Pages

Monday 19 December 2016

سانحہ اے پی ایس، ابھی انجام باقی ہے



ہم نفرت کے قائل نہیں، نہ نفرت کوئی ایسا قابل تحسین و تعریف جذبہ ہے کہ اسے اپنایا جائے.نہ تم اتنے محترم و معتبر کے تم سے نفرت کا ہی رشتہ یا تعلق رکھا جائے.
پچھلے سال بھی لکھا تھا آج پھر لکھتی ہوں، تمہیں اپنی نفرت سے بھی آزاد کیا، تم ہماری نفرت کے بھی قابل نہیں ہو تم اس قدر غیر انسانی ہو کہ تم ہماری نفرت کے درجے سے بھی گر چکے ہو.
لیکن خوف کے سوداگرو!! آؤ دیکھو میری قوم کی مائیں میرے بچے میری قوم کے باپ بھائی سب زندہ ہیں صرف زندہ نہیں اپنی اپنی زندگیوں کو جیتے ہوئے، گزارتے یا کاٹتے ہوئے نہیں.

اور تم!! تم کہاں ہو؟؟کیا ابھی بھی تم میری زمیں پر سانس لیتے ہو؟؟ اگر ہاں تو آؤ پھر دیکھو تم خوف کی علامت تھے نا؟؟ پھر تم نے اس قدر خوف بیچا کہ ہم بے خوف ہو گئے.
تم ہمارے مزار جلاتے رہے، ہم پھر سے بناتے رہے۔ مسجدیں گرائیں تم نے، ہم تعمیر کے خو سے جت گئے.. تم کالجز یونیورسٹیز مدرسے گراتے رہے، ہم علم کی شمع کی لو بڑھانے کے جتن کرتے رہے. لیکن ہم تم سے مایوس نہیں ہوئے کہیں نا کہیں میرے لوگ تمہیں مسلمان اور انسان کا درجہ دیتے رہے بہت سے تمہارے لوٹ آنے کی آس لگائے بیٹھے رہے.
پر تم پر تو خون سوار تھا. خود کو ثابت کرنے کے چکروں میں تم نے میرے بچوں پر حملہ کیا، بھیانک حملہ۔۔ جس کی تفصیل لکھنے سے میرا قلم انکاری ہے. مجھے معلوم ہے وہ سارے گوشے جو ان آنکھوں نے یاداشت کی سکرین پر دیکھے، مخفوظ کیے ہیں۔ ان کو اگر کبھی میں نے لکھنے کی جرات کی تو میرا قلم روٹھ جائے گا. میرے اندر کا خواب پرست مر جائے گا، جو بعض اوقات حقیقت سے صرف اس لیے آنکھیں پھیر لیتا ہے کہ پھر اتنا درد وہ حرفوں میں کیسے سموئے گا. اور اگر لکھے گا نہیں تو ان کہی کی وحشت اسے مار ڈالے گی. جبکہ ابھی اسے زندہ رہنا ہے، اس خواب پرست کو زندہ رہنا ہے اس نے ان خوابوں کی تعبیر کی راہیں ہموار کرنی ہے جو تم نے، ہاں تم نے میرے ایک سو بتیس بچوں کی آنکھوں سے چھینا تھا..ابھی اس خواب پرست کو ان امنگوں کی آبیاری کرنی ہے جس کا خون تم نے کیا تھا میرے اور اپنے رب کے نام پر.معاف تو تمہیں یوں بھی نہیں کرنا تھا پر یہ جو تم نے رب کے نام پر جبر کا عہد برپا کیا ہے نا اس پر تو رب کی عدالت میں ہم فریق بنیں گے انشاءاللہ.
تمہیں پتا ہے نفرت کی انتہاء پر کیا ہوتا ہے؟ انسان ہر جذبے سے عاری ہوجاتاہے.بلکل ویسے جیسے تمہارے معاملے میں ہم ہیں.سخت نفرت کے بعد کا سکوت ہے.
پچھلے سال بھی لکھا تھا آج میں پھر اپنا عہد دہراتی ہوں، میرے بچوں کے اندھے قاتلو۔۔ میں چاہتی ہوں دنیا کی ساری زبانوں میں سے نفرت کے سارے لفظ اکھٹے کروں اور ان لفظوں سے تمہارے اور تمہارے حمائیتیوں کے لیے ایک مضمون لکھوں، اور روز حشر عادل کے عدل قائم کرنے والے دن میں اس مضمون کو تمہارے اور تمہارے حمائیتیوں کے خلاف درخواست کی صورت جمع کراؤں، پھر میں رب کا عدل ہوتا ہوا دیکھوں.المناک کربناک انجام سے دوچار ہوتا ہوا دیکھوں، ویسا کرب جیسا تین جوان بیٹوں کو دفناتے ہوئے ان کے باپ کی آنکھوں میں تھا.
تمہارے حامی اس بچے کی ماں کی آنکھوں میں ٹہری ہوئی آہ کا شکار ہوں، وہ جس نے کہا تھا دنیا کے کسی قانون سے انصاف کی امید نہیں سوائے رب سے.. اس وقت جب وہ کن کے مالک کو فیکون کہنے کی بھی ضرورت پیش نہ آئے گی، اسوقت تم اور تمہارے حمایتی دینا دلیلیں، منطقیں حوالے، بیان کرنا فلسفے رب کے سامنے.اور یہ صرف متشدد لہجے کی گفتگو ہی نہیں، اب یہ میرے اندر ایمان کی طرح اتر چکا ہے ظلم کی عمر بھی تھوڑی ہے اور اس کے حمایت کی بھی، جبر کا عہد تمام ہونے کو ہے، میرے بچے ایک اجلی اور روشن صبح دیکھنے کو ہیں، جس میں تمہارے دییے ہوئے زخموں سے ہم محبت کے علم کے چراغ جلائیں گے اور اس روشنی میں ہم مبنی بر عدل فیصلہ کریں گے، تمہارے اور تمہارے حمایتیوں کے المناک انجام کا فیصلہ..
کیا کہا؟ علم کی روشنی سے انتقام نہیں پھوٹتا اور کیا کہا میرے لفظوں سے شدت ٹپک رہی ہے۔۔؟؟
تو سنو یہ آخری فیصلہ ہے، قطعی اور اٹل بھی۔ میرے بچوں کے قاتلوں کے لیے لغت سے بھی معافی کا لفظ نکالنا پڑا تو نکالیں گے..
اور سنو تم سے لا تعلقی اور تمہارے حمائیتیوں سے بے زاری برات میں میرے لفظوں سے شدت نہ ٹپکے گی تو یہ توہین ہوگی میرے قلم کی جس کی پاسداری مجھے بہرحال کرنی ہے.

No comments:

Post a Comment