Pages

Friday 30 December 2016

بندھن کی الجھنیں



شادی سیریز پر ہمارے دوستوں کی دلچسپی نے ہمیں یہ لکھنے پر مجبور کر دیا۔وگرنہ اس جاتے سال کی ان آخری چند ساعتوں میں کم از کم سوشل ایشوز پر اپنے نادر خیالات کے اظہار کا ہمارا ایسا کوئی خاص ارادہ نہیں تھا
لیکن شادی جوکسی بھی سوسائٹی کا  بنیادی انسٹیٹیوٹ ہے  اس پر ہماری رائے اور ہمارے نکتے کو ہمارے دوست جسقدر غیر سنجیدگی عدم دلچسپی بلکہ قدرے استہزائیہ  انداز میں سنتے اور ناک پر سے مکھی کی طرح یہ کہہ کر اڑا دیتے ہیں کہ ہم ناتجربہ کار ہیں لہذا ہماری بات کسی اہمیت کی حامل نہیں۔ان کی یہ ادائیں ہمیں یہ لکھنے پر مجبور کرتی ہیں ہماری اماں ہمارے بارے میں یونہی نہیں کہتیں کہ جس کام سے ہمیں روکا جائے پھر وہ ہم کر کے چھوڑتے ہیں
سو پہلے تو یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ تجربے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں لیکن اگر تجربے کی آپکی تعریف مان لی جائے تو دنیا بہت سارے علم کی منکر ہوجائے۔ہمارے ہی سبجیکٹ کی مثال لیجیے سترہ یا انیس سال کی عمر میں سقراط نے  زہر پی لیا تھا ۔پچیس سالہ کیٹس دنیا سے جانے کی نظمیں لکھنے لگا تھااور تھری ڈیز ٹو سی لکھتے ہوئے شائدہیلن کیلر پچیس کی بھی نہیں تھیں ۔یاد رہے یہاں پر تقابل نہیں کیا جا رہا بس بتانا یہ مقصود ہے کہ صرف زندگی کے زیادہ سال جینا تجربہ نہیں کہلاتا۔ تجربہ تو وہ بھی ہے جب آپ کسی بات کے مشاہدے میں اسقدر محو ہوں یا وہ مشاہدہ اتنے تسلسل سے کریں کے اس بات کے سقم آپکو نظر آنے لگیں اور اس سے پیدا ہونے والے مسئلوں سے آپکے دل کا کوئی حصہ مسلسل اداس رہنے لگے یا پھر آپ اسے بہتر کرنا چاہیں تو سمجھ لیں آپکا مشاہدہ تجربے کی آنچ پا گیا ہے
اب آتے ہیں شادی کے متعلق ہمارے نکتے پر۔تو وہ دو ٹوک ہے کہ شادی سوشل کانٹریکٹ ہے اور  جب کوئی دو فریق اپنی کچھ آزادیاں اور اپنے کچھ حقوق اپنی رضا مندی سے سرنڈر کرنے پر تیار ہو جائیں تو سوشل کانٹریکٹ ہوتا ہےاور دنیا میں جتنے بھی کانٹریکٹ ہوتے ہیں، وہ سارے زمین پر طے ہوتے ہیں اور رب زمین پر اتر کے اپنے احکامات کا نفاذ نہیں کرتا وہ اپنا قانون بتاتا ہے انسان کو عقل و بصیرت دیتا ہے اور پھر اسے اس کے استعمال کے مشورے دیتا ہے.
