Pages

Sunday 12 June 2016

تعلق


دن میں مرکری اڑتالیس درجے پررہا تھا شام گو دوپہر سے جان لیوا نہ تھی مگر گرمی حبس اور گھٹن میں بدل چکی تھی.

پانی کا جگ میرے سامنے پڑا تھا سولہ گھنٹوں کی آزمائش ہونٹوں پر صدیوں کی پیاس بن کر جم چکی تھی. حاصل میسر موجود ہر نعمت کہ باوجود ہاتھ کسی ان دیکھے ازن کہ انتظار میں ٹہرے ہوئے تھے جیسے صبح صادق سے پہلے آسمان ہوتا ہے سورج کی کرنیں پھیل چکی ہوتی ہیں لیکن اسے نکلنے کا ازن ملنا ابھی باقی ہوتا ہے.
بلکل ایسے ہی اجازت کہ منتظر نگاہیں جب پھیلی ہوئی ہتھیلیوں پر مرکوز ہوئیں تو دل نے صرف ایک ہی صدا لگائی آزمائش کہ مقبول ہوجانے کی پورا اتر پانے کی.
مجھے ہمیشہ سے لگتا ہے کہ ہم تعلق کہ کمزور ترین درجے پر فائز ہیں سوال بھی بہت کرتے ہیں بعض اوقات الجھ بھی جاتے ہیں لیکن پچھلے دو دنوں کے مغرب کی اذان سے پہلے کی دس منٹس نے مجھے سمجھایا ہے کہ ابھی اس میں ہم میں ربط باقی ہے..ابھی تعلق مردہ نہیں ہوا بوجھ نہیں بنا ابھی بھی حد ماننے کا تصور زندہ ہے
اور آخری بات کہ وہ تو ہے جو ہمیں پانی رکھتے جام شیریں بناتے ہوے برف نکالتے کنٹینر میں شفٹ کرتے ہوئے روکے رکھتا ہے وگرنہ اس وقت پیاس کی شدت میں تیرے علاوہ تو کسی اختیار کو نہ مانے تیرا بندا
سحرش

No comments:

Post a Comment