Pages

Wednesday 20 March 2019

الکیمسٹ


ہوتا یوں ہے کہ جب ہم کچھ نہیں کررہے ہوتے لکھنے لکھانے کا موڈ نہیں بنتا کچن ہمارے شر سے محفوظ ہوتا ہے ہم کوئی کوکنگ بیکنگ ایکسپیرمنٹ پر تلے نہیں بیٹھے ہوتے۔


شاعری جی کو نہیں بھا رہی ہوتی۔ کوئی نثر لبھاتی نہیں۔ تو کوئی ہم سے ملنے بھی نہیں آتا اور رحمان فارس کے مصرعے کے مطابق ہم کو کہیں جانا تو ہے نہیں کی مجسم تصویر بنے سارا دن صوفہ توڑتے رہتے ہیں۔
بقول شاعر
گیلے کاغذ کی طرح زندگی ٹہری اپنی۔
کوئی لکھتا بھی نہیں کوئی جلاتا بھی نہیں۔



ہم اپنے اندرونی اضطراب سے مجبور ہوکر یکسانیت کے اس بھنور میں لکھائی پڑھائی کے کنکر پھینک بیٹھتے ہیں۔ لکھنے کی کوئی سیریز شروع کرتے ہی ہیں کہ مختلف اقسام کی مصروفیات، کام ہمارے سر پہ پتھروں کی طرح برسنے لگتے ہیں۔ دماغ میں مسلسل تحریر چل رہی ہوتی بیک گراؤنڈ میں فیض کا انتساب نیرہ کی زبان میں مسلسل بج رہا ہوتا ہے کچن الگ دہائیاں دیتا ہے اور مارکیٹ ہمارے لیے سراپا امتحان الگ سے بن جاتی ہے۔ یوں جو تحریر ایک دن میں لکھی جانا ہوتی ہے اسے چار دن لگ جاتے ہیں۔



کتابوں کا ہفتہ منانا شروع کیا تو پس منظر میں وہی ٹہرے ہو ئے گیلے کاغذ کو جلانے کہ خواہش تھی۔ اور کاغذ تو کہاں جلتا ہم جل اٹھے انہیں پتھروں کے آزار جن کو کبھی ہم نے بھی خدا رکھا تھا۔
یعنی پہلی ترجیح۔ اب ہمارے عقائد بارے ہرگز ججمنٹل مت ہوئیے گا۔ آنسہ اچھی خاصی وابی طبیعت ہیں۔
خیر کہاں کا سرا کہاں ملا دیا یوں تو ہم نے ہرگز مینشن نہ کیا تھا کہ ہفتہ کتنے دنوں کا ہوگا اور کتنے دن میں ختم کریں گے ہم ہفتہ۔ لیکن ہمارے ایٹی کیٹس ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ اپنے قارئین جن کی مجموعی تعداد دو ہندسوں مین داخل نہیں ہوسکی ابھی تک کو وضاحت پیش کردیں۔ سو دوستو قصہ یہ ہے کہ
کج اونج وی راہواں اوکھیاں سن کجھ گل ویچ غم دا طوق وی سی
کج شہر دے لوک وی ظالم سن کج سانوں مرن دا شوق وی سی۔
مرنے کے اسی شوق کے پیش نظر ہم نے ہر وہ کام کیا جس پر شوریدہ سری کے زمانے میں جی آمادہ نہ تھا۔

لکھنا تو تبصرہ تھا اور لکھنا بھی پائیلو کے الکیمسٹ پر تھا لیکن بات کسی اور طرف نکل گئی تو ہم بھی نے بھی کی بورڈ کے بہاؤ کے ساتھ تیرنے کا فیصلہ کرلیا۔ بھئی اب ہروقت حالت جنگ میں کون رہ سکتا ہے ہمہ وقت بہاؤ کے الٹی طرف کون تیرے۔ کبھی کبھی تو جی چاہتا ہے چپو چھوڑ دیئے جائیں اور ہاتھ کشتی سے باہر نکالے پانی میں ڈالے نیم دراز دھوپ سے لطف اٹھاتے رہیں اور پانی اپنے ساتھ کسی ان دیکھے جزیرے پر لے جائے اور کہیں نہ بھی لے جائے تو ٹھیک ہے وہیں لے آئے گھما پھرا کر جیسے زندگی لے آتی ہے۔ کوشش کے باوجود فرار کے باوجود اسی دائرے میں رکھتی ہے تو کیا کرلیتے ہیں ہم آپ سوائے جلنے اور کڑھنے کے کر ہی کیا سکتا ہے انسان۔
اختیار والا تو بس الوژن ہی کری ایٹ کیا گیا ہے۔ زمین پر رہنے کا کوئی بہانہ ںھی تو رکھنا تھا نا۔
جیسے غالب کہتا ہے
سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے مصوری۔
تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے۔
تو یہ اختیار و طاقت والا الوژن سجا کر تقریب ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ وگرنہ ایسی حسین تو نہ تھی زندگی کے اس کے لیے مصوری سیکھ لے بندا۔

ہمیشہ ایک سوال کرتی ہوں کہ مرضی تھی میری کوئی زمین پر بھیجنے سے پہلے پوچھا تھا کیا۔
جانے کہاں سے جواب آیا تم تمہاری نہیں اسکی مرضی ہو اس کی رضا سے آئی ہو زمین پر۔ اور ہماری خواہش یا مرضی سے کہیں بڑی مرضی ہے بھئی اسکی سو سر تسلیم خم۔
اب چونکہ اس کی مرضی ہے تو اسے ختم بھی نہیں کیا جاسکتا کوشش فرض ہے سو نبھاتے چلے جانا ہے اس عہد کو۔
اسے ختم کرنے کی کئی خیالات آ آ کہ بھٹکاتے ہیں لیکن ایک تو ازلی ڈھیٹ پن دوسرا کمٹمنٹ کا ہوکا ایسا ابھی تک ہو نہیں پایا۔
اب تو یوں ہے کہ چپو چھوڑ کر بہاؤ کے ساتھ تیرتے ہوئے کشتی پر پڑنے والی ہلکی سنہری دھوپ سے لطف اٹھا رہے ہیں۔ پانی میں ہاتھ ڈال کر ٹمپریچر چیک کرنے کہ خواہش تک ہولڈ پر لگا رکھی ہے۔ حالانکہ یہ عادت و مزاج کے بہت خلاف ہے۔ شوریدہ سری کے زمانے میں تو اتنی بار پانی کو چھوتے ہیں کہ کشتی کو ڈبونے کے خطرات لاحق ہوجائیں۔
لیکن کہا ہے ناں کہ اب ہر وہ کام کر دیکھتے ہیں جن پر آشفتہ سری باقاعدہ اوفنڈ کرتی ہے۔ ہم اسے آزماتے رہتے ہیں اپنے اندر کے جنگلی کو آزماتے رہتے ہیں۔
وہ بھی چوٹ کھائے جاتا ہے گنگنائے جاتا ہے۔ وہی ڈھیٹ پن والا مسئلہ۔
یہ اس لیے نہیں کرتے کہ خود اذیتی جیسے کسی عارضے کا شکار ہیں یہ سب اس لیے کیا جاتا کہ دیکھیں تو برداشت کی حد کیا ہے۔ اور دیکھیں تو ہم میں اپنے خلاف جانے کی کتنی طاقت ہے۔
اپنے خلاف جانے میں بھی لطف ہے آپ اپنے ہی فیصلے کو جھٹلاتے رہتے ہیں۔ یا پھر خود پر تنقید کیے جاتے ہیں۔ یعنی اپنے ساتھ ایک اور زندگی جی رہے ہوتے ہیں۔
مسجد کے اس مہاجر طالب علم کی طرح وہ جس کو ہجرت کے ہجے نہیں آتے اسے مسجد کہ سیڑھیوں پہ خاموش افسردہ بیٹھے دیکھا تو اسے جا پوچھا بولتے کیوں نہیں ہو۔ اس کی اداس آنکھوں میں جو تاثر تھا اس نے بتایا یہ اپنے ساتھ کوئی اور زندگی بھی جی رہا ہے۔ ںچپن میں ایسی سنجیدگی طاری کر کے یہ شائد گھر کے بڑے ہونے کا حق ادا کررہا ہے۔
جب اسے کہا گھر آجایا کرو کھیلنے تو کہنے لگا ٹائم نہیں ہوتا کھیلنے کا۔ اس وقت زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینے کی خواہش دھندلا سی گئی۔
زرد پتوں کا بن جو میرا دیس ہے۔
درد کی انجمن جو میرا دیس ہے۔
اس میں ہمارے خود ساختہ مسائل کتنے چھوٹے ہیں۔
انڈیجویل سپیس کے پرسنل فریڈم کے فرصت کے نہ ہونے کے۔ ۔ یا پھر مسلسل فرصت کے۔

اب ایسا بھی نہیں کہ شوریدہ سری زندگی نے پٹخ ڈالی ہے۔ اب بھی شوریدہ سر ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ
صرف محبت کا ہی غم تنہا نہیں
ہزاروں غم ہیں اپنے ںھی پرائے ںھی
تو کوئی کب تک الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے۔
کبھی تو پھر چپو چھوڑنا ہی پڑتے ہیں۔
اور جب چپو چلانے کے باوجود اس کی پزل کے ٹکرے نہ مل رہے ہوں تو کچھ دیر کو کشتی کو بہاؤ پر چھوڑ دینا چاہیے کیا پتا یہ بھنورسے نکال لے جائے۔ یا پھر کسی بھنور میں ڈال دے نئی انرجی کے ساتھ جو بدلنے کی ساری صلاحتیں رکھتی ہو وہ انرجی۔ پتا ہے زندگی سے بڑا الکیمسٹ کوئی نہیں زندگی کی کان میں کئی پارس بنتے بگڑتے دیکھے ہیں یہاں. کئی کوئلے ہیرے بنتے دیکھے ہیں۔
زندگی کیمائی مادوں کی کمپوزیشن کو بہت بہتر سمجھتی ہے۔
یہ زندگی اور وقت ایسا ظالم کیمیا گر ہے کہ بلاول جالب کو پڑھتا ہے۔
ملا اقبال کو
اور لبرل فیض کو۔
سچ ہے زندگی سے بڑا کیمیا گر کوئی نہیں۔
کبھی کبھی ہمیں صرف ہاتھ پیر چھوڑ کر انتظار کرنا ہوتا ہے اور کشتی پر پڑتی ہلکی سنہری دھوپ سے لطف اٹھانا ہوتا ہے

تھری ڈیز ٹو سی


ہفتہ کتب

تھری ڈیز ٹو سی
ہیلن کیلر۔
تصور کریں آپ روز ایک جنگل سے گزر کر پہاڑ عبور کر کے یا ندی پار کر کے دوست سے ملنے جائیں اور دوست پوچھے رستے میں کیا دیکھا آپ کہیں کچھ خاص نہیں۔ تو پوچھنے والے کے تخیل پر کیا گزرتی ہوگی۔
ہم ہر روز ایسے ہی تجربے سے گزرتے ہیں بہت سارے غیر معمولی منظر معمولی انداز میں دیکھ کر گزار دیتے ہیں۔
تھری ڈیز ٹو سی میں وہ ہی سارے منظر ہیں جو ہم روز دیکھتے ہوئے نہیں دیکھ پاتے۔ 
تین دن کے زندگی جینے کہ خواہش اور ان سارے مناظر کو ذہن میں محفوظ کرنے کی جستجو سے بھرپور یہ کتاب پڑھنا ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے جو اپنا تخیل زندہ رکھنا چاہتا ہے
ہیلن کیلر نے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہونے کے باوجود تخیل میں بسے جن رنگوں کو دیکھنے جن مناظر کو پرکھنے جن تجربات کو کرنے کی خواہش کی ہے اس جستجو پر اور اس کی تڑپ پر کئی آنکھیں قربان کر دینے کا جی چاہتا ہے۔
ڈبلیو ایچ ڈیوس لکھتا ہے 
We have no time to stand n stare..
No time to trun at beauty's glance
And watch her feet how they can dance.



بس یہ ہی ہیلن نے نثر میں بتایا ہے کہ اوئے پاکستانیو کی طرح انھے واہ کم ای نہ کری جاؤ۔
زندگی پر حق ہے آپکا اس کی خوبصورتیوں پر پورا حق ہے انہیں محسوس کریں ان پر غور کریں ان آبجیکٹس کے پیچھے وجوہات ڈھونڈیں اس تجسس کی تڑپ کو محسوس کریں اپنے احساسات کے بل پر اپنے تخیل کا جہاں آباد کرو۔
کی کری جاندے او کیڑے پاسے ٹرے او۔۔
کیوں دائروں میں گھوم گھوم کہ مرجانے جیسی زندگی کاٹتے ہو۔دوبارہ نہیں آنے کے اسی ایک زندگی کو جی لو۔۔
پگلا گئے ہو جو مادی ترقی کے پیچھے کڑوڑوں کی ایک جان ہلکان کیے رکھتے ہو ہمہ وقت۔
جو جو اپنے تخیل کو آباد رکھنا چاہتا ہے زندہ رکھنا چاہتا ہے اس کا تھری ڈیز ٹو سی پڑھنا بہت ضروری ہے۔
اسی بات کو ایک مصرعے میں باجی گلوکارہ نے یوں بھی باندھا تھا 
تیری دو ٹکیا کی نوکری میں_____
اردو سمیت کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا
انگریزی لنک

مادری زبان


ان کا استدلال یہ نہیں تھا کہ بچے پڑھتے نہیں، اچھا تخلیقی ذہن تباہ کر بیٹھتے ہیں یا پھر رٹا لگا کر نمبر لیے جانے والے نظام کا حصہ بن جاتے ہیں۔ دلیل یہ تھی کہ گورنمنٹ سکولز میں بچے پنجابی سیکھتے ہیں پنجابی میں گالیاں سیکھتے ہیں۔ گویا ہمارے بچے تخلیقی نہ بن پائیں مسئلہ نہیں، رٹے لگاتے رہیں ہمیں اعتراض نہیں۔ یہ کوئی نئی چیز یا بات سیکھ پائیں یا نہیں، بس پنجابی نہ سیکھیں اور پنجابی گالیاں تو ہرگز نہیں۔ انگریزی میں البتہ سیکھ جائیں کوئی مسئلہ نہیں کمینہ نہ کہے مین کہنے میں کوئی حرج نہیں کتا تو بہت بڑی گالی ہے با______ کہہ لیا کریں کلاسی لگتا ہے۔

بات بات پہ ہر جملے میں چھتیس بار ایف ورڈ بولے ماں باپ کے سامنے فریج سے گری چیز کو، نہ چلنے پہ ریموٹ کو، چلی جانے پر بجلی کو، بند ہوجانے پر بیٹری کو، ہاتھ پر لگ جانے پر گیٹ کو، سامنے آجانے والی گاڑی کو جواب دیر سے دینے پر دوست کو، ایف ورڈ کہہ لے خیر ہے اتنا تو چلتا ہے۔

لیکن گالی اور وہ بھی پنجابی میں نو وے۔۔ بس کہہ دہا تو کہہ دیا نہیں بولیں گے ہمارے بچے پنجابی۔

