Pages

Monday 27 November 2017

موت کی جنازوں کی نعش کی تصویر لگانا کوئی انسانیت تو نہیں ہوتی نا؟




میں بہت سے پسندیدہ گیت بہت سی مدھر دھنیں اس وجہ سے سننا چھوڑ چکی ہوں کہ ان کی وڈیوز میں موت کے منظر ہوتے ہیں یا ہیں جنازے ہیں یا کوئی شخص مردہ حالت میں دکھایا جاتا ہے۔
مجھے لگتا ہے جب ہم جنازوں کی تصویریں لگاتے ہیں تو ہم حادثات پر سانحات پر۔۔یا موت کے مناظر پر لوگوں کو سینسٹائز کر رہے ہیں۔ ہم حادثے سے جڑا المیہ اس سے جڑے درد اور دکھ کو کم تر کر دیتے ہیں۔ اور مرنے والے کی تحقیر کرتے ہیں۔
یا پھر زندگی کی تحقیر کرتے ہیں۔
پر کچھ منظر کچھ تصویریں اتنی طاقت ور ہوتی ہیں کہ ان سے نہ نظر ہٹتی ہے نہ ذہن۔سپہر سے میں اس تصویر کے حصار سے نکلنا چاہ رہی ہوں۔
لیکن یہ تصویر کسی آسیب کی طرح مجھ سے چپکی ہے۔میرا ذہن اس تصویر کے شکنجے میں ایسے ہے جیسے کسی آکٹوپس کے بازوؤں میں ہو۔۔نہ کوئی راہ ہے فرار کی نہ بھول جانے کا کوئی رستہ ہے۔
کوئی ایسے سراپا فریاد بھی ہو سکتا ہے۔۔اس تصویر کو دیکھ کر مجھے محسوس ہورہا ہے اگر مجسم آہ ہو تو کیسی ہو۔۔
اگر بدعا کوئی تاثر ہوتا تو کیسا ہوتا۔
ہم بدعا کے مقبول ہونے سے کیوں نہیں ڈرتے۔
رب کی پکڑ سے بھی ڈر نہیں۔لگتا۔؟
یونہی جیتے رہے تو مرجائیں گے ہم۔۔
کیا ہم ہمیشہ انہی تصویروں کو دیکھتے رہیں گے؟
کیا ایسے ہی منظر ہماری آنکھیں نم کرتے رہیں گے ؟
موت اتنی ارزاں کیوں ہے ہماری بستی میں؟
زندگی کی قیمت اتنی کم کیوں ہے ؟
مجھے پچھلی نسلوں کا نہیں پتا۔۔لیکن میں اپنی آنے والی نسلوں کو ایسی بے وقعت زندگی نہیں دینا چاہتی۔
مجھے ایسی کوئی صورت قبول نہیں جس میں زندگی کے چہرے پر موت کا خوف ہو۔
میں اپنے بچوں کو ان مناظر کاحصہ یا گواہ بنتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔


