حال میں لوٹا تو لڑکی کے چہرے پر گزرے چالیس منٹ کا کوئی شائبہ نہ تھا۔ گویا یہ روز کا قصہ ہو
میری توجہ کو اجازت سمجھتے ہو ئے وہ بیگ کندھے پہ ڈال کہ کافی شاپ سے باہر نکل گئی
میں بھی واپس اپنی دنیا میں لوٹ آیا اور ارد گرد کی میزوں پر اچٹتی نظر ڈالنے لگا
کافی شاپ کہ دروازے پر ہاتھ رکھے اس نےمڑ کہ دیکھا تو اسے الوداعی مسکان چہرے پہ سجائے،ادھر ہی دیکھتا ہوا پایا۔وہ ہاتھ ہلاتی باہر چل دی۔ تم واقعی خود اذیتی کا شکار ہو گئی ہو۔کسی نے کان میں سر گوشی کی
خود اذیتی ؟؟؟ اپنے درد اپنے اندر چھپا کہ ہنسنا، خود اذیتی ہے؟؟ اپنے مسئلوں کے اشتہار نہ لگانا خود اذیتی ہے؟؟؟ اپنی ذات کا غرور بچانا خود اذیتی ہے تو ہاں پھر ہوں میں خود اذیتی کا شکار....ہونہہ، اپنی سوچوں میں گم لڑکی نے گاڑی سٹارٹ کی___
اب کے یہ درد کھوج کر چھوڑوں گا۔ پینٹر نے آخری گھونٹ بھرا اور کافی ٹیبل چھوڑ دیا
اور لڑکی نے تعلق چھوڑ کہ ہستی کا غرور بچا لیا.....ہستی کے پندار کے بغیر بھی کوئی عورت ہوتی ہے بھلا

ایک خاکہ


وہ.ایک کھوچل پٹھان ہیں اور اپنے تمام تر کھوچل پن کے باوجود وہ ایک پٹھان ہیں.لہذا جب بھی کبھی کوئی فیک آئیڈی انباکس میں آکر ان سے اظہار محبت کرتی ہے تو وہ دل وجاں سے فدا ہوجاتے ہیں اس پر...
اور اچانک شعر پڑھنے لگے گنگنانے لگے والی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ان پر
اسی چکر میں اپنی تازہ سیلفیاں پوسٹ کرتے ہیں شاعری کرتے غزلیں سنتے اور اس "ان دیکھی انجانی سی" کہ پیچھے "پگلے سے دیوانے سے" ہوے پھرتے ہیں...عشق و عاشقی پر مبنی تحریریں لکھتے ہیں خود کو رانجھا جوگی سمجھ کان چھیدوانے کہ متعلق سوچ ہی رہے ہوتے ہیں کہ انباکسی حسینہ بھی ایک پٹھان بھائی نکل آتا ہے اور کہتا ہے..."او مڑا ام تو شغل لگاتی اے"
اور وہ اچانک اس سانحے کہ آفٹر ایفیکٹس کو کاونٹر کرتے کرتے فلسفیانہ گفتگو کرنے لگتے ہیں.اس بریک اپ کہ بعد ان پر فلسفہ اتنی شدت سے طاری ہوتا ہے جیسے میتھس اور فزکس کا پرچہ دیکھ کہ خوف....یا پھر جیسے اچانک ریزلٹ دیکھ کہ لرزہ__کل عالم ان کہ فلسفے سے متاثر ہو انہیں کوئی توپ شے سمجھنے لگتا ہی ہے کہ وہ مہوش حیات کہ واہیات فوٹو لگا اپنی بدذوقی کی خبر دیتے پاے جاتے ہیں نہ صرف فوٹو لگاتےبلکہ اس کی خوبصورتی پر اصرار کرتے پاے جاتے ہیں...اور اس پر یہ مطالبہ بھی کہ اسے خوبصورت سمجھا جائے.حق ہاہ..اب سب کا مانتک سلطونت( دماغی توازن) خراب ہو ضروری تو نہیں.
پانچ ہزار کی فرینڈ لسٹ میں چارہزاد تین سو پینتیس فیک آیئڈیز چار سو مرد حضرات دو سو خواتین اور پینسٹھ ان کی اپنی آئیڈیز ہیں...کسی کو فرینڈ ریکوسٹ بھیجنی ہو تو اپنا ہی ایک آئیڈی ڈیلیٹ کرنا پڑتا ہے انہیں اب تو نوبت یہ آگئی ہے کہ ان کی اپنی پندرہ سولہ آئیڈیز ان کی فرینڈ لسٹ میں نہیں ہیں اور اسے وہ قحط الرجال سمجھتے ہیں اور مارک زنگر برگر( زخر برگ) کو کوسنے دیتے ہوے پائے جاتے ہیں..
پکے انصافی ہیں ووٹ جمیعت کو دیتے ہیں کہ اتحادیوں کے ہمسائیوں والے حقوق ہوتے ہیں
ٹویٹر پر اکثر لکھتے ہیں کہ ڈرتا کسی سے نہیں میں اور یہ بات اپنے اوریجنل آئیڈی سے فیورٹ بھی کرتے ہیں.
محبت میں توحید کہ قائل ہیں اسی لیے محبت کرتے ہوے بریلوی ہو جاتے ہیں کہ محبوب تک.پہنچنے کو بھی محبوب درکار ہے سو جس لڑکی سے محبت کرتے اس کی دوست کو بھی مہکے مہکے انباکس کرتے ہیں فیر دوواں کو کٹ کھا کہ کہتے ہیں فیریلٹی داے نیم از وومن..
لیکن!!ان سب کہ با وجود عورت کی عزت کرنا جانتے ہیں سب خواتین کہ ساتھ اخترام سے پیش آتے ہیں خوبصورت سوچ کہ حامل اچھے انسان ہیں..
نوٹ: اس سکیچ کو ایک تنبیہ سمجھا جاے.

