Pages

Saturday 26 November 2016

بچپن




اچھا تھا بچپن پیارا سا. ٹیکنالوجی نے ابھی دن رات یوں نہیں کھائے تھے کہ ہاتھ میں ٹیبلٹ, آنکھ گیم پر  اور ماں منہ میں نوالہ ٹھونستی ہو کہ جوں جوں گیم چلتی ہے توں توں کھانا ہضم ہوتا ہے۔ دن میں صرف ایک گھنٹہ ویڈیو گیم کھیلنے کی اجازت تھی یا پھر بے بی لونی ٹونز دیکھنے کی۔گو کہ زیادہ پرانی بات نہیں پر جانے کیوں مجھے گمان گزرتا ہے تب وقت بھی یوں پر لگا کر اڑا نہیں کرتا تھا۔سکول سے واپسی پر کام کرکے قاری صاحب سے سیپارہ پڑھنے کے بعد کی ٹوٹل اینٹرٹیمنٹ سارے کزنز کی تخریب کاریاں ہوا کرتی تھیں

کزنز کے معاملے میں بھی ہم خود کفیل تھے ۔ بلکہ دس بارہ چودہ ایکسپورٹ کر دینے کی پوزیشن میں بھی تھے۔ دادا کا بڑا گھر جس کے پیچھے والا زیر تعمیر حصہ جو ہمارا پورا بچپن زیر تعمیر ہی رہا۔سی ایم کا شوق ٹھرک، آئی مین سڑک ہو جیسے. خیر تب نہ تو یہ بکھیڑے نہیں تھے کہ پوچھا کرتے کہ اس کا ٹھیکہ کسی پرائیوٹ کمپنی کو ہی دے ڈالیں۔ پی ایم ڈی سی کے بس کی بات نہیں بابو۔نہ ہی شعور کی یہ خود اذیتی کا دور شروع ہی ہوا تھا۔بلکہ الٹا یہ زیر تعمیر حصہ ہماری جنت تھا۔

تائی امی (رب ان کے درجات بلند کرئے آمین) کو گارڈننگ کا شوق تھا ۔ایک بلی بھی پال رکھی تھی ۔ تو جب اپریل کے شروع میں تائی امی لہسن کے دو تین جوئے زمین میں دبا کر لہسن اگاتی تو ان کے ساتھ ساتھ قطار میں دس پودے مزید لگائے جاتے ۔ہر بچے کا اپنا پودا اور ساتھ میں عہد بھی لیا جاتا کہ اپنی  جان پر کھیل کے ان کی حفاظت  کریں گے۔ اور چار دن بعد جب  پچاسویں بار زمین کھود کے دیکھی جاتی کہ پودا اب کہاں پر ہے تو ہیڈ مالی کزن خبر دیتا کہ یہ پودا نہیں اگنے والا۔ دراصل ہمارے گھر کی زمین لہسن کے لیے موزوں نہیں یوں بھی لہسن کے کچھ خاص فوائد نہیں ہوتے ۔لہذا ہمیں کچھ اور اگانا چاہیے اور یوں قرعہ فال پیاز کے نام نکلتا ۔

پیازوں والی ٹوکری سے دس پیاز چرائے جاتے جو سارے بچوں کی امیوں کی ٹوکریوں سے برابر برابر چرائے جاتے ۔ زمین کھود کر اندر پانی بہایا جاتا ۔ زمین برابر کی جاتی کھاد کے نام پر روٹیوں کے خشک ٹکرے دبائے جاتے اور پیازوں کے دس پودوں کے لیے دس پیاز بو دیے جاتے. بعد میں ہیڈ مالی کزن سے دعا کرائی جاتی ۔یہ وہ کزن تھا جس کے شر سے شیطان بھی پناہ مانگتا تھا لیکن ہم اسے اپنے مدرسے کا امام بنانے پر مجبور تھے کیونکہ پیچھے کھڑا کرنے سے جوتے چوری ہونے کا خدشہ تھ

امام ساب دعا کرانے سے پہلے شرائط طے کر لیتے کہ جو دعا وہ مانگیں گے سب اس پر آمین کہیں گے مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق شرائط تسلیم کر لی جاتیں۔ امام ساب دعا کراتے، اے اللہ میرا پودا سب سے لمبا ہو۔اور سارے مقتدی ایسی دعا پر انگشت بدنداں رہ جاتے ۔امام ساب لہجے میں تنبیہ بھر کہ نسبتا بلند آواز میں دعا دہراتے ۔ساتھ ہی کھنکھار کے گویا یہ بھی واضح کرتے کہ وہ ہاٹ لائن پر ون آن ون گفتگو فرما رہے ہیں.لہذا مری مری سی آمین بلند ہوتی

