Pages

Tuesday 25 October 2016

محبت بھی ڈوب کر روپ بدلتی ہے




یاد ہے تمہیں
اکتوبر کا سورج ڈوبتے دیکھا تھا.
اپنی ہتھیلی پر تمہاری لکیریں چرا کر
میں نے حرفِ وصل لکھا تھا.
سنہری کرنوں سے مٹھی بھر کے.
میں نے جدائی رخصت کرڈالی تھی.
سورج ڈوبا تو چندا ابھرا تھا.
تم نے بھی یہ ہی کہا تھا
محبت بھی ڈوب کر روپ بدلتی ہے
کبھی سورج تو کبھی چندا کے سانچے میں ڈھلتی ہے.
اور میں ہنس دی تھی
تمہاری تشریحوں پر
شاعرانہ تفسیروں پر
ہاتھوں کی لکیروں پر.
محبت والوں کی تقدیروں پر.
تم بھی ہنسے ہوگے
ٹھوکر سے ساحل کی ریت بھی اڑائی ہوگی
اور دور کہیں آسمانوں پر
تقدیر بھی ہنسی ہوگی.
میری خوش گمانی پر.
محبت کی کہانی پر
میری مٹھی میں بند سنہری کرنوں
کے ہونے پر .
کیونکہ!
تم اور تقدیر
دونوں
"عقل"والے تھے.
اور میں عشق کے کلمے کی مجرم تھی
محبت کے گیت گا بیٹھی 
مجھے معلوم ہی نہ تھا
عشق تو جدائیوں سے تعبیر ہوتا ہے.
محبت کا وصل تو ہجر کی تفسیر ہوتا ہے.
مجھے معلوم ہی نہ تھا کہ تم
میری مٹھی میں بند ریت کی مانند
زرہ زرہ سرک جاؤ گے.
میں بیٹھی دیکھتی ہی رہی
اور کرنوں کا رنگ سنہری.
کوئلے سا کالا ہو گیا.
سنو میں اب بھی اپنی ہتھیلی سے 
جدائی کھرچتی رہتی ہوں.
سنو!
اب کے لوٹو تو
میری ہتھیلی لوٹا دینا
یا اپنی لکیریں لے جانا.

No comments:

Post a Comment