Pages

Wednesday 25 May 2016

تو نہ سہی


تو نہ سہی تیرے نام کی وحشت ہی سہی

تیرے قرب کی خواہش ہی سہی
دل مضطر کی یہ حسرت ہی سہی
تو پکارے ہم پابہ جولاں آئیں
تو بلائے ہم مانند منصور حق پہچان جائیں
تیرا ذکر ہو اور ہم جان سے جائیں
تیرا نام آئے اور دیوانہ قیس کہلائے..
تو نہ سہی تیرے ساتھ کی حسرت ہی سہی.
بات کا جگنو نہ سہی،یاد کی خوشبو ہی سہی
عشق کا حاصل،درد لاحاصل ہی سہی.
تیرے وصل کی راحت نہ سہی ہجر کی ظلمت ہی سہی..
اک بار جو دکھائی دے تیرے مجنوں کی عبادت ہی سہی..
کوئی بات ہو منسوب تجھ سے
چاہت نہ سہی نفرت ہی سہی.
سحرش

شہر_فیض_واقبال_اور_ہمارا_برگروں_سےحسن_سلوک‬


یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب ہم جینز کے ساتھ رنگ برنگے کرتے پہن کر، جاگرز چڑھا کے، سولو کی رسی تھام کے پورے شہر کی ایک ہی سڑک ناپا کرتے تھے۔ آتے جاتے سنئیر سیٹیزنز پر مسکراہٹیں اچھالتے، ان کی کہانیاں سنتے خود کو ان کی آنکھ والی حیرت میں دیکھا کرتے تھے۔چھوٹے بچوں سے بھی دوستی تھی اور سولو کو گود میں لینے کہ چکر میں وہ نہ صرف ہمیں دیکھتے ہی پینگ خالی کر دیا کرتے تھے بلکہ اپنی باسکٹ بال ٹیم کا کیپٹن بھی بنانے پر تیار تھے لیکن ہم نے چونکہ ہمیشہ سے ایک اصول یاد رکھا کہ بندا سانپ پال لے پر خوش فہمی نہ پالے۔ سو باسکٹ بال میں اپنی مہارت اور باسکٹ تک ہاتھ کے نہ پہنچنے کے یقین نے ہمیں ہمیشہ عاجزی اختیار کیے رکھنے پر مجبور رکھا۔اورچونکہ "بن ساجن جھولا جھولوں میں وعدہ کیسے بھولوں ٹائپ کوئی درد سر لاحق نہیں تھا ہمیں۔ سو اپنے اعزاز میں خالی کی گئی پینگ پر پورے استحقاق سے بیٹھتے۔ چشم تصور سے پیروں کے نیچے شوریدہ سر ندی چلاتے۔ کالی گھٹا سی زلف لہراتے اور پھر گاتے یہ سماں پیارا پیارا یہ ہوائیں ٹھنڈی ٹھنڈی۔
لیکن!! آدم کی اولاد ہوں۔ ایک سی روٹین میں جنت بھی ملتی تواکتا اٹھتی اور یونہی بے سبب آتے جاتے موسم کے فرشتوں سے الجھا کرتی۔لہذا اس روٹین سے بور ہونے لگتی تو کوئی پھڈا ڈال لیتی۔ روٹ بدل کے واک کرتی ہوئی دوسرے گیٹ سے کالونی میں داخل ہوتی اور ایم پی( ملٹری پولیس) کا ڈیوٹی پر موجود سپاہی پوچھتا کون ہیں بی بی؟ اور میں ناک سکور کے کہتی چونڈہ کے پرے سے آئی ہوں۔ انڈین ایجنٹ اور وہ زیر لب مسکرا کے گیٹ کھول دیتا۔ ہم بھی اندر آتے ہوئے سوچتے کہ یہ بھی اندر سے سردار ہی ہے میری طرح..خیر۔ اتنی لمبی تمہید کا مقصد یہ بتانا تھا کہ ہم جو کہانی آگے سنانے جا رہے ہیں اس کی وجہ سے آپ ہم سے بد گمان مت ہوجائیے گا۔ ہم دل کہ برے نہیں بس طبعیت ہلکی سی فسادی پائی ہے
تو کہانی وہاں سے شروع ہوتی تھی۔ جب کوئی ہم سے ملنے فیض کے شہر میں آتا اور میزبانوں کی محدود سی لسٹ میں ہم وہ میزبان ہوتے جو مہمانوں کی بیرونی اینٹرٹینمنٹ کے ذمہ دار تھے۔لہذامہمان ہمارے پاس پہنچتے ہم نہایت سلیقے سے چاے کافی پلاتے۔کھانے کی میز پر تمیز کا عمدہ مظاہرہ کرتے کہ مہمان دل میں سوچتا کہ لڑکی کو شہر کا پانی راس آ گیا ہے۔سولو کا تعارف کراتے بوگن ویلیا پیپیتا چاروں رنگ کے گلابوں اور موتیے کے متعلق آگہی دیتے اور جب ٹیرس پہ کھڑے ہو کے پچھلی گلی کہ تیسرے گھر کی نیلی ٹینکی کو سند باد کا گیٹ بتاتے تو سب خوشی خوشی ہمارے ساتھ چلنے پر راضی ہوجاتے۔ہم بھی انہیں فل تیار کر کے کہتے کہ نہیں چل پائیں گے۔بزبان "تم سے نہ ہو پائے گا بیٹا" تو سب کی غیرت پر یہ جملہ تازیانہ بن کر لگتا۔ وہ تو ذرا سولو کا لحاظ باقی ہوتا وگرنہ سب ہم سے پہلے گیٹ پر موجود ہوتے۔لہذا ہم سے کہا جاتا کہ سولو کو باندھا جائے اور ہمیں سند باد لے جایا جائے۔ہم تابعداری کا عمدہ مظاہرہ کرتے ہوئے سولو کو باندھ کر اس کے ساتھ ہائی فائیو کر کے نکل کھڑے ہوتے...اور پھر حکم سفر دیا تھا کیوں کہ مصداق ہم جو چلنے لگتے تو چلنے لگتے فاصلے یعنی پچھلی گلی کا تیسرا گھر دو کلومیٹر کی دوری پر واقع ہوجاتا...اور وہ برگر جو تین دفع کچن میں پانی پینے چلا جائے تو چوتھی بار میں پین کلر لے کے الٹا پڑ جاتا ہے۔ اسے دو کلومیٹر چلنا پڑے، تو اس کی حالت زار کا اندازہ آپ بخوبی کر سکتے ہیں۔ہم بھی راستے میں جو بٹر سکاچ چلاتے تو کانوں کے کیڑے مار کے ہی دم لیتے۔
