Pages

Sunday 12 June 2016

تیری یاد


دل کے سونے آنگن میں

تیرے نام کا جو پیڑ تھا
اب وہ سوکھتا جاتا ہے
اب گھنگھور گھٹائیں جھوم کی آئیں 
یا ساون بھادوں ٹوٹ کہ برسیں
اس پر ہرا سا آخری پتا لرز لرز سا جاتا ہے
جیسے کوئی موم کا شعلہ 
سرد ہوا سے لڑتے لڑتے
آخری سانسیِں گنتا ہو
جیسے راہ کا پتھر
ٹھوکر کھائے 
اور گہری کسی ان دیکھی 
کھائی میں گر جائے
جیسے کسی صحرا کا مسافر
اپنی ہی آواز کہ سائے
ڈھونڈتا ڈھونڈتا مر جائے
لیکن
شعلہ بجھتے بجھتے
پتھر گرتے گرتے
اور "وہ" مرتے مرتے
تیری ذات کو کھوجے 
تیری بات کو سوچے
تیری خوشبو ڈھونڈے
تیری یاد پروسے
اور
مرجائے
سحرش

No comments:

Post a Comment