Pages

Tuesday 11 July 2017

اقتباس


ساون نے یک بارگی دستک دی تو کھڑکی کے پٹ یکا یک بج اٹھے.بارش کی پہلی بوند اور بادلوں کے تیور بتا رہے تھے کہ آج دریا اپنی طغیانی میں اضافہ کرنے والے ہیں.
وہ چہرے پہ جھولتی آوارہ لٹ کو پیچھے کرنے کی زحمت کیے بغیر اور کھڑکی کا بجنا نوٹس کیے بغیر باہر چلی آئی.
پہلے اس نے سوچا سارے گھر کو اپنے ہاتھوں سے پکوڑے بنا کہ کھلا ئےجن کی سوندھی سوندھی خوشبو سے بڑے ابا کا نٹ کھٹ شانی بھی چلا آئے گا.☺
لیکن_____ اچانک اسے یاد آیا اس کے تو سرے سے بڑے ابا ہی نہیں ہیں تو شانی کہاں سے اگتا.:-\ 
لہذا اس نے پکوڑوں کو اگنور کیاـاور صحن میں امرود کے درخت تلے آنکھیں موندے بازو پھیلائے کھڑے ہو کر اور بعد ازاں امردو کی ٹہنیوں سے جھول کر بارش کو خوش آمدید کہنے کا سوچا-
لیکن-
لیکن-
لیکن_____کمرے سے باہر آکر اسے پتا چلا اس کے گھر کے صحن میں تو کوئی امرود کا درخت ہی نہیں ہے-
صرف سیڑھیوں میں پڑے گملوں میں ایلو ویرا اگا ہے جسے وہ ہاتھوں پیروں کے لیے ایز بلیچ یوز کرتی ہے-لہذا اس کی ٹہنیوں سے جھولنا زیادہ سود مند نہیں-یوں بھی بن ساجن جھولا جھولے وہ وعدہ کیسے بھولے.;-) 
لہذا "ہیروئن" دو دو سیڑھیاں پھلانگتی چھت پہ پہنچ گئی اور پینتیس منٹ بارش کے پانی میں چھلانگیں لگا کر جب نیچے آئی تو بڑی بہن کا استحقاق استمال کرتے ہوئے چھوٹی بہن سے کافی بنوا کہ پوسٹ لگانے لگی.
ماہنامہ عورت کے دکھ:-P 
افسانہ نام: شانی کا نہ ہونا
مصنفہ

کہنا یہ تھا کہ وہ


کہنا یہ تھا کہ وہ________
خواتین ڈائجسٹ کی ہیروئن کئی سالوں سے مٹروں والے چاولوں کے ساتھ شامی کباب دہی کا رائتہ اور آم کی چٹنی بنا رہی ہے_
کوئی اس کا مینیو ہی بدل دو یار.
اچھا اگر مینیو نہیں بدلنا تو اس کی ڈریسنگ سینس ہی ایمپرو کر دے کوئی تھوڑی
کب تک آخر کب تک وہ سفید چوڑی پائجامے کے ساتھ انگوری رنگ کی چکن کی انارکلی فراک پہنے دوپٹہ کندھے پہ ٹکائے سیڑھیوں سے پھسلتی رہے گی؟ آخر کب تک؟
کب تک ہیرو اسے کندھوں سے تھامتا تاڑتا رہے گا؟
اچھا یہ سب بھی نہیں کرنا؟؟
تو پھر اس پائپ میں ہی کوئی چھید کر دے جسے تھامے وہ پودوں کو پانی لگانے میں اتنی مگن ہوتی ہے کہ کھلے گیٹ سے اندر آتے "ارمغان حجازی" پر اس کی نظر ہی نہیں پڑتی- اور جب پڑتی ہے تو ارمغان صاحب گہری کالی آنکھوں میں غصہ اور بھوری مونچھوں تلے دبی مسکان لیے تکتے پائے جاتے ہیں؟ کیا ایسا کوئی شیر دل ہے جو ان سائینسدانوں کو بتا سکے کہ آنکھوں اور بالوں کا رنگ ایک سا ہوتا ہے انٹل آپ کے جینز میں کوئی کیمکل لوچا نہ ہو-
نہیں؟
تو پھر فائنل ایک بات چوڑی پیشانی پر تفکر کی لکیریں لیے ہسپتال کے کاریڈور میں ٹہلتا کوئی عباد ڈھونڈ دیا جائے ہمیں جو ہمارے لیے کم از کم بھی ستر اسی کڑوڑ کی ڈیل فائنل ہوتے ہوئے چھوڑ آئے کہ نوڈلز بناتے ہم ہاتھ جلا بیٹھے تھے. اور جو اپنی "فیراری" کا اندازہً دس بارہ بار ایکسڈینٹ کرتے کرتے رکا ہو کہ مرغی ہمارا پاؤ لتاڑ گئی تھی.؟
یہ بھی نہیں؟ 
سحرش

