Pages

Thursday 21 July 2016

وہ جو تعلق تھا نہ رہا.


تم وحشتوں کے ساتھی تھے نہ رہے.

ہم بے وجہ سےعادی تھے،نہ رہے
تیرے لہجے میں بولتی نفرتوں 
تیرے لفظوں سے ٹپکتی بے زاری نے
ہم سے چپکے سے کہا
وہ جو تعلق تھا.نہ رہا
دل کے نہاں کونے میں
و جو کانچ کا ٹکرا تھا،نہ رہا
کوکون سے نکلا تھا کوئی
وہ جو چھوٹا سا جگنو تھا نہ رہا.
بے حسی میراث کب ہوتی ہے.
وہ جو حساس سا احساس تھا،نہ رہا.
آؤ برابر کا تعلق بناتے ہیں
تم نفرت کرو بدلے میں نفرت پاؤ.
جو بدل جاؤ تو بدلے میں بدلہ پاؤ.
تم مات دو اور شکست کھاؤ
تم چپ رہو اور خاموشی پاؤ.
تم رخ موڑو تو راہ مڑی پاؤ.
تم الزام لگاؤ،بدلے میں بہتان پاؤ!
پر!اک ذرا ٹہرو!
سودوزیاں گننے دو.
مجھے شام و سحر یاد کرنے دو.
اپنے خسارے ماپ لینے دو.
تعلق توڑ ڈالوں گی مجھے کنکر توچننے دو.
وہ جو تمہارے لہجے نے میری سوچ کی راہ میں بچھا ڈالے ہیں
مجھے وہ سارے کنکر چننے دو.
میں وہ سارے کنکر اپنی آنکھوں میں بسا لوں گی.
اب کہ تم لوٹو گے تو بے حس پاؤ گے
مجھے یہ جان لینے میں دن لگیں گے.
لیکن میں اب کہ تمہیں آزاد کردوں گی.
اپنی نفرت سے بھی،جو تھی ہی نہیں
میں تعلق توڑ ڈالوں گی ذرا سا بے حس ہونے دو.
مجھے اب کے دن لگیں گے..
مگر تم دیکھنا میں خود غرض ہو جاؤں گی.
اتنی کہ___کہ تم بھی کہو گے 
وہ جو تعلق تھا نہ رہا.
سحرش

No comments:

Post a Comment