Pages

Saturday 16 December 2017

یونیورسٹی، کلچر اور قوم



سماء ٹی وی پر خبریں چل رہی تھیں۔ ویسے یہ جملہ خاصا عجیب لگ رہا ہے پڑھنے میں۔ آپ سب بھی یہ سوچ رہے ہوں گے کہ۔کیا خبریت ہے اس جملے میں۔ نیوز چینل پر خبریں نہیں چلیں گی تو کیا چلے گا؟
جی ایگزیکٹلی یہ ہی میرا سوال تھا۔ اور ہے کہ نیوز چینلز پر خبریں کیوں نہیں چلتیں؟ اور خبروں کے نام پر تماشے کب تک چلیں گے ؟
چلیے تفصیل سے بات کرتے ہیں۔ ایک سنجیدہ اور الارمنگ سچوئشین پر۔ پرائم ٹائم کی خبروں میں سماء ٹی وی پشاور یونیورسٹی کی طالبہ کی پرفارمنس پر نیوز رپورٹ چلنے لگی۔ خاتون ڈانس کر رہی تھیں کالا لباس پہنے حجاب لئے نقاب کئے۔ اور ڈانسنگ بیلٹ باندھ کر خاتون سارے مجمع کے بیچ بیلی ڈانس کر رہی تھیں۔ اور سماء ٹی وی اپنی روایت کے عین مطابق بار بار اس خبر کو سپیس دے رہا تھا۔
یہ تو وہ المیہ تھا جس نے ہمارے پورے تعلیمی نظام کو آسیب کی طرح اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا ہے۔ اور المیہ در المیہ یہ کہ ہم میں سے کسی کو اس المیے کی نوعیت کا احساس ہی نہیں۔ ہم آنکھیں بیچ رہے ہیں۔ اب اگر ہمارے نسلیں نابینا پیدا ہوں گی تو ہمیں شکایت کا تو کوئی حق حاصل نہ ہوگا۔
بار بار چینل کا نام مینشن کرنے کی وجہ بھی یہ ہی ہے کہ اور کسی نیوز چینل پر میں نے یہ خبر نہیں دیکھی۔ یا کم از کم میری نظر سے نہیں گزری۔خیر یہاں چینلز کا تقابل نہیں کر رہی۔
یہاں میں یونیورسٹیز سے متعلق کچھ سوال اٹھانا چاہتی ہوں۔ یہاں یہ مینشن کردوں ہر سرکاری یونیورسٹی فیڈرل یونیورسٹی ہوتی ہے۔ اور اس کا چانسلر وفاق کی علامت ہوتا ہے۔ یونیورسٹی میں تعینات پولیس فیڈریشن کی صوابدید پر کام کرتی ہے۔

اس نیوز رپورٹ کو دیکھتے عجیب خیالات کا مجموعہ تھا جس نے یلغار کردی تھی جیسے دشمن کی فوجیں نہتے سپاہیوں پر سوتے میں وار کردیں۔ اور چونکہ کسی بھی حفاظتی میئر کو اپنایا نہیں تھا تو ذہن میں سوالات کا انبار لگ گیا۔ آپ سب کے سامنے وہ سوال رکھنا چاہتی ہوں۔ میں ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنا چاہتی ہوں۔ تاکہ میں اس بیلی ڈانس کو کلچرل پرفارمنس تسلیم کرنے جتنی سمجھدار ہو سکوں۔