اس بات سے تو ذہن میں فوراً اچھے پرائیویٹ سکول میں پڑھنے والی پانچ سالہ آئبہ آئی۔ جو اپنے چھوٹے بھائی کے کھیل پر تنگ آگئیں تو کہنے لگیں۔ مینوں تنگ نہ کر میں تے اگے ای موئی پئی آں (مجھے تنگ نہ کرو میں تو پہلے ہی نیم جاں ہوں)۔

اور ہم نے سارے خاندان میں فخریہ یہ بات سنائی تھی اور اس دن سے آج تک آئبہ سے پنجابی میں باتیں کرتے ہیں قصد۔اً کرتے ہیں۔ اپنی زبان میں اظہار کا جو نشہ ہوتا ہے اسے جعلی مہذب بننے کے ہوکے کا شکار کہاں سمجھ پائیں گے۔ جو نشہ آئبہ کے اس جملے میں ہے جب جھنجھلا کر کہتی ہیں اے سیاپے جوگا ٹیسٹ ای نہیں یاد ہوندا۔ یا پھر جب چھوٹی سی ناک سکور کے کہتی ہے میری جان نو کوئی ایک سیاپا اے۔ یا پھر جب وہ پنجابی جملے کا مافی الضمیر اپنی بڑی بہن کو اردو میں بیان کرتے ہوئے پوچھتی ہو تم کسی اور ملک سے آئی ہو۔

جب وہ ایک سو ستر روپے جیب میں ڈال کے کہہ رہی ہوتی ہے میں سارا شہر خریدن چلی آں۔ اس کے یہ سارے جملے اپنی زبان میں ہونے کی وجہ سے اور بھی خوبصورت ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ اس کو ان جملوں کے پیچھے چھپی تہذیب بھی معلوم ہوتی ہے وہ اپنی جڑوں کے ساتھ جڑی ہے اپنے کلچر اپنے لوگوں سے جڑی ہے وہ اپنے ہی سماج میں ایلین نہیں ہے۔ اور یہ سوچ اس دن گہری ہوتی چلی گئی جس دن باوجود کوشش کے میں سیاپے جوگے ٹیسٹ کا اردو ترجمہ نہ کرسکی اور اس کی استانی ہونے کے باوجود کھکلا کر ہنس پڑی اور پوچھا اس کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ کہنے لگیں مطلب کچھ نہیں ہوتا سیاپا سیاپا ہی ہوتا ہے۔ اور سیدھی بات ہے بھئی، سیاپا سیاپا ہی ہوتا ہے چاہے اپنی زبان نہ سیکھنے کا ہو چاہے اوروں کی زبانون کو برتر سمجھنے کا۔

انگریزی پڑھائیے شوق سے بچوں کو لیکن انہیں اپنی زبان کا اجنبی مت بنائیے۔ اپنی زبان کے مفہوم سے نا آشنائی سے بڑا کرب کوئی نہیں اس حیوان ناطق کے لیے۔
ان سیاپوں نے ہمارے بچوں کو اپنی جڑوں سے کاٹ دیا ہے۔ کسی بچے کو کہیں کولی پھڑائیں تو ہونق بنے دیکھتے رہتے ہیں۔ جب تک ٹرانسلیٹ نہ کردیا جائے کہ گیو می باؤل پلیز۔

اب آپ سب درج بالا خیالات پڑھ کے لازمی سوچتے ہوں گے کہ آنسہ نظام تعلیم پر کڑی تنقید کرنے والی ہیں ساتھ ہی ساتھ مادری زبان کے فضائل پر لیکچر دیں گی اور بچوں کو دوسری زبانیں نہ سیکھانے کی فضیلت بیان فرمائیں گی۔

ویسے تو آنسہ ایسے کر بھی سکتی ہیں۔ لیکن ہم ایسی کسی غلط فہمی کا شکار نہیں کہ بچے اپنی زبان کے ساتھ ہی ترقی کر سکتے صرف۔ جیسا کہ دوسری طرف والے احساس کمتری کا شکار نہیں کہ بچے انگریزی کے سوا کسی اور زبان میں گالی دیں گے تو اپ شگن ہو جائے گا۔

دیکھئے بلکہ پڑھئیے۔
انگریزی دنیا کی زبان ہے اس کو پڑھے سمجھے جانے بغیر گزارہ نہیں۔ لیکن اس کے پیچھے اپنی زبان کو کمتر سمجھنا کہاں کی عقلمندی ہے۔
زبان صرف اظہار کا ذریعہ نہیں ہوتی زبان آپ کی تاریخ ہوتی۔ تہذیب ہوتی ہے وہ ساری روایات ہوتی ہیں جن پر فخر کرتے ہیں ہم اور زبان وہ سارے ٹیبوز ہوتی ہے جن کے خلاف لڑتے ہیں ہم۔

