Pages

Monday 27 June 2016

‏ساڈے جنگل بن گئے شہر‬


وہ جولائی کا ایک لمبا دن تھا۔ حبس زدہ دوپہر کے بعد قدرے پرسکون سبز سی سپہر تھی۔ ہوا میں نمی کا بھلا سا تاثر تھا۔اپنے اندر کی بے چینی و حبس سے گھبرا کر اس نے جوگرز پہنے اور واک کرنے نکل پڑی۔پارک میں حسب معول چہل پہل تھی۔ باسکٹ بال کھیلتے بچے، وزن کم کرنے کی خاطر پارک میں آئی ٹھیلے والے سے پاپڑی چاٹ کھاتی خواتین اور اکا دکا مرد حضرات سب پر ایک اچٹتی نظر ڈالے قدرے پرسکون گوشے میں چلی آئی۔ پچھلے کچھ دنوں میں پیش آنے والے واقعات، رشتےداروں، دوستوں کی باتیں، دعوے، بے حسی اور ساری ناپسندیدہ باتیں سوچتی ہوئی وہ اسقدر محو تھی کہ اسے کسی کی موجودگی کا احساس بھی نہ ہوا۔جب سنہری فریم والی عینک والے سوبر سے مرد نے کھنکار کر پوچھا آر یو اوکے لٹل گرل؟؟ اور جواب سننے سے پہلے ہی بینچ کے دوسرے سرے پر بیٹھ گیا۔لڑکی نے ناگوار سی نگاہ اس پر ڈالی اور دوبارہ اپنے شغل میں مبتلا ہو گئی
آج ڈاگ کو ساتھ نہیں لائیں کیا نام ہے اس کا؟؟ کونسی بریڈ ہےبھلا؟ 
شٹزو لڑکی نے یک لفظی جواب دیا۔ہاں شٹزو میرے بیٹے کو بھی پسند تھا! 
تھا کیوں؟ ؟ اب نہیں ہے کیا؟ لڑکی نے بے ساختہ پوچھا؟
نہیں! یک لفظی جواب
اچھا تو آپ آج اداس لگ رہی ہیں کوئی خاص وجہ
امیں اداس نہیں، پریشان ہوں۔ لڑکی نے ناراض تاثرات سے سے دیکھتے ہوئے بتایا
وہ کیوں بھلا؟ اس نے مسکراہٹ چھپاتے ہوئے پوچھا؟؟
اور لڑکی شائد اسی کی منتطر تھی گویا پھٹ پڑی کیوں کہ میری زندگی میں بہت سے مسئلے ہیں۔ میرے اردگرد  لوگ بےحس ہیں 
اور خود غرض لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے میرا۔ اس لیے
بس؟؟؟ اس نے پر سکون لہجے میں استفسار کیا..؟؟
جی لڑکی کا ناراض لہجے میں آئے ہوئے جواب نے اسے مسکرانے پر مجبور کر دیا
پھر یک لخت اس کی مسکراہٹ ساکت ہوگئی۔جیسے جولائی کی بارش ہوتی ہے۔ بارش زوروں سے برس رہی ہوتی ہے اور اگلے پل سورج نکل آتا ہے۔ چلچلاتی دھوپ والا سورج۔ اس کے چہرے پر بھی دوپہروں کا سورج اگ آیا تھا سخت، اور جلا دینے والا
لڑکی درد کے اس کی آنکھ سے، لہجے تک کہ سفر کو حیرت سے دیکھتی رہی
بظاہر پرسکون، رواں گفتگو کرتا، وہ زندگی گزارتا ہوا دیکھائی دیتا تھا۔ مگر اس کی الجھی ہوئی آنکھوں میں تہذیب و شائستگی سے آشناء کوئی سلجھا ہوا درد ٹہرا تھا۔ جو اس کی آنکھ اور پانی کے درمیان حد فاضل قائم کیے ہوئے تھا۔اس کو ایک نظر دیکھنے سے معلوم پڑتا تھا جیسے کوہ گراں ہو۔یہ شخص کبھی نہ رویا ہوگا ۔ اس نے کبھی آنسوؤں کو پاس پھٹکنے نہیں دیا ہوگا۔لیکن جب وہ بولا تو لہجے میں نمی نے بتایا کہ یہ روز ذائقہ چکھتا ہوگا آنسوؤں کا___ روز کسی درد کے دوزخ میں جلتا ہوگا