Sunday 19 November 2017

یوسف کی بے بسی سے آسیہ کے اختیار تک




بہت دنوں سے کچھ نہیں لکھا۔ دل آمادہ ہی نہیں ہورہا تھا۔ بے دلی سی بے دلی ہے۔ زندگی سے دلچسپی ہی ختم ہوگئی ہو جیسے۔ کرنے کو کچھ نہیں اور فراغت سےاکتاہٹ نہیں ہورہی۔ ہے نا عجیب؟
اتنا عجیب جیسے چھما چھم برستی برسات میں اچانک سورج نکل آئے۔ اور دریچے سے لگی حسینہ کے لئے کھڑکی کا منظر لا یعنی ہوجائے۔ اور جیسے میز پر پڑا چائے کا کپ اہمیت کھو دے۔ ایسے بے معنی دن چل رہے ہیں۔ سنو میری مثالوں پر مسکراؤ نہیں۔ اور اب مسکراہٹ چھپاؤ نہیں۔
خیر بے زاری عروج پر تھی۔ آج تم سے بات کرتے کرتے جیسے کسی نے جھنجھوڑ دیا ہو۔ مجھے ایسا محسوس ہوا اگر اب بھی نہ لکھا تو یہ سکوت موت میں بدل جائے گا۔ میرے لفظوں کی موت۔ ان سوچوں کی موت جو میرے لہجے میں احساسات بھرتی ہیں۔ اب احساس کی موت کیسے قبول کر لوں؟ کیسے اپنے احساس کو اپنے سامنے قطرہ قطرہ ذرہ ذرہ مرتے دیکھوں اور چپ رہوں۔ مانتی ہوں بے حسی سیکھ رہی ہوں میں۔ اور سیکھ بھی جاؤں گی۔ لیکن ابھی وہ مقام نہیں آیا جہاں احساس کو مرتے دیکھوں اور چپ رہوں۔
ابھی بھی میرے اندر کوئی چیخ اٹھتا ہے۔ جب میں اپنے ہی جیسے کسی انسان کا استحصال دیکھوں۔ ابھی میرے اندر وہ رمق باقی ہے جس کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔
پتا ہے سفید بالوں کے ساتھ پیدا ہوئی تھی میں۔ اماں تب سے ہی بوڑھی روح کہتی ہیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہے زیادہ کتابیں پڑھنے کی وجہ سے میرا دماغ خاصا خراب ہوچکا ہے۔ لہذا ناقابل اصلاح ہو چکی ہوں۔ اس لئے آپ بھی میری ان خامہ فرسائیوں کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیں۔ بالکل ویسے جیسے ہم اپنے ہر غلط فیصلے کو قسمت کے کھاتے میں ڈال کر اوروں کے جبر کو اپنا صبر کہہ کہہ کے بزعم خود رب کے برگزیدہ بندوں میں شمار کرتے رہتے ہیں ۔ اب یہ کہوں گی کہ ظلم پر مسلسل خاموشی صبر نہیں ایک اور ظلم ہوتا ہے۔ تو کون مان لے گا اس تھیوری کو ؟  اس لئے تھیوری بدل دیتی ہوں اسے۔ کہے بغیر بھی تو گزارا نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ڈھیٹ بھی تو ہوں نا۔
تو  اگر مشکل وقت میں صبر رب کا پسندیدہ ہے ، تو ظلم کے خلاف احتجاج بھی اسی کا بتایا ہوا رستہ ہے۔
میں شائد آئیڈیلزم کا شکار ہو رہی ہوں۔ لیکن رشتوں میں لگے اس قفل کی چابی آپ ہی کے پاس ہے۔ ہر بات پر صبرکرتی رہیں تو اردگرد جبر ایسے ہی بڑھتا رہے گا۔ میں ایکول رائٹس والا یوٹوپیا تخلیق نہیں کر رہی۔ نہ ہی برابری کا کوئی تعلق جنس سے ہوتا ہے۔ زور آور بلا امتیاز جنس استحصال کرتا ہے۔ طاقت کو تہذیب سکھانا دنیا کا مشکل ترین کام ہے شائد۔ ہم انٹرنشینل ریلیشنز میں جب کتابوں میں بیلنس آف پاور پڑھتے ہیں نا۔ طاقت کو لگام ڈالنے کو سب سے پہلے کیا کرتے ہیں؟
مجھے پتا ہے ہر وقت بہادر رہنا بہادر بننا بہت بہت مشکل ہے۔ اتنا مشکل کہ اپنی ہی بہادری سے نفرت ہونے لگتی ہے۔
اس کے سامنے اس سے بڑی طاقت کھڑی کرتے ہیں فرضی ہی سہی۔ لیکن طاقت کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ تمہیں لگام ڈالنے کو بندوبست ہے ہمارے پاس۔ طاقت کی اسی نفسیات کے پیش نظر تو رب نے زمین پر عارضی اختیار اتارا ہوگا ناں۔ اسی لئے تو آخری اختیار اس نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے کہ اس کے بندے اس کے ہمسری پر نہ اتر آئیں۔