انگریزی پڑھائیے شوق سے بچوں کو لیکن انہیں اپنی زبان کا اجنبی مت بنائیے۔ شاید آنسہ کے خیالات سے اتفاق نہ فرمائیں آپ لیکن اپنی زبان کے مفہوم سے نا آشنائی سے بڑا کرب کوئی نہیں اس حیوان ناطق کے لیے۔ جب کسی پر یہ ہی نہ کھل سکے اس کے آباو اجداد کیسے سوچتے تھے وہ جن سے نکلا ہے ان کا اظہار کیا تھا۔ وہ محبت کا غصے کا نفرت کا چڑ کا امید کا پیار کا خوف کا اظہار کن الفاظ میں کرتے تھے۔ وہ مایوس ہوتے تو تھے تو اوہ مین! کے سوا کیا کہتے تھے۔ خوشی میں او گاش کے سوا کیا کہتے ہوں گے۔ گیٹ سم لائف کا اظہار کیسے کرتے ہوں گے۔ اور جو کسی کو یو سمارٹی پینٹس کہتے ہوں گے تو کیسے کہتے ہوں گے اور یقین کریں جو مزا مر پراں میں ہے وہ ٹیک آ ہائیک میں کہاں۔ جو لطف ہنہہ میں ہے وہ گیٹ لاسٹ میں کہاں ہے۔ جس کیفیت کا اظہار چل اوئے میں ہوتا ہے اس کے لیے انگریزی متبادل کہاں سے تلاشا جائ

جو محبت امرتا کی شاعری پڑھ کے محسوس ہوتی ہے وہ شیلے کی نظموں میں بھی نہیں ملتی جو لذت بھری کسک شیو کمار بٹالوی کو پڑھ سن کے ملتی ہے وہ کیٹس کی اوڈذ میں کیوں محسوس نہیں ہوتی۔

بے وفائی کا جو درد مائے نی میں اک شکرا یار بنایا میں ہے وہ فریلیٹی دائے نیم آف وومن میں محسوس کیوں نہیں ہوتا۔

خیر کہنا صرف یہ ہے کہ اگر آپ کا بچہ کیڑیاں سپیرا کو منگاں کونج میل دی میں، میل دی کوئی کونج دیوے، کیڑا ایناں غماں دے لوگیاں دے دراں اوتے، وانگ کھڑا جوگیاں رہوے کا مفہوم نہیں سمجھ سکتے تو ان کے ترجمہ بھی مت کیجیے گا۔ کیونکہ ترجمے میں جو تشنگی رہے گی وہ آپ کے بچے کو مفہوم کی مٹھاس سے ہمیشہ نا آشنا ہی رکھے گی اور یہ تشنگی اپنے بچے کے نصیب میں آپ نے خود لکھی ہو گی

اور جاتے جاتے سنیے کانونٹ جاتی ایمل جب پوچھتی ہے آنا میرا سر کیوں کھانی پئیں ایں تو نشے سا جو سرور ملتا ہے۔ ویسا ہی سرور ملتا ہے آپ سب کا سر کھا کہ یہاں لہٰذا اس تحریر کو سر کھانے کے سلسلے کی ہی ایک کڑی سمجھیں۔ اس میں سے مفہوم مت تلاشئے گا کیونکہ دس گرل از جسٹ ایمپوسیبل۔

رسیدی ٹکٹ




ہفتہ کتب 
رسیدی ٹکٹ
امرتا پریتم
صحافی نے امرتا پریتم سے کہا آٹو بائیو کب لکھیں گی۔امرتا نے جواب دیا زندگی تو یوں گزری کے لکھنے بیٹھوں تورسیدی ٹکٹ پر لکھی جائے۔
پوسٹل ٹکٹس میں رسیدی ٹکٹ سب سے چھوٹی ہوتی ہے سائز میں۔
امرتا نے زندگی بھی ایسے ہی بیان کردی۔
کتاب کی پہلی سطر سے آخری سطر تک نہ ربط ٹوٹتا ہے نہ سحر۔
وہی سحر جو ساحر کا تھا امرتا کی زندگی میں جو امرتا کا تھا امروز کی زندگی میں۔
امرتا کی شاعری میں "ہوکے بھرتا"درد پڑھ کر آپ ساحر سے جتنی نفرت کرتے ہیں اس کی نثر پڑھ کے آپ اس سے اتنی ہی محبت کرنے لگتے ہیں۔
سوچیں جو ساحر نہ ہوتا اور ایسا سیلانی نہ ہوتا تو کیا امرتا ہوتی اور کیا ایسے ہی محبت کو امر کرپاتی امرتا۔
اپنی دھرتی کو مخاطب کر کے اپنی زبان میں جس طرح امرتا محبت کے نئے لہجوں میں گنگناتی ہے وہ اسی کا طرہ ہے جس میں تھوڑے سے تھوڑا زیادہ حصہ ساحر کا ہے۔
خیر کتاب میں امرتا کا بیان ہے اس کی زندگی ساحر سے محبت امروز سے شادی بیٹے کی پیدائش امرتا کے سفر سب کچھ موجود ہے۔
اس کے خیال کے ساتھ ساتھ کبھی آپ ماسکو جا پہنچتے ہیں اور کبھی وہ میونخ لے جاتی ہے آپکو۔
اگر رسیدی ٹکٹ نہیں پڑھی تو اس سال کی لسٹ میں لکھ لیں اسے۔
امرتا سے محبت کی مستقل مزاجی سیکھی تھی اور جب اس کی آنکھ سے دیکھا تو یہ جانا سیلانیوں کی قسمت میں مزاج ہی کی طرح مستقل کچھ نہیں ہوتا۔
امرتا کی کتاب کا تعارف ساحر نامہ بن گیا لیکن کیا کیا جائے امرتا کی زندگی و کتاب سے ساحر نکال دیا جائے تو پیچھے کیا بچے گا?
سماج کی ریتوں میں جکڑی دو آزاد روحیں جن کا شعور انہیں سماج کے بیرئیرز بھی توڑنے نہیں دیتا۔