امام ساب ترپ کا پتا پھینکتے کہ یا رب اونچی آمین کہنے والے کا پودا دوسرے نمبر پر ہو اور ساری جنتا آوے ای آوے کے مصداق دیوانہ وار پکارتی آمین۔آمین۔ دعا کا سرا وہیں سے جڑتا۔ اللہ میرے پودے پر سب سے زیادہ لہسن لگے۔مجبوری میں کہا گیا آمین اور اس کے ساتھ ہی مولوی ساب کا آمین کہہ کے منہ پر ہاتھ پھر کر چلتا بننا۔ پیچھے بچی عوام اپنے اپنے پودے کے لیے دعا کرنا بھی چاہتی تو نہ کر پاتی۔   مولانا کزن ساب کا فتوی تھا، اجتماعی دعا کے بعد اکیلے بندے کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ اور دس دن بعد جب تائی امی اپنے لہسن بارے تشویش کا شکار ہو کہ کھیت کا چکر لگاتیں تو پھر بلا امتیاز، رنگ و نسل، عمر ،جنس و ولدیت سب کی حسب توفیق لتریشن فرماتیں۔ اس عظیم الشان عزت افزائی کے بعد فورا کیبنٹ میٹنگ بلا لی جاتی ۔جو نیم سے لٹکے دو جھولوں تین عدد کرسیوں اور پیڑھیوں پر بیٹھ کر منعقد کی جاتی۔ جس میں کابینہ کے سارے اراکین اسٹیبلشمنٹ کے غیر جمہوری اقدامات کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتے اور دادا کی سپریم کورٹ میں ہمارے خلاف مقدمے کو جمہوریت پر حملہ قرار دے کے اس کے خلاف قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کر لیتے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی طے پا جاتا کی اب ہم چڑیاں طوطے پکڑ لائیو سٹاک کا بزنس کریں گے

اگلی دوپہر ماؤں کے سوجانے کے بعد ساری کابینہ ٹوکری کے نیچے دانہ ڈال کے ٹوکری سے دھاگا باندھ کے دم سادھ بیٹھ جاتی۔ کتنا معصوم شکار تھا۔ شاعر کے بقول چھوٹے تھے تو مکرو فریب بھی چھوٹے تھے۔ دانہ ڈال کے چڑیاں پکڑا کرتے تھے اور جب ساری دن دھوپ میں گزار کر شام کو ہم ویسٹ انڈیز کے نیشنلٹی کیلئے کوالیفائی کرنے والے ہوتے تو ماؤں کو خبر ہوجاتی۔اگلی دوپہر میں ملیں گے، کی مجسم تصویر بن کر سب چل پڑتے۔اگلے دن جیسے ہی کوئی معصوم پرندہ ہاتھ لگ جاتا تو ہیجڑوں کے گھر پیدا ہونے والے کاکے سا سلوک فرمانا شروع کر دیتے ۔ ہاتھ میں پکڑ پکڑ کے اس کی حالت غیر کر دیتے۔شام تک اس کی حفاظت کرتے اور رات ہونے سے پہلے سیکیورٹی لیکس ہوجاتی کوئی سرل المیڈا سٹوری فائل کرکے چلتا بنتا۔

دادا جان بنفس نفیس آتے سب کی گوشمالی کرتے ہوئے پرندہ اڑاتے اور چل پڑتے۔ ایک دن کے وقفے سے دو خوابوں کے روندے جانے پر ہم سب غم سے رنجور چپ چاپ بیری کو اور انگور کی بیل کو پتھر مارا کرتے۔اور یہشغل تب تک  فرماتے  جب تک نیا کٹا نہ کھول لیتے.اور یوں سارا بچپن کزنز کے چڑیا گھر میں چوں چوں کرتے گزرا.
یہ سب لکھنے کا خیال ایک خبر پڑھ کے آیا کہ ہمارے چالیس فیصد بچوں کو کمیونکیشن ایشوز ہیں۔اور اسکول گوئنگ بچوں کی بڑی تعداد سیریس اٹیٹیوڈ پرابلمز کا شکار ہے۔ پتا نہیں کیوں مجھے ان مسائل کے پیچھے آجکل کی ماؤں کا خود ساختہ سوشل بائیکاٹ بھی ہے جس میں مائیں بچوں کو لے کر شدید آئسولیشن کا شکار ہیں

بھئی سیدھی سی بات ہے جنس با جنس پرواز پانچ پانچ، چھ چھ ،سات سات سال کے بچے جب اپنے ہی جیسے بچوں سے کمیونکیٹ نہیں کریں گے تو لازمی ہے ان کا سکول انہیں کمیونیکیشن سکلز  کے کورسز ہی کرائیں گے اور جب مائیں سارا وقت یہ بتاتی رہیں گی کہ چاچو کے، پھپھو کے، تایا کہ بچے گندے ہیں تو پھر اٹیٹوڈ ایشوز تو ہوں گے ہی۔
 تو میری قوم کی کافی پیاری ماؤں ، سوچیں ذرا بچوں کے نفسیاتی سیشنز کرانے سے کہیں بہتر ہوگا اگر وہ اپنے ہی جیسے بچوں کے ساتھ فیزیکل ایکٹیوٹیز مصروف ہو جائیں۔ مائے ڈئیر لیڈیز کزنز بڑا پیارا رشتہ ہوتا ہے، اسے کم از کم اپنی سیاست کی نظر  نہ کریں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر صرف ایک تعلق باقی رہ جائے سائیکولوجسٹ اور مریض کا.

No comments:

Post a Comment