Pages

Monday 31 October 2016

کتاب کا مکالمہ


دوستوں کے درمیاں کتاب دوستی اور کتاب پڑھنے پر بات چل رہی تھی۔ مکالمہ ہو رہا تھا اور چونکہ اپنے دوستوں کی ہر بات سے اختلاف کرنا ہم اپنے فرائض منصبی میں شمار کرتے ہیں۔ سو اس سے بھی بالاآخر اختلاف ہی کیا۔ کیونکہ دوستوں کا خیال تھا کہ کتاب نہیں انسان پڑھنے چاہیں اور یہ کہنے والے ہمارے دوست تھے۔ سو ان کی باتوں سے ہمیں شدید اختلاف تھا۔جیسا کہ کسی سیانے کا قول ہے کہ بات کو دیکھنا چاہیے کہنے والے کو نہیں اور ہر کلاسک پاکستانی کی طرح ہمیں بھی عقل کی ہر بات سے کم و بیش اختلاف ہی ہوتا ہے۔لیکن یہاں مسئلہ یہ تھا کہ مکالمے کے اگلے فریق بھی ہمارے ہی دوست تھے جیسے کہا جاتا ہے جنس بہ جنس پرواز۔۔ تو آسانی سے مان جانا ان کی بھی فطرت میں شامل نہیں۔
 لہذا جب سوال جواب شروع ہوئے تو پوچھا انسان کیسے پڑھے جائیں؟ تو جواب آتا ہے جیسے ہم پڑھتے ہیں۔ جس پر تین کو منٹ ہنسنے کے بعد کہا گویا آپ اتھارٹی ہیں

دنیا کے سارے علوم ایک طرف اور آپکا طریقہ ایک طرف۔ مانا دوست ہیں آپ ہمارے پر ایسا بھی کیا لیوریج لینا
سو ان سب دوستوں کے لیے ہمارا نکتہ نظر جو یہ سمجھتے ہیں کہ کتابیں پڑھنا حقیقت پسندی سے دور لے جاتا ہے
تو دوستو سب سے پہلے تو یہ بتائیے کہ کونسی حقیقت؟ وہ جو آپ نے کتابوں میں پڑھی ہے۔ کتابوں سے سیکھی ہے یا زندگی میں گزارے آپ کے ماہ و سال کے روز شب سے کشید کی ہے آپ نے؟
اگر تو کتابوں والی حقیقت ہے تو پھر مسکرانے کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے
لیکن اگر زندگی سے کشید کی ہوئی حقیقتیں ہیں تو پھر آئیے اسی پر بات کر لیتے ہیں۔ہو سکتا ہے میں نے سالوں میں عمر آپ سے کچھ کم گزاری ہو۔لیکن میں نے صدیاں ایسے ہی گزاری ہیں،جس میں زندگی اپنی پوری سفاکی، تلخی کے ساتھ موجود تھی اور جن میں کئی ان کہے درد آنکھوں کے راستے دل میں پیوست ہوتے ہیں
میں نے جنگ کی سفاکی سے متاثر ایک افغانی بچے کی آنکھ کی نفرت کو کتاب کے ذریعے بدلتے دیکھا ہے۔گلی میں پاپ کارن بیچنے والے بچے کو شوز پالش کرنے والے کو میں نے کہانی کی کتاب مل جانے پر مسکراتے دیکھا ہے
پتا ہے افغانی بچے کی آنکھ کی نفرت کو جن دنوں مہربانی میں بدلا تھا تو اس نے پہلا جملہ کیا بولا تھا؟؟ ہم کو پڑھنا سیکھاؤ
اور پاپ کارن والا بچہ جب کتاب واپس کرنے آیا تھا تو یہ پوچھنا نہیں بھولا تھا اور کتابیں ہیں۔ اور میں اس بچے کو عمران سیریز پہ لگانے کے متعلق سوچتے خود ہی مسکراتی رہتی ہوں
یہ تو تھیں وہ مثالیں جن کو سن کے آپ لوگ ہنستےہیں اور ہمیں خواب پرست سمجھتے ہیں۔یوں تو ہمیں خواب پرست کہلوانے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے.لیکن چونکہ آپ لوگوں کے خیال میں خواب پرست "پریکٹیکل" نہیں ہوتا. اور آپکا یہ بھی خیال ہے کتابیں پڑھنے سے ترقی "میٹریل اور فنانشل" ترقی کا سفر رک جاتا ہے.
تو کیوں نا اس غلط فہمی کا بھی ازالہ کر ہی دیا جائے.؟
آپ کو پتا ہے آپ لوگوں کے معیار والی مہذب دنیا میں سالانہ کتنی کتابیں چھپتی ہیں؟
چائنہ سالانہ چار لاکھ چالیس ہزار کتابیں چھاپتا ہے
یو ایس میں یہ تعداد تین لاکھ پچاس ہزار جبکہ یونائیٹڈ کنگڈم میں دو لاکھ کے قریب ہے
جبکہ ہم چونکہ زیادہ پریکٹیکل ہیں لہذا ہم سالانہ صرف چار ہزار کتابیں چھاپتے ہیں
اب آتے ہیں بک ریڈنگ کے ٹرینڈز پر یا ریڈرز کی تعداد پر
تو جناب چائنہ میں ہر شخص سالانہ اوسطا پانچ جبکہ امریکہ برطانیہ میں بلترتیب آٹھ اور دس کتابیں پڑھتا ہے
یہ تو تھا حساب کتاب
چلیے ایک اور بات سنیے آپ کو پتا ہے
مشہور سائیکولوجسٹ ڈاکڑ پال ایکومن مائیکرو ایکسپریشنز کے کو فاؤنڈر  لکھتے ہیں۔ جن بچوں کو بچپن سے کتابیں پڑھنے کی عادت ہو ان کا مشاہدہ دوسرے بچوں کی نسبت دو گنا زیادہ ہوتا ہے۔ مزید لکھتے ہیں کتاب پڑھنے والے ٹین ایجرز میں ڈپریشن فرسٹریشن اور ایگریشن کم ہوتا ہے اور مجرمانہ رجحان نہ ہونے کے برابر۔ آپ کو پتا ہے پچھلے دنوں جب ورلڈ مینٹل ہیلتھ ڈے منایا گیا تو کس چیز پر فوکس تھا بھلا؟؟ پاکستان میں یوتھ میں بڑھتا ہوا ایگریشن
اور یوتھ کے مجرمانہ رجحان پر کیا کہیں اور کیا نہیں تیرہ چودہ سال کے بچے اغوا برائے تاوان میں ملوث اور سترہ سترہ سال کے بچے قتل کے جرم میں جیلوں میں قید ہیں
خیر یہ تو تھی ضمنی سی حسابی باتیں
اصل بات بتاتی ہوں دنیا کے کامیاب ترین انسانوں کی مشترکہ عادات پر جب تحقیق کی گئی تو پتا ہے سب میں ٹاپ فائیو کامن عادتوں میں ایک کونسی تھی؟؟ ارے یہ ہی موئی کتاب، کتاب دوستی اس سے محبت
تو مختصر کہوں تو اپنے بچپن کی ایک نظم یاد آرہی ہے کہ
کتابیں باتیں کرتی ہیں، ہمیں انساں بنانے کی
کبھی اگلے زمانے کبھی پچھلے زمانے کی
مجھے اس بات کو ختم کرنا نہیں آرہا۔یعنی کتاب پڑھنے پر بھی دلیلں منطقیں اور فلسفے بگھارنا پڑیں گے..اففف کیسے کیسے دوست پائے ہیں ہم نے

No comments:

Post a Comment