ڈی جے اینرائٹ لکھتا ہے
باغی ہونا بہت ضروری ہے
لیکن تم ہی ںاغی ہو یہ اچھا نہیں
سو ہم بھی کہتے ہیں سیلانی ہونا بہت اچھا ہے لیکن ہم ہی سیلانی ہوں یہ اچھا نہیں۔ 
ہم ڈرے ہوئے لوگ ہیں شائد سیلانی ہونا افورڈ نہیں کرسکتے۔ عشق میں ںھی عقل ساتھ لیے پھرنے والے۔
جنوں میں بھی خرد کا دامن تھامے رکھنے والے سیلانی نہیں ہوسکتے کہ اس کے لیے جو جرات درکار ہے وہ ہم میں آپ میں نہیں۔ لیکن سیلانیوں سے سماج خالی ہو ایسا جمود بھی اچھا نہیں۔
ساحر کا ہونا اور امرتا کی کہانیوں میں ہونا بہت ضروری ہے۔
وصل و فراق ہمارے لفظ ہیں ایک سائیکولجسٹ کے خیال میں زہنی حالتیں ہیں یہ لہذا منطقی انجام کا ہوکا نہ ہو تو رسیدی ٹکٹ بہترین انتخاب ہوگا بئیمان موسم میں چائے کافی کے ساتھ۔
اور اگر منطقی انجام کے خواہاں ہوں تو امرتاکی وہ نظم گنگنا لیجئے۔
میں تینوں فیر ملاں گی​
کِتھے؟ کس طرح؟ پتا نہیں​
شاید تیرے تخیل دی چھنک بن کے​
تیرے کینوس تے اتراں گی​
یا ہورے تیرے کینوس دے اُتے​
اک رہسمئی لکیر بن کے​
خاموش تینوں تکدی رواں گی​
یا ہورے سورج دی لو بن کے​
تیرے رنگاں اچ گھُلا گی​
یا رنگاں دیاں باہنواں اچ بیٹھ کے​
تیرے کینوس نو ولاں گی​
پتا نئیں کس طرح، کتھے​
پر تینوں ضرور ملاں گی​
یا ہورے اک چشمہ بنی ہوواں گی​
تے جیویں جھرنیاں دا پانی اڈ دا​
میں پانی دیاں بُونداں​
تیرے پنڈے تے مَلاں گی​
تے اک ٹھنڈک جئی بن کے​
تیری چھاتی دے نال لگاں گی​
میں ہور کج نئیں جاندی​
پر اینا جاندی آں​
کہ وقت جو وی کرے گا​
اے جنم میرے نال ٹُرے گا​
اے جسم مُکدا اے​
تے سب کج مُک جاندا ​
پر چیتیاں دے تاگے​
کائناتی کنا دے ہوندے​
میں انہاں کنا نو چناں گی​
تاگیاں نو ولاں گی​
تے تینوں میں فیر ملاں گی



امرتا پریتم۔​

یادوں کی برات۔




جوش ملیح آبادی
اگر فیس بکی نرگسیت سے اکتا چکے ہیں میں میرا مجھے سے دل اوب گیا ہے تو خوشخبری ہے کہ مجسم نرگسیت کتابی شکل میں دستیاب ہے یہ یادوں کی برات کے نام سے کسی ںھی بک سٹور سے نام لے کر طلب کی جاسکتی ہے۔
کتاب بچون کی پہنچ سے دور رکھیں طبیعت ہلکی سی بھی خراب ہو تو توبہ استغفار کریں سکنجبین بنا کر پیئں سٹاربریز کھائیں۔۔تاکہ نشہ ہرن ہوسکے۔
نشہ سے یاد آیا ہر طرح کے "پانی" کی معلومات کے لیے یادوں کی برات کو کتابچہ کے طور پر ریفر کیا جاتا ہے۔
زبان و بیاں کا لطف لینا چاہتے ہیں پرانی تہذیب میں جھانکنا چاہتے ہوں۔نوابی شوق جاننے کا شوق ہوں عشق کہ آہ لگ جائے یا کسی کی واہ کتاب پڑھ سکتے ہیں۔شاعری سے بالا خانوں کے بیان تک تو چلیں بات سمجھ آتی ہے۔
لیکن جب کالج کے لونڈوں کی مانند کل عالم کی حسیناؤں کو پلو سے باندھ لینے کی حسرت ناتمام بصورت تحریر سامنے آتی ہے تو آپ انگشت بدنداں ہی رہ سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں اپنی انگلی چبانے سے احتراز برتئیے گا کہ چلمن سے لگے بیٹھے والی مجموعی صورت احوال میں ایسا ہو ہی جانا ممکن نہیں۔
اب کل کلاں کو آنسہ کہہ ڈالیں پیسا ٹاور مکا مار کہ ٹیڑھا کردیا تھا تو یقین تو نہ فرماویں گے نا آپ? صرف لطف اندوز ہی ہوں گے نا?
تو ایسا ہی معاملہ سمجھئے۔ کتاب سے لطف اٹھائیے اسے سچ سمجھنے کی غلطی ہرگز نہ کیجیے گا کہ انسان سپر ہیومن نہیں ہوتا ہر معاملے میں رب نے اس کی حد بندی کررکھی ہے حتی کے خواہشات کے معاملے میں بھی۔
اور یوں بھی کچھ تو شاعرانہ مبالغہ ہوتا ہی ہے نا۔
https://www.rekhta.org/133/yadon-ki-barat-josh-malihabadi-ebo133