سندباد کا تعارف اور پائریٹ بوٹ کی باتیں...جی بلکل صحیح سمجھے آپ وہی ہوا میں ڈولتی عمودی افقی لہراتی کشتی جس پر بیٹھنا کبھی بھی واقعہ نہیں رہا ہوگا__ پہلی بار میں ہم بھی یہ سمجھے تھے اور ہمیشہ کی طرح جا نکر پہ براجمان ہوئے تھے۔ پر برا ہو اس ظالم کا اس نے جو کشتی جھلائی تو ہمیں اس پر فضائی ٹائی ٹینک ہونے کا گمان ہوا کہ ابھی ٹوٹا کہ ابھی ڈوبا۔ کشی ہوا میں معلق ہوتی اور تیس سیکنڈ کہ لیے سیدھی کھڑی ہوجاتی اور ہم جیسے عاقبت نا اندیش جو نکر پہ بیٹھے ہوتے۔ وہ قیامت کا منظر اپنی چشم تر کہ اندر دیکھ لیتے۔بچپن کی پڑھی ہوئی موت کا منظر اپنی مجسم صورت میں سامنے کھڑی ہوتی اورآپریٹر خوامخواہ ہی ملک الموت کا میڈیا پارٹنر لگنے لگتا۔ جو فیسینٹ کر کے موت بانٹ رہا ہے۔خیر جیسے تیسے جان کنی میرا مطلب ہے جھولے کے دس منٹ ختم ہوئے۔ ہم بال بکھرائے ہوش اڑوائے۔حواس باختہ ۔اللہ توبہ کرتے نیچے اترے اور آخری سیڑھی تک آنے سے پہلے ہم فیصلہ کر چکے تھے...پس جو کوئی برگر اس جھولے سے محروم رہ گیا تو آنا بی سمجھنا حق میزبانی ادا نہ ہوا۔اب کچھ بچپن کے شوق ہمارے ایسے تھے کچھ ہماری اماں کی ہمارے متعلق ایڈورٹیزمنٹ کہ لوگوں نے کبھی ہمارے خلوص کو نہ سمجھا۔ ہمیشہ ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ حق ہاہ...کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں۔مختصر یہ کہ ہم آب حیات بھی دیتے تو اس پر زہر کا گمان کر کے عوام نہ پیتی لہذا ہم نے بھی بٹھانے کے اصرار اور لے جانے کی ضد میں پڑ کے خود پر شکوک کا یقین کرانے کی بجائے بین الاقوامی تعلقات کا طریقہ کار اپنایا اور آنے والے معززین کو بتایا کہ دراصل وہ یہ چاہتے ہیں کے سند باد جا اس اڑن کھٹولے پر بیٹھا جائے
طریقہ واردت یوں ہوتا کہ ہم سارا راستہ جھولے کی خوفناکی کا سچا واقعہ من وعن سنا دیتے اور ساتھ مشورہ.۔مکمل پرخلوص مشورہ دیتے کہ مت بیٹھیو...پر برگر بھی وہ مرد ہی کیا جو ڈر جائے۔ حالات کہ خونی منظر کے مصداق پہنچتے ہی اس پر بیٹھنے کہ درپے ہوجاتا۔ہم اچھے میزبان کی طرح چپ چاپ ٹکٹس لے آتے۔خود تو امیون ہو چکے تھے لہذا خوف سے زیادہ جوش میں ہوتے...جھولا چلتا اور تیسرے چوتھے منٹ میں ہمارے اردگرد  کلمہ طیبہ کا ورد سٹارٹ ہوجاتا..جو چھ کلموں چاروں قل آیتالکرسی اور دیگر دعاؤں پر ختم ہوتا۔
اور تو اور دو تین لوگوں نے تو رب سے سارے گناہوں کی معافی بھی مانگ لی کہ اللہ کل سے پانچ نمازیں پوری..ایک خاتون تو یہ تک کہہ اٹھیں اللہ میاں آئندہ سے ٹیسٹ والے دن پیٹ درد کا بہانہ نہیں لگاؤں گی۔ایک صاحب کہنے لگے اللہ جی امی کی پسند کی بہو لاؤں گا اس مصیبت سے نکال...اور ایک خاتون دھاڑیں مار مار کہ روتی بھی جاتی  اورساتھ کہے بھی جاتی...اب کسی کی غیبت نہیں کروں گی امی سے لڑائی نہیں کروں گی ۔مجھے اس جھولے سے بچاؤ۔
جب سب "مسافر" توبہ تائب ہو چکے ہوتے۔ تو جھولا رک جاتا اور عوام ایسے نیچے اترتی گویا صحرا میں گلستان نظر آ گیا ہو...یوں برگر اگلی صبح ہم سے ملے بغیر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جاتے اور ہم پھر سے جاگرز چڑھا...سینئر سٹیزنز کی سٹوریاں سننے چل پڑتے
سحرش