خیر۔ ۔ ۔ سنو! میں یہاں طاقت ور کی زور آور کی حمایت میں بیان تو جاری کرنے کے لئے نہیں قلم گھسیٹ رہی ۔ نہ ہی عقلمندی کا، وہ درجہ ہی حاصل ہوا ہے مجھے جہاں دانوں والے ہر صورت سیانے ہی لگتے ہیں۔  تعلق نبھانے پر تو بات تو ضمنی سی تھی جو یونہی عادت سے مجبور ہوکر کردی۔ وگرنہ آپ سے اچھے کون نبھا ئے گا رشتے؟
میں تو یہاں اس بھیگے لہجے میں کئے گئے شکوؤں کا جواب تراشنا چاہتی ہوں۔ کیونکہ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے لہجے میں ہار کا، ذرا سا احساس بھی ٹوٹے کانچ کا سا چھبتا ہے مجھے۔ سنیں آپ بے بسی بے اختیاری کی بات مت کیا کریں۔ مجھے پتا ہے ہر وقت بہادر رہنا بہادر ہونا بہت بہت مشکل ہے۔ اتنا مشکل کہ اپنی ہی بہادری سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ مجھے یہ بھی پتا ہے بہت مضبوط لوگ بھی کبھی کبھی ٹوٹ جایا کرتے ہیں۔ لیکن ان میں اور اوروں میں یہ ہی تو فرق ہوتا ہے کہ وہ ٹوٹ کر بکھرتے نہیں ہیں۔
سنیں! آپ بے بسی کی بات مت کیا کریں۔ ۔ ۔ پتا ہے جب شعور کی پہلی منزل پر یوسُف علیہ السلام کا، قصہ پڑھا نا۔ تو کئی پہر آنکھوں سے آنسو صاف کرتے گزرے۔ اس دن مجھے بے بسی کا مفہوم سمجھ آیا۔ ۔ جب اندھے کنویں میں تنہا بیٹھا حیات و موت کی کشمکش میں کھوئے ہوں گے تو یوسف نے بھی بے بسی محسوس کی ہوگی  ۔ جب بارش کی شدت میں منحوس کہہ کر سواری سے اتارے گئے ہوں گے تب بھی۔ جب بازار میں بکنے کو کھڑے ہوں گے تب بھی۔ ۔ ۔ اور جب بڑھیا نےدو پھوٹی کوڑیاں دام لگایا ہوگا  تب بھی آنکھیں  بھر آئی ہوں گی۔
ہو سکتا ہے جسے آپ اس وقت بے بسی سمجھ رہی ہوں وہ اختیار کی ابتدا ہو۔ چیزیں شروع میں جیسے نظر آتی ہیں ۔حقیقت میں ویسے نہیں رہتیں۔
پھر کریکٹر ایسا کہ بارہ سال کے لئے مقید ہونا۔ بے اختیاری بے بسی تو محسوس ہوئی ہوگی۔ ۔
میں نے اس قصے کو بار بار پڑھا دہرا دہرا کر میں بے بسی کے اس دور میں کوئی شکوہ ڈھونڈنا چاہتی تھی۔ تاکہ میں بے بسی پر رب سے کی گئی بہت سی شکایتوں کے لیے جواز تراش سکوں۔
سنیں! مجھے نہیں ملا کوئی حرف شکایت۔  پتا ہےمجھے یوسُف کی کہانی نے کیا سبق دیا ہے؟
یوسُف کی کہانی نے مجھے قائم رہنا سکھایا ہے۔ میرے اندر رب کے وجود پر یقین مضبوط تر کیا۔ ۔ مجھے اس کی بتائی ہوئی باتوں سے وابستہ امیدیں بڑھانا اور وابستہ ہی رکھنا سکھایا ہے۔
اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یوسُف کی کہانی نے مجھے ہر چیز کو رب کے گریٹر پلین کے تناظر میں دیکھنا سیکھایا ہے۔ بڑی سی پال کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے۔ دیکھیں اس دنیا میں ہر چیز ہر واقعے کے ہونے کا ایک مقصد ہوتا ہے۔
آپ کی وقتی بے اختیاری بھی۔ ۔ اختیار والوں کے سرد روئیے بھی۔ آپ کی خاموشی بھی، اوروں کا شور بھی سب اپنی اپنی وجوہات کی وجہ سے وجود میں ہیں۔
ہو سکتا ہے جسے آپ اس وقت بے بسی سمجھ رہی ہوں وہ اختیار کی ابتدا ہو۔ چیزیں شروع میں جیسے نظر آتی ہیں اختتام پر ویسے نہیں رہتیں۔
جب اندھے کنویں میں۔ اپنوں کی سازشوں کا شکآر بے بس مظلوم لڑکا عزیز مصر بن سکتا ہے تو۔ یقینا رب کے پلین میں بے اختیاروں کے اختیار کا بھی آپشن ہوگا۔
آپ بس ہمت مت ہاریں۔ کہانی کے اختتام تک تو حوصلہ رکھیں۔
ممکن ہے یہ کہانی آسیہ اور فرعون کی کہانی جیسی ہو۔ ابتدا کے بادشاہ کو آخر میں اپنی جھوٹی انا سمیت جوابدہ ہونا پڑے۔ اور شروعات کے متاثرین کے لئے آخر میں رب دریا کا سینہ پھاڑ کے حل نکالے۔