long walk to freedom



آزادی کی طویل راہ گزر 
نیلسن منڈیلا
ٹائٹل کو یوں سمجھ کر پڑھنا شروع کیا تو اندازہ ہوا ترجمہ غلط کیا ہے۔ اس کا دراصل ترجمہ آذادی کا دشوار رستہ ہونا چاہیے تھا یا پھر آزادی کی انتھک جدوجہد۔
نیلسن منڈیلا آج کی دنیا میں آزادی کا جدوجہد کا خودرادیت کا اپنی قوم کی سربلندی کا استعارہ ہے۔
وہ اپنی بستی کا وہ مجاہد ہے جس نے جس نے اپنے لوگوں کی آنکھوں میں آزادی کا سپنا بھرا تھا۔
کتاب شروع میں تھوڑی سلو ہے بوریت بھی ہوسکتی ہے ابتدائی حالات قبائل کی زندگی رسوم و رواج یہ سب غیر ضروری اور فرد کی ذاتی زندگی لگ سکتے ہیں۔ لیکن کتاب کا دوسرا سیکشن آزادی کی تحریک کو سمجھنے کے لیے اس حصے کا پڑھنا بہت ضروری ہے۔
منڈیلا جی ذاتی ذندگی بیوی بچے گھر گھر کی خواہش مذہب مذہب سے لگاؤ جانے بغیر اس کی اپنی قوم کے لیے جدوجہد سمجھی نہیں جاسکتی۔
کتاب میں کہیں کہیں آپ کھو جاتے ہیں ڈپریشن بھی ہوتا ہے اپنے ہی جیسے انسانوں کا صرف رنگ کی بنیاد پر استحصال اداس بھی کردیتا ہے۔ مجموعی طور پر کتاب ایک فرد کے ذاتی محسوسات سے کر قوم کی آزادی کہ خواہش تک ہر شئے کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
آزادی ایک مہنگا خواب ہے ایک مستقل جذبہ۔ آزادیوں اور شعور کا کوئی ریورس گئیر نہیں ہوتا جو ایک بار یہ جام چکھ لے وہ پھر مئے کدے کا نہ ہوکر رہ جائے تو جان لیجئے اس کے جام میں کھوٹ تھی یا نیت میں۔آزادی کو برتنے کی اپنانے کی پانے کی خواہش اتنی مضبوط اتنی زور آور ہوتی ہے کہ پھر اس پر اس کی جدوجہد پر کچھ بھی قربان کیا جاسکتا ہے چاہے مثال نیلسن منڈیلا ہو یا جناح اپنی زندگیوں ذاتی زندگی کی خوشیوں کی قربانی ہر اس شخص نے دی جس نے آزادی کا خواب دیکھا۔
ممکن ہے "دانشور"آپ کو کچھ اور بتائیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ آج کے یورپ کے پالشڈ چہرے کے پیچھے ظلم واستحصال کی ایک طویل داستان ہے جو آپ کو جناح کے مضبوط لہجے میں ملے گی نیلسن منڈیلا کے ستائئس سالوں میں ملے گی اور افریقہ کی آزادی کے وقت اس بوڑھی کی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں میں ملے گی کس نے کہا تھا آج کا دن دیکھے بغیر مرجانا بدترین تجربہ ہوتا۔
آزادی کی قدرو منزلت اہمیت سمجھنا ہو تو آزادی کے اس طویل سفر کو ضرور پڑھیں۔
اگر آپ کی انگریزی اچھی ہے اور بار بار ڈکشنری کھولنے سے کوفت نہیں ہوتی تو پی ڈی ایف لنک لیجئے۔
اگر اردو میں پڑھنا چاہتے ہیں تو دو تراجم موجود ہیں بازار میں
پی ڈی ایف بھی موجود ہے۔
https://www.pdfdrive.com/the-long-walk-to-freedom-e4463449.133

