Pages

Thursday 29 December 2016

ایک خط



 مجھے نہیں پتا میں کس جذبے کے مجبور کرنے پر یہ خط لکھ رہی ہوں تمہیں.خط کی بھی خوب کہی خط کہاں بھئی بس دوچار الٹی سیدھی سطریں ہیں کاغذ ہ گھسیٹنا چاہتی ہوں__ ہاں تو کیا کہہ رہی تھی یہ کہ خدا جانے ایسا کونسا دورہ پڑتا ہے کونسی ایمپلس آتی ہے جو تمہیں چھٹیاں لکھنے بیٹھ جاتی ہوں.شائد میرا کاغذ قلم سے عشق ابھی بھی جوان ہے___ ہسو مت معلوم ہے مجھے تم بھی مجھے مادی دنیا کی باسی سمجھنے لگے ہو.
میں سوچ رہی تھی یہ تحریر اس ٹپے سے شروع کروں.
"میں ایتھے تے ڈھولا پربت پر لکھتے لکھتے" رک گئی کیوں کہ پربت تو میں ہوں نا___ یہاں ہڈیوں میں گودا جمانے والی ٹھنڈ ہے اور پربت بھی ایسے ویسے..
تمہیں پتا ہے میری کھڑکی سے باہر چوٹی کے اوپر آسمان ایسے لگتا ہے جیسے ریشمی چادر ہے جو چوٹی کی نوک سے کسی دن پھٹ جائے گی..اپنا وجود کھو دے گی.میں ً روز اس آس میں کھڑکی سے چوٹی اس کے اوپر اس ریشمی چادر کو تکتی ہوں کہ جب یہ پھٹے تو کیا تماشا ہو؟؟
اب تم کہتے ہو گے میرا تماشا دیکھنے کا شوق بھی ویسا ہے...چچ__ نہیں نا!! یہ ویسا شوق نہیں ہے نا..یہ تو ویسا شوق ہے کہ ریشمی چادر پھٹے اس کے پیچھے سے اک نئی دنیا ہو پیاری دنیا تمہارے ساتھ والی دنیا. یا پھر کچھ بھی نہیں بس خالی سلیٹ ہو میرے ذہن جیسی.تم سوچتے ہو گے اب کیوں لکھ رہی ہوں یہ ساری باتیں.
اس لیے کہ میں تسلیم کرنا چاہتی ہوں وہ ساری باتںیں میری وہ ساری باتیں جو ہمارے تعلق کے درمیان آ گئی تھیں یا ہیں.ہاں مجھے پتا ہے یہ جدائیوں کا فیصلہ بھی میرا تھا..تمہاری محبت کا نظریہ ساتھ میں تھا میرا آسانی میں سہولت میں تعیش میں.
دیکھو ہم دونوں غلط نہیں تھے. پر ہم دونوں ہی اپنے اپنے نظریات کے غلام تھے.اپنی اپنی انا کے قیدی.
تمہیں پتا ہے ہم دونوں کے درمیان کیا ہوا تھا؟؟ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ ہم دونوں خود کو صحیح سمجھتے تھے.مسئلہ یہ تھا کہ ہم دونوں دوسرے کو غلط سمجھتے تھے.اور اسے صحیح کرنے پر تلے تھے.
زندگی کی اتنی بہاریں___ ہاہاہا بہاریں لکھ کت بے ساختہ ہنسی ہوں میں پر کیا کروں اب ایسے تو نہیں لکھ سکتی نا کہ زندگی کی اتنی خزائیں دیکھنے کے بعد..سو بہاریں ہی لکھتی ہوں..زندگی کی اتنی بہاریں دیکھنے کے بعد عمر کے اس حصے میں جب بالوں میں چاندی اور رنگت میں تانبا اترنے لگا ہے تو ایک بات سمجھ میں آئی ہے.کہ خود کو صحیح سمجھنا اتنا خطرناک نہیں ہوتا..جتنا دوسرے کو غلط سمجھنا ہوتا ہے.اور اس سے بھی خطرناک اسے "صحیح" کرنے کی کوشش کرنا.اور سب سے خطرناک دوسروں کو اپنے بنائے ہوئے سانچوں میں ڈھالنے کی کوشش کرنا انہیں اپنے مطابق چلانا ہے.لیکن یہ بات بہت دیر سے سمجھ آئی.
اب لوٹنا بھی چاہیں تو نہیں لوٹ سکتے نا؟؟ مجھے معلوم ہے تم اب بھی آنگن کے بینچ پر بیٹھ کر ستارے ڈھونڈتے ہوگے. پر اب میں چاہوں بھی تو اس بینچ کے دوسرے سرے پر بیٹھ کر تمہاری اٹینشن ڈائیورٹ نہیں کر سکتی.
خیر یہ کیا فضول ناسٹیلجیا لے کر بیٹھ گئی میں بھی.میں تمہیں کسی توقع کے بوجھ تلے نہیں دبانا چاہتی اس لیے نہیں تم توقعات پر پورا نہیں اترو گے.اس لیے کہ مجھے معلوم ہے کہ تم پورا اترو گے. اب ہم کیسے بھی بے ضمیر سہی بے حس نہیں.
چلو خیر چلتی ہوں اب میں ایک تو یہ صفحہ ختم ہو رہا ہے دوسرا میں ہوسپٹل جا رہی ہوں. آج نائٹ ڈیوٹی ہے..وہ جس سے ہم سخت چڑتے تھے.
چلتی ہوں..
تمہاری_____
#سحرش.

No comments:

Post a Comment