سحرش

Women's Day


یہ وہ معاشرہ ہے جہاں باون فیصد اکثریت کا صرف سولہ فیصد سکول، نو فیصد کالج، کا منہ دیکھ پاتا ہے اور ان میں سے دو فیصد یونیورسٹیز جا پاتی ہیں.اور وہ جو دو فیصد ہیں بد قسمتی سے برابری و حقوق کہ چکر میں آنکھوں پر، جان لینے کی پٹی باندھے، بس دائروں میں ہی گھومے چلے جا رہی ہیں۔

محترم خواتین، معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ جب آپ دعوی کرتی ہیں کہ عورت ہونا بہت مشکل ہے۔ جب آپ اپنی کافی میں سے سپ لگاتے ہوے سوشل میڈیا پر باون فیصد کے حقوق کی جنگ لڑتے ہوے میرٹل ریپ،میوچل اینڈرسٹینڈنگ، آفس اینوائرنمنٹ اور فری سوشلائزیشن جیسے منفرد سوفیسٹیکیٹڈ مسائل پر بات کرتے ہوئے "عورت کہ مسائل تم کیا سمجھو گے" جیسے جملوں پر اختتام کرتی ہیں۔ یقین جانیے یہ جملہ ہی بے ساختہ میرے منہ سے نکل جاتا ہے
آپ خواتین کے حقوق کی بات کرنے کی بجاے مذاحیہ سا تقابل پیش کرتی ہیں کہ اتنی بچیاں درندگی کا نشانہ بن گئیں۔ لڑکی ہونا جرم ہوگیا...گویا آپ چاہتی ہیں بچیاں درندگی کا نشانہ بنی ہیں تو خدانخوستہ معاشرے کی دوسری اکایئاں بھی سفر کریں...ویسے کیوں نہ یہ غلط فہمی بھی دور کر دی جاے آپ کی؟
تو سنیے انٹرنیشنل رہ ھیبلیٹیشن انسٹیٹوٹ فار ریپ وکٹمز والے کہتے ہیں پاکستان میں بچیوں کی نسبت بچوں سے جنسی زیادتی کہ واقعات تین گنا زیادہ ہیں لیکن چونکہ آپ لوگوں کے خیال میں وہ جرم نہیں تو اس پر بات نہیں
پھر ایمنسٹی انٹرنیشنل انسانی حقوق کے ضمن میں کہتی ہے کہ پاکستانی مردوں پر گھریلو تشدد میں اڑتیس ملکوں کی فہرست میں اکیسویں نمبر پر ہے اور اس تشدد کہ خلاف آواز اٹھانے والے ملکوں میں ہماراکہیں نام نہیں  اور یہ تو آپ معزز خواتین کو پتا ہی ہوگا کہ پاکستان میں مردوں میں ڈپریشن خواتین کی نسبت زیادہ ہوتا جا رہا ہے...وجوہات کے ضمن میں ظالم گھریلو نا چاقی کو سب سے اوپر لکھتے ہیں۔  
خیر میرا مقصد یہ لا یعنی تقابل پیش کرنا کبھی بھی نہیں رہا۔یہ تو صرف  بتانے کہ لیے تھا کہ معاشرے میں ہر دو اکایئاں سفر کر رہی ہیں اوروہ اپنی جنس کی وجہ سے نہیں کارل مارکس والے "مظلوم" طبقہ سے ہونے کی وجہ سے کر رہی ہیں 
استحصال کرنے والا جنس نہیں اختیار کے بل پر استحصال کرتا ہے
لہذا حقوق کی جنگ لڑتے ہوے سیلف پٹی سے باہر آئیے۔ کمزور طبقے کے طور پر حقوق مت مانگیے کہ کوئی بھیک میں دے گا۔
معاشرے کی ایک باوقار کارآمد اور اپنی ذات میں مکمل اکائی کی حثیت سے حقوق کا تقاضا کیجیے۔ کیونکہ ھمدردی کی بنیاد پر برابریاں نہیں مانگی جاتیں
اور ہاں باون فیصد کے مسائل سمجھیے۔یقین کیجیے عمر کوٹ میں گھڑے بھرتی، چمن میں بکریاں چراتی، دیر میں لیمن گراس اگاتی اور چک بے جیم شمالی میں گندم کاٹتی کسی ثریا کسی سکینہ کسی مریم کو ایکول سوشلائزیشن کا درد سر لاحق نہیں۔ نہ انہیں میرٹل اور پوسٹ باٹم ڈپریشنز ہی ہوتے ہیں۔ ان کہ مسائل سمجھیے انہیں روٹی چاہیے۔ بچے کہ لیے اس کی پیدائش پہ میڈیکل اسسٹنٹ چاہیے۔ ڈیڑھ ماہ کی "چھٹی" چاہیے ۔انہیں اپنا نام لکھوانے کی حاجت سے چھٹکارا چاہیے۔اور انہیں محنت کا مناسب معاوضہ چاہیے۔
آپ لوگوں کو پتا ہے جنوبی پنجاب اور سندھ میں فالسہ چنتی خواتین کی روزانہ کی اجرت کتنی ہے؟؟؟ 
نہیں؟؟ کیسے پتا ہو گی۔ ان کی روزانہ کی اجرت فالسے کی ٹہنیاں ہیں۔ وہ ہی ٹہنیاں جن سے بنے مہنگے ہینڈی کرافٹس آپ لوگ ڈرائنگ رومز میں سجا کہ حقوق نسواں کہ متعلق گفتگو کرتیں ہیں