Pages

Sunday 12 June 2016

آنٹیاں


ویسے  یہ آج کی ڈیجیٹل آنٹیاں بھی نا ۔ذرا جو ان میں صبر تحمل یا برداشت پائی جاتی ہو۔ایک منٹ سے پہلے لڑنے مرنے پہ تیار ہو جاتی ہیں۔ اور پھر الزام نئی نسل پہ عدم برداشت کا۔
ابھی کل کی بات ہے۔ ایک آنٹی افراط زر اور ملاوٹ پر گفتگو فرما رہی تھیں۔ جب ماحول خوب گرما چکیں تو کہنے لگیں ہم تو بازار سے زہر بھی خرید کر دیکھ چکے ہوں وہ بھی اصلی نہیں ملا۔ہم نے یونہی ازراہ ہمدردی گندم میں رکھنے والی گولیاں استعمال کر نے کا مشورہ دیا تو برا مان گئیں۔.لو بھلا اس میں برا ماننے والی کیا بات ہے؟؟؟ مشورہ ہی دیا ہے نا...پر نہ جی برداشت ہو تب نا
کچھ دن قبل ایک آنٹی نے فوٹو لگا کہ جب ہمیں بتایا کہ ڈش میں بریانی ہے تو بے ساختہ کہہ بیٹھے کہ آنٹی آپ کہ چاولوں کو سردی لگ رہی ہے۔ جڑ جڑ کہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہیں کمبل اوڑھا دیں۔ تو بھیا ایسا برا منایا کہ ہمیں بلاک ہی کر چھوڑا
ایک آنٹی نے جب اورنج لپ سٹک میں چوتھی سیلفی پوسٹ کی تو ہم نے کمپنی کا نام اور شیڈ کا نمبر پوچھا۔ اترا کر کہنے لگیں۔۔ کاہے؟؟
ہم نے کہا کہ کمپنی کو ای میل کر کے میبو فیکچرنگ سے منع کرنا ہے۔وہ دن اور آج کا دن وہ ہمیں فیس بک پر دکھتی نہیں۔لگتا ہے اب ہمیں چشمے کا نمبر بدلوانا پڑے گا
ایک آنٹی نے تو حد کر دی اپنے منگیتر کے طوطے کے بچوں کی پیدائش پر فیلنگ بلیسڈ میں ہمیں ٹیگ کر چھوڑا۔ جب ہم نے پوچھا عقیقہ کب ہے؟ خیر سے منے کا۔ تو کہنے لگیں، اچھا مذاق نہیں۔ اب ان کو کون سمجھائے کہ وہ مذاق نہیں سوال تھا
ایک خاتون نے مہندی لگے ہاتھوں سے منہ چھپ کہ ڈی پی لگائی تو ہم پوچھا کیے کہ ایسا کیا کر بیٹھیں کہ منہ چھپانا پڑگیا۔بس ذرا سی بات پر عمر بھر کے یارانے گئے کہ مصداق ہم سے ناطہ توڑ لیا
ہم ویسے اکثر اس نکتے پر غور و فکر کرتے ہیں کہ لوگ ہمارے معصوم سوالوں پہ اوفینڈ کیوں کر جاتے ہیں۔پر آج تک سمجھ نہیں آیا
اب آپ ہی انصاف کیجیے۔ اسمیں کچھ اوفینسو ہے کیا؟



نوٹ: آنٹی سے مراد ایک خاص سوچ ہے.

No comments:

Post a Comment