میں بتاؤں تکلیف کسے کہتے ہیں؟ درد کیا ہوتا ہے؟ اس نے ٹراؤزرز کی جیب میں سے والٹ نکالا اور تصویر دیکھاتے ہوئے بتایا یہ میری فیملی ہے
تین سال کی بیٹی، ایک سالہ بیٹا اور یہ میری وائف..آئی بی اے کی گریجوائٹ اکھٹے پڑھتے تھے وہاں ہم.محبت کی شادی کی تھی۔بہت سے خواب ساتھ دیکھے تھے جنہیں تعبیر دینےکی خاطر دن رات کام کرتے تھے ہم__ پھر؟
پھر پتا ہے کیا ہوا؟؟ 
شہر کہ حالات خراب ہوگئے میری بیوی بچوں کو ڈے کئیر سینٹر سے لیتے ہوئے سڑک پر گولیوں سے بھون دا گیا۔پتا ہے تمہیں میرے بیٹے کو بھی گولی لگی تھی۔ایک سال کا دہشت گرد دنیا کا سب سے چھوٹا دہشت گرد۔ میری بیوی کے منہ پر گولیاں ماری تھیں ظالموں نے۔ نہیں ظالم چھوٹا لفظ ہے بربر ٹھیک رہے گا شائد
اور جب تک مجھے خبر ملی میری دنیا لٹ چکی تھی
تمہیں پتا ہے جب میں وہاں پہنچا تو میں نے کیا دیکھا؟؟
میری بیٹی کے دل پر گولی کا سوراخ تھا...وہ دل جہاں میں رہتا تھا۔اور میں اس دن مر گیا،زندہ رہنے کے لیے
بتاؤ چھوٹی لڑکی کس کو الزام دوں؟ نامعلوم افراد کو؟ سیاست کو؟ حکومت کو؟ ریاست کو یا پھر ان سب کو جنہوں نے سوشل میڈیا پر قاتلوں کو غازی لکھا تھا۔ان کی شان میں قصیدے کہے تھے۔جن کے فکری دیوالیہ پن نے مجھے زندہ لاش بنا دیا تھا۔بتاؤ کون ہے میرا مجرم؟
بےحسی یا خود غرضی؟؟ مذہب کے ٹھیکدار یا سیاست کے؟
وہ سوال نہیں کر رہا تھا۔ لڑکی کی ذات کے خول میں نیزے کی انی چبھو رہا تھا۔ وہ درد بتا رہا تھاکہ تم سب ایک پوسٹ لگا کہ چار کامنٹ کر کے فارغ ہو جاتے ہیں اور کسی کے سینے پہ تین قبریں بن جاتی ہیں۔ جنہیں وہ اٹھائے اٹھائے پھرتا ہے۔ روز حشر ہمارا امتحان بننے کو
وہ درد کی یہ داستاں سنا کر بینچ سے اٹھ کر گیٹ پار کر گیا تھا۔
اور لڑکی بیٹھی سوچ رہی تھی کہ کبھی کبھی کوئی درد کوئی تکلیف انسان کہ اندر ایسے سرایت کر جاتی ہے۔ جیسے موم میں پرویا ہوا دھاگہ۔ انسان جل مرے تو سکون پائے رہائی کی اور کوئی صورت ممکن نہیں رہتی۔بس دھیرے دھیرے قطرہ قطرہ جلنا ہی مقدر ہوتا ہے۔ جلنا ہستی کھونا ۔مٹھی میں سے زرہ زرہ گرتی ہوئی ریت کی مانند اپنی ہستی کھوتے ہوئے اپنا وجود دیکھنا۔ یہ ہی مقصد حیات رہ جاتا ہے
لڑکی نے گیٹ سے نکلتے ہوئے اس کی پشت دیکھی اور سوچنے لگی کاش میں اس سے اس کا فرقہ بھی پوچھ لیتی۔ کیا پتا قاتلوں کو مجھے بھی غازی لکھنا پڑ جاتا
سحرش

No comments:

Post a Comment