دل کے سونے آنگن میں
تیرے نام کا جو پیڑ تھا
اب وہ سوکھتا جاتا ہے
اب گھنگھور گھٹائیں جھوم کی آئیں
یا ساون بھادوں ٹوٹ کہ برسیں
اس پر ہرا سا آخری پتا لرز لرز سا جاتا ہے
جیسے کوئی موم کا شعلہ
سرد ہوا سے لڑتے لڑتے
آخری سانسیِں گنتا ہو
جیسے راہ کا پتھر
ٹھوکر کھائے
اور گہری کسی ان دیکھی
کھائی میں گر جائے
جیسے کسی صحرا کا مسافر
اپنی ہی آواز کہ سائے
ڈھونڈتا ڈھونڈتا مر جائے
لیکن
شعلہ بجھتے بجھتے
پتھر گرتے گرتے
اور "وہ" مرتے مرتے
تیری ذات کو کھوجے
تیری بات کو سوچے
تیری خوشبو ڈھونڈے
تیری یاد پروسے
اور
مرجائے
سحرش
No comments:
Post a Comment