Pages

Saturday 19 March 2016

قلعہ روہتاس سے ٹلہ جوگیاں





اگر ٹلہ جوگیاں پر کھڑے ہوکر روہتاس پر نظر دوڑائیں تو شیر شاہ سوری تا اکبر، کئی نسلوں کا عروج و زوال، مزاج و نفسیات کی گرہیں کھلتی ہیں۔ ۔ زندگی پرشور پر ہجوم رواں دواں اپنے دھیان میں مست نظر آتی ہے۔ جس میں کبھی شیر شاہ کی منتظم طبیعت، کبھی سوری قبیلے کی جنگجو فطرت ۔ ۔ اور کبھی مان سنگھ کا اکبر سے مستعار لیا ہوا طنطنہ نظر آتا ہے ۔  کبھی اپنی ہی توپ کہ گولے سے جھلسے ہوئے شیر شاہ سوری کی موت زندگی کی قلعی کھولتی ہے۔ تو کبھی اکبر کا دین الٰہی روہتاس کی ٹوٹی فصیلوں میں دفن ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔۔ لیکن اگر روہتاس کی ٹوٹی فصیل پرکھڑے ہو ٹلہ جوگیاں دیکھیں تو ساری تاریخ، تمام  بادشاہ، ساری عظمت و دولت اور ہیبت پانی بھرتی نظر آتی ہے ۔ ۔ ۔ اس بے آب گیاہ پہاڑ پر بیٹھا اپنے عہد کا شہزادہ کانوں میں سوراخ کرتا، بالیاں پہنتا جوگ لیتا ہوا اور بانسری بجاتا ہوا تاریخ کے سارے کرداروں کو فاتح کی طرح مسکراتا ہوا ملتا ہے ۔ ۔ وہ اکیلا روہتاس پر بھاری نظر آتا ہے ۔ ۔ جس کے پاس کوئی فوج و سپاہ نہیں ۔ ۔ پر ٹلہ جوگیاں اس کے قدموں میں شکت خوردہ لگتا ہے ۔۔ روہتاس ہارا ہوا۔ شیر شاہ سوری سے اکبر تک سب چھوٹے ۔ ۔
اگر ٹلہ جوگیاں سے دیکھنے پر زندگی رواں دواں پرشور اور پر ہنگام نظر آتی ہے ۔ ۔ اور انسان کو حیرت زدہ کرتی ہے تو روہتاس سے دیکھنے پر زندگی یکلخت ٹھہر جاتی ہے۔ سارے ہنگامے زندگی کے سارے شور خاموشی کی ردا اوڑھ کے حالت سکوت میں آ جاتے ہیں ۔ ۔ جیسے کوئی بیمار اچانک شفایاف ہو جائے ۔۔ ۔ جیسے کسی آسیب زدہ پر اچانک کوئی اسم کام کر جائے ۔ ۔ یا پھر جیسے دریا ایک لحظے کو اپنی روانی بھول کر رک جائے ۔ ۔ اور انجانی سی کسی منزل کا کوئی راہی سفر روک کر راہ کو تکنا شروع ہو جائے ۔ ۔ ایسے ہی ساری دنیا محوحیرت یا محوتماشہ نظر آتی ہے روہتاس سے ٹلہ جوگیاں پر دیکھنے سے ۔ ۔
اور ٹلہ جوگیاں اور اسکا مکین جوگی ۔۔ روہتاس کو اپنی ''ونجلی'' بانسری کی اٹھتی تان میں گراتا چلا جاتا ہے ۔ ۔ سانس لینے کو جو ٹھہرتا ہے تو اس کی ونجلی کیساتھ سانس بھی رکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ زندگی کی نبض ٹھہرتی ہوئی لگتی ہے۔ ۔ 
روہتاس کے لشکر جب گھوڑےسرپٹ دوڑتے اپنی رعونیت میں دشمن سپاہ کو روندتے ہوئے جب کبھی فرصت میں قلعے کی فصیل سے باہر نکلتے ہونگے تو ونجلی والا درد کا راگ الاپتا ہوگا ۔۔ کیونکہ جوگیوں کو جنگیں لڑنا نہیں آتیں ۔۔ جب طاقت و فتح کے نشے میں چور لشکر واپس آتے ہونگے۔ تو دور جوگی کے ٹلے پر ہو کا عالم ہوتا ہوگا ۔۔ اپنے ہی جیسے، اپنے ہم مذہبوں کے ،ہم نفسوں کے قتل عام پر جوگی 
کوئی درد بھری تان اٹھاتا ہوگا پھر روہتاس سمیت ہر کوئی اس تان میں ڈوب جاتا ہوگا 
پتہ ہے جب ٹلہ جوگیاں پر شام ڈھلتی ہے تو کیسی خاموشی کیسی اداسی راج کرتی ہے ۔ ۔ پتہ ہے جب رات کے کسی پہر کوئی بھٹکتا ہوا جوگی کوئی تان بجاتا ہے۔ جب وہ بانسری میں محبت کا طلسم پھونکتا ہے تو کیسا درد جاگتا ہے ۔ ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے صدیوں سے خاموش جھیل میں کوئی پتھر پھینکا ہو ۔ ۔ اور وہ پتھر بھنور در بھنور دائرے بناتا چلا جائے ۔ ۔ روہتاس پر کھڑی ٹلہ جوگیاں کو دیکھتے ہوئے عجیب منتشر خیالوں کی آماجگاہ تھا میرا ذہن ۔ ۔ کبھی سکندر کی فوج کے نمک چاٹتے ہوئے گھوڑے، کبھی مرہٹوں اور سکھوں کی جنگیں ، کبھی جودھا اکبر کا اثر و رسوخ، کبھی انگریزوں کی فوجی چوکیاں ۔ ۔
کبھی ہیر کے آنسو ۔  تو کبھی سوچ نالہ کہان کیساتھ ساتھ چلتی ہوئی دور کہیں گوجر خان کے کسی چھوٹے سے گاؤں کے کچے چولہے کے پاس دھری چوکی پے جا بیٹھتی تھی ۔ ۔ اور دیس سے پردیس ہونے والوں کے دکھ کو محسوس کرنے کی کوشش میں رہتی ہے ۔ ۔ نالہ کہان کے پل سے گزرتی ہوئی اس کے کنارے کیساتھ چلنے کی شدید خواہش جاگی ۔ ۔ نالے کی پراسرار خاموشی اور روانی میں عجیب جذبیت تھی ۔ ۔ کشمیر کے کسی پہاڑ سے نکلنے والا سالٹ رینج کیساتھ ساتھ چلتا ہوا جہلم کو گوجر خان سے ملاتا، جرنیلی سڑک کے دونوں کناروں میں واحد مزاحمت کرتا ہوا یہ نالا، اپنے دامن میں کتنی کہانیاں چھپائے بیٹھا ہے ۔ ۔ صدیوں سے اتنا پرسکون چپ چاپ بیٹھا ہوا جو کبھی ہیر کی سکھیوں کی پائل کی چھن چھن سنتا ہوگا ۔ ۔ کیسی کیسی آشنائیوں کا وہ چشم دید گواہ ہے
۔ ۔ پھر یہ اتنا پرسکون کیسے ہے ۔ ۔ شاید جان لینے کی وجہ سے ۔ ۔

1 comment:

  1. اچھا ہے۔۔۔ ٹائٹل میں ٹائپنگ کی غلطی ہے اسکو درست فرما لیں۔۔۔

    ReplyDelete