Friday 13 May 2016

طنزومزاح


اگر اس پوسٹ کو پڑھنے کہ بعد بھی آپ اسے شئیر نہیں کرتے تو جان لیں آپ ایک شقی القلب میل شاؤنسٹ ہیں.

میرے ملک کی وہ تمام لڑکیاں جو سر اٹھا کہ جینا چاہتی ہیں جنہیں زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال عمر بتانی ہے..ان سب کو میرا مشورہ ہے کہ اگر بھولے بھٹکے سال میں ایک دفعہ وہ کچن میں چلی ہی جاتی ہیں تو خدارا.......تم سب کو فواد خان کی قسم...فون چارجنگ پہ لگا وائی فائی کا روٹر آف کر جایا کرو..
دوسری صورت میں بوائلڈ رائس بوائلڈ سے زیاد جوائلڈ (جڑے ہوئے) بن جائیں گے..اور اس قیامت کی گرمی میں گیس پر الزام لگا حاقان عباسی سے اظہار محبت بھی نہیں کر سکتیں..
انتہائی صورت میں جب چاول لئی بن جائیں تو اس لئی سے پورے گھر میں پی ٹی آئی کی جھنڈیاں لگا بال سٹریٹ کر نیل کلر لگا منہ سے بڑی عینک پہن کہ سارے گھر کو دھمکایا کریں کہ
سر جلائیں گے روشنی ہو گی
اس اجالے میں فیصلے ہوں گے...
نوٹ: یہ پوسٹ اماں کی پہنچ سے دوور رکھیں شکریہ
سحرش