Thursday 6 July 2017

یک عدد فسادی خیال


شیطان کی آزادی کے ساتھ ہی پیش خدمت ہے ایک عدد فسادی خیال__
ہماری کمینی آبزرویشن اور الحمدللہ "شیطانی" یاداشت نے مل کہ یہ محسوس کیا ہے کہ اکثر ادبی( انٹیلکچوئل) ٹائپ خواتین کو یہ شکایت رہتی ہے ان کے سسرالی انتہائی نا عزیز اور خاص طور پر شریک حیات بروزن بِٹر ہالف ان کے ادب کے ساتھ انتہائی بے ادبی سے پیش آتے ہیں_ جس سے ان کی دل آزاری اداسی اور ناقدری وغیرہ وغیرہ ہوا کرتی ہے_
تو پیاری خواتین پوچھنا یہ تھا کہ آپ نے بحثیت انسان رشتوں کو قبول کیا تھا یا 
بطور ادیب؟
اور یہ کہ اگر آپ اپنے سسرالیوں کے 'نامعقول" معمولات میں بوجہ عدم دلچسپی شرکت نہیں کر پاتیں اور جب آپ اپنے شریک سفر کے ساتھ بیٹھ کے تین چار گھنٹے میچ نہیں دیکھ سکتیں تو اتنی سی سہولت انہیں بھی تو دیا کریں نا_اجی اپنی مرضی دلچسپی رکھنے کی سہولت_نہ بھی دینا چاہیں تو مرضی آپکی ہمارا کام تھا بس ایک عدد فسادی خیال شئیر کر کے بتانا تھا کہ سارا سال جو فسادی سوچیں ہمہ وقت ہمارے ذہن میں پلتی آنکھوں سے ٹپکتی کیبورڈ سے ادا ہوتی رہتی ہیں تو وہ دراصل شیطان ہوتا ہے ہم نہیں_ ہم تو انتہائی مہذب سوچ کے حامل ہیں.
آپ سب کو انتہائی پیاری
#سحرش