تو کانٹریکٹس مادی شئے نہ ہونے کے باوجود مادی ہی ہوتے ہیں۔ زمینی اور حقیقی۔ اسی طرح شادی بھی ایک زمینی حقیقت ہے..اور جملہ معترضہ ہے کہ اس سے فرار ممکن نہیں۔تو جب فرار ممکن نہیں تو پھر کیوں نا، یہ ایک باشعور مہذب انسان کی طرح کی جائے.؟نا کہ دو ٹانگوں والے انسان نما کی طرح۔اور مہذب انسانوں میں جب بھی معاہدے طے پاتے ہیں تو اصول و ضوابط رکھے جاتے ہیں۔ شرائط طے کی جاتی ہیں۔ جو دونوں فریقوں کو منظور ہوں تو معاہدہ ہوجاتا ہے
لیکن ہمارے لوگوں کو چونکہ ہر شئے الٹی نظر آتی ہے لیلی نظر آتا ہے اور مجنوں نظر آتی ہے۔لہذا یہ شادی بھی معاہدے سے کہیں زیادہ فیسٹول ہے چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات ۔دو چار دن وعدے، قسمیں، دعوے، چھ دن کی تقریبات اور عمر بھر کا رونا..(معذرت کے ساتھ) اور اس پورے فیسٹول میں سب سے زیادہ ہونق وہ دو افراد ہوتے ہیں جنہوں نے آگے چل کے آپ لوگوں کے انسٹیٹیوٹ خاندان کی آبیاری کرنا ہوتی ہے۔اب انہی دو لوگوں کے کپڑوں اور جوتوں سے لے کر پسند نا پسند تک ہر شئے کے متعلق پورا خاندان جانتا ہے سوائے ان دو افراد کے کہ جنہیں جاننا چاہیے۔ایک عجیب شرمندگی نما شرم ہوتی ہے جس کا دونوں شکار ہوتے ہیں۔مائے ڈئیر گرلز اور بوائز بھی گو کہ ڈئیر ذرا نہیں. خیر!! گرو اپ پلیز، یہ شرمندہ ہونے والی بات نہیں جب آپ اپنے پارٹنر کے متعلق سوال کرتے ہیں.بلکہ یہ شرمندہ ہونے والی بات ہے جب آپ نہیں کرتے۔اس پر شرمندہ ہونا نہیں بنتا، جب آپ اپنی شادی کو سیریس لیتے ہیں بلکہ اس پر ہونا بنتا ہے، جب آپ نہیں لیتے
اور پیارے والدین! آپکا بیٹا یا بیٹی جب پسند کی شادی کرنے کے متعلق اظہار خیال کرتے ہیں تو وہ پسند کی بیوی یا پسند کے شوہر سے کہیں زیادہ پسند کے انسان کے متعلق بات کر رہے ہوتے ہیں اور جب آپ سر جھٹک کے کہہ دیتے ہیں کہ یہ ڈریس ،برگر یا چاکلیٹ نہیں، جس کی ضد کریں گے ۔تو یقین کیجیے آپکے بچے بھی یہ ہی کہنا چاہتے ہیں آپکو کہ یہ برگر یا چاکلیٹ نہیں جس پر کمپرومائز کر لیا جائے۔اور جب آپ نے برگر چاکلیٹ پر کمپرومائز کرنا نہیں سیکھایا تو اس پر کیونکہ توقع رکھ رہے ہیں آپ؟ 
رب کے حبیب نے کہا تھا نکاح کو مشکل بناتے جاؤ گے تو زنا آسان ہوتا جائے گا۔تطبیق تو کر ہی لیتے ہیں نا ہم سب؟؟ تو اس بات کے تناظر میں اپنا معاشرہ دیکھ لیں اور یوں بھی آزادی اور شعور کا ریورس گئیر نہیں ہوتا۔آپ آزادیاں دے کر واپس نہیں لے سکتے
خیر
ہم حرفوں کے دیپ جلانے پر معمور ہیں سو جلاتے رہیں گے.باقی آپ لوگوں کی مرضی۔ راہیں، راہیوں کی مرضی، منشاء اور انتخاب ہوا کرتی ہیں 
لیکن.
ایسا بھی ہوا ہے تاریخ کے اوراق میں
لمحوں نے خطا کی اور صدیوں نے سزا پائی


No comments:

Post a Comment