Wednesday 11 May 2016

آؤ کسی دن میں اور تم


آؤ کسی دن میں اور تم,

"ہم کا "ہ" بناتے ہیں
وقت کی روانی سے 
جبرٍ زندگانی سے
دوور چلے جاتے ہیں
اپنے اپنے ہاتھوں کی 
انگلیوں کی پوروں سے
گردشیں چراتے ہیں
انہی گردشوں سے پھر
مٹھی اک بناتے ہیں
مشترکہ اس مٹھی کو ہم
رنگ سے سجاتے ہیں
ایک ٹکرا تارے کا
قطرےچند دھنک کے بھی ، ۔
آسماں سے لاتے ہیں 
نیلگیوں سمندر کہ 
انگنت حزانوں سے 
گوہر اک چراتے ہیں
کچھ زرا سی دھوپ سے ہم 
چاندنی بناتے ہیں. ۔۔
برفانی ہواؤں سے
برف کھینچ لاتے ہیں ،،
زندگی کی شاموں میں
سحرہم مناتے ہیں ۔
معصوم بچے کی کبھی 
بے ساختہ مسکانوں سی
، مسکراتی آنکھوں سی
زندگی سے دوور بہت
زندگی بناتے ہیں .
روز وشب کی گردش سے
لحمے کچھ چراتے ہیں
آو کسی دن میں اور تم،
۔۔"زندگی" مناتے ہیں
سحرش

Melted away all my fears


پردے کہ پیچھے کھڑکی سے باہر ویسا ہی منظر ہے ٹہرا ہوا ہے۔ رات کہ سیاہ پروں نے ہر چیز ڈھانپ رکھی ہے۔ میرے ننھے ہمساے بھی چپ چاپ سورہے ہیں۔ کمرے کہ اندر بھی چیزیں ویسی کی ویسی ہیں۔ بک شیلف اس پر کتابیں، کتابوں کی ترتیب،میز پر دھری پینسل باسکٹ، دروازے پر لگی گلیٹر شیٹ سے بنی  تتلیاں، پنکھا اور میرے خیالات سب ایک سے...جی ہاں خیالات بھی۔سوچتی ہوں کسی سائیکا ٹرسٹ کو مل لوں کیونکہ جوں جوں رات کی گرفت مضبوط ہوتی ہے۔ توں توں میرا ذہن فسادی خیالات کی آماجگاہ بننے لگتا ہے۔
جی میں آتا ہے کہ لانگ کوٹ خرید کر ہیٹ پہن کر ایک آنکھ ڈھانپ کر پائیریٹ( بحری قذاق) بن جاؤں۔دور کسی جزیرے کو اپنا مسکن بنا لوں اور پھر آتے جاتے جہاز لوٹا کروں۔ہوا سونگھ کر بتا دیا کروں کہ قافلے آنے میں کتنی دیر ہے۔ سمندر کے دل میں موجزن طوفان آنکھ میں آنے سے پہلے جان جایا کروں۔اور پھر روٹین سے اکتا جاؤں تو ویکیشنز پہ کسی دوور افتادہ چار پانچ سو آبادی والے گاؤں چلی جاؤں اور وہاں کسی ریسٹورنٹ میں کھانے کہ بعد ون ڈرنک فار ایوری ون فرام سٹرینجر کا نعرہ بلند کیا کروں۔کسی ان دیکھی تہذیب کے ثقافتی میلے میں چلی جاؤں۔ اجنبیوں سے باتیں کروں ان کا میوزک سنوں
کسی ختم ہوتی تہذیب کی لوک کہانیاں سنوں۔ محبت کہ گیت سنوںاور واپس لوٹ آؤں
یا پھر اسکیمو بن جاؤں۔ اپنا ایک ایگلو بناؤں۔ تین السیشینز اور تین جرمن شیفرڈ پال لوں۔ جو میری کارٹ گھسیٹا کریں اور میں سنو لیپرڈز کی زندگی دیکھا کروں۔
کسی اجنبی سے شہر کے اجنبی راستوں کو خود پر مسکرانے دوں اس اجنبیت کو ختم کرنے کہ لیے گلیوں کی مصروفیت کا حصہ بن جاؤں۔ پھر اس آشنائی سے گھبرا کر کسی بن میں جا بسرام کروں...وہاں سے رخت سفر باندھوں تو "روٹین" کی بے حسی پر میں اپنی بے نیازی مار کر کسی دریا کہ کنارے جا بیٹھوں اور پھر صدیوں وہاں بیٹھی رہوں۔ یہاں تک کہ زندگی میری سرد مہری کے در کھٹکھٹاتی رہے اور پھر تھک کر وہ میرے ساتھ سمجھوتہ کر بیٹھے
پھر یہ سوچ کر سائیکا ٹرسٹ والا ارادہ بدل دیتی ہوں کہ
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا

Thursday 5 May 2016

صلو_علیہ_والہ‬


ہر شخص کا اور ہر قوم کا ایک حساس نکتہ ہوتا ہے۔ جہاں وہ رد عمل دیتی ہے۔ اوفینڈ ہوتی ہے۔شخصی یا انفرادی حیثیت میں لوگ اس حصے کو بھی کم حساس کر لیتے ہیں یا کر سکتے ہیں.لیکن بحیثیت مجموعی اس حساسیت کو کم کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے
جیسے ہولو کاسٹ یہودیوں کا حساس نکتہ ہے ۔جیسے کیتھولکس کی تعلیمات عیسائیوں کی حساسیت ہے۔آپ چرچ کو ریاست سے بے دخل کرنے کہ باوجود کیتھولکس تعلیمات کی توہین نہیں کر سکتے۔ آپ نے نہ ماننا چاہیں تو نہ مانیں لیکن ان کو نشانہ تضحیک بنائیں گے تو دل آزاری کے جرم میں حوالات کی ہوا کھائیں گے۔ جیسےکارل مارکس، سوشلسٹس اور کمیونسٹوں کا حساس ایریا ہے
ویسے ہی ہاں، بالکل ایسے ہی "مہذب" دنیا کی طرح محمد صلی علیہ وسلم مسلمانوں کا سینسٹو ایریا ہیں
لہذا جب تم ان کہ متعلق بات کرتے ہو  تو وہ ہی اصول اپنایا کرو جس کا پرچار تم خود کرتے ہو
ہاں یہ صحیح ہے مجھ سمیت مسلمانوں کی اکثریت ان کی ساری تعلیمات کی پیروکار نہیں ہے۔ یہ بھی درست کہ ہم اخلاقی پسماندگی کا شکار ہیں۔ لیکن یہ میرے اور ہمارے ذاتی نقائص ہیں ان پر ہم پر تنقید کرو ہمیں قصوار ٹہراؤ...محمد صلی علیہ والہ وسلم کو نہیں۔کیونکہ جب تم ایسا کرتے ہو تو ہماری محبت کی انا پر چوٹ پڑتی ہے
اور! محبت اصولوں کی قائل نہیں ہوتی۔عشق بھی دلیلوں سے سمجھایا نہیں جا سکتا۔نہ محبت کو منطق ہی سوجھتی ہے۔پھر وہی ہوتا ہے جس کے آخر میں کوئی مسلمان ملک تابوت میں لاش اور پابندیاں وصول کرتا ہے۔اور تم.سب ٹرینڈ کرتے ہو۔ چارلی ہیبڈو کا۔سنو ہو سکتا ہے میں علم سے، فن سے، ہنر سے معاشی اپر ہینڈ سے غلبہ پانے کو صحیح سمجھتی ہوں۔ میں طاقت کے اصول کی بھی قائل ہوں۔ اور ہاں مجھے اطاعت، محبت کا پہلا درجہ بھی لگتا ہے۔یہ بھی ممکن ہے میری خام محبت کہیں تمہیں لیورج ہی دے دے۔پر سنو باقی کے ڈیڑھ ارب ایسا نہیں سوچتے ہوں گے۔جیسے تم لوگ قانون.بناتے ہوئے پاپولر رول کو پیمانہ بناتے ہو نا ویسے ہی اس محبت میں بھی وہ ہی قصہ ہے....جب کسی کی محبت میں گھسو گے تو پھر جس کو بھی چارلی ایبڈو بنا لو تو کوئی نہ کوئی سر پھرا نکل آئے گا۔ جو اظہار کی آزادی کا قائل نہ ہوگا اور برملا اپنی نفرت اوردشمنی کا اظہار کر بیٹھے گا...
سنو! یہ ہمارا وہ حساس علاقہ ہے...جہاں عظمتیں ہیں  جھکی ہوئیں ...جہاں رفعتیں ہیں خمیدہ سر...جہاں منطقیں فلسفے اور دلیلیں بےکار جاتی ہیں اور جہاں جان جائے تو بازی مات نہیں ہوتی۔لہذا تم اظہار کی آزادی ذمہ داری کہ ساتھ اپناؤ دل آزاری کہ ساتھ نہیں

