Pages

Thursday 29 December 2016

جوابی خط



تمہارا خط میرے سامنے پڑا ہے.میز پر خط اور کافی کا مگ رکھے میں چئیر پر تقریبا جھول رہی ہوں.جیسے تمہیں خط لکھنے کی ایمپلس آتی ہے نا.ویسے ہی تمہارا خط ملنے پر خوشی کا سرشاری کا احساس جاگتا ہے.
وہ کیا کہا تھا فیض نے جیسے بیمار کو بے وجہ قرارا آجائے.
سنو! یہ قرار کبھی بے وجہ نہیں آتا اس کے لیے وجہ ڈھونڈنی پڑتی ہے چھوٹی بڑی وجہ.یہ تو منحوس ماری اداسی ہوتی ہے جو بے وجہ آتی ہے.کبھی کسی کو کہتے سنا ہے میں بے وجہ سکون میں ہوں؟؟ نہیں نا قرار کے لیے سکون کے لیے وجوہات ڈھونڈنا پڑتی ہیں ان کو ممکن کیا جانا پڑتا ہے.جیسے میرا قرار تمہارے لفظوں میں تمہارے خطوں میں چھپا ہوا ہے سو تمہارا خط ملا اور میں سرشار سی مسکرا رہی ہوں.صبح میری کولیگ نے بھی یہ بات نوٹ کی کہ خوش ہوں میں.
اب اس فرنگن کو کیا بتاتی کہ یہ ہم مشرقی عورتیں رج کے بے وقوف اور جذباتی ہوتی ہیں.اول تو محبت کرتی نہیں کر بیٹھیں تو حشر کی صبح تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں...مجھے پتا ہے تم اس جملے کو دہرا دہرا کر پڑھو گے محبت کا جو ذکر ہے اسمیں.اب یہ مت کہہ دینا کہ مان گئی میں بلآخر اس محبت کو..ہک ہاہ کبھی نہ سمجھو گے.یہ خط میں تمہیں پیار محبت میں ہی لکھتی ہوں اور تم میرے پھپی زاد تو نہیں ہوتے بھی تو نہ لکھتی.
خیر میرے لفظوں میں رنگ رنگوں میں خوشبو اور اس خوشبو کو محسوس کرنے کا احساس اسی محبت کا اعجاز ہے.
شاعر کہتا ہے نا.
بہت مخصوص دلوں کو عشق کے الہام ہوتے ہیں.
محبت معجزہ معجزے کب عام ہوتے ہیں.
اور اسی معجزے کا نتیجہ ہے کہ میں آج بھی تمہارے خطوں کو اسی بے تابی سے پڑھتی ہوں اسی بے چینی سے کھولتی ہوں.
اور یہ کیا تم بالوں میں اترتی چاندی کو زیادہ سیریس نہیں لے گئے؟ ارے بھئی اب ہم تم ایک بینچ کے دو کونوں پر ٹہر گئے تھے تو یہ کہاں لکھا تھا کہ وقت بھی ٹہر ہی جاتا؟ وقت نے تو بہر صورت چلنا ہی ہوتا ہے.اور چاندی اتر بھی آئی تو کیا؟؟ اچھا سا ڈائی لگاؤں گی نا. تم کہیں یہ تو نہیں سوچ رہے کہ میں آنٹی لگنے لگی ہوں؟؟؟ خبردار یہ سوچا بھی تو.ویسے بھی جتنی بھی بڑی ہوجاؤں رہوں گی تو تم سے چھوٹی ہی نا.
تم لکھتے ہو میں آسمان کی ریشمی چادر سے پرے جھانکنے پر اصرار نہ کروں تمہیں خدشہ ہے کہ میں اپنی بسی بسائی جنت تحلیل کر بیٹھوں گی.سنو! اب میں عمر کے اس حصے میں نہیں رہی جب تصور میں صرف جنتیں بسا کرتی ہیں اب میرے تصور کی دنیا کا کینوس بہت وسیع ہو چکا ہے.اب اسمیں اگر جنتیں ہیں تو ساتھ ہی کچھ سٹروک ایسے بھی ہیں جو تصوراتی اس تصویر میں دنیا کا سا مزا دیتے ہیں حقیقی دنیا.
دیکھو میں امید پرست ہوں مجھے پتا ہے راہیں راہیوں کی مرضی منشاء اور انتخاب ہوتی ہیں پر میں اپنی سوچ کے جگنو سے راہوں میں زرا سی روشنی کرنا چاہتی ہوں.تاکہ کوئی بھولا بھٹکا مسافر میری خواب نگری کی طرف آ نکلے تو ٹھوکر کھا کر گرے نہیں.یہ جگنو میری ملکیت ہیں میں انہیں جلاتی رہوں گی.
صحیح کہا صفحے بہرحال پلٹنے پڑتے ہیں لیکن اگلے صفحے پر کسی خوشگوار یاد کا تسلسل بھی قائم رکھا جا سکتا ہے.
اب چلتی ہوں.
تم بس شعر سمجھ کر پڑھو تو ایک شعر لکھتی ہوں.
تمہارا اور ہمارا ساتھ ممکن ہے.
یہ دنیا ہے یہاں ہر بات ممکن ہے.
خدا خافظ.
تمہاری_

1 comment: