Pages

Sunday 13 November 2016

پیلے پتوں والا پل


سردیوں کی بارش میں دھندلے بادلوں میں جب پیلے پتوں والے اورنج پل پر ہاتھ تھامے میں اور تم واک کیا کرتے تھے۔ تو کیسا ٹہرا ٹہرا پورا منظر ہوا کرتا تھا۔ہر چیز ہمارے ساتھ سست قدم ہو جاتی تھی۔ بارش کی قطرہ قطرہ مدہم مدہم گرتی پھوار، آہستہ آہستہ محو سفر بادل، بھیگے بھیگے گیلے پتے اور وہ میری سرخ چھتری

تم پوچھتے تھے نا؟ یہ تم سرخ چھتری کیوں لے آتی ہو..تو سنو! مجھے رنگوں سے عشق تھا۔مجھے ہر منظر ہر سو رنگ دکھائی دیتے تھے۔ خوشبو سنائی دیتی تھی۔ اب تم کہو گے پاگل پن ہے یہ۔پر تم نہیں سمجھو گے
عشق وہ ساتویں حس ہےکہ عطا ہو جس کو
رنگ سن جاویں اسے خوشبو دیکھائی دیوے
اور وہ بھی تو عشق کا دیوانہ پن تھا نا روز سر شام اسی پل پر ہاتھ تھام کے چپ چاپ چلتے رہنا۔ خاموشی کی زباں میں سارے جہاں کی باتیں کرنا۔ تم خود ہی سمجھ جاتے تھے کہ موڈ آف ہے میرا۔ تو کبھی میں اچانک پوچھ لیتی، لو  ساؤنڈ کیوں کر رہے ہو؟ تم پوچھتےتھے کیسے اندازہ ہورھا؟؟ میں مسکراتی کہ بولے۔۔۔ اور تم اداسی بھول کر ہنسنے لگتے۔کتنے پیارے دن تھے۔۔۔۔
سنو تم پھر سے اسی ہل سٹیشن پہ پوسٹنگ لے لو۔ اسی ریسٹ ہاؤس کو دوبارہ سے گھر بناتے ہیں۔اور اسی پل پہ چل کر ایک ساتھ نئے خواب بنتے ہیں۔ یہ بڑے شہر ان کے تقاضوں، سہولتوں کی فراہمی نے تو تم سے تمہاری نرمی اور مجھ سے میری دیوانگی ہی چھین لی ہے۔
سنو ہمیں اس دنیا کے معیار فالو نہیں کرنے۔ میں اور تم خواب پرست ہی اچھے۔ کم از کم وہاں سانس لینے کی تو آزادی ہے، سر خوشی توہے اور سب سے بڑھ کر میں اور تم اک دوجے کو میسر تو ہیں.
سحرش

No comments:

Post a Comment