اب آتے ہیں سوالات کی طرف۔
پہلا سوال۔ وہ فنکنشن جسے کلچرل شو کہا جا رہا تھا۔ وہ کونسا کلچر تھا اور کہاں کا؟
دوسرا سوال میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ کلچرل پرفارمنسز کا ایک معیار اور ضابطہء اخلاق ہوتا ہے کیا ہماری یونیورسٹیز اس معیار کو فالو کر رہی ہیں؟
یہاں یہ یاد رہے مجھے کسی کے بیلی، بیلے یا نیلا ڈانس کرنے پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں۔ میرا اعتراض اس بے ہودہ ڈانس کو یونیورسٹی کی کلچرل نائٹ کا حصہ بنانے اور اسے ماڈرن ازم سے جوڑنے پر ہے۔ کیا ماڈرن ازم ڈانس گانے کا ہی نام ہے؟ اور ڈانس بھی وہ جو کسی نا کسی تعلیمی ادارے میں ہو؟
کسی بھی تعلیمی ادارے کے متعلق تمام تر خبریں انتظامیہ کے ذریعے میڈیا تک پہنچتی ہیں۔ ایسا کہاں ہوتا ہے کہ پورے پورے فنکشن کی لائیو کوریج میڈیا ہاؤس پر چلے؟
یونیورسٹیز کا کانسیپٹ پہلی بار اتھینینز نے دیا تھا۔ علمی بیٹھکیں لگا کر۔ شہر سے باہر ایک الگ شہر بسا کر۔ جہاں بادشاہوں کی تربیت کرتے کرتے استادوں نے اور شہزادوں نے تعلیم پر سب کا حق تسلیم کر لیا۔ اور یوں انسان کو شعور و آگہی اداروں میں سیکھائی جانے لگی۔ مہذب دنیا میں یونیورسٹی کو عبادت گاہ کا ڈر حاصل ہے۔
دوسری جنگ عظیم میں ہارورڈ کیمربج آکسفورڈ کو وار فری زون تسلیم کیا گیا تھا۔ آج بھی دوسری جنگ عظیم کے دوران پیدا ہونے والے بہت سے بچوں کی جائے پیدائش یہ علم گاہیں ہیں۔
یہ ہی وجہ ہوگی کہ ان اداروں کی تکریم ساری دنیا کی نظر میں بہت زیادہ ہے۔
لیکن ان سب کے باوجود کبھی اداروں نے ماڈرن ازم کے نام پر کلچر اڈاپٹ کرنے کی کوشش نہیں کی۔
آپ میں سے کسی نے کبھی کسی ایسے ادارے کے متعلق ایسی کسی نیوز رپورٹ میں کسی چینل کو اتنے ذوق و شوق سے نیوز رپورٹ بناتے ہوئے نہیں دیکھا ہوگا۔ کیا وہ لوگ ماڈرن نہیں ہیں؟ یا کلچرڈ نہیں ہیں۔؃
یہ تو وہ المیہ تھا جس نے ہمارے پورے تعلیمی نظام کو آسیب کی طرح اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا ہے۔ اور المیہ در المیہ یہ کہ ہم میں سے کسی کو اس المیے کی نوعیت کا احساس ہی نہیں۔ ہم آنکھیں بیچ رہے ہیں۔ اب اگر ہمارے نسلیں نابینا پیدا ہوں گی تو ہمیں شکایت کا تو کوئی حق حاصل نہ ہوگا۔ ٹھہرییے اس نکتے پر اداس مت ہوئیے۔ ادا سی بچا رکھئے کیونکہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
دنیا کے کسی بھی تعلیمی ادارے کے متعلق تمام تر خبریں انتظامیہ کے ذریعے میڈیا تک پہنچتی ہیں۔ ایسا کہاں ہوتا ہے کہ پورے پورے فنکشن کی لائیو کوریج میڈیا ہاؤس پر چلے اور لوگ لائیو دیکھیں؟
کیا ہم ہر سطح پر اخلاقیات کھو چکے ہیں؟
نہ انتظامیہ پر کوئی قانون لاگو ہوتا ہے۔ اور نہ نیوز چینل پر۔ رہ گئی قوم یعنی کہ ہم سب ہجوم تو ہجوم تماش بین ہی ہوتا ہے عموما سو تماش بینوں کی بستی میں کوئی کب تک ہجوم کا حصہ بننے سے خود کو محفوظ رکھ سکتا ہے؟
سو چپ رہیئے اور انتظار کیجئے اگلے تماشے کا۔۔۔!

No comments:

Post a Comment