Wednesday 4 May 2016

موت کیا ہے


یہ سوچ کر عجیب لگتا ہے کہ جب فرعون موسی(علیہ السلام) کی سر کوبی کو نکلا ہوگا۔ تو جاتے جاتے اپنے کسی وزیر مشیر کو کچھ خاص ہدایات بھی دے گیا ہوگا۔یہ بھی سوچتا ہوگا واپس آ کر کوئی ایسا انتظام کروں گا کہ اب کسی مائی کے لعل کی جرات نہ ہو قوم کو بہکانے کی۔ساتھ ہی ساتھ جادوگروں کو فارغ کرنے کہ متعلق بھی سوچا ہوگا اس نے۔لیکن کیا ہوا؟ لوٹا تو کیسے؟ نیل کا اُگلا ہوا، حشر کی صبح تک کہ لیے سراپا عبرت۔
نمرود بھی ابراہیم (علیہ  السلام) کو آگ میں پھینکوا کہ سوچتا ہوگا "دشمن" تمام شد۔اب سکون سے سوتا ہوں۔
لیکن پھر کیا ہوا؟مچھر نے زندگی کا مفہوم سمجھایا اسے

جب قارون کا گھوڑا اس کی جنت کا دروازہ پار کرتا ہوگا تو قارون کو خیال آیا ہوگا کہ بس۔اب اور نہیں نافرمانی۔ بس اب کہ سکون سے زندگی گزاروں گا۔ اب ظلم بھی نہیں۔ خواب تو سارے ہی پورے ہیں اور موت کہ لیے شرائط بھی سخت رکھ دی ہیں میں نے......لیکن برا ہو اس گھوڑے کا جس کی اگلی ٹانگیں ہوا میں معلق ہوئیں تو واپس زمین تک آنے سے پہلے آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا اور اجل خدا کہ ساتھ شراکت کے ایک اور دعوے دار کو لے کر چلتی بنی۔
ان پر ہی بس کیا؟ سکندر بھی تو باقی آدھی بھی مفتوح بنانے کہ خواب دیکھتا ہوگا
لیکن دونوں ہاتھ کفن سے باہر لٹکائے، وہ جینے کی عمر میں چلتا بنا
کتنی ناقابل اعتبار ہے نا، زندگی
جیسے کوئی ریفائن کانچ ہو۔ دیکھتے ہی دل اس پر آجائے۔ پر ذرا سی ٹھوکر سے اتنے ٹکروں میں تقسیم ہو کہ جڑنے نہ پائے
جیسے کوئی کھل کر قہقہہ لگائے۔ دل پوری قوت سے اچھلے اور واپس نیچے آنا بھول جائے۔ کہنے کو دو دھڑکنیں مس ہونی ہیں اور قزاق اجل کا کسی کی پونجی لوٹ کر چلتا بنے
جیسے کسی دوست کو واٹس ایپ پہ سمائیلز بھیجے کوئی اور اس کہ ممکنہ جواب کو سوچ کر مسکراتا ہو اسی مسکراہٹ میں گلاس ہونٹوں سے لگائے بس چار قطرے سانس کی نالی میں پھنسا بیٹھے۔اور دوور بیٹھا دوست سوچتا ہو بلیو ٹکس کہ باوجود جواب نہیں دیا۔عجیب ہے نا زندگی؟؟؟ اور عجیب تر ہم جو مٹھی سے پھسلتی ریت پر نازاں ہیں اور یہ بھی سمجھتے ہیں یہ مٹھی کبھی خالی نہ ہوگی
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا
سحرش

Sunday 1 May 2016

کوڑے والا بچہ پڑھنا چاہتا ہے


بھلا سا موسم تھا۔ آتی سردیوں اور جاتی گرمیوں کا۔ خزاں اپنی آمد کا اعلان کر چکی تھی۔ شامیں خاموش اور لمبی ہونا شروع ہو چکی تھیں۔ اور خدا جانے کیا قصہ ہے کہ ہمیں ہمیشہ سے خزاں کی شامیں پسند رہیں ہیں۔ لوگوں کو بہار کی گلابی شامیں پسند ہوتیں ہیں۔ معتدل موسم، معطر فضاء ،ہر طرف پھول اور رنگ اور ایک ہم ہیں کہ بہار کی آمد ہی بوکھلا دیتی ہے۔ البتہ خزاں کی لمبی خاموش سنہری  شامیں ہمیشہ مسحور کرتی رہی ہیں۔ شائد لا شعور میں کہیں یہ احساس رہتا ہے کہ اس کہ بعد موسم سرما آنے والا ہے۔ لمبی راتوں والا موسم، جس میں کمرے کی کھڑکی پہ پردے گرائے، ہیٹر چلائے، کانوں میں کوئی مدھر دھن لگائے، ہم کتابیں پڑھا کرتے ہیں۔جنگ اور امن کی کتابیں، لڑائیوں کہ قصے، حکمرانوں اور بادشاہوں کی کہانیاں۔
ایسی ہی ایک سہ پہر میں کتابیں پھیلائے اسائنمنٹ بنانے میں مصروف تھی کہ ڈور بیل کی ناگوار سی آواز پر جھنجلا کر اٹھی اور بغیر پوچھے گیٹ کھول دیا۔ پھر احساس ہوا اماں ہمارے بارے میں صحیح کہتی ہیں کہ بنو ہر وقت ہوا کہ گھوڑے پر سوار مت رہا کرو۔ خیر اب کیا ہو سکتا تھا گیٹ کھلا تھا اور باہر ایک آٹھ نو برس سال کا نین نقشے سے پکا افغان بچہ کھڑا تھا۔ ملگجا حلیہ، بلکہ اگر صاف ہی کہہ دوں تو گندے ہاتھ پاؤں۔ پوچھا کیا نام ہے؟ بولا مجاہد۔ مجاہد زیر لب دہراتے ہوئے میں اس کی سبز کانچ سی آنکھوں میں جھانکنے لگی۔ جہاں تلخی ایام کا قصہ بہت واضح تھا۔ مجھے مراکبے میں جاتا دیکھ کر قدرے اونچی آواز میں بولا ،باجی کوڑا۔۔ باجی کوڑا دے دو۔
بے ساختہ سوال کر بیٹھی کہ کب سے آ رہے ہو؟ وہ جانے کیا سمجھا سر جھٹک کر بولا
 دو سال سے باجی۔
جاتے جاتے عادت سے مجبور پوچھ بیٹھی ۔پڑھتے ہو؟ آٹھ سال کا بچہ پلٹا، سبز ٹوٹے کانچ میں نفرت اتنی واضح تھی کہ میرے لئے کھڑے رہنا مشکل ہو گیا۔ اگر وہ کچھ منٹ تک مجھے دیکھتا رہتا  تو مجھے یقین ہے کہ اس کی نفرت کا بوجھ نہ سہار سکتی میں۔ لیکن چند لمحوں کہ بعد اس نے رخ پھیر لیا اور جب بولا تو صرف یہ۔  باجی ٹائم کھوٹا مت کرو۔
گویا دو سال۔۔ کسی نےسوویت یونین کے سوشل ازم سے لے کر ایکسپینڈنگ نیچر اور نجی جہاد سے لے کر کیپٹلزم تک ہر شئے لا کر جیسے سینے پہ دھر دی ہو کہ لو ، تم لوگ کر لو۔ جنگیں اور امن کے معاہدے۔ جن کو بچانے کے دعوے ہر شخص کرتا پھر رہا تھا۔ وہاں آٹھ آٹھ سال کہ بچے وطن سے دور ہجرت کا درد سینے میں چھپائے کوڑے سے رزق تلاش رہے ہیں اور میں جدید جنگ کی تھیوری پڑھتے ہوئے سوچتی ہو کہ شکر خدا جو قدیم یونان میں پیدا نہ ہوئی جہاں جنگ کی کوئی اخلاقیات ہی نہ تھیں۔