Tuesday 14 November 2017

blasphemy law اور آسمان سے گرے پٹواری



ویسے پٹواریوں بیماریوں کی سختی کے دن ختم ہونے میں ہی نہیں آرہے بیچارے۔ آسمان سے گر کے کھجور میں ایسے اٹکے ہیں کہ نہ وہاں چھلانگ لگا پارہے ہیں نہ ٹہر پا رہے ہیں۔ لیکن چونکہ اسٹائل بھی کوئی چیز ہوتی ہے لہذا وہاں بیٹھے ہی ایسے ڈیزائن مار رہے ہیں جیسے بہت ہی مزے میں ہوں۔ لیکن کب تک آخر کب تک اچانک پھٹ پڑتے ہیں۔ بالکل اس موٹی آنٹی کی طرح جو فوٹو میں سمارٹ نظر آنے کے لئے پوری سانس اندر کھینچ کے کھڑی ہو اور فوٹو گرافر کہیں اور بسی ہوجائے اور وہ اپنے ہی سانس کے پریشر تلے آ کر دھڑام سے نیچے جا گرے۔ ہائے بیچارے ہمارے عقلبند پٹواری پونے دو روپے کی تالیاں تم لوگوں کی لاجکس کے لئے اس کے بعد یہ بتانا تھا کہ یہ تم لوگوں کے حواسؤں پر کپتان کب سے سوار ہونے لگے۔ بولے تو کہاں گیا وہ سارا تجربہ جس کے چرچے سن سن کر ہمارےکان تقریبا پک جاتے جو ہم نے غور کیا ہوتا تم لوگوں کی فضولیات پہ۔ 
کسمے آجکل مجھے اچھا خاصا ترس آجاتا ہے تم لوگوں پہ۔ پہلے پوچھ پوچھ کے گلا خراب کر لیا کہ کیوں نکالا؟ جب مرضی ہماری جیسا ریسپانس دیا تو خود ہی تنخواہ نہ لینے والا جواب گھڑ لیا۔ اس ناراض بہو کی مانند جو ناراض ہو کہ میکے جا بیٹھتی ہے اور جب کافی عرصہ کوئی منانے کے لئے نہیں جاتا تو بھینس کی دم سے لٹکے چلے آتی ہے یہ شور کرتی کہ میں کب آرہی تھی یہ تو بھینس مجھے کھینچے لا رہی ہے۔ کیا؟؟ مثال فٹ نہیں بیٹھ رہی؟ تو تنخواہ والی بات فٹ بیٹھ رہی تھی؟ نہیں نا ؟ ہم نے بھی تو سنی ہی نا۔ خیر آپ سب سے اظہار محبت کی تازہ وجوہات پہ بات کرتے ہیں۔ تو ہوا کچھ یوں کہ نانی نے خصم کیا برا کیا کر کے چھوڑا اور بھی برا کیا والا سین ہو رہا ہے تم لوگوں کے ساتھ۔ حساس ایریاز میں گھسے برا کیا کر کے مکر گئے اور بھی برا کیا۔ پر سب سے برا تب ہوا جب کرائے کا پالتو داماد چھوڑ دیا۔ یعنی اب مہرالنساء کے ابو ہی رہ گئے تھے ہمیں بھاشن دینے والے۔ پیارے پٹواریو اپنے داماد کو اور اپنے وزیروں کو یہ تو سمجھایا ہوتا کہ مسئلہ کسی کے عقیدے میں نہیں ہے نہ ہمیں کسی کے مذہبی عقائد سے کچھ لینا دینا ہے۔ مسئلہ ان کا ہمارے عقیدے میں گھسنے میں ہے۔ نہیں سمجھے نہ۔ 