سحرش

ہیپی برتھ ڈے ابا جی




آپ کا کوئی بچہ آپ سے پوائنٹ آف نو ریٹرن پر جا کہ اختلاف نہیں کرتا تو آپ کا کوئی بچہ آپ سے پوائنٹ آف نو ریٹرن پر جا کہ محبت بھی نہیں کرتا سوائے ہمارے۔جب آپ سے اختلاف پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچے تو جانا کہ زندگی میں پوائنٹ آف نو ریٹرن کچھ نہیں ہوتا یا کم سے کم محبتوں میں تو نہیں ہوتا۔ کیسا ہی کڑا موڑ کیوں نہ ہو وہاں سے واپس آیا جا سکتا ہے بشرطیکہ واپس آنا چاہے کوئی۔دراصل میں۔کہنا یہ چاہ رہی ہوں کہ آپ کا کوئی بچہ نفسیاتی نہیں ہے سوائے ہمارے۔اس میں خوشی کی خبر یہ ہے کہ آپ کے تقریبا سارے بچے نارمل ہیں اور تقریبا کے اُس طرف کھڑے ہیں ہم۔ اب اتنا سا کولیکٹرل ڈیمج تو ہو ہی جاتا ہے نا جنگ اور محبت میں۔
خیر آپ سے محبت ثابت کرنا پڑے ایسے بھی حالات نہیں۔اک ذرا سے نفسیاتی ہیں ہم اور تو کوئی بات نہیں۔
میں کہا کرتی ہوں کہ محبت کا ایک رنگ لائٹ براؤن ہے کیونکہ وہ آپ کی آنکھوں کا رنگ ہے۔
محبت کا ایک رنگ کالا بھی ہے وہ جو آپ پہنتے ہیں۔اور محبت کا ایک رنگ فکر مندی کا سرمئی ہے۔ وہ آپ کے چہرے پہ چھایا ہوتا ہے جب آپ گھر آئے بچوں سے پوچھتے ہیں خوش ہو نا خوش تو ہو نا۔
محبت کا نارنجی بھی ہے جو آپ کے چہرے کے سارے تاثرات چھپا لیتا ہے جب آپ بیٹیوں کے "مستقبل" کی بات کرتے ہیں۔
اور محبت کا ایک رنگ وہ گہرے تفکر میں لپٹا گہرا بھورا ہے جو آپ کے اردگرد ہالہ کئے رکھتا ہے جب بیٹی کو "ملنے" کوئی آئے۔
محبت کی ایک رمز وہ پینک ہے جس کی آڑ میں آپ پریشانی چھپاتے ہیں وہ خاموشی ہے جس کے پیچھے اندیشے چھپا لیتے ہیں۔
اور محبت کا ایک رنگ وہ ایگریشن بھی ہے جو بیٹی کے شکایت لگانے پر آپ دکھاتے ہیں دنیا کو۔😁 محبت کا یہ رنگ مجھ میں بھی ہے تھوڑا سا۔
تھوڑا سا تو آپ پر ہی گئے ہیں۔ہم سب۔
آپ کے ایک بچے نے آپ سے دوست بنانا ان پر اندھا اعتماد کرنا سیکھا ہے۔
دوسرے بچے میں ایگریشن آیا ہے اور سٹریٹ فارورڈ ہونا بھی شائد۔ 
آپ کا ایک بچہ آپکی ساری کھانے پینے کی عادات لے کر زمیں پر اترا ہے۔
اور آپ نے ہم نے کسی نے غور نہیں کیا۔آپ کے ایک بچے میں آپ ہی کی طرح پریشانی میں حل سوچنے کی عادت ہے۔ وہ کسی بھی طرح کے حالات میں مایوس نہیں ہوتا۔
ہم سب میں تھوڑے تھوڑے آپ بستے ہیں اور ہم سب مل کر آپ بنتے ہیں۔
ہم دنیا میں تعلقات بھی بناتے ہیں رشتے بھی انہیں نبھانے کی کوشش بھی کرتے ہیں کوشش میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ لیکن ایک سرخ لکیر ہے جس کے اس پار کوئی تعلق نہیں۔ جب کوئی اس لکیر کی طرف دھکیلتا ہے جس میں چوائس ایک رکھنی ہو تو آپ کے بچوں کی ایلٹیمیٹ چوائس آپ ہی ہوتے ہیں اور اس پر کیسا کمپرومائز؟
اور ہاں کسی کی براؤن آنکھوں میں کسے کے چہرے کے تل میں کسی کے بلڈ گروپ میں اور کسی کے گھنگھریالے بالوں میں بھی آپ موجود رہتے ہیں۔
اور میرے ہنہہ کہہ کے ناک سکورنے میں جو آپ ہی کی طرح اکثر باتوں کا آفیشل ریسپانس ہوتا ہے۔ان باتوں کا جنہیں ہم درخوئے اعتنا نہیں سمجھتے۔
مجھے یہ مکمل کرنا نہیں آرہی۔تحریر ویسے محبتوں کے اظہار کو نامکمل ہی رہنا چاہیے تاکہ اس میں تکمیل کی خو باقی رہے۔
بس یہ کہ آپ جییں ہزااااروں سال۔
ہم حشر کی صبح بھی آپکو دائم دیکھنا چاہتے ہیں۔ 
اور پلیز میری بک واپس کردیں پڑھ کے دے دوں گی۔ابھی تو شروع ہی کی تھی۔
ہیپی والا برتھڈے ابا۔