کسی نے چپکے سے جیسے دل میں چٹکی بھری ہو اور کان کہ پاس سسکا ہو کہ جنگ اخلاقیات سے عاری ہوتی ہے۔
کمرے میں واپس آتے ہوئے ہر شئے سے جی اچاٹ ہو چکا تھا۔ جیسے مجاہد کی آنکھوں کے ٹوٹے کانچ کا کوئی ٹکرا سینے میں پھنس گیا ہو۔
انٹرنیشنل ریلیشنز کی پام این پرکنس( Palmer & Perkins) اور چندر پرکاش کی کتابیں باقاعدہ منہ چڑاتی ہوئی محسوس ہوئیں۔۔۔ گویا الائنس، کاؤنٹر الائنس، وار، کانفلیکٹ مینجمنٹ، بفر زون وغیرہ سب اس ایک جملے کی سامنے لا یعنی ہوں کہ باجی وقت کھوٹا نہ کرو۔۔۔
وقت ہی تو کھوٹا کر دیا تھا چارہ گروں نے۔۔۔ جنہیں چارہ گری سے گریز تھا۔۔۔۔
جو ہر کام کرنے پر تیار تھے سوائے ہمدردی کے۔ اسی ادھیڑ بن میں تھی کہ اندر کی انٹرنیشنل ریلشنز کی سٹوڈنٹ بیدار ہوئی اور دلیلوں پر دلیلیں۔ قومی مفاد سے لے کر جنگ کی اہمیت۔ طاقت کے توازن اور اجتماعی سیکورٹی جانے کیا کیا۔۔۔لیکن وہ ٹوٹے کانچ سی سبز آنکھیں۔۔۔اف
وہ سب معصوم سے چہرے،تلاش رزق میں گم ہیں
جنہیں تتلیاں پکڑنا تھیں، جنہیں باغوں میں ہونا تھا
رات اور اگلے دن کی دوپہر جیسے تیسے کاٹی۔ تیسرے پہر گیٹ کی اطلاعی گھنٹی پر گیٹ کھولا تو مجاہد اپنی زخمی آنکھوں سے گھور رہا ہو جیسے کہہ رہا ہو ٹائم کھوٹا نہ کرو
کیا تم پڑھو گے؟؟ میں نے جلدی سے پوچھا مبادا وہ کل کی طرح سر جھٹک کہ چلتا نہ بنے۔۔
نہیں یک لفظی جواب۔۔۔
اور کسی نے چپکے سے کہا
لہجے سرد ہو جائیں تو پھر پگھلا نہیں کرتے
اور مجھ پر دھن سوار تھی اس سرد لہجے کو پگھلانے کی۔۔۔بھلا یہ کوئی عمر تھی اس کی۔ نفرتیں پالنے کی اور اگلی نفرتوں نے کیا دیا ہے ؟سوائے لاشوں اور قبروں کے۔
اگلے تین دن اس کے خالی ڈبوں والے شاپر میں ٹافیاں بھی جاتیں رہی اور ہم خاموش گفتگو کرتے رہے۔۔۔چوتھے دن چاکلیٹ شاپر میں نہیں ہاتھ میں تھمائی۔ معصوم بچہ جیسے اسی کا منتظر ہو بولا مجاہد لکھنا سکھائو ہم کو۔
ٹوٹل گیارہواں دن تھا۔۔۔کچی پینسل، کاپی، ربڑ، شاپنر مجاہد کے تھیلے میں اس کے ساتھ جاتے تھے۔
بارہوھں دن گیٹ پر اس کی آنکھوں میں نفرت نہیں آشنائی دیکھی۔ جیسے کہہ رہا ہو اتنے برے بھی نہیں تم سب۔۔
جاتے ہوئے کاپی کا صفحہ ہاتھ پہ دھر گیا۔ کھولا، پڑھا۔ تو ٹوٹی پھوٹی لکھائی میں مٹا مٹا سا۔ مجاہد جان کابل ۔ لکھا ہوا تھا اور مجھے لگا، دنیا کی ساری کتابوں کے سارے حرفوں سے معتبر یہ ایک جملہ ہے۔ جس میں خود کو جاننے کے سفر پر کسی نے پہلا قدم رکھا تھا۔ جس میں وطن کو لوٹ جانے کی امید تھی، اپنے ویرانے آباد کرنے کا عزم تھا۔۔۔
دو ہفتوں کے داخلی جائزے کے بعد واپسی ہوئی تو پتا چلا مجاہد جا چکا تھا۔۔ جس طرح وہ اچانک آیا تھا، اسی طرح غائب بھی ہو گیا ۔لیکن جاتے جاتےمجھے ایک بات سمجھا گیا کہ ۔
محبت فاتح عالم۔