نہیں سمجھے ہوں گے۔ ٹہرو بھیا سمجھاتی ہوں۔ وہ یوں کہ ہم نے یعنی آنسہ سحرش عثمان نے ایک عدد آرگنائزیشن کے ساتھ ایز والنٹیر دوسال کام کیا۔ اپنی جان ماری اپنا بیسٹ دیا تھوڑا بہت دماغ لڑا کہ ایک پراجیکٹ بھی منظور کرا لیا آرگنائزیشن کے لئے۔ لیکن ایک دن ہم یونہی اکتا گئے جی اوب گیا آرگنائزیشن کو،لات ماری اور گھر چلے آئے۔ پھر لگے منصوبے بنانے اپنی آرگنائزیشن بنانے کے۔ اب بظاہر تو ہمارے مقاصد ایک سے تھے۔ آرگنائزیشن کے اصول و ضوابط بھی پتا تھے۔ سو ہمیں ان کا نام استمال کر لینا چاہیے تھا نا؟؟ کیا؟؟ نہیں کر سکتے کسی آرگنائزیشن کا نام اور لوگو؟ کیا ہو گیا بھئی بس ذرا سے ہی تو اختلافات تھے پھر بھی ایسا ۔کٹر رویہ ایسی انتہاء پسندی ایسی تنگ نظری۔۔۔۔ چچ چچچ آپ سے روشن جیالوں سے توقع نہیں تھی اسکی۔ کیا کہا یہ اصول ہے دنیا کا؟ تو بھئ صاف سیدھی بات ہے۔ تم لوگ اپنی دنیاوی آرگنائزیشن کا نام مجھے استمال نہیں کرنے دیتے۔ اور ہم تم لوگوں کو اپنے حساس ایریا میں گھسنے دیں؟ صدقے بھی آپ لوگوں کی ایکسپیکٹیشنز۔۔ بات سنو تم لوگوں کو پتا ہے برطانیہ میں پروٹسٹنٹ فرقے والے شاہی خاندان کا حصہ نہیں بن سکتے۔ ہولوکاسٹ پہ بات کرنا جرم ہے۔ وہ کیا نازی کیمپس بنائے تھے ہٹلر نے آج بھی ان پر کچھ کہنے سننے کی تحقیق کر کے آؤٹ آف دا باکس سوچنے کی آزادی نہیں میسر کسی کو۔ تو پھر ہم ہی سے ۔۔روشن خیالی۔۔ کی توقع کیوں ؟ جب ہر قوم ہر مذہب کا حساس ایریا ہے اور وہاں گھسنے کی آزادی نہیں کسی کو تو پھر ہمارے ہی عقیدے کو غریب کی جورو کا درجہ دینے پر تلے رہتے ہو تم لوگ؟ اور کوئی بات نہ ملے تو کہنے لگتے ہو عمران خان چپ ہے اس نے ردعمل نہیں دیا۔ تو بھئ مجھے اپنے عقیدے کی تکریم کرنے کے لئے عمران خان کے رد عمل کی حاجت نہیں ہے۔ اور نہ ہی ایسے عقل کے اندھے سپورٹرز ہیں کپتان کے کہ اتنے اہم معاملہ پر رائے کے لئے کسی کا انتظار کریں۔ ختم نبوت ہمارے ایمان کا حصہ ہے رہے گا ہمیشہ چاہے دنیا ہمیں انتہاء پسند سمجھے چاہے بنیاد پرست۔ شائد یہ جذباتی گفتگو لگے روشن خیالوں کو۔۔۔پر کیا کریں جذبات کے بغیر محبت نہیں ہوتی نا۔۔نہ اس کا اظہار۔

آسانیوں کی دعا دینے اور مشکلات کھڑی کرنے والے عجیب لوگ



جب میں کہتی ہوں نا کہ بطور قوم ہم عجیب ہیں بہت عجیب۔ تو اس لئے کہتی ہوں کیوں کہ اس وقت میرے پاس کہنے کے لئے اور کچھ نہیں ہوتا۔ مجھ سے  سمجھایا ہی نہیں جاتا کہ اتنے عجیب کیوں ہیں ہم۔ متضاد رویوں کے حامل۔ متضاد روئیے بھی ہوں تو شائد سمجھ آجائیں ہم ضدوں کا مجموعہ ہے۔ اجتماع اضداد۔۔۔ یہ والی ٹرم کیسی رہے گی؟
 آپ سب اتنی لمبی لمبی تمہید سے بور ہوجاتے ہوں گے۔ پر کیا کروں یہ بھی تو ہمارا قومی مزاج ہے نا ہم صاف سیدھی بات نہیں کرتے۔ کسی کو کام کہنا ہو تو پہلے کل عالم کے مسائل بتائیں گے پھر کہیں گے ایسا ہے، تم اگر یوں کرو، تو ہمارے کئی مسائل حل ہوجائیں گے۔ بھئ صاف سیدھا کہنا چاہیے نا۔ کہ تم سے ایک کام آن پڑا ہے کیونکہ معاشرتی حیوان ہیں ہم سب اور ایک دوسرے سے  الگ ہوکر کر رہنا ممکن نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح کوئی ہمیں کام کہہ دے۔ چاہے ہمارے لئے وہ کتنا ہی آسان کام کیوں نہ ہو۔ ہم فورا نہیں کریں گے۔ ہم برملا کہتے ہیں کہ دو چار دن پریشان رہنے دو اسے تاکہ احساس ہو اگلے بندے کو کہ کس قدر مشکل کام کیا ہے ہم نے۔ اور دل ہی دل میں اپنی حثیت اور اگلے بندے کی اوقات پر مسکراتے رہتے ہیں۔
 یہ پڑھنا کتنا گھٹیا لگ رہا ہے نا؟ لیکن کیا کریں یہ گھٹیا پن اب ہمارے مزاجوں کا حصہ ہے۔ ہم آسانیوں کی دعا دینے اور مشکلات کھڑی کرنے والے لوگ بن چکے ہیں۔ ہے نا عجیب؟
ہم آسانیوں کی دعا دینے اور مشکلات کھڑی کرنے والے لوگ بن چکے ہیں۔ ہے نا عجیب؟

ہم بارہ چودہ سال لگا کر بیسٹ پاسیبل اسباب مہیا کر کے اپنے بچے کو بہادر بناتے ہیں مضبوط بناتے ہیں۔ دنیا سے لڑنا سیکھاتے ہیں۔ سچے آدرشوں پر جان دینے والے شہزادوں کے قصے سنا سنا کر ہم اپنے بچوں میں سچ کی محبت پروان چڑھاتے ہیں۔ ان کو مرضی کا اختیار دے کر ان کو اپنے فیصلے لینا سکھاتے ہیں۔ پھر جب کورے کاغذ پر عبارت تحریر ہوجاتی ہے۔ کینوس پر ہمارے لگائے بولڈ سٹروکس سے تصویر بننے لگتی ہے۔ جب ہمارے حرفوں کی جادوگری سے شاعری ہیر بننے لگتی ہے تو اچانک ہم پر عقدہ کھلتا ہے کہ ہماری تراشی ہوئی تصویر ہماری لکھی ہوئی تحریر اس معاشرہ کو سوٹ نہیں کرتی۔ اچانک ہمیں احساس ہوتا ہے سچائی سے محبت اور سچ کے لئے ڈٹ جانے میں جو فرق ہے انہیں معاشرتی روایات کہا جاتا ہے۔
اور پھر ہم معاشرتی روایات کے نام پر اپنی تحریر کا حاشیہ لکھنے لگ جاتے ہیں۔ جس پینٹنگ کے بولڈ سٹروکس ہی اس کی پہچان تھے ہم ان سٹروکس کے ایجز فائل اور پالش کرنے لگتے ہیں۔
ہم اپنے بچے کے موحد دل کو سومنات بنانے پر تُل جاتے ہیں۔ خوف کے، لوگ کیا کہیں گے، سب کیا سوچیں گے ؟ اور ایسے ہی کئی لایعنی خوف اور ان کے بت۔

اور جب وہی بچہ فیصلہ کی آزادی والے اختیار کو استعمال کرتا ہے تو ہم سب مل کر اس کے فیصلے کو غلط ثابت کرنے لگتے ہیں۔ ہیں نا عجیب ہم؟ بہت عجیب؟
آپ کہہ رہے تھے ۔ میں چپ ہوں بہت دنوں سے۔ میں چپ نہیں تھی۔ میں آوازوں کے ہجوم میں احتجاج کر رہی تھی۔

آپ پوچھ رہے تھے  کہ مین اداس کیوں ہوں ؟ میں اپنی رائے رکھنے کی قیمت ادا کر رہی تھی۔ آؤٹ آف دی باکس سوچنے کا تاوان تو پھر بھرنا پڑتا ہے نا۔
آپ پوچھ رہے تھے کہ میں نے بہت دن سے کچھ لکھا نہیں ۔ تو وہ اس لئے کہ میں معاشرتی روایات سیکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ پر میں نہیں سیکھ پائی۔ مجھے شائد اپنے شارپ ایجز سے محبت انسیت ہوگئی ہے۔

آپ ان کو ایسے ہی رہنے دیں تو میں محبت کی کہانیوں میں سچائی پر جان دینے والا شہزادہ ظالم جادوگر سے لڑا دوں۔

مختصر یہ کہ
تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو۔
میں یونہی مست نغمے لٹاتی رہوں۔

