Pages

Sunday 13 November 2016

ورچوئل دھشت گردی


جیسے شہباز شریف نے لاہور میں سڑکوں اور پلوں کااور جیسے کیبل نیٹ ورکس نے ملک میں "فحاشی"کا جال بچھا رکھا ہے.

بلکل ایسے ہی دو جڑواں شہروں میں ہمارے کزنز کا جال بچھا ہوا ہے.
شہر کےکسی بھی کونے میں چلے جائیں کوئی نا کوئی کزن دانت نکالتا ہوا برآمد ہوتا ہے اور امی ابا سمیت پورے خاندان کی خیریت معلوم کرنے لگتا ہے.جیسے ہم سارے خاندان کے جملہ امور صحت و تعلیم کے سپوکس پرسن ہیں .وہ تو بھلا ہو گاگلز ایجاد کرنے والے کا۔۔. رب اس کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے آمین.
جن کو لگائے ہم کینہ توز نظروں سے انہیں گھورنےکے با وجود چہرے پہ جیسے جانتے نہیں پہچانتے نہیں کے تاثرات سجائے بے مروت سے پھرنے کی کوشش کرتے ہیں.وگرنہ تو ہمہ وقت واٹس ایپ کی آنکھیں اوپر کی وی سمائیلی جیسا فیس بنا کہ پھرنا پڑتا۔۔.
کبھی کبھی ذہن میں خیال آتا ہے، دل میں اس لیے نہیں آتا کہ جب ذہن میں خیال آ سکتا ہے تو کیوں خوامخواہ دل کو زحمت دی جائے؟ ویسے بھی بیچارہ دن رات صبح شام آٹھوں پہر خون پمپ کر کر کے تھک جاتا ہوگا اوپر سے ہم اس سے ایکسٹرا ڈیوٹیز کراتے پھریں. بھئی ہمارا دل کوئی ڈاکٹر یا ٹیچر نہیں نہ ہم سی ایم، جو اس سے اتنا برا سلوک کریں.لہذا ہم خیال ویال ذہن میں ہی لاتے ہیں.کہ وہاں یوں بھی سارا دن فسادی منصوبے بنتے رہتے ہیں سو کافی وقت مل جاتا ہے وہاں خیال لانے کا.
ہاں تو ہم بتا رہے تھے کہ ذہن میں خیال آتا ہے کہ جانے کون لوگ ہوتے ہیں جن کے دو دو چار چار پانچ پانچ کزنز ہوتے ہیں یہاں تو برائی کی طرح ہر سو پھیلی ہوئی عوام ہمارے کزن کے عہدے پر فائز ہے. اگر ہم صرف آج تک کی، ان کی ہمیں کی گئی سلامیاں ہی گنیں تو شمار مشکل ہو جائے۔۔ اس سے حساب لگائیں اگر سلام دعا کی کوئی فیس رکھ لیتے تو آج چھوٹے سےبل گیٹس ہم بھی ہوتے اور اگر یہ سلامیاں توپوں کی صورت میں ہوتی تو آج اپنے اسلحہ ڈیپو کے مالک ہوتے ہم۔۔.ارے بھئی توپ لے کہ رکھ ہی لیتے نا ہم؟ اب اتنے آتشیں "اسلحے" کے سامنے کون جرات کرتا توپ چلانے کی؟
یادش بخیر جب فیس بک پر اکاؤنٹ بنایا تو تقریبا ہر شام صدماتی کیفیت ہوتی. وہ کزن جن کے آنے پر ہم جوس بھی اماں کی شدید گھوریوں خاموش دھمکیوں کے بعد طوعا کرہا سرو کرتے تھے وہ بھی فرینڈز ریکوسٹ بھجوا رہے تھے اور انباکس میں آ کر تعارف بھی.اس سے پہلے کہ ہم ایک خط بنام مارک زخربرگ لکھتے اور اپنے تخفظات سے اسے آگاہ کرتے کہ بھیا یہ ان سب نمونوں کو کاہے اپنی ویب سائٹ پر دندناتے پھرنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کوئی لگام وگام ڈالو انہیں کم از کم ان لوگوں سے انباکس ہی چھین لو کہ کسی نے چپکے سے سرگوشی کی کہ بی بی اگنور کیوں نہیں کرتی ہو سب کو. 