ہم کس گلی جا رہے ہیں


ہم کس گلی جا رہے ہیں۔
 ارے ارے رکیے تو ۔آپ لوگ ہلکا سا صحیح اور ہلکا سا غلط سمجھ رہے ہیں۔ ہم ابھی سر لگانے کے موڈ میں نہیں۔ گوکہ عاطف اسلم جتنے سریلے تو ہم ہیں ہی اور بولیں تو ایسے ہی لگتا ہے کوئل کوک ووک رہی ہے۔ لیکن ایک دفعہ پھر رکیے ہم یہاں اپنے سریلے آہنگ کی ایڈورٹائزمنٹ ہرگز نہیں کرنے والے۔
 ہم تو یہاں ایڈورٹائزمنٹ کی دنیا کے سُر بلکہ بے سُرے راگ بیان کرنے کی جسارت کرنے لگے ہیں۔ بات وہاں سے شروع ہوئی جب ہم نے حسب عادت حسب معمول اور حسب ذائقہ فون استعمال کرتے ہوئے ٹی وی دیکھنے میں بری طرح مصروف تھےکہ لیمن میکس کا ایڈ نظر سے گزرا جسمیں بیٹا ماں باپ بہن بھائیوں سے چھپا کہ بیوی کے لیے بریانی قورمہ لاتا ہے_ اور جھوٹ بولتا ہے کہ اسے بھوک نہیں بعد میں ‍ سارے گھرانے سے چھپ کے اپنی بیوی کے ساتھ وہ بریانی کھاتا ہے_ واہ کیا ہی خیال آفرینی تھی ایڈ میں۔ اگلا ایڈ کیو موبائل کا تھا ماہیرہ خان انتہائی غیر مناسب لباس میں بہترین سیلفی لینے پیرس نیویارک گھوم رہی تھی ۔تیسرے ایڈ میں وسیم بادامی آبشار کے سرہانے سے حسن یوسف چرا کر صابن بناتے ہوئے پائے گئے۔ کہانی میں ٹوئسٹ آیا اور پیپسی کے بتائے ہوئے ابا جی کے ظلم وستم پر ہماری آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔
 اور کوک نے جب میرے چلر کو دگنا کرنے کا بتایا تو جی چاہا جمبو سائز بوتل میں سٹرا ڈال کہ پیا کرو کیا ہی نیک دل لوگ ہیں  اور جب آخری ایڈ میں سجل خان کے بتانے پر اپنے ہاتھ میں پکڑا چائے کا کپ انتہائی واہیات لگنے لگا۔ تو ہم نے گھبرا کر ٹی وی بند اور اپنا فون آن کر لیا۔ بھئی ہماری بلا سے جو ٹی وی دیکھتے ہیں ان کا ہیڈک ہے ہم کیوں سر کھپاتے پھریں۔ لیکن ٹوٹل تین منٹ ہی فون استعمال کیا ہوگا کہ اندر کے ہٹ دھرم فسادی نے کانسنٹریٹ کرنے سے انکار کردیا۔
 اب جیسا کہ تقریبا آپ سبھی کو معلوم ہے کہ سکرین سکرول اپ اور سکرول ڈاؤن کرنا کسقدر توجہ طلب کام ہے- اور اس منتشر خیالی کے ساتھ یہ کرنا ممکن نہیں تھا- لہذا فون گود میں رکھ کر لگے سوچنے کہ یہ ہم کس گلی جا رہے ہیں؟ کہاں گئے وہ سب مشرقی روایات والے سوشل مینرز والے ایٹی کیٹس کے ٹے پر ناک سکورنے والے سب کیا ہوئے؟ یہ ہم ایڈورٹیزمنٹ کے نام پر کیا سلو پوائزن بلکہ سویٹ پوائزن اپنی نسلوں کو دے رہے ہیں؟ چپ چاپ بلکہ ہنسی خوشی؟ کبھی گھی پر پورا خاندان ناچتا ہے تو کبھی اماں ابا سے چھپا بلکہ اپیرنٹلی انہیں دھوکہ دے معاملات سلجھاتا ہے۔کولا ڈرنکس پی کر بچے باپ سے زیادہ باشعور ہونے لگتے ہیں۔ شاعر آج کہتے تو یوں کہتے ہم ایسے کل کمرشلز قابل ضبطی سمجھتے ہیں کہ جن کو دیکھ کر بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں- یہ اشتہار کسقدر خاموشی سے جھوٹ کو دھوکے کو خوش نما بناکر پیش کرتے ہیں کہ ہمیں گمان بھی نہیں گزرتا کہ جس بات کی تبلیغ کی جا رہی ہے وہ غلط ہے۔
 آج کی دنیا میں ہمیں تو اپنے بچوں کو سچ بولنا سیکھانا ہے تاکہ وہ اپنے معاملات میں کھرے ہوں۔ دنیا انہیں دھوکے باز بدیانت نہ سمجھے۔ ہمیں تو اپنے بچوں کو کمٹمنٹ نبھانے والا بنانا ہےتاکہ وہ اوروں کے ساتھ کیے وعدے پورے کریں ۔اور دنیا ان کے ساتھ ڈیلنگز کرتے ہوئے ڈرے نہیں۔ پر افسوس ہم عجیب قوم ہیں چار چار سال کے بچے کے ہاتھ میں ٹی وی کا ریمورٹ دے کر  مطمئن زندگی گزارتے ہیں- باپ اے ٹی ایم مشین اور مائیں برینڈ ایمبیسڈرز۔ پھر دو چار سال گزر جائیں تو یہ ماں باپ شکوہ کرتے ہیں بچے بات نہیں سنتے۔بچے جھوٹ بولتے ہیں۔ بچے دھوکہ دیتے ہیں۔ بچے ایگریسو ہیں اور بچے غصیلےہیں۔ کیا ہم پاگل ہیں؟ بند گلی کا سفر اختیار کرکے ہم منزل پر پہنچنا چاہتے ہیں۔
 ذرا سے تھوڑا سا زیادہ سوچیے!یہ بچے، یہ نسلیں میری، آپکی، ہم سب کی ذمہ داری ہیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیے ورنہ زمانہ تو چال قیامت کی چل ہی رہا ہے