درخواست برائے دوستی اور مصنوعی نزاکت والی بہن



کہانی وہاں سے شروع ہوتی ہے۔ جب ایک انتہائی معزز انکل نے فرینڈ ریکوسٹ بھیجی۔ ہم نے حسب عادت اگنور کردی۔ انہوں نے پھر سے پوچھا۔ ہم سدا کے ڈھیٹ۔۔۔ ان کی انگریزی کو بھی اگنور کردیا ہم نے جو انباکس میں بول چکے تھے وہ۔ سوچیں آپ ذرا۔۔۔ انگریزی کو اور انگریز کو اگنور کرنا کیسا جرم ہے۔ اور ہم ہمیشہ سے فسادی سوچ کے حامل۔ خیر ایک دن ہم سولہ سترہ چلیں اٹھارہ بیس کہہ لیجئے سنگھار کئے۔۔ آئے ہائے نہیں سلیولیس نہیں پہنتے ہم۔
تو ہم تیر و تفنگ سے لیس کسی کے ولیمے پہ سیڑھی پہ بیٹھے انتہائی نزاکت والا پوز لئے فوٹو بنوا رہے تھے کہ وہی انگریزی والے انکل اماں سے کہنے لگے۔ آپ کی بیٹی بہت ایروگینٹ ہیں۔ اماں کو چونکہ یہ پہلے سے ہی پتا تھا۔ لہذا اماں نے سیاچن کی ساری برف آہ میں بھر کے ہمارے اپنی پھپھیوؤں پر چلے جانے کے عظیم تاریخی سانحے پر اسپیچ کا اسٹارٹ لیا ہی تھا کہ ہم نے پوچھا۔ یہ عظیم انکشاف انکل پر کیونکر ہوا؟ کہنے لگے آپ فیس بک پر ایڈ نہیں کرتیں۔ اس سے پیشتر کہ ہم فیس بک کو سوشل میڈیا کو حقیقی تعلقات سے الگ بتاتے اماں کی گھوری نے زیر لب چپکو سڑیل لیچڑ شکایتی کہنے تک پابند کردیا۔۔۔ ہائے آنٹی شرمین جتنی انوویٹو نہ ہوئی میں۔ اسی لئے ابھی تک آسکر نہیں ملا۔ جینوئن ایکٹنگ سے کیا ہوتا ہے۔ آسکر کے لئے اوور ایکٹنگ کرنا پڑتی ہے۔ اتنی انیویٹو ہوتی تو ہراسمنٹ کا الزام لگا کر ولیمہ پر آئی وی ساری آنٹیوں سے نستعلیق پنجابی میں گفتگو سنواتی۔ اور یہ تو آپ سب ہی کو پتا ہوگا غصے میں بھی نستعلیق رہنے والا پنجابی ابھی تک ایجاد ہی نہیں ہوا۔ لیکن افسوس آنٹی شرمین کی بہن بھی وقت پر بیمار نہ ہوئی۔ آنٹی آپ کو پتا ہے یہ میرے بنیادی خواتینی حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے آپ نے۔ میرے فیمینزم کا استحصال کیا ہے آپ نے۔ جب آپ ایک معصوم لڑکی کی مدد کرنے کے لئے بہن کو بیمار نہیں کروا سکتیں تو مجھ جیسی ہزاروں لاکھوں لڑکیوں کو حقوق کیسے دلوائیں گئ؟ کیا کہا؟ میں ذاتی زندگی اور پروفیشنل لائف کو مِنگل کر رہی ہوں۔ تو شروع کس نے کیا تھا ؟
وہ ڈاکٹر بھی انسان ہی تھا۔ جس نے آپکی بہن کو ریکویسٹ بھیجی۔ ہو سکتا ہے اس نے ڈاکٹر کی حثیت سے نہیں انسان کی حیثیت سے بھیجی ہو ریکویسٹ۔ اور اگر پرسنل ڈیٹا یوز کرنے کی فضول سی بات کرنا چاہ رہی ہیں تو خاتون جس ملک کی خواتین کے تیزاب زدہ چہرے دکھا دکھا کر بینک اکاؤنٹس بھر چکی ہیں نا۔ اسی ملک میں دنیا کا سب گھٹیا ڈیٹا ٹرانسفر ہوا تھا پولیو ویکسنیشن کی آڑ میں۔ آپ کے آشناؤں کی خاطر۔ اور قسم لے لیں جو یہ آشنا اردو اخباروں والا کہا ہو۔ یہ تو بس یونہی برسبیل تذکرہ کہہ دیا۔ وگرنہ آپ کے آشناؤں کے سکینڈلز سے ہمیں کیا لینا دینا؟
غضب خدا کا میں کل عالم کو مضبوطی پر لیکچر دیتی پھروں۔ اور میری ہی بہن سارے زمانے میں چھوئی موئی بنی مصنوعی نزاکتوں کے ڈھونڈرے پیٹتی رہے تو مجھے لوگوں سے پہلے اپنا آپ ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارا تو مدعا یہ ہے کہ آپ کی بہن اتنی نازک ہیں کہ فرینڈ ریکوسٹ آنے سے ہراس ہوجاتی ہیں تو یقین کیجئے آپ سے بڑا کوئی نالائق نہیں۔ میری بہن یونیورسٹی جاتی ہے۔ اس سے اگر وہاں کوئی بدتمیزی کرے اور وہ خود کچھ کرنے کی بجائے مجھے شکایت لگائے اس بدتمیزی کی تو اس بدتمیز سے نمٹنے سے کہیں پہلے میں اپنی بہن کی طبیعت صاف کروں گی اتنی ڈرپوک خاتون میری بہن نہیں ہوسکتی۔
غضب خدا کا میں کل عالم کو مضبوطی پر لیکچر دیتی پھروں۔ اور میری ہی بہن سارے زمانے میں چھوئی موئی بنی مصنوعی نزاکتوں کے ڈھونڈرے پیٹتی رہے تو مجھے لوگوں سے پہلے اپنا آپ ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ وومن ایمپاورمنٹ اپنے آپ سے اپنے ارد گرد سے شروع ہوتی ہے۔ ورنہ آپ میں اور اس مولوی میں کوئی فرق نہیں جو کہتا ہے گلابو کے میک اپ کو پوائنٹ آؤٹ مت کریں کیونکہ اونوں سجدا ای بوہت اے



تو خاتون آپ اپنی اداوں پر خود ہی غور کرلیں کچھ۔۔۔ ایویں کسی پرائیوٹ پریکٹس والے ڈاکٹر نے کرلیا تو برا مان جائیں گی۔



اور ہاں سات سو پچاس فرینڈ ریکیوسٹس پینڈنگ پڑی ہیں۔ میری غربت کہتی اپنے خیالات میں انقلاب لے آؤں۔۔ اور مجھے نیشنلٹیز بھی نہیں چاہئیں بس ذرا ٹریولر سول ہوں۔۔۔ میں نے سنا ہے نیاگرا جم جاتی ہے دسمبر جنوری میں۔