اور بلاک کس نے کری ممنوع
کردو اچھی لگتی ہو.
سو ایک کرائیٹیریا سیٹ کیا ہر انباکس کرنے والے کزن/فیلو کو بلاک کرنا شروع کردیا جس کے بعد سے فیس بک ایسی پرسکون لگنا شروع ہو گئی کہ بس.اس سے پہلے کہ کل عالم کو بلاک کر کے ہم گلیاں سنجیاں کر لیتے۔۔۔ بلاک شدگان و دیگر کو ہم فیس بک پر ویسے ہی لگنے لگے جیسے وہ ہمیں اصل زندگی میں لگتے ہیں یعنی کے زہر.:-P یوں فیس بک پر ہمارا سیلکیٹو سوشل ہونا قائم ہی رہا.
آج یہ سب اس لیے یاد آیا کہ فیس بک کے گزرے ماہ و سال میں بہت اچھے لوگوں سے واسطہ پڑا اچھے لوگ ملے ہمیں اپنی خامہ فرسائیاں لکھنے کا ان پر داد پانے کا موقع ملا ہم بھی تھوڑے کم "فلیم ایبل" ہوگئے.سوشل میڈیا یا فیس بک کا کہہ لیں جو سب سے بڑافائدہ ہوا وہ یہ ہوا کہ پیارے لوگوں سے تعلق بنا سیکھنے کو ملا.
ان سب کے باوجود دو چار دن بعد کہیں نا کہیں سے صدااحتجاج بلند ہوتی ہے ہمارے ریکوسٹس اگنور کرنے کی...تو پیارے دوستو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم کوئی توپ شئے تو ہیں نہیں جن سے کچھ سیکھنے ویکھنے کو ملے بھئی بد تمیز سی لڑکی ہیں سو اس لیے چاہتے ہیں کہ آپ لوگوں کا وقت توقعات اور رائے کھوٹی نہ کی جائے.
بلکہ آپ سب کو اپنے فسادی منصوبوں سے بھی محفوظ رکھا جائے..کیونکہ یہ بتانا بھول ہی گئی ہمارے دوست ہماری ٹوٹل سوشل سائینسز کی تجربہ گاہ کے عہدے پر بھی فائز ہوتے ہیں۔۔ مین وائل ہم اپنی وال پہ ان کے کامنٹس کو خوش آمدید بروزن تیا پانچہ کرتے رہتے ہیں دوستوں کے خاکے)(الٹے سیدھے) لکھنے اور پھر ان پر قائم.رہنے میں بھی ہمیں خاص قسم کا سکون ملتا ہے.اور وہ دن تو ہم ناکام ناکام محسوس کرتے ہیں انٹرنیٹ استمال کرنے کا مقصد ہی فوت ہوا لگتا ہے جس دن ہم اپنی گوناں گو صلاحیتوں سے کسی نا کسی دوست کو اوفینڈ نہ کر لیں. اور جب کچھ نہیں بن پڑتا تو ہم شاعری کرنے لگتے ہیں الٹی سیدھی نظمیں لکھتے پوسٹ کرتے ہیں اور نہ صرف پوسٹ بلکہ خاموشی کی زبان میں باقاعدہ دھمکیاں بھی دیتے ہیں کہ اس شاعری نما کو نہ صرف شاعری سمجھا بولا مانا جائے بلکہ اس کی تعریف بھی کی جائے. مختصرا کہیں تو یوں کہ ہمارے ساتھ ایڈ سب معزز لوگ "سواریوں کی طرح اپنے سامان" کی حفاظت کی ذمہ دار خود ہے۔ انتظامیہ کسی قسم کے نقصان کی ذمہ داری قبول کرنے سے صاف انکاری ہے.

